یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ہمیشہ پُر عزم رہیں


.           🌹 *ہمیشہ پُر عزم رہیں*🌹

✍️ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* 

👈 زندگی میں آگے بڑھنے کیلئے عزم کی ضرورت ہے۔ بعض اوقات دولت کے چھاؤں میں یہ عزم کم ہوتا ہے۔ اور بعض اوقات غربت کی دھوپ میں یہ عزم بہت پُرجوش ہوتا ہے۔ مشکلات انسان کو تباہ کرنے کیلئے نہیں بلکہ بنانے کیلئے آتی ہیں۔مشکلات اور ناکامیوں سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ یہ عارضی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ نہیں رہتیں۔ اندھیروں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ 

👈 اندھیروں میں تو نیچے کے بجائے اوپر دیکھنے کی ضرورت ہے جہاں چاند ستارے چمک رہے ہوتے ہیں۔ اوپر دیکھنا عزم ہے۔  تارے خود بتاتے ہیں کہ ابھی سحر طلوع ہونی ہے۔ اپنا مستقبل بنانے کیلئے آگے بڑھئے۔ آپ جہاں اور جس جگہ ہیں لوگوں کو سہارا دیجئے اور ان کے مستقبل کیلئے رہنمائی کیجئے۔

تعارف سیدی امیر اہل سنت مولانا الیاس قادری زیدہ مجدہ


 تعارف سیدی امیر اہل سنت مولانا الیاس قادری زیدہ مجدہ 
 

*نام و نسب:*

امیر اہل سنت مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کی ولادت 26 رمضان المبارک 1369ھ بمطابق 12 جولائی 1950 بروز بدھ   کراچی کے علاقے کھارادر میں ہوئی 
آپ کا اسم گرامی *"محمد"* اور عرفی نام *الیاس* ہے  آپ کی کنیت ابو بلال اور تخلص عطار ہے آپ کا تعلق میمن برادری سے ہے 

*بیعت و خلافت:*

آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہیں آپ کے پیر صاحب کا نام سیدی قطب مدینہ مولانا ضیاء الدین مدنی علیہ الرحمہ ہے ۔
 آپکی خلافت جانشین قطب مدینہ شیخ فضل الرحمن مدنی سے اور مفتی محمد عبدالسلام قادری فتحپوری اور مفتی محمد وقار الدین رضوی رحمھم اللہ سے ہے۔

*عطار کہلانے کی وجہ:*

آپ نے ایک مدنی مذاکرہ میں فرمایا کہ مجھے عطر لگانے کا شوق تھا  تو پھر میں نے عطر بیچنے کا بھی کاروبار شروع کردیا  اس وجہ سے لوگ مجھے عطار کہنے لگے اسی وجہ سے  میں نے اپنا تخلص عطار رکھا  اور یہ تخلص اتنا مشہور ہوا کہ لوگ مجھے الیاس کم  عطار زیادہ کہنے لگے اور اس میں ایک بزرگ سید فریدالدین عطار رحمہ اللہ کی  نسبت بھی شامل ہے۔ 

*القابات:*

آپ علماء و عوام میں امیر اہل سنت کے لقب سے زیادہ مشہور ہیں 
آپ کو پاک و ہند کے مفتیان کرام و علماء عظام نے مختلف مواقع پر  مختلف القاب سے نوازا جن میں سے چند  یہ ہیں 

عالمِ نبيل، فاضلِ جليل،عاشق رسول مقبول، یادگار اسلاف، نمونہ اسلاف، مبلغ اسلام، رہبر قوم، عاشق مدینہ، امیر اہل سنت، محسن دین و ملت ، ترجمان اہل سنت، حامی سنت ،ماحی بدعت، شیخ طریقت اور شیخ وقت وغیرہ ۔

*خاندانی تعارف:* 

آپ کے آباء و اجداد کتیانہ  جونا گڑھ  ہند سے تعلق رکھتے تھے  پھر پاکستان ہجرت کر کے کراچی میں رہائش پذیر ہوئے  آپ کے والد کا نام حاجی عبدالرحمن قادری اور والدہ کا نام امینہ خاتون علیہما الرحمہ ہے 
 آپ کے دادا کا نام  عبدالرحیم رحمہ اللہ، نانا کا نام  حاجی محمد ہاشم اور نانی کا نام  حلیمہ خاتون تھا 
آپ کے والد صاحب 14 ذی الحج 1370ھ میں حج کے دوران گرم لُو لگنے سے وصال فرما گئے 
آپ کے ایک بھائی تھے عبدالغنی جوکہ آپ سے بڑے تھے انکا حیدر آباد ٹرین حادثے میں انتقال ہوا تھا ۔ 
آپ کے بھائی کے انتقال کے  کچھ عرصے بعد والدہ کا بھی انتقال ہوگیا 
اللہ تعالی کی آپ کے تمام آباء و اجداد پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری مغفرت ہو 
 اور آپ کی دو  بہنیں ہیں 
دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے 

*اخلاق و عادات:*

آپ بچپن سے اعلی اوصاف کے مالک تھے، آپ کی سادہ طبیعت بچپن سے ہے اور ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے والے تھے ،اگر کوئی ڈانٹ بھی دیتا تو جوابی کاروائی کے بجائے خاموشی اختیار کرتے ہوئے صبر کا دامن تھامے رہتے 
شروع ہی سے شریعت پر سختی سے کاربند تھے 
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے الحمد للہ بچپن سے تہجد کا شوق ہے
آپ نے جوانی بھی بے مثال گزاری کہ سب آپ کی تقوی و پاکیزگی کی گواہی دیتے ہیں ۔

*دعوت اسلامی تحریک کا قیام:*

آپ نے اس مدنی مقصد
  مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے تحت 
 سنتوں بھری مدنی تحریک دعوت اسلامی کی بنیاد 1401ھ بمطابق 1981 چند رفقاء کے ساتھ رکھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ تحریک دنیا کے کم وبیش 200 ممالک میں پھیل چکی ہے اور اس تحریک نے ہر سمت سنتوں کے ڈنکے بجا دئیے ہیں 
اس تحریک نے سینکڑوں جامعات اور ہزاروں  مدارس بنائے ، ہزاروں علماء و حفاظ  بنائے اور لاکھوں لوگوں کو راہ راست پر لا کھڑا کیا 
2008 میں خالص اسلامی چینل  مدنی چینل  شروع کیا  جسے دیکھ کر  کئی غیر مسلموں نے کلمہ پڑھا اور ہزاروں بھٹکے ہووں کو راہ دیکھائی 
ہر لحاظ سے دین متین کی خدمت میں مصروف ہے ۔

*تاریخی کارنامے:*

سیدی امیر اہل سنت نبّاض  وقت ہیں ، آپ نے ہر فتنے کا سدباب فرمایا آپ نے ہر محاذ پر باطل قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہمیشہ دفاع اہل سنت کی سعی فرمائی 
مدارس، جامعات، مدنی چینل، کتب لکھ کر، قریہ قریہ نیکی کی دعوت کیلئے مدنی قافلے،  مریدوں کو علم دین کی رغبت دینے کیلئے ہر ہفتے رسالہ عطا کرنا، 
ہر ہفتے  علم دین  سے بھر پور مدنی مذاکرہ فرمانا،
 اورجب اہل بیت کی محبت کے آڑ میں صحابہ کے خلاف بولنے کی جسارت کی گئی تو آپ نے آگے بڑھ کر  ہر صحابی نبی جنتی جنتی کا نعرہ لگاکر باطل قوتوں کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور فیضان مشکل کشا و فیضان امیر معاویہ مساجد بنا کر جواب دیا 
جب گستاخانہ خاکے بننے لگے تو حسن و جمال مصطفے مساجد بناکر جواب دیا

مادہ پرستی کے دور میں لاکھوں افراد کو مغرب کی تہذیب اپنانے کے بجائے سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر کاربند  بنادیا

اللہ تعالی میرے مرشد کو صحت و عافیت والی زندگی عطا فرمائے ۔۔۔آمین

*✍تحریر:*
محمد ساجد مدنی

١٧رجب ١٤٤٢بمطابق ٢مارچ ٢٠٢١بروز منگل

راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل


 راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل




1: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ(دست قدرت) بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقتاً اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری،حدیث:4407)

2: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔
(صحیح بخاری،حدیث:5037)


3: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ (رزق) روک لے گا۔
(صحیح بخاری،حدیث:2451)

 4: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین پر چل رہا تھا اور ہمارے سامنے اُحد پہاڑ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری رات مجھ پر اس حال میں گزرے کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس بچا رہے، سوائے اس کے جو قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں، مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کے بندوں میں وہ مال تقسیم کر دوں یعنی اپنے دائیں بائیں اور پیچھے دیتا رہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زیادہ مال والے قیامت کے روز مفلس (کم نیکیوں والے) ہوں گے مگر جو ایسے، ایسے اور ایسے یعنی دائیں بائیں اور پیچھے سے خرچ کریں، لیکن ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس واپس آؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر میں نے اونچی آواز سنی۔ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی حادثہ پیش نہ آ گیا ہو۔ یہ سوچ کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد آ گیا کہ میرے آنے تک اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ نہ چھوڑی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تو خوفزدہ ہو گیا لیکن مجھے حضور کا ارشاد عالی یاد آ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے آواز سنی؟ میں عرض گزار ہوا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جبرائیل تھے، میرے پاس آئے اور کہا : آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو جائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ (بالآخر) جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا : خواہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں) خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘
(صحیح بخاری،حدیث:6079)


