یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

دین اسلام پر ثابت قدمی




"دینِ اسلام پر ثابت قدمی"

سورہ ھود آیت 112 میں ارشادِ خداوندی ہے
فَاسْتَقِمْ كَمَاۤ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَكَ وَ لَا تَطْغَوْاؕ-اِنَّهٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۱۱۲)
ترجمہ کنز العرفان: تو قائم رہو جیسا تمہیں حکم ہے اور جو تمہارے ساتھ رجوع لایا ہے اور اے لوگو سرکشی نہ کرو بیشک وہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔
یعنی اے حبیب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے دین پر عمل کرنے اور اس کے دین کی دعوت دینے پر ایسے ثابت قدم رہیں جیسے آپ کے رب          عَزَّوَجَلَّ  نے آپ کو حکم دیا ہے اور  آپ کی امت میں سے جو آپ پر ایمان لایا ہے اسے بھی چاہئے کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے دین اور اس کے اَحکام کی بجا آوری پر ثابت قدم رہے۔            (     خازن، ہود، تحت الآیۃ:      ۱۱۲     ،      ۲      /      
۳۷۳     ) 

عدل اور انصاف




"عدل اور انصاف"

        سورہ النحل آیت 90 میں ارشادِ خدا وند ہے
      اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ 
بیشک اللّٰہ عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہے۔}
عدل اور انصاف کا (عام فہم) معنی یہ ہے کہ ہر حق دار کو اس کا حق دیاجائے اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے ، اسی طرح عقائد، عبادات اور معاملات میں  اِفراط و تفریط سے بچ کر درمیانی راہ اختیار کرنا بھی عدل میں  داخل ہے جیسے بندہ نہ تو دہریوں  کی طرح اللّٰہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرے اور نہ مشرکوں  کی طرح اللّٰہ  تعالیٰ کو شریک ٹھہرانے لگے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ  اللّٰہ تعالیٰ کو موجود، واحد اور لاشریک مانے، اسی طرح نہ تو یہ نظریَہ رکھے کہ       اللّٰہ  تعالیٰ مومن بندے کے کسی گناہ کا مُؤاخذہ نہیں  فرمائے گا اور نہ ہی یہ عقیدہ رکھے کہ کبیرہ گناہ کرنے والا ہمیشہ جہنم میں  رہے گا بلکہ یہ عقیدہ رکھے کہ گنہگار مسلمان کا معاملہ اللّٰہ تعالیٰ کی مَشِیَّت پر مَوقوف ہے وہ چاہے تواسے سزا دے اور چاہے تو اسے معاف کر دے اور
 کبیرہ گناہ کرنے والا مسلمان ہے، وہ اگر جہنم میں  گیا تو ہمیشہ جہنم میں  نہ رہے گا بلکہ اپنے گناہوں  کی سزا پوری ہونے کے بعد جنت میں  داخل ہو گا۔ یونہی بندہ عبادات میں  اس قدر مصروف نہ ہو جائے کہ اس وجہ سے بیوی بچوں ، عزیز رشتہ داروں،  پڑوسیوں  اور دیگر لوگوں  کے شرعی حقوق ہی ادا نہ کر سکے اور نہ عبادات سے اس قدر 

ریشمی لباس اور سونے چاندی کا زیور دنیا میں صرف عورتوں کے لئے حلال ہے



ریشمی لباس اور سونے چاندی کا زیور دنیا میں  صرف عورتوں  کے لئے حلال ہے

            یاد رہے کہ ریشمی لباس اور سونے چاندی کے کنگن جنتی لباس ہیں  ، دنیا میں  عورتوں  کیلئے حلال اور مردوں  کیلئے حرام ہیں ۔ اس بارے میں  بکثرت اَحادیث ِ مبارکہ ہیں ،ان میں  سے 4اَحادیث درج ذیل ہیں ۔
(1)… حضرت ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’سونا اور ریشم میری اُمت کی عورتوں  کے لیے حلال ہے اور مَردوں  پر حرام۔( نسائی، کتاب الزینۃ، تحریم لبس الذہب، ص۸۳۶، الحدیث: ۵۲۷۵)

ظلم کے مطابق سزا دیناعدل و انصاف اور معاف کر دینابہترہے




ظلم کے مطابق سزا دیناعدل و انصاف اور معاف کر دینابہترہے
  
 جو شخص جتنا ظلم کرے اسے اتنی ہی سزا دینا عدل و انصاف ہے، لیکن ممکنہ صورت میں  بدلہ لینے کی بجائے ظالم کو معاف کر دینا بہر حال بہتر اور افضل ہے کیونکہ معاف کرنے کا اجر و ثواب بہت زیادہ ہے، چنانچہ ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فر ماتا ہے:  ’’ فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ۪-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ   ‘‘   (   بقرہ   :۱۹۴   )   
ترجمہ کنزُالعِرفان:  توجو تم پر زیادتی کرے اس پر اتنی ہی زیادتی کرو جتنی اس نے تم پر زیادتی کی ہواور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔ 

موت اور قیامت کا وقت چھپائے جانے کی حکمت



اور قیامت کا وقت چھپائے جانے کی حکمت

سورہ طہ آیت 15 میں ارشادِ خداوندی ہے:
اِنَّ السَّاعَةَ اٰتِیَةٌ اَكَادُ اُخْفِیْهَا لِتُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا تَسْعٰى(۱۵)
ترجمہ کنز العرفان: بیشک قیامت آنے والی ہے ۔ قریب ہے کہ میں اسے چھپارکھوں تاکہ ہر جان کو اس کی کوشش کا بدلہ دیا جائے۔
بیشک قیامت لازمی طور پر آنے والی ہے اور قریب تھا کہ    اللہ  تعالیٰ اسے سب سے چھپا کر رکھتا اور یہ فرما کر ب
  کو اس کے آنے کی خبر بھی نہ دیتا کہ بے شک قیامت آنے والی ہے، یعنی لوگوں   کو اِس بات کا علم ہی نہ ہوتا کہ کوئی قیامت کا دن بھی ہے  (اگر ایسا ہوتا تو لوگ بالکل ہی 

شیاطین انس و جن




"شیاطین انس و جن"

رب تعالیٰ سورہ الحج آیت 3 میں ارشاد فرماتا ہے
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰهِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّبِـعُ كُلَّ شَیْطٰنٍ مَّرِیْدٍۙ(۳)
ترجمہ کنز العرفان: اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ کے بارے میں بغیر علم کے جھگڑتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کے پیچھے چل پڑتے ہیں ۔
آیت کا شان نزول:
اس آیت کاشانِ نزول یہ ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں  نازل ہوئی جو بڑا ہی جھگڑالو تھا اور فرشتوں     کو خدا کی بیٹیاں  اور قرآنِ مجید کو گزشتہ لوگوں کے قصے بتاتا تھا اور موت کے بعد اٹھائے جانے کا منکر تھا ۔

وزن اور میزان



"وزن اور میزان"

 سورہ الانبیاء آیت 47 میں ارشادِ ربانی ہے
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
  ترجمۂ کنز العرفان      
اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔

جامعۃ المدینہ دعوتِ اسلامی کا تعارف



جامعۃ المدینہ دعوتِ اسلامی کا تعارف
 
الحمد لله رب العالمين و الصلوة و السلام عليٰ سيد المرسلين
اما بعد فاعوذ بالله من الشيطٰن الرجيم بسم الله الرحمٰن الرحيم
فرمانِ امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ: ’’جامعۃ المدینہ  دعوت اسلامی کا مغز ہے

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو






"والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرو"

سورہ  بنی اسرائیل آیت 23 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے 
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳)
ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا ۔

ولی اللہ کون۔۔۔۔؟



ولیاولی کون۔۔۔۔۔؟ 

سورہ یونس آیت 62 اور 63 میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)
  ترجمۂ کنز العر فان             
سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔
                         وَلِیُّ اللّٰہ کون؟
  لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاءسے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ             عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے،       بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کا

عذاب قبر حق ہے




"عذاب قبر حق ہے"
  ۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث و آثار بکثرت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔     
(1)…     حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں  اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (     مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص     ۱۵۳۴     ، الحدیث:      ۶۸(۲۸۶۸)     )     
(2)…     حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی  سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      دو قبروں کے پا س سے گزرے تو ارشاد فرمایا ’’ان دونوں کو عذاب دیا جا رہا ہے اور یہ کسی (ایسے) بڑے گناہ کی وجہ سے عذاب نہیں دئیے جا رہے (جن سے بچنا مشکل ہو)۔پھر ارشاد فرمایا’’کیوں نہیں ! (بے شک وہ گناہ معصیت میں بڑا ہے) ان میں سے ایک چغلی کھایا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا۔ پھر آپ نے ایک سبز ٹہنی توڑی اور اس کے دو حصے کئے ،پھر ہر قبر پرا یک حصہ گاڑ دیا، پھر فرمایا کہ جب تک یہ خشک نہیں ہوں گی شاید ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے۔(      بخاری، کتاب الجنائز، باب عذاب القبر من الغیبۃ والبول،      ۱ / ۴۶۴     ، الحدیث:      ۱۳۷۸     )      
(3)…     حضرت براء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      فرماتے ہیں کہ ہم حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کے ساتھ ایک انصا ری صحابی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      کے جنازے میں نکلے ،جب قبر تک پہنچے تو وہ ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے اردگرد اس طرح خاموشی سے بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے دستِ مبارک میں ایک لکڑی تھی جس کے ساتھ زمین کرید نے لگے اور سرِ انور اٹھا کر دو یا تین مرتبہ ارشاد فرمایا ’’     اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ  ‘‘ قبر کے عذاب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔(      ابوداؤد، کتاب السنّۃ، باب فی المسألۃ فی القبر وعذاب القبر،      ۴ / ۳۱۶     ، الحدیث:      ۴۷۵۳     )     
(4)…     حضرت امّ مبشر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  فرماتی ہیں کہ میں بنو نجار کے ایک باغ میں تھی اور اس میں بنو نجار کے زمانۂ جاہلیت میں مرنے والوں کی قبریں تھیں اس وقت میرے پا س رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      تشریف لائے، پھر جاتے ہوئے ارشاد فرمایا اِسْتَعِیْذُوْا بِاللہِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ قبر کے عذاب سے  اللّٰہ تعالیٰ کی پناہ مانگو۔ میں نے سنا تو عرض کی یا رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! مردے اپنی قبروں میں ایسا عذاب دیئے جاتے ہیں جسے جانور سنتے ہیں۔(     معجم ا لکبیر، امّ مبشر الانصاریۃ،      ۲۵ / ۱۰۳     ، الحدیث:                 ۲۶۸     )     
(5)…     حضرت ابو ہریرہ   رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالَم   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     دعا مانگا کرتے ’’  اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَحْیَا وَ الْمَمَاتِ وَ مِنْ فِتْنَۃِ الْمَسِیْحِ الدَّجَّالِ     ‘‘   اے  اللہ عَزَّوَجَلَّ  ، میں عذابِ قبر سے، جہنم کے عذاب سے، زندگی اور موت کے فتنے سے اور مسیح دجال کے فتنے سے تیری پناہ لیتا ہوں۔(     بخاری، کتاب الجنائز، باب التعوّذ من عذاب القبر،      ۱ / ۴۶۴     ، الحدیث:      ۱۳۷۷     )     
 

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعارف "




" مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کا تعارف "

تاریخ پیدائش و مقامِ پیدائش:  
 بدایوں شریف کو جن ہستیوں کے مقام پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے ا ن میں ایک ذات مشہورمُفسِّرقراٰن،حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمد یار خان نعیمی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَویکی بھی ہے۔ آپ کی ولادت صبح ِصادق کی پُرنور اور بابرکت ساعتوں میں شوّالُ المکرّم 1314ھ کو محلہ کھیڑہ بستی اوجھیانی (بدایوں،یوپی ہند) میں ہوئی۔ (حالاتِ زندگی،حیاتِ سالک،ص64)

 تعلیم و تربیت:
 آپ نے قراٰنِ پاک سےلے کر فارسی کی نصابی تعلیم اور درسِ نظامی کی ابتدائی کُتُب اپنے والدِگرامی حضرت مولانا محمد یار خان بدایونی سے پڑھیں،مدرسہ شمسُ العلوم میں علامہ قدیر بخش بدایونی علیہِ رحمۃُ اللہِ الْقَویکی نگرانی میں تین سال تک تعلیم حاصل کی پھر مختلف درس گاہوں میں پڑھا اور آخر کار جامعہ نعیمیہ  (مُراد آباد، ہند) میں داخلہ لے کر خلیفۂ اعلیٰ حضرت صدرُ الافاضل مفتی سیّد
 محمد نعیمُ الدّین مراد آبادی اورخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حافظ مشتاق احمد صدیقی کانپوری رحمۃُ اللہِ  تعالٰی علیہِما جیسے شفیق اور مہربان اَساتِذَہ کے زیرِ سایہ رہ  کرعلم و عمل کی دولت سے فیض یاب ہوئے اور 19 برس کی عمر میں سندِ فراغت حاصل کی۔ (حالاتِ زندگی، حیاتِ سالک، ص69 تا 80 ملخصاً)

قرآن مجید میں جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد




قرآن مجید میں جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال  بیان کرنے کا مقصد:              
            قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان کے مکالمے، جنتیوں کی نعمتیں اور جہنمیوں کے عذاب، جنتیوں کی خوشیاں اور جہنمیوں کی حسرتیں یہ سب چیزیں بیان کی گئیں۔ آیات میں جو کچھ بیان ہوا اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں اور کافروں کے انجام کا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اصحاب ِ اعراف کا بھی بیان ہے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے۔ اب یہاں مسلمانوں کا ایک وہ گروہ بھی ہوگا جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی اور یونہی وہ لوگ بھی ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود کسی گناہ پر پکڑے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو کفر سے بچنے کی کوشش کرنی 
چاہیے،

