یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ختم نبوت پہ پہرہ وسیلہ شفاعت




ختم نبوت پہ پہرہ وسیلہ شفاعت

مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ کو قادیانیوں سے نفرت وراثت میں ملی تھی کہ آپ کے والد ماجد حضرت علامہ عبدالعلیم صدیقی رحمۃ اللہ علیہ قادیانیوں کے اہم مخالفین میں سے شمار کیے جاتے تھے اور آپ نے قادیانیوں کے خلاف انگریزی زبان میںThe Miror نامی کتاب لکھی اور اس کا عربی میں"المرآة" کے نام سے ترجمہ ہوا 
اس کتاب کا جب ملائیشیا زبان میں ترجمہ کیا گیا تو وہاں قادیانیوں کے خلاف تحریک چلی اور ہمیشہ کے لیے  قادیانیوں کے داخلہ پر پابندی لگا دی گئی اس وجہ سے مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمہ اللہ ہمیشہ ان کے خلاف ایک آہنی دیوار بن کر کھڑے رہے۔
حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صدیقی رحمۃ اللہ علیہ تحدیث نعمت کے طور پر اس کارنامے (7ستمبر 1974کو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے ) کا یوں اظہارفرماتے تھے:

الحمدللہ ہم نے سخت جد و جہد کے بعد اسمبلی میں اس مسئلے کو حل کرایا اور اللہ تعالی نے یہ سعادت مجھے  نصیب فرمائی  مجھے کامل یقین ہے کہ بارگاہِ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم میں میرے لئے سب سے بڑا وسیلہ شفاعت و نجات ہوگا۔
(مولانا شاہ احمد نورانی اور تحریک ختم نبوت،ص46)

✍️ محمد ساجد مدنی

واقعہ کربلا کے من گھڑت واقعات




 واقعہ کربلا کے من گھڑت واقعات 


محترم قارئینِ کرام : واقعہ کربلا کو بیان کرنے میں سب سے بڑی دشواری یہ تھی کہ قافلہ حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے بچ جانے والے افراد رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اپنی پوری زندگی میں اس واقعہ کی تفصیلات کو بیان نہیں کیا تھا اگر ان افراد سے کچھ جزوی معلومات ملیں بھی تو وہ ایسی نہ تھیں جو سبائی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے معاون ثابت ہوتیں چنانچہ اس سانحہ کو غیر معمولی طور پر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لئے کذب وافتراء پر مبنی ایسے ایسے افسانے مشہور کیے گئے کہ اگر سبائی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے سر سری نگاہ سے بھی ان کا مطالعہ کیا جائے تو اس جھوٹ کا سارا پول کھل کر سامنے آجاتا ہے ۔

(1) ابراھیم و محمد ابنان مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہم کی شھادت ۔

ابراھیم و محمد رضی اللہ عنہما کی کوفہ جاتے ہوئے راستے میں شھادت کا واقعہ بالکل من گھڑت ہے تاریخ کی کسی بھی معتبر کتاب میں یہ واقعہ مذکور نہیں ہے امام مسلم کے بچوں کا افسانہ سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اپنی کتاب الفتوح میں لکھا مگر اس نے بھی صرف ان کے قیدی ہونے کو بیان کیا ہے البتہ ملاحسین کاشفی نے روضةالشھداء میں ان کی شھادت کا شوشہ چھوڑا یہی اولین ماخذ ہے جس میں ابراھیم و محمد کی شھادت کا بیان ہے جس افسانےکو خود معتبر شیعہ مصنفین نے بھی بے بنیاد قرار دے کر رد کر دیا ہے ۔

مرزا تقی شیعہ اپنی کتاب ناسخ التواریخ میں لکھتا ہے : مکشوف باد کہ شھادت محمد و ابراھیم پسرہائے مسلم کمتر درکتاب پیشینیاں دیدہ ام الا آنکہ عاصم (اعثم) کوفی می گوید کہ بعدازقتل حسین چوں اھل بیت را اسیر کردند پسرہائے مسلم صغیر درمیان اسرای بودند ابن زیاد ایشاں را بگرفت ومحبوس نمود نخستیں در بارہ شھادت ایشاں درکتاب روضةالشھداء مسطوراست ومن ایں قصہ را از روضةالشھداء منتخب می دارم و قصہ ایشاں معتبر نیست ۔ (ناسخ التواریخ ص110ج2)
ترجمہ : امام مسلم رضی اللہ عنہ کے صاحبزادگان کی شھادت کا واقعہ پہلی کتابوں میں نہیں ہے سب سے پہلے اعثم الکوفی نے اس واقعہ کو بیان کیا ہے مگر اس نے صاف لکھا ہے کہ امام مسلم رضی اللہ عنہ کے دونوں صاحبزادے محمد و ابراھیم کربلا میں بھی تھے لیکن دیگر اہل بیت رضی اللہ عنہم کے ساتھ ابن زیاد کے ہاتھوں گرفتار ہوئے شھادت کی بات سب سے پہلے ملا حسین کاشفی نے روضةالشھداء میں نقل فرمائی اور میں نے بھی اسی سے نقل کرکے یہ واقعہ لکھا ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ یہ نہایت غیر معتبر واقعہ ہے ۔ (مزید تفصیل کیلئے میزان الکتب صفحہ 707تا 710 پڑھیں)

(2) ذوالجناح کا قصہ بھی باطل ہے جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ سفر کربلا میں خود گھوڑا ثابت نہیں ہے تو ذوالجناح کیسے ثابت ہوسکتا ہے ؟

مرزا تقی شیعہ لکھتا ہے : و ذوالجناح کہ نام داشتہ باشد درھیچ کتب احادیث،اخبار،وتواریخ معتبرہ ندیدہ ام وذوالجناح درحقیقت لقب شمر پسر لھیعہ است واسپ ھیچ کس را بدیں نام نشنیدہ ام ۔ (ناسخ التواریخ)
ترجمہ : یہ جو لوگوں نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا ذوالجناح نامی گھوڑا مشہور کر رکھا ہے مجھے تو یہ نام حدیث ، تاریخ ، اور اخباری کتب میں کہیں بھی نہیں ملا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ شمر بن لہیعہ نامی شخص کا لقب ذوالجناح تھا ۔

جب حضرے امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے روانہ ہوئے تو گھوڑے کا کہیں بھی نام و نشان نہیں ہے بلکہ آپ اونٹنی پر سوار تھے اور ذوالجناح تو شمر نامی ایک شخص کا لقب تھا ۔ فاخذ محمدبن الحنفیة زمام ناقتہ ۔ یعنی امام حسین رضی اللہ عنہ کے بھائی حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے اونٹنی کا مہار پکڑ کر آپ کو روکناچاہا ۔ (ذبح عظیم صفحہ 165 ڈاکٹر طاہر القادری بحوالہ مقتل ابومخنف)

کوفہ جاتے ہوئے راستے میں جب فرزدق نامی شاعر سے ملاقات ہوئی تو آپ اونٹنی پر ہی سوار تھے ۔ ثم حرک الحسین راحلتہ (ای ناقتہ) فقال السلام علیک ثم افترقا ۔ امام حسین نےکوفہ جاتے ہوئے راستے میں چند لمحے فرزدق سے ملاقات کی اور کوفیوں کاحال پوچھا اورپھراپنی اونٹنی کوحرکت دی اور السلام علیک کہہ کر چل دئے ۔ (تاریخ طبری،ص218ج6)

امام حسین رضی اللہ عنہ جب کربلا پہنچ گئے تو بھی اونٹنی ہی پر سوار تھے ۔ فقال علیہ السلام ھذا کربلا موضع کرب وبلاء ھذا مناخ رکابنا ومحط رحالنا ومقتل رجالنا ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا یہ کربلا ہے جو دکھوں کی جگہ ہے یہ ہماری اونٹنیوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے کجاوے رکھنے کی جگہ ہے اور یہ ہمارے مردوں کی شھادت گاہ ہے ۔ (کشف الغمہ،ص347)

دوران جنگ امام حسین رضی اللہ عنہ نے جو خطبہ دیا دیا اس وقت بھی آپ اونٹنی پر سوار تھے ۔ ثم رکب الحسین راحلتہ وتقدم الی الناس ونادی بصوت عال یسمعہ کل الناس ۔ یعنی جب امام حسین رضی اللہ عنہ آخرمیں تنھا رہ گئے تو اونٹنی پر سوار ہوکر لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اوربلند آواز سے لوگوں کو خطبہ دیا جسے سب لوگ سن رھے تھے ۔ (الکامل،لابن اثیرالجذری،ص61ج4)

جب امام حسین رضی اللہ عنہ مدینہ سے چلے تو مسنات نامی اونٹنی پر سوار تھے ، راستے میں فرزدق سے ملے تو بھی اونٹنی پر سوارتھے اور کربلا پہنچے تو بھی اونٹنی پر سوار تھے اور آخر میں خطبہ دیا تو بھی اونٹنی پر سوارتھے تو پھر جانے بعد میں ذوالجناح نامی گھوڑا کہاں سے آگیا ؟

(3) کربلا میں اہل بیت رضی اللہ عنہم پیاسے تھے پانی پینے کے لئے بھی ترس رہے تھے حالانکہ حافظ ابن کثیر نے صاف لکھا ہے کہ کربلا میں اس قدر وافر پانی موجود تھا کہ امام حسین اور آپ کے رفقاء رضی اللہ عنہم نے دسویں محرم کو بعد ازنمازفجر اس پانی سے غسل فرمایا : فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصبت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل ۔ پس حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی ۔ (البدایة والنھایة،ص164ج8)

ملا باقر مجلسی شیعہ نے مجمع البحار میں اور اعثم الکوفی نے الفتوح میں دسویں محرم کی صبح تک وافر مقدار میں پانی کا ذکرکیا ہے :
ثم قال لا صحابہ قوموا فاشربوا من الماء یکن آخر زادکم و توضؤوا واغتسلوا و اغسلوا ثیابکم لتکون اکفانکم ثم صلیٰ بھم الفجر ۔ پھر امام رضی اللہ عنہ نے اپنے اصحاب سے فرمایا اٹھو ، پانی پیو ، شاید تمھارے لیے یہ دنیا میں پینے کی آخری چیز ہو اور وضو کرو ، نہاؤ اور اپنے لباس کو دھو لو تاکہ وہ تمہارے کفن بن سکیں ، اس کے بعدامام حسین نے اپنے اصحاب کے ہمراہ نماز فجر باجماعت پڑھی ۔ (بحارالانوار،ص217ج44)

اگر واقعہ کربلا کے بارے میں چند ایک ہی کُتب کا مطالعہ کر لیا جائے تو مختلف مصنفین کے بیان کردہ واقعات میں اس قدر تضاد اور تغائر نظر آتا ہے کہ قاری انگشت بدنداں ہوجاتا ہے دورِ حاضر کے مصنفین کی کتُب و رسائل سے قطع نظر تاریخ کی معتبر سمجھی جانے والی کُتب بھی اس واقعہ کے بارے مین اس قدر مختلف البیان ہیں کہ ایک کتاب کے بیان کا دوسری کتاب سے اختلاف تو رہا ایک طرف ان کتابوں کی اپنی روایتیں بھی اس واقعہ کے بارے میں اول تا آخر کسی بات پر متفق نظر نہیں آتیں ایک راوی میدان کربلا کو بے آب وگیارہ ریگستان ثابت کرتا نظر آتا ہے تو دوسرا اس کو بانس اور نرکل کا گھنا جنگل قرار دیتا ہے کبھی قاتلانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو شہداء کی لاشوں کا مثلہ اور انتہائی درجہ کی توہین ، حتی کہ شہداء کی لاشوں پر گھوڑے دوڑاے ہوئے پیش کیا جاتا ہے اور کبھی انہی قاتلوں کو اپنے جرم پر نادم و شرمندہ اور مصرف نوحہ و گریاں دکھایا جاتا ہے ان من گھڑت داستانوں کے ایک منظر میں تو خاندانِ امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچوں کو کربلا کی جھلسائی ہوئی گرمی میں شدت پیاس سے تڑپتے نظر آتے ہیں کہ بندش آپ کی وجہ سے ان کو پینے کےلیے پانی کا ایک گھونٹ نہ ملتا تھا جبکہ دوسری طرف افراد اس پانی سے نہ صرف یہ کہ غسل کرتے ہیں بلکہ مشک کی خوشبو سے بدن کو معطر کرتے ہین آج حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کی پیاس کا واسطہ دے دے کر منتیں اور مرادیں مانگنے والی اس قوم نے یہ بھی احساس نہ کیا کہ اس طرح حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی ذات کو بدنام کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کی حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ تو پیاس سے تڑپتے رہے اور دوسری جانب پانی کا ایسا بے دریغ استعمال کہ نہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی افراد نے پانی سے غسل کیا ؟ ملاحظہ کیجیے دونوں روایات اور ان میں تضاد پہلی روایت میں حضرت حر بن یزید رضی اللہ عنہ کا خطبہ نقل کیا گیا ہے جو اس نے میدان کربلا میں کوفیوں کے سامنے بیان کیا واضع رہے کہ حضرت حر بن یزید رضی اللہ عنہ وہ شخصیت ہیں جن کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ مخالف لشکر سے جدا ہو کر حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ شامل ہوگیا تھا واقعہ کربلا کے مشہور کرداروں میں سے ایک حر رضی اللہ عنہ بھی ہیں آئیے اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت حر رضی اللہ عنہ کی طرف کیا بیان منسوب کیا گیا ہے : ⬇