 5: حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور پھر جلدی سے کاشانۂ اقدس میں داخل ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں گھر میں صدقے کا سونا چھوڑ آیا تھا۔ مجھے نا پسند ہوا کہ اس کے ہوتے ہوئے رات گزاروں، پس میں نے اسے تقسیم کر دیا۔
(صحیح بخاری،حدیث:1363)

6: حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر کوئی عنقریب اس حال میں اپنے رب سے کلام کرے گا کہ رب کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا۔ پس جب وہ دائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہو گا، پھر جب وہ بائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر صرف وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہوگا، اور جب سامنے نظر کرے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر جہنم جو اس کے سامنے ہو گی۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے سے ممکن ہو۔
(صحیح بخاری،حدیث:2729)

7: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی ۔ اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے ۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔‘‘
(صحیح مسلم، حدیث:1014)

8:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ فرمایا : جب تم صدقہ اس حال میں دو کہ تندرست ہو، مال کی ضرورت ہو اور تنگ دستی سے خائف ہو اور مال داری کا اشتیاق ہو۔ اتنی دیر نہ کرو کہ جان گلے میں آپھنسے اور تب تو کہے کہ اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے ہے حالانکہ اب تو وہ (تیرے کہے بغیر) فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔
(صحیح مسلم،حدیث:1032)


9: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی ایک درہم اپنی زندگی میں صدقہ کرے تو یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ سو درہم اپنی موت کے وقت خیرات کرے۔‘‘
(سنن ابی داؤد،حدیث:2866)

10: حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کون ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پیارا ہو؟ لوگ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! ہم میں سے تو ہر کسی کو اپنا مال ہی سب سے زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا ہر شخص کا اپنا مال صرف وہ ہے جسے اس نے (خرچ کر کے) آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔
(سنن نسائی،حدیث:3612)

11: حضرت قیس بن سلع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شکایت کی، انہوں نے کہا : یہ اپنا مال فضول خرچ کر دیتا ہے اور اس میں خوش رہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے استفسار کیا : قیس! کیا بات ہے؟ تیرے بھائی تیرے بارے میں شکایت کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تو فضول خرچی کرتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں پیداوار میں سے اپنا حصہ لے لیتا ہوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور اپنے دوستوں پر خرچ کر دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا : تو خرچ کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کرتا رہے گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد جب میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلا تو حالت یہ تھی کہ میرے پاس ایک سواری تھی اور آج میں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ مال و دولت والا اور خوش حال ہوں۔
(طبرانی،حدیث:8536)

12: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز تھے۔ نے صدقہ کرنے، سوال سے بچنے اور سوال کرنے کے متعلق فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے؛ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا سوال کرنے والا ہے۔
صحیح مسلم،حدیث:1033)

13: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد غنا قائم رہے اور اوپر (دینے ) والا ہاتھ نیچے (لینے) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور ابتداء اُن سے کرو جو تمہارے زیرکفالت ہیں، یہ نہ ہو کہ بیوی بھی کہے کہ مجھے کھانا دو ورنہ طلاق دے دو، غلام کہے کہ مجھے کھانا دو اور مجھ سے کام لو اور بیٹا کہے کہ مجھے کھانا دو، مجھے کس کے سہارے چھوڑ رہے ہو؟ لوگوں نے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنی ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، یہ ابو ہریرہ کی ذہانت میں سے ہے۔
(مسند امام احمد،حدیث:10830)

14: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ کرنا بہتر ہے اور (ضرورت سے زائد اپنے پاس) روکے رکھنا تیرے لئے برا ہے، لیکن بقدرِ ضرورت (اپنے پاس) رکھنے پر تجھے کچھ ملامت نہیں۔ اور پہلے ان پر خرچ کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں، اور اُوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے.
(مسند امام احمد،حدیث: 22319)

الحمدللہ رب العالمین دعوت اسلامی دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہے اور اس تحریک کو چلانے کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے 
دعوت اسلامی کے تین بڑے شعبے جامعتہ المدینہ، مدارس المدینہ اور کنز المدارس کے لئے 7نومبر سے مدنی عطیات مہم ٹیلی تھون شروع ہو رہی ہے تو آپ بھی اس میں ضرور حصہ شامل کیجئے۔


✍️تحریر: 
محمد ساجد مدنی
6.11.2021ء

WhatsApp:
+923013823742

علامہ خادم حسین رضوی اور ادب حدیث


علامہ خادم حسین رضوی اور ادب حدیث



امیر المجاہدین حضرت علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد بیان کرتے ہیں کہ آپ دوران تدریس حدیث شریف کا سبق پڑھانے سے پہلے قصیدہ بردہ شریف خود بھی پڑھتے اور طلباء کرام سے بھی پڑھاتے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا شجرہ مبارکہ مطہرہ  حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پڑھتے تھے اور روزانہ قصیدہ بردہ شریف کے ایک شعر کی تشریح کرتے (زمانہ طالب علمی میں آپ کے استاذ علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنا درس شروع کرنے سے پہلے قصیدہ بردہ شریف پڑھتے تھے اسی وجہ سے آپ نے اس طریقہ کو اپنایا ہوا تھا) اسکے بعد حدیث شریف کا درس شروع فرماتے تھے، دورانِ درس حدیث ذرا سی منافی ادب بات بھی گوارا نہیں کرتے اگر حدیث کی کتاب الٹی یا ٹیڑھی رکھی دیکھتے تو بہت زیادہ ناراض ہوتے تھے
ایک دفعہ ایک شاگرد نے حدیث شریف کی عبارت پڑھی اور پہلا لفظ غلط پڑھ گئے تو آپ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ حدیث رسول ہے کوئی عام کتاب نہیں اس میں غلطی یا عدم توجہ ناقابل معافی ہے۔(حالانکہ درس و تدریس سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں یہ چیزیں درپیش آتی رہتی ہیں لیکن حضرت کے عشق پر قربان )
آپ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ جس وقت قبلہ امیر المجاہدین رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ملال والی حدیث پڑھائی تو آپ کی ایسی حالت تھی کہ آپ کا جگر پھٹ جائے گا اور یہ بات کرتے کرتے دس منٹ سے زیادہ لگ گئے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تین سو سال کوئی بندہ مسکرا نہیں سکا اور منہ پر چادر رکھ کر بلک بلک کر روتے جاتے۔
(امیر عزیمت،ص 23تا25 مخلصا)

حدیث شریف میں استدلال کے حوالےسے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ سے زیادہ متاثر تھے اور آپ سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔

مفتی عبدالرشید ہمایوں صاحب اپنی کتاب "قائد ملّت اسلامیہ" میں لکھتے ہیں:
قائد ملّت اسلامیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول تھے اور آپ نے لاکھوں افراد کو عشق رسول کے جام سے سیراب کیا ہے، آپ انتہائی دلنشین انداز سے نبی کریم روف رحیم صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث سنایا کرتے اور اس کی شرح بیان کرتے،ہجر رسول میں ان کی آنکھوں سے زار و قطار اور بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے،سننے والے اس قدر محو ہو جاتے کہ چشمِ تصور سےمدینہ دیکھ لیتے۔
(قائدِ ملت اسلامیہ،ص52)


✍️ محمد ساجد مدنی
19.11.2021ء

مختصر سیرت علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ


 مختصر سیرت علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ 




*ابتدائی حالات:*

علامہ خادم حسین رضوی صاحب  ضلع اٹک کے ایک گاوں نگا کلاں میں ایک زمیندار گھرانے میں 22نومبر 1966 کو پیدا ہوئے 
آپ کے والد کا نام لعل خان ہے 
آپ کا ایک بھائی جسکا نام امیر حسین ہے اور چار بہنیں ہیں 
آپ کے والد کا انتقال 2008 میں ہوا
 اور والدہ کا 2010میں انتقال ہوا 

*تعلیمی سفر:*
 
آپ نے سکول میں صرف چار جماعتیں پڑھیں تھیں اور آٹھ سال کی عمر میں ضلع جہلم کی طرف طلب علم دین کیلئے رخت سفر باندھا اور  مدرسہ جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں قاری غلام یسین صاحب سے حفظ قرآن شروع کیا 
آپ نے چار سال کے عرصے میں حفظ قرآن مکمل کیا  اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی 
پھر آپ نے ضلع گجرات کے کے قصبے دینہ میں 2 سال قرات کورس کیا 
14 سال کی عمر میں لاہور تعلیم کیلئے آئے  
1988 کو آپ نے دورہ حدیث شریف مکمل فرمایا آپ عربی کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے 
آپ نے پہلی ملازمت 1993 میں محکمہ اوقاف پنجاب میں کی اور داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے 
پھر ختم نبوت اور  ناموس رسالت تحریک چلانے کی وجہ سے آپ نے نوکری چھوڑ دی اور یتیم خانہ روڈ لاہور کے قریب واقع مسجد رحمة للعالمين میں خطابت کرتے رہے اور ساری زندگی مشاہرہ صرف 15000 لیتے رہے 

*رشتہ ازدواج:*

آپ کی شادی اپنی چچا زاد بہن سے ہوئی اور اللہ تعالی نے 2 بیٹوں اور 4 بیٹیوں سے نوازا
بڑے صاحب زادے کا نام حافظ سعد حسین رضوی اور چھوٹے صاحبزادے کا نام حافظ  انس حسین رضوی ہے آپ کے دونوں بیٹے حافظ قرآن ہیں اور  حافظ سعد حسین نے درس نظامی مکمل کیا ہے اور حافظ انس حسین درس نظامی کررہے ہیں

