یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"نکاح کب کرنا چاہئے۔۔۔۔؟ "




"نکاح کب کرنا چاہئے۔۔۔۔؟ " 

         
از: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

مرد کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ  اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو ا س پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کانکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔      (بہار شریعت، حصہ ہفتم،     ۲ / ۴-۵    ، ملخصاً)        

عورت کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر     مَعَاذَ اللہ     گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کے لئے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی۔     (فتاوی رضویہ،     ۱۲ / ۲۹۱-۲۹۳    ، ملخصاً)

چین والی گھڑی




چین والی گھڑی

*سوال نمبر 67:*
کیا مرد کے لئے چین والی گھڑی باندھنا جائز ہے اور چین والی گھڑی باندھ کر نماز پڑھنا کیسا ہے ؟
سائل : محسن مدنی فیصل آباد
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
فی زمانہ عمومِ بَلْویٰ کی وجہ سے چین والی گھڑی مردوں کے لئے باندھنا جائز ہے اور ان کی خرید و فروخت بھی جائز ہے اور ان کو باندھ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے البتہ بہتر ہے کہ ان کو اتار کر نماز پڑھی جائے کیونکہ بعض علمائے کرام اب بھی اس کو ناجائز قرار دیتے ہیں اور وہ اس حدیثِ مبارکہ سے دلیل پکڑتے ہیں جس حدیث مبارکہ  میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مرد سے جس نے پیتل کی انگوٹھی باندھ رکھی تھی، فرمایا :
*"مالی اجد منک ریح الاصنام فطرحہ ثم جاء وعلیہ خاتم من حدید فقال مالی اری علیک حلیۃ اھل النار فطرحہ فقال یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم من ای شئی اتخذہ ؟ قال من ورق ولا تتمہ مثقالا "*
 کہ کیا بات ہے کہ میں تجھ سے بتوں کی بو پاتا ہوں اس نے وہ انگوٹھی اتار دی پھر آیا تو لوہے کی انگوٹھی باندھ رکھی تھی تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا بات ہے کہ میں تجھ پر جہنمیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں اس نے وہ بھی اتار دی اور عرض کی کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں تو فرمایا چاندی کی انگوٹھی بناؤ اور ایک مثقال یعنی ساڑھے چار ماشے پورے نہ کرنا".
*(مشکاۃ المصابیح صفحہ 391 مکتبہ رحمانیہ)*
لیکن فی زمانہ عمومِ بَلْویٰ  ہوچکا ہے کہ ہر عام وخاص، امیر و غریب، عوام اور علماءِ کرام چین والی گھڑی استعمال کرتے ہیں لہذا عمومِ بلویٰ کا اعتبار کرتے ہوئے مشکوٰۃ شریف کی حدیث مبارکہ کو چین والی گھڑی کے علاوہ دیگر دھاتوں کے زیورات کیلئے خاص کر دیا جائے گا کہ مرد ان کو سوائے چاندی کی مخصوص انگوٹھی کے نہیں پہن سکتا اور چین والی گھڑی کو اس حدیثِ مبارکہ سے مستثنیٰ کرکے اس کے لئے جائز ہونے کا حکم دیا جائے گا.
جیسا کہ الاشباہ والنظائر میں ہے :
*"ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اَنَّ الْاَمْرَ اِذَا ضَاقَ اِتَّسَعَ"*
 یعنی بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ سختی کا باعث ہو تو اس میں وسعت آجاتی ہے.
*(الاشباہ والنظائر القاعدۃ الرابعہ صفحہ 84 میر محمد کتب خانہ کراچی)*
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :

فرامین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ


 

*🌹فرامین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ🌹*


1: اب ایک جنگ شروع ہوچکی ہے اور یہ ناموس رسالت کی جنگ جو اس میں پیچھے رہا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غداری کررہا ہے 


2: اگر دنیا و آخرت میں عزت چاہتے ہو تو "لبیک یا رسول اللہ " کا نعرہ لگاو 


3: میری داڑھی سفید ہوگئی اور بہت ساری کتابیں پڑھی ہیں مجھے کوئی ایک بھی ایسی روایت نہیں ملی جس سے پتا چلے کہ جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے 2 نمبری کی ہو اور بچ گیا ہو 


4: اسلام قربانیوں کا نام  ہے چیخنے چلانے کا نام نہیں ہے 


5: اگر ہم فیض آباد دھرنے میں جل کر راکھ ہوجاتے تو بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے مقابلے میں ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہیں 


6: اسلام کسی کا قرض نہیں رکھتا  اگر کسی نے صرف کلمہ خیر بھی کہا تو اسلام  اسکے اس ایک جملے کے صدقے میں ہزاروں افراد کے سامنے اسکی تعریف کرا دیتا ہے 


7: جوانو۔۔!!

تم اٹھ کھڑے ہوئے تمھارا اٹھ کھڑا ہونا ہی کافی ہے 

اسلام تمھاری جوانیاں بچائے گا اور تمھاری عزتیں بھی بچائے گا 

اگر اسلام کے ساتھ رہو گے تو تمھارا نام روشن رہے گا 


8: باتوں سے بات نہیں بنے گی بلکہ اب گھروں سے نکلنا پڑے گا 

صحابہ کرام نے پیٹ پر پتھر باندھ کر بھی نماز نہیں چھوڑی اور تم اعلی کھانے کھا کر بھی کہتے ہو دین پر چلنا مشکل ہے 


9: جب  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کادین تخت پر ہوگا تو کوئی کسی کا حق نہیں مارے گا 