یا اھل الکوفہ ادعوتم الحسین الیکم حتٰی اذا اتٰکم وحلتم بینہ وبین الماء الفرات الذی یشرب منہ الکلب والخنزیر وقد صرعنھم العطش ۔
تجمہ : اے اہل کوفہ تم نے حسین رضی اللہ عنہ کو اپنے پاس بلایا یہاں تک کہ وہ تمہارے پاس آگئے تو تم ان کو اورماء فرات کے درمیان حائل ہوگئے جس پانی میں سے کُتے اور خنزیر بھی پیتے ہیں ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٦٦) 

اس روایت سے جہاں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ پر فرات کا پانی بند کر دیا گیا اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پانی کی بندش کا یہ ظالمانہ اقدام کرنے والے کوفی تھے جنہوں نے پہلے تو حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ کو خطوط لکھ کر بلایا اور بعد میں اُن کو بے گناہ شہید کر دیا ؟ ۔ اب سوال پیدا ہوتا کہ کوفی کون تھے ؟ ۔ اور کس طرح حضرت سیدنا امامِ حسین رضی اللہ عنہ کو بلانے کے بعد ان کے قتل میں شریک ہوگئے ؟ ۔ یہ ایک مستقل بحث ہے مندرجہ بالا روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ کربلا کےمیدان میں خاندانِ امامِ حسین رضی اللہ عنہم پر پانی بند کر دیا گیا تھا اور ان کے پاس پیاس بجھانے کےلیے پانی موجود نہ تھا اس کے برعکس تصویر کے دوسرے رُخ میں ہمیں کیا دکھایا جاتا ہے مثلا ملاحظہ ہو : ⬇

فعدل الحسین الٰی خمیۃ قد نصیت فاغتسل فیھا وتطیب بمسک کثیر ودخل بعدہ بعض الامراء فعلوا کما فعل ۔ 
ترجمہ : پس امامِ حسین رضی اللہ عنہ خیمے کی طرف آئے جو نصب کیا گیا تھا پھر آپ رضی اللہ عنہ نے غسل فرمایا اور بہت سی مشک کی خوشبو لگائی اور ان کے بعد بہت سے امراء داخل ہوئے جنہوں نے آپ کی طرح کیا (یعنی غسل کیا اور خوشبو لگائی) ۔ (البدایہ والنہایہ جلد ٨ صفحہ ١٦٤،چشتی)

اگر واقعہ کربلا کے بارے میں گھڑے گئے دیگر افسانوں کو مدنظر رکھا جائے تو ان دونوں روایات میں سے کسی ایک کے بھی سچے ہونے کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا لیکن اس دوسری روایت کی موجودگی میں پانی کی بندش اور قافلہ امامِ حسین رضی اللہ عنہ کی پیاس کے افسانے کم از کم مشکوک ضرور ہو جاتے ہیں یہ تو ایک چھوٹی سی مثال ہے ورنہ سانحہ کربلا کے ضمن میں کُتب تاریخ میں اس قسم کی متضاد روایات عام پائی جاتی ہیں ۔

(4) مشہور ہے کہ کربلا بے آب و گیاہ میدان تھا ، یہ غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ کربلا میں نرکل اور بانس کا جنگل تھا یہ ریگستان نہ تھا ۔ یہ میدان دریائے فرات یا اس سے نکلنے والی نھر کا کنارہ تھا ۔ طبری کی روایت میں ہے کہ اصحاب امام حسین رضی اللہ عنہ کو تجربہ ہوا تھا کہ ذرا سا کھودنے پر پانی نکل آیا ۔ یہ بے پر کی اڑائی گئی کہ کربلا ریتلا علاقہ یے ۔
فقد بلغنی ان الحسین یشرب الماء ھو و اولادہ وقد حفروا الٓا بار و نصبوا الاعلام فانظر اذا ورد علیک کتابی ھذا فامنعھم من حفرالٓا بار مااستطعت و ضیق علیھم ولا تدعھم یشربوامن ماء الفرات قطرۃ واحدة ۔
ابن زیاد نے کہا کہ مجھے خبر ملی ھے کہ امام حسین رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد و اصحاب رضی اللہ عنہم نےپانی پینے کیلئے کنویں کھود رکھے ہیں اور میدان میں مختلف جگہوں پر اپنے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں خبردار جب تمھیں میرا یہ خط مل جائے تو انہیں مزید کھدائی سے روک دیں اور انہیں اتنا تنگ کیاجائے کہ وہ فرات کا ایک قطرہ بھی نہ پی سکیں ۔ (الفتوح صفحہ 91 جلد 5،چشتی)

(5) چھ ماہ کے حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ اور ان کے پیاس کا افسانوی قصہ بھی باطل ہے حقیقت تویہ ہے کہ جناب علی اصغر رضی اللہ عنہ شہداء کربلا میں شامل نہیں ہیں ، یار مبالغہ آرائی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے کربلا میں باقی تمام حسینی رضی اللہ عنہم تو تلواروں اور خنجروں کے ساتھ شہید ہوئے صرف حضرت علی اصغر رضی اللہ عنہ کو تیروں کے ساتھ شہید کیاگیا ؟ ۔ یہ سب افسانوی قصے ہیں عموما واعظین کہتے ہیں کہ شہزادہ علی اصغر رضی اللہ عنہ کو امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزیدیوں کے سامنے لے جا کر پانی مانگا یہ پانی مانگنے کا بھی فرضی قصہ "خاک کربلا" جیسی کتب میں بغیر حوالے کے درج ہے بلا تحقیق اور غور و خوض کے عوام الناس میں بیان کیا جاتا ہے جب کہ یہ واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان عزیمت کے بالکل خلاف ہے اور ان کے شایان شاں قطعا نہیں ہے ۔

(6) کمسن حضرت بی بی صغری کو امام حسین رضی اللہ عنہما کا مدینہ میں چھوڑ کر کوفہ روانہ ہوۓ اور کمسن صغریٰ رضی اللہ عنہا کا گھوڑے کے پاؤں سے چمٹنا ، آنے جانے والوں کو اندوہناک پیغامات دینا یہ سب افسانے ہیں حالانکہ حضرت بی بی فاطمہ (یعنی صغری) رضی اللہ عنہا میدانِ کربلا میں امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھیں اور دیگر مستورات مطہرات رضی اللہ عنہن کے ساتھ قید ہوئیں ۔ الکامل میں ابن الاثیر لکھتے ہیں : ثم ادخل نساء الحسین والراس بین یدیہ فجعلت فاطمة وسکینة ابنتاالحسین تتطاولان لتنظرالی الراس ۔ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے خاندان کی عورتیں اندر لائی گئیں تو امام حسین کاسر مبارک ان کے سامنے رکھا گیا تو سیدہ فاطمہ (صغری) اور سیدہ سکینہ رضی اللہ عنہما آگے بڑھنے لگیں تاکہ سرمبارک کو دیکھ سکیں ۔ (الکامل لابن الاثیر،ص85ج4)

(7) کربلا کے میدان میں امام قاسم رضی اللہ عنہ کی شادی کا قصہ بھی باطل ہے یہ گھڑنتو طومار بھی ملا حسین کاشفی نے سب سے پہلے روضة الشھداء میں بیان کیا ہے اور خود شیعہ اکابر نے بھی اس واقعہ کو غلط قرار دے کر رد کردیاھے ۔

(8) کربلا کی بہت سی جھوٹی کہانیوں میں سے ایک اور مبالغہ آمیز کہانی یہ بیان کی جاتی ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ  نے دشمن فوج کے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا اور یہی دعوی ان کے بعض رفقاء کے متعلق بھی کیا گیا ہے کہ ان میں سے بعض نے سینکڑوں دشمن قتل کیے اور کشتوں کے پشتے لگا دیے ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق تو بعض روایتوں میں یہ تعداد دو ہزار اور بعض شیعی روایات میں تین لاکھ تک بھی آئی ہے ۔ ان روایات کے مبالغے کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر ہر آدمی کے ساتھ مقابلہ کرنے اور اسے پچھاڑ کر قتل کرنے کےلیے اگر ایک منٹ بھی درکار ہو تو دو ہزار افراد کو قتل کرنے کےلیے دو ہزار منٹ تو چاہیے ہوں گے ، یہ تقریبا تینتیس گھنٹے بنتے ہیں ۔ جبکہ ابو مخنف کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سانحہ کربلا محض ایک آدھ پہر میں ہو کر ختم ہو گیا تھا ۔

خود شیعہ محققین میں سے شہر بن آشوب نے یزیدی مقتولین کی کل تعداد چارسو چھتیس بتائی ہے ۔ (المناقب،لابن شھرآشوب،ص99ج4)

ملا حسین واعظ کاشفی سنی نہیں ہے اور اس کی کتاب روضۃ الشھداء جھوٹے قصے کہانیوں پر مشتمل ہے ۔ امام مسلم بن عقیل کے بچوں کا واقعہ ، حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام زین العابدین رضی اللہ عنہم کا قصہ وغیرہ سب جھوٹ ہے لیکن پھر بھی کچھ لوگ ان واقعات کو ہضم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ ساتھ ہی ساتھ اس قصے کو بھی ہضم کریں جسے فقیر یہاں نقل کر رہا ہے :

ملا حسین واعظ کاشفی لکھتا ہے کہ : حضرت قاسم نے امام حسن کا وصیت نامہ امام حسین کو دیا ۔ امام حسین دیکھ کر رونے لگے پھر فرمایا کہ اے قاسم یہ تیرے لیے تیرے ابا جان کی وصیت ہے اور میں اسے پورا کرنا چاہتا ہوں ۔ امام حسین خیمے کے اندر گئے اور اپنے بھائیوں حضرت عباس اور حضرت عون کو بلا کر جناب قاسم کی والدہ سے فرمایا کہ وہ قاسم کو نئے کپڑے پہنائیں اور اپنی بہن حضرت زینب کو فرمایا کہ میرے بھائی حسن کے کپڑوں کا صندوق لاؤ ۔ صندوق پیش کیا گیا تو آپ نے اسے کھولا اور اس میں سے امام حسن کی زرہ نکالی اور اپنا ایک قیمتی لباس نکال کر امام قاسم کو پہنایا اور خوب صورت دستار نکال کر اپنے ہاتھ سے ان کے سر پر باندھی اور اپنی صاحب زادی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے قاسم ! یہ تیرے باپ کی امانت ہے جس نے تیرے لیے وصیت کی ہے ۔ امام حسین نے اپنی صاحب زادی کا نکاح حضرت قاسم سے کر دیا ۔ (رضی اللہ عنہم)
اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے صائم چشتی صاحب نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر یہ نکاح ہوا تھا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کی وصیت پر عمل کیا ہوگا ورنہ ان حالات میں نکاح وغیرہ کا معاملہ انتہائی نامناسب اور غیر موزوں ہے ۔ (روضۃ الشھداء مترجم اردو ج2، ص297،چشتی)

اسی قصے کے بارے میں امام اہل سنت، اعلی حضرت رحمة اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ حضرت قاسم رضی اللہ عنہ کی شادی کا میدان کربلا میں ہونا جس بنا پر مہندی نکالی جاتی ہے، اہل سنت کے نزدیک ثابت ہے یا نہیں ؟

امام اہل سنت رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ نہ یہ شادی ثابت ہے نہ یہ مہندی سوا اختراع اختراعی کے کوئی چیز (یعنی یہ بنائی ہوئی باتیں ہیں) ۔ (فتاوی رضویہ، ج24، ص502)

شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد علی نقشبندی رحمة اللہ عیہ لکھتے ہیں کہ : یہ تمام باتیں من گھڑت اور اہل بیت رضی اللہ عنہم پر بہتان عظیم ہے ۔ امام حسین کی دو صاحب زادیاں رضی اللہ عنہم تھیں اور واقعۂ کربلا سے پہلے دونوں کی شادی ہو چکی تھی ۔ (میزان الکتب، ص246)

