یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*🔸حیاء ایمان سے ہے🔸*


                                              


                  *🔸حیاء ایمان سے ہے🔸*


حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: 
*اَلْحَیَاءُمِنَ الْاِیۡمَانِ* یعنی حیا ایمان سے ہے۔ 

 (📗صحیح مسلم، کتاب الإیمان، باب بیان عدد شعب الإیمان۔۔۔ الخ، الحدیث۳۶، ص۴۰)  

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! شرم و حیاء ایمان کا رُکنِ اعلیٰ ہے ۔دنیا والوں سے حیا دنیاوی برائیوں سے روک دیتی ہے۔ دین والوں سے حیا دینی برائیوں سے روک دیتی ہے۔ اللہ رسول سے شرم و حیا تمام بد عقیدگیوں بد عملیوں سے بچالیتی ہے۔ ایمان کی عمارت اسی شرم و حیا پر قائم ہے ۔درختِ ایمان کی جڑ مؤمن کے دل میں رہتی ہے  (جبکہ) اس کی شاخیں جنت میں ہیں۔ 

(📗مراٰۃ المناجیح، ج۶، ص۶۴۱)


*🔹باحیا نوجوان🔹*

 امیرِ اہلِسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ العَالِیَہ اپنے رسالے باحیا نوجوان  کے صفحہ 1  پر لکھتے ہیں:

 بَصرہ میں ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ مِسکی کے نام سے مشہُور تھے۔ مُشک کو عَرَبی میں مِسْک کہتے ہیں۔ لہٰذا مِسکی کے معنیٰ ہوئے  مُشکبار  یعنی مُشک کی خوشبُو میں  بَسا ہوا۔ وہ بُزُرگ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ہر وَقْت مُشکبار و خوشبودار رہا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ جس راستے سے گُزر جاتے وہ راستہ بھی مَہَک اُٹھتا۔ جب داخِلِ مسجِد ہوتے تو اُن کی خوشبُو سے لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ حضرتِ مِسکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ تشریف لے آئے ہیں۔ کسی نے عرض کیا، حُضُور!  آپ کو خوشبو پر کثیر رقم خرچ کرنی پڑتی ہوگی۔ فرمایا، میں نے کبھی خوشبو خریدی، نہ لگائی۔ میرا واقِعہ عجیب و غریب ہے:

*🌹فکرِ اعلیٰ حضرت اور دعوتِ اسلامی🌹*




*🌹فکرِ اعلیٰ حضرت اور دعوتِ اسلامی🌹*


از۔۔ *المدینہ العلمیہ (دعوت اسلامی)*
مرتب۔۔ *غلام نبی انجم رضا عطاری*

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی،عِلْمِ دین کو پھیلانے اور دِینِ متین کی خدمت کرنے میں اعلیٰ حضرت،امامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے تحریر کردہ 10 روشن اُصولوں پرعمل کرنے کی کوشش کررہی ہے۔آئیے! وہ 10 اُصول اور ان کی روشنی میں عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی کی مختصراً دِینی خدمات ملاحظہ کیجئے:

(1) *فرمانِ اعلیٰ حضرت*:ذ عظیمُ الشَّان مدارِس کھولے جائیں جن میں تعلیم کا باقاعدہ  سلسلہ ہو۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہ اس مقصد کے تحت عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی نے ملک و بیرونِ ملک 602 جامعات المدینہ(للبنین وللبنات) ، 2980 مدارس المدینہ(للبنین وللبنات) اور 53 دارُالمدینہ (للبنین وللبنات) قائم کئے ہیں۔ 
(یہ تعداد 2019 کی ہے 2020 میں اور اضافہ ہوا ہے)

(2) *فرمانِ اعلیٰ حضرت*: طلبہ کو وظائف ملیں کہ کسی بھی طرح اُن میں شوقِ عِلْمِ دِین پیدا ہو۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہ عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی مدارس و جامعات کے رہائشی طلبہ کو بہترین تعلیمی نظام کے ساتھ ساتھ اُنہیں کھانے پینے، رہائش اور مجلس طِبِّی علاج کے تحت مفت میڈیکل کی سہولیات بھی فراہم کرتی ہے،جبکہ تَخَصُّصْ فِی الْفِقْہ یعنی شرعی مسائل میں  مہارت کا کورس اور تَخَصُّصْ فِی الْحدیث یعنی عِلْمِ حدیث میں مہارت کا کورس کرنے والے طلبہ کی خدمت میں ان سہولیات کے علاوہ تعلیمی اخراجات کے لئے مناسب رقم بھی پیش کرتی ہے۔

(3) *فرمانِ اعلیٰ حضرت*: عمدہ کار کردگی پر مُدَرِّسوں (یعنی اساتذۂ کرام) کو بھاری تنخواہیں دی جائیں تاکہ جان توڑ کر کوشش کریں۔

اَلْحَمْدُلِلّٰہ اس اُصول پر عمل کرتے ہوئے عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک دعوتِ اسلامی جامعات المدینہ اور مدارس المدینہ کے اساتذۂ کرام اور مُعَلِّمَات کو ماہانہ بہترین تنخواہ پیش کرنے کے ساتھ ساتھ بونس اور مقررہ چھٹیاں نہ کرنے کی صورت میں ہر چھ مہینے بعد ان چھٹیوں کی رقم بھی پیش کرتی ہے۔صرف یہی نہیں  بلکہ ممتاز،بہتر اور مناسب دَرَجہ بندی کے اعتبار سے سالانہ اضافہ بھی کیا جاتا اور طے شدہ مدّت کے حساب سے گریڈ اور تنخواہ میں بھی اضافہ کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ مجلس طِبِّی علاج کے تحت اساتذۂ کرام اور مُعَلِّمَات کو فری میڈیکل کی سہولت بھی فراہم کی جاتی ہے۔

*🌹آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینہ🌹*





*🌹آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہینہ🌹*

اُمُّ المومِنین حضرت سیدتنا عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں: 
*شَعْبَانُ شَھْرِیۡ وَ رَمَضَانُ شَھْرُ اللّٰہ*
 یعنی شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کا مہینہ ہے۔

 (📗الجامع الصغیر، للسیوطی، الحدیث ۴۸۸۹، ص۳۰۱)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  رحمت عالم ، نور مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شعبان کو اس لئے اپنا مہینہ فرمایا کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس مہینے میں   روزے رکھا کرتے تھے حالانکہ یہ روزے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر واجب نہیں تھے۔اور رمضان کو اس لئے اللّٰہ تعالیٰ کا مہینہ فرمایا کہ اس نے اس مہینے کے روزے مسلمانوں پر فرض کئے ہیں ۔

 (📗فیض القدیر، تحت الحدیث۴۸۸۹، ج۴، ص۲۱۳)

*صرف 90 دن میں صحاح ستہ مکمل کیجیے*





*صرف 90 دن میں صحاح ستہ مکمل کیجیے*


علماءکرام فرماتے ہیں جب پہلے اگر کسی  ملک پر  حملہ بھی  ہوتا تو  اس وقت کے سلطان علماء کرام  قرات حدیث کا  حکم دیتے تھے ۔
اور خاص طور پر بخاری شریف کی قرات کا التزام کیا جاتا جیسے بغداد پر  تاتاری قوم نے حملہ کیا تو اس وقت کے سلطان نے علماء کرام کو ختم بخاری کا حکم دیا ۔

اور فرمایا گیا ہے جس گھر میں  جامع ترمذی شریف موجود ہے گویا کہ اس گھر میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں اور گفتگو فرما رہے ہیں 

ہمارے  بزرگوں کا  طریقہ رہا ہے کہ وہ  احادیث نبویہ کی  قرات  فرماتے تھے اور اس کا  خاص طور پر اہتمام کیا جاتا تھا۔

آج بھی  عرب دنیا میں اس کا رواج ہے کہ مجلس لگتی ہے  شیخ صاحب  بیٹھتے ہیں اور  کبھی  بخاری  کی قرات ہورہی ہے تو کبھی مسلم کی قرات 
اور یہ ایک  ذوق افزا طریقہ ہے  جس میں  کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سماعت کے دوران جو چاشنی ملتی ہے اس کے  کیا کہنے اسے بندہ صرف محسوس کر  سکتا ہے بیان نہیں کرسکتا 

مگر ہمارے علماء و طلباء کرام  کسی ایک کتاب کی  قرات کرتے ہیں اور وہ  چاہتے ہیں کہ  مکمل  صحاح ستہ کی قرات کریں  مگر نہیں  کر پاتے 
ان کیلئے بہترین طریقہ یہی ہے کہ وہ  *جامع الاصول*
کتاب کی  قرات کریں کیونکہ اس کتاب میں  علامہ ابن اثیر الجزری  علیہ الرحمہ نے صحاح ستہ اور موطا امام مالک کی احادیث لائے ہیں  اور وہ بھی بغیر تکرار کے یعنی جو حدیث بخاری میں آئی ہے تو بقیہ کتب میں اگر آئی ہے تو  علامہ صاحب نے  اسے درج نہیں کیا 
ان  احادیث کی تعداد 9523 ہے 
اور یہ 11 جلدوں پر مشتمل ہے اور  اس کتاب کی12،13 جلد میں اس کتاب میں  مذکور راویوں کے  احوال بیان  کیے گئے ہیں 
اور احادیث میں آنے والے مشکل الفاظ کے معانی بھی  بیان کیے گئے ہیں 

"تعارفِ مُصَنِّف "حلیۃ الاولیاء"




"تعارفِ مُصَنِّف "حلیۃ الاولیاء"