زوال کے وقت نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے




*زوال کے وقت نمازِ جنازہ پڑھنے کے بارے میں کیا حکم ہے ؟*

سائل : حافظ محمد اکرام قادری شہر کوٹ ملیار
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اگر زوال (ضَحْوَی کُبْریٰ) کے وقت سے پہلے میت کو جنازہ گاہ میں لایا گیا اور تاخیر کی گئی یہاں تک کہ زوال کا وقت شروع ہوگیا تو ایسی صورت میں زوال کے وقت نمازِ جنازہ پڑھنا مکروہِ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے اور اگر زوال (ضَحْوَی کُبْریٰ) کے وقت ہی میت کو جنازہ گاہ میں لایا گیا تو ایسی صورت میں زوال کے وقت نمازِ جنازہ پڑھنا بلاکراہت جائز ہے بلکہ افضل ہے کہ زوال کے وقت گزرنے کا انتظار کیے بغیر اسی وقت نمازِ جنازہ پڑھ لیا جائے۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*"إذَا وَجَبَتْ صَلَاةُ الْجِنَازَةِ وَ سَجْدَةُ التِّلَاوَةِ في وَقْتٍ مُبَاحٍ وَأُخِّرَتَا إلَى هذا الْوَقْتِ فإنه لَا يَجُوزُ قَطْعًا أَمَّا لو وَجَبَتَا في هذا الْوَقْتِ وَأُدِّيَتَا فيه جَازَ"*
یعنی جب نمازِ جنازہ اور سجدہ تلاوت مباح وقت میں واجب ہوئے اور انہیں اس (مکروہ) وقت تک مؤخر کیا گیا تو یہ ادائیگی یقینی طور پر جائز نہیں ہوگی، بہرحال اگر یہ دونوں اس (مکروہ) وقت میں واجب ہوں اور (بغیر تاخیر کے) اسی وقت ادا کر دیئے گئے ہوں تو یہ ادائیگی جائز ہے۔
*(فتاوی عالمگیری جلد 1 صفحہ 52 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
*"(وکرہ) تحریما... (صلاة) مطلقا (و لو) قضاء أو واجبة أو نفلا أو (علی جنازة۔۔) (مع شروق)۔۔۔(و استواء)۔۔۔ (و غروب، إلا عصر یومہ) فلا یکرہ فعلہ لأدائہ کما وجب۔۔۔ فلو وجبتا فیھا لم یکرہ فعلھما ای : تحریما۔ و فی "التحفۃ" الافضل ان لاتؤخر الجنازۃ"*
یعنی اور مطلقاً نماز مکروہِ تحریمی ہے اگرچہ قضاء ہو یا واجب ہو یا نفل ہو یا نمازِ جنازہ ہو، طلوعِ آفتاب کے وقت اور استواءِ (زوال) کے وقت اور غروب کے وقت، مگر اس کی دن عصر ادا کرنا مکروہ نہیں کیونکہ جس طرح واجب ہوئی، اسی طرح ادائیگی کی گئی، پس اگر یہ (سجدہ تلاوت اور نمازِ جنازہ) دونوں واجب ہوں تو انہیں ادا کرنا مکروہِ تحریمی نہیں ہے اور تحفہ میں ہے کہ جنازے کو مؤخر نہ کرنا افضل ہے۔
*(رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الصلاة، مطلب : یشترط العلم بدخول الوقت، جلد 2 صفحہ 37 تا 43 ملتقطا، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*

پھوٹی کوڑی


http://thedailyroshni.com/

پھوٹی کوڑی

پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی جس کی قدر سب سے کم تھی۔ 3 پھوٹی کوڑیوں سے ایک کوڑی بنتی تھی اور 10 کوڑیوں سے ایک دمڑی۔ علاوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتاً محتاجی کی علامت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے مثلاً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔ 
دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی ‘‘ہے۔یہ پھوٹی کوڑی  ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (5000) سال قبل وادیٔ سندھ کی قدیم تہذیب میں بطور کرنسی عام تھا۔ ’’پھوٹی ‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی کوڑی‘‘ کہلایا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیدا وار محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر / ویلیو ہے۔
تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں کی کوئی آخری حیثیت / ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہاجانے لگا۔۔ ایک’’روپیہ ‘‘5,275’‘پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے۔جنہیں ’’کوڑی‘‘، دمڑی‘‘، ’’پائی‘‘، ’’دھیلا‘‘، ’’پیسہ‘‘، ’ٹکہ‘‘، ’’آنہ‘‘، ’’دونی‘‘، ’’چونی‘‘، ’’اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔
‎کرنسی کی قیمت یہ تھی-
3 پھوٹی کوڑی= 1کوڑی 
10کوڑی =  1 دمڑی
 02دمڑى = 1.5پائى.
ڈیڑھ پائى = 1 دهيلا.
2دهيلا = 1  پيسہ .
تین پیسے= ایک ٹکہ
چھ پيسه یا دو ٹکے= 1 آنہ .
دو آنے= دونی 
چار آنے= چونی
آٹھ آنے= اٹھنی
16 آنے =   1 روپيہ

موبائل فون پر طلاق دینے کا شرعی حکم



موبائل فون پر طلاق دینے کا شرعی حکم


ایک شوہر نے اپنی بیوی کو موبائل پر طلاقیں دینا شروع کیں تو جب دو طلاقیں دیں تو بیوی نے موبائل بند کر دیا اور شوہر نے کال ختم کے بعد تیسری طلاق بھی دیدی لیکن اس تیسری طلاق کو بیوی نے نہیں سنا تو کیا تیسری طلاق ہوگئی ہے ؟ 
سائل : عبداللہ پنجاب پاکستان 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
مذکورہ صورت میں دو طلاقوں کے بعد تیسری طلاق بھی واقع ہو گئی ہے، لہٰذا جب تینوں طلاقیں واقع ہوگئی ہیں تو حلالہ شرعیہ کے بغیر عورت اس شوہر کے لئے حلال نہیں ہوگی کیونکہ طلاق دیتے وقت بیوی کا طلاق کو سننا یا گواہوں کا سننا یا موجود ہونا ضروری نہیں ہے بلکہ طلاق بالکل تنہائی میں دی تو تب بھی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
*"فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ"*
ترجمہ : پھر اگر تیسری طلاق اسے دی، تو اب وہ عورت اسے حلال نہ ہوگی جب تک دوسرے خاوند کے پاس نہ رہے۔
*(پارہ 2، سورۃالبقرہ : 230)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”طلاق کے لیے زوجہ خواہ کسی دوسرے کا سننا ضرور نہیں، جبکہ شوہر نے اپنی زبان سے الفاظِ طلاق ایسی آواز سے کہے، جو اس کے کان تک پہنچنے کے قابل تھے (اگرچہ کسی غل شور یا ثقلِ سماعت کے سبب نہ پہنچے) عنداللہ طلاق ہو گئی۔ عورت کو خبر ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو مطلّقہ جانے۔“
*(فتاوی رضویہ، جلد 12، صفحہ 362، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*

غیرِ نبی کے نام کے ساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا کیسا ہے ؟




غیرِ نبی کے نام کے ساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا کیسا ہے ؟