ان واقعات کے علاوہ مستوراتِ مطہرات رضی اللہ عنہن کے بے پردہ ہونے کی ہولناک کہانیاں ، خیمے جلائے جانے کا ذکر ، امام حسین رضی اللہ عنہ کے زخموں کا ذکر ، شہداء کی تعداد کا بہتر (72) ہونا بھی غیر تحقیقی ہے عند التحقیق یہ تعداد ایک سو انتالیس تک ہے اور بعض نے زیادہ بھی بتائی ۔ نیز شہداء رضی اللہ عنہم کی لاشوں کا روندا جانا ، مثلہ کیا جانا وغیرھم یہ سب  غیر معتبرکہانیاں ہیں ۔

نوٹ : امام حسین رضی اللہ عنہ کا ایک نام شبیر (بروزن زبیر بھی ہے) اور آپ کی ایک بیٹی کا نام سیدہ سکینہ (بروزن ثویبہ) ہے جن کے نام سے کربلا و دیگر مواقع پر بہت سی فرضی وغیر معتبر کہانیاں منسوب ہیں ۔ سیدنا علی الاصغر کا اصل نام عبداللہ بن حسین ہے رضی اللہ عنہم ۔ (طالبِ دعا و دعا گو ڈاکٹر فیض احمد چشتی)

سیرت مبارکہ امام حسین رضی اللہ عنہ





 سیرت مبارکہ امام حسین رضی اللہ عنہ 

نام و نسب

امام عالی مقام کا نام رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے   حسین اور شبیر رکھا کنیت  ابو عبد اللہ لقب ریحانۃ النبی، سید شباب اہل الجنۃ
والد کا نام علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور     والدہ کا نام خاتون جنت  سیدہ  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ہے  
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن کا نام شبر اور امام حسین رضی اللہ عنہما  کا نام شبیر  حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے تھے 
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل ص ٥٦٤)

آپ کی پیدائش:

آپ کی ولادت باسعادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی 
سیدنا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھ ماہ ہے ،حضرت یحیی علیہ السلام اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا  جس کی مدت  حمل چھ ہوئی ہو .
(شواہد النبوة ص٢٢٨)

 ابھی آپ شکم مادر میں تھے کہ حضرت حارث  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی اور زوجہ عمِ رسول سیدنا عباس رضی اللہ عنہ  حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اکرمﷺ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیان کرو، آخر کیا ہے؟ 
چنانچہ آپ ﷺ کے اصرار پر انہوں نے اپنا خواب بیان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو نہایت مبارک خواب ہے، اور فرمایا کہ فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔
(تاریخ دمشق ج١٤ ص ١٩٦)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ہاں حضرت  حسین رضی اللہ عنہ ولادت ہوئی تو اُس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے اُن کے کان میں نماز والی اذان دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
پھرسیدہ  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو عقیقہ کرنے اور بچے کے بالوں کے مطابق چاندی خیرات کرنے کا حکم دیا، آپ ﷺ کے حکم کے مطابق حضرت  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا  نے عقیقہ کیا۔
(موطا مام مالک، کتاب العقیقۃ)

رخسار سے انوار کا اِظہار

حضرت علّامہ جامیؔ  قُدِّسَ سِرُّہُ فرماتے ہیں : 
حضرت امامِ عالی مقام سیِّدُنا امام حُسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی شان یہ تھی کہ جب  اندھیرے میں تشریف فرما ہوتے توآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مبارَک پیشانی اور دونوں مقدَّس رُخسار (یعنی گال ) سے انوار نکلتے اور قرب و جوارضِیا بار  (یعنی اطراف روشن  ) ہو جاتے

 (شواہدالنُّبُوَّۃ ص۲۲۸ ) 
 
*رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت 

حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے مشابہ  تھا جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے نیچے والے نصف حصے کی ساخت  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس سے مشابہ تھی۔

(جامع الترمذی، حدیث 3779)

شہادت امام حسین رضی اللہ عنہ:

یومِ عاشورہ جمعہ کے دن 10 محرم الحرام 61 ھ میں کربلا کے مقام پر عراق میں بوقت قریب ظہر جام شہادت نوش فرمایا اور بد بخت شمر ذی الجوشن نے سر مبارک تن سے جدا کردیا اور اس وقت امام حسین رضی اللہ عنہ  کی عمر 55 سال کے قریب تھی۔

قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے 
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
 
*شہادت امام پر آسمان رویا 

حضرت سیدنا محمد بن سیرین رحمہ اللہ فرماتے ہیں 
آسمان دو بار رویا ہے پہلی بار  حضرت یحیی علیہ السلام کی شہادت پر اور دوسری بار  امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت پررویا ۔
آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت کے 6 ماہ بعد تک آسمان پر سرخی چھائی رہی اور جب بھی  آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی جاتی ایسے لگتا جیسے  خون آلود ہو ۔
آپ کی شہادت کے دن سیاہی چھا گئی اور دن میں تارے نظر آنے لگے اور لال ریت کی بارش ہونے لگی اور زمین سے جس جگہ سے پتھر اٹھایا جاتا اسکے نیچے سے خون نکلتا

(تاریخ دمشق ج 14 ص 225 تا 227)

   تحریر:
محمد ساجد مدنی
٣شعبان المعظم ١٤٤٢بمطابق ١٨مارچ ٢٠٢١، جمعرات

تاریخ گنبد خضراء




 تاریخ گنبد خضراء
( سبز رنگ و تعمیر )

از قلم : احمد رضا مغل 
حجرہ عائشہ رضی اللہ عنہا وہ سب سے افضل مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام آرام فرما ہیں اس حجرہ مبارکہ پر پہلے کوئ گنبد نہ تھا چھت پر صرف نصف قد آدم ( یعنی آدھے انسان کے قد ) کے برابر چار دیواری تھی تاکہ اگر کوئ بھی کسی غرض سے مسجد النبوی الشریف کی چھت پر جائے اسے احساس رہے کہ وہ نہایت ہی ادب کے مقام پر ہے 
دلچسپی کی بات یہ ہے کہ خلافت عباسیہ کی ابتدائی دور میں علماء و صلحاء حضرات کے مزارات پر گنبد کی تعمیر کا سلسلہ شروع ہوا پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ سلسلہ بغداد، دمشق میں دینی شخصیات کے مزارات پر گنبد بنانا باقاعدہ حصہ بن گیا 
بغداد میں امام اعظم رحمةاللہ علیہ کے مزار مبارک پر گنبد سلجوقی سلطان ملک شاہ نے پانچویں صدی میں تعمیر کروایا تھا اس طرح کی طرز تعمیر کو مصر میں خوب رواج ملا اور وہاں قلیل مدت میں بہت سے مزارات پر گنبد بن گئے پھر جب  قلاوون خاندان کا دور آیا تو گنبد تمام مسلم علاقوں میں عام ہوچکا تھا 
( 1 ) سلطان قلاوون نے جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری دی اس وقت پہلی مرتبہ گنبد بنانے کا فیصلہ کیا سلطان چونکہ مصر سے تھے اور یہ فن تعمیر وہاں بہت مقبول تھا سلطان نے مصری معماروں کی خدمات حاصل کیں جنہوں نے اپنے ہنر کو کام میں لاتے ہوئے 678 ہجری بمطابق 1269 ء میں حجرہ مبارکہ پر سیسہ پلائے ہوئے لکڑی کے تختوں کی مدد سے خوبصورت گنبد بنایا 
پہلا گنبد تقریبا ایک صدی تک عاشقان رسول کی آنکھوں میں ٹھنڈک پہچاتا رہا پھر وقت گزرنے ساتھ ساتھ لکڑی کے تختوں میں سے چند ضعیف ہوگئے چنانچہ 
( 2 ) سلطان ناصر بن قلاوون نے گنبد اقدس کی خدمت کی
( 3 ) بعد ازاں سلطان اشرف شعبان بن حسین بن محمد نے 765 ہجری میں خدمت سعادت حاصل کی پھر ایک صدی گزری ہی ہوگی 
( 4 ) کہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئ کہ گنبد شریف اور پنچ گوشہ ( یہ وہ مقام ہے جہاں حضور علیہ السلام اور شیخین کریمین کی مزارات ہیں اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ نے تعمیر کروائ تھی ) احاطے کی تعمیر نو یا توسیع کی جائے سلطان اشرف قایتبائی نے اولا اپنا ایک نمایندے کو اس کی تحقیقات پر مامور کیا نمایندے کی رپورٹ کے مطابق حجرہ مطہرہ کی دیواد کی خدمت ( مرمت ) کی اشد ضرورت کی حاجت محسوس ہوئی اور خاص طور پر پنج گوشہ شریف کی شرقی دیوار جس میں دراڑیں پڑنی شروع ہوگئی تھیں چنانچہ 14 شعبان المعظم 881 ہجری کو پنچ گوشہ کے متاثرہ حصے کو نکال لیے گئے ساتھ ہی حجرہ اقدس کی پرانی چھت بھی ہٹا لی گئی اور شرقی جانب تقریبا ایک تہائی حصے پر چھت ڈال دی گئی جس سے یہ ایک تہ خانے کی ماند نظر آنے لگا جب کہ باقی کے دو تہائی حصے پر چھت نہیں بنائی گئ بلکہ اس کے اوپر تینوں مبارک قبروں کے سرہانوں کی جانب منقش پتھروں سے ایک چھوٹا سا گنبد حجرہ اقدس پر تعمیر کردیا گیا اس پر سفید سنگ مرمر لگایا گیا اور پیتل کا ہلال نصب کردیا گیا مزید یہ کہ مسجد نبوی کی چھت کو مزید بلند کردیا گیا تاکہ یہ چھوٹا سا گنبد ہلال سمیت مسجد نبوی کی چھت کے نیچے آجائے پھر اس کے اوپر بڑے گنبد کی تعمیر نو کا کام 17 شعبان المعظم 881 ہجری کر شروع ہوا یہ کام دوماہ جاری رہا پھر 7 شوال المکرم 881 ہجری کو اختتام پر پہنچا پھر
( 5 ) 13 رمضان المبارک 886 ہجری مؤذن آذان کی غرض سے منارہ رئیسہ پر گئے اس وقت مائک وغیرہ کا کوئ سسٹم نہ تھا مطلع ابر آلود تھا اچانک بجلی منارہ رئیسہ پر گری مؤذن بھی شھید ہوگئے اور منارہ رئیسہ مسجد نبوی قدیم کی طرف جاپہنچا جس سے آگ لگ گئ ساتھ ہی گنبد کو بھی نقصان پہنچا جس سے کچھ ملبہ حجرہ اقدس میں حاضر ہوا فوری طور پر تعمیری خدمت تو کردی گئ مگر مکمل تفصیل سلطان قایتبائی کو 16 رمضان المبارک کو قاصر کے ذریعے آگاہ کیا گیا 
( 6 ) سلطان نے سو ( 100 ) معمار مصر سے روانہ کیے سلطان کے حکم سے جس گنبد کو نقصان پہنچا سے مکمل ہٹا دیا گیا اس کی جگہ 892 ہجری کو ایک نیا گنبد بنایا گیا جو صدیوں تک قائم رہا 
( 7 ) پھر عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے قایتبائی سلطان کا بنایا ہوا گنبد شہید کروا کر از سر نو 1233 ہجری بمطابق 1818 ء کو نیا گنبد تعمیر کروایا

گنبد خضراء پر رنگوں کی تاریخ

( 1 ) سب سے پہلا گنبد 678 ہجری بمطابق 1269 ء کو تعمیر ہوا جس پر زرد رنگ کروایا  گیا جس سے یہ" قبة الصفراء " سے مشہور ہوا 

( 2 ) پھر 888 ہجری بمطابق 1483 کو کالے پتھر لگادیے گئے پھر اسے سفید رنگ سے رنگ دیا گیا پھر یہ " قبة البیضاء " یعنی سفید گنبد کہلانے لگا 

( 3 ) 980 ہجری بمطابق 1572 ء میں انتہائی حسین گنبد بنایا کہ اس پر رنگ برنگے پتھروں سے سجایا گیا شاید میناکاری کا کام تھا جس سے دلکش و جاذب منظر کے سبب  " رنگ برنگا گنبد " کہلانے لگا 

( 4 ) 1253 ہجری بمطابق 1873ء کو عثمانی سلطان محمود بن سلطان عبدالحمید خان اول نے اسے سبز رنگ کروا دیا اسی باعث اسے " گنبد خضراء " (یعنی سبز گنبد ) کہتے ہیں
 جو انتہائی دل فریب دلکش ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا 