نام ونسب:
آپ کا نام مبارک حافظ اَبُوْنُعَیْم اَحمدبن عبداللہ بن اَحمدبن اِسحاق بن موسیٰ بن مہران مہرانی اَصْبَہانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُوْرَانِی ہے۔آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے اَجدادمیں سے سب سے پہلے مہران نے اِسلام قبول کیا جو حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن جَعْفَر بن ابی طالب  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے غلام تھے۔حافظ صاحب رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے نانا محمدبن یوسف رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ بھی پائے کے عالمِ دین،ولی ٔ کامل اورعابدوزاہدتھے۔
پیدائش ا ورتعلیم وتربیت:
آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ رجب المرجب 336ھـکوایران کے اس مشہورشہراَصبہان میں پیدا ہوئے جس کی سر زمین نے کئی مشہورومعروف اَکابرعُلما وحُفَّاظ کو جنم دیا۔ آپ  رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے علم وعُلما کے درمیان پرورش پائی ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے والد ِماجدحضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن اَحمدعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الصَّمَد اَصبہان کے عُلما ومحدثین میں سے ایک تھے،گویا شہرِ اَصبہان عُلما و محدثین سے اِکتسابِ فیض کرنے والوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس لئے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کو علمی مہارت حاصل کرنے کے کثیر مواقع میسر ہوئے اور یہ چیز آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کی عمدہ صلاحیت اور علمی رغبت کے موافق ثابت ہوئی ۔ پس آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ہم عصر عُلما وحُفَّاظ سے اِکتسابِ فیض کیا اور اَصبہان کے نامورعُلمامیں سے ہوئے۔
طلبِ علم کے لئے سفر:
طلبِ علم کے لئے آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کاطریقۂ کار وہی تھاجوباقی عُلما وحُفَّاظ کا رہا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہنے بغدادِ معلی،مکۂ معظمہ،کوفہ اورنیشاپورکاسفرکیا۔بغدادمیں ابوعلی صواف، مکہ میں ابوبکرآجری،بصرہ میں فاروق بن عبدالکریم خطابی،کوفہ میں ابوعبد اللہ بن یحییٰ،اورنیشاپورمیں ابواَحمدحاکم رَحِمَہُمُ اللہ تَعَالٰیوغیرہ سے علم حاصل کیا۔ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے ہم عصرحُفَّاظ سے علم حاصل کرنے کے بعد جب اَصبہان میں اقامت اِختیار کی تو مختلف مقامات سے لوگ آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ سے اِکتسابِ علم کرنے کے لئے اَصبہان آنے لگے۔
مشائخ:
آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہنے جن محدثین سے اَحادیث سنیں ان میں سے بعض کے نام یہ ہیں:اَبوعَلِی مُحَمَّد بن اَحْمَد بن حَسَن اَلْمَعْرُوْف بِابن صَوَّاف،اَبواِسْحاق اِبراہِیْم بن عبداللہ بن اِسْحاق اَصْبَہَانی، اَبواِسْحاق اِبراہِیْم بن مُحَمَّد بن یَحیٰی مُزَکِّی،اَبواَحْمَد عَسَّال مُحَمَّد بن اَحْمَد بن اِبراہِیْم، اَبوحَفْص فاروق بن عبدالکریم خَطَّابی،اَبوبکر عَطَّاراَحمد بن یوسف بن خَلَّاد،اَبوقاسِم قزار حَبِیْب بن حَسَن بن دَاود،اَبوقاسِم سُلَیْمَان بن اَحمد طَبَرَانی،اَبوبَکرمُحَمَّد بن جَعْفَر بَغْدَادی، ابوشَیْخ بن حَیَّان،اَحْمَد بن بُنْدَارشَعَاروغیرہ ۔
تلامذہ:
آپ رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تلامذہ کی تعدادبے شمارہے،جن میں سے چند مشہورکے نام یہ ہیں:ابوبکرخَطِیب اَحمد بن عبداللہ بن ثابِت بن اَحمد بن مَہْدِی صاحب تاریخ بغداد،عبدالوَاحِدبن مُحَمَّد بن اَحمد صَبَّاع اَصْبَہانی،حَسَن بن اَحمدبن حَسَن حَدَّاد اَصْبَہانی،یُوْسُف بن حَسَن بن مُحَمَّد زَنْجَانی تَفَکُّرِی، ابوبکرمُحَمَّد بن اِبْراہِیْم عَطَّار،ہِبَۃُ اللہ بن مُحَمَّد شِیْرازِیوغیرہ ۔
 تعریفی کلمات:
خطیب بغدادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْہَادِی  فرماتے ہیں: ’’سیِّدُناحا فظ اَبُوْنُعَیْماورسیِّدُناابوحازم عبدوی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِمَا کے علاوہ میں نے کوئی ایساشخص نہیں دیکھاجسے’’حافظ الحدیث‘‘کہا جا سکے۔‘‘
امام سُبکیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’سیِّدُناحافظ اَبُوْنُعَیْمرَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہ امامِ جلیل، حافظ، صوفی، فقہ وتصوُّف کامجموعہ،حفظ وضبط کی انتہااوران نمایاں لوگوں میں سے ایک تھے کہ جنہیں اللہ عَزَّوَجَلَّنے رِوایت ودِرایت میں بلندی اور اِنتہائی دَرَجہ عطا فرمایا۔‘‘

تعارفِ مؤلف عیون الحکایات"





"تعارفِ مؤلف عیون الحکایات"


ابو الفر ج حضرت سیدنا عبدالرحمن ابن جوزی حنبلی علیہ رحمۃ اللہ القوی

نام ونسب :

    آپ کالقب:جمال الدین ،کنیت:ابوالفرج اورنام ونسب:عبدالرحمن بن علی بن محمد بن علی بن عبداللہ بن حمادی بن احمد بن محمد بن جعفر الجوزی بن عبداللہ بن قاسم بن نضر بن قاسم بن محمد بن عبداللہ بن عبد الرحمن بن قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق خلیفہ المسلین خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین
     آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا محمد بن ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے واسطہ سے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تک پہنچتا ہے ۔

ولادت وپرورش:

    آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۵۱۱ھ میں عرو س البلادبغداد شریف میں پیداہوئے۔ابھی آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ تین سال کے تھے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے والد محترم اس دنیا سے رخصت ہوگئے ۔والد کی وفات کے بعد آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پھوپھی نے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پرورش کا ذمہ لیا اور خوب پیار و محبت سے آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پرورش کی ۔

تعلیم:

    جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کچھ ہوش سنبھا لا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پھوپھی جان آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اس علاقے کے مشہور حافظ حضرت سیدنا ابوالفضل بن ناصر علیہ رحمۃ اللہ القادر کے پاس لے گئیں اور خواہش ظاہر کی کہ میرے بھتیجے کو حافظ بنادیں ، اُستاد کی جوہرشناس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ یہ بچہ دینِ اسلام کا سر مایہ ہے اور اِنْ شَاءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مستقبل میں دینِ متین کی خوب خدمت کریگا ۔ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو اپنے حلقہ تلامذہ میں شامل فرمالیا۔
     آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی ذہانت ، محنت اوراستادکے اَدب واِحترام کی وجہ سے کلامِ مجید کو اپنے دل کے آبگینے میں سجالیااور بہت جلد حافظِ قرآن بن گئے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے درسِ حدیث کی ابتداء بھی حضرت سیدنا ابن ناصرعلیہ رحمۃاللہ القادر ہی سے کی اورانہی سے علم القرأۃ سیکھا۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے علمِ فقہ اپنے زمانے کے مشہور حنبلی فقہیہ حضر ت ابوبکر دینوری حنبلی علیہ رحمۃاللہ القوی اور حضرت ابن الفراء رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے علمِ ادب ولغت حضرت ابومنصور ابن جوالیقی علیہ رحمۃ اللہ القوی سے  کی خصوصی شفقتوں اور خاص توجہ سے تقریباً 20سال کی عمر میں باقاعدگی سے وعظ فرمانے لگے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وعظ سننے دورو نزدیک سے لوگ آنے لگے اور آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے مستقل تربیتی اِجتماع شروع کردیا ۔ اس تر بیتی اِجتماع میں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ ، طلباء ، خلفاء، وزراء ، بڑے بڑے بادشاہ ، عوام اور ہر طر ح کے لوگ شامل ہوتے اور اپنی علمی وعملی پیاس بجھاتے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے تربیتی اِجتماع میں لوگو ں کی تعداد تقریباً دس ہزار(10,000)تک ہوتی اور کبھی کبھی تواس اجتماع میں تعداد ایک لاکھ(1,00000)تک پہنچ جاتی ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بہت فصیح وبلیغ کلام فرماتے اور دورانِ بیان اشعار بھی پڑھتے ، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان نصیحت آموز کلمات پر مشتمل ہوتا ، لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا بیان سن کر آخرت کی تیاری کی طرف راغب ہوتے ، گناہ گار گناہوں سے تا ئب ہوجاتے، متقی وپر ہیز گار لوگوں کو مزید جذبہ ملتا، بے علموں کو علم وعمل کی دولت نصیب ہوتی ، بے سکونوں کو سکون ملتا۔
     الغرض! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے دور کے عظیم مُبَلِّغ تھے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا انداز سب سے منفرد تھا،دورانِ بیان قرآن پاک کی آیتیں پڑھتے، تر غیب کے لئے واقعات بیان فرماتے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے تربیتی اجتماع میں شریک ہونے والا خوب فیض یاب ہوتا، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ دینِ اسلام کے ایک عظیم مُبَلِّغ تھے ۔

ابو طالب کے نام کے حضرت لکھنا کیسا۔۔۔۔؟




ابو طالب کے نام کے حضرت لکھنا کیسا۔۔۔۔؟

سوال:
*حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب کے لیے لفظِ حضرت لکھنا کیسا ہے ؟*

جواب:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا ابو طالب کی موت چونکہ کفر پر ہوئی اس لیے ابو طالب کو حضرت ابو طالب کہنے کی اجازت نہیں ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"آیاتِ قرآنیہ و احادیثِ صحیحہ متوافرہ متظافرہ سے ابوطالب کا کفر پر مرنا اور دم واپسیں ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کار اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت، جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 29 صفحہ 661 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*

فقیہِ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین احمد امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ابوطالب کو حضرت ابو طالب کہنے کی اجازت نہیں، اس لیے کہ ان کی موت کفر پر ہوئی۔"
*(فتاوٰی فیض الرسول جلد 3 صفحہ 358 شبیر برادرز لاہور)*

مسلمان عورتوں کا مانگ میں سیندور اور پیشانی پر ٹکلی (یعنی بِنْدِی) لگانا کیسا ہے؟




مسلمان عورتوں کا مانگ میں سیندور اور پیشانی پر ٹکلی (یعنی بِنْدِی) لگانا کیسا ہے؟


مسلمان عورتوں کیلیے مانگ میں سیندور لگانا ناجائز و حرام ہے اور جب تک سیندور لگا رہے گا تو غسل نہیں ہوگا کیونکہ یہ پانی کو جسم تک پہنچنے سے روکتا ہے.
چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"سیندور لگانا مثلہ میں داخل اور حرام ہے، نیز اوس کا جرم پانی بہنے سے مانع ہوگا جس سے غسل نہیں اترے گا."
*(فتاوی امجدیہ جلد 4 صفحہ 60 مکتبہ رضویہ کراچی)*
جبکہ فی زمانہ ٹکلی (بندی) لگانا مسلمان عورتوں  میں عام ہے کہ وہ عمومی طور پر لگاتی ہیں لہذا اب یہ ہندو عورتوں کے ساتھ خاص نہیں رہا تو اس کے لگانے میں ان سے مشابہت نہیں ہوگی، اس لیے اب مسلمان عورتیں ٹکلی (بندی) لگا سکتی ہیں مگر چونکہ ٹکلی (بندی) پانی کو جسم تک پہنچنے سے روکتی ہے تو وضو اورغسل کیلیے اس کو اتارنا ضروری ہوگا ورنہ وضو اور غسل نہیں ہو گا.
چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"ٹکلی بھی وضو و غسل کے ادا کرنے میں مانع ہیں۔"
*(فتاوی امجدیہ جلد 4 صفحہ 60 مکتبہ رضویہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم 
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
14/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح
*عبده محمد عطاء الله النعيمي خادم الحديث والافتاء بجامعة النور، جمعة اشاعة اهل السنة (باكستان) كراتشي*

اعلی حضرت کی علامہ عینی سے محبت کی وجہ۔۔!!