سائل : عبدالرحمٰن عیسیٰ خیل میانوالی پنجاب پاکستان 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کسی اور کے نام کیساتھ اِسْتِقْلَالاً (یعنی اِبْتدَاءً) *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ ایک تو اسلاف علمائے کرام نے *"علیہ السلام"* کو انبیاء کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے ساتھ خاص کیا ہے اور دوسرا انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ کے ساتھ ابتداءً علیہ السلام کہنا اہلِ بدعت کا شعار (یعنی ان کی علامت) ہے، البتہ انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کی تَبْعِیَّت میں *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا جائز ہے (یعنی پہلے کسی نبی علیہ السلام یا کسی فرشتے کا ذکر ہوا تو اس کے بعد غیر نبی و غیر فرشتے کیساتھ *"علیہ السلام"* پڑھنا یا لکھنا جائز ہے.) 
جیسے *"حضرت ابوبکر عَلیٰ نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ السَّلَام"* (یعنی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سلام ہو) کہنا جائز ہے اور کسی نبی یا فرشتے کا پہلے ذکر کیے بغیر ڈائریکٹ *"ابوبکر علیہ السلام"* کہنا جائز نہیں ہے۔
چنانچہ علامہ شمس الدین تمرتاشی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"ولایصلیٰ علی غیر الانبیاء و لا علی غیر الملائکۃ الا بطریق التبع"*
یعنی انبیائے کرام علیھم السلام اور فرشتوں کے علاوہ پر درود نہیں بھیجا جائے گا مگر بطورِ تَبْعِیَّت کے۔
اس کے تحت عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین دمشقی شامی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و أما السلام فنقل اللقاني فی شرح جوھرۃ التوحید عن الامام الجویني أنہ في معنی الصلاة، فلا یستعمل في الغائب و لایفرد بہ غیر الأنبیاء، فلا یقال علي علیہ السلام و سواء في ہذا الأحیاء والأموات․․․*
*و الظاہر أن العلة في منع السلام ما قالہ النووي في علة منع الصلاة أن ذلک شعار أہل البدع و لأن ذلک مخصوص في لسان السلف بالأنبیاء علیہم السلام"*
یعنی اور بہرحال سلام تو امام لقانی نے امام *"شرح جوھرۃ التوحید"* میں امام جوینی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ بے شک سلام درود کے معنی میں ہے، پس اسے غائب میں استعمال نہیں کیا جائے گا اور نہ ہی اس کے انبیائے کرام علیھم السلام کے علاوہ کو الگ کیا جائے گا، پس *"علی علیہ السلام"* نہیں کہا جائے گا، اور اس حکم میں زندہ اور وفات پانے والے سب برابر ہیں۔۔۔۔
اور ظاہر ہے کہ سلام کے منع ہونے کی علت وہ ہے جسے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے صلوۃ کے منع ہونے کی علت میں نقل کیا ہے کہ بے شک یہ اہلِ بدعت کا شعار ہے، اور اس لیے کہ یہ سلف کی زبان میں انبیائے کرام علیھم الصلوۃ و السلام کے ساتھ خاص ہے۔
*(رد المحتار علی الدرالمختار، کتاب الخنثی، فصل في مسائل شتی، جلد 10 صفحہ 518 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*

1- متعہ کیا ہے ؟ 2- کیا یہ فی زمانہ جائز ہے ؟




1- متعہ کیا ہے ؟
2- کیا یہ فی زمانہ جائز ہے ؟

سائل : ادریس ونجاری
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- متعہ اس عقد کو کہتے ہیں جس میں مقررہ معاوضہ کے بدلے معینہ مدت کے لئے کسی عورت کو قضاءِ شہوت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، اس عقد کے لئے نہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ممتوعہ عورتوں کی تعداد کی قید ہے، جہاں فریقین راضی ہوں مدت اور اجرت طے ہوئی، وہیں جنسی تسکین کا عمل شروع ہوگیا۔
چنانچہ کتاب التعریفات میں ہے :
*"ونکاح المتعۃ : ھو ان یقول الرجل لامراۃ : خذی ھذہ العشرۃ و اتمتع بک مدۃ معلومۃ، فقبلتہ۔"*
یعنی اور نکاح متعہ یہ ہے کہ مرد عورت سے یوں کہے :
تو یہ دس (درہم) لے لے اور میں تیرے ساتھ معلوم مدت کے لئے متعہ کرتا ہوں، پھر وہ عورت اسے قبول کرلے۔
*(کتاب التعریفات، صفحہ 170، مکتبہ رحمانیہ لاہور)*
مشہور شیعہ مفسر ابوعلی فضل بن الحسن الطبرسی من القرن السادس لکھتا ہے :
"(نکاحِ متعہ) وہ نکاح ہے جع مہر معین سے مدت معین کے لئے کیا جاتا ہے۔"
*(مجمع البیان جلد 3 صفحہ 52 انتشارات خسرو ایران)*
شیعہ مذہب کی مشہور کتاب *"الاستبصار"* میں ہے :
زرارہ کا بیان ہے کہ ابوعبداللہ سے پوچھا گیا کہ :
کیا متعہ صرف چار عورتوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ 
انہوں نے کہا :
"متعہ اجرت کے عوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو۔"
*(الاستبصار جلد 3 صفحہ 147 دارالکتب الاسلامیہ تہران)*
شیعوں کی معتبر کتاب *"الفروع من الکافی"* میں ہے :
"ابوعمیر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تم یوں کہو اے اللہ کی بندی میں اتنے پیسے کے عوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں، جب ایام گزر جائیں گے تو اس کو طلاق ہو جائے گی اور اس کی کوئی عدت نہیں۔"

ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ




*ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺗﻮﻥ ﮐﺎ ﻗﺼﮧ ﺟﻮ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﺟﻮﺍﺏ ﻗﺮﺁﻥ ﮐﯽ ﺁﯾﺖ ﺳﮯ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ*

