*🔹میرے اعلیٰحضرت ایک زندہ و جاوید کردار🔹*
*🔹میرے اعلیٰحضرت ایک زندہ و جاوید کردار🔹*
*✍️خادم المصنفین*
*🥀غلام نبی انجم رضا عطاری🥀*
_03461934584_
*میرے آقا اعلحضرت امامِ اَہلسنّت مجدد دین و ملت مولانا الحاج الحافظ الشاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ* ایک عظیم ہستی ہیں جو عبادت ، تقویٰ و پرہیزگاری، عشقِ رسول، عاجزی و اِنکساری اور عِلْم و عمل کے حقیقی پیکر تھے۔
*🔹اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور اِیثارِ مسلمین🔹*
اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسُنَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے اعلیٰ کردار کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنی محبوب اور پسندیدہ چیزیں بھی دوسروں کو پیش کردیا کرتے تھے۔آئیے ! اس بارے میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرت کا ایک دلچسپ واقعہ سنئے،چنانچہ
*🍁حاجت مند پر عطاء🍁*
موسمِ برسات میں بعض اوقات مسجد کی حاضری دورانِ بارش ہوا کرتی تھی۔حاجی کفایتُ اللہ صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اس تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے ایک چھتری خرید کر نذر (تحفے میں پیش) کی اور اپنے ہی پاس رکھ لی،جب اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کاشانَۂ اَقدس سے تشریف لاتے تو حاجی صاحب چھتری لگا کر مسجد تک لے جاتے،ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک حاجت مند نے چَھتری کا سُوال کیا،آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے فوراً وہ چَھتری حاجی صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے لے کر اُس حاجت مند کو عطا فرمادی ۔
(📗حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ص۱۱۸)
اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت! آپ نے سنا کہ ہمارے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ میں اِیثار و سخاوت کا کیسا جذبہ تھا جو ضرورت کے باوُجُود اپنی چیزیں دوسروں کو دے دیا کرتے تھے، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اسلام ہمیں آپس میں ہمدردی کرنے کا دَرْس دیتا ہے، مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کا دَرْس دیتا ہے،ایک دوسرے کے دل میں مَحَبَّت پیدا کرنے کیلئے جائز طریقے سے تحائف دینے کی تعلیم دیتا ہے، اسی لئے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے خیر خواہی کرتے ہوئے خوشی خوشی اپنی ذات پر دوسرے مسلمان بھائی کو ترجیح دی ۔ حدیثِ پاک میں ہے: جو شخص کسی چیز کی خواہش رکھتا ہو،پھر اُس خواہش کو روک کر اپنے اُوپر (دوسرے کو) ترجیح دے تو اللہ پاک اُسےبخش دیتاہے۔
(📗جمع الجوامع، حرف الہمزہ، ۳/ ۳۸۴حدیث :۹۵۷۲ )
*🔸اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور حُقوقُ الْعِباد !🔸*
اے عاشقانِ امام احمد رضا!اعلیٰ حضرت،امام اَہلسنَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے اعلیٰ کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اللہ پاک کے حُقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کے بارے میں بھی بہت حسّاس تھے کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو معلوم تھا کہ بندوں کے حُقوقُ کا مُعاملہ اللہ کریم کے حقوق سے بھی زیادہ نازک ہے۔ آئیے! بندوں کے حقوق کا احساس کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا دلچسپ واقعہ سنئے اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرت پر عمل کرنے کی نِیَّت کیجئے ،چنانچہ
*♦️بچے سے معافی مانگی♦️*
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بریلی شریف کی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ افطار کے بعد کھانا نہ کھاتے بلکہ صرف پان کھاتے تھے۔ جبکہ سَحَری کے وَقْت گھر سے صرف ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرینی یعنی ایک قسم کی کھیر جو دودھ، چینی اور چاولوں کے آٹے سے بنتی ہے وہ اور ایک پیالی میں چٹنی آیا کرتی تھی،وہ نوش فرمایا کرتے تھے۔ایک دن شام کو پان نہیں آئے اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی یہ پختہ عادت تھی کہ کھانے کی کوئی چیز طلب نہیں فرماتے تھے،چنانچہ خاموش رہے لیکن طبیعت میں ناگواری ضرور پیدا ہوئی۔مغرب سے تقریباً 2 گھنٹے بعد ایک بچہ پان لایا،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اسے ایک تھپڑ مارکر فرمایا:اتنی دیر میں لایا؟ لیکن بعد میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو خیال آیا کہ اس بے چارے کا تو کوئی قصور نہ تھا،قصور تو دیر سے بھیجنے والے کا تھا ۔