*اقبال سے عشق کی وجہ:*

آپ فرماتے ہیں کہ دوران تعلیم درسی کتب کے علاوہ جن کتب کا مطالعہ کرتا تھا ان میں ڈاکٹر اقبال کا فارسی مجموعہ کلام سر فہرست تھا 
1988 میں کلیات اقبال خریدی لی تھی اور نو عمری میں ہی اس قلندر شاعر کے افکار کا مطالعہ شروع کردیا 
آپ فرماتے ہیں کہ گویا کہ اقبال کی روح نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ہے 
اقبال کے کلام کے بعد علامہ اقبال کے شاعری کے استاذ مولانا روم علیہ الرحمہ کو پڑھا اور اور انکے بیشتر کلام کو ازبر یاد کرلیا تھا 
آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اقبال، مولانا روم اور اعلی حضرت فاضل بریلوی کی شاعری نے بہت زیادہ متاثر کیا اور یہ حضرات عشق رسول کے وہ جام پلاتے ہیں جنھیں پینے کے بعد کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی اور اردو شعراء میں اکبر الہ آبادی کی شاعری پسند تھی 
آپ کو مطالعہ کا جنون رہتا تھا آپ سفرنامے بہت پڑھتے تھے آپ نے حکیم محمد سعید اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کے تمام سفر نامے پڑھ ڈالے 
تاریخ اسلام کا مطالعہ آپ کی اولیں ترجیح تھی اور تمام مسلم سپہ سالار کی سیرت کا مطالعہ کرتے رہتے 
آپ فرماتے ہیں اسلام کے تمام سپہ سالار اپنی مثال آپ ہیں لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور آپ کے مزار پر حاضری دینا ایک دیرینہ خواہش تھی اور الحمد للہ پوری ہوئی

*تحریک لبیک یارسول اللہ کا آغاز:*

آپ اپنی زندگی معمول کے مطابق گزار رہے تھے کہ غازی ممتاز حسین قادری علیہ الرحمہ  نے جب گستاخ رسول سلمان تاثیر کو واصل جہنم کیا اور پھر غازی صاحب کو گرفتار کیا گیا اور انکو پھانسی دے دی گئی اس واقعہ نے آپ کی زندگی میں انقلاب برپا کردیا 
پھر  جب ختم نبوت قانون میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی گئی تو ملک گیر احتجاج ہوا اور فیض آباد میں بھرپور احتجاج کیا گیا جسکی وجہ سے اس تحریک کو بہت مقبولیت ملی اور 2018 میں 26 لاکھ کے قریب ووٹ حاصل کیے اتنے کم عرصے میں پاکستان کی 5 بڑی تحریک  بن گئی اس تحریک کا اسلام مقصد نظام مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا نفاذ رہا ہے اور علامہ خادم حسین رضوی صاحب آخری دم تک اسی نظام کے نفاذ کیلئے لڑتے رہے 

ملفوظات:


1: اب ایک جنگ شروع ہوچکی ہے اور یہ ناموس رسالت کی جنگ جو اس میں پیچھے رہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کررہا ہے 

2: اگر دنیا و آخرت میں عزت چاہتے ہو تو "لبیک یا رسول اللہ " کا نعرہ لگاو 

3: میری داڑھی سفید ہوگئی اور بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں مجھے کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملی جس سے پتا چلے کہ جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے 2 نمبری کی ہو اور بچ گیا ہو 

4: اسلام قربانیوں کا نام  ہے چیخنے چلانے کا نام نہیں ہے 

5: اگر ہم فیض آباد دھرنے میں جل کر راکھ ہوجاتے تو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے مقابلے میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں 

6: اسلام کسی کا قرض نہیں رکھتا  اگر کسی نے صرف کلمہ خیر بھی کہا تو اسلام  اسکے اس ایک جملے کے صدقے میں ہزاروں افراد کے سامنے اسکی تعریف کرا دیتا ہے 

7: جوانو۔۔!!
تم اٹھ کھڑے ہوئے تمھارا اٹھ کھڑا ہونا ہی کافی ہے 
اسلام تمھاری جوانیاں بچائے گا اور تمھاری عزتیں بھی بچائے گا 
اگر اسلام کے ساتھ رہو گے تو تمھارا نام روشن رہے گا 

8: باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ اب گھروں سے نکلنا پڑے گا 
صحابہ کرام نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی نماز نہیں چھوڑی اور تم اعلی کھانے کھا کر بھی کہتے ہو دین پر چلنا مشکل ہے 

9: جب  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادین تخت پر ہوگا تو کوئی کسی کا حق نہیں مارے گا 

10: اگر امت مسلمہ ترقی کرنا چاہتی ہے تو اپنے دلوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مزید پیدا کرے 
حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر فرض اعظم بلکہ جان ایمان ہے
 
11: اگر کوئی اسلام کی مدد نہ کرنا چاہے تو اسلام اسکی مدد کا محتاج نہیں  
اسلام تو کمزوروں کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ وہ ظالموں کے سامنے کھڑے ہوجاتے ہیں اور فتح یاب ہوجاتے ہیں 

12: لوگ کہتے ہیں کہ میں بہت سخت بولتا ہوں میں ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے سخت ہوں اور ہونا بھی چاہیے مولا علی رضی اللہ تعالی عنہ  فرماتے ہیں تلخ لہجے والا انسان سچا ہوتا ہے اور میٹھے لہجے والے اکثر منافق ہوتے ہیں 

اللہ تعالی ہمیں بھی ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔

علامہ خادم حسین رضوی صاحب وہ واحد شخصیت ہیں جنھوں نے اس زمانہ میں  امت مسلمہ کو ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہرہ دینے کیلئے بیدار کیا اور بچہ بچہ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر مرمٹنے کیلئے تیار ہوگیا 
آپ ہمیشہ ناموس رسالت پر پہرہ دیتے رہے اور اپنی زندگی اسی مشن پہ لگادی 
اللہ تعالی نے آپ کو وہ حوصلہ اور جرات دی تھی کہ ملت کفر آپ کی للکار سے لڑکھڑاتی تھی ہمیشہ کفر آپ کی شخصیت سے خوف زدہ رہا 
آپ کو ناموس رسالت پر پہرہ دینے کی پاداش میں کئی بار جیل جانا پڑا اور سخت سے سخت عقوبتوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ ہمیشہ استقامت کے پہاڑ بن کر ڈٹے رہے
 
عُلما ٕ کا دنیا سے جانا لوگوں 
کی ہلاکت کی علامت ہے 😭
دارمی حدیث 241)
الوداع امیر المُجاہدین 💔

بالآخر امام عزیمت 19 نومبر 2020 رات 8 بجکر 46 منٹ پر  ہمیشہ کیلئے داغ مفارقت دے گئے 

دیکھ تو نیازی ذرا سو گیا کیا دیوانہ
ان کی یاد میں شاید آنکھ لگ گئی ہو گی

إنا للہ وانا الیہ راجعون 😭💔

میرے جنازے پر رونے والوں
فریب میں ہو بغور دیکھو
مرا نہیں ہوں غم نبی میں
لباس ہستی بدل گیا ہوں

*سلام عقیدت ببارگاہ خادم حسین رضوی*

گرچہ  معذور  تھا  پھر  بھی  لڑتا رہا 
بابا خادم کی  ہمت  پے لاکھوں سلام 

جو کہ میدان میں  ڈٹ کے ٹہرا رہا 
ایسی مضبوط  طاقت پے لاکھوں سلام 

سخت  سردی  میں  جو  پہرا  دیتا رہا 
ایسے عالم کی عظمت پے لاکھوں سلام 

کفر کی  دنیا  جن  سے  لرزتی  رہی 
شیر حق کی شجاعت پے لاکھوں سلام 

جن کے چہرے سے باطل ہی ڈرتا رہا 
ان کی نورانی صورت پے لاکھوں سلام 

عشق   سرکار   کا   وه   پلاتے  رہے 
ساقئی جام  الفت   پے  لاکھوں سلام 

جن  کی   آواز   سے  کفر  سہما  رہا 
ان کی ایسی جلالت پے لاکھوں سلام 

جس  نے  ختم  نبوت پے پہرا دیا 
شمشیر اہل سنت  پے لاکھوں سلام 

لو عمران  رضا   کا   سلام   آخری 
تیری شان اور شوکت پے لاکھوں سلام

تحریر:
محمد ساجد مدنی
19.11.2020ء

*دستار صحابہ بدست رسول صلی اللہ علیہ وسلم*


 *دستار صحابہ بدست رسول صلی اللہ علیہ وسلم*




جس چیز کو بھی رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلّم سے نسبت ہوئی وہ عروج کے اعلیٰ درجہ پر پہنچی اسی نسبت نے اسے دوسروں سے ممتاز کردیا اور رہتی دُنیا تک وہ معزز و مکرم رہی 
نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں صحابہ کرام کو خیر الخلق کے مرتبہ پر فائز کیا وہیں اُنہیں میں سے کچھ اشخاص ایسے بھی ہیں جنھیں خاص اعزاز سے نوازا  جیسے  حضرت حذیفہ بن یمان رضی ﷲ عنہ صحابی کی گواہی کو دو افراد کی گواہی کے برابر قرار دیا، حضرت زبیر و سعد رضی ﷲ عنہما کے لئے فرمایا "تم پر میرے ماں باپ قربان"، ایسے ہی تین خوش نصیب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے بھی ہیں جن کے سروں پر نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے عمامہ شریف سجایا ہے:

1: *حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم*

آپ کے سر پر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے تین بار اپنے ہاتھوں سے عمامہ شریف سجایا:

1: پہلی مرتبہ جب آپ کو نبی اکرم شافع اعظم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلّم یمن بھیجنے لگے تو اس وقت عمامہ شریف آپ کے سر پر سجایا
(طبقات ابنِ سعد،128/2)

2: دوسری بار جب غزوہِ خندق کے موقع پر عمرو بن عبدود نے مقابلہ کے لئے للکارا تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے مقابلہ کی اجازت چاہی تو نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اجازت مرحمت فرماتے ہوئے جھنڈا عطا کیا اور  اپنے ہاتھوں سے ان کے سر پر عمامہ شریف باندھ کر دعا فرمائی۔
(طبقات ابنِ سعد،52/2)

3: تیسری مرتبہ خدیر خُم کے مقام پر عمامہ شریف آپ کے سر پر باندھا۔
(سنن کبری للبیہقی،حدیث:19736)


2: *حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ*

حضرت معاذ بن جبل رضی ﷲ عنہ جب دعوت اسلام کو عام کرنے کے لئے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے نمائندہ بن کر یمن جانے لگے تو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اپنا عمامہ شریف ان کے سر پر باندھا۔
(تاریخ الخمیس، ذکر معاذ بن جبل،142/2)


3: *حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی ﷲ عنہ*

ایک جنگ پر جانے کے موقع پر نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ایک سفید عمامہ اپنے مبارک ہاتھوں سے آپ کے سر پر سجایا۔
(المستدرک،حدیث: 8667)
جب بھی کوئی بڑا معاملہ درپیش آتا یا کو اہم فیصلہ کرتے تو اس وقت آپ رضی ﷲ عنہ اسی عمامہ شریف کو اپنے سر پر سجاتے تھے۔


✍️ تحریر:
محمد ساجد مدنی
25.11.2021ء

*محدثین کے تروتازہ چہرے بھی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے*


 *محدثین کے تروتازہ چہرے بھی نبی صلی ﷲ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے* 



 نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی حدیث کے حاملین کے چہرے تروتازہ رہتے ہیں اور بعض آئمہ کرام نے فرمایا کہ ہر محدث کا چہرہ تروتازہ ہوتا ہے اس لئے کہ سید عالم صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
الله اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میرے کلام کو سن کر یاد کیا اور پھر اسے ان لوگوں تک پہنچایا جنھوں نے سنا نہیں تھا۔
اور نبی اکرم شافع اعظم صلی ﷲ علیہ وسلم کے خصائص میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کی حدیث کے حاملین کو حافظ اور امیر المومنین لقب دیا جائے گا۔
(جواہر البحار616/1)

محدثین اس بات میں مشہور ہیں کہ انکی عمریں طویل ہوتی ہیں بلکہ ہر زمانے میں تجربے نے اس بات کی تصدیق کی ہے
 اور حضور جان عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کیلئے رحمت اور شادابی و ترتازگی کی دعا فرمائی اور انہیں سب سے بڑی خوشخبری  جنت کی بشارت سے نوازا
 اور ان کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ حضرات سلامتی ومال کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر ہیں اور رزق حلال انکے پاس وافر مقدار میں  ہوتا ہے 
انہیں کی برکت سے آفات و بلیات دور ہوتی ہیں اور قیامت کے دن سید الانبیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریب ہونگے ۔

ابو اسحاق ابراہیم بن عبدالقادر ریاحی تونسی نے فرمایا:
محدثین عظام کے چہرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے تروتازہ ہوتے ہیں

جیسا حدیث مبارکہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

نضراﷲ عبدًا سمع مقالتی فحفظہا ووعاھا واداھا
 ﷲ تعالٰی اس بندے کو تروتازہ رکھے  جس نے میری حدیث سن کر یاد کیا اور اسے دل میں جگہ دی،اور ٹھیک  ٹھیک  اوروں کو پہنچادی 

حوالہ:

1: مسند احمد بن حنبل حدیث جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ المکتب الاسلامی بیروت
2: تعارف محدثین و کتب محدثین ص 69


✍️ تحریر:
محمد ساجد مدنی
30.11.2021ء


WhatsApp:
+923013823742

محدث اعظم پاکستان کی علماء و طلباء کو نصائح


 *محدث اعظم پاکستان کی علماء و طلباء کو نصائح*



علماء کرام ہمیشہ لباس اجلا،عمدہ اور اعلیٰ پہنیں اور اس کی شرعی حیثیت کا خیال بھی ضروری ہے
عمدہ جوتا استعمال کریں تاکہ دنیا داروں کی نگاہ عالم کے جوتوں پر رہے
۔
پیارے آقا صلی ﷲ علیہ وسلم کا ذکر اتنا کریں کہ لوگ تمہیں دیوانہ سمجھیں۔

قرآن و حدیث اور کتب دینیہ کے بارے یہ نہیں کہنا چاہیے کہ وہاں پڑی ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہاں رکھی ہیں۔

بیان ٹھوس کریں اور جو مسئلہ بیان کریں اس کا ثبوت آپ کے پاس تحقیقاً یا الزاماً ہو آپ ہوں اور کتابوں کا مطالعہ۔

جس قدر علم میں توجہ کریں گے اس قدر ترقی و عروج ملے گا۔

علم اور علماء کے وقار کو مدنظر رکھیں کوئی ایسا کام نہ کریں کہ علماء کرام کا وقار مجروح ہو آپ دین کے مبلغ اور  ترجمان ہیں آپ کا کردار بے داغ ہونا چاہیے۔

اپنوں سے الجھ کر وقت ضائع مت کریں بلکہ اتنا وقت دین کی تبلیغ اور بدمذہبوں کی تردید میں گزاریں۔

دنیاداروں سے بے تکلفانہ روابط قائم نہ کریں۔

(فیضانِ محدث اعظم پاکستان،ص46.47)


✍️ محمد ساجد مدنی

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم شکل چند شخصیات


 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم شکل چند شخصیات


1: حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ

حضرت عبداللہ بن اوفی رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا آپ نے فرزند رسول حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کو دیکھا تھا تو آپ نے جواب دیا جی ہاں ،آپ بچپن ہی میں وصال فرما گئے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے اور  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہوتا تو سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ زندہ رہتے۔
(معجم اوسط،حدیث:٦٦٣٨)

2: حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا

اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ، صِدِّیقہ،طیِّبہ، طاہِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں  کہ میں  نے چال ڈھال، شکل و شباہَت(رنگ رُوپ) اور بات چیت میں  فاطِمہ عفیفہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) سے بڑھ کر کسی کو حُضور نبیِّ اَکرَم (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے مُشابِہ نہیں  دیکھا
(سُنَنِ اَبُودَاؤُد، کتاب الادب ،باب ما جاء فی القیام، ص۸۱۲، الحدیث:۵۲۱۷ )

3: نواسہ رسول حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ:

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
حسن بن علی رضی اللہ عنہما سے زیادہ کوئی شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ نہیں تھا

(صحیح البخاری،حدیث:٣٧٥٢)

4: نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ

جب امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر عبیداللہ بن زیاد کے پاس لایا گیا اور ایک طشت میں رکھ دیا گیا تو وہ چھڑی سے مارنے لگا اور آپ کے حسن کے بارے کچھ کہنے لگا تو اس پر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا
حسین رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مشابہت رکھنے والے ہیں
(صحیح البخاری،حدیث:3748)

ایک اور روایت میں ہے

سیّدنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے کہ امام حسن رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سینے اور سَر کے درمیان جبکہ امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سینے سے نیچے کے حصّے میں رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کےبہت مشابہ تھے۔
(ترمذی،ج5،ص430، حدیث:3804)

حکیمُ الامّت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن اس روایت کے تحت فرماتے ہیں:
خیال رہے کہ حضرت فاطمہ زہرا (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا) اَزسر تا قدم بالکل ہم شکلِ مصطفیٰ تھیں صلَّی اللّٰہ علیہ وسلَّم اور آپ کے صاحبزادگان میں یہ مشابہت تقسیم کردی گئی تھی۔ حضرت حسین کی پنڈلی، قدم شریف اور ایڑی بالکل حضور کے مشابہ تھی حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سے قدرتی مشابہت بھی اللّٰہ کی نعمت ہے جو اپنے کسی عمل کو حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ) کے مشابہ کردے تو اس کی بخشش ہوجاتی ہے تو جسے خدا تعالٰی اپنے محبوب(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ)  کے مشابہ کرے اس کی محبوبیت کا کیا حال ہوگا۔
(مراٰۃ المناجیح،ج 8،ص480ملخصاً)

5: حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ

آپ رضی اللہ عنہ کے بارے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم صورت و اخلاق اور عادات میں میرے مشابہ ہو
(صحیح بخاری، حدیث:٢٦٩٩)

6: حضرت عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہما

آپ بارے میں بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
تم صورت و اخلاق اور عادات میں میرے مشابہ ہو
(مسند امام احمد،حدیث:١٧٥)

7: عون بن عبداللہ بن جعفر طیار رضی اللہ عنہم

آپ کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عون شکل وصورت اور اخلاق و عادات میں میرے مشابہ ہیں
(المعجم الکبیر،حدیث:١٤٦١)


8: حضرت قثم بن عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم

آپ رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب صحابی ہیں جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر انور میں اتارا اور لحد اقدس سے سب سے آخر میں باہر نکلے
آپ کے بارے میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ آپ بھی نبی اکرم شافع اعظم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم شکل تھے۔
(سیر اعلام النبلاء:٢٠٣/١)