----------------------
ﺣﻀﺮﺕ ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ ‏) ﺍﻣﺎﻡ ﺍﺑﻮ ﺣﻨﻴﻔﻪ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﮐﮯ ﺷﺎﮔﺮﺩ ‏( ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺣﺞ ﺑﯿﺖ ﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺍﻭﺭ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﷺ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮐﯽ ﻏﺮﺽ ﺳﮯ ﻧﮑﻼ۔ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﭘﺮ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﯾﮧ ﺩﯾﮑﮭﺎ، ﻏﻮﺭ ﮐﯿﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﯽ ﻋﻮﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺍﻭﻥ ﮐﮯ ﮐﭙﮍﮮ ﺯﯾﺐ ﺗﻦ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻏﺎﻟﺒﺎً ﻭﮦ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﮭﭩﮏ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﻗﺎﻓﻠﮧ ﺳﮯ ﺑﭽﮭﮍ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ۔
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﯿﮑﻢ ﻭ ﺭﺣﻤـﺔ ﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﻭ ﺑﺮﮐﺎﺗﻪ
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﺳَﻠَٰﻢٌ ﻗَﻮْﻟًﺎ ﻣِّﻦ ﺭَّﺏٍّ ﺭَّﺣِﻴﻢٍ " ﻧﮩﺎﯾﺖ ﺭﺣﻢ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺳﮯ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺳﻼﻡ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ "  ﴿ﻳـٰـﺲ : ٥٨﴾
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﯿﺎ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﻣَﻦ ﻳُﻀْﻠِﻞِ ﭐﻟـﻠــَّـﻪُ ﻓَﻠَﺎ ﻫَﺎﺩِﻯَ ﻟَﻪُۥ۔ " ﺟﺴﮯ ﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﮭﭩﮑﺎ ﺩﮮ ﺍﺳﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺭﺍﮦ ﭘﺮ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﮩﯿﮟ "
 ﴿ﺍﻻﻋﺮﺍﻑ : ١٨٦﴾
‏) ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﮭﻮﻝ ﮔﺌﯽ ﮨﻮﮞ ‏(
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﺁﭖ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ؟
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﺳُﺒْﺤَٰﻦَ ﭐﻟَّﺬِﻯٓ ﺃَﺳْﺮَﻯٰ ﺑِﻌَﺒْﺪِﻩِۦ ﻟَﻴْﻠًﺎ ﻣِّﻦَ ﭐﻟْﻤَﺴْﺠِﺪِ ﭐﻟْﺤَﺮَﺍﻡِ ﺇِﻟَﻰ ﭐﻟْﻤَﺴْﺠِﺪِ ﭐﻟْﺄَﻗْﺼَﺎ۔ " ﭘﺎﮎ ﮨﮯ ﻭﻩ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﺭﺍﺕ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﻮ ﻣﺴﺠﺪ ﺣﺮﺍﻡ ﺳﮯ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽٰ ﺗﮏ ﺳﯿﺮ ﮐﺮﺍﺋﯽ "  ﴿ﺍﻷﺳﺮﻯٰ : ١﴾
‏) ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﺴﺠﺪ ﺍﻗﺼﯽ ﺳﮯ ﺁﺭﮨﯽ ﮨﻮﮞ ‏(
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﺁﭖ ﯾﮩﺎﮞ ﮐﺐ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ؟
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﺛَﻠَٰﺚَ ﻟَﻴَﺎﻝٍ ﺳَﻮِﻳًّﺎ۔ " ﺗﯿﻦ ﺭﺍﺕ ﻣﺘﻮﺍﺗﺮ "
 ﴿ﻣﺮﻳﻢ : ١٠﴾
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﺁﭖ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮨﮯ؟
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﻭَﺍﻟَّﺬﻱ ﻫُﻮَ ﻳُﻄْﻌِﻤُﻨﻲ ﻭَ ﻳَﺴْﻘﻴﻦِ۔ " ﻭﮦ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﮭﻼﺗﺎ ﭘﻼﺗﺎ ﮨﮯ "  ﴿ﺍﻟﺸﻌﺮﺍﺀ : ٧٩﴾
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﮐﯿﺎ ﻭﺿﻮ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ؟
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﻓَﻠَﻢْ ﺗَﺠِﺪُﻭﺍ ﻣَﺎﺀً ﻓَﺘَﻴَﻤَّﻤُﻮﺍ ﺻَﻌِﻴﺪًﺍ ﻃَﻴِّﺒًﺎ
" ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮧ ﭘﺎﺅ ﺗﻮ ﭘﺎﮎ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺗﯿﻤﻢ ﮐﺮﻭ "
 ﴿ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ : ٤٣﴾؛  ﴿ﺍﻟـﻤـﺎﺋﺪﺓ : ٦﴾
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﯾﮧ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﮯ ﮐﮭﺎ ﻟﯿﺠﺌﮯ۔
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﺃَﺗِﻤُّﻮﺍ ﺍﻟﺼِّﻴَﺎﻡَ ﺇِﻟَﻰ ﺍﻟﻠَّﻴْﻞِ۔ " ﺭﻭﺯﮮ ﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﺁﻏﺎﺯ ﺗﮏ ﭘﻮﺭﮮ ﮐﺮﻭ"﴿ﺍﻟﺒﻘﺮﺓ : ١٨٧﴾
‏) ﻣﺮﺍﺩ ﯾﮧ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯﮮ ﺳﮯ ﮨﻮﮞ ‏(
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﯾﮧ ﺭﻣﻀﺎﻥ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ !
ﺧﺎﺗﻮﻥ : ﻭَﻣَﻦ ﺗَﻄَﻮَّﻉَ ﺧَﻴﺮًﺍ ﻓَﺈِﻥَّ ﺍﻟﻠَّﻪَ ﺷﺎﻛِﺮٌ ﻋَﻠﻴﻢٌ۔ " ﺍﻭﺭ ﺟﻮ ﻧﯿﮑﯽ ﮐﮯ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ ﺑﮮﺷﮏ ﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺷﺎﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﻋﻠﯿﻢ ﮨﮯ "  ﴿ﺍﻟﺒﻘﺮﺓ : ١٥٨﴾
‏) ﯾﻌﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻧﻔﻠﯽ ﺭﻭﺯﮦ ﺭﮐﮭﺎ ﮨﮯ ‏(
ﻋﺒﺪﺍﻟـﻠــَّـﻪ ﺑﻦ ﻣﺒﺎﺭﮎ : ﻟﯿﮑﻦ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺭﻭﺯﮦ ﺍﻓﻄﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﻨﮯ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ۔

*عبدالحئی الکتانی علیہ الرحمہ کا ادب سادات*



*عبدالحئی الکتانی علیہ الرحمہ کا ادب سادات* 


الشیخ قاضی محمد المسعودی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ ایک بار شہر فاس(مراکش) کے سادات میں سے ایک سید صاحب کا انتقال ہو گیا شیخ عبدالحئی الکتانی علیہ الرحمہ تعزیت کی غرض سے تشریف لے گئے جب گھر کے صحن میں داخل ہوئے تو اپنے جوتے اتار دئیے  لوگوں نے بہت منع کیا مگر آپ نہیں مانے اور فرمایا 
*بأن بيوت السادة الشرفاء لا يدخلها إلا حافي القدمين*
سادات کرام کے گھروں میں داخل ہونے کی صورت یہی ہے کہ ننگے پاؤں داخل ہوا جائے
ہمارے اسلاف میں ادب کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا  حالانکہ شیخ صاحب خود جلیل القدر عالم دین ہونے کے ساتھ سید بھی تھے مگر پھر بھی آپ نے سادات عظام کا ادب کرتے ہوئے ننگے پاؤں داخل ہوئے 
اللہ کریم ہمیں بھی شیخ صاحب کے صدقے سادات کرام کی تعظیم و توقیر بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔۔آمین 

