یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

محبت حدیث




*محبت حدیث*


قال نعيم بن حماد:
كان عبدالله بن المبارك يكثر الجلوس في بيته 
فقيل له ألا تستوحش ؟؟
فقال كيف استوحش انا مع النبي صلى الله عليه وسلم و اصحابه...!!

نعیم بن حماد کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مبارک علیہ الرحمہ اکثر گھر میں رہتے تھے  آپ سے پوچھا گیا 
کیا آپ کو اکیلے رہتے ہوئے وحشت نہیں ہوتی؟؟
   آپ نے فرمایا کہ مجھے کیسے وحشت ہو  حالانکہ میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہوتا ہوں 

(یعنی آپ اکثر احادیث مبارکہ پڑھا کرتے تھے  اور احادیث مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور  صحابہ کرام کی مجلس کا ذکر ہوتا ہے تو آپ نے اس لئے فرمایا کہ میں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہوتا ہوں )

(سیر اعلام النبلاء ج٨ص٣٨٢)

✍محمد ساجد مدنی 
29 جنوری بروز جمعہ 2021

سیدتنا فاطمہ زہرا کے نام کی حکمت




*سیدتنا فاطمہ زہرا کے نام کی حکمت* 


حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ اس لئے رکھا کہ اللہ تعالی نے اس کو اور اس سے محبت رکھنے والوں کو دوزخ کی آگ سے آزاد فرمایا ۔
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بے شک فاطمہ پاک دامن ہے اور اللہ تعالی نے اس کی اولاد کو  دوزخ پر حرام فرمایا ہے ۔
زہرا کا مطلب ہے کلی، بہت خوب صورت کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو حسن و جمال ودیعت فرمایا تھا چنانچہ حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی اولاد سے سیدتنا فاطمہ زہرا کے متعلق پوچھاتوانہوں نے کہا :
 سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہ چودہویں رات کے چاند سے زیادہ خوب صورت تھیں ۔

*حوالہ جات:*

١: کنزالعمال ج ٢ص ٢١٩
٢: صواعق محرقہ ١٥١
٣: مستدرک حاکم ج ٣ ص١٥٢
٤: مستدرک حاکم ج ٣ ص ١٦١

*✍محمد ساجد مدنی*
18 جنوری 2021 بروز پیر

عشاق کا ادب مدینہ



❣عشاق کا ادب مدینہ ❣


مدینہ منورہ کی عجیب کشش ہے  کوئی جانے کیلئے تڑپ رہے ہیں اور کوئی وہاں جدائی کے خوف سے بے چین ہیں،
 اس میں عشاق مختلف روپ دھار کر اپنی جبین کو سعادت مند بناتے ہیں،  کوئی شاہانہ لباس پہن کر اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھانے آتا ہے ، کوئی ہفت اقلیم کا بادشاہ ہونے کے ساتھ فقیرانہ لباس میں ملبوس مدینے کی گلیوں کا چکر لگاتا ہے،
 ایسے اولیاء بھی گزرے ہیں جو صرف اس وجہ سے شہر مدینہ میں داخل نہ ہوئے  اس مقدس شہر کو اپنے قدموں سے کیسے روندیں،  کچھ اولیاء ساری زندگی مدینے سے باہر نہیں نکلے کہ دیار حبیب سے باہر کہیں موت نہ آ جائے،
 کوئی اس شہر کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنا رہا ہے تو کوئی اس مٹی کو بھی مدینے سے جدا نہیں کرنا چاہتا،  
کوئی اس شہر کے سگان کو احتشام کے ساتھ دعوت کررہا ہے تو کوئی رو  رو کر  ان سے غلطی کی معافی چاہ رہا ہے، اس کی کشش ایسی کہ کوئی تڑپ رہا ہے  ،کوئی ترس رہا ہے،  کوئی حاضری پر  خوشی سے رو رہا ہے تو کوئی جدائی پر در دیوار کو لپٹ لپٹ کر رورہا ہے،  
شاعر کہتا ہے 
یہ تو طیبہ کی محبت کا اثر ہے 
ورنہ کون روتا ہے لپٹ کر در ودیوار کے ساتھ 😭