 9: حضرت ابو سفیان بن حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما

آپ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی بھائی ہیں کہ حضرتِ حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بھی دودھ پلایا تھا 
امام عبد البر رحمہ اللہ علیہ نے آپ کی سیرت میں بیان فرمایا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شکل وصورت میں ہم شکل تھے۔
(الاستیعاب لابن البر ،١٦٧٦/٤)

10: حضرت سائب بن عبید بن عبدبن یزید رضی اللہ عنہ

آپ سیدنا امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے جد امجد ہیں 
بہت سارے علماء کرام نے بیان کیا ہے کہ آپ دکھنے میں رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ لگتے تھے۔
(تاریخ ابن خیثمہ،٢٢٧/١)

11: حضرت عبداللہ بن عامر بن کریز رضی اللہ عنہ

آپ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ماموں زاد بھائی ہیں اور آپ کو دیکھ کر رسولِ عربی نبی ہاشمی صلی اللہ علیہ فرمایا کرتے:
ان کی شکل ہم سے ملتی جلتی ہے
(اسد الغابہ،٢٨٩/٣)

12: مسلم بن عقیل بن ابی طالب رضی اللہ عنہما

آپ جلیل القدر تابعی ہیں اور سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے خلیفہ بن کر کوفہ گئے تھے
آپ کے بارے بھی علماء سیر نے بیان فرمایا کہ آپ بھی رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھے۔
الثقات لابن حبان،٣٩١/٥)

 اس کے علاؤہ مزید بھی کچھ شخصیات ہیں جن کی شکل وصورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ تھی

13: حضرت محمد بن عقیل بن ابی طالب 
14: حضرت کابس بن ربیعہ بن مالک 
15: حضرت عبداللہ بن حارث بن نوفل 
16: حضرت قاسم بن عبداللہ بن محمدبن عقیل 
 17: حضرت ابراہیم بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی 
18: حضرت یحیی بن قاسم بن جعفر بن محمد بن حسین بن علی 
19: ابراہیم بن حسن بن حسن بن علی 

رضی اللہ عنہم اجمعین

تحریر:
محمد ساجد مدنی
2ستمبر 2021 بروز جمعرات

علماء کرام کا زمانہ طالب علمی


 علماء کرام کا زمانہ طالب علمی



علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
میں اساتذہ اور شیوخ کے حلقوں میں درس لینے کے لیے اس قدر جلدی کرتا تھا کہ دوڑنے کی وجہ سے میری سانس پھول جاتی تھی، علم دین کی طلب میں اس قدر مشغول ہوتا تھا کہ صبح وشام کے کھانے کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا تھا۔
(علم و علماء کی اہمیت،ص28)


امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
میں نے سترہ سال تک برابر نمازِ فجر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے درس میں پڑھی روزانہ ان کے درس میں شامل ہوتا رہا۔
(اولیاء رجال الحدیث،ص 25)

محدث اعظم پاکستان علامہ سردار احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ  جب مسجد میں حاضر ہوتے اور جماعت میں تاخیر ہوتی تو آپ کسی نہ کسی کتاب کا مطالعہ شروع کر دیتے،مطالعہ کی یہ حالت ہوتی کہ رات کو شروع کر دیتے بسا اوقات صبح کی اذان ہوجاتی تھی، جب منظر الاسلام جامعہ میں پڑھتے تھے اور لائٹ کا نظام نہ تھا تو آپ قریبی عمارت کی سرکاری لائٹ کے نیچے بیٹھ کر پڑھتے تھے اور جب اساتذہ کو معلوم ہوا تو آپ کے کمرے میں لالٹین کا بندوبست کردیا۔
(فیضانِ محدث اعظم پاکستان،ص9)

زمانہ طالب علمی میں علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ کے پاس کپڑوں کا صرف ایک جوڑا تھا جو پہنا ہوتا تھا آٹھ دن کے بعد آپ اس کو نہر پر جا کر دھوتے تھے، آپ اس کو دھوکر پھیلا دیتے اور خود اس کے سوکھنے تک پانی کے اندر بیٹھے رہتے کیوں کہ باہر نکلتے تو پہننے کو کچھ نہ تھا
(علامہ غلام رسول سعیدی. حیات وخدمات ص15)

مفتی ہاشم خان عطاری صاحب زید مجدہ کے متعلق آتا ہے کہ زمانہ طالب علمی میں بہت مشقت سے وقت گزارا ہے آپ اول وقت میں مدرس کورس کراتے تھے اور رات کو درس نظامی کی کلاسیں لیتے ،آپ زمانہ طالب علمی میں مالی کمی کی وجہ سے بہت بہت عرصہ بعد گھر جاتے اور ٹرین کی اکانومی سیٹ بک کراتے برتھ یا سیٹ بک نہیں کراتے تھے یہ سب رقم کی عدم فراہمی کی وجہ سے ہوتا ،اگر جوتا گم ہوجاتا یا ٹوٹ جاتا تو کئی کئی دن تک ننگے پاؤں گھوما کرتے تھے لیکن اتنی رقم نہیں ہوتی کہ نیا جوتا خرید سکیں لیکں ان کٹھن حالات میں ہمت نہیں ہاری اور اپنے ہدف کی طرف بڑھتے رہے بالآخر مشقت کے بعد آسانی کا دور آیا اور آج دعوت اسلامی کے سینئر مفتیان کرام میں سے ایک ہیں
(شرح جامع ترمذی جلد اول ص 48)

ڈاکٹر محمد آصف اشرف جلالی صاحب کے متعلق سنا ہے کہ آپ فرماتے ہیں میں نے اتنی روٹیاں نہیں کھائی ہیں جتنی کتب کا مطالعہ کیا ہے۔
واللہ اعلم باالصواب

شیخ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری صاحب زید مجدہ نے ایک دفعہ طلبہ کو کتابوں کےخریدنے اور ان کا مطالعہ کے حوالے سے ترغیب دلاتے ہوئےفرمایا:
مجھے زمانہ طالب علمی میں جو رقم جیب خرچ کے لئے ملتی تھی اس میں سے آدھی خرچ کرتا اور آدھی سے کتابیں خرید لیتا تھا، مفتی صاحب کے بارے میں آتا ہے کہ آپ بھی بسا اوقات اذان فجر تک مطالعہ فرماتے تھے۔


✍️تحریر:
محمد ساجد مدنی
17.12.2021ء

*بخاری شریف کی برکات*


 *بخاری شریف کی برکات* 



بخاری شریف جسے کتاب اللہ کے بعد اصح الکتب کا درجہ حاصل ہے اس کی شان یہ ہے کہ ہر حدیث لکھنے سے پہلے امام بخاری غسل کرتے اور  دو رکعت نفل ادا کرتے ،اس کے ابواب کو روضہ رسول صلی ﷲ علیہ وسلم اور منبر شریف کے درمیان بیٹھ کر مرتب فرمایا 
 اورمقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس کتاب کو امام بخاری کے نوے ہزار شاگردوں نے براہِ راست آپ سے سماع کیا ہے اور آج تک کسی کتاب یا محدث کو یہ مقام حاصل نہیں ہوا، اس کتاب کو سب سے بڑا اعزاز یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے امام محمد بن احمد مروزی رحمۃ اللہ علیہ کے خواب میں تشریف لاکر بتایا کہ یہ (صحیح بخاری) میری کتاب ہے۔

علماء کرام نے بخاری شریف کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے

علامہ عبد المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب " اولیاء رجال الحدیث" میں رقمطراز ہیں:
بہت سے محدثین و بزرگانِ دین نے بارہا تجربہ کیا ہے کہ بخاری شریف کا ختم پڑھنا دشمنوں کے خوف، مرضی کی سختی اور دوسری بلاؤں میں تریاق کا کام دیتا ہے۔
(اولیاء رجال الحدیث،ص75)

علامہ غلام رسول سعیدی رحمۃ اللہ علیہ اپنی مایہ ناز تالیف "تذکرۃ المحدثین" میں نقل کرتے ہیں:
ابو جمرہ کہتے کہ عرفاء سے منقول ہے اگر کسی مشکل میں صحیح بخاری پڑھی جائے وہ حل ہوجائے ، جس کشتی میں ہو وہ ڈوبے گی نہیں، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ اگر خشک سالی میں بخاری شریف کی قرات کی جائے تو بارش ہوجاتی ہے۔
(تذکرۃ المحدثین،ص 199)

تحریر:
محمد ساجد مدنی
18.12.2021ء

پیشہ ور واعظین


 پیشہ ور واعظین



علامہ ابنِ جوزی علیہ الرحمہ پیشہ ور خطیبوں و واعظین کے بارے میں فرماتے ہیں:
ان میں اکثر بڑی آراستہ اور پر تکلف عبارات بولتے ہیں جو اکثر بے معنی ہوتی ہیں فرائض کا ذکر بہت کم کرتے ہیں اور گناہوں سے بچنے کا تذکرہ تو کبھی نہیں ہوتا تو ایسے واعظ سے ایک زانی اور سود خور وغیرہ کو توبہ کی کیسے توفیق ملے گی  ان کے مواعظ( فرائض و اصلاحی ) مضامین سے خالی ہوتے ہیں ان حضرات نے شریعت کو پس پشت ڈال دیا ہے اس وجہ سے ان کا بازار گرم ہے کیونکہ حق طبیعتوں پر بھاری اور باطل ہلکا و خوشگوار ہوتا ہے۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خطیب سچا اور خیر خواہ ہوتا ہے لیکن جاہ(مقام و مرتبہ) طلبی اس کے دل میں سرایت کر جاتی ہے کہ اس کی عزت و تعظیم کی جائے اس کی علامت یہ ہے کہ دوسرا واعظ اس کی قائم مقامی کرے یا اصلاح کرے تو اسے ناگوار گزرتا ہے کہ اگر یہ مخلص ہوتا تو اسے کبھی ناگواری نہ ہوتی۔
(احمقوں کی دنیا،ص 29)

علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جاہل واعظین کہ وہ جھوٹ اورموضوع قسم کی خبریں سناتے ہیں اورصحیح محمل اور قابل اعتقاد کو بیان نہیں کرتے۔
(الصواعق المحرقۃ  ص۲۲٤)

حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا قیامت قائم نہ ہوگی حتی کہ ایسی قوم نکلے گی جو اپنی زبانوں سے کھائیں گے۔

اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ان کا ذریعہ معاش یہ ہی ہوگا کہ کسی کی خوشامدانہ جھوٹی تعریف میں قصیدہ کہہ دیا اور انعام حاصل کرلیا،کسی کے دشمن کی برائی میں نظم کہہ ڈالی اور کچھ وصول کرلیا،لوگوں کو فصیح وبلیغ جھوٹے کلام سنائے چندہ کرلیا یعنی صرف زبان سے کمائی کریں گے جیساکہ جاہلیت کے شعراء کا دستور تھا
(مرآة المناجيح 629/6، اپلیکیشن)

واعظین کے لئے علماء نے چند شرائط مقرر کی ہیں:

واعظ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ سنی صحیح العقیدہ مسلمان ہو غیر سنی کو واعظ کے لیے بلانا حرام ہے اگرچہ بات درست ہی کرے اس لئے کہ
 انّھم جمیعا اخوان الشیاطین
 وہ سب شیطانوں کے بھائی ہیں ۔

 نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
 من وقرصاحب بدعۃ فقد اعان علٰی ھدم الاسلام ۔
ترجمہ : جس نے کسی بدمذہب کی توقیر کی اس نے دین اسلام کے ڈھانے پر مد دد ی ۔
(کنزالعمال حدیث ۱۱۰۲ ، ۱/ ۲۱۹)

دوسری شرط ہے  عالم ہونا جاہل کو واعظ کہنا ناجائز ہے جیسا کہ ارشا دہے : اتخذالناس رؤسا جہا لا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا واضلوا ۔ترجمہ : لوگوں نے جاہلوں کو سردار بنالیا پس جب ان سے سوال کیا گیا تو انہوں نے بے علم احکام شرعی بیان کرنے شروع کیے تو آپ بھی گمراہ ہوئے اور اوروں کو بھی گمراہ کیا ۔ (صحیح البخاری کتاب العلم  ۱/ ۲٠)

تیسری شرط کہ فاسق نہ ہونا ۔
 شرعاً مسلمانوں پر اس کی توہین واجب ہے ۔ (تبیین الحقائق ۱/ ۱۳۴)

افسوس کہ ہمارے خطباء و نقیب حضرات فرائض دینیہ سے بے بہرہ ،پابندئ شرع سے دور اور عمل بھی عنقاء کی طرح مفقود ہے 
ایک استاد صاحب نے لکھا ہوا تھا کہ میں آٹھ سال سے درس نظامی پڑھارہا ہوں میرے شاگردوں میں سے اکثر وہی خطباء پاکستان ہیں جو کلاس میں نکمے تھے اور یہ حقیقت ہے۔
آجکل آئے روز ان خطیبوں کے کارنامے سامنے آتے ہیں کہ لچھے دار نکتہ پیش کرنے کے لیے عقائدِ صحیحہ کے خلاف چلے جاتے ہیں۔


✍️ تحریر:
محمد ساجد مدنی
13.11.2021ء

WhatsApp:
+0923013823742

قائدِ اعظم اور نفاذ شریعت کا عزم


قائدِ اعظم اور نفاذ شریعت کا عزم



ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کہتے ہیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ہمیشہ اسلام کا نام لیتے تھے اور کہتے تھے  ہم پاکستان کو اس لئے حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ  اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے  اور ثابت کرسکیں گے کہ اسلام کے اصول اس بیسویں صدی میں ایسے ہی قابلِ عمل جیسے ابتداء میں تھے
( دو قومی نظریہ کے حامی علماء اور ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی،ص29)

24 نومبر 1945 کو خانقاہ مانکی شریف میں علماء و مشائخ عظام سے خطاب کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا مسلمانوں کا ایک خدا ایک رسول اور ایک قرآن ہے ،یہی قرآن مسلمانوں کا قانون ہے جو آج سے تیرہ سو سال پہلے حضرت محمد مصطفی ﷺ کی وساطت سے ہمیں ملا یہی قانون ہے اور بس 
(قائدِ اعظم اور سرحد ،ص145)

1948کو کمیونسٹ انتشار پھیلانے لگے تو قائد اعظم نے واشگاف الفاظ میں بیان فرمایا کہ  یاد رکھئے پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ ہوگی
(خدمات مجاہد ملت عبدالستار خان نیازی ص 104)

1945میں مسلم لیگ کے اجلاس میں پٹنہ میں یہ فیصلہ کیاگیا کہ اسلامی ملک کا آئین اسلامی ہوگا۔
(ماہ نامہ ضیائے حرم ،ص126)
پاکستان بننے کے تین دن بعد عید الفطر کی نماز بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مسجد قصابان  ایم اے جناح روڈ جامع کلاس مارکیٹ کے سامنے عید گاہ میں مولانا عبدالعلیم صدیقی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی اقتداء میں ادا کی اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان صاحب بھی ساتھ تھے
( تخلیق پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار،146)
پاکستان کا قانون شریعت اسلامیہ


قائد اعظم محمد علی جناح سے پوچھا گیا پاکستان کا قانون کیا ہوگا؟
آپ نے قرآن مجید کو ہاتھ میں اٹھا کر فرمایا پاکستان کو کسی قانون بنانے کی ضرورت نہیں بلکہ پاکستان کا قانون بنا ہوا ہے یعنی قرآن مجید فرقان حمید ،
یہ وعدہ کیا گیا کہ جب پاکستان بنے گا تو قرآن کریم کی حکمرانی ہوگی ،  یعنی شریعتِ مطہرہ اور نظامِ مصطفیٰ کا نفاذ ہوگا
(تخلیق پاکستان میں علمائے اہلسنت کا کردار ،ص 26)

✍️ محمد ساجد مدنی
12اگست 2021بروز جمعرات

کتابوں کی وجہ سے بخشش


 *کتابوں کی وجہ سے بخشش*



اسماعیل بن فضل کہتے ہیں

رأيت سليمان الشاذكوني في النوم،فقلت: ما فعل الله بك يا ابا ايوب؟ فقال: غفرالله لي،فقلت بماذا؟
قال: كنت في طريق اصبهان أمر إليها فاخذتني مطرة، و كانت معي كتب، ولم أكن تحت سقف ولاشىء،فانكببت على كتبي حتى أصبحت و هدأ المطر، فغفرلي الله بذلك.

ترجمہ:
میں نے سلیمان الشاذکونی کو بعد وفات خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ اے ابو ایوب الله تعالی نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا ہے؟
فرمایا الله تعالی نے بخش دیا ہے تو میں نے کہا کہ کس وجہ سے؟ تو فرمایا میں اصبھان جارہا تھا کہ راستے میں بارش آ گئی اور میرے پاس کتابیں تھیں اور کوئی ایسا سائبان نہیں تھا کہ سر چھپاتا ، میں کتابوں کے اوپر جھک گیا یہاں تک کہ صبح ہوگئی اور بارش بھی رک گئی الله تعالی نے اس وجہ سے میری مغفرت فرمادی ہے۔

(عشاق الکتب،ص113)