🌺اعلی حضرت کی علامہ عینی سے محبت کی وجہ۔۔!!🌺


عشق کا تقاضہ یہی ہے کہ جس سے محبت کی جائے اس سے نسبت رکھنے والوں سے بھی  محبت کی جائے اعلی حضرت کا عشق مثالی تھا
آپ ایسے عاشق رسول  صلی اللہ علیہ وسلم تھے  جو بھی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا  محب ہوتا وہی  اعلی حضرت کا محبوب ہوتا 

⭐ : ملفوظات اعلی حضرت میں ہے 

علامہ ابن حجر عسقلانی  علیہ الرحمہ (شارح بخاری ) کی عظمت میرے دل میں  علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ سے  زیادہ تھی  
لیکن جب  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے  فضلات مبارکہ کی طہارت کی  بحث ان دونوں حضرات نے کی 
علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمہ نے محدثانہ بحث لکھی اور علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ نے بھی بہت تفصیل سے گفتگو فرمائی اور آخر میں فرمایا:

یہ سب ابحاث ہیں جو شخص طہارت کا قائل ہے اسے  مانتا ہوں  اور  جو اسکے  خلاف پر ہے  میرے کام اس کیلئے  بہرے ہیں ،میں نہیں سنتا 
اعلی حضرت فرماتے ہیں:
 یہ الفاظ انکی کمال محبت پر دلالت کرتے ہیں اور میرے دل میں ایسے  اثر کر گئے کہ  علامہ بدرالدین عینی علیہ الرحمہ کی عظمت  میرے دل میں بڑھ گئی ۔

جیسےاستادزمن ، شہنشاہ سخن، برادر اعلی حضرت ،  حسان الھند مولانا حسن رضا خان فرماتے ہیں 

*ہم کو ہے وہ عزیز جسے تو عزیز ہو*
*ہم کو ہے وہ پسند جسے آۓ تو پسند*

*امام احمد رضا خان سید کیوں نہیں تھے؟*




*امام احمد رضا خان سید کیوں نہیں تھے؟*


 سید العلماء حضرت علامہ مولانا سید آل مصطفی میاں صاحب  سجادہ نشین آستانہ عالیہ برکاتیہ مارہرہ  فرماتے ہیں:
میں نے  بہت  غور و فکر کیا کہ اعلی حضرت ہر فضیلت و  کرامت کے  حامل تھے انکی ذات بابرکات مظہر ذات و صفات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم تھی
لیکن اللہ تعالی نے آپ کو  پٹھان قوم میں  کیوں  پیدا  فرمایا ، سادات میں  کیوں  پیدا نہیں فرمایا؟؟
غور و فکر کیا تو سمجھ آیا کہ اگر آپ سید  ہوتے اور سید ہوکر  سیدوں  کا  احترام  کرتے، انکی تعظیم کے خطبہ پڑھتے ،تو لوگ  کہ سکتے تھے   میاں  اپنی منہ اپنی تعریف  کررہے ہیں اور اپنی توقیر  کرانے  کیلئے  یہ طریقے اپنا  رہے ہیں 
تو  رب تعالی کی  یہ  حکمت  ظاہر ہوئی کہ آپ کو  سادات میں سے  پیدا نہیں  فرمایا کہ قیامت تک  اعداء دین کو انگلی اٹھانے کا  موقع نہ  مل سکے  

*سید امانت رسول قادری* فرماتے ہیں:

جس شان سے اعلی حضرت نے  سیدوں  کا ادب و احترام فرمایا  اور سادات کی تعظیم و تکریم  کرکے امت کو  دیکھایا تاریخ میں  اسکی  مثال نہیں  ملتی 

⭐ : سید اعلی حضرت کی محفل میں کوئی  پھل وغیرہ آتا تو آپ پہل بھی سادات سے  فرماتے اور  بقیہ حاضرین کی بنسبت  دوگنا پیش  فرماتے 

پالکی سے باہر نکلیں جناب




  ( *پالکی سے باہر نکلیں جناب* )
امام *اہلسنت کے نظریات اور مشن صرف پالکی والے واقعہ تک ہی محدود نہیں کہ آپ ایک واقعہ بیان کریں اور اسی کو امام اہلسنت کا مشن  قرار دیتے رہیں بلکہ امام اہلسنت کے نظریات اور مشن فتوی رضویہ کی 30جلدیں اور حسام الحرمین ،اور رد الروافضہ پر مشتمل ہے ،اب احباب پالکی سے باہر آ کر ذرا غور وخوص سے کتب اعلی حضرت کا مطالعہ فرمائیں تاکہ مشن اعلی حضرت کو سمجھ سکیں  
نیز یہ بات بھی یاد رکھیے پالکی والا واقعہ سادات کی تعظیم و ادب کے لیے قابل تقلید ضرور ہے مگر یہ واقعہ صرف اور صرف سیرت نگاروں نے اپنی کتب میں لکھا اور مقررین نے بیان کیا ہے  لیکن امام اہلسنت کی اپنی ذاتی کسی بھی تصنیف لطیف میں اعلی حضرت نے یہ واقعہ تحریر نہیں کیا نہ پورے فتوی رضویہ میں اور نہ کسی اور کتاب میں لہذا اگر،مشن اعلی حضرت اور نظریات اعلی حضرت کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتے ہیں تو ہمارے علماء کرام اور پیران عظام کو پالکی سے باہر آنا پڑے گا ۔
اعلی حضرت نے جہاں تعظیم سادات کو ملحوظ خاطر رکھا وہاں ساتھ سادات کے عقائد و اعمال کے درست کرنے کی طرف توجہ بھی دلائی  ۔
اگر اب بھی ہم پالکی سے باہر نہ آئے تو یاد رکھیں پھر یہی ہوتا رہے گا کہ جب آپ کسی سید کی اصلاح کی طرف توجہ دلائیں گے تو یہی کہا جاتا رہے گا گستاخ ہوگا سادات کا بے ادب ہوگیا آل رسول کی توہین کر دی ۔
لہذا باہر نکلیں پالکی سے اب بہت ہوگیا عوام کو پالکی کے واقعہ کے ساتھ ساتھ اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی کتب و فتوی سے اصل نظریات اہلسنت سکھائیے۔ اپنی ترجیحات کو پہچانیے اور درست ترجیحات اپنائیے کہ
جو اقوام اپنی ترجیحات جان لیتی ہیں وہ ہی دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتی ہیں ۔۔۔۔۔فتدبر
 *#طالب دعا* 
          
              *محمد ضیاء السلام* *قادری*

*شخصیت کو نکھارنے والی چند خصوصیات*




*شخصیت کو نکھارنے والی چند خصوصیات*


بیان: نگران شوری حاجی محمد عمران عطاری زید مجدہ



1: لوگوں سے نفسیات کے مطابق بات کریں 

 لوگوں سے بہت کم توقع رکھیں  بہت خوش رہیں گے
 لوگ بات بتانے میں بہت تفصیل سے بات کرتے ہیں اسکی وجہ ذہن میں اپنی بات کو مرتب نہیں کرتے کہ کیسے بات کرنی ہے 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جوامع الکلم تھے کہ مختصر بات میں مطلب سمجھا دیتے تھے 
ہر ایک کو مختصر بات کرنی نہیں آتی  بات مختصر کریں مگر مکمل کریں 

 2: لوگوں کو اہمیت دینا

لوگوں کو انکے نام سے پکارئیے اور انکے نام کو یاد رکھیئے اور اسکا طریقہ یہ ہے اسکے کے نام کو کسی نسبت کی مناسبت سے یاد رکھیں 
انسان کو عزت کا بھوکا نہیں ہونا چاہئے عزت مانگنے سے نہیں کردار سے ملتی ہے
  اراکین شوری کا مدنی مشورہ ہوتا ہے تو ہر ایک کا یہی ذہن ہوتا ہے کہ کوئی بھی آ جائے اسے عزت دینی ہے اور اس کیلئے کھڑے ہوجانا ہے
 آپ لوگوں کو اہمیت دیں اور انکے اچھے کاموں کی تعریف کریں اس سے شخصیت میں نکھار پیدا ہوتا ہے 
 
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ ایسی تھی کہ آپ ہر ایک کو عزت دیتے تھے 
حضرت سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں   میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ مسکراتے ہوئے دیکھا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دائم الفکر تھے
 
ایک صحابی حاضر خدمت ہوئے تو بیٹھنے کیلئے جگہ نہیں تھی  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر آگے بڑھا دی  آقا علیہ السلام اپنے غلاموں کو اہمیت دیتے تھے 

ہمیں اپنے بڑوں کو عزت دینی چاہیے اس سے عزت بڑھے گی 
امیر اھلسنت کے پاس اگر ذمہ دار آتا ہے آپ کھڑے ہوجاتے ہیں اگر کھڑے نہیں ہو سکتے تو ایسا محسوس کراتے ہیں کہ  آپ نے اسکو عزت دی ہے

3: جس سے بات کر رہے ہو اسکی عمر  ،مقام و مرتبہ کو پیش نظر رکھیں 

*🔹رزّاق کا کرم🔹*




*🔹رزّاق کا کرم🔹*


حضرتِ سیِّدُنا ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ ﷲ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشاد فرماتے ہیں:  
*🥀 ’’ اِنَّ الرِّزْقَ لَیَطْلُبُ الْعَبْدَ کَمَا یَطْلُبُہٗ اَجَلُہ🥀* 
یعنی روزی بندے کو ایسے تلاش کرتی ہے جیسے اسے اس کی موت تلاش کرتی ہے۔ 