چنانچہ سَحَری کے بعد اُس بچے کو بلوایا جو شام کو پان دیر میں لایا تھا اور فرمایا: شام کو میں نے غلطی کی جو تمہارے چپت ماری،دیر سے بھیجنے والے کا قصور تھا،لہٰذا تم میرے سر پر تھپڑ مارو اور ٹوپی اُتار کر اِصرار فرماتے رہے۔اعتکاف میں بیٹھے لوگ یہ سُن کر پریشان ہوگئے، وہ بچہ بھی بہت پریشان ہوکر کانپنے لگا۔اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی:حضور!میں نے معاف کیا۔فرمایا: تم نابالغ ہو، تمہیں معاف کرنے کا حق نہیں،تم تھپڑ مارو۔ مگر وہ مارنے کی ہمت نہ کرسکا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اپنا بکس منگوا کر مٹھی بھر پیسے نکالے اور وہ پیسے دکھا کر فرمایا: میں تم کو یہ دوں گا، تم تھپڑ مارو۔ مگر بے چارہ یہی کہتا رہا،حضور! میں نے معاف کیا۔آخرِ کار اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت سے تھپڑ اپنے سَرِ مبارک پر لگائے اور پھر اس کو پیسے دے کر رُخصت کر دیا۔
(📗حیات اعلیٰ حضرت، ۱/۱۰۷ملخصاً)
اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت! آپ نے سُنا کہ اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اپنے چاہنے والوں کو عَمَلی طور پر یہ بتا دیا کہ چاہے کوئی کتنے ہی بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہو، اگر اس سے کسی کا دل دکھ جائے تو اسے معافی مانگنے میں ہرگز شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ حُقوقُ العباد کا معامَلہ انتہائی نازک ہے۔اس کی وجہ سے بندہ بہت سے گناہوں میں مُبْتَلا ہوسکتا ہے جو اس کیلئے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں، مَثَلاً بندوں کے حُقوق اَدا نہ کرنے سے بندہ دوسروں کا دل دکھانے جیسے کبیرہ گُناہ میں مُبْتَلا ہوسکتا ہے اور یہی دل دکھانے، حسد کرنے، دل میں دشمنی رکھنے اور دُشمنیاں کرنے جیسے کئی گُناہوں پر اُبھار سکتی ہے۔ان گُناہوں میں پڑنے کے سبب غیبتوں، چغلیوں، تہمتوں، بدگمانیوں اور کئی کبیرہ گُناہوں کا دروازہ بھی کُھل جاتاہے۔ جن کےحُقُوق ضائع کیے انہیں راضی کرنے کیلئے قیامت کے دن اپنی نیکیاں بھی دینی پڑ سکتی ہیں اور نیکیاں نہ ہونے کی صورت میں ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اُٹھا کر جنَّت سے محروم ہو کر عبرت ناک اَنجام سے واسطہ پڑسکتا ہے۔
*◻️اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور شفقت و خیر خواہی◻️*
اے عاشقانِ امام احمد رضا! اعلیٰ حضر ت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرتِ مبارَکہ کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ دُعا مانگتے وَقْت اپنے رشتے داروں، دوستوں، مَحَبَّت و عقیدت رکھنے والوں، مُریدوں اور دیگر مسلمانوں کیلئے دعا کرنے کا خُصوصی اہتمام فرماتے تھے۔آئیے!اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے:
*دعا کے لئے فہرست بنائی*
(1) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نماز فجر کے بعد اپنے اَوْراد و وَظائِف کے آخر میں اُن سب کے لئے نام لے کر دُعا فرمایا کرتے تھے۔لوگ اِس بات کی آرزو رکھتے تھے کہ اُن کے نام بھی اِس فہرست میں شامل ہوجائیں۔
*🤲سب کے لئے دُعا کرتا ہوں*🤲
(2) حضرت سَیِّد ایّوب علی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: ایک دن میں بہت پریشان تھا، دُعا کا طالب ہوا تو اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے دُعا فرمائی اور ساتھ ہی مجھے اور میرے بھائی سید قناعت علی سے ارشاد فرمایا: تم دونوں کا نام بھی میں نے دُعا کی فہرست میں شامل کر لیا ہے جو آہستہ آہستہ بہت لمبی ہو گئی ہے یہ تمام نام مجھے یاد ہیں ، روزانہ سب کے لیے نام لے کر دُعا کرتا ہوں ۔
(📗فیضان اعلی حضرت ، ۱۸۰ملخصاً)
*🔻جنازے میں کثرت سے دُعا مانگتے🔻*
