October 26, 2020 Abdullah Hashim Madni
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ( سورۃ الانبیاء 107)
ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیب کا متعدد مقامات پر صفت رحمت سے ذکر فرمایا ہے، رحمة کا لفظ اپنے اندر اہم ترین صفات ومعانی کو شامل ہے،چنانچہ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ہمیں اردو میں شفقت ،نرمی وغیرہ الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے،
خالق کائنات مالک ارض و سماء اللہ ربّ العزت کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پوری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ ربّ العزت نے آپ ﷺ کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے اعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ ﷺ کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی خاتم النبین نبی کریم ﷺ کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب ﷺ کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے
’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔ مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفاء، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ رب العزت کی ذات نے آپ ﷺکی ذاتِ کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی ﷺ ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہاں کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں، اللہ نے آپ ﷺ کی اس دنیا میں سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔جنانچہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیب کا متعدد مقامات پر صفت رحمت سے ذکر فرمایا ہے، رحمة کا لفظ اپنے اندر اہم ترین صفات ومعانی کو شامل ہے،چنانچہ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ہمیں اردو میں شفقت ،نرمی وغیرہ الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے،
حضورِ اقدس ﷺ َتمام جہاں کےرحمت:
آپ ﷺ رحمت وشفقت کے پیکرِ بے مثال،بلکہ رحمت وراحت کے محور و مرکز ہیں، اللہ قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃ الانبیاء کی آیت 107 میں اپنے حبیب ﷺ کی شان میں ارشاد فرماتا ہے ۔
وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ( سورۃ الانبیاء 107)ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔
تاجدارِ رسالت ﷺ َنبیوں ، رسولوں اور فرشتوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ، مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ، حیوانات، نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں ، سیّدُ المرسَلین ﷺان سب کے لئے رحمت ہیں ۔
چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس ﷺ کا رحمت ہونا عام ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مومن کے لئے تو آپ ﷺ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے ﷺ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ ﷺ َکی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔( خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: 107، 3 / 297)
تفسیر روح البیان میں ہے سرکارِ دو ﷺ کوتمام جہانوں کے لئے خواہ وہ عالَمِ ارواح ہوں یا عالَمِ اجسام ، ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول سب کے لئے مُطْلَق، تام، کامل، عام، شامل اور جامع رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے اور جو تمام عالَموں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہان سے افضل ہو۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: 107، 5 / 528)
جس کو جو ملا مصطفٰی کریم ﷺ کے صدقے ملا:
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانفرماتے ہیں ’’عالَم ماسوائے اللہ کو کہتے ہیں جس میں انبیاء وملائکہ سب داخل ہیں ۔ تو یعنی لازمی طور پر حضور پُر نور، سیّد المرسَلین ﷺ ان سب پر رحمت و نعمت ِربُّ الارباب ہوئے ، اور وہ سب حضور کی سرکارِ عالی مدار سے بہرہ مند وفیضیاب ۔ اسی لئے اولیائے کاملین وعلمائے عا
ملین تصریحیں فرماتے ہیں کہ’’ ازل سے ابد تک ،ارض وسماء میں ، اُولیٰ وآخرت میں ،دین ودنیا میں ، روح وجسم میں ، چھوٹی یا بڑی ، بہت یا تھوڑی ، جو نعمت ودولت کسی کو ملی یا اب ملتی ہے یا آئندہ ملے گی سب حضور کی بارگاہ ِجہاں پناہ سے بٹی اور بٹتی ہے اور ہمیشہ بٹے گی۔(فتاوی رضویہ، رسالہ: تجلی الیقین، 30 / 141)
سیّد المرسَلینﷺخلوق میں سب سے افضل ہیں ۔ چنانچہ امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں ’’جب حضور انور ﷺ تمام عالَمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہو اکہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا تمام سے افضل ہوں ۔( تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 253، 2 / 521)
مصطفٰی کریم ﷺ مؤمنین پررؤف و رحیم:
حضور اقدس ﷺ رحمۃٌ لِّلْعالَمین بنا کر بھیجے گئے اور مومنین پربالخصوص کمال مہربان ہیں ، رؤف و رحیم ہیں ، ان کامشقت میں پڑنا ان پرگراں ہے، ان کی بھلائیوں پرحریص ہیں ،جیسے کہ قرآن عظیم ناطق "لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ" (توبہ:128)
ترجمہ ٔکنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں ۔
تمام گناہ گاروں کے گناہوں کی شفاعت کے لئے آئے ہیں:
’’وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ‘‘(سورٔ محمد:19)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔ ( فتاوی رضویہ، 24 / 274-275)
حضرت عیسیٰ اور حضور اقدس ﷺ کی رحمت میں فرق:
اللہ تعالیٰ کے تمام رسول اور اَنبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام رحمت ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے حبیبﷺعین رحمت اور سراپا رحمت ہیں ،چنانچہ تفسیر روح البیان میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’ وَ رَحْمَةً مِّنَّا‘‘ (مریم:21)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے ایک رحمت (بنادیں ۔
اور اپنے حبیب ﷺ کے حق میں ارشاد فرمایا
’’ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ‘‘( سورۃ الانبیاء 107)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔‘‘
ان دونوں کی رحمت میں بڑا عظیم فرق ہے اور وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ کے رحمت ہونے کو حرف ’’مِنْ‘‘ کی قید کے ساتھ ذکر فرمایا اور یہ حرف کسی چیز کا بعض حصہ بیان کرنے کے لئے آتا ہے اور اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ ان لوگوں کے لئے رحمت ہیں جو آپ پر ایمان لائے اور اس کتاب و شریعت کی پیروی کی جو آپ لے کر آئے اور ان کی رحمت کا یہ سلسلہ سیّد المرسَلینﷺکے مبعوث ہونے تک چلا، پھر آپ کا دین منسوخ ہونے کی وجہ سے اپنی امت پر آپ کا رحمت ہونا منقطع ہو گیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کے بارے میں مُطْلَق طور پر تمام جہانوں کے لئے رحمت ہونا بیان فرمایا،اسی وجہ سے عالَمین پر آپ کی رحمت کبھی منقطع نہ ہو گی، دنیا میں کبھی آپ کا دین منسوخ نہ ہو گا اور آخرت میں ساری مخلوق یہاں تک کہ (حضرت عیسیٰ اور حضرت ابراہیم بھی آپﷺ کی شفاعت کے محتاج ہوں گے۔( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ: ۱۰۷، ۵ / ۵۲۸)
از قلم:عبد اللہ ہاشم عطاری مدنی
03313654057