آخرت میں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔




آخرت میں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔؟
آدمی کو چاہئے کہ وہ فلاح و کامیابی کے راستے پر چلے اور وہاں تک پہنچے جہاں نیک لوگ پہنچے اور اس کا سب سے بہترین راستہ فوری طور ر اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا ہے۔
امام محمد غزالی        رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ        فرماتے ہیں ’’زندگی کی ہر گھڑی بلکہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا کوئی بدل نہیں ،وہ اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ تجھے ابدی سعادت تک پہنچا دے اور دائمی بدبختی سے بچا لے ا س لئے ا س سے زیادہ نفیس جوہر اور کیا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے غفلت میں ضائع کر دو گے توواضح نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں صرف کرو گے تو واضح طور پر ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر تم ا س مصیبت پر نہیں روتے تو یہ تمہاری جہالت ہے اور جہالت کی مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑ ھ کر ہے۔ (افسوس) لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ جاگ جائیں گے ،اس وقت ہر مفلس کو اپنے اِفلاس کا اور ہر مصیبت زدہ کو اپنی مصیبت کا علم ہو جائے گا لیکن ا س وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔       (        احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الرکن الاول فی نفس التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ عام فی الاشخاص۔۔۔ الخ،        ۴ / ۱۵)   

مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ کا تعارف"




"مفتی محمد قاسم عطاری دامت برکاتہم العالیہ کا تعارف"

تاریخ و مقام ولادت: 
پاکستان کی سر زمین پنجاب نے بہت سے جید علماء کرام کو پیدا کیا ہے ان ہی میں ایک قبلہ مفتی صاحب بھی ہیں آپ صوبہ پنجاب کے شہر فیصل آباد میں 6 جون 1977 کو پیدا ہوئے۔
اسم گرامی و ولدیت:
محمد قاسم بن حاجی محمد عبداللہ
لقب: 
شیخ الحدیث والتفسیر،مفتیٔ اہلسنت۔ آپ استاد الاساتذہ ہونے کے ساتھ ساتھ مفتی المفتیین بھی ہیں۔
کنیت :
ابو الصالح۔

عذاب قبر حق ہے




"عذاب قبر حق ہے"
  ۔ بعض بے علم لوگ اور منکرینِ حدیث عذاب ِقبر کا انکار کرتے ہیں یہ صریح گمراہی ہے ۔ اِس بارے میں اَحادیث و آثار بکثرت ہیں جن میں سے چند یہ ہیں۔     
(1)…     حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ      نے ارشاد فرمایا ’’اگر مجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ تم مُردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں   اللہ  تعالیٰ سے دعا کرتا کہ وہ تمہیں عذابِ قبر سنائے۔ (     مسلم، کتاب الجنّۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب عرض مقعد المیّت من الجنّۃ او النار علیہ۔۔۔ الخ، ص     ۱۵۳۴     ، الحدیث:      ۶۸(۲۸۶۸)     )    

حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ



حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی قوم پر عذاب نازل ہونے کا واقعہ:
حضرت ہود عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام     کی قوم پر عذاب نازل ہونے کے واقعے کواللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ الاعرف کی آیت 72 میں آئیں الفاظ میں بیان کرتا ہے
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲)
ترجمہ کنز العرفان: تو ہم نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو اپنی رحمت کے ساتھ نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور وہ ایمان والے نہ تھے۔
  واقعہ:               
    اس کامختصر واقعہ یہ ہے کہ قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی، احقاف عمان اور حضر موت کے درمیان علاقہ یمن میں ایک ریگستان ہے۔ قومِ عاد نے زمین کو فِسق سے بھر دیا تھا۔ یہ لوگ بت پرست تھے ان کے ایک بت کا نام’’ صُدَائ‘‘اور ایک کا ’’صُمُوْد‘‘ اور ایک کا ’’ ہَبائ‘‘ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں حضرت ہود     عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معبوث فرمایا

"جہاد کی فضیلت و ترغیب



"جہاد کی فضیلت و ترغیب"

     اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ اور بشارت ہے کہ مسلمانوں کی جماعت صابر رہےتومدد ِالٰہی سے دس گنا کافروں پر غالب رہے گی کیونکہ کفار جاہل ہیں اور ان کی جنگ سے غرض نہ حصولِ ثواب ہے نہ خوف ِعذاب، جانوروں کی طرح لڑتے بھڑتے ہیں تو وہ للہیت کے ساتھ لڑنے والوں کے مقابل کیا ٹھہر سکیں گے۔ (     مدارک، الانفال، تحت الآیۃ:      ۶۵     ، ص     ۴۲۰     )  بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر فرض کردیا گیا کہ مسلمانوں کا ایک فرددس افراد کے مقابلہ سے نہ بھاگے، پھر آیت ’’      اَلْـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ     ‘‘ نازل ہوئی تو یہ لازم کیا گیا کہ ایک سو مجاہدین دو سو 200 لوگوں کے مقابلے میں قائم رہیں۔     (     بخاری، کتاب التفسیر، باب الآن خفّف اللہ عنکم۔۔۔ الخ،                 ۳ / ۲۳۱     ، الحدیث:      ۴۶۵۳     )           
یعنی دس گنا سے مقابلہ کی فرضیت منسوخ ہوئی اور دو گنا کے مقابلہ سے بھاگنا ممنوع رکھا گیا۔  

مصائب کی دوری کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں



مصائب کی دوری کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں :    
   دنیاوی مصائب دور کرنے کے لئے نیک اعمال کرنے جائز ہیں یعنی     اللہ     تعالیٰ کو راضی کرنے کیلئے عمل کیا جائے تاکہ وہ اپنی رحمت فرماتے ہوئے ہماری حاجت پوری کردے، اسی لئے بارش کیلئے نمازِ اِستِسقاء اور گرہن میں نمازِ کسوف پڑھتے ہیں۔ یہاں ہم ظاہری اور باطنی مصائب کی دوری کے لئے احادیث میں مذکور چند اعمال ذکر کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کر کے اپنے مصائب دور کرنے کی کوشش کریں۔    
(    1    )…    امُّ المؤمنین حضرت امِّ سلمہ    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْھا         فرماتی ہیں :میں نے سیدُ المرسلین     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ         اللہ     تعالیٰ کے حکم کے مطابق ’’     اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ     ‘‘     پڑھے         (اور یہ دعا کرے)     ’’    اَللّٰہُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِّنْہَا    ‘‘ا ے     اللہ    !میری ا س مصیبت پر مجھے اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘‘تو     اللہ     تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا۔     (    مسلم، کتاب الجنائز، باب ما یقال عند المصیبۃ، ص     ۴۵۷    ، الحدیث:     ۳         (۹۱۸)    )    
(    2    )…    حضرت     عبداللہ     بن عمر    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا     سے روایت ہے،     رسولُ اللہ         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا ’’ یہ دل ایسے زنگ آلود ہوتے رہتے ہیں جیسے لوہا پانی لگنے سے زنگ آلود ہوجاتا ہے۔ عرض کی گئی:     یا         رسولَ         اللہ     !     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ،     ان دلوں کی صیقل کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا ’’ موت کی زیادہ یاد اور قرآنِ کریم کی تلاوت۔     (    شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ،     ۲     /     ۳۵۲    ، الحدیث:     ۲۰۱۴    )    
(    3    )…    حضرت     عبداللہ     بن مسعود     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ    سے روایت ہے، نبی کریم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا ’’ جو شخص روزانہ رات کے وقت سورہ ٔواقعہ پڑھے تو وہ فاقے سے ہمیشہ محفوظ رہے گا۔    (     شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضائل السور والآیات،     ۲     /     ۴۹۲    ، الحدیث:     ۲۵۰۰    )    
(    4    )…    حضرت عطاء بن ابی رباح     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     فرماتے ہیں ’’ مجھے خبر ملی ہے کہ حضور پر نور    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا ’’ جو دن کے شروع میں سورہ  ٔ    یٰسٓ     پڑھ لے تو اس کی تمام ضرورتیں پوری ہوں گی۔     (    دارمی،کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل یٰس،     ۲     /     ۵۴۹    ، الحدیث:     ۳۴۱۸    )    