✍محمد ساجد مدنی 
متخصص فی الحدیث 
25 نومبر 2020بروز بدھ

سیرت امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ



*سیرت امیر المجاہدین علامہ خادم حسین رضوی علیہ الرحمہ*

*✍محمد ساجد مدنی* 
*متعلم تخصص فی الحدیث* 

*ابتدائی حالات:*
علامہ خادم حسین رضوی صاحب  ضلع اٹک کے ایک گاوں نگا کلاں میں ایک زمیندار گھرانے میں 22نومبر 1966 کو پیدا ہوئے 
آپ کے والد کا نام لعل خان ہے 
آپ کا ایک بھائی جسکا نام امیر حسین ہے اور چار بہنیں ہیں 
آپ کے والد کا انتقال 2008 میں ہوا
 اور والدہ کا 2010میں انتقال ہوا 
*تعلیمی سفر:*
 
آپ نے سکول میں صرف چار جماعتیں پڑھیں تھیں اور آٹھ سال کی عمر میں ضلع جہلم کی طرف طلب علم دین کیلئے رخت سفر باندھا اور  مدرسہ جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں قاری غلام یسین صاحب سے حفظ قرآن شروع کیا 
آپ نے چار سال کے عرصے میں حفظ قرآن مکمل کیا  اس وقت آپ کی عمر 12 سال تھی 
پھر آپ نے ضلع گجرات کے کے قصبے دینہ میں 2 سال قرات کورس کیا 
14 سال کی عمر میں لاہور تعلیم کیلئے آئے  
1988 کو آپ نے دورہ حدیث شریف مکمل فرمایا آپ عربی کے ساتھ ساتھ فارسی پر بھی عبور رکھتے تھے 
آپ نے پہلی ملازمت 1993 میں محکمہ اوقاف پنجاب میں کی اور داتا دربار کے قریب پیر مکی مسجد میں خطبہ دیا کرتے تھے 
پھر ختم نبوت اور  ناموس رسالت تحریک چلانے کی وجہ سے آپ نے نوکری چھوڑ دی اور یتیم خانہ روڈ لاہور کے قریب واقع مسجد رحمة للعالمين میں خطابت کرتے رہے اور ساری زندگی مشاہرہ صرف 15000 لیتے رہے 

سال بھر آفتوں سےحفاظت کانسخہ بغدادی




*سال بھر آفتوں سےحفاظت کانسخہ بغدادی*


ربیع الآخر کی گیارہویں رات (یعنی بڑی رات) سرکار غوث پاک رضی اللہ عنہ کے گیارہ نام اول اور آخر گیارہ بار درودپاک پڑھ کر گیارہ کھجوروں پر دم کرکے اسی رات کھا لیجیے ان شاء اللہ عزوجل سارا سال مصیبتوں سے حفاظت ہوگی. 
وہ گیارہ نام یہ ہیں :
*1-سَیِّدْمُحْیُ الدِّیْن سُلْطَان* 
*2-محی الدین قُطْب* 
*3-محی الدین خَواجَہ* 
*4-محی الدین مَخْدُوم* 
*5-محی الدین وَلِی* 
*6-محی الدین بَادشَاہ*
*7-محی الدین شَیْخ* 
*8-محی الدین مَوْلانا*
*9-محی الدین غَوْث*
*10-محی الدین خَلِیْل* 
*11-محی الدین* 
*نوٹ:* 
یہ ایک پڑھ کرصرف گیارہ کھجوروں پردم کرسکتے ہیں دوسری گیارہ کھجوروں پردم کرنےکیلیے دوبارہ پڑھنا ہوگا. 
(بحوالہ : جنات کابادشاہ)
*پیٹ کی ہرطرح کی بیماری سےبچنے کا نسخہ جیلانی*
ربیع الآخر کی گیارہویں رات
 تین کھجوریں لیکر
*ایک بارہ درودپاک*
*پھر ایک بار سورۃالفاتحہ*
*پھر ایک بار سورۃالاخلاص*
*پھرگیارہ بار*
*یاشَیْخ عَبْدَالْقَادِر جِیْلَانِی شَیْئًالِلّٰہ اَلْمَدَد*
*پھر ایک بار درودپاک* 
پڑھ کرایک کھجور پردم کیجیے
پھراسی طرح پڑھ کردوسری کھجوردم کیجیے
پھراسی طرح پڑھ کرتیسری کھجور دم کیجیے. 
یہ کھجوریں اسی رات کھانا ضروری نہیں بلکہ جب چاہیں جس دن چاہیں کھا سکتے ہیں ان شاءاللہ عزوجل پیٹ کی ہر طرح کی بیماری مثلاً پیٹ کا درد, پچیس , قبض, قے اور پیٹ کے السر وغیرہ کیلئے مفید ہے.
*(بحوالہ :*
 رسالہ✍🏻 امیراھلسنت دامت برکاتہم العالیہ جنات کابادشاہ )
*نوٹ:*
دونوں نسخوں میں کھجوروں پردم خودکرنا ضروری نہیں بلکہ کسی دوسرے سےبھی دم کرواسکتےہیں. 
حصولِ ثواب کیلئے اسےزیادہ سے زیادہ شیئرکیجیے.

*: نحوی غزل:*



*: نحوی غزل:*


سُن میری *نَحو* میں کچھ، تُجھ سے یہ گُفتگو ہے
ڈُوبا ہُوں بحرِ غم میں، جِس کا کِنارہ تُو ہے

تیرا سِتَم ہے *مصدر*، ہر زخم تجھ سے *مُشتَق*
چَھلنی ہُوا ہے سینہ، *جامِد* مگر لَہُو ہے

ہے زُلف تیری *سالِم*، یہ دِل مِرا *مُکسَّر*
کر *جمع* دونوں کو تُو، مُحتاجیِ رَفُو ہے

تُو *معرِفہ* سراپا، پہچان میری *نکرہ*
لُوں نام گَر میں اپنا، کہتا کہ کون تُو ہے

ہر دن نیا تعلّق، *مُعرَب* ہو جیسے کوئی
رنجِش ہے مجھ سے *مَبنی*، ایسا تُو تُند خُو ہے