(3) اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ تمام عوامِ اہل سُنّت کے لیے درد محسوس کرنے والا دل رکھتے تھے، چنانچہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اکثر جنازوں میں تشریف لے جاتے اور مَیِّت سے ہمدردی کا یوں اظہار فرماتے کہ دورانِ جنازہ اور جنازہ کے بعد مَیِّت کیلئے کثرت سے دُعا فرماتے تھے۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ جس خوش قسمت کی نماز ِجنازہ پڑھاتے تو وہاں موجود لوگوں کو ایسا معلوم ہوتا کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اپنی پُر زور شفاعت سے اُس کی مغفرت کروارہے ہیں ۔
(📗حیات اعلیٰ حضرت ،ص۵۵۲ملخصاً)
*🔹تکبُّر سے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی ناگواری🔹*
خلیفۂ اعلیٰ حضرت مولانا سیِّد ایُّوب علی رَضَوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کا بیان ہے، ایک صاحِب اعلیٰ حضرت ،اِمامِ اَہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رَضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے اور اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بھی کبھی کبھی اُن کے یہاں تشریف لے جایا کرتے تھے۔ایک مرتبہ حضور (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) ان کے یہاں تشریف فرما تھے کہ ان کے محلے کا ایک بیچارہ غریب مسلمان ٹُوٹی ہوئی پُرانی چارپائی پر جو صحن کے کَنارے پڑی تھی، جھجکتے ہوئے بیٹھا ہی تھا کہ صاحِبِ خانہ نے نہایت کڑوے تَیوروں (یعنی غُصّے والی نظروں) سے اُس کی طرف دیکھنا شُروع کیا یہاں تک کہ وہ ندامت (یعنی شرمندگی) سے سر جُھکائے اُٹھ کر چلاگیا۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو صاحِبِ خانہ کے اس مغرورانہ انداز سے سخت تکلیف پہنچی مگر کچھ فرمایا نہیں۔کچھ دنوں بعد وہ آپ (رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ) کے یہاں آئے۔اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اپنی چارپائی پر جگہ دی، وہ بیٹھے ہی تھے کہ اتنے میں کریم بخش نامی حجّام حُضور (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی داڑھی) کا خط بنانے کیلئے آئے، وہ اِس فکر میں تھے کہ کہاں بیٹھوں؟اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے فرمایا: بھائی کریم بخش!کیوں کھڑے ہو؟ مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اُن صاحب کے برابر میں بیٹھنے کا اشارہ فرمایا، وہ بیٹھ گئے، پھر ان صاحِب کے غصے کی یہ کیفیت تھی کہ جیسے سانپ پُھنکاریں مارتا ہے، وہ فوراً اُٹھ کر چلے گئے، پھر کبھی نہ آئے۔
(📗حیات اعلی حضرت)
*🟢اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور خود داری!🟢*
حضرت مولانا سَیّد ایّوب علی صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا بیان ہے: ایک صاحب نے (اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی بارگاہ میں) بدایونی پیڑوں (یعنی مٹھائی) کی ہانڈی پیش کی، آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے ( ان سے ) فرمایا: کیسے تکلیف فرمائی؟ انہوں نے کہا: سلام کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سلام کا جواب دے کر کچھ دیر خاموش رہے اور پھر پوچھا: کوئی کام ہے؟ انہوں نے عرض کی کچھ نہیں، حضور! صِرْف مزاج پوچھنے کے لیے آیا تھا۔ارشاد فرمایا: عنایت و نوازش۔اور کافی دیر خاموش رہنے کے بعد پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے مخاطب ہو کر فرمایا، کچھ فرمائیے گا؟ انہوں نے پھر نَفی میں جواب دیا۔ اس کے بعد اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے وہ شیرینی مکان میں بھجوادی۔ اب وہ صاحب تھوڑی دیر بعد ایک تعویذ کی درخواست کرتے ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا: میں نے تو آپ سے 3 بار پوچھا تھا مگر آپ نے کچھ نہیں بتایا، اچھا تشریف رکھئے اور اپنے بھانجے علی احمد خان صاحب (جو تعویذ دیا کرتے تھے ) کے پاس سے تعویذ منگوا کر ان صاحب کو عطا فرمایا اور ساتھ ہی حاجی کفایتُ اللہ صاحب رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا اشارہ پاتے ہی مکان سے وہ مٹھائی کی ہانڈی منگوا کر سامنے رکھ دی۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے وہ مٹھائی ان الفاظ کے ساتھ واپس فرما دی کہ اس ہانڈی کو ساتھ لیتے جائیے، میرے یہاں تعویذ بکتا نہیں ہے انہوں نے بہت کچھ معذرت کی، مگر قبول نہ فرمایا، بالآخر بے چارے اپنی مٹھائی واپس لیتے گئے۔
(📗حیاتِ اعلی حضرت،ص۹۲ملخصاً)
*اللہ عزوجل ھمیں سیدی اعلحضرت امامِ اَہلسنّت کے دامن اکرم سے ھمیشہ وابستہ رکھے*