دعا کے کی تعریف و فضائل و فوائد اور دعا میں حد سے بڑھنے کی ممانعت


            
 دعا کے کی تعریف و فضائل و فوائد اور دعا میں حد سے بڑھنے کی ممانعت
اللہ تعالیٰ قرآن کی سورہ الا عرف آیت 55 میں ارشاد فرماتا 
 اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةًؕ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ۔
ترجمۂ کنز العرفان: اپنے رب سے گڑگڑاتے ہوئے اور آہستہ آواز سے دعا کرو ۔ بیشک وہ حد سے بڑھنے والے کو پسند نہیں فرماتا۔
دعا کسے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔؟
    دُعا      اللہ      تعالیٰ سے خیر طلب کرنے کو کہتے ہیں اور یہ عبادت میں داخل ہے کیونکہ دُعا کرنے والا اپنے آپ کو عاجزو محتاج اور اپنے پروردگار کو حقیقی قادر و حاجت روااعتقاد کرتا ہے اسی لئے حدیث شریف میں وارد ہوا ’’      اَلدُّعَآئُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ      ‘‘ دعا عبادت کا مغز ہے۔      (     ترمذی، کتاب الدعوات، باب ما جاء فی فضل الدعائ،      ۵      /      ۲۴۳     ، الحدیث:      ۳۳۸۲     )   

"تقدیر الٰہی"




"تقدیر الٰہی"
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فلأتوكل الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)
  ترجمۂ کنز العرفان          
    ترجمہ کنز العرفان : تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
         یعنی اے حبیب!   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عل وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو        اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا 
سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔   

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والا کافر ہے۔۔۔۔۔



  رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر نے والا کافر ہے۔۔۔۔۔   

اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ التوبہ آیت 66 میں ارشاد فرماتا ہے
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْؕ-اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآىٕفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآىٕفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠۔
ترجمہ کنز العرفان: بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے۔
تفسیر خازن میں اس آیت کے تحت مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے منافقین کی جانب سے پیش کردہ عذر و حیلہ قبول نہ کیا اور ان کے لئے یہ فرمایا کہ بہانے نہ بنا ؤ تم ایمان ظاہر کرنے کے بعد کافر ہوچکے ۔  ) خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ:       ۶۶      ،       ۲ / ۲۵۷      ، ملخصاً  )

قرب الٰہی کیسے حاصل ہو۔۔۔۔۔؟





قرب الٰہی کیسے حاصل ہو۔۔۔۔۔۔؟

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے    وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِؕ-اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْؕ-سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۹۹)
ترجمہ کنز العرفان: اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں نزدیکیوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہیں ۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( سورہ التوبہ آیت 99  )  
  یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے     لئے     اللہ     تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو         رسولُ اللہ         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب     اللہ         عَزَّوَجَلَّ     انہیں اپنی رحمت یعنی جنت     میں داخل فرمائے گا، بیشک     اللہ         عَزَّوَجَلَّ     اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔     (    جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ:     ۹۹    ،     ۳     /     ۸۳۱    )  

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت کی تردید



حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اُلُوہِیَّت کی تردید 

حضرت   عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا        نے فرمایا کہ نجران کے عیسائیوں نے یہ بات کہی ہے اور نصرانیوں کے فرقہ یعقوبیہ وملکانیہ کا یہی مذہب ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو  اللہ بتاتے ہیں کیونکہ وہ حُلُول کے قائل ہیں اور ان کا اعتقاد ِباطل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام        میں حلول کیا ہوا ہے جیسے پھول میں خوشبو اور آگ میں گرمی نے،مَعَاذَ اللہ ثُمَّ مَعَاذَاللہ۔ اللہ  تعالیٰ اس سے پاک ہے۔        اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں حکمِ کفر دیا اور اس کے بعد اُن کے مذہب کا فساد بیان فرمایا۔       
اللہ پاک قرآن مجید کی سورہ  المائدہ کی آیت 17 میں ارشاد فرماتا ہے لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-قُلْ فَمَنْ یَّمْلِكُ مِنَ اللّٰهِ شَیْــٴًـا اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّهْلِكَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّهٗ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاؕ-وَ لِلّٰهِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا بَیْنَهُمَاؕ-یَخْلُقُ مَا یَشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ۔
ترجمہ کنزالعرفان: بیشک وہ لوگ کافر ہوگئے جنہوں نے کہا کہ اللہ ہی مسیح بن مریم ہے۔ تم فرما دو: اگر اللہ مسیح بن مریم کواور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو ہلاک کرنے کا ارادہ فرمالے تو کون ہے جو اللہ سے بچانے کی طاقت رکھتا ہے؟ اور آسمانوں اور زمین کی اور جو کچھ ان کے درمیان ہے سب کی بادشاہت اللہ ہی کے لیے ہے ۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور اللہ ہر شے پر ہے۔

 اس آیت مبارکہ میں حضرت عیسیٰ   عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا کی الوہیت کی کئی طرح تردید ہے        
(1)… حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو موت آسکتی ہے، اور جسے موت آ سکتی ہے وہ خدا نہیں ہو سکتا۔       
(2)… آپ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ماں کے شکم سے پیدا ہوئے، اور جس میں یہ صفات ہوں وہ اللہ نہیں ہو سکتا ۔       
(3)…        اللہ تعالیٰ تمام آسمانی اور زمینی چیزوں کا مالک ہے اور ہر چیز رب عَزَّوَجَلَّ  کا بندہ ہے، اگرکسی میں        اللہ تعالیٰ نے حلول کیا ہوتا تووہ اللہ  کا بندہ نہ ہوتا حالانکہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   خود ا س بات کا اقرار کرتے ہیں کہ وہ  اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔       
(4)…       اللہ  تعالیٰ از خود خالق ہے، اگر آپ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  میں اُلُوہیت ہوتی تو آپ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام        بھی از خود خالق ہوتے۔       

" بخل کی تعریف و مذمت و بخل کا علمی اور عملی علاج "




" بخل کی تعریف و مذمت و بخل کا علمی اور عملی علاج "

 بخل کی تعریف    :     
بخل کی تعریف یہ ہے کہ جہاں شرعاً یا عرف وعادت کے اعتبار سے خرچ کرنا واجب ہو وہاں خرچ نہ کرنا بخل ہے۔ زکوٰۃ صدقہ فطر وغیرہ میں خرچ کرنا شرعاً واجب ہے اور دوست احباب،عزیز رشتہ داروں پر خرچ کرنا عرف و عادت کے اعتبار سے واجب ہے۔    (    احیاء علوم الدین، کتاب ذمّ البخل وذمّ حبّ المال، بیان حدّ السخاء والبخل وحقیقتہما،         ۳ / ۳۲۰    ،     ملخصاً    )        

"حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور معجزات "




"حضرت عیسیٰ علیہ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام   اور معجزات "  
 
    اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کو بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور دلیل کے طور پر اس زمانے کے حالات کے موافق بہت سے معجزات عطا فرمائے۔ آیت سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ      عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  صرف بنی اسرائیل کے نبی تھے ۔ یہی بات موجودہ بائبل میں بھی موجود ہے۔ آیت میں حضرت عیسیٰ      عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      کے پانچ معجزات کا بیان ہے۔ (1) مٹی سے پرندے کی صورت بنا کر پھونک مارنا اور اس سے حقیقی پرندہ بن جانا، (2)پیدائشی اندھوں کو آنکھوں کا نور عطا فرما دینا، (3)کوڑھ کے مریضوں کو شفایاب کردینا، (4)مردوں کو زندہ کردینا، 
(5)غیب کی خبریں دینا۔      
حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے معجزات کی تفصیل   
(1)…پرندے پیدا کرنا: جب حضرت عیسیٰ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      نے نبوت کا دعویٰ کیااور معجزات دکھائے تو لوگوں نےدرخواست کی کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام      ایک چمگادڑ پیدا کریں۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے مٹی سے چمگادڑ کی صورت بنائی پھر اس میں پھونک ماری تو وہ اڑنے لگی ۔           (     خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ     : ۴۹، ۱ / ۲۵۱)   

حروف مُقَطَّعَات کے بارے میں اہم معلومات




حروف مُقَطَّعَات کے بارے میں اہم معلومات"

        {    الٓمّٓ    :}قرآن پاک کی 29سورتوں  کے شروع میں  اس طرح کے حروف ہیں  ، انہیں ’’حروفِ مُقَطَّعَات ‘‘کہتے ہیں ، ان کے بارے میں سب سے قوی قول یہ ہے کہ یہ حروف اللہ تعالیٰ کے راز ہیں اور متشابہات میں سے ہیں ، ان کی مراد اللہ تعالیٰ جانتاہے اور ہم ان کے حق ہونے پر ایمان لاتے ہیں۔    (    خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۱    ،     ۱ / ۲۰،     الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثالث والاربعون،     ۲ / ۳۰۸    ، ملتقطاً    )        
               
  حروفِ  مُقَطَّعَات  کا علم  اللہ  تعالیٰ
 کے  علاوہ کسی کو حاصل ہے یانہیں         
یہاں یہ بات یاد رہے کہ  اللہ  تعالیٰ نے اپنے حبیب          صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کو بھی حروف مقطعات کا علم عطا فرمایا ہے ،جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :قاضی بیضاوی(    رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ    )    ’’    اَنْوَارُالتَّنْزِیلْ ‘‘      

قول و فعل کے تضاد کا نقصان




    قول و فعل کے تضاد کا نقصان

    اللہ تعالی قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت نمبر 44 میں ارشاد فرماتا ہے
      اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۴۴)
ترجمہ کنزالعرفان: لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتے ہو اوراپنے آپ کو بھولتے ہو حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو تو کیا تمہیں عقل نہیں ۔
        یہ آیت مبارکہ ان یہودی علماء کے بارے میں ہے جن سے ان کے مسلمان رشتہ داروں نے دینِ اسلام کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے کہا: تم اس دین پر قائم رہو، محمد     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ   کا دین حق اور کلام سچا ہے ۔ یاان یہودیوں کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے مشرکینِ  عرب کو حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  کے مبعوث ہونے کی خبر دی تھی اور حضور پرنور    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی پیروی کرنے کی ہدایت کی تھی ،پھر جب حضور اکرم  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ  مبعوث ہوئے تو یہ ہدایت کرنے والے حسد سے خود کافر ہوگئے تو انہیں فرمایا گیا کہ لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور خود کو بھلاتے ہو۔         (    خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۴۴    ،     ۱ / ۵۰    )یاد رہے کہ اس آیت کا شانِ نزول خاص ہونے کے باوجود حکم عام ہے اور ہر نیکی کا حکم دینے والے کیلئے اس میں تازیانہ عبرت ہے ۔  

حضرت عُزَیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور موت کا واقعہ



 "حضرت عُزَیرعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور موت  کا واقعہ"   
                  
    جب بُخت نصر بادشاہ نے بیتُ المقدس کو ویران کیا اور بنی اسرائیل کو قتل و غارَتگَری کرکے تباہ کر ڈالا تو ایک مرتبہ    حضرتِ عُزیر   عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَا م  کا وہاں سے گزر ہوا، آپ کے ساتھ ایک برتن کھجور اور ایک پیالہ انگور کا رس تھا اور آپ ایک گدھے پر سوار تھے، تمام بستی میں پھرے لیکن کسی شخص کو وہاں نہ پایا، بستی کی عمارتیں گری ہوئی تھیں ، آپ نے تعجب سے کہا ’’   اَنّٰى یُحْیٖ هٰذِهِ اللّٰهُ بَعْدَ مَوْتِهَا   ‘‘  اللہ تعالیٰ انہیں ان کی موت کے بعد کیسے زندہ کرے گا۔ اس کے بعد آپ    عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    نے اپنی سواری کے جانور کو وہاں باندھ دیا اور خود آرام فرمانے لگے، اسی حالت میں آپ کی روح قبض کر لی گئی اور    گدھا بھی مرگیا۔

تقویٰ کے منی و فضائل و مراتب و اقسام




"تقویٰ کے منی و فضائل و مراتب و اقسام"

تقویٰ کا معنی:         
تقویٰ کا معنی ہے:’’ نفس کو خوف کی چیز سے بچانا۔‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام  سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو جیسے کفر وشرک،کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا،حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اوربزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔ (    مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ، ص    ۱۹    ، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:     ۲    ،     ۱ / ۲۲    ، ملتقطاً    )       

کیا کافر کا عذاب الہٰی سے چھٹکارہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟





کیا کافر کا عذاب الہٰی سے چھٹکارہ ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔؟

اگر کافر دنیا کا مالک ہو اور اس کے ساتھ اس کے برابر دوسری دنیا کا مالک ہو اور یہ سب کچھ اپنی جان کو قیامت کے دن کے عذاب سے چھڑانے کے لئے فدیہ کر دے تو ا س کا یہ فدیہ قبول نہیں کیا جائے گا اور قیامت کے دن کافروں کو عذاب ضرور ہو گا، اس دن ان کے پاس عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نہ ہو گی۔    (    خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ:     ۳۶    ،     ۱ / ۴۹۱)        
حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’قیامت کے دن جب کافر کو پیش کیا جائے گا تو ا س سے کہا جائے گا کہ اگر تیرے پاس اتنا سونا ہو کہ اس سے زمین بھر جائے تو کیا تو اسے اپنے بدلے میں دینے کوتیار ہو جاتا؟ وہ اِثبات میں جواب دے گا تو اس سے کہا جائے گا: تم سے اس کی نسبت بہت ہی آسان چیز کا مطالبہ کیا گیا تھا     (یعنی ایمان کا)    ۔         (    بخاری، کتاب الرقاق، باب من نوقش الحساب عذّب،     ۴ / ۲۵۷    ، الحدیث:     ۶۵۳۸)       

اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی چاہو۔




اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھو تو رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو کر معافی چاہو:
 
اللہ پاک قرآنِ مجید کی سورہ النساء کی آیت نمبر 64 میں  ارشاد فرماتا ہے
وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔
اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔
مقصدِ بعثت انبیاء :
اس آیت کے ابتدائی حصہ میں  رسولوں کی تشریف آوری کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ  اللہ تعالیٰ رسولوں کو بھیجتا ہی اس لئے ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلّ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ اَنبیاء و رُسُل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو معصوم بناتا ہے کیونکہ اگر انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خود گناہوں کے مُرتَکب ہوں گے تو دوسرے ان کی اطاعت و اِتّباع کیا کریں گے۔ رسول کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت کا طریقہ ہی رسول کی اطاعت کرنا ہے۔ اس سے ہٹ کر اطاعت ِ الہٰی کا کوئی دوسرا طریقہ نہیں لہٰذا جو رسول کی اطاعت کا انکار کرے گا وہ کافر ہوگا اگرچہ ساری زندگی سر پر قرآن اٹھا کر پھرتا رہے۔  
   

میری علمی فیملی سے ایک غم ناک خبر




میری علمی فیملی سے ایک غم ناک خبر

درس نظامی کی تعلیم کے دوران کم و بیش دو سو کے قریب افراد   ہوں گے جو میرے کلاس فیلو رہے شروع میں بڑی کلاس تھی پھر بہت سارے افراد شروع یا درمیان سے چھوڑ گئے کچھ درمیان یا آخر میں کلاس میں شامل ہوئے میں نے مکمل تعلیم ہاسٹل میں رہ کر ہی حاصل کی اس بنا پر وہ کلاس فیلو جو ہاسٹل ہی میں ساتھ رہے وہ ایک فیملی کی طرح محسوس ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ تمام کلاس فیلو حسب موقع یاد ضرور آتے ہیں لیکن سب رابطے میں نہیں ہیں. 
لیکن 8 سے 10 سال کی رفاقت شب و روز کا ساتھ یہ بھولنے کی چیزیں نہیں ہوتی
آج میری یادداشت کے مطابق  میری اس فیملی میں سے پہلے فرد کے انتقال کی خبر مجھے موصول ہوئی اور غم زدہ کر گئی
مفتی امجد میرے کلاس فیلو تھے
اس وقت نگاہوں میں وہ سارے مناظر گھوم رہے ہیں کہ وہ کتنی محنت سے پڑھا کرتے تھے کس طرح ہمارے درمیان مختلف اسباق پر مکالمہ ہوتا تھا علمی تکرار ہوتی تھی
کس طرح ہم لوگوں نے علم و شعور کا سفر ساتھ طے کیا. 

نمازِ عید کا طریقہ و احکام و مسائل




"نمازِ عید کا طریقہ و احکام و مسائل"
            اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ پ۲، البقرۃ: ۱۸۵
روزوں  کی گنتی پوری کرو اور اﷲ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمھیں  ہدایت فرمائی۔
اور فرماتا ہے:
{ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۰۰۲ } (پ۳۰، الکوثر: ۲۔)
اپنے رب (عزوجل) کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
۱ عیدین کی راتوں میں عبادت کرنے کی فضیلت:
ابن ماجہ ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو عیدین کی راتوں  میں  قیام کرے، اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگو ں  کے دل مریں  گے۔‘‘  (سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب ماجاء في الصیام، باب فیمن قام لیلتی العیدین، الحدیث: ۱۷۸۲، ج۲، ص۳۶۵)

آزادی پاکستان 27 رمضان 1368 ھ




آزادی پاکستان 27  رمضان 1368 ھ 
 
علامہ عبداللہ مدنی قادری  
پاکستان کا قیام شب قدر، جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک 1368ھ بمطابق 14 اگست 1947ء عمل میں آیا۔ ظہور پاکستان کا یہ عظیم دن جمعۃ الوداع ماہ رمضان المبارک اور شب قدر جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے، محض اتفاق نہیں ہے بلکہ خالق و مالک کائنات کی اس عظیم حکمت عملی کا حصہ ہے جس سے رمضان، قرآن اور پاکستان کی نسبت و تعلق کا پتہ چلتا ہے۔ یہ شب عبادت، پاکستان کی سعادت پر اور یوم جمعۃ الوداع اس مملکت خداداد کی عظمت پر دلالت کرتی ہے۔ رمضان اور قرآن استحکام پاکستان کے ضامن اور آزادی کے محافظ ہیں۔ عید آزادی ہمارا تمدنی، تہذیبی تہوار ہے۔ اس کو اسلامی ہجری، قمری کیلنڈر کے مطابق منایا جانا چاہیے۔ تحریک پاکستان ایک نظریاتی، ملی تحریک تھی جس کا مقصد ہندی، فرنگی تمدنی تسلط سے آزادی حاصل کرنا تھا۔ 27

آیات سجدہ کی فضیلت و احکام




اللہ تعالی قِیا مت تک اَجْر بڑھاتا رہیگا
          ایک حدیث شریف میں ہے:   جس شخص نے کتابُ اللہ کی ایک آیت یا  علم کا ایک باب سکھایا  اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تا قِیا مت اس کا اجر بڑھا تا رہیگا۔       (تاریخ دمشق لابن عساکِر ج۵۹ ص۲۹۰)    
 
’’ سجدۂ تلاوت کے بارے میں اہم معلومات"
          {۱}     آیتِ سجدہ پڑھنے یا  سننے سے سجدہ واجِب ہو جاتا ہے۔       (اَلْہِدَایہ،     ج ۱ ص۷۸داراحیا ء التراث العربی بیروت)   
{۲}    فارسی یا  کسی اور زَبان میں   (بھی اگر)   آیت کا ترجَمہ پڑھا تو پڑھنے والے اور سننے والے پر سجدہ واجِب ہوگیا ،     سننے والے نے یہ سمجھا ہو یا  نہیں کہ آیتِ سجدہ کا ترجَمہ ہے،     البتَّہ یہ ضَرور ہے کہ اسے نہ معلوم ہو تو بتا دیا  گیا  ہو کہ یہ آیتِ سجدہ کا ترجَمہ تھا اور آیت پڑھی گئی ہو تو اس کی ضَرورت نہیں کہ سننے والے کو آیتِ سجدہ ہونا بتایا  گیا  ہو۔       (فتاوٰی  عالمگیری ج۱ص۱۳۳ کوئٹہ)   

عمران خان کا قادیانیوں سے کیا رشتہِ ہے۔۔۔۔۔؟




عمران خان کا قادیانیوں سے کیا رشتہ ہے ؟
 عمران خان کی والدہ شوکت خانم کا خاندان قادیانی ہے......!!!!