(📗حلیۃ الاولیاء، رقم ۷۹۰۸، ج۶، ص۸۹)  

 میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! مقصد یہ ہے کہ موت کو تم تلاش کرو یا نہ کرو بہرحال تمہیں پہنچے گی یونہی تم رزق کو تلاش کرو یا نہ کرو ضرور پہنچے گا ۔ہاں !  رزق کی تلاش سنّت ہے  (اور) موت کی تلاش ممنوع ، مگر ہیں دونوں یقینی ۔ 

( 📗مرأۃ المناجیح، ج۷، ص۱۲۶)

*🦌بُھنا ہوا  ہَرن*

حضرتِ سیِّدُنا ابو ابراہیم یمانی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الغَنِی فرماتے ہیں:  ’’  ایک مرتبہ ہم چند رفقاء حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیْہ رَحْمَۃُ اللہِ الاَعْظم کی ہمراہی میں   سمندر کے قریب ایک وادی کی طر ف گئے۔ ہم سمندر کے کنارے کنارے چل رہے تھے کہ راستے میں   ایک پہاڑ آیا جسے جبل ’’  کفر فیر  ‘‘  کہتے ہیں۔ وہاں ہم نے کچھ دیر قیام کیا اور پھر سفر پر روانہ ہوگئے۔ راستے میں  ایک گھنا جنگل آیا جس میں بکثرت خشک درخت اور خشک جھاڑیاں تھیں۔ شام قریب تھی، سردیوں کا موسم تھا۔ ہم نے حضرت سیِّدُنا ابراہیم بن ادہم عَلَیہِ رَحْمَۃ اللہِ الْاَکْرَم  کی بارگاہ میں   عرض کی :

اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی/ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ /حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ/ یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ




"اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی/ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ /حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ  یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ"

سوالات:
1- *اہل علم سے دریافت کیا جاتا ہے کہ اسلام میں خلافتِ راشدہ کتنا عرصہ قائم رہی ؟*
 
2- ملوکیّت کا کیا مطلب ہے اور اول ملوکِ اسلام کون ہیں؟ 
3- نیز حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ، حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنھما کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ کیا ہے ؟
4- اور یزید بن معاویہ کے بارے میں اہلسنت کے عقیدہ کیا ہے ؟ 
بینوا بالکتاب و توجروا عند الحساب
سائل : انجمن نوجوانان اہل سنت میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- خلافتِ راشدہ تیس (30) سال تک قائم رہی۔
چنانچہ صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"منہاجِ نبوت پر خلافتِ حقہ راشدہ تیس سال رہی، کہ سیّدنا امام حسن مجتبیٰ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کے چھ مہینے پر ختم ہوگئی، پھر امیر المؤمنین عمر بن عبد العزیز رضی ﷲ تعالیٰ عنہ کی خلافتِ راشدہ ہوئی اور آخر زمانہ میں حضرت سیّدنا امام مَہدی رضی ﷲ تعالیٰ عنہ ہوں گے۔
*(بہارشریعت جلد 1 حصہ اول صفحہ 257 مکتبۃ المدینہ کراچی)*

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ حساب تقریبی ہے جس میں سال کی کسریں یعنی مہینے چھوڑ دیئے گئے ہیں حساب تحقیقی یہی ہے کہ خلافت صدیقی دو سال چار ماہ، خلافت فاروقی دس سال چھ مہینے، خلافت عثمانی چند دن کم بارہ سال، خلافت حیدری چار سال نو ماہ، چاروں خلفاء کی خلافت انتیس سال سات مہینے نو دن ہے، پانچ ماہ باقی رہے وہ ہی حضرت امام حسن کی خلافت نے پورے کردیئے۔(اشعہ) ان مدتوں کے بیان میں کچھ اختلاف ہے بہرحال حضرت امام حسن کی چند ماہ خلافت پر تیس سال پورے ہوگئے، چونکہ امام حسن کی خلافت دراصل خلافت حیدری کا تتمہ تھی (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا بقیہ حصہ تھی) اس لیے اس کا ذکر علیحدہ نہ فرمایا۔"
*(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 7 صفحہ 204 ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)*
2- ملوکیت سے مراد بادشاہت و سلطنت ہے اور اول ملوکِ اسلام یعنی اسلام کے سب سے پہلے بادشاہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
چنانچہ علامہ علی بن سلطان حنفی المعروف ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و أول ملوک المسلمین معاویۃ رضي اللّٰہ عنہ"*
یعنی اور مسلمانوں کے سب سے پہلے بادشاہ حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
*(منح الروض الأزہر شرح الفقہ الاکبر للقاریٔ، صفحہ 68، 69 مطبوعہ باب المدینہ کراچی)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"امیرِ معاویہ رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اوّل ملوکِ اسلام ہیں، اسی کی طرف توراتِ مقدّس میں   اشارہ ہے کہ:
*’’مَوْلِدُہٗ بِمَکَّۃَ وَمُھَاجَرُہٗ بِطَیْبَۃَ وَمُلْکُہٗ بِالشَّامِ۔‘‘*
’’وہ نبی آخر الزماں (صلی ﷲ تعالیٰ علیہ و سلم) مکہ میں پیدا ہوگا اور مدینہ کو ہجرت فرمائے گا اور اس کی سلطنت شام میں ہوگی۔‘‘
*(المستدرک، کتاب تواریخ المتقدمین من الأنبیاء و المرسلین، رقم الحدیث: 4300، جلد 3، صفحہ 526، دلائل النبوۃ للبیہقي، جلد 6، صفحہ 281، مشکاۃ المصابیح، کتاب الفضائل، رقم الحدیث : 5771، جلد 3، صفحہ 358)*
تو امیرِ معاویہ کی بادشاہی اگرچہ سلطنت ہے، مگر کس کی! محمد رسول ﷲ صلی ﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سلطنت ہے۔"
*(بہارِ شریعت جلد 1 حصہ اول صفحہ 258 مکتبۃ المدینہ کراچی)*

سچی توبہ




سچی توبہ

  فی زمانہ حالات ایسے پُرفِتَن ہیں کہ گناہ کا اِرتکاب کرنا بے حد آسان جبکہ گناہ سے بچنا بے حد دشوار اور نیکی کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے ،لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ گناہوں    سے بچنے اور نیک کام کرنے کی بھرپور کوشش کرے اور جو گناہ اس سے سرزَد ہو چکے ہیں ان سے سچی توبہ کرے کیونکہ سچی توبہ ایسی چیز ہے جو انسان کے نامہِ اعمال سے اس کے گناہ مٹادیتی ہے ،چنانچہ   اللّٰہ   تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:  


’’   وَ هُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَ یَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ  ‘‘  (  شوری:  ۲۵  )  


ترجمہ  ٔ  کنزُالعِرفان  : اور وہی ہے جو اپنے بندوں سے توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہوں سے درگزر فرماتا ہے اور جانتاہے جو کچھ تم کرتے ہو۔  


  حضرت   عبداللّٰہ بن مسعود     رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا:’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے وہ شخص جس کا کوئی گناہ نہ ہو۔  (   ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر التوبۃ،  ۴   /   ۴۹۱  ، الحدیث:   ۴۲۵۰  )  


   اورحضرت انس 

 رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:   ’’جب بندہ اپنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے تو اللّٰہ تعالیٰ اعمال لکھنے والے فرشتو ں کو اس کے گناہ بُھلا دیتا ہے،اس کے اَعضا کو بھی بھلا دیتا ہے اور ا س کے زمین پر نشانات بھی مٹا ڈالتاہے یہاں تک کہ جب وہ قیامت کے دن اللّٰہ تعالیٰ سے ملے گا تواس کے گناہ پر کوئی گواہ نہ ہوگا۔  (   الترغیب والترہیب،کتاب التوبۃ والزہد،الترغیب فی التوبۃ والمبادرۃ بہا واتباع السیّئۃ الحسنۃ،  ۴   /   ۴۸  ،الحدیث:   ۱۷  )  

    اللّٰہ تعالیٰ ہمیں سابقہ گناہوں    سے سچی توبہ کرنے اور آئندہ گناہوں سے بچتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، اٰمین۔


🖋️ عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057

*نعرہ "سیدنا معاویہ کی سیاست زندہ باد" اور نعرہ فیضان معاویہ جاری رہے گا کی تحقیق.........!!*




*نعرہ "سیدنا معاویہ کی سیاست زندہ باد" اور نعرہ  فیضان معاویہ جاری رہے گا کی تحقیق.........!!*

.
اہلسنت نے ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے....حق چار یار کا نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے...خلفاء راشدین کی سیاست حکومت زندہ آباد نعرہ لگایا لگاتے رہیں گے، خلفاء راشدین کا فیضان جاری رہے گا نعرہ لگایا لگاتے رہیں گے
مگر
اس کے ساتھ ساتھ صحابی سیدنا معاویہ جنتی کا نعرہ لگایا…سیاست معاویہ زندہ آباد کا نعرہ لگایا، فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگایا
تو
غیراہلسنت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی سیدنا معاویہ کے نعروں کے خلاف ہوگئے اور مذمت کرنے لگے جو اہلسنت ہونے کا دعوی کرتے ہیں
.
آئیے دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی سیاست کیسی تھی…انکی سیرت، انکا کردار کیسا تھا کہ زندہ باد اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کے نعرے درست و حق کہلائیں........؟؟
.
*امام حسن نے جب خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...امارت حکومت عادلہ راشدہ ہے تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو.....؟؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے.....؟؟*
.
وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة
تفسیری ترجمہ:
(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ و راشدہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں
(تاریخ ابن خلدون2/650)