حوالہ جات
مخلصا از فیضان سنت 
مخلصا از عاشقان رسول کی 130 حکایات

از قلم : 
احمد رضا مغل

21 ۔ 8 ۔ 3 
بروز منگل

فرامین سیدی امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ




 فرامین سیدی امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ


مُعَاشَرے میں رہ کر گناہوں سے بچنا کما ل ہے

1: گھر وغیرہ کی چاردیواری میں رہ کر زبان، آنکھوں اور پیٹ وغیرہ کا قفلِ مدینہ لگانا اپنی جگہ مگر مُعاشَرے (Society) میں لوگوں کے درمِیان رہ کر یہ سب کرنا کمال ہے۔(مدنی مذاکرہ، 6شوال المکرم1435ھ)

بُزرگی کا معیار

2: بُزُرْگی کا تعلق عِلم و عَقْل سے ہوتا ہے جوانی اور بڑھاپے سے نہیں۔ (مَدَنی مذاکرہ،8رجب المرجب1437ھ)

اللہ پاک کی بندے سے محبت کی علامت

(3)کسی کو اچھے عقیدے اور اچھے اعمال کی توفیق ملنا، اس بات کی علامت ہے کہ ربّ تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے۔

(مَدَنی مذاکرہ،5ربیع الاول1438ھ)

مُعتدل تاثیر والی روٹی

(4)گندم میں جَو کا آٹا مِلا کر پکائیں تو روٹی مُعْتدل اثر والی ہوجائے گی کیونکہ جَو کی تاثیر ٹھنڈی اور گندم کی تاثیر گرم ہوتی ہے۔(مَدَنی مذاکرہ،4ربیع الاول1438ھ)

عورت کے لئے ایک بڑی نیکی

(5)اللہ پاک کی رضا کے لئے شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے شوہر کو خوش کرنا بہت بڑے ثواب کا کام ہے۔

(مَدَنی مذاکرہ،15رجب المرجب1437ھ)

ماں باپ کا علاج کسی بھی طرح کروائیں

(6)اولاد کو چاہئے کہ ماں باپ کا علاج اپنا پیٹ کاٹ کر (یعنی روکھی سوکھی کھا کر اور تنگی سے گزارہ کرکے بھی) کروانا پڑے تو کروائے۔ (مَدَنی مذاکرہ،21محرم الحرام1436ھ)

سلطان محمود غزنوی اور نام محمد کی تعظیم




 سلطان محمود غزنوی اور نام محمد کی تعظیم


حضرت سلطان محمودغزنوی رحمة الله علیہ کے چہیتے خادم جناب ایاز کے ایک بیٹے  کا
نام محمد تھا جو شاہی خدمت کے لئے مامور تھا۔ ایک دن سلطان محمود نے طہارت خانہ
میں تشریف فرما ہوکر ارشادفرمایا: ایاز کے بیٹے سے کہو کہ وضو کے لئے پانی لانے ۔
شاہانہ مزاج شناسی بیان یہ بات سن کر فکر میں ڈوب گیا اور یہ خیال کیا کہ شاید
میرے بیٹے نے کچھ  خطا کی ہے جس کی وجہ سے سلطان عالی جناب اس سے ناخوش ہیں
اور اسی لئے آج حسب معمول اس کا نام لے کر یا نہیں فرمایا۔ ایاز اس فکر میں مجسمہ غم 
بنے ہوئے کھڑے تھے کہ سلطان محمود وضو سے فارغ ہو کر باہر تشریف لائے اور ایاز کو
غمزدہ دیکھ کر پوچھا تمہاری پیشانی حزن وملال کے آثار کیوں ہیں؟ ایاز نے عرض کیا:۔
عالم پناہ! آج آپ نے غلام زادے کو نام کے ساتھ انہیں فرمایا
۔ اسی سبب سے
غلام مضطرب ہے کہ شاید اس سے کوئی ہے بے ادبی  سرزد ہوئی ہے جس کی وجہ سے عالی جاہ
ناخوش ہو گئے ۔ سلطان محمود نے مسکرا کر فرمایا
: ایاز مطمئن رہو۔ نہ صاحبزادے سے کوئی
فرو گذاشت ہوئی ہے اور نہ ہی میں اس سے ناخوش ہوں ۔ آج صاحبزادے  سلمہ کا نام لے کر نہ
 بلانے کی وجہ یہ ہے کہ میں بے  وضوتھا اور صاحبزادے کا نام محمد ہے مجھے شرم
آئی کہ بے وضو میری زبان سے سید الطاہرین صلی الله علیہ وسلم کا اسم گرامی ادا ہو۔
(تفسیر روح البیان ١٨٥/٧)

پودا لگانا ہے درخت بناناہے تحریک




 پودا لگانا ہے درخت بناناہے تحریک 

✍ تحریر # ثوبان عطاری 
ایک تاریخ رقم ہونے جارہی ہے۔۔۔۔۔۔!
قربان جائیے امیر اہلسنت کی دور اندیش سوچ پر ۔۔ ہر مشکل کا حل آپ کی بارگاہ سے مل رہا ہے ۔۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق دنیا انتہائی خطرناک موسمی تبدیلیوں کی زد میں ہے اور شجرکاری سے اس کے منفی اثرات نہ صرف کم  بلکہ ریورس reverse (بہتر) بھی ہو نگے۔دعوت اسلامی والے بچے ، بڑے خوب جوش و خروش سے یکم اگست یوم شجرکاری کی تیاری کر رہے ہیں۔ ماشاءاللہ سب کو کیسے اچھے کام پہ لگا دیا امیر اہلسنت نے ۔۔ 
پودا لگانا ہے🌱 درخت بنانا ہے🌳 معاشرے کے ہر ہر شعبے سے وابستہ افراد آج، دعوت اسلامی کے ساتھ کھڑے ہیں۔۔ کیوں ؟ اس لیے کہ یہ نام ہے اعتماد کا۔۔👍۔۔ ہمارا ہر نیا پراجیکٹ ترقی کی نئی بلندیوں پر پہنچ کر trend set کرتا ہے۔۔
علامہ الیاس قادری ۔۔ واقعی تاریخ انسانی میں  بڑے نام کا اضافہ ہوا ہے ۔۔ آئیے آپ بھی دعوت اسلامی سے وابستہ ہو جائیے اور دنیا اور آخرت کی سعادتیں حاصل کیجیے۔

✍ تحریر # ثوبان عطاری

حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عشق رسول




 حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا عشق رسول 

حضرت عثمان بن عفان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں  روایت ہے کہ جب نبی کریم  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے حدیبیہ کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو قریش کے پاس بھیجا توقریش نے حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو طواف کعبہ کی اجازت دے دی لیکن حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ :  مَاکُنْتُ لِاَفْعَلَ حَتّٰی یَطُوْفَ بِہِ رَسُوْلُ اللہِ صَلّٰی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ 
میں اس وقت تک طواف نہیں  کرسکتا جب تک کہ رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمطواف نہیں  کرتے۔  
(الشفاء  ، الباب الثالث ، ج۲ ، ص۷۰

 ایک مرتبہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی ضیافت کی اور عرض کیا : یا رسول اللہ عزوجل و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم! میرے غریب خانہ پر اپنے دوستوں  سمیت تشریف لائیں  اور ماحضر تناول فرمائیں۔
 حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یہ دعوت قبول فرمالی اور وقت پر مع صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے گھر تشریف لے چلے ، حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے پیچھے چلنے لگے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکا ایک ایک قدم مبارک جو ان کے گھر کی طرف چلتے ہوئے زمین پر پڑرہا تھا گننے لگے ، حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے دریافت فرمایا : اے عثمان! یہ میرے قدم کیوں  گن رہے ہو؟ حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے عرض کیا :    
  یا رسول اللہ عزوجل وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم!  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ، میں  چاہتا ہوں  کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے ایک ایک قدم کے عوض میں  آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی تعظیم و توقیر کی خاطرایک ایک غلام آزاد کروں  چنانچہ حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے گھر تک حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے جس قدر قدم پڑے اسی قدر غلام حضرت عثمان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے آزاد کئے۔  
(جامع المجزات ، ص۲۵۷)

استاد کا مقام اور اسکی اہمیت



 .. استاد کا مقام اور اسکی اہمیت

-- استاد ہونا ایک بہت بڑی سعادت مندی ہے چنانچہ محبوب کاٸنات ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ; لوگوں کو بھلاٸ سیکھانے والے پر اللہ پاک اور اسکے فرشتے ۔ آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعاٸیں کرتی ہیں .

[ ترمذی شریف 2675 ]

-- خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق اساتذہ کو درس و تدریس کے ساتھ اعلی انتظامی امور اور عہدوں پر فاٸز کرتے تھے .

-- حضرت مغیرہ فرماتے ہیں : ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور انکا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں .

-- امام ابو یوسف فرماتے ہیں ; جو استاد کی قدر نھیں کرتا وہ کامیاب نھیں ہوتا .

-- حضرت عبد اللہ بن عباس اساتذہ کے سامنے عجز و انکساری کرتے حتی کہ طلب علم کے لیے اساتذہ کے گھر مبارک کے باہر کھڑے رہتے اور گرد و غبار میں آلود ہوجاتے لیکن دروازے کو دستک نہ دیتے اور فرماتے میری وجہ سے اساتذہ کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو یہی ادب تھا جس نے حضرت عبد اللہ بن عباس کو امام المفسرین بنادیا .. 

-- امام اعظم ابو حنیفہ اپنے اساتذہ کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استاد کے گھر کی جانب پاٶں کرکے نھیں سوۓ .

-- کسی نے امام فخر الدین رازی سے پوچھا کہ علما و بادشاہ آپکی خوب عزت کرتے ہیں یہ مقام و مرتبہ آپنے کیسے حاصل کیا ؟ جواباً فرمایا ; میں نے تیس سال تک اپنے استاد ( امام ابو یزید دبوسی ) کی خدمت کی اور انکے لیے کھانا پکایا اور اس کھانے میں سے کبھی بھی نہ کھایا . 

-- عربی مقولہ ہے : خیر الاشتغال تہذیب الاطفال یعنی بہترین مصروفیت و مشغلہ بچوں کی تربیت کرنا ہے .

[ مأخوذ تعلیم المتعلم فی طریق التعلم  ]

-- اللہ پاک تمام ہی اساتذہ کے لیے دارین میں خیر کو مقدر فرمائے اور انکے لیے مقاصد صالحہ میں آنے والے موانع کو دور فرمائے __آمین

🖋️کتبہ : فیضان علم




 
گلدستہ صراط الجنان


1 حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو یا آپ کی کسی صفت کو گھٹیا چیز کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے جیسے سرکار دوعالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے علم مبارک کو معاذ اللہ کوئی جانوروں کے علم سے تشبیہ دے تو یقیناً ایسا شخص توہین کا مرتکب ہے
صراط الجنان ج5ص 472

2:  اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے اس کی قدرت کے نظاروں جیسے دریاؤں،پہاڑوں اور زمین کے دیگر عجائبات کی سیر کرنا عبادت ہے
(صراط الجنان٣٦٢/٧)

3:  حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں
اپنے گھروں سے مکڑیوں کے جالے دور کرو کیونکہ انہیں(گھروں میں لگا ہوا) چھوڑ دینا ناداری (تنگ دستی) کا باعث ہوتا ہے.