رکھتا ہوں میں ہمیشہ سر زیر تیرے آگے
تیرا *مُضاف اِلَیہ* میں، میرا *مُضاف* تُو ہے

ہوں کیوں نہ پھر برابر *اعراب* دونوں ہی کے
*موصُوف* تیرا پیکر، اور *صِفت* تیری خُو ہے

تُو *جُملہ اِسمِیہ* ہے ، تیری خبر مُقدَّم
تُو *مُبتدا، خبر* کا، آغازِ گفتگُو ہے

میں *ظرفِ مُستَقَر* ہوں، تُو *فِعلِ حَذف* میرا
تیرے بَجُز نہیں کچھ، تیری ہی جُستجُو ہے

کیا *غیرِ مُنصرف* ہوں، جو یوں تُو مِثلِ تنوین
رہتا ہے دُور مجھ سے، جیسے مِرا عَدُو ہے

ہر ہر خبر تِری میں، *اِنشائیہ* سمجھ کر
یوں پی گیا ہوں جیسے، چَھکتا ہُوا سَبُو ہے

بدلے سُوال لاکھوں، پر ہر جواب اُلٹا
*لائے نفی* کے جیسے، ہر وقت دُو بَدُو ہے

دیوانہ ہوں اگرچہ، پر تیرے حُسن ہی کے باعِث
مذکور فعل میں ہوں، *مفعول تُو لَہُ* ہے

*معطوف* میری گردن، *متبوع* تیرا خنجر
یُوں خُود بَخُود پلٹتا، تلوار پر گُلُو ہے

*اِسمِ مُبالَغہ* ہے، یا اِسم تیرا *تفضیل*
ہاں دونوں ہی بجا ہیں، اس میں کہاں غُلُو ہے

حُسن و جمال تیرا، *صفتِ مُشبّہ* ٹھہرا
سب دائمی غضب کا، انداز رنگ و بُو ہے

سُنتا نہیں مِری اِک، کرتا ہوں سو نِدائیں
کیسا ہے تُو *مُنادٰی*، کیسا تُو چارہ جُو ہے

کہنے کو تُو ہے *مَرجع*، لیتا نہیں خبر بھی
میرا *ضمیر* کرتا، کتنی ہی ہاؤ ہُو ہے

سترہ *حروفِ جارہ*، ستّر ادائیں تیری
کرتی ہیں زیر دونوں، جاتا جو پیش رُو ہے

تیرا وُجود *مَصدَر*، ہر باب تجھ سے قائِم
تیرے بغیر میرا، ہر فِعل فالتو ہے

حافِظؔ جو ہوتا نحوی، *ترکیبِ* زِیست کرتا
زیر و زبر پرکھتا، بس یہ ہی آرزو ہے۔۔

Copied

علماءِ سلف کے کچھ دلچسپ جوابات



*علماءِ سلف  کے کچھ دلچسپ جوابات*


1- ایک شخص نے امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے داڑھی پر مسح کرنے کا مسئلہ پوچھا. 
تو انہوں نے فرمایا :
انگلیوں سے داڑھی کا خلال کر لو.
وہ شخص بولا :
مجھے اندیشہ ہے کہ داڑھی اس طرح نہیں بھیگے گی۔
تو امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا : 
پھر ایک کام کرو، رات کو ہی داڑھی  پانی میں بِھگو دو.😂
*(المراح فی المزاح صفحہ 39)*

2- امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے ہی ایک شخص نے پوچھا : 
کیا حالت احرام میں انسان اپنے بدن کو کھجلا سکتا ہے ؟
انہوں نے فرمایا : 
ہاں! کجھلا سکتا ہے۔
وہ شخص بولا : 
کتنا کھجلا سکتا ہے ؟ 
تو امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ نے جواب دیا :
جب تک ہڈی نظر نہ آنے لگے.😅
*(المراح فی المزاح)*

3- ایک آدمی نے قاضی ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا : 
پستے کا حلوہ زیادہ مزیدار ہوتا ہے یا بادام کا ؟
قاضی صاحب نے فوراً جواب دیا :
"معاملہ انصاف کا ہے اور میں فریقین کی عدم موجودگی میں فیصلہ نہیں کرسکتا، دونوں کو حاضر کیا جائے ، تو بتاؤں گا۔"
*(اسلام میں تصورِ مزاح، صفحہ 116)*

4- ایک شخص نے عمر بن قیس سے پوچھا :
اگر انسان کے کپڑے، جوتے اور پیشانی وغیرہ میں مسجد کی کچھ کنکریاں لگ جائیں تو وہ ان کا کیا کرے ؟
انہوں نے جواب دیا :
پھینک دے.
وہ شخص بولا :
لوگ کہتے ہیں وہ کنکریاں جب تک دوبارہ مسجد میں نہ پہنچائی جائیں، چیختی رہتی ہیں.
وہ بولے : 
تو پھر انہیں اس وقت تک چیخنے دو، جب تک ان کا حلق پھٹ نہ جائے.
وہ شخص بولا :
سبحان اللہ! بھلا کنکریوں کا بھی کہیں حلق ہوتا ہے ؟
انہوں نے جواب دیا :
پھر بھلا وہ چیختی کہاں سے ہیں؟😬
 *(العقد الفرید، جلد 2، صفحہ 92)*

5- ایوب کہتے ہیں :
میں نے ایک آدمی کو سنا وہ حضرت عکرمہ سے کہہ رہا تھا : 
فلاں شخص نے خواب میں میرے اوپر زنا کی جھوٹی تہمت لگائی ہے.
حضرت عکرمہ بولے:
تو تم بھی اس کے سائے کو اسی (80) کوڑے مار لو.🤩😊
*(سیر اعلام النبلاء، جلد،5، صفحہ 19)*

6- اعمش کہتے ہیں کہ ایک شخص امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور پوچھا : 
ابلیس کی بیوی کا کیا نام  ہے ؟ 
انہوں نے جواب دیا :
میں اس کی شادی میں شریک نہیں ہوا تھا.🤣
*(سیر اعلام النبلاء، جلد 4 صفحہ 314)*

7- ایک آدمی امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ کے پاس آیا اور پوچھا :
جب میں اپنے کپڑے اتار کر ندی میں غسل کرنے کے لیے جاؤں تو اپنا چہرہ قبلہ کی طرف رکھوں یا کسی اور طرف ؟
انہوں نے جواب دیا :
بہتر ہے کہ تم اپنا چہرہ کپڑے کی طرف رکھو تا کہ  کوئی انہیں چرا نہ لے.😆😝
*(المراح فی المزاح، صفحہ 43)*
عربی سے ترجمہ

خوابوں کی دنیا




*خوابوں کی دنیا*


از قلم مفتی علی اصغر
یکم ربیع الآخر 1442
17نومبر 2020

خوابوں کی دنیا بھی بہت عجیب ہوتی ہے. نظر کیا آتا ہے اور تعبیر کیا ہوتی ہے. کل ایک محب نے پوچھا کہ اس نے اپنے بہت ہی قریبی دوست کو دیکھا کہ اس کا انتقال ہو گیا ہے. کتب دیکھیں تو بہت ساری تعبیرات تھیں میں نے پوچھا کہ جس دوست کا انتقال خواب میں دیکھا ہے وہ بیمار تو نہیں یا جیل میں ہو یا پھر مقدمات ہوں 
جواب ملا کہ بہت سخت بیمار ہیں 
اس تناظر میں تعبیر یہ تھی کہ وہ شفاء یاب ہوگا.
اب خواب کیا اور تعبیر کیا؟ زمین و آسمان کا فرق
بعض خواب تو ایسے ہوتے ہیں کہ 20 سے 30 الگ الگ قسم کی تعبیرات ہوتی ہیں 
یہی علم الرویاء ہے جس میں قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ٹوٹل علم منقولی ہے.
یہ الگ بات ہے کہ خواب کے نام پر نا جانے کیا کیا انداز چل رہے ہیں. حقیقت یہ ہے کہ خواب نامہ پورا ایک جامع علم ہے اس کے اصولوں پر علماء نے مستقل کتب لکھی ہیں پچھلے سال ایک معتبر بزرگ کی ایک کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ میں نے شارجہ بک فئیر سے خریدی تھی یہ کتاب اصول تعبییر پر تھی پڑھ کر چودہ طبق روشن ہو گئے مثلا ایک اصول یہ لکھا تھا کہ خواب دیکھنے والے کی زبان میں اس لفظ کو کیا کہا جاتا ہے اس کے مطابق تعییر ہوگی
ہمارے یہاں کوئی تکہ لگانے سے اجتناب بھی کرتا ہو تو تو امام نابلسی اور امام ابن سیرین کی کتب ہی دیکھ لیتا ہوگا لیکن اصولوں سے واقفیت پھر بھی ضروری ہے
سب سے اہم چیز یہ ہے کہ خواب کی درست تعبییر کے لئے ضروری ہے کہ ڈاکٹر کی طرح متعلقہ  شخص ہسٹری معلوم کی جائے کہ خواب دیکھنے والا کس پوزیشن میں ہے مرد ہے یا عورت، شادی شدہ ہے یا کنوارہ، عورت اگر ہے تو حاملہ تو نہیں پھر وہ اس وقت  کن حالات میں ہے. بہت سارے خواب محض نفسیاتی ہوتے ہیں یعنی ان کی کوئی تعبییر نہیں ہوتی انسان روز و شب جن حالات سے گزر رہا ہوتا ہے وہی نظر آجاتا ہے. پھر خواب دیکھنے کا وقت کیا ہے تعبییر کے لئے سب سے اہم چیز ہے.
یہ سب باتیں معلومات عامہ کے لئے لکھی ہیں یہ نا ہو کہ ان بکس میں خواب بیان ہونا شروع ہو جائیں کہ تعبییر بتا دیں. ایسے کسی بھی میسیج کا جواب نہیں دیا جائے گا.




بچوں کے ماتھے، گال یا ٹھوڑی پر سُرمے اور کاجل وغیرہ سے نقطہ نما کالا نشان لگانا کیسا ہے ؟

سائل : محمدجنیدرضاعطاری عیسیٰ خیل
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
بچوں کے ماتھے، گال یا ٹھوڑی پر سرمے اور کاجل وغیرہ سے نقطہ نما کالا نشان لگانا بالکل جائز ہے بلکہ لگانا چاہیے کہ اس کے ذریعے بچوں کی نظرِبد سے حفاظت ہوتی ہے اور نظرِ بد سے بچانے کے لئے ٹھوڑی میں کالا نقطہ لگوانا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔
چنانچہ علامّہ علی بن سلطان محمد قاری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*”فی شرح السنۃ روی ان عثمان رضی اللہ عنہ رأی صبیاً ملیحا فقال دسموا نونتہ کیلا تصیبہ العین“*
یعنی شرح السنّۃ میں حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے ایک خوبصورت بچہ دیکھا تو فرمایا :
"اس کی ٹھوڑی میں سیاہ نقطہ یا ٹیکہ لگا دو تاکہ نظر نہ لگے۔" 
*(مرقاۃ المفاتیح جلد 8 صفحہ 305 تحت الحدیث :4531)*
شیخ الحد یث حضرت علا مہ مولانا عبد المصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"نظر سے بچنے کے لیے ماتھے یا ٹھوڑی وغیرہ میں کاجل وغیرہ سے دھبہ لگا دینا یا کھیتوں میں کسی لکڑ ی میں کپڑا لپیٹ کر گاڑ دینا تاکہ دیکھنے والے کی نظر پہلے اس پر پڑے اور بچوں اور کھیتی کو کسی کی نظر نہ لگے ایسا کرنا منع نہیں ہے کیونکہ نظر کا لگنا حد یثوں سے ثابت ہے اس کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 
حد یث شریف میں ہے کہ :
جب اپنی یا کسی مسلمان کی کوئی چیز دیکھے اور وہ اچھی لگے اور پسند آجائے تو فوراً یہ دعا پڑھے :
*تَبَارَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ فِیْہِ*
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی اللبس، جلد 9 صفحہ 601 دار المعرفۃ بیروت)*
یا اردو میں یہ کہہ د ے کہ :
*"اللہ برکت د ے"*
 اس طرح کہنے سے نظر نہیں لگے گی۔
*(جنتی زیور صفحہ 411،  412 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وسلم 
کتبہ 
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
15/01/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح
*عبده محمد عطاء الله النعيمي خادم الحديث والافتاء بجامعة النور، جمعة اشاعة اهل السنة (باكستان) كراتشي*

رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟





رفع یدین جائز ہے یا نہیں اور شرعی حکم کیا ہے ؟


*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
احناف کے نزدیک نماز میں تکبیرِ تحریمہ کے علاوہ رفع یدین نہ کرنا سنت ہے اور کرنا خلافِ سنت اور مکروہِ تنزیہی ہے۔
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہمیشہ رفع یدین کرنا ثابت نہیں بلکہ ہمیشہ رفع یدین نہ کرنا ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے رفع یدین کرتے تھے لیکن بعد رفع یدین کرنا چھوڑ دیا جو کہ اس بات کی علامت ہے کہ رفع یدین کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔
چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
*"الا اخبرکم بصلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال : فقام فرفع یدیہ اول مرۃ ثم لم یعد"*
خبردار! کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے خبر دوں؟ 
راوی فرماتے ہیں کہ پھر، آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ اپنے ہاتھوں کو اٹھایا پھر دوبارہ ہاتھ نہ اٹھائے۔
*(سنن نسائی جلد 2 صفحہ 182 مکتب المطبوعات الاسلامیہ حلب، سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 199 المکتبۃ العصریہ بیروت)*
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
*"الا اصلی بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، فصلی، فلم یرفع یدیہ الا فی اول مرۃ"*
کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والی نماز نہ پڑھاؤں؟ 
تو آپ رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھی، پس آپ رضی اللہ عنہ نے پہلی مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھوں کو نہ اٹھایا۔
*(سنن ترمذی، ابواب الصلاة، باب ماجاء ان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لم یرفع الا فی اول مرۃ، صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
اس حدیثِ مبارکہ کے تحت امام محدث ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ بن سورۃ ترمذی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"حدیث ابن مسعود حدیث حسن۔ وبہ یقول غیر واحد من اھل العلم من اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و التابعین۔ و ھو قول سفیان الثوری و اھل الکوفۃ"*
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث، حسن حدیث ہے اور اسی کے ساتھ متعدد صحابہ کرام اور تابعین رضی اللہ عنھم نے قول کیا ہے، اور یہ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہلِ کوفہ کا قول ہے۔
*(جامع ترمذی جلد 2 صفحہ 83 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)*

اگر متعین امام مسجد، حافظ ہو مگر اس کی تجوید درست نہ ہو، ع اور الف میں فرق نہ کرتا ہو، ح اور ھ میں فرق نہ کرتا ہو اور ق اور ک میں فرق نہ کرتا ہو تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟




اگر متعین امام مسجد، حافظ ہو مگر اس کی تجوید درست نہ ہو، ع اور الف میں فرق نہ کرتا ہو، ح اور ھ میں فرق نہ کرتا ہو اور ق اور ک میں فرق نہ کرتا ہو تو ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے ؟

سائل : محمد طلحہ شاہ عیسیٰ خیل ضلع میانوالی 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
غیر معذور مردوں کی امامت کروانے کا اہل ہر وہ شخص ہے جو مسلمان ہو، مرد ہو، عاقل ہو، بالغ ہو، صحیح القراءۃ ہو اور شرعی اعذار مثلاً ریح و قطرہ وغیرہ کے امراض سے سلامت ہو، لہٰذا جس شخص کے اندر یہ چھ شرائط پائی جائیں وہ بالغ مردوں کی امامت کروانے کا اہل ہے اور جس کے اندر ان شرائط میں سے کوئی ایک بھی نہ پائی جائے وہ امامت کروانے کا اہل نہیں ہے، تو صورتِ مسؤلہ (یعنی پوچھی گئی صورت) میں اگر مذکورہ امام ا ء ع، ہ ح اور ق ک وغیرہ حروف کی درست ادائیگی کے لئے دن رات کوشش کرتا ہے اور ابھی تک کوشش جاری رکھے ہوئے ہے تو خود اس پر فرض ہے کہ ایسے امام کی پیچھے نماز ادا کرے جو ان حروف کی درست ادائیگی کرنے والا ہو یا ایسی آیتیں و ذکر و اذکار اور تسبیحات پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کرسکتا ہو اور اگر وہ ایسی آیتیں اور ذکر و تسبیحات نہ پڑھ سکتا ہو جن میں حروف کی ادائیگی درست ہو اور وہ درست پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز پڑھنے پر بھی قادر ہو لیکن علیحدہ نماز پڑھے یا دوسروں کی امامت کرے تو نہ اس کی اپنی نماز ہوگی اور نہ اس کے پیچھے کسی اور کی نماز ہوگی، اور اگر درست پڑھنے والے امام کے پیچھے نماز ادا نہ کرسکتا ہو اور نہ ہی وہ ایسی آیتیں اور ذکر و تسبیحات پڑھ سکتا ہو کہ جن میں حروف کی ادائیگی درست ہو تو ایسی صورت میں اس کی اپنی نماز بھی ہو جائے گی

 اور اگر امامت کروائے گا تو اس کے پیچھے ان لوگوں کی نماز ہوجائے گی جو لوگ بھی انہیں حروف کو درست ادا نہ کر سکتے ہوں، جن کو یہ درست ادا نہیں کرسکتا، لیکن ایسی صورت میں بھی دیگر درست پڑھنے والوں کی اس امام کے پیچھے نماز نہ ہوگی اور اگر وہ امام ایسے حروف کہ جن کی درست ادائیگی پر قادر نہیں ہے وہ انہیں سیکھنے کے لئے دن رات کوشش نہیں کرتا تو پھر نہ تو اس کی اپنی نماز ہوگی اور نہ ہی اس کے پیچھے کسی اور کی نماز ہوگی، ایسی صورت میں چونکہ اس امام میں صحیح القراءۃ ہونے والی شرط نہیں پائی جا رہی لہٰذا ایسا شخص امامت کے قابل نہیں ہے اور نہ اسے امام بنانا جائز ہے۔

اگر جاہل لوگوں سے بحث و مباحثہ ہو تو ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟




اگر جاہل لوگوں سے بحث و مباحثہ ہو تو ان کے ساتھ کیسا رویہ اختیار کرنا چاہیے ؟

سائل : عبداللہ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جاہل لوگوں سے بحث ہرگز نہیں کرنی چاہئے بلکہ قرآنی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے یا تو ان سے جھگڑا کرنے سے اعراض کریں یا ان سے ایسی بات کہیں جو درست ہو اور اس میں تکلیف اور گناہ سے محفوظ رہیں۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
*"وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا"*
ترجمہ : اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔
*(پارہ 19 سورۃ الفرقان : 63)*
*"وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْن"* کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے :
یہاں یہ بیان ہوا کہ کامل ایمان والے دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں تو کہتے ہیں :
*’’بس سلام‘‘*
اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں۔
*(تفسیر ابو سعود جلد 4 صفحہ 148)*
*جاہلانہ گفتگو کرنے والے سے سلوک :*
اس آیت سے معلوم ہوا کہ جب کسی معاملے میں کوئی جاہل جھگڑا کرنا شروع کرے تو اس سے اعراض کرنے کی کوشش ہی کرنی چاہئے اور اس کی جاہلانہ گفتگو کے