✍️ محمد ساجد مدنی

مصلح اہلسنت مفتی منیب الرحمٰن صاحب


 مصلح اہلسنت مفتی منیب الرحمٰن صاحب



ہم نے کتب میں پڑھا کہ علماء کی موجودگی اس امت کی بقاء کے لئے نہایت اہم و ضروری ہے اور بخاری شریف میں بھی موجود ہے کہ قرب قیامت علماء اٹھالئے جائیں گے تو اس کائنات کی بقاء کے لئے علماء کرام کی موجودگی نہایت ضروری ہے اور یہ امت کبھی بھی علماء سے مستغنی نہیں ہوسکتی حتی کہ جنت میں بھی علماء کی ضرورت پڑے گی۔
ریاست ہو یا عوام ہمیشہ علماء کرام کی محتاج رہی اور جب تمام راستے مسدود ہوئے تو علماء نے راہنمائی فرمائی اور اس کے لیے تگ و دو کی ، خاص طور پر خداد داد مملکت پاکستان کے لئے علماء کا بھرپور کردار رہا ہے تحریک آزادی سے لیکر اب تک ہر مشکل موڑ پر ریاست کو علماء نے ہی درست سمت دیکھائی اور اس وطن عزیز کو ہر طرح کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مثبت اور تعمیری امور کی طرف نہ صرف راہنمائی کی بلکہ خود پیش قدمی بھی کی ہے۔
الله تعالی کا کروڑ ہا احسان ہے کہ اہلسنت میں ہمیشہ خیر ہی رہی اور ان شاءاللہ آئندہ رہے گی
موجودہ حالات میں ملک پاکستان میں جو صورت حال تھی سب کے سامنے ہے کہ کس طرح ایک کشیدگی کی فضاء قائم تھی اس مشکل دور میں عوام اہلسنت کی نظریں مفتی منیب الرحمان صاحب زیدہ مجدہ جیسی صاحب فراست،دور اندیش اور مصلح  شخصیت پر تھیں، آپ نے ہمیشہ ریاست و عوام اہلسنت کی ہر مشکل وقت میں راہنمائی فرمائی وہ چاہے روئت ہلال کے حوالےسے ہو یا مذاکرت کی صورت میں ہر دفعہ ایک خیر خواہ کے طور پر اپنا کردار ادا کیا ہے اور مشکل وقت میں آگے بڑھ کر عوام کی بے چینی کو فرحت و تسکین میں بدل دیا ہے
آپ کا ہر فیصلہ ہر زاویہ سے درست اور بہت ہی دیرپا منتج ہوا
رؤیت ہلال کے حوالےسے دیکھ لیں کہ آپ نے جو گزرے ایام میں فیصلے کیے ان کی صداقت سائنس وٹیکنالوجی کے سامنے مہینوں بعد درست ثابت ہوئی اور ماہرین فلکیات نے اس کی تصدیق کی اور اگر خیر خواہی امت کے حوالے سے دیکھا جائے تو آپ کی
 خدمات قابلِ قدر ہیں آپ نے ہمیشہ اسلام و پاکستان کی بقاء کے لئے کوشاں رہے ہیں 
آج بھی جب پاکستانی عوام ایک مشکل و پیچیدہ وقت سے گزر رہی تھی کہ موجودہ حکومت کی کچھ وعدہ خلافیوں اور معاہدات سے روگردانی کے سبب ایک بے چینی سے کیفیت پیدا تھی اور طاقت کے بے دریغ استعمال،نہتے مظاہرین پر شیلنگ، ہیلی کاپٹر کے ذریعے فائرنگ،روڈ پر تیزاب پھینکنے جیسی حرکات سامنے آرہی تھی تو تمام اہل وطن ایسے مصلح امت کے منتظر تھے جو اس مشکل وقت میں راہنمائی کرے اور یہ خدمت سابق چئیرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمن صاحب زید مجدہ جیسی با صلاحیت و صاحب فہم و فراست شخصیت کے حصے میں آئی اور آپ نے ایک مصلح کا کردار ادا کیا ہے۔

الله تعالی مفتی صاحب کے علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے اور آپ کی اس کاوش کو قبول فرمائے۔

مدینے کا بھکاری:
محمد ساجد مدنی
30.10.2021ء

بارگاہِ رسالت میں نعلین کا تحفہ دینے والے


*بارگاہِ رسالت میں نعلین کا تحفہ دینے والے*




نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اپنی ہر نئی اور پسندیدہ چیز پیش کرتے تھے چاہے وہ ملبوسات میں سے ہو یا اشیاء خوردنی سے،اور اسے سعادت سمجھتے تھے 
چند بادشاہ اور صحابہ کرام نے بارگاہِ نبوت میں نعلین کا تحفہ پیش کیا ہے

حضرت نجاشی رضی ﷲ عنہ:

ملک حبشہ کے بادشاہ حضرت اصحمہ نجاشی  رضی ﷲ عنہ نے آقا کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے پاس تحائف بھیجے ان میں نعلین شریفین بھی تھے۔
شاہ روم ہرقل نے بھی تحائف بھیجے تھے ان میں بھی نعلین تھے

اسکندریہ کے بادشاہ " مقوقس" نے بھی بارگاہِ نبوت میں تحائف بھیجے تھے ان میں ایک جوڑا نعلین پاک کا تھا۔ 
(نعلین مصطفیٰ،ص27)

حضرت سمعان بن خالد رضی ﷲ عنہ ایک وفد کے ساتھ سرکار مدینہ صلی ﷲ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور ایک جوڑا نعلین کا پیش کیا جسے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے قبول فرمایا۔
(الاستیعاب،ص 733)

علامہ یوسف شامی صالحی رحمۃ اللّٰہ علیہ سبل الھدی والرشاد میں لکھتے ہیں کہ پیارے آقا صلی ﷲ علیہ وسلم کا انجیل میں "صاحب نعلین" ذکر کیا گیا ہے۔

کیا عمامے کی ہو بیاں عظمت
تیرے نعلین تاجِ سر آقا
(وسائل بخشش)

✍️تحریر:
محمد ساجد مدنی
01.01.2022ء

خادمین نعلین شریفین


 *خادمین نعلین شریفین*



الله تعالی نے اپنے حبیب صلی ﷲ علیہ وسلم کو ایسے رفقاء عطا فرمائے جو نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی ہر ادا پر مر مٹنے والے اور آپ کی خوشنودی میں سر دھڑ کی بازی لگا دینے والے تھے ان میں کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایسے بھی ہیں جنھیں نعلین سرکار مدینہ صلی ﷲ علیہ وسلم کے اٹھانے کا شرف حاصل ہوا 
آئیے ان کے بارے میں  جانتے ہیں:

1:حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم

آپ کو بھی نعلین مبارک کے اٹھانے کا شرف ملا ہے علامہ ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ کو بازار سے نیا جوتا خریدنے کا حکم فرمایا تو آپ خرید کر لائے اور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے پہنے۔
(قوت القلوب 173/1)
ایک اور روایت میں ہے کہ آپ نے نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے لئے جوتا سی کر پیش کیا تھا۔
(معرفة الصحابہ،1846/4)

2:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی ﷲ عنہ

آپ رضی ﷲ عنہ کو یہ شرف حاصل ہے کہ سفر و حضر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سامان اپنے پاس رکھتے اور آپ کو "صاحب نعل والوسادہ" کا لقب عطا ہوا۔
آپ کے بارے میں آتا ہے کہ جب نبی پاک ﷺ اپنے نعلین شریفین اتارتے تو آپ رضی ﷲ عنہ اٹھا کر اپنی آستینوں میں چھپا لیتے تھے۔
(فتح المتعال،ص79)

3: حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ

آپ کو بھی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کی نعلین اٹھانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
(صحیح مسلم،147)

4:حضرت انس رضی ﷲ عنہ

حضرت انس رضی ﷲ عنہ نے دس سال خدمت حضورِ اقدس ﷺ میں گزارے اور آپ کے متعلق علامہ تلمسانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
آپ نبی پاک ﷺ کی نعلین شریف اور دیگر اشیاء کی خدمت کیا کرتے تھے۔
(فتح المتعال،ص79)

5:ایک انصاری لڑکا

ایک انصاری لڑکے نے بھی نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے نعلین کو صاف کیا پھر آقا کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کو پہننے کے لئے پیش کیے۔
(شرف المصطفی،ص536/4)

6:ایک غلام

ایک بار نبی پاک ﷺ مجلس میں تشریف فرما تھے تو اٹھنے کا ارادہ کیا تو ایک غلام نے اٹھ کر نعلین پیش تو حضور رحمت عالم صلی ﷲ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا فرمائی۔
(مسند بزار 149/3)

7:نجاشی بادشاہ کی خواہش

نجاشی بادشاہ نے جب حضرت جعفر بن ابی طالب رضی ﷲ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا تو بارگاہِ رسالت میں حاضری ہونے کی خواہش کی اور کچھ اس طرح عرض کیا
لَوْلَا مَا أَنَا فِيهِ مِنَ الْمُلْكِ لَأَتَيْتُهُ حَتَّى أَحْمِلَ نَعْلَيْهِ.
اگر مجھ پر ملکی معاملات نہ ہوتے تو بارگاہ نبوت صلی ﷲ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر حضور سید عالم صلی ﷲ علیہ وسلم کے جوتے اُٹھاتا۔
(سنن ابی داؤد،حدیث:3205)

شاعر کہتا ہے:

سر پر رکھنے کو مل جائے نعلین پاک حضور
تو پھر کہیں گے کہ تاجدار ہم بھی ہیں

تاج والے بھیک مانگیں آپ کی نعلین کی
تاجور کھاتے ہیں صدقہ آپ کی نعلین کا


✍️ تحریر:
محمد ساجد مدنی
04.01.2022ء

ملفوظات مفتی محمد حسان عطاری صاحب


 ملفوظات مفتی محمد حسان عطاری صاحب



📝 میرے استاد مکرم مولانا مفتی محمد حسان عطاری صاحب فرماتے ہیں: 

📝کوئی یہ خواہش کرے دنیا میں میرے گھر کا ماحول جنت جیسا ہو یہ جنت میں ہی ہوسکتا ہے یہاں دنیا میں  نہیں.

📝 ہمارے استاد صاحب فرماتے تھے  کہ اگر خوشحال زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اپنی زندگی سے  طلاق اور کنایہ کے الفاظ ہی نکال دیں.

📝   اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمة الله عليه جو  جواب دیتے ہیں ہم لوگ سو کتابیں پڑھیں اور اسکے بعد جو نتیجہ نکلتا ہے وہ آپ کے جواب کے موافق نکلتا ہے.

📝  مفتی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے لئے سب سے زیادہ  مسرت کا دن وہ تھا   جب میری دستار فضیلت ہوئی  اور میرا نام پکارا گیا تو پیر صاحب نے  پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا تھا.

📝  مجھے سب سے زیادہ لطف مدنی مزاکرہ میں آتا ہے اور امیر اہل سنت کی بارگاہ میں بیٹھنامیرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے.
 
