*امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی محبتِ اعلیٰ حضرت*
*امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی محبتِ اعلیٰ حضرت*
اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت! امیرِ اَہلسُنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کا شمار اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے سچّی مَحَبَّت کرنے والوں میں ہوتا ہے جنہیں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی شَخْصِیَّت اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے عِلْمی کارناموں نے بہت مُتَأَثِّر کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ امیر ِاَہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ، امامِ اہلسنّت،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی تعلیمات کے مُطابق دِینِ مَتِین کی اِنتہائی شاندار انداز میں خدمات سَر انجام دے رہے ہیں۔جس کا واضح ثُبوت آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی تاثیر بھری تحریریں، سُنَّتوں بھرے بیانات اور عِلْم و حکمت سے بھرپور مَدَنی مُذاکرے ہیں جو ترجَمۂ قرآن کنزالایمان، فتاویٰ رَضَوِیَّہ کے جُزئیات اور حدائقِ بخشش کے رِقّت و سوز سے بھرپُور اَشعار سے خوشبودار ہوتے ہیں۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ اِسی عقیدت و مَحَبَّت کا صدقہ ہے کہ امیرِ اَہلسُنَّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنی زندگی کا پہلا رِسالہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرت کے بارے میں لکھا،جس کا نام *”تذکرۂ امام احمد رضا“* رکھا اور یہ 25صَفَرُ الْمُظَفَّرْ۱۳۹۳ھ کو ”یومِ رضا “کے موقع پر جاری کیا گیا۔
امیرِ اہلسنّت دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے عقیدت کا اندازہ اس بات سے بھی اچھی طرح لگایا جاسکتا ہے کہ آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے مَدَنی مذاکروں اور ملاقات کیلئے آنے والے عُلَمَا و مفتیانِ کرام ،جامعات المدینہ کے طلبۂ کرام اور عام لوگوں کو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے طریقے پر قائم رہنے اور امامِ اہلسنّت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی کوئی بات سمجھ نہ آنے کی صورت میں اختلاف نہ کرنے کی تاکید فرماتے ہیں،جیسا کہایک بار آپ دَامَتْ بَـرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ارشاد فرمایا: اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے اَقُوْل (یعنی فرمان) پر ہماری عُقُول (یعنی عقلیں) قُربان۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا (ہر) اَقُوْل ہمیں قبول (ہے) ۔ایک مرتبہ جامعات المدینہ کے مُفتی کورْس کے طلبہ سے ارشاد فرمایا: اعلىٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جو کہ اللہ پاک کے ولی،سچے عاشقِ رسول اور ہمارے مُتَّفِقَہ بزرگ ہىں،ان کى عقیدت کو دل کى گہرائى کے اندر سنبھال کر رکھنا بے حد ضرورى ہے۔نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے۔اَلْـَـبرْکَةُ مَعَ اَکَـابِـرِ کُمْ یعنى بَرَکت تمہارے بزرگوں کے ساتھ ہے۔
(📗مستدرک، کتاب الایمان، ۱/ ۲۳۸، حدیث:۲۱۸)
آپ مىں سے اگر کسى کا میرے آقا اعلىٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے اختلاف کا معمولى سا بھى ذہن بننا شروع ہو جائے تو سمجھ لیجئے،مَعَاذَ اللہ آپ کى بربادى کے دِن شروع ہوگئے، لہٰذا فوراً ہوشیار ہو جائىے اور اختلاف کے خیال کو حَرفِ غلط کى طرح دماغ سے مِٹا دىجئے، فتاوىٰ رَضَوِىَّہ شرىف میں اعلىٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا بىان کردہ کوئى مسئلہ بالفرض آپ کا ذہن قبول نہ کرے تب بھى اس کے بارے مىں عقل کے گھوڑے مت دوڑائىے بلکہ نہ سمجھ پانے کو اپنى عقل ہى کى کوتاہى تصور کیجئے۔