(صراط الجنان٣٧٨/٧)

4  قرآن کریم نے تمام مجرمین کی سزائیں بیان فرمائیں، جن میں سے سب سے زیادہ سخت سزا حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخ کی ہے 
(صراط الجنان ٨٥٨/١٠)

5  حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کے گستاخوں کو اللہ تعالیٰ نے خود جواب دیا ہے بلکہ یوں کہ سکتے ہیں کہ دشمنان خدا کو جوابدہی سنت رسول ہے اور دشمنان رسول کو جواب دینا سنت الٰہیہ ہے
(صراط الجنان٨٥٧/١٠)

6  جو فرشتے انبیاء کرام علیہم السلام کی خدمت میں اللہ تعالیٰ کے پیغام لاتے ہیں وہ دیگر فرشتوں سے اعلی درجے والے ہیں
(صراط الجنان١٧٠/٨)


7: اللّٰہ تعالی کی قدرت کے دلائل جاننے کی نیت سے سائنس اور ریاضی کا علم حاصل کرنا عبادت ہے
(صراط الجنان٢٠٩/٩)

8:  اکابرین (بزرگانِ دین) کی بارگاہ کا ادب کرنا بندے کو بلند درجات تک پہنچاتا ہے اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے نوازتا ہے۔
(صراط الجنان، ٤٠٩/٩)

9: حضرت ابو عبید رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے تھے:
میں نے کبھی بھی کسی استاد کے دروازے پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتطار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ حاصل کرتا۔
(صراط الجنان،   ٤٠٨/٩)

10  علماء کرام کی مجالس میں آواز بلند کرنا نا پسندیدہ ہے کیونکہ یہ انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔
(صراط الجنان،٤٠٤/٩)

11: اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا رسولِ اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے اور حضور اقدس صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی گواہی دینا اللہ تعالی کی سنت ہے اور کلمہ طیبہ میں دونوں سنتیں جمع ہیں۔
صراط الجنان،٣٨٤/٩)

12: بعض علماء فرماتے ہیں
اگر آج بھی مسلمان صحیح طریقے سے اسلامی احکام پر عمل کرکے اللہ تعالی کی رضا کے لیے جنگ کریں تو بدر و حُنین کے نظارے نظر آ سکتے ہیں.
(صراط الجنان، ٣٧٦/٩)

13  امام عبادات بدن کا تقویٰ ہیں اور حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب دل کا تقویٰ ہے۔
(صراط الجنان، ٤٠٥/٩)



14:  تقوی اور شرم و حیا عورت کا بہت بڑا کمال ہے
پردہ اللہ تعالی کی وہ نعمت ہے جو جنت میں بھی ہوگی
اجنبی عورت کا متقی پرہیز گار سے بھی پردہ ہے کیونکہ جنت میں سب متقی ہوں گے مگر ان سے بھی پردہ ہوگا
(صراط الجنان 659/9)

15: اچھی عادت اچھی صورت سے افضل ہے  لہذا نکاح کے لئےکسی عورت کا رشتہ دیکھتے وقت اس کے حسن و جمال کے مقابلے میں اس کی اچھی سیرت،کردار، اخلاق اور دینداری کو ترجیح دیں۔
(صراط الجنان٦٦٥/٩)

تحریر:
محمد ساجد مدنی
30 جون 2021، بروز بدھ

چند ایمان افروز کلمات



 چند ایمان افروز کلمات


🌼: رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب میرے علم میں آگیا۔ 
(ترمذی حدیث ۳۲٤٤  ؛۵ /۱۵۹)

🌼: حضورصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا:تین انگلیوں سے کھانا انبیا علیہم السلام کا طریقہ ہے
(صحیح مسلم ،الحدیث: ۱۰۵۔(۲۰۲۰) ،ص ۱۱۱۷)

🌼:اعلی حضرت امام احمد رضا خان فرماتے ہیں
باپ کو چاہیے کہ بیٹیوں کا دل زیادہ خوش رکھے کہ ان کا دل کافی چھوٹا ہوتا ہے۔
(فتاوی رضویہ،جلد 24،صفحہ 455)

🌼: رسول الله صلی اللّٰه علیه و اله و سلم کا فرمان ہے:

وَإِنَّ اللَّهَ لَيُؤَيِّدُ هَذَا الدِّينَ بِالرَّجُلِ الْفَاجِر

 الله پاک کبھی اپنے دین کی امداد کسی فاجر شخص سے بھی کرا لیتا ہے۔

( صحیح بخاری || حدیث:3062 )

🌼:مہمان نوازی کے اصول

(۱)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔

(۲)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو، یہ نہ ہو کہ کہنے لگے اس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اسی قسم کے دوسرے الفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپس میں   کہا کرتے ہیں  ۔

(۳) بغیر اجازتِ صاحبِ خانہ وہاں   سے نہ اٹھے۔

(٤)  اور جب وہاں سے جائے تو اس کے لیے دعا کرے۔ میزبان کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے ،کہ کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو، میزبان کو بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضر رہے اور مہمانوں کے سامنے خادم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحبِ وسعت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔
میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم   علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں   تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔

﴿بہار شریعت،حصہ 16،ص 397  اپلیکیشن﴾

🌼: نبی کریم صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا: ’’سفید کپڑے پہنو کہ وہ زیادہ پاک اور ستھرے ہیں  اور انھیں میں اپنے مردے کفناؤ۔
(مسند احمد بن حنبل،الحدیث: ،٢٠١٧٤ ،ج ۷ ،ص۲٤٠)

🌼:حضرت حفصہ بنتِ عبدالرحمن حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالٰی عنہا کے پاس باریک دوپٹا اوڑھ کر آئیں حضرت عائشہ نے ان کا دوپٹا پھاڑ دیا اور موٹا دوپٹا دے دیا۔
(مؤطا امام محمد،حدیث:۱۷۳۹ ،ج ۲ ،ص ٤٢١۔)

🌼: جنتی پھل کے مشابہ

كان اﻹمام مالك يحب الموز ويقول:
« ليس شيء أشبه بثمار الجنة من الموز، لا تطلبه في شتاء ولا صيف إلا وجدته وقرأ :  ﴿أكلها دائم﴾ »
حلية الأولياء ٣٣١.

امام مالک علیہ الرحمہ کیلا بہت پسند کرتے تھے اور فرماتے 
کیلا سے زیادہ کوئی پھل جنتی پھلوں کے مشابہ نہیں ہے سردی ہو یا گرمی تو  جب بھی طلب کرے گا اسے پائے گا اور اس آیت کریمہ کی قرات فرمائی
ترجمہ: { اس کا کھانا ہمیشہ ہے}

🌼: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معجزہ تھا کہ جتنا بھی دراز قامت آپ کے ساتھ کھڑا ہوتاتو آپ اونچے نظر آتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اس کے حبیب کے حضور کسی کا سر اونچا ہو۔
(دلائل النبوة٥٦٤)

🌼:  حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم جب آندھی چلتی تو یہ دعا پڑھتے تھے۔
اَللّٰهُمَّ اِنِّيْ اَسْئَلُكَ مِنْ خَيْرِهَا وَ خَيْرِ مَا فِيْهَا وَ خَيْرِ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ وَ اَعُوْذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَ شَرِّ مَا فِيْهَا وَ شَرِّ مَا اُرْسِلَتْ بِهٖ
(ترمذی جلد۲ ص۱۸۳)

🌼:  رسولِ ذی وقار،شہنشاہِ ابرارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں:’’جُعِلَتْ قُـرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ یعنی میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر، زیادہ بن علاقۃ عن المغیرۃ،  الحدیث:۱۰۱۲، ج۲۰، ص۴۲۰)

🌼:  فرمان امیر اہلسنت
سب سے متاثر کن وہ شخص گناہوں سے بچتا ہو اور اس کا ہر قدم سنتوں کے مطابق اٹھتا ہو

🌼:  سیدی امام اہلسنت فرماتے ہیں:
فان الدعاء طائروالصلٰوۃ جناحہ
دعا ایک پرندہ ہے اور درود شریف اس کے پر
(فتاویٰ رضویہ جلد 7 )

🌼:  مجلسِ میلاد پاک ذکر شریف سید عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہے اور حضور کا ذکر اللہ کا ذکر ہے اور ذکر الہی سے بلاوجہ شرعی منع کرنا شیطان کا کام ہے۔
(ارشاداتِ امام احمد رضا ص 3)

🌼:  حضرت عبدااللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ کے پاس کوئی واضح دلائل نہ ہوتے تو آپ کا چہرہ مبارک آپ کی صداقت کی کی گواہی دینے کے لیے کافی تھا۔
(دین و دنیا کی انوکھی باتیں ،ص 510)

🌼:  پیارے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت کریمہ زمین پر دستر خوان بچھا کر کھانا تناول فرمانا تھی اور یہی افضل ہے۔
(فتاویٰ رضویہ 629/21)

🌼:  فرمان اعلی حضرت امام احمد رضا خان
باپ بچے کو پاک کمائی سے روزی  دے کہ ناپاک مال ناپاک ہی عادتیں ڈالتا ہے۔
(فتاوی رضویہ453/24)

🌼:  عقلمند اور سعادت اگر استاد سے بڑھ بھی جائیں تو اسے استاد کا فیض اور اسکی برکت سمجھتے ہیں اور پہلے سے بھی ذیادہ اس کے پاؤں کی مٹی سر پر ملتے ہیں
(فتاوی رضویہ424/24)

🌼: سورہ العلق میں ہے کہ ﷲ نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ 
جامع ترمذی کی حدیث 2233 میں حضور پاک ﷺ سے مروی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا

تحریر:
محمد ساجد مدنی
20جون 2021، بروز اتوار

ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں




 ہمیں مرشد کی ضرورت کیوں

موجودہ دور مادیت کا دور ہے ایک طرف بد عقیدگی کا سیلاب جو کہ مسلمانوں کے عقیدہ و ایمان کو تباہ کر رہا ہےاور  دوسری جانب گناہ کا سیلاب ہے جو کہ مسلمانوں کی روحانیت کو تباہ کر رہا ہے۔

اگر ہم موجودہ ماحول اور معاشرے کا جائزہ لیں تو ہمیں تزکیۂ نفس و مرتبۂ احسان کا حصول بہت مشکل نظر آتا ہے ۔ہر طرف بے راہ روی اور گناہوں کی بھرمار نظر آتی ہے ۔آخر ایسا کون سا کام ہے جو ہمارے ایمان کی سلامتی کا ذریعہ بنے اور ہمارے باطن کو پاک و صاف کردے،جس کی صحبت اور نگاہ کرم گناہوں سے زنگ آلود دل کو آئینہ کی طرح صاف و شفاف کر دے۔ وہ کام کسی نیک ہستی کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ۔ اس کے ہاتھ پر بیعت ہونا ہے۔

صحابۂ کرام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ مجید میں اس کے متعلق احکامات صادر فرمائے ہیں اس کے ساتھ ساتھ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بہت سی احادیث بھی مرشد کامل کی اہمیت کو واضح کرتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی رہ نمائی کے لیے دو ذریعے بنائے ہیں ایک قرآن اور دوسرا حدیث۔ ان دونوں میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دینا یا اپنے پسندیدہ حصے کی پیروی کرنے والا دین سے کچھ حاصل نہ کر پائے گا بلکہ وہ دین و دنیا کے تمام معاملات میں صرف کشمکش اور ناقابلِ حل مسائل کا شکار رہے گا۔

حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ قرآن کی عملی تفسیر اور دین کے تمام احکام کا عملی نمونہ ہے ۔ آپ کا ہر عمل خواہ وہ دین کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق ہو یا باطنی پہلوؤں کے متعلق‘ تمام اُمت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔

بیعت عربی زبان کا لفظ ہے جو ’بیع‘ سے نکلا ہے، جس کا لفظی معنیٰ سودا کرنے کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی مقدس ہستی یا صالح بزرگ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اپنے گناہوں سے تائب ہونے اور اس کی اطاعت کا اقرار کرنے کا نام بیعت ہے۔بیعت بھی اللہ تعالیٰ سے لین دین کے سودے کا نام ہے جس میں بیعت کرنے والا اپنا سب کچھ جو در حقیقت پہلے ہی اللہ تعالیٰ کا ہے، اللہ کے حوالے کرتا ہے اور بدلے میں اللہ کی رضا اوراللہ کی ذات کا طالب بنتا ہے۔

پس جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وسیلہ سے اللہ سے سودا ہی نہ کیا اور اُن کے بعد ان کے خلفا یعنی صحابۂ کرام و  اولیاے کاملین کے وسیلے سے اللہ سے بیعت ہی نہ کی وہ اللہ سے کیسے اور کیا تعلق جوڑ ے گا، کیا دے گا اور کیا لے گا۔

پیری مریدی کا ثبوت

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

ترجمہ: ’’ بے شک جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے بیعت کرتے ہیں وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ سے بیعت کرتے ہیں اور اللہ کا ہاتھ[دست قدرت] ان کے ہاتھوں پر ہے پس جس نے توڑ دیا اس بیعت کو تو اس کے توڑنے کا وبال اس کی اپنی ذات پر ہو گا اور جس نے پورا کیا اس عہد کو جو اس نے اللہ تعالیٰ سے کیا تو وہ اس کو اجرِ عظیم عطا فرمائے گا۔(سورہ فتح  آیت10)۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت سے معلوم ہوا کہ بزرگوں کے ہاتھ پر بیعت کرنا صحابۂ کرام کی سنت ہے (جلد 9 صفحہ 360 )۔

بیعت اللہ کی رضا اور مومنین کے دل کی تسکین کا ذریعہ بھی ہے کیوں کہ یہ ان کے اللہ سے رشتہ اور تعلق قائم ہونے کی دلیل ہےصحابۂ کرام نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے درخت کے نیچے بیعت کی تو اللہ تعالی  ان سے راضی ہو ا اور ارشاد فرمایا  ۔

ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ مومنوں سے راضی ہوچکا جس وقت وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے درخت کے نیچے بیعت کرتے ہیں(سورہ فتح  آیت 18 )۔

اور حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیعت کے وقت نہ تھے،حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنا ایک ہاتھ حضرت عثمان کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ کو دست قدرت کا نائب بنایا اور فرمایا یہ اللہ کا دست قدرت ہے اور یہ عثمان کا ہاتھ ہے تو آپ نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور بیعت کی ۔(صحیح بخاری )۔