📝 مزید فرماتے ہیں  فی زمانہ معلومات بڑھتی جارہی ہے لیکن علماء حقیقی کم ہوتے جارہے ہیں 

📝  علم بغیر عمل کے ایسا ہے جیسے روح بغیر جسد اور درخت بغیر ثمر کے ہوتا ہے 

📝  پہلے کے بزرگان دین  دن کو علم  پھیلاتے اور رات کو عبادت الہی میں مصروف رہتے  جیسے امام اعظم ابو حنیفہ علیہ الرحمہ

📝  اگر مسلک اعلی حضرت پر مضبوطی چاہتے ہیں تو  دعوت اسلامی کے دامن کو تھامے رکھیے 

اللہ کریم استاد محترم کے علم و عمل میں مزید اضافہ فرمائے اور آپ کا سایہ تادیر سلامت رکھے ۔۔۔۔۔۔۔آمین

✍ محمد ساجد مدنی

*علم حدیث کے ساتھ بزرگانِ دین کی محبت لازم*


 *علم حدیث کے ساتھ بزرگانِ دین کی محبت لازم*




آجکل کے علمی کتابی جو چند کتب پڑھ کر اپنے آپ کو محقق سمجھتے ہیں پھر بزرگان دین کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگ جاتے ہیں  جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جادہ اہلسنت سے منحرف ہو جاتے ہیں

شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا مفتی اہلسنت مفتی محمد قاسم عطاری صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں:
حدیث کا ذوق بمع بزرگان دین کی محبت کے پیدا کیا جائے ایسا ذوق نہ ہو کہ بد مذہبوں کے دلائل زیادہ سمجھ آنے لگیں اور ایسا ذوق نہیں ہونا چاہیے کہ بدمذہبوں کی طرف لے جائے جو ہمارا مسلک،مذہب اور طریقہ کار ہے اس سے ذرہ برابر بھی ادھر اُدھر کا ذہن نہ بنے ورنہ ایسے ذوق کو رہنے دیں،حدیث شریف پڑھنے کا یوں ذوق ہو کہ ہم اپنے مسلک اہلسنت کے دلائل احادیث سے نکالیں گے ہمارا مسلک،ہمارا مذہب اور معمولات اہلسنت کیسے احادیث سے ثابت ہیں اور کن کن احادیث سے ثابت ہیں یہ چیزیں ملحوظ خاطر ہوں تو اس سے احادیث کا ذوق بھی پیدا ہوگا اور مسلک اہلسنت میں استقامت نصیب ہوگی۔ 

سیدی اعلی حضرت فاضل بریلی علیہ الرحمہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں"خصوص کا انکار نصوص کے انکار تک لے جاتا ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد 28 صفحہ 388 اپلیکیشن)

شیخ الحدیث علامہ مولانا مفتی محمد حسان عطاری صاحب زید مجدہ فرماتے ہیں
فی زمانہ جو بھی تحقیق کرتا ہے اسکی تحقیق بزرگانِ دین کے خلاف ہوتی ہے کمال تو یہ ہے کہ ہماری تحقیق اپنے اسلاف کی تحقیق کے موافق آئے۔

علماء کرام فرماتے ہیں کہ گمراہی کی پہلی سیڑھی بزرگانِ دین کے خلاف بولنا ہے اور الله تعالی ان بزرگان دین کے بے ادب کو ان کی زندگی میں توبہ کی توفیق نہیں دیتا کہ وہ ان نفوسِ قدسیہ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر تائب ہوں کیونکہ اولیاء اللہ نرم دل ہوتے ہیں اور الله تعالی انہیں توفیق نہیں دیتا کہ توبہ کریں اور یہ سب بے ادبی کا وبال ہوتا ہے

ہمیں چاہیے کہ کسی حدیث پر دو تین کتب پڑھ کر حکم مت لگائیں جب تک علماء کرام کی تصریح موجود نہ ہو
امام نووی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں
من رأى المسئلة في عشرة كتب مثلاً لا يجوز له الافتاء بها لاحتمال  أن تلك الكتب كلها ماشية على قول او طريق ضعيف.
اگر کوئی ایک مسئلہ دس کتابوں میں بھی دیکھے تو اسے فتویٰ دینا جائز نہیں کیونکہ ممکن ہے کہ وہ ساری کتابیں کسی ضعیف قول یا ضعیف سند پر گامزن ہوں۔
(فتاویٰ حدیثیہ،ص111)


تحریر:
محمد ساجد مدنی
10.01.2022ء

تصنیف و تالیف اس امت کی خصوصیت


 *تصنیف و تالیف اس امت کی خصوصیت*



الله جل شانہ نے جہاں اس امت کو بہت ساری خصوصیات سے نوازا کہ انبیاء کرام علیہم السلام اس میں شمولیت کی تمنا کرتے رہے حتی کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام اس امت کو اپنی امت بنانے کے متمنی رہے اور روز قیامت تمام امتیں رشک کرتی ہوئی کہیں گی کہ قریب تھا یہ امت تمام کی تمام انبیاء ہوتی
اس امت کی بے شمار خصوصیات میں سے ایک خصوصیت تصنیف و تالیف بھی ہے کہ یہ اعزاز بھی امت محمدیہ علی صاحبھا الصلاۃ والسلام کو حاصل ہے،سابقہ امم کو یہ سعادت حاصل نہ تھی چنانچہ:

حضرت شیخ ابو بکر بن عربی فرماتے ہیں کہ تصنیف و تالیف کے میدان میں اس امت کے مرتبے تک پہلی امتوں میں سے کوئی شخص بھی ہر گز نہ تھا نہ ہی اصول سے مسائل نکالنے اور اسکی چھان بین کرنے میں اس امت کے قدم بقدم کوئی شخص نہ چل سکا۔
امام ابو علی جیانی نے فرمایا کہ الله تعالی نے اس امت کو تین ایسی اشیاء سے مخصوص فرمایا جو ان میں سے پہلے کسی کو نہ مل سکا وہ تین اسناد حدیث کی معرفت، انساب اور ضبط اعراب ہیں۔
امام ابو زرعہ رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں کہ اس امت پر علوم کے دروازے کھول دیئے جائیں گے حتی کہ علم حدیث کے خزانے بھی اس پر کھل جائیں گے۔
اور علوم حدیث کا عطا کیا جانا اس امت کی خصوصیت میں سے ہے پہلی امتوں میں یہ چیز نہیں تھی۔
(جواہر البحار 472/1)

✍️ محمد ساجد مدنی
15.01.2022ء

*پشاور کے قریب صحابی رسول کا مزار*


 *پشاور کے قریب صحابی رسول کا مزار*



حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کے زمانے میں چار صحابہ کرام نے سفر ہند فرمایا
حضرت مہلب بن صفرہ
حضرت عبداللہ بن سوار
حضرت یاسر بن سوار
حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی
رضوان اللہ علیہم اجمعین
حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی رضی ﷲ عنہ ان صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم میں سے ہیں جنھوں نے اشاعت دین و سر بلندی اسلام کے لئے اپنے وطن کو خیر باد کہا اور اسلام کا جھنڈا لیے سرزمین ہند کا رخ کیا آئیے آپ کی سیرت طیبہ کے چند گوشے مطالعہ کرتے ہیں:

نام ونسب:
آپ کا نام سنان ، والد کا نام سلمہ اور والدہ کا نام امامہ بنت توأم ہے آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن یا ابو حبتر یا ابو یُسر ہے آپ قریش کے قبیلے ہذیل سے تعلق رکھتے تھے
امام ابن حبان رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صحابی رسول ہیں

پیدائش:
آپ غزوہ حنین کے دن پیدا ہوئے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے آپ کا نام سنان تجویز فرمایا ،آپ بہت بہادر و شجاع تھے
آپ بصرہ میں بھی اقامت اختیار کی تھی
صحیح مسلم کتاب الحج
سنن ابو داؤد کتاب الصوم
مسند احمد مسند مکیین 
میں آپ سے احادیث مروی ہیں

سرزمین ہند تشریف آوری:
حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے دور میں لشکرِ اسلام نے ہند کا رخ کیا اور مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہوئے خراسان پہنچے اور اسے اسلام کا قلعہ بنایا اور خراسان کے حاکم حضرت زیاد بن عبید رضی ﷲ عنہ مقرر ہوئے پھر جرنیل اسلام حضرت عبداللہ بن سوار رضی ﷲ عنہ نے قلات فتح کیا اور اس مقام پر شہادت پائی یہ حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی سلطنت کا دور تھا جب حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو حضرت عبداللہ بن سوار کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے زیاد بن عبید رضی ﷲ عنہ کو لکھا کہ کسی باصلاحیت شخص کو لشکر کا سپاہ سالار قائم کیا جائے تو ان کی جگہ حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی رضی ﷲ عنہ کو لشکر کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا تو آپ رضی ﷲ عنہ کوئٹہ،ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے علاقے فتح کرتے ہوئے کوہاٹ پہنچے ،کوہاٹ کو فتح کرنے کے بعد پشاور کی طرف پیش قدمی کی اور اسے فتح کر لیا اس کے بعد داؤد زئی   کے علاقے چغر مٹی کے کفار سے جنگ ہوئی اور آپ شہید ہوگئے 
تو اس مقام پر آپ رضی ﷲ عنہ اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والے مجاہدین کو یہاں دفن کیا گیا 
یہ دور حجاج بن یوسف تھا 

مزار شریف:
آپ کا مزار شریف پشاور سے بجانب مغرب 20کلو میٹر کے فاصلے پر چغر مٹی کے مقام پر مرجع خاص و عام ہے آپ اصحاب بابا کے نام سے مشہور و معروف ہیں یکم رمضان المبارک کو آپ کا عرس مبارک منایا جاتا ہے

الله تعالی کی آپ پر رحمت ہو اور آپ کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

حوالہ جات:

تہذیب الکمال
تہذیب التہذیب
تقریب التہذیب
الاصابہ
اسد الغابہ
التاریخ الکبیر
سنان بن سلمہ ایک تعارفی جائزہ

تحریر:
محمد ساجد مدنی
18.01.2022ء