حضور کا باکمال بچپن
*حضور کا باکمال بچپن*
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
*12 ربیعُ الاول شریف بَمُطابِق 20 اپریل571 بروز پیر صُبحِ صادِق کی روشن و مُنوَّر سُہانی گھڑی میں ہَمارے پِیارے آقا، حبیبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی صُورت میں اَزَلی سَعادَتوں اور اَبَدی مُسَرَّتوں کا نُور بَن کر مكہ مُکرَمَہ میں پیدا ہوئے۔*
(📗اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَانِیّ ج۱ ص۶۶۔۷۵ملتقطا)
*جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند*
*اس دِل افروزْ ساعت پہ لاکھوں سلام*
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ باسعادت ہوتے ہی ظُلمَت کے بادَل چَھٹ گئے ، شاہ ِایران کِسریٰ کے مَحل پر زَلزَلہ آیا ، چودہ (14) کُنْگرے گِرگئے ، اِیران کا آتَش کَدہ جو ایک ہزار (1000) سال سے شُعلہ زَن تھا وہ بُجھ گیا اور دَریائے ساوَہ خُشک ہوگیا اور کعبہ کو وجد آگیا ۔
(📗صبح بہاراں ، ص ۲)
*چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے*
*آگئے بدرُ الدُّجٰی، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*
*جُھک گیا کعبہ سبھی بُت منہ کے بل اَوندھے گِرے*
*دَبْدَبہ آمد کا تھا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*
*چودہ کنگورے گِرے آتشکدہ ٹھنڈا ہوا* *سٹپٹا شیطاں گیا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*
(وسائل بخشش،ص۱۴۶،۱۴۷)
*پیارے آقا کی والدہ ماجدہ*
آقائے دوجہاں ،رحمتِ عالَمِیاں ،محبوبِ رَحماں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وِلادَت کے بعد سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والِدہ ماجِدہ حضرت سیِّدَتُنا بی بی آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے نُورِ نظر اور لختِ جگر کو دُودھ پلایا پھر ابولَہب کی آزاد کردہ کنیز حضرت ثُوَیْبَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے یہ شرف پایا۔ اِن کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دُودھ پلانے کی سَعادَت حضرت سیِّدَتُنا حَلیمہ سَعدِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے حصّے میں آئی ۔
(📗سیرتِ رسولِ عربی،ص۵۹)
جِن خُوش نصیب بیبیوں نے پیارے آقا، حبیبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دُودھ پِلانے کا شرف حاصل کیا۔ ان میں حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ اَیمن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کا مُبارَک نام بھی شامل ہے ۔
(📗سیرۃ حلبیہ، باب ذکر رضاعہ ومااتصل بہ، ۱/۱۲۴)
جن خُوش قِسمت بیبیوں نے پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دودھ پِلانے کا شرف حاصل کیا،ان تمام عورتوں کو دولتِ ایمان نصیب ہوئی ۔
حضرت سَیِّدُتنا حلیمہ سَعدیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا دولتِ ایمان کے عِلاوہ مزید برکتوں سے بھی مالامال ہوئیں۔
*باکمال بچپن کی حیرت انگیز برکات*
اے عاشقانِ رسول! حضور کے بچپن کی بَرکتوں کی کوئی انتہا ہی نہیں ، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سَیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے مکان کو اپنی آمد کا شرف کیا بخشا ہر طرف بہار آ گئی،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وجودِ مسعود کی برکتوں سے نہ صرف حضرت سَیِّدَتُنا حلیمہ سعدیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے حصہ پایا بلکہ ان کے جانوروں نے بھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے خُوب خُوب فُیوض و بَرکات حاصِل کئے، چنانچہ
حضرت سَیِّدَتُنا حلیمہ رَضِی اللّٰہُ تَعالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ (جب) ہم رَحمتِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنی گود میں لے کر مکہ شریف سے اپنے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے تو میرا وہی خَچّر اب اِس قَدر تیز چلنے لگا کہ کسی کی سُواری اُس کی گَرْد کو نہیں پہنچتی تھی، قافلے کی عَوْرتیں حَیْران ہو کر مجھ سے کہنے لگیں کہ اے حلیمہ! کیا یہ وہی خَچّر ہے جِس پر تم سُوار ہو کر آئی تھیں یا کوئی دُوسرا تیز رَفتار خَچّر تم نے خرید لیا ہے ؟ اَلْغَرْض ہم اپنے گھر پہنچے وہاں سَخْت قَحط پڑا ہوا تھا، تمام جانوروں کے تَھنوں میں دُودھ خُشک ہو چُکا تھا، لیکن میرے گھر میں قَدَم رکھتے ہی میری بکریوں کے تَھن دُودھ سے بھر گئے،اب روزانہ میری بکریاں جب چَراگاہ سے گھر واپس آتیں تو اُن کے تَھن دُودھ سے بھرے ہوتے حالانکہ پُوری بَسْتی میں اور کسی کو اپنے جانوروں کا ایک قَطرہ دُودھ نہیں مِلتا تھا میرے قبیلہ والوں نے اپنے چَرواہوں سے کہا کہ تم لوگ بھی اپنے جانوروں کو اُسی جگہ چَراؤ جہاں حلیمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے جانور چَرتے ہیں ۔ چُنانچہ سب لوگ اُسی چَراگاہ میں اپنے مَویشی چَرانے لگے، جہاں میری بکریاں چَرْتی تھیں ، مگر یہاں تو چَراگاہ اور جَنگل کا کوئی عَمَل دَخَل ہی نہیں تھا یہ تو رَحْمَتِ عَالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمَ کے بَرکاتِ نُبوّت کا فَیْض تھا جِس کو میں اور میرے شوہر کے سِوا میری قَوم کا کوئی شَخْص نہیں سمجھ سکتا تھا ۔
(📗سيرتِ مصطفٰے،ص۷۵)
*اللہ اللہ وہ بچپنے کی پَھبَن*
محبوبِ کِبرِیا، محمدِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نشو ونُما دُوسرے بچوں سے نِرالی تھی یعنی جِسم شریف کا بڑھنا دوسرے بچوں سے بالکل مُختلف تھا،دن بھر میں پیارےآقا، آمِنہ کے دِلرُبا، حلیمہ کے پِیا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،کے جسمِ مُبارَک میں اِتنی نشو ونُما اور توانائی آ جاتی، جتنی عام طور پر بچّوں میں ایک ماہ میں آتی تھی۔
حضرت سیِّدُنا امام عبدُاللہ مروزی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نقْل کرتے ہیں کہ جب رسولِ اَکرَم، شہنشاہِ اُمَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم کی عمر مبارک 2 ماہ ہوئی تو بچوں کے ساتھ گھٹنوں کے بَل چلنے لگے، 3 ماہ ہوئی تو اُٹھ کر کھڑے ہونے لگے ،جب 4 ماہ ہوئی تو دیوار کے ساتھ ہاتھ رکھ کر ہر طرف چلا کرتے ، 5 ماہ ہوئی تو چلنے پھرنے کی پوری قوت حاصل کر چکے تھے ۔جب عمر مبارک 6 ماہ کو پہنچی تو تیز چلنا شروع فرما دیا تھا ،7 ماہ کو پہنچی تو ہر طرف اچھے طریقے سے دوڑتے تھے اور جب 8 ماہ کے ہوئے تو یوں کلام فرماتے کہ بات اچھی طرح سمجھ میں آجاتی ،9 ماہ کی عمر میں فصیح باتیں کرنا شروع فرما دیں اور جب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم کی عُمْر مبارَک 10 ماہ کی ہوگئی تَو بچوں کے ساتھ تِیر اَندازِی میں سَبقت لے جاتے اور فرماتے : *لِلّٰہِ دَرُّکَ یَا نَفْسُ اَنَا اِبْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ* یعنی اے نفس! تجھے خدا بھلائی دے، میں عبدُ الْمُطَّلِب کا بیٹا ہوں ۔اِنہی اَیَّام میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم سے لوگوں نے پوچھا: تم کون ہو؟فرمایا: میں طاقت کے اِعتِبار سے ایک مَضبُوط ترین عرَب ہوں ، نیزہ بازی میں اِن سب سے زِیادَہ بہادُر، دِین میں سب سے اعلیٰ محمد بن عبدُ اللہ بن عبدُ الْمُطَّلِب (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیہ وَ اٰلہٖ وَ سَلَّم) ہوں ۔
(📗معارِجُ النُّبُوَّۃ، رکن دوم، باب سوم، فصل دوم، ص۵۵)
*اللہ اللہ وہ بچپنے کی پَھبَن*
*اّس خدا بھاتی صورت پہ لاکھوں سلام*
(حدائقِ بخشش، ص۳۰۶)
*پیارے آقا کی پیاری پیاری اَدائیں*
سردارِ مَکَّۂ مُکَرَّمَہ، سلطانِ مَدِیْنَۂ مُنَوَّرہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنی عُمر کے ابتدائی حصّے میں پیدا ہوتے ہی جو کلام فرمایا وہ *اَللہُ اکْبَر کَبِیْراً وَ الْحَمْدُ لِلّٰہ کَثِیْراً* تھا، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو فرشتے جھُولا جھُلاتے تھے۔
(📗سُبُلُ الہُدٰی وَالرِّشَاد، الباب التاسع فی مناغاتہ للقم…الخ، ۱/۳۴۹)
حضرت سیِّدُنا عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے عرْض کی: یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! مجھے تَو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی علاماتِ نُبُوَّت نے دِینِ اِسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔میں نے دیکھا کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ گہوارے میں چاند سے باتیں کرتے اور اپنی اُنگلی سے جس طرف اشارہ فرماتے ، چاند اُسی طرف جھک جاتا۔
(📗جمعُ الجَوامع، حرف الہمزۃ مع النون، ۳/۲۱۲، حدیث:۸۳۶۱)
سَرْوَرِ ذِیشان، مَحبوبِِ رَحمٰن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اِسی معجزے کا نقشہ کھینچتے ہوئے اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں فرماتے ہیں :
*چاند جھک جاتا جدھر اُنگلی اٹھاتے مہد میں*
*کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کِھلونا نور کا*
(📗حدائقِ بخشش، ص۲۴۹)