کمشنر احمد حسن ولد منشی گوہر علی جالندھر والے کٹر قادیانی تھے، جنہوں نے جالندھر بابا خیل میں پہلی قادیانی عبادتگاہ کی بنیاد رکھی-
منشی گوہر علی کا شمار مرزا غلام قادیانی کے 313 اصحاب میں سے پندھرویں نمبر پر ہے،
کمشنر احمد حسن کی اولاد بھی قادیانی تھی،
جن میں سے ایک بیٹی شوکت خانم نے میانوالی کے اکرام اللہ خان نیازی سے شادی کی، ( اکرام اللہ نیازی مسلمان تھے مرحوم کے بیٹے نے یہودی لڑکی سے ویاہ رچایا تھا)

مفتی محمد حسان عطاری دامت برکاتہم العالیہ کا تعارف




* مفتی محمد حسان عطاری دامت برکاتہم العالیہ کا تعارف*


*نام ونسب*

شیخ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری دامت برکاتہم العالیہ کا اصل نام فرخ ہے 
آپ فرماتے ہیں کہ میں بہت زیادہ نعتیں پڑھتا تھا تو امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے مجھے حسان نام دیا  اس دن سے  یہی نام مشہور ہوگیا ہے 

کنیت ابو حمزہ ہے 
آپ والد محترم کا نام محمد اشرف اور دادا کا نام محمد احمد ہے 

*خاندانی پس منظر*

آپ میمن برادری سے تعلق رکھتے ہیں 
آپ کی ولادت 11 مارچ 1980بمطابق 23 ربیع الثانی 1400ہجری کو صوبہ  سندھ کےمشہور  شہر  حیدرآباد میں ہوئی 
ابھی  کراچی کی دھورا جی کالونی میں اقامت پذیر ہیں 


*ابتدائی تعلیم*

امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ مفتی صاحب کے بارے میں ایک سے زائد بار فرمایا 
حسان نے آنکھیں بھی مدنی ماحول میں کھولی ہیں 
آپ کے والد صاحب شروع ہی میں دعوت اسلامی سے منسلک ہو گئے تھے 

یوم آزادی اور میرے جذبات





"یوم آزادی اور میرے جذبات"

تحریر: علامہ عبداللہ ھاشم مدنی

اسلامی مہینے کے اعتبار سے یوم آزادی پاکستان 27 رمضان 1368 ھ کو ہے اس ملک پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا مگر فی زمانہ اسی ملک میں جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسلامی احکامات کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور اسلام دشمن کو آزادی دی جا رہی ہے کبھی قادیانیوں کو قومی اقلیت میں شامل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی کرتار پور سے سکھوں کو پاکستان میں داخلہ کی اجازت دی جاتی ہے کبھی سکھوں کے لیے اعلٰی گردوارے تعمیر کئے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی مساجد اور مذہبی تہوار کو کرونا وائرس کی آڑ میں بند کیا جاتا ہے کبھی اسلام دشمنی میں یہ اسلام سے جاھل حکمران ملک کے جید مشائخ و علماء کو  جیلوں میں قید کرواتے ہے تو کبھی فیض آباد میں سادہ لوح مسلمانوں پر شیلنگ اور فائرنگ کر کے شہید کیا جاتا ہے تو کبھی نا اہل لوگوں کو حکومت میں شامل کیا جاتا ہے اسی طرح کبھی اپنے آپ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھنے والے فواد چودھری جسے وزراء مشائخ و علماء پر زبان درازی کرتے ہیں  اس سب کے باوجود میں پُر امن پاکستانی شہری ہونے کے ثبوت میں کہتا ہوں کہ
مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری 

وبائیں کیوں آتی ہے۔۔۔۔۔؟ ان کے بچنے کی دعائیں۔




قرآن و سنت کے احکام سے روگردانی کرکے اُمت مسلمہ بے پناہ مشکلات اور مصائب کا شکار ہے ، انسانوں کے بنائے نظام کامیابی کے ضامن نہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے نظام (اسلام) میں دنیا اور آخرت کی کامیابیاں ہیں ، اللہ عزّ و جل کی جانب سے نازل شدہ مقدس کتاب قرآن کریم ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اور نبی کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سنت مبارکہ دنیا میں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ ہے ۔ اس سے روگردانی کرنے کی وجہ سے کیا کیا مصائب و آلام آتے ہیں آیئے اس کے متعلق پڑھتے ہیں :

ارشادِ باری تعالیٰ ہے : وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ ۔ (سورہ شوریٰ آیت نمبر 30)
ترجمہ : اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ اس کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا اور بہت کچھ تو معاف فرمادیتا ہے ۔

حضرت علی کو مولا علی کیسا اور لفظ مولا کی تحقیق۔





 ارشادِ باری تعالیٰ ہے : فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ ۔ (سورہ تحريم 66 : 4)
ترجمہ : سو بے شک اللہ ہی اُن کا دوست و مددگار ہے ، اور جبریل اور صالح مومنین بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مدد گار ہیں ۔

مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ”موالی“ ہے ، جس کے تقريباً 20 معانی ہيں ، جن ميں سے چند معانی یہ ہيں : آقا ، مالک، پرورش کرنے والا ، دوست ، آزاد کرنے والا ، آزاد کيا ہوا غلام اور مہربان ۔

قرآن کريم ميں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی ميں استعمال ہوا ہے ۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا اور متعدد ضميروں کے ساتھ بھی يہ لفظ استعمال ہوا ہے ۔ سورة الحج ، آيت 78 ميں 2جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے ، ايک جگہ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جبکہ دوسری مرتبہ بغير ضمير کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ قرآن کريم ميں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی ميں بھی استعمال ہوا ہے۔ سورة الدخان آيت 41 میں ہے: ”جس دن کوئی حمايتی کسی حمايتی کے ذرا بھی کام نہيں آئے گا اور ان ميں سے کسی کی کوئی مدد نہيں کی جائے گی۔ اس ميں مولیٰ” اللہ“ کے لئے نہيں بلکہ دوست کے معنیٰ ميں يعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔  اسی  طرح الحديد، آيت15 : ”چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فديہ قبول کيا جائے گا اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختيار کيا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے ، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور يہ بہت برا انجام ہے ۔ اس ميں لفظ مولیٰ ”کُم“ ضمير کے ساتھ جگہ يا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے ۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کريم ميں يہ واضح کرديا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہيں ۔ قرآن کريم ميں لفظ مولیٰ ”نا“ ضمير کے ساتھ 2 جگہ سورة ا لبقرة آيت286 اور سورہ التوبہ آيت51 میں استعمال ہوا ہے اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے يعنی ليکن اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ مولانا ايک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے ۔ مولیٰ ايک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضميريں استعمال کی جاسکتی ہيں : مولائی ، مولانا ، مولاکم ، مولاہ وغيرہ ۔

مرد قلندر۔مولانا الیاس عطار قادری




آپ مولانا الیاس قادری سے اختلاف کرسکتے ہیں، آپ کو ان کے کچھ طریقوں پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے، آپ کا مسلک بھی ان کے مسلک سے مختلف ہو سکتا ہے ان سب کے باوجود ایک بات ہمیں تسلیم کرنی ہوگی کہ اس بندے کے لاکھوں مرید ہیں، لاکھوں لوگ ان پر جان نچھاور کرتے ہیں، دنیا بھر میں مسلمانوں میں ان کا طوطی بولتا ہے۔ لیکن مجال ہے اتنی طاقت، اتنی فالوئنگ ہونے کے باوجود اس بندے نے کبھی شیشہ توڑا ہو، کبھی ہڑتال کی ہو، کبھی ہنگامہ کیا ہو، کبھی حکومت کو دھمکایا، بلیک میل کیا ہو۔ 