    مذکورہ قرآنی آیات و  احادیث سے جہاں بیعت کا ثبوت ہوا  وہیں ساتھ ہی  ساتھ یہ بھی پتہ چلا کہ بیعت کے لیے سامنے ہونا ضروری نہیں ہے

پیری مریدی کے ثبوت پر  مذکورہ اصل کھلی دلیل ہے جس کا انکار آج تک کسی مجتہد نے نہیں کیا اور جو بیعت سے انکار کرے وہ کم عقل اور گمراہ ہے ۔

اللہ تعالی سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد فرماتا ہے :  یوم ندعوا کل اناس بامامھم

ترجمہ : جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے(آیت نمبر 71 )۔

تفسیر نور العرفان میں اس آیت کے تحت مفتی احمد یار خان صاحب نعیمی علیہ الرحمہ تحریرفرماتے ہیں ۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ دنیامیں کسی صالح کو اپنا امام بنالینا چاہیے،شریعت میں تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو ۔

اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہوگا ۔اس آیت میں تقلید ؛بیعت اور پیری مریدی سب کا ثبوت ہے

 پیر کے لیے کتنی شرطیں ہونا ضروری ہیں

اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی نے پیر کی چار شرائط بیان فرمائی ہیں ۔

پہلی شرط  : سنی صحیح العقیدہ ہو۔

دوسری شرط : اتنا علم رکھتا ہو کہ اپنی ضروریات کے مسائل کتابوں سے نکال سکے۔

تیسری شرط :  فاسق معلن نہ ہو یعنی اعلانیہ گناہ نہ کرتا ہو 

چوتھی شرط  : اس کا سلسلہ نبی کریم ﷺ تک متصل یعنی ملا ہواہو۔ (فتاوٰی رضویہ ،  ج ۲۱،  ص ۶۰۳)۔

ان چاروں میں سے ایک بھی شرط نہ پائی جائے تو اس سے بیعت جائز نہیں ہے اور ایسا شخص پیر ہونے کے قابل نہیں ہے ۔اگر کسی نے ایسے شخص سے بیعت کی ہے تو اس کی بیعت صحیح نہیں، اسے چاہیے کہ ایسے شخص سے بیعت ہو جس میں یہ چاروں شرطیں پائی جاتی ہوں ۔

 جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے؟

شیخ شہاب الدین سہروردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’جس کا کوئی پیر نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے۔‘‘( عوارف المعارف)۔

امام ابو القاسم قشیری رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب رسالہ قشیری میں بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو نقل کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں کہ’’بایزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جس کا پیر کوئی نہ ہو اس کا پیر شیطان ہے (رسالۂ قشیریہ)۔

میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب سبع سنابل میں فرماتے ہیں کہ ’’اے جوان تو کب تک چاہے گا کہ بغیر پیر کے رہے اس لیے کہ مہلت دینے اور ٹالتے رہنے میں مصیبت ہی مصیبت ہے ۔اگر تیرا کوئی پیر نہیں ہے توشیطان تیراپیر ہے جو دین کے راستوں میں دھوکا اور چالوں سے ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ اور فرماتے ہیں بغیر پیر کے مرجانا مردار موت کے مانند ہے ۔     (سبع سنابل)۔

دیوبندیوں کے پیشوا  رشید احمد گنگوہی کہتے  ہیں کہ ’’مرید کو یقین کے ساتھ یہ جاننا چاہیے کہ شیخ کی روح کسی خاص مقیدومحدود نہیں پس مریدجہاں بھی ہو گا خواہ قریب ہو یا بعید تو گو شیخ کے جسم سے دور ہے لیکن اس کی روحانیت سے دور نہیں ‘‘  (امداد السلوک ،ص ۶۷ ،مولف رشید گنگوہی ،ادارۂ اسلامیات)۔

ذرا غور کریں ایسے ایسے جید عالموں اور خود دیوبندیوں کا امام کہتا ہے کہ پیر کے بغیر ہمارا ایمان نہیں بچ سکتا اور اس کی روح سے مرید کو فیض پہنچتا رہتا ہے۔ تو پتہ چلا مرشد کا دست مرید کے سر پر ہونا ضروری ہے۔

 کیا بیعت ہونا ضروری ہے

اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا مرید ہونا کوئی ضروری ہے ؟ بس نماز پڑھو ،روزہ رکھو ،زکاۃ دو اور فرائض و واجبات کی پابندی کرو کامل پیر کی کیا ضرورت ہے ؟

اس کا جواب ہم حضرت مولانا روم علیہ الرحمہ سے لیتے ہیں ؛آپ مثنوی شریف میں فرماتے ہیں جس کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے 

ترجمہ:  پیر کا دامن تھام لے کہ یہ سفر بغیر پیر کے آفتوں اور خوف سے بھرا ہوا ہے

یہ راستہ وہ ہے جو تونے پہلے کبھی نہیں دیکھا ،خبر دار اس راستہ پر تنہا نہ جانا اور مرشد سے ہر گز منہ نہ موڑ ۔

جو شخص بغیر مرشد کے اس راستہ پر چلتا ہے وہ شیطان کی وجہ سے گمراہ اور ہلاک ہو جاتا ہے ، آگے پھر مولانا روم فرماتے ہیں کہ: اے نادان سمجحھ اگر پیر کا سایہ نہ ہو تو شیطانی وسوسے تجھے بہت پریشان کریں گے ۔

مرید بننے کے فوائد :  علامہ عبد الوہاب شعرانی اپنی کتاب میزان الشریعۃ الکبری میں فرماتے ہیں کہ سب امام اولیا و علما اپنے پیروکاروں اور مریدوں کی شفاعت کرتے ہیں اور اس وقت مدد کرتے ہیں جب ان کے مرید کی روح نکلتی ہے جب منکر نکیر اس سے قبر میں سوال کرتے ہیں ؛ جب حشر میں اس کے نامۂ اعمال کھلتے ہیں جب اس سے حساب لیا جاتا ہے یا جب اس کے اعمال تولے جاتے ہیں اور جب وہ پل صراط پر چلتا ہے ان تمام مراحل میں وہ اس کی نگہبانی کرتے ہیں اور کسی جگہ بھی غافل نہیں ہوتے (جلد 1 صفحہ 53 )۔

کامل مرشد کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے ایک فائدہ یہ بھی ملتا ہے کہ مرید تو دن بھر کام کاج میں لگا رہتا ہے اور رات میں سو جاتا ہے مگر کامل مرشداپنی عبادتوں کے بعد مرید کی جان و مال اور ایمان کی سلامتی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ اس طرح بیٹھے بیٹھے مرشد کی دعاؤں کا فیضان مرید کو ملتا ہے اور مرید کے ایمان و عقیدہ ،جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت ہوتی ہے۔  

 اللہ تعالی ہم سبھی مسلمانوں کو کسی بھی کامل مرشد  کی رہ نمائی میں زندگی گذارنے کی توفیق مرحمت فرمائے

تحریر: عبدالسبحان مصباحی



 امام محیی الدين نووی  (م676ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وَلَا تَأْخُذْ الْعِلْمَ مِمَّنْ كَانَ أَخْذُهُ لَهُ مِنْ بُطُونِ الْكُتُبِ مِنْ غَيْرِ قِرَاءَةٍ عَلَى شُيُوخٍ أَوْ شَيْخٍ حَاذِقٍ

مفہوم:

اس شخص سے علم نہ لو جس شخص نے بغیر ماہر اساتذہ سے پڑھے صرف کتابوں سے ہی علم حاصل کیا ہو

[النووي، المجموع شرح المهذب، 36/1]

امام ابو اسحاق شاطبی مالکی (م790ھ) رحمہ اللہ کامل محقق عالم دین کی تین علامات ذکر فرمائی ہیں 
ان میں دوسری علامت بیان کرتے ہوئے آپ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

الثانية:
أَنْ يَكُونَ مِمَّنْ رَبَّاهُ الشُّيُوخُ فِي ذَلِكَ الْعِلْمِ؛ لِأَخْذِهِ عَنْهُمْ، وَمُلَازَمَتِهِ لَهُمْ؛ فَهُوَ الْجَدِيرُ بِأَنْ يَتَّصِفَ بِمَا اتَّصَفُوا بِهِ مِنْ ذَلِكَ هكذا كان شأن السلف الصالح 

مفہوم:

دوسری علامت یہ ہے
کہ وہ عالم اس علم میں اساتذہ کا تربیت یافتہ ہو
اور اساتذہ کی شاگردی میں ان سے علم حاصل کیا ہو(اگر ایسا ہو) تو وہ اس لائق ہے کہ اساتذہ کی طرح وہ بھی اس علم کے ساتھ متصف ہوجائے 
یہی سلف وصالحین کا طریقہ  ہے

[الشاطبي، إبراهيم بن موسى، الموافقات، 142/1]
✍️زبیرجمالوی
16/06/2021ء

شوہر کے خلاف عورتوں کے کان بھرنا کیسا؟



 شوہر کے خلاف عورتوں کے کان بھرنا کیسا؟

سنن ابی داؤد کی حدیث پاک ہے

جو کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے وہ ہم میں سے نہیں۔
(سنن ابی داؤد ، حدیث:2175،ص 551 دار ابن کثیر )

وہ لوگ جو اپنی بیٹی، اپنی بہن یا کسی بھی عورت کو یا عورتیں دوسری عورتوں کو ان کے شوہروں کے خلاف بھڑکاتی ہیں اور شوہر کیلئے ان کے دلوں کو خراب کرتی ہیں اور ان کے سامنے ان کے شوہروں کی برائیاں کرکے ان کے دلوں میں زہر بھرتی ہیں یا بھرتے ہیں ان کو  چاہئے کہ وہ اس حدیث سے عبرت حاصل کریں۔
معاشرے کے یہی وہ افراد ہیں جن کی وجہ سے آج طلاقوں میں اضافے ہوتے جارہے ہیں۔۔۔

اگر طلاقوں کی تعداد میں کمی چاہتے ہیں تو اس بری عادت سے چھٹکارا حاصل کریں۔ اور کسی کے گھر کو مت خراب کریں۔۔

مفید مشورہ
بلکہ ماں باپ اور بھائی بہنوں اور گھر کے دیگر افراد کو چاہئے کہ وہ عورت کے سامنے اس کے شوہر کی تعریف اور اس کی وہ اچھائیاں جو اس میں موجود ہے اس کا تذکرہ کریں۔اور اسے اس کے شوہر سے اچھا برتاؤ کرنے اس کی بات ماننے کا درس دیں۔۔۔
اگر ہم نے اس طرح کرنا شروع کردیا تو حیرت انگیز طور پر طلاق کی تعداد میں کمی دیکھنے کوملے گی۔۔

عورتیں اپنے کان بند کرلیں
اور عورتوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایسے شر پسند افراد کی باتوں میں ہرگز نہ آئیں 
جب آپ اپنے شوہر سے طلاق لے کر گھر آجائینگی تو یہی وہ لوگ ہونگے جو معاشرے میں آپ کی برائیاں بیان کررہے ہونگے ۔ ان لوگوں کو آپ کے اور آپ کے بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔
ہر مشکل کے بعد آسانی ہے صبر سے کام لیں اور اپنے شوہر کو اپنا سب کچھ سمجھیں۔۔۔۔