*کیکڑا کھانا کیسا ہے ؟*




*کیکڑا کھانا کیسا ہے ؟*

چونکہ کِیکڑا مچھلی نہیں بلکہ ایک قسم کا کیڑا ہے لہذا اس کا کھانا حرام ہے کیونکہ احناف کے نزدیک مچھلی کے سِوا دریا کا ہر جانور حرام ہے اور طافی مچھلی یعنی جو مچھلی بِغیر کسی ظاہری سبب کے خود بخود مر کر پانی میں اُلٹی تیر جائے تو وہ بھی حرام  ہے۔
چنانچہ ملک العلماء امام علاءالدین ابوبکر بن سعود کاسانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :  
*فجمیع ما فی البحر من الحیوان محرم الاکل الا السمک خاصۃ فانہ یحل اکلہ الا ما طفا منہ، و ھذا قول اصحابنا رضی اللہ تعالیٰ عنھم۔۔۔۔*
*{و يحرم عليهم الخبائث} [الأعراف: 157] و الضفدع و السرطان و الحية و نحوها من الخبائث"*
یعنی وہ تمام حیوان جو سمندر میں رہتے ہیں، ان کا کھانا حرام ہے سوائے مچھلی کے خصوصی طور پر پس اس کا کھانا حلال ہے مگر جو اس میں سے خود بخود مر کر پانی کی سطح پر تیر پڑے (تو وہ حرام ہے) اور یہ ہمارے اصحابِ (احناف) رضی اللہ تعالیٰ عنھم کا قول ہے۔۔۔۔
اور اللہ تبارک و تعالی کا فرمان ہے :
*"و يحرم عليهم الخبائث"*
ترجمہ : اور وہ خبائث (گندی چیزیں) ان پر حرام فرمائے گا، اور مینڈک، کیکڑا اور سانپ وغیرہ خبائث (گندی چیزوں) میں سے ہیں۔
*(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع جلد 4 صفحہ 144 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"سرطان (یعنی کیکڑا) کھانا حرام ہے."
*(فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 208 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*

*علماء انبیاء کے وارث ہیں*



*علماء انبیاء کے وارث ہیں*


جامع صغیر میں حدیث

"اکرموا العلماء فانہ ورثۃ الانبیاء "

(علماء کا احترام کرو کیونکہ وہ انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔) 

دو٢ طریقوں سے آئی ہے 

،اوّل: ابن عساکر عن ابن عباس رضی الله  تعالٰی عنہما۔

دوم: رواہ الخطیب فی التاریخ عن جابر بن عبدالله  رضی الله  تعالٰی عنہما۔

علّامہ مناوی وعلّامہ عزیزی نے تیسیر وسراج المنیر میں زیر طریق اول لکھا:

 ضعیف لکن یقویہ مابعدہ 

(ضعیف ہے مگر پچھلی حدیث اسے قوّت دیتی ہے) 

زیرِ طریق دوم فرمایا: 

ضعیف لضعف الضحاك بن حجرۃ لکن یعضدہ ماقبلہ 

(ضحاك بن حجرۃ کے ضعف سے یہ بھی ضعیف ہے مگر پہلی اسے طاقت بخشتی ہے۔)

 متتبعِ کلماتِ علماء اس کی بہت مثالیں پائے گا

اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث درجہ حسن کو پہنچتی ہے  کیونکہ کیونکہ علماء کرام نے  

صراحت فرمائی ہے کہ کسی حدیث کے قوت پانے کیلئےکم از کم دو طرق سے مروی ہو  


الجامع الصغیر مع فیض القدیر حدیث ١٤٢٨ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ٢/٩٣


(فتاوی رضویہ ج٥ ص ٤٦٤)


*✍محمد ساجد مدنی*

فیروز نام رکھنا کیسا ہے ؟




فیروز نام رکھنا کیسا ہے ؟

سائل : فیروز احمد جبلپور ایم پی انڈیا
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
فیروز ایک قسم کے قیمتی پتھر، کامیاب اور فتح مند کو کہتے ہیں، اس نام کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ فیروز تو ایک جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ کا بھی نام بھی ہے، جنہوں نے نبوت کے جھوٹے دعویدار اسود عنسی کو واصلِ جہنم کیا تھا، اس لئے اس نام کے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"آپ کا نام ابو عبدﷲ یا ابو عبدالرحمان ہے، ابن فیروز دیلمی حمیری فارسی النسل ہیں،آپ کے والد فیروز نے اسود عنسی کو قتل کیا جو مدعی نبوت تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مرضِ وفات شریف میں جب اس قتل کی خبر پہنچی تو فرمایا کہ اسے نیک بندے نے قتل کیا، امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ۵۰ھ؁ میں انتقال ہوا، دیلمی صحابی ہیں اور ان کے بیٹے ابوعبدالرحمن تابعی، دیلم ایک پہاڑ کا نام ہے۔"
*(مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب الایمان بالقدر، الفصل الثالث، جلد 1 صفحہ 118 قادری پبلیشرز لاہور)*
المنجد میں ہے :
"الفِیْرُوْز و الفَیْرُوزُ و الفَیْرُوْزَ ج والفِیْرُوْزَ ج ایک قسم کا قیمتی پتھر۔"
*(المنجد عربی اردو صفحہ 663 خزینہ علم و ادب لاہور)*

سیرتِ اعلٰیحضرت کے چند گوشے




*🌹 تو مجدد بن کے آیا اے امام احمد رضا*🌹

سیرتِ اعلٰیحضرت کے چند گوشے

*✍️غلامِ نبی انجم رضا عطاری*
(جڑانوالہ , پنجاب پاکستان)

*🥀میرے اعلیٰحضرت*

*اعلٰیحضرت ، اِمامِ اَہلسنّت ، عظیمُ البَرَکت، عَظِیمُ المَرْتَبت، پروانۂِ شمعِ رِسالت ، مُجَدِّدِ دِین ومِلَّت، حضرتِ علَّامہ مولٰینا الحاج الحافظ القاری الشّاہ امام احمد رَضا خان  علیہ رحمۃ الرحمٰن* کی ولادت باسعادت بریلی شریف (ہند) کے مَحَلّہ جَسولی میں 10 شَوَّالُ الْمُکَرَّم 1272ھ بروز ہفتہ بوقتِ ظہر مطابِق 14 جون 1856ء کو ہوئی۔ سِنِ پیدائش کے اِعتبار سے آپ کا تاریخی نام *اَلْمُختار* (۱۲۷۲ھ) ہے۔آپ کا نامِ مبارَک *محمد* ہے، اور آپ کے دادا نے *احمد رضا* کہہ کر پکارا اور اسی نام سے مشہور ہوئے۔پھر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِنے اپنے نام کے ساتھ *عبدالمصطفیٰ* کا اضافہ فرمایا ، جب آپ دستخط کرتے تو *’’ عبدالمصطفیٰ احمدرضا‘‘* لکھا کرتے ۔ایک نعتیہ غزل کے مقطع میں لکھتے ہیں   ؎
*خوف نہ رکھ ذرا رضا تُو تو ہے عبدمصطفیٰ*

*تیرے لئے امان ہے تیرے لئے امان ہے*

  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے صرف تیرہ سال دس ماہ چار دن کی عمر میں تمام مُروَّجہ عُلُوم کی تکمیل اپنے والدِ ماجد *رئیسُ المُتَکَلِّمِین مولانا نقی علی خان علیہ رحمۃ المنّان* سے کرکے سَنَدِ فراغت حاصل کرلی۔ اُسی دن آپ نے ایک سُوال کے جواب میں پہلا فتویٰ  تحریر فرمایا تھا۔ فتویٰ صحیح پا کر آپ کے والدِ ماجد نے *مَسندِ اِفتاء* آپ کے سپرد کردی اور آخر وقت تک فتاویٰ تحریر فرماتے رہے۔

🍂 *شیخِ اعلیٰ حضرت* 🍂

  اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ۱۲۹۴ھ، 1877ء میں اپنے والد ماجد مولانا نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہ  تَعَالٰی عَلَیْہِ کے ہمراہ *حضرتِ شاہ آلِ رسول رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ* کی خدمت میں مارہرہ مطہرہ میں حاضر ہوئے اور سلسلہ قادریہ میں بیعت سے مشرف ہو کر اجازت و خلافت سے بھی نوازے گئے-اس پر کسی نے حضرت شاہ آل رسول رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی خدمت سراپا اقدس میں عرض کی : ’’حضور! آپ کے یہاں تو ایک لمبے عرصے تک مجاہدات و ریاضات کے بعد خلافت واجازت مرحمت کی جاتی ہے ، پھر کیا وجہ ہے کہ ان دونوں (یعنی مولانا نقی علی خان اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِما  )کو بیعت کرتے ہی خلافت عطا فرمادی ؟‘‘اِرشاد فرمایا : *’’اورلوگ زنگ آلود میلا کچیلا دل لے کر آتے ہیں ، اس کی صفائی و پاکیزگی کے لئے مجاہداتِ طویلہ اور ریاضات شاقہ کی ضرورت پڑتی ہے ، یہ دونوں حضرات صاف ستھرا دل لے کر ہمارے پاس آئے ان کو صرف اِتصالِ نسبت کی ضرورت تھی اور وہ مُرید ہوتے ہی حاصل ہوگئی ۔‘‘*

* ادب سے زندگی بنتی ہے *





* ادب سے زندگی بنتی ہے *

✍️غلام نبی انجــــــم رضا عطاری

*🌷ادب بہت بڑی کامیابی🌷*

حضرت سیِّدُنا علیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا فرمان ہے: ادب حاجت کے وقت خزانہ،  مُرَوَّت پر مددگار، مجلس میں رفیق اور تنہائی میں انس پہنچانے والا ہے۔اس کے ذریعے کمزور دلوں کو آباد کیا جاتا ہے، مردہ عقلوں کو زندگی ملتی  ہے اور طلب کرنے والے اسی کے ذریعے اپنی مرادوں کو پاتے ہیں ۔

منقول ہے کہ عقل بلا ادب ایسے ہے جیسے بہادر انسان اسلحے کے بغیر۔

*🍁ادب کا بیٹا:🍁*

ایک شخص نے مامون رشید کے سامنے بہت اچھا کلام کیا تو مامون نے پوچھا: تم کس کے بیٹے ہو؟ اس نے جواب دیا: اے امیر المومنین! میں ادب کا بیٹا ہوں ۔مامون رشید نے کہا: تم نے بہت اچھے نسب کی طرف نسبت اختیار کی ہے۔اسی لئے کہا جاتا ہے کہ آدمی کی شناخت اس کے کام سے ہوتی ہے نہ کہ خاندان سے۔

*ایک شاعر لکھتا ہے :* تم چاہے جس کے بیٹے بھی ہو ادب حاصل کرو، اس کی اچھائی تمہیں نسب سے بے نیاز کردے گی۔مَرد وہ ہے جو یہ کہے کہ میں یہ ہوں ، وہ نہیں جو کہے کہ میرا باپ ایسا تھا۔

*🌹ادب کی برکات اور اس سے متعلق اقوال:🌹*

ایک دانا کا قول ہے: جو شخص زیادہ با ادب ہو وہ زیادہ عزت و شرف پالیتا ہے اگرچہ وہ گھٹیا خاندان سے تعلق رکھتا ہو،  گمنام ہونے کے باوجود اس کی شہرت ہوجاتی ہے، غریب ہونے کے باوجود وہ سردار بن جاتا ہے اور فقیر ہونے کے باوجود لوگ اپنی ضروریات کے سلسلے میں اس کے محتاج ہوجاتے ہیں ۔