اس شخص کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا بڑا سے بڑا سیاسی لیڈر ان کے در پر ماتھا ٹیکنے کے لیے تیار ہوجائے، وزیرِ اعظم و صدر انہیں اپنے ایوانوں میں بلانے کو اعزاز سمجھیں لیکن مجال ہو اس بندے نے کبھی کسی طاقت اور حکومت کی لالچ کی ہو، سودے بازی کی ہو، ناجائز فائدہ اٹھایا ہو۔ انہوں نے حکم دیا تھیلیسمیا کے بچوں کو خون دو ان کے چاہنے والے دور کر ہزاروں بوتلیں ڈونیٹ کر آئے یہاں تک کہ فلاحی اداروں کو کہنا پڑا بہت خون ہوگیا اب ضرورت نہیں۔ 

سوشل میڈیا پر ان کے خلاف میمز بھی بنتی ہیں اور مہم بھی چلتی ہے، ان کے پاس چینل ہے، بہترین آئی ٹی کی پروفیشنل ٹیم ہے اور پیجز پر لاکھوں لائکس۔ سب جانتے ہیں کی بورڈ کا پاور کیا ہوتا ہے یہ چاہیں تو اپنے چاہنے والوں کو دوسروں کی کردار کُشی پر لگا دیں، انہیں پیسے بھی نہیں دینے پڑینگے بس ایک حکم دینے کی دیر ہے چاہت انسان سے کیا کچھ نہیں کروا سکتی؟ 

میں نے اور پیر، فقیر اور مولوی دیکھے ہیں جن کی فالائنگ ہے اور وہ اس فالائنگ کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس شخص کے فوج میں، عدلیہ میں، پولیس میں، بیروکریسی میں، سیاست میں ہر جگہ مرید اور چاہنے والے ہیں حرام ہو کبھی انہوں نے کسی سے کوئی فائدہ اٹھایا ہو۔ قلندری مزاج اور کیا ہوتا ہے؟ 


’’فتح مکہ کا تفصیلی بیان‘





’فتح  مکہ کا تفصیلی بیان‘
(رمضان  ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ء)
رمضان  ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ’’اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔‘‘ لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ   میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفارمکہ کی ’’عہدشکنی‘‘ اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہےالسیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ، غزوۃ خیبر، ج۳، ص۷۴، ماخوذاً    

شبِ قدر کی فضیلت




علاماتِ شب قدر:
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جا تے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے، گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے، اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جا تے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔ ‘‘ (اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے) (مُسند اِمام احمد ج۸ص۴۰۲، ۴۱۴حدیث۲۲۷۷۶، ۲۲۸۲۹)

مطالعہ سیرت کی اہمیت لغوی و اصلاحی تعریف۔



بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ علی ما علم وھدانا للذی اقوم وسلک بنا السبیل الاسلم وصلی ربنا وبارک وسلم علی دافع البلاء  والقحط والمرض والالم سیدنا ومولنا ومالکنا وماونا محمد مالک الارض ورقاب الامم و علی الہ وصحبہ اولی الفضل والفیض والعطاء والجود والکرم امین
 مطالعہ سیرت کی اہمیت🌸 
   حضورنبی کریم ﷺکی سیرت مبارکہ کا مطالعہ انسان  اور خصوصاًمسلمان کے لیے انتہائی ضروری ہے اللہ رب العزت نے آپ ﷺکی ذات بابرکات کو بہترین نمونہ قرار دیا۔چنانچہ قرآن پاک میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتاہے”لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیۡ رَسُوۡلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ لِّمَنۡ کَانَ یَرْجُوۡا اللہَ وَالْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَذَکَرَ اللہَ کَثِیۡرًا“ترجمہ کنزالایمان:بیشک تمہیں رسول اللّٰہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لئے کہ اللہ  اور پچھلے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے ۔) سورۃ الاحزاب ،آیت 21( 

الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللہ کا تعارف


" شیخ  الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللہ کا تعارف 

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
ہر دور میں لوگوں کی ہدایت اور دین مصطفے کی نشر واشاعت کے لیے اللہ رب العزت کےکچھ خاص لوگوں کا ظہور ہوتا ہے جو اپنے اقوال وافعال اور تحریر سے لوگوں کے دلوں میں محبت خدا اور عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا بیج بوتے ہیں اور  پھر اسکی آبیاری بھی کرتے ہیں ان ہستیوں کا وجود اپنے اپنے دور میں مینارہ نور ثابت ہوتا ہے ان کے وجود سے سوکھے پتے سر سبز ہوجاتے اور مرجائے ہوئے پھول کھلنے لگتے ہیں اور باغ لہلہانے لگتے ہیں ۔جو ان ہستیوں کےقریب ہوتا ہے وہ خدا و مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہوجاتا ہے ۔ان کا دیدار اللہ کی یاد دلاتا ہے ۔اور ان کی نگاہ ناز سے دلوں کے زنگ دھل جاتے ہیں ۔لوگ ان کی زیارت صحبت اور وعظ و نصیحت سے جہاں اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں وہیں اپنی عاقبت کا سامان بھی کرتے ہیں ۔
انہی ہستیوں میں ایک نمایاں اور عظیم نام شیخ الاسلام قمر الملت والدین خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ الرحمہ کا 
ہے

اعتکاف کا بیان فضائل و احکام۔


اعتکاف کا بیان


            اﷲ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:

{ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ۠ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِي الْمَسٰجِدِ١ؕ (  پ۲، البقرۃ: ۱۸۷)

عورتوں  سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں  میں  اعتکاف کیے ہوئے ہو۔

اعتکاف پرانی عبادت ہے:

پچھلی اُمَّتوں میں  بھی اعتکا ف کی عبادت موجود تھی۔ چنانچہ پارہ اوّل سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر 125 میں  اللہ عَزَّوَجَلَّکا فرمانِ عالی شان ہے:  

وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)

ترجَمۂ کَنزُالْاِیمَان: اورہم نے تا کید فرمائی ابراہیم واسمٰعیل کو کہ میر ا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتِکاف والوں اور رُکوع و سجود والوں 

کیلئے ۔

12 مئی کراچی کی تاریخ کا سیاہ ترین دن۔





یہ وہ دن تھا جب کراچی کی سڑکوں پرملک پھر کی سیاسی جماعتیں مختلف شاہراہوں پر گشت کر رہی تھیں اور  مختلف علاقوں کی سڑکوں پر خون کی ہولی کھیلی گئی لوگوں کا قتلِ عام کیا گیا اور عوامی املاک کا نقصان ہوتا رہا۔
سیاسی جماعتوں کی سیاست نے 12 مئی 2007 کو لسانیت کا رنگ دے کر قتلِ عام کیا تھا۔ 

سنہ 2007 میں اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کو عدلیہ کی بحالی کی تحریک کا سامنا تھا۔ 12 مئی 2007 کو معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقعے پر ان کی حمایت اور مخالفت میں ریلیاں نکالی گئی تھیں، اس موقع پر متحرک گروپوں میں تصادم ہوا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک اور130 کے قریب زخمی ہوگئے تھے۔