تحریر: 
محمد فیضان عطاری مدنی

دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج اور ہماری کوتاہیاں۔




 دعوت و تبلیغ کا نبوی منہج اور ہماری کوتاہیاں۔

جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب ہم داعی کی حیثیت سے دیکھتے ہیں تو ہمیں آپ کے دعوتی اسلوب میں تخفیف، نرمی اور خیر خواہی ایسے امور نمایاں نظر آتے ہیں یعنی آپ کی دعوت "الاھم فالاھم" کے اصول پر استوار تھی بلکہ آپ حسب موقع و حال اھم امور میں بھی کمی فرما دیا کرتے تھے جیسے اول مرتبہ میں آنے والوں کو صرف ارکان اسلام کی تعلیم فرماتے تھے مستحبات و آداب کے درپے ہرگز نہ ہوتے یہی وجہ ہے کہ نو واردینِ اسلام دین کو بوجھ محسوس نہیں کرتے تھے پھر جب وہ نفوس اصولی طور پر پختہ حال ہو جاتے تب کہیں انہیں آدابِ دین کے ساتھ ساتھ آدابِ معاشرت کے اسباق پڑھائے جاتے تھے جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہمیں روز اول کی تبلیغ کے ثمرات یوں چاہیے ہوتے ہیں کہ ہمارا مخاطَب آدھے گھنٹے کی کوشش میں امام غزالی بن جائے اور حال یہ ہوتا ہے کہ داعی خود امام غزالی کی خاکِ پا بھی نہیں ہوتا اور ظاہر ہے غزالی بنے بغیر غزالی ساز بننے کو  کیکر کے درخت سے آموں کی امید لگانے کے علاوہ کیا کہا جا سکتا ہے ومن دونہ خرط القتاد
اس لیے اگر بہترین نتائج اور دینی و اخروی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں بھی چاہیے کہ دعوت کے لیے نبوی منہج کو اختیار کریں اور  نوآموز کو ایک دن میں نماز،روزہ حج، زکوٰۃ، داڑھی، سنن و نوافل وغیرہ کی سختی سے تلقین کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ اس کے حسبِ حال کیا مناسب ہے یا اس پر زیادہ لازم کیا ہے اس کے حساب سے اولاً فرائض مثلاً نماز کی تلقین کریں، پھر حسبِ موقع اسے دینی تعلیم دیں کوشش یہ ہو کہ دینی لیٹریچر پڑھ کر وہ بندہ خود اپنے اعمال میں اضافہ کرے یہ سب سے مؤثر طریقہ ہے وگرنہ پھر اسے بتدریج دین سکھائیں تاکہ اس کے لیے عمل کرنا آسان ہو یہی (الاھم فالاھم) انسانوں کی اصلاح کا خدائی منہج بھی ہے کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے احکام بھی دفعۃً نہیں اتارے کہ کہیں لوگ اکتا نہ جائیں بلکہ سب سے پہلے توحید و رسالت کے حوالے سے ذہن سازی کی گئی بلکہ اس سے بھی پہلے اپنے نمائندہ خاص کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کے کردار کا چالیس سالہ مشاہدہ کروایا گیا پھر معجزات کے ذریعے اتمامِ حجت کیا گیا بعدہ فرائض لازم کیے پھر مسلسل تربیت کے بعد کہیں جا کر مستحبات کا استحبابی حکم دیا گیا کیونکہ دینی احکام کا مدار تکلیف و تزکیہ پر ہے نفسِ انسانی ہمیشہ ان سے متنفر رہتا ہے ایسے میں ان کو قابلِ عمل بنانے کا یہی معقول طریقہ ہے کہ وہ احکام بتدریج و برموقع و حسبِ حال  لاگو کیے جائیں۔
   جبکہ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم خدائی فوجدار بن کر سرعت نتائج کے ساتھ ساتھ آداب و مستحبات کا اس قدر وسیع پیمانے پر جال بچھا دیتے ہیں کہ دیکھنے والا دور سے دیکھ کر چلا جاتا ہے اور یوں ہم بفحوائے "وھم یحسبون انھم یحسنون صنعا" اپنے تئیں دین کا کام کررہے ہوتے ہیں جبکہ درحقیقت نقصان کر رہے ہوتے ہیں، اللّٰہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔

ابوالحسنات السندی الحنفی

سیرت مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ




 سیرت  مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ


نام ونسب:

اسمِ گرامی:
مفتی محمد امجد علی اعظمی۔
لقب:
صدرالشریعہ ،بدرالطریقہ۔سلسلہ نسب:
مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی بن مولانا حکیم جمال الدین بن حکیم مولانا خدابخش بن مولانا خیرالدین (علیہم الرحمہ)۔ آپ کے والدِ ماجد حکیم جمال الدین اور دادا حضور خدابخش فنِ طِب کے ماہر تھے۔

تاریخِ ولادت:

آپ رحمۃ اللہ علیہ 1300ھ/بمطابق نومبر/1882ء کو محلہ کریم الدین قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ ریاست اترپردیش (انڈیا)میں ایک علمی گھرانے میں پیداہوئے۔

تحصیلِ علم:

اِبتدائی تعلیم اپنے دادا حضرت مولانا خدا بخش سے گھر پر حاصل کی پھراپنے قصبہ ہی میں مدرسہ ناصر العلوم میں جا کر مولانا الہٰی بخش صاحب سے کچھ تعلیم حاصل کی ۔پھرجو نپورپہنچے اور اپنے چچا زاد بھائی اور استاذ مولانا محمد صدیق سے کچھ اسباق پڑھے۔پھرجامع معقولات والمنقولات حضرت علامہ ہدایت اللہ خان رامپوری سے علمِ دین کے چھلکتے ہوئے جام نوش کئے اور یہیں سے درسِ نظامی کی تکمیل کی ۔ پھر دورہ حدیث کی تکمیل پیلی بھیت میں استاذ المحدثین حضرت مولانا وصی احمد محدث سورتی سے کی۔حضرت محدث سورتی نے اپنے ہونہار شاگرد کی عبقری صلاحیتوں کا اعتراف ان الفاظ میں کیا :””مجھ سے اگر کسی نے پڑھا تو امجد علی نے۔””(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)اسی طرح حاذق الملک حکیم عبدالولی لکھنوی سے علم الطب میں کمال حاصل کیا۔آپ کا حافظہ بہت مضبوط تھا ۔ 
ایک مرتبہ کتاب دیکھنے یا سننے سے برسوں تک ایسی یاد رہتی جیسے ابھی ابھی دیکھی یا سنی ہے ۔ تین مرتبہ کسی عبارت کو پڑھ لیتے تو یاد ہو جاتی ۔ ایک مرتبہ ارادہ کیا کہ”” کافیہ”” کی عبارت زبانی یاد کی جائے تو فائدہ ہو گا تو پوری کتاب ایک ہی دن میں یاد کر لی!(الحمد للہ علیٰ ذالک)

بیعت وخلافت:

آپ علیہ الرحمہ امام ِ اہلِ سنت مجدِ دین وملت شیخ الاسلام امام حمد رضا خاں قادری علیہ الرحمہ کے مریدوخلیفہ تھے۔


سیرت وخصائص:

فقیہ الاعظم ،مرجع الفریقین،مجمع الطریقین،صدرِ شریعت،بدرِ طریقت،حکیم الامت،محسنِ اہلِ سنت،خلیفۂ اعلیٰ حضرت،بقیۃ السلف،حجۃ الخلف،سیدنا ومولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ۔علم،تواضع ،شفقت،حلم وعفو،حیاءووقار،عبادت وریاضت زہدوتقویٰ،عفوووفا،جودوسخا، نصیحت و شفقت،الفت و مروت،بردباری،کسرنفسی اوراخلاقِ حسنہ ، الغرض جملہ صفاتِ عالیہ آپ کی ذات میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھیں۔
حضرت صدرالشریعہ علیہ الرحمہ ساری زندگی خلوص وللہیت کےساتھ درس وتدریس،تصنیف وتالیف،وعظ ونصیحت کی صورت میں دینِ اسلام کی حقیقی خدمت کرتے رہے۔آپ نے اپنے بعد والوں کیلئے ایسے انمٹ نقوش ثبت کیے ہیں کہ انشاء اللہ جن کا اثرتاقیامِ قیامت قائم رہیگا اور خدام ِ دین کی راہنمائی کرتا رہیگا۔

صدرالشریعہ بارگاہِ اعلیٰ حضرت میں:

صدرالشریعہ نے اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت کی خدمت میں 18 سال گزارے ۔آپ کی جدوجہد اور آپ کی مصروفیات دیکھ کر حیرانگی ہوتی ہے،کہ ایک انسان اتنے کام بھی کرسکتاہے؟۔ آپ کو “”انجمن اھلسنت “”کی نظامت اور اس کے پریس کے اہتمام کے علاوہ مدرسہ میں تدریس، دوسرے پریس کا کام یعنی کاپیوں کی تصحیح ، کتابوں کی روانگی، خطوط کے جواب، آمد وخرچ کے حساب، یہ سارے کام تنہاانجام دیا کرتے تھے۔ ان کاموں کے علاوہ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بعض مسودات کامَبِیضہ کرنا۔فتووں کی نقل اور ان کی خدمت میں رہ کر فتوٰی لکھنا یہ کا م بھی مستقل طور پر انجام دیتے تھے ۔پھر شہر وبیرونِ شہر کے اکثر تبلیغِ دین کے جلسوں میں بھی شرکت فرماتے تھے۔ بعد نَمازِ عصر مغرِب تک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں نشست فرماتے۔بعدِ مغرِب عشاء تک اور عشاء کے بعد سے بارہ بجے تک اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی خدمت میں فتوٰی نَویسی کا کام انجام دیتے ۔اسکے بعد گھر واپَسی ہوتی اور کچھ تحریری کام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے شب میں آرام فرماتے ۔ آپ کی اس محنت شاقّہ وعزم واستقلال سے اس دور کے اکابر علماء بھی حیران تھے ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے بھائی حضرت مولانا محمد رضاخان علیہ الرحمہ فرماتے تھے :
 مولانا امجد علی کام کی مشین ہیں اور وہ بھی ایسی مشین جو کبھی فیل نہ ہو۔

صدرالشریعہ کے اہلِ سنت پر احسانات:

ترجمۂ کنزالایمان :
صحیح اور اغلاط سے پاک احادیث نبویہ اور اقوالِ ائمہ کے مطابق اردو زبان میں ترجمۂ قرآن کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت کی خدمت میں عرض کیا اور اسطرف توجہ مبذول کرائی تو اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے حامی بھرلی ۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے جاتے اور صدرالشریعہ املاء کرتے جاتے۔اس طرح آج امت کےپاس ایک مجددِ وقت کا ایک عظیم شاہکار ترجمہ موجود ہے۔

بہارِ شریعت:

صدر الشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کاپاک وہندکے مسلمانوں پر بہت بڑا احسان ہے کہ انہوں نے ضخیم عربی کُتُب میں پھیلے ہوئے فقہی مسائل کوسِلکِ تحریر میں پِرَو کر ایک مقام پر جمع کردیا ۔انسان کی پیدائش سے لے کر وفات تک درپیش ہونے والے ہزارہامسائل کا بیان بہارِ شریعت میں موجود ہے ۔ان میں بے شمار مسائل ایسے بھی ہیں جن کا سیکھنا ہر اسلامی بھائی اور اسلامی بہن پر فرضِ عَین ہے۔ فقہِ حنفی کی مشہور کتاب فتاوٰی عالمگیری سینکڑوں علمائے دین علیہم الرحمہ نے عربی زبان میں مرتب فرمائی مگر قربان جائیے کہ صدرالشریعہ نے وہی کام اردوزبان میں تنِ تنہا کردکھایا اور علمی ذخائر سے نہ صرف مفتیٰ بہ اقوال چن چن کر بہارِ شریعت میں شامل کئے بلکہ سینکڑوں آیات اور ہزاروں احادیث بھی موضوع کی مناسبت سے درج کیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خود تحدیثِ نعمت کے طور پر ارشاد فرماتے ہیں:””اگر اورنگزیب عالمگیر اس کتاب (یعنی بہارِ شریعت) کو دیکھتے تو مجھے سونے سے تولتے ۔

صدرالشریعہ اعلیٰ حضرت کی نظرمیں:

صدرالشریعہ اور قاضیِ شرع کا خطاب: 
اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت نے آپ کو “صدرالشریعہ” اور” قاضیِ شرع” کےالقاب عطافرمائے۔

وکیلِ اعلیٰ حضرت:

 اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنت نے سوائے صدر الشریعہ کے کسی کو بھی حتّٰی کہ شہزادگان کو بھی اپنی بیعت لینے کے لئے وکیل نہیں بنایا تھا۔

اعلٰی حضرت کےجنازے کے لئے وصیت:

وصایا شریف صَفْحَہ24 پر ہے کہ مجدِّدِ اعظم ،اعلیٰ حضرت ،امامِ اھلِسنّت، مجدّدِ دین وملت مولانا شاہ امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن نے اپنی نَمازِ جنازہ کے بارے میں یہ وصیَّت فرمائی تھی ۔ ’’المنّۃُ المُمْتازہ’’ ۱؎ میں نمازِ جنازہ کی جتنی دعائیں منقول ہیں اگر حامد رضا کویاد ہوں تو وہ میری نماز ِجنازہ پڑھائیں ورنہ مولوی امجدعلی صاحِب پڑھائیں ۔ حضرتِ حُجَّۃُ الْاِسلام(حضرت مولیٰنا حامد رضا خان) چُونکہ آپ کے’’ وَلی ’’تھے اس لئے انکو مقدَّم فرمایا،وہ بھی مَشرُوط طور پر اور انکے بعدمیرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی نگاہِ انتخاب اپنی نمازِ جنازہ کے لئے جس پر پڑی وہ بھی بلا شرط، وہ ذات صدرُ الشَّریعہ ، بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃُ اللہ الغنی کی تھی۔اسی سے اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت کی صدر الشریعہ علیہ رحمۃُ ر بِّ الورٰی سے مَحَبَّت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔

آستانہ مرشد سے وفا:

ایک مرتبہ کسی صاحِب نے مفتی اعظم ہندشہزادہ اعلیٰ حضرت علامہ مولانا مصطفی رضاخان علیہ الرحمہ کے سامنے صدر الشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کا تذکرہ فرمایاتومفتی اعظم علیہ الرحمہ کی چشمانِ کرم سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا کہ صدر الشریعہ علیہ الرحمہ نے اپنا کوئی گھر نہیں بنایا بریلی ہی کو اپنا گھر سمجھا ۔وہ صاحبِ اثر بھی تھے اور کثیر التعداد طلبہ کے استاذ بھی، وہ چاہتے تو بآسانی کوئی ذاتی دار العلوم ایسا کھول لیتے جس پر وہ یکہ و تنہا قابض رہتے مگر ان کے خلوص نے ایسا نہیں کرنے دیا۔””

صدرُ الشَّریعہ کا خطاب کس نے دیا؟

الملفوظ حصّہ اول صَفْحَہ183مطبوعہ مکتبۃ المدینہ میں ہے کہ میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے فرمایا: آپ مَوجودِین میں تَفَقُّہ (تَ۔ فَق ۔ قُہْ) جس کا نام ہے وہ مولوی امجد علی صاحِب میں زیادہ پائیے گا،اِس کی وجہ یہی ہے کہ وہ اِستِفتاء سنایا کرتے ہیں اور جو میں جواب دیتا ہوں لکھتے ہیں ، طبیعت اَخّاذ ہے، طرز سے واقِفِیَّت ہوچلی ہے ۔میرے آقا اعلیٰ حضرت عَلَیْہِ رَحمَۃُ ربِّ الْعِزَّت نے ہی حضرت مولانا امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ الغنی کو صدرُ الشَّریعہ کے خطاب سے نوازا ۔

دُرودِ رضویہ پڑھنے کا جذبہ

کتنی ہی مصروفیت ہو نَمازِ فجر کے بعد ایک پارہ کی تلاوت فرماتے اور پھر ایک حزب(باب) دلائلُ الخیرات شریف پڑھتے، اس میں کبھی ناغہ نہ ہوتا ، اور بعدِنَمازِ جمعہ بلا ناغہ 100بار دُرودِ رضویہ پڑھتے ۔ حتّٰی کہ سفر میں بھی جمعہ ہوتا تو نمازِ ظہر کے بعد دُرودِ رضویہ نہ چھوڑتے، چلتی ہوئی ٹرین میں کھڑے ہو کرپڑھتے۔ ٹرین کے مسافر اِس دیوانگی پر حیرت زدہ ہوتے مگر انہیں کیا معلوم۔

اِصلاح کرنے کا انداز

اولاد اور طلبہ کی عملی تعلیم وتربیت کا بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خُصُوصی خیال فرماتے تھے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا تقویٰ وَتَدیُّن(یعنی دین داری) اس اَمر کا مُتَحَمِّل(مُ۔تَ۔حَم۔مِل) ہی نہ تھا کہ کوئی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے خِلافِ شرع کام کرے اگر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم میں طَلَبہ یا اولاد کے بارے میں کوئی ایسی بات آتی جو احکامِ شریعت کے خِلاف ہوتی توچِہرہ مبارَکہ کا رنگ بدل جاتا تھا،کبھی شدید ترین بَرہمی کبھی زَجروتَوبیخ(ڈانٹ ڈَپَٹ) اور کبھی تَنبِیہ وسزا اور کبھی مَوعِظہ حَسَنہ غرض جس مقام پر جو طریقہ بھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ مناسِب خیال فرماتے استِعمال میں لاتے تھے۔

مدینے کا مسافر ہند سے پہنچا مدینے میں:

خلیفہ صدرِ شریعت، پیرِطریقت حضرتِ علاّمہ مولیٰنا حافظ قاری محمد مُصلحُ الدّین صِدّیقی القادِری علیہ رحمۃ اللہ القوی سے میں (سگِ مدینہ عفی عنہ)نے سنا ہے، وہ فرماتے تھے:مُصنّفِ بہارِ شریعت حضرتِ صدرُ الشّریعۃ مولیٰنا محمد امجد علی اعظمی صاحِب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے ہمراہ مجھے مدینۃ الاولیا احمدآباد شریف (ھند)میں حضرت سیّد ناشاہ عالم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دربار میں حاضِری کی سعادت حاصِل ہوئی، ان دونوں تختوں کے نیچے حاضرہوئے اوراپنے اپنے دِل کی دعائیں کرکے جب فارِغ ہوئے تو میں نے اپنے پیرومرشِد حضرتِ صدرُالشریعہ علیہ رحمۃُ ر بِّ الورٰی سے عرض کی:حُضور! آپ نے کیا دعا مانگی؟ فرمایا:’ ’ہر سال حج نصیب ہونے کی۔’’ میں سمجھا حضرت کی دُعا کا مَنشا یِہی ہوگا کہ جب تک زِندہ رہوں حج کی سعادت ملے ۔ لیکن یہ دُعا بھی خوب قبول ہوئی کہ اُسی سال حج کا قَصدفرمایا۔ سفینہ مدینہ میں سَوار ہونے کیلئے اپنے وطن مدینۃ العلماء گھوسی( ضِلع اعظم گڑھ) سے بمبئی تشریف لائے ۔یہاں آپ کو نُمونیہ ہوگیا اورسفینے میں سوار ہونے سے قبل ہی ۱۳۶٧ کے ذیقعدۃُ الحرام کی دوسری شب 12 بجکر 26 مِنَٹ پر بمطابِق6 ستمبر 1948 کوآپ وفات پاگئے۔

وصال:

آپ کا وصال 2/ذیقعدہ 1367ھ،بمطابق 6/ستمبر 1948کورات12بجکر 26 منٹ پر ہوا۔آپ کا مزار قصبہ گھوسی ضلع اعظم گڑھ میں ہے۔

قَبْر شریف کی مِٹّی سے شِفاء مل گئی:

گھوسی کے مولانا فخر الدّین کے والِدِ محترم مولانا نِظامُ الدّین صاحِب کے گُردے میں پتھری ہو گئی تھی۔انہوں نے ہر طرح کا علاج کیا لیکن کوئی فائدہ حاصِل نہ ہوا۔ بالآخِرصدرُ الشَّریعہ،بدرُ الطَّریقہ علیہ رحمۃ اللہ القوی کی قبرِ انور کی مِٹی استعمال کی جس سے الحمد للہ عزوجل ان کے گردے کی پتھری نکل گئی اور شِفاء حاصِل ہو گئی۔

مزار سے خوشبو:

آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دفن ہونے کے بعد کئی روز بارِش ہوتی رہی چُنانچِہ قبرِ انور پر چٹائیاں ڈال دی گئیں ۔جب 15دن کے بعد مزار تعمیر کرنے کے لئے وہ چٹائیاں ہٹائی گئیں تو خوشبو کی ایسی لپٹیں اٹھیں کہ پوری فَضا معطّر ہو گئی۔یہ خوشبو مسلسل کئی دن تک اٹھتی رہی

حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کا کعبہ کی چھت پر اذان دینا




 حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کا کعبہ کی چھت پر اذان دینا

فتح مکہ کے موقع پر سیدنا بلال کا کعبہ کی چھت پر اذان دینا سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے مرسلاً مروی ہے
حدثنا زياد بن أيوب، حدثنا أبو معاوية، حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم «أمر بلالا عام الفتح فأذن فوق الكعبة»
(مراسیل ابوداود ۲۳ ۔۔مصنف ابن ابی شیبہ 2330 )

 رسول اللہ ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا ،تو انہوں نے کعبہ کی (عمارت ) پر اذان دی ۔

حدثنا أبو الوليد قال: حدثني جدي، قال: حدثنا عبد الجبار بن الورد المكي، عن ابن أبي مليكة، قال: " لما كان يوم الفتح رقى بلال فأذن على ظهر الكعبة فقال بعض الناس: يا عباد الله، ما لهذا العبد الأسود أن يؤذن على ظهر الكعبة؟ فقال بعضهم: إن يسخط الله عليه هذا الأمر يغيره فأنزل الله عز وجل {يا أيها الناس إنا خلقناكم من ذكر وأنثى} [الحجرات: 13] الآية "

(أخبار مكة وما جاء فيها من الأثار
أبو الوليد محمد بن عبد الله الأزرقي (المتوفى: 250هـ)

فتح مکہ کے دن حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی تو کفار مکہ میں سے کسی نے (تعجب سے ) کہا کہ ایک کالا غلام کعبہ کی چھت پر اذان دے رہا ہے ، تو انہی میں سے ایک نے کہ اگر اللہ کو یہ ناپسند ہوا تو (اس کام کیلئے اس کو بدل دے گا ، تو اللہ کی طرف یہ آیت نازل ہوئی:
’’ اے لوگو ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت (آدم وحوا) سے بنایا اور تم کو مختلف قومیں اور مختلف خاندان بنایا (محض اس لئے کیا) تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو اللہ تعالیٰ کے نزدیک تم میں سب سے بڑا شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ‘‘


اور امام حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ۔۔المطالب العالیہ ۔۔میں لکھتے ہیں :

حدثنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، [عَنْ أَيُّوبَ] ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَوْ عَنْ غَيْرِهِ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، قَالَ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَ بِلَالًا أَنْ يُؤَذِّنَ يَوْمَ الْفَتْحِ عَلَى ظَهْرِ الْكَعْبَةِ، وَالْحَارِثُ بْنُ هِشَامٍ وَصَفْوَانُ بْنُ أُمَيَّةَ قَاعِدَانِ، أَحَدُهُمَا بِجَنْبَيْ صَاحِبِهِ، يُشِيرَانِ إِلَى بِلَالٍ، يَقُولُ أَحَدُهُمَا: انْظُرْ إِلَى هَذَا الْعَبْدِ، فَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ يَكْرَهَهُ اللَّهُ يُغَيِّرُهُ.
(المطالب العالیہ ج ۱۷۔ص٤٨٤)

فتح مکہ کے دن حضور صلى الله عليه وسلم نے حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ کو اذان پڑھنے کا حکم دیا حضرت بلال رضی اللّٰہ عنہ نے کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دی تو کفار مکہ میں سے حارث بن ہشام اور صفوان بن امیہ ایک ساتھ بیٹھے تھے ،(بلال کو اذان دیتا دیکھ کر ) ایک نے کہا اس غلام کو دیکھو (کعبہ کی چھت پر کھڑا اذان دے رہا ہے ) دوسرے نے کہا اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو بدل دے گا


اور امام بیہقی دلائل النبوۃ میں بیان کرتے ہیں کہ :

أخبرنا أبو عبد الله الحافظ، قال: أنبأنا أبو عبد الله [الحافظ] الأصبهاني قال: حدثنا الحسن بن الجهم، قال: حدثنا الحسين بن الفرج، قال: حدثنا الواقدي، قال: فحدثني علي بن عمر، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن سعيد بن المسيب، قال:
’’ لما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم نسكه في القضاء، دخل البيت، فلم يزل فيه حتى أذن بلال الظهر فوق ظهر الكعبة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم أمره بذلك فقال عكرمة بن أبي جهل: لقد أكرم الله أبا الحكم حيث لم يسمع [هذا]  العبد يقول ما يقول، وقال صفوان بن أمية: الحمد لله الذي أذهب أبي قبل أن يرى هذا، وقال خالد بن أسيد: الحمد لله الذي أمات أبي فلم يشهد هذا اليوم حين يقوم بلال بن أم بلال ينهق فوق الكعبة، وأما سهيل ابن عمرو ورجال معه لما سمعوا بذلك غطوا وجوههم. قلت وقد رزق الله تعالى أكثرهم الإسلام ‘‘

عمرہ قضاء میں آپ ﷺ کعبہ کے اندر داخل ہوئے، اور سیدنا بلال رضی اللّٰہ عنہ کے خانہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دینے تک اندر رہے ،اور اس کا حکم سیدنا بلال کو آپ نے دیا تھا ۔
اس موقع پر عکرمہ بن ابوجہل(یا ابو جہل کی بیٹی جویریہ) نے کہا،ﷲ نے ابو الحکم (ابوجہل) کو عزت بخشی کہ اس غلام کو اذان دیتے دیکھنے کا موقع نہیں دیا۔
اور صفوان بن امیہ نے دیکھا تو کہا، خدا کا شکر ہے کہ اس نے یہ دن دیکھنے سے پہلے ہی میرے والد کو اٹھا لیا۔ عتاب (یا خالد) بن اسید نے بھی ایسی ہی بات کہی۔سہیل بن عمرو اور اس کے ساتھیوں نے اس موقع پر اپنے چہرے ڈھانپ لیے۔ بعد میں ان اصحاب میں سے اکثر نے اسلام قبول کر لیا۔

[ذكره الواقدي في المغازي (2: 737- 738) ،
 ونقله ابن كثير في التاريخ (4: 232)