منقول ہے کہ فضیلت کا باعث عقل و ادب ہیں نہ کہ خاندان اور حسب نسب۔کہا جاتا ہے کہ آدمی کی پہچان اپنی فضیلت، کمال اور آداب سے ہوتی ہے نہ کہ اپنے قبیلے، خوبصورتی اور کپڑوں سے۔

*ایک شخص سے پوچھا گیا:* تمہیں ادب کس نے سکھایا؟ اس نے جواب دیا: میں نے جاہل کی جہالت کو برا پایا تو اس سے بچنے لگا اور یوں میں نے ادب سیکھ لیا۔

جو شخص اپنی اولاد کے بچپن میں اسے ادب سکھاتا ہے اولاد کے بڑے ہونے کے بعد اسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ جو ادب سیکھتا ہے تو اس کے ذریعے مال اور عزت بھی حاصل کر لیتا ہے۔سب سے اچھی خصلت ادب جب کہ بدترین کلام جھوٹ ہے۔

*بقراط سے پوچھا گیا:* جس کے پاس ادب ہو اور جس کے پاس نہ ہو ان کے درمیان کیا فرق ہے؟ جواب دیا: ان کے درمیان ویسا ہی فرق ہے جیسا کہ حیوانِ ناطق (انسان) اور بے زبان جانوروں کے درمیان ہے۔

مرشدِ کامل کی اہمیت و بیعت کا ثبوت




📝 *مرشدِ کامل کی اہمیت و بیعت کا ثبوت*


پیری مریدی کو نہ ماننے والوں کیلئے ایک اھم اور ضروری مضمون

 *✍️ غلامِ نبی انجم رضا عطاری* 
🥏 _03461934584_

🔸 *ایمان ایک انمول نعمت* 🔸

*اللہ تعالیٰ* کا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں ایمان جیسی انمول نعمت عطا فرمائی۔ ھم اپنی قیمتی دنیاوی اشیاء کو عموماً بڑی حفاظت سے رکھتے ہیں کہ کوئی اسے چُرا نہ لے تو اس انمول نعمت یعنی ایمان کی حفاظت کی فکر تو ہمیں دنیاوی اشیاء سے کئی ذیادہ ہونی چاہیے۔ حضرت سیّدنا ابودرداء رضى اللّہ تعالیٰ عنہ فرمایا کرتے تھے: *"خدا کی قسم!* کوئی شخص اس بات سے مطمئن نہیں ہوسکتا کہ مرتے وقت اس کا اسلام باقی رھے گا یا نہیں!
📗 (کیمیائے سعادت ج٢ص٨٢٥)

📢 *فرمانِ امامِ اہلسنت سیدی اعلحضرت*

امامِ اہلسنت، مجددِ دین و ملت اعلحضرت *الشاہ مولانا احمد رضا خان* علیہ رحمۃ الحمٰن کا ارشاد ہے : علمائے کرام فرماتے ہیں جس کو زندگی میں سلبِ ایمان کا خوف نہیں ہوتا، نزع کے وقت اس کا ایمان سلب ہو جانے کا شدید خطرہ ہے۔
📗 (الملفوظ حصّہ٤،ص٣٩٠)

🕋 *اللّہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر* 

*اے عاشقانِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم !* اللہ عزوجل بے نیاز ہے اس کی خفیہ تدبیر کو کوئی نہیں جانتا، کسی کو بھی اپنے علم یا عبادت پر ناز نہیں کرنا چاہیے۔ شیطان نے *ہزاروں سال عبادت* کی ، اپنی ریاضت و علمیت کے سبب مُعلم الملکوت  یعنی فرشتوں کا استاد بن گیا تھا لیکن اس بدبخت کو تکبر لے ڈوبا اور وہ کافر ہوگیا۔ 
اب بندوں کو بہکانے کیلئے وہ پورا زور لگاتا ہے ، زندگی بھر تو وسوسے ڈالتا ہی رھتا ھے مگر مرتے وقت پوری طاقت صرف کردیتا ہے کہ کسی طرح بندے کا برا خاتمہ ہوجائے۔

🔥 *شیطان مکّار اور پانی کی بوتل* 🏺

ایک بار مدینے کے *تاجدار صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم* کے دربار میں شیطان مکار روپ بدل کر ھاتھ میں پانی کی بوتل لیے حاضر ہوا اور عرض کی : میں لوگوں کو نزع کے وقت یہ بوتل ایمان کے بدلے فروخت کیا کرتا ہوں۔
یہ سن کر پیارے آقا صلی اللّٰہ علیہ وسلم اتنا روئے کہ اہلبیت اطہار بھی رونے لگے۔
اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی ، *اے  میرے محبوب!* آپ غم مت کیجیے! میں بحالتِ نزع اپنے بندوں کو شیطان کے مکر سے بچاتا ہوں ۔
📗 (روح البیان ج١٠ص٣١٥)

شافع اُمت نافع خَلْقَت🌹
رافع رتبے بڑھاتے یہ ہیں🌹
اس کی بخشش ان کا صدقہ🌹
دیتا وہ ہے دِلاتے یہ ہیں🌹

عقل و دانائی کی حقیقت و فضیلت




*📝عقل و دانائی کی حقیقت و فضیلت* 


عقل کی ضرورت و فضیلت اور عقل کی حقیقت کو سمجھنے کیلئے ایک لاجواب مضمون۔۔۔۔

*✒️مضمون نگار*
*🥀غلام نبی انجم رضا عطاری🥀*
📲_03461934584_
 
*🍁عقل کی پیدائش:*

سرکارِ مَکَّہ مُکَّرَمہ، سردارِ مدینہ مُنَوَّرَہ نے ارشاد فرمایا: اللہ عَزَّوَجَلَّ نے سب سے پہلے عقل کو پیدا فرمایا۔ اس سے فرمایا: آگے آ تو وہ آگے آگئی۔فرمایا: پیچھے جا تو وہ پیچھے چلی گئی۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: مجھےاپنی عزت و جلال کی قسم! میں نے کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو میرے نزدیک تجھ سے زیادہ عزت والی ہو، میں تیرے ہی سبب پکڑوں گا، تیرے ہی سبب عطا کروں گا، تیری ہی وجہ سےحساب لوں گا اور سزا بھی تیرے سبب ہی دوں گا۔ 
📗(شعب الایمان ، فصل فی فضل العقل، حدیث ٤٦٣٣)

اہْلِ علم ومعرفت کہتے ہیں کہ عقل ایک روشن و چمکدار جوہر ہے جسےاللہ عَزَّوَجَلَّ نے دماغ میں پیدا فرمایا اور اس کا نور دل میں رکھا اور دل اس کے ذریعے واسطوں کے سہارے معلومات اور مشاہدے کی بدولت محسوسات کا علم حاصل کرتا ہے۔

*♻️عقل کی اقسام:*

اس بات کو جان لو کہ عقل کی دو قسمیں ہیں ، ایک قسم وہ ہے جو کمی زیادتی کو قبول نہیں کرتی جبکہ دوسری قسم میں کمی اور زیادتی ہو سکتی ہے۔پہلی قسم فطری عقل کی ہے جو تمام عقل مندوں کے درمیان مشترک ہے جبکہ دوسری قسم تجربے سے حاصل ہونے والی عقل ہے جو کہ کوشش سے حاصل ہوتی ہے،  تجربات اور مشاہدات کی کثرت سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ عقل کی اسی دوسری قسم کے اعتبار سے کہا جاتا ہے کہ بوڑھے شخص کی عقل کامل اور واقفیت زیادہ ہوتی ہے جبکہ تجربہ کار آدمی زیادہ معاملہ فہم اور معرفت والا ہوتا ہے۔

اسی لئے کہا جاتا ہے کہ حوادثِ زمانہ نے جس کے بال سفید کر دیئے ہوں ، مختلف تجربات نے اس کی جوانی کے لباس کو بوسیدہ کر دیا ہواور اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اس کے تجربات کی کثرت کی بدولت اسے اپنی قدرت کے عجائبات دکھائے ہوں وہ عقل کی پختگی اور درست رائے کا زیادہ حق دار ہوتاہے ۔البتہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اپنے لطف و کرم سے جسے چاہتا ہے خاص فرما کر عقل کی ایسی پختگی اور معرفت کی زیادتی عطا فرماتا ہے جو کوشش سے حاصل نہیں ہو پاتی اور اس کی بدولت بندہ تجربہ کار اور سیکھے ہوئے لوگوں سے بھی سبقت لے جاتا ہے۔

حضرت سیِّدُنا یحییٰ بن زکریا عَلَیْہِمَ االسَّلَام کا واقعہ بھی اس بات پر دلالت کرتا ہے جس کی خبردیتےہوئے اللہعَزَّ  وَجَلَّنے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:

وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ 
 (پ۱۶، مریم: ۱۲)   
                                                                                  ترجمۂ کنزالایمان:
 اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔

مسجد کی صفوں کےنیچے فوم بچھانے کا شرعی حکم




"مسجد کی صفوں کےنیچے فوم بچھانے کا شرعی حکم"

سوال:
صفوں کےنیچے مسجد کمیٹی ہلکے فوم بچھانا چاہیتی ہے شرعا اسکا کیا حکم ہے........؟؟
.
جواب:
فوم روئی گدا وغیرہ نرم چیز اتنی باریک ہو کہ بلا دبائے صرف پیشانی رکھنے سے ہی سختی محسوس ہوتی ہو تو کوئی حرج نہیں
اور
اگر روئی فوم گدا تھوڑے موٹے ہوں کہ پیشانی کو دبانے سے سختی معلوم ہوگی تو اگرچہ ایسا فوم جائز ہے مگر احتیاط یہی ہے کہ ایسا فوم نہ بچھایا جاءے کیونکہ اتنا شعور عوام میں نہیں کہ وہ پیشانی کو یاد کرکے دباءیں، لوگ تو بس سر رکھ دیتے ہیں دباتے نہیں...سیدی امام احمد رضا فرماتے ہیں:جو اپنے اہل زمانہ کے احوال کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے(فتاوی رضویہ 16/330)
اور
اگر فوم روءی گدا اتنا موٹا ہو کہ پیشانی دبانے سے بھی سختی محسوس نہ ہو تو نماز ہی نہ ہوگی
.
الْقطن المحلوج يجوز إِن اعْتمد حَتَّى اسْتَقَرَّتْ جَبهته وَوجد حجم الأَرْض وإِلاَّ فَلَا
ترجمہ:
بٹی ہوئی روئی(فوم گدا وغیرہ نرم چیز)پر اگر پیشانی جم جائے اور *زمین کی سختی* محسوس ہو تو نماز جائز ہے ورنہ نہیں
[عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,4/101]

سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت




سیّد المرسَلین  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی عبادت : 

   
علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :اعلانِ نبوت سے قبل بھی آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ     غارِ حرا میں  قیام و مُراقبہ اور ذکر و فکر کے طور پر خداعَزَّوَجَلَّ  کی عبادت میں  مصروف رہتے تھے، نزولِ وحی کے بعد ہی آپ کو نماز کا طریقہ بھی بتا دیا گیا، پھر شب ِمعراج میں نمازِ پنجگانہ فرض ہوئی۔ حضور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نمازِ پنجگانہ کے علاوہ نمازِ اِشراق، نماز ِچاشت،تَحِیَّۃُ الوضوئ، تَحِیَّۃُ المسجد، صلوٰۃُ الاَوَّابین وغیرہ سُنن و نوافل بھی ادا فرماتے تھے۔ راتوں  کو اٹھ اٹھ کر نمازیں  پڑھا کرتے تھے۔ تمام عمر نمازِ تہجد کے پابند رہے، راتوں  کے نوافل کے بارے میں  مختلف روایات ہیں ۔ بعض روایتوں  میں  یہ آیا ہے کہ آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  نمازِ عشاء کے بعد کچھ دیر سوتے ،پھر کچھ دیر تک اٹھ کر نماز پڑھتے پھر سو جاتے، پھر اٹھ کر نماز پڑھتے۔ غرض صبح تک یہی حالت قائم رہتی۔ کبھی دو تہائی رات گزر جانے کے بعد بیدار ہوتے اور صبح صادق تک نمازوں  میں  مشغول رہتے۔کبھی نصف رات گزر جانے کے بعد بسترسے اٹھ جاتے اور پھر ساری رات بستر پر پیٹھ نہیں  لگاتے تھے اور لمبی لمبی سورتیں  نمازوں  میں  پڑھا کرتے ،کبھی رکوع و سجود طویل ہوتا کبھی قیام طویل ہوتا۔ کبھی چھ رکعت،کبھی آٹھ رکعت ،کبھی اس سے کم کبھی اس سے زیادہ۔ اخیر عمر شریف میں  کچھ رکعتیں  کھڑے ہو کر کچھ بیٹھ کر ادا فرماتے، نمازِ وتر نمازِ تہجد کے ساتھ ادا فرماتے، رمضان شریف خصوصاً آخری عشرہ میں  آپ  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  کی عبادت بہت زیادہ بڑھ جاتی تھی۔ آپ ساری رات بیدار رہتے اور اپنی ازواجِ مُطَہّرات     رَضِیَ اللہ تَعَالٰی  عَنْہُنَّ  سے بے تعلق ہو جاتے تھے اور گھر والوں  کو نمازوں  کے لئے جگایا کرتے تھے اور عموماً اعتکاف فرماتے تھے۔ نمازوں  کے ساتھ ساتھ کبھی کھڑے ہو کر، کبھی بیٹھ کر، کبھی سربسجود ہو کر نہایت آہ و زاری اور گِریہ و بُکا کے ساتھ گِڑگڑا گڑگڑا کر راتوں  میں  دعائیں  بھی مانگا کرتے، رمضان شریف میں  حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دور بھی فرماتے اور تلاوتِ قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ طرح طرح کی مختلف دعاؤں  کا ورد بھی فرماتے تھے اور کبھی کبھی ساری رات نمازوں  اور دعاؤں  میں  کھڑے رہتے یہاں تک کہ پائے اَقدس میں  ورم آ جایا کرتا تھا۔        

صحاح ستہ احادیث کی کونسی کتب کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔؟




 صحاح ستہ احادیث کی کونسی کتب کو کہتے ہیں۔۔۔۔۔؟

عبداللہ ہاشم عطاری مدنی
03313654057

اہل سنت کی حدیث کی چھ مشہور و مستند کتابیں

صحاح کی تحقیق
”صحاح“ صحیح کی جمع ہے۔ محسوسات اور معنویات میں استعمال ہوتا ہے اگر محسوسات میں استعمال ہوتو لغتاً اس کا معنی ہوگا ”الشیء السلیم من الأمراض والعیوب“ یعنی وہ چیز جو امراض وعیوب سے صحیح سالم ہو، اس سے معلوم ہوا کہ واضعِ لغت نے اس لفظ کو سلامت من العیوب ہی کے لیے وضع کیا ہے؛ لہٰذا یہی اس کا معنی حقیقی ہے اور معنویات میں یہ جس معنی کے لیے مستعمل ہے، وہ اس کا معنی مجازی ہے۔ مثلاً قول وحدیث کی صفت صحیح آتی ہے تواس وقت ترجمہ ہوگا ”مَا اعتُمد علیہ“ یعنی قول صحیح وہ ہے جس پر اعتماد کیا جائے۔(تيسير مصطلح الحديث المؤلف: أبو حفص محمود بن أحمد بن محمود طحان النعيمی ص44)

 اور اصطلاح میں صحیح خبرواحد کی ایک قسم ہے۔ صحاحِ ستہ کے معنی “مستند چھ“ یعنی کہ چھ مستند کتابیں ہیں، کیمبرج کی تاریخِ ایران کے مطابق۔(ایس، ایچ، نصر (1975)، “علوم المذاہب“ تاریخ ایران، ناشرآکسفورڈ یونیورسٹی پریس)

صحاحِ ستہ سے مراد :
صحاحِ ستہ سے مراد حدیث پاک کی چھ مشہور و معروف مستندکتابیں ہیں: ان چھ کتابوں کو ”اصولِ ستہ، صحاحِ ستہ، کتبِ ستہ اور امہاتِ ست“ بھی کہتے ہیں.
 .(مسک الختام 1/17)

حدیث کے 6 مستند اور مشہور مجموعوں کو صحاح ستہ کہا جاتا ہے۔ ان کتابوں کو اسلامی تعلیم سمجھنے میں بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ کتابیں مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ صحیح بخاری (امام بخاری)
محمد بن اسماعیل البخاری جنہوں نے حدیث کی مستند ترین کتاب صحیح بخاری مرتب کی، اس کتاب کو مرتب کرنے میں اُنہیں سولہ (16) سال کا عرصہ لگا۔ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ امام بخاری کسی بھی حدیث کو محفوظ کرنے سے پہلے غسل کرکے نوافل پڑھتے اور پھر حدیث کو محفوظ فرماتے۔ امام بخاری کا انتقال 256ھ/70-869ء کو سمرقند میں ہوا۔
2۔ صحیح مسلم (امام مسلم)
مسلم بن حجاج النیشاپوری: جن کا انتقال 261ھ/5-874 کو نیشاپور میں ہوا۔ انہوں نے حدیث کی دوسری مستند ترین کتاب صحیح مسلم مرتب کی۔
3۔ جامع ترمذی (امام ترمذی)
ابو عیسٰی محمد بن ترمذی: جنہوں نے مشہور ترمذی شریف مرتب کی۔ آپ امام بخاری کے شاگرد تھے۔ آپ کا انتقال 279ھ/3-892ء میں ہوا۔

سوانح حیات امام ابن ماجہ رحمہ اللہ




سوانح حیات امام ابن ماجہ رحمہ اللہ
سوانح حیات​:​
سوانح حیات:
امام ابن ماجہ رحمہ اللہ علم حدیث کے ا‏‏‏‏ن درخشندہ ستاروں میں سے ہیں جو افق عالم پر آج بھی روشن اور تاباں ہیں۔ آپ کا شمار فن حدیث کے جلیل القدر اور عظیم ترین ائمہ میں ہوتا ہے۔ آپ کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ آپ کا نام ان ائمہ ستہ کی فہرست میں آتا ہے جن کی کتب حدیث کو مسلمانوں کے ہاں قبول عام حاصل ہے۔

دوسرے ائمہ کی طرح امام ابن ماجہ رحمہ اللہ نے بھی خدمت حدیث میں بڑا نام کمایا اور تدوین حدیث میں اہم کردار ادا کیا۔ آپ نے پوری زندگی گلستان حدیث کی آبیاری کرتے ہوئے گزاری۔ فرامین نبوی کی جمع و تدوین کے لیے مختلف ممالک کی طرف رخت سفر باندھا اور اپنے دور کے عظیم شیوخ الحدیث و محدثین سے کسب فیض اور حدیث نبوی کے لؤلوئے آبدار سے نہ صرف اپنے ہی دامن کو بھرا بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی ان کو یکجا کر دیا۔

امام ابن ماجہ رحمہ اللہ حدیث، تفسیر اور تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے، خصوصاً علم حدیث میں تو آپ حافظ اور ماہر فن گردانے جاتے تھے، اسی لیے حافظ شمس الدین ذہبی، حافظ ابن حجر رحہما اللہ اور دیگر ناقدین فن نے علم حدیث میں آپ کی امامت، رفعت شان، وسعت نظر، حفظ حدیث اور ثقاہت کا اعتراف کیا ہے اور آپ کی علمی و فنی خدمات کو سراہا ہے۔

نام و نسب:
ابوعبداللہ محمد بن یزید بن عبداللہ الربعی القزوینی المعروف بابن ماجہ۔ آپ عجمی الاصل تھے۔ «ربعئ» ربیعہ کی طرف نسبت ہے اور یہ نسبت «وَلاء» ہے اور اپنے علاقے قزوین (ایران) کی طرف نسبت کی وجہ سے آپ قزوینی کہلاتے ہیں۔

آپ ابن ماجہ کے نام سے معروف ہیں۔ اس کے متعلق علامہ زبیدی رحمہ اللہ نے تاج العروس میں مختلف اقوال ذکر کیے ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ «ماجه» آپ کی والدہ کا نام ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اسی کو ترجیج دی ہے اور شاہ عبدالعزیز دہلوی رحمہ اللہ بھی بستان المحدثین میں نقل کرتے ہیں: «وصحيح انست كه ماجه (بتخفيف جيم) مادر او بود» یعنی صحیح بات یہ ہے کہ ماجہ آپ کی والدہ تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ابن ماجہ میں «الف» کے ساتھ امتیاز کیا گیا ہے تاہم معلوم ہو کہ ابن ماجہ، محمد کی صفت ہے نہ کہ عبداللہ کی۔ بعض علماء کے نزدیک ماجہ آپ کے والد گرامی کا لقب تھا۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»

فضائل و مناقب حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا




فضائل و مناقب حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
محترم قارئینِ کرام : گدائے درِ اہلبیتِ اطہار رضی اللہ عنہم فقیر ڈاکٹر فیض احمد چشتی بارگاہِ شہزادی رسول خاتون جنّت حضرت سیّدہ طیّبہ طاہرہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا میں یہ نذرانہ عقیدت احادیث مبارکہ سے چن کر پیش کر رہا ہے اس امید کے ساتھ کہ یہ نذرانہ اس فقیر کےلیئے ذریعہ نجات بنے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے آمین ۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مرض وصال میں اپنی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی ﷲ عنہا کو بلایا پھر ان سے سرگوشی فرمائی تو وہ رونے لگیں ۔ پھر انہیں قریب بلا کر سرگوشی کی تو وہ ہنس پڑیں ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اس بارے میں سیدہ سلام ﷲ علیہا سے پوچھا تو اُنہوں نے بتایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کان میں فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسی مرض میں وصال ہو جائے گا ۔ پس میں رونے لگی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سرگوشی کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ میرے اہل بیت میں سب سے پہلے تم میرے بعد آؤ گی اس پر میں ہنس پڑی ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المناقب، باب : مناقب قرابة رسول ﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، 3 / 1361، الرقم : 3511، و کتاب : المناقب، باب : علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1327، الرقم : 3427، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1904، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 296، و أحمد بن حنبل في المسند، 6 / 77، و في فضائل الصحابة، 2 / 754، الرقم : 1322،چشتی)

حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے فرمایا : ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جمع تھیں اور کوئی ایک بھی ہم میں سے غیر حاضر نہ تھی، اِتنے میں حضرت فاطمۃ الزہراء رضی ﷲ عنھا وہاں تشریف لے آئیں ، تو ﷲ کی قسم اُن کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چلنے سے ذَرّہ بھر مختلف نہ تھا ۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں ۔ (أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الاستئذان، باب : من ناجي بين الناس ومن لم بسر صاحبه فإذا مات أخبر به، 5 / 2317، الرقم : 5928، و مسلم في الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : فضائل فاطمة بنت النبي صلي الله عليه وآله وسلم، 4 / 1905، الرقم : 2450، و النسائي في فضائل الصحابة : 77، الرقم : 263، و أحمد بن حنبل في فضائل الصحابة، 2 / 762، الرقم : 1342، و الطيالسي في المسند : 196، الرقم : 1373، و ابن سعد في الطبقات الکبري، 2 / 247، و الدولابي في الذرية الطاهرة، 1 / 101، 102، الرقم : 188،چشتی)

اولیاء کرام سے مروی احادیث کا حکم




*اولیاء کرام سے مروی احادیث کا حکم* 


 آجکل  علم حدیث کی دو تین کتب پڑھ کر  اولیاء کرام کے بارے سوء ظن اور انکو معاذاللہ دین میں بگاڑ پیدا کرنے والا قرار دے دیا جاتا ہے 
 ان کی ذات متبرکہ کو  نشانہ بنایا جاتا ہے اور  اپنے زعم میں  محدثانہ لیکچر دیتے ہوئے  ان کی بے ادبی کر  بیٹھتے ہیں اور اس طرح اپنی عاقبت برباد کردیتے ہیں 

علماء کرام فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے دو طرح کے لوگوں سے اعلان جنگ فرمایا ہے 
ایک وہ جو اولیاء کی شان میں بے ادبی کرتا ہے دوسرا وہ جو  سود کا لین دین کرتا ہے 

⬅️ سیدی اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان علیہ الرحمہ نے اولیاء کرام سے مروی احادیث کے بارے میں بہت ہی عمدہ تحقیق فرمائی ہے 

آپ فرماتے ہیں 
 بہت احادیث جنہیں محدثین کرام اپنے طور پر ضعیف ونامعتبر ٹھہرا چکے علمائے قلب،عرفائے رب،ائمہ عارفین،سادات مکاشفین قدسنا الله  تعالٰی باسرارہم الجلیلہ ونور قلوبنا بانوارہم الجمیلہ انہیں مقبول ومعتمد بناتے اور کامل یقین اور قطعی طور پر  حضور پرنور سید عالم صلی الله  تعالٰی علیہ وسلم کی طرف نسبت فرماتے ہیں 
 اور ان کے علاوہ بہت وہ احادیث  لاتے ہیں  جنہیں علما اپنے اپنی کتب وغیرہ  میں کہیں نہ پاتے،
اُن کے یہ علوم الٰہیہ بہت ظاہر بینوں کو نفع دینا درکنار اُلٹے  طعن و تشنیع کرتے ہیں حالانکہ وہ ان طعن کرنے والوں سے زیادہ الله  تعالٰی سے خوف رکھنے والے،الله  تعالٰی کے بارے میں زیادہ علم رکھنے والے،سرورِ دوعالم صلی الله  تعالٰی علیہ وسلم کی طرف کسی قول کی نسبت کرنے میں بہت احتیاط کرنے والے تھے

⬅️ میزان الکبری میں موجود حدیث :

*اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم*

نبی ہمارے بڑی شان والے




🌼 *نبی ہمارے بڑی شان والے*🌼


📝 *تمہید :* الحمد للہ دو سالوں سے صفر المظفر اور ربیع الاول شریف میں قسط وار تحریر کا سلس
لہ رہا ہے اور تمام ہی تحریروں کو عوام و علما نے کافی پسند کیا۔اس سال بھی قسط وار تحریر کا ارادہ تھا مگر موضوع فائنل نہیں کر پایا۔اتفاق سے میں نے فتاوی رضویہ شریف کی 30ویں جلد کا مطالعہ شروع کیا،اس جلد میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کئی پہلو بیان کیے گئے ہیں اور جب اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ بیان کریں تو اس کا انداز ہی کچھ اور ہوتا ہے اور پڑھتے ہوئے مزے کو بھی مزا آجاتا ہے۔اسی جلد میں ایک رسالہ ہے جس میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام نبیوں پر فضیلت کو قرآن و حدیث و اقوال صحابہ سے بڑے ہی عشق بھرے انداز میں ثابت کیا گیا ہے۔ اس رسالے کو شروع کرتے ہی میں نے ذہن بنایا کہ اس مرتبہ اس رسالے کا قسط وار خلاصہ کرنا ہے، تو میں نے تلخیص کا کام شروع کردیا،الحمد للہ کام محرم الحرام کے آخری عشرے میں مکمل ہوگیا اور مجھ سے صبر نہیں ہوا اس لئے میں نے ابھی سے اس تحریر کو فاروڈ کرنے کا ارادہ کیا ہے،اللہ پاک اس کو قبول فرمائے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی نظر کرم نصیب فرمائے۔


📍 *نوٹ:* میں نے اس تحریر میں رسالے کو مختصر اور آسان کرنے کی کوشش کی ہے اس لئے سارے حوالوں کو ذکر نہیں کیا کیونکہ عشاق کے لئے فتاوی رضویہ کا حوالہ کافی ہے، جو تخریج کا شوق رکھتا ہو تو رسالے کا مطالعہ کرے،اس کے علاوہ ایک ہی مفہوم کی احادیث میں سے چند کو ذکر کیا ہے۔البتہ میں نے قرآن پاک کی آیات کو اعراب اور آیت نمبر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔


📃 *تعارف:* نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں سے افضل ہیں،یہ بات بالکل واضح ہے مگر بعض بدمذہبوں نے اس پر قرآن و حدیث سے دلائل مانگے،یہ مسئلہ اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں بھیجا گیا،جس کے جواب میں اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و حدیث سے اتنے دلائل دیے کہ یہ 137 صفحات کا رسالہ بن گیا جس کا نام اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے *تَجَلِّیُ الیَقِین بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ المُرْسَلِین* رکھا یعنی یقین کا اظہار اس بات کے ساتھ کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام رسولوں کے سردار ہیں۔

اپنی عادت مبارکہ کے مطابق آپ رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے خطبہ تحریر فرمایا، اگر خطبے کو بغور پڑھا جائے تو اسی میں افضلیت پر دلائل بھی لکھ دیے۔بہر حال خطبے کے بعد آپ نے کلام شروع فرمایا.


🌹 نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا تمام رسولوں سے افضل ہونا اور تمام مخلوق سے اعلی اور ان کا سردار ہونا قطعی،یقینی،اجماعی مسئلہ ہے جس میں اختلاف صرف گمراہ بددین ہی کرے گا۔قیامت کے دن سارا حال کھل جائے گا جب ساری مخلوق کو جمع کیا جائے گا اور سارے مجمعے کا سردار حضور علیہ الصلوۃ والسلام کو بنایا جائے گا،سارے انبیاء کرام علیھم السلام بھی حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف متوجہ ہونگے،نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف بیان کی جا رہی ہوگی،جو آج ان کی عظمتوں کو تسلیم کرنے والے ہیں کل قیامت میں خوشیاں منا رہے ہونگے اور جو منکر ہیں ان کے پاس حسرت کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔عجیب بات ہے کہ کہنے والے یہ کہیں کہ قرآن و حدیث میں دلیل نہیں پائی حالانکہ مسئلہ بالکل واضح ہے،دلیل بے شمار ہیں،آیات کثیر ہیں،احادیث ان گنت ہیں،اگر میرے پاس وقت ہو تو اس عقیدے کی تحقیق میں اتنا لکھ دوں کہ کئی جلدیں ہوجائیں ، مگر فی الحال دس آیات اور سو حدیثیں ذکر کروں گا تاکہ جتنا وقت میسر ہے اس  میں حاجت بھی  پوری ہوجائے اور مومن کے دل کو سکون ہو اور بدباطن خاک میں مل جائیں۔


🕋 *آیات قرآنیہ*


آیت : 1

*وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱)فَمَنْ تَوَلّٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۸۲)*


ترجمہ: اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گاتو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ (اللہ نے) فرمایا :(اے انبیاء!) کیا تم نے (اس حکم کا) اقرار کرلیا اور اس (اقرار) پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ سب نے عرض کی،’’ ہم نے اقرار کرلیا‘‘ (اللہ نے) فرمایا، ’’ تو(اب) ایک دوسرے پر (بھی) گواہ بن جاؤ اور میں خود (بھی) تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں ۔ پھرجو کوئی اس اقرار کے بعدروگردانی کرے گاتو وہی لوگ نافرمان ہوں گے۔

📗 *(سورہ آل عمران،آیت 82-81)*