جیت آپ کی ہے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




        🌹 *جیت آپ کی ہے لیکن*.......❓


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-

👈 اس دنیا میں انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد جیسے آتی ہے۔ویسے ہی چلی جاتی ہے۔وہ یوں زندگی گزراتے ہیں گویا کبھی زندہ ہی نہ تھے۔جبکہ بعض لوگ آتے ہیں۔اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ زندہ ہوجاتا ہے۔وہ کیوں زندہ رہتے ہیں؟؟ دونوں کی زندگیوں میں صرف ایک فرق ہے۔وہ فرق کامیابی کا ہے۔وہ کامیابیاں جو انھوں نے حاصل کی ہوتی ہیں۔ان کی کامیابیوں میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ وہ دنیا کے ساتھ ان کا مضبوط تعلق بن جاتا ہے۔

👈 ایک دن ایک بچے نے اپنے والد صاحب سے عرض کی۔ ابا جان مجھے اپنے پَردادا کی قبر پر لے چلیں۔ والد صاحب اپنے بچے کے ساتھ قبرستان چلا گیا۔ باپ اور بیٹا پَردادا کی قبر دیکھنے میں مصروف ہوگئے۔ لیکن پَردادا کی قبر نہ ملی تو بچہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ اور والد صاحب نے پوچھا۔ بیٹا کیا ہوا ؟ بیٹا جواباً عرض کرنے لگا ابا جان پَردادا سے ہمارا خونی رشتہ ہے اس کے باوجود بھی ہمیں اس کی قبر کا پتہ نہیں۔ اور ایک طرف تو ڈاکٹر اقبال ہیں جس سے ہمارا کوئ رشتہ بھی نہیں۔ لیکن پھر بھی ان کا نام باقی ہے۔ اور بچہ بچہ ان کا جانتا ہے۔ والد صاحب یہ جواب سُن کر خاموش ہوگیا۔

👈 جی ہاں میرے بھائیو!! اگر ہم بحیثیت انسان غور کریں تو اللہ عزوجل نے ان دونوں کو دو آنکھیں ، دو پائوں ، دو ہاتھ اور ایک جسم دیا۔ لیکن ڈاکٹر اقبال کا نام باقی رہ گیا۔ اور اس کے دادا کا نام باقی نہ رہا۔

سفر کیا ہے ؟




              ♻️ *سفر کیا ہے ؟*♻️


✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-

👈 سفر پریشانیوں کا نام ہے ، تکلیفوں کا نام ہے ، صبر کا نام سفر ہے۔ اسلئے سفر کریں مگر گلے شکوے مت کریں ، کیونکہ سفر ایک عذاب کا ٹکڑا ہے۔ جب سفر کو عذاب کا ٹکڑا کہا گیا ہے تو پھر آرام و سکون کہاں سے ملے گا۔

👈 بلا مصلحت شرعی ہر کسی کے سامنے اپنی تکلیفیں سنانا ، یہ ثواب کو ضائع کرنا ہوگا۔ لہذا سفر میں آنے والے معاملات کو ہر کسی کے سامنے بیان نہ کریں۔

👈 اے میرے بھائیو!! جب آپ سفر کریں تو دوران سفر اللہ تعالی کی مخلوق میں غور و فکر کریں ، اس صورت میں آپ کے سامنے اللہ تعالی کی وحدانیت اور اجاگر ہو جائے گی۔

👈 سفر کا ایک تو فائدہ یہ ہے کہ آپ نے سفر کے دوران جو مشاہدہ کیا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرسکتے ہیں۔ اور اس کو تحریر کر کے امت مسلمہ تک پہنچا بھی سکتے ہیں۔تاکہ آپ کے تجربات سے فائدہ اٹھا سکیں۔

👈 سفر کا دوسرا فائدہ آپ کو یہ ملے گا کہ آپکو لوگوں کی پہچان حاصل ہو جائے گی۔ کیونکہ سفر میں آپ کو اچھے لوگ بھی ملے گیے اور بُرے لوگ بھی۔

تحریر کی ابتداء کہاں سے کی جائے




     🍁 *تحریر کی ابتداء کہاں سے کی جائے* ؟ 🍁

👈 تحریر کے میدان میں سفر کرنا بہت دلچسپ ہوتا ہے۔ اس سفر میں وہی کامیاب ہوگا جس کو تحریر کا شوق ہوگا۔ اس شوق کو پورا کرنے کیلئے قلم اور کاغذ اٹھائے اور لکھنا شروع کیا ، ایسا ہرگز نہیں ہے میرے بھائ۔ بلکہ لکھنے کیلئے تو مطالعہ چاہیے۔ اچھا محرّر بننے کیلئے کثیر مطالعہ چاہیے۔

👈 آج تک جس بھی محرِّر کی تحریر ہر دل عزیز بنی ہے ، اس کی وجہ: اُس تحریر کی ابتداء اچھی ہوتی ہے ، بندہ جب اس تحریر کو پڑھنا شروع کر دیتا ہے تو اس کو ختم کرنے کا دل نہیں کرتا ایسے کلماتِ حسنہ پر تحریر مشتمل ہوتی ہے۔

👈 جس قدر تحریر کی ابتداء مختصر مگر جامع ہوگی اُسی قدر اس تحریر کو مقبولیت حاصل ہوگی ، اور لوگ شوق و ذوق سے پڑھیں گیں۔

تحریر لکھنے کے فوائد




 🖊 *تحریر لکھنے کے فوائد* 🖊


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-

✒ تحریر ایک کٹھن سفر ہے ، اس راہ کے راہی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دشتِ طلب میں کبھی اِس نگر کبھی اُس نگر جانا پڑتا ہے ، دھوپ اور چھائوں کو برداشت کرتے ہوئے بلند ہمت افراد ہی مشکلات کے دریا کو عبور کرکے منزل پر پہنچتے ہیں ۔
 
✒ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ! راہ علم کا سفر آسان نہیں مگر شوق کی سواری پاس ہو تو دشواریاں منزل تک پہنچنے میں رکاوٹیں نہیں بنتیں۔ جب محرّر کو حقائق کا اجالا ملتا ہے تو سفر کی ساری تکان راحت میں تبدیل ہوجاتی ہے :-

✒ محرّر کو اس سفر میں تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، لیکن ان تنقیدوں کی وجہ سے محرر اپنے مقصد سے پیچھے نہ ہٹے کیونکہ
بڑی منزلوں کے مسافر چھوٹے مسائل میں نہیں پڑتے۔

✒ کسی نے کیا خوب کہا کہ " زندگی میں جب بھی آپ ٹوٹنے لگیں تو صبر رکھنا کیونکہ نکھرتے وہی ہیں جو پہلے بکھرتے ہیں "

✒ تحریر کے *11* فوائد عرض کرتا ہوں :-

1️⃣ اچھی تحریر صدقہ جاریہ کا سبب ہے :-

2️⃣ محرّر اپنا مافی الضمیر اچھے انداز سے بیان کرسکتا ہے :-

3️⃣ محرّر ایسی صلاحیت کا مالک ہوجاتا ہے کہ ایک سبق کو مختصرا بھی پیش کرسکتا ہے اور اُسی سبق کو طویل بھی پیش کرسکتا ہے :-

کامیاب تحریر کے راز


 

    👈 *کامیاب تحریر کے راز* 👉


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-

👈 آپ کی تحریر ہر دل عزیز  کیسے بنے ؟
آپ کی تحریر مقبول عام کیسے بنے ؟
اسی کے متعلق " *5*" ایسے راز عرض کرتا ہوں جن سے آپ کی تحریر مقبول ہوگی۔ 

👈 راز نمبر *1*:-
                    تحریر لکھنے کا مقصد اللہ تعالی اور اس کے پیارے حبیب علیہ الصلاة و السلام کی خوشنودی اور لوگوں کی اصلاح کرنا ہو :-

👈 راز نمبر *2*:-
                    تحریر کو تحریر کے انداز پر لکھیں ؛ خط کے انداز پر نہ لکھیں ؛ کسی کی نقالی نہ کریں ؛ جو لکھیں اپنے سے لکھیں :-

👈 راز نمبر *3* :-
                    شوق ؛ لگن ؛ جزبہ ؛ مستقل مزاجی کے ساتھ لکھیں۔ اس طرح کرنے سے آپ کی ہر تحریر پچھلی تحریر سے بہتر ہوتی جائے گی :-

👈 راز نمبر *4* :-
                      اپنی تحریر کی مقبولیت چاہتے ہیں تو دوسروں کو تحریر سکھانا شروع کریں ؛ کیونکہ کسی نے کیا خوب کہا کہ " کسی اور کو آگے بڑھائو ، اگر آپ بڑھنا چاہتے ہو :-

👈 راز نمبر *5* :-
                   جو بات تحریر کریں وہ درد دل سے لکھیں۔ کیونکہ جو بات دل سے نکلتی ہے وہ اثر رکھتی ہے :-

زندگی کو بدلنا پڑے گا




          ♾  *زندگی کو بدلنا پڑے گا*  ♾ 


✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*:-

       📲 *03128065131*:-


👈 ایک تحقیق کے مطابق جب عقاب کی عمر 70 سال کے قریب ہوتی ہے اس عمر تک پہنچنے کے لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا ہوتا ہے جب اس کی عمر 40 سال ہوتی ہے تو اس کے پنچے کمزور ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا اِسی طرح اس کی مظبوط چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے۔


👈 اس کے پر جس سے وہ پرواز کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب مشکلات کے ہوتے ہوے اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں یا تو وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی سخت ترین مشقت کیلئے تیار ہو جائے۔


👈 چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اور سب سے پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے کچھ دنوں کے بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں تو وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک بال اکھاڑ دیتا ہے اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے گزرنا ہوتا ہے پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان بھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس نے نیا جنم لیا ہو۔ تو اس طرح پھر وہ 30 سال مزید زندہ رہ پاتا ہے۔

سائنسی علوم حاصل کرنا کب باعثِ ثواب ہے



سائنسی علوم حاصل کرنا کب باعثِ ثواب ہے         

 *قال الله تعالیٰ فی القرآن المجید* 

 *اِنَّ  فِیْ  خَلْقِ  السَّمٰوٰتِ  وَ  الْاَرْضِ   وَ  اخْتِلَافِ  الَّیْلِ  وَ  النَّهَارِ  لَاٰیٰتٍ  لِّاُولِی  الْاَلْبَابِۚۙ(اٰلِ عمران۱۹۰)* 

 _ترجمۂ کنز الایمان_           
بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لئے۔

 
 *تفسیر صراط الجنان*            
حضرت      عبداللہ      بن عباس      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا      فرماتے ہیں ، میں حضرت میمونہ      رَضِیَ ا للہُ تَعَالٰی عَنْہا      کے گھر رات میں ٹھہرا اورا س دن سرکارِ دو عالم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      بھی اُن کے ہاں آرام فرما تھے، جب رات کا تہائی حصہ گزرا تو آپ      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      بیدار ہو ئے پھر آسمان کی طرف نظر ا ٹھا کران آیاتِ مبارکہ کی تلاوت فرمائی۔     
 *(     بخاری، کتاب الادب، باب رفع البصر الی السماء،           ۴ / ۱۵۹     ،      الحدیث     :      ۶۲۱۵)*                

ایک روایت میں ہے کہ تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا:’’اس پر افسوس ہے جویہ آیت پڑھے اور اس میں غور نہ کرے۔     *(     الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، کتاب الرقائق، باب التوبۃ،      ۲ / ۸     ،      الحدیث     :      ۶۱۹)*                
اس آیت سے معلوم ہوا کہ علمِ جغرافیہ اور سائنس حاصل کرنا بھی ثواب ہے جبکہ اچھی نیت ہو جیسے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت یا     اللہ      تعالیٰ کی عظمت کا علم حاصل کرنے کیلئے، *لیکن یہ شرط ہے کہ اسلامی عقائد کے خلاف نہ ہو۔* 

اِس آیت مبارکہ میں آسمان و زمین کی تَخلیق میں قدرت ِ الٰہی کی نشانیوں کا فرمایا گیا ہے لہٰذا اسی کے پیش نظراِس تفکر کی ایک جھلک آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں : امام غزالی      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِِ      فرماتے ہیں ’’قدرتِ الٰہی کی چھٹی نشانی آسمانوں ، ستاروں کی مملکت اور ان کے عجائب میں ہے ، کیونکہ جو کچھ زمین کے اندر اور روئے زمین پر ہے وہ سب کچھ ا س کے مقابلے میں کم ہے۔
آسمان اور ستاروں کے عجائب میں تفکر کرنے کے لئے قرآنِ پاک میں تنبیہ فرمائی گئی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:          

مقاصدِ شریعت



       💐 *مقاصدِ شریعت* 💐


✍ *ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری* :-
   📲 *03128065131* :-

👈 انسان کی معاشرتی زندگی میں متعدد نظریات و قوانین بنائیں گئے ہیں۔ہر قوم نے اپنے حالات کے حساب سے اپنی اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے اصول متعین کیے۔اور جُوں جُوں ترقی ہوتی گئ قوانین میں بھی تبدیلی ہوتی گئ۔اور یہ اصول اپنی خواہشات کے مطابق بنائے گئے تھے۔جس کی وجہ سے انسان کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔مگر اسلام نے بنیادی انسانی حقوق *5* قسم کے تحفظات دیے۔

1️⃣ *زندگی کا حق* :-
                           انسان کی حیوانیت پرستی ، اللہ تعالی کا انکار ، اور بے مقصد زندگی کی وجہ سے جو شروع سے لیکر اب تک مثالیں قائم کیں ہیں وہ انتہائ المناک ہیں۔جنگ و جدل کو اپنا پیشہ سمجھنا۔اور اپنی ذات کیلئے لڑنا۔لیکن اسلامی معاشرتی کی بنیاد جن احکام پر مشتمل ہے ان میں پہلی دفعہ انسان کی جان اور اس کا خون محرم قرار دیا۔حرمت نفس کی جو مئوثر تعلیم اسلام نے دی ہے وہ کسی اور مذہب اور قانون میں نہیں ہے۔

تحریر چوری کرنے والوں



   👈 *تحریر چوری کرنے والوں* ‼


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
📲 *03128065131* :-

👈 اے وہ لوگوں جو تحریرات کو کاپی کرکے پھر اس پہ اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ تم جانتے ہو جو لکھنے والے نے الفاظ تخلیق کیے ہیں ، جو اس کی تحریر ہے ، جو اس کے جملے ہیں۔ تمہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ اُسے یہ *عزیز از جان* ہوتے ہیں۔

👈 اور تم اّسی تحریر یا تصنیف میں لفظوں کو پھیر کرکے اپنا نام لکھ دیتے ہو۔ اُسے کتنا دُکھ ہوتا ہے ؟ تمہیں اس بات کا اندازہ نہیں۔ بس آپ اس کے دکھ ، تکلیف کو اس بات سے اندازہ لگائیں کہ اسے یہ تحریر *عزیز از جان* ہوتی ہے۔

👈 اگر کوئ شخص آپ کی تحریر ، تألیف میں ردوبدل کرے تو تمہیں کتنا دکھ ہوتا ؟؟ اسی طرح میرے بھائ سامنے والے کو بھی بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب وہ اپنی تحریر میں کسی اور نام دیکھتا ہے۔

👈 جمال الدین قاسمی علیہ الرحمہ نے یہاں تک کہ لکھا ہے کہ *تصنیف و تالیف کے میدان میں یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ علمی نکات ، مسائل ، فوائد قائلین کی جانب منسوب کریں تاکہ کسی کی محنت پر اپنا نام مت لگے۔ اور ایسا نہ ہو کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کا مصداق بن جائے*۔ (قواعد التحدیث 40)

👈 کسی کی تحریر یا تصنیف اٹھا کر اس پہ اپنا نام لکھ دینا۔ کیا یہ اخلاقا و شرعا جائز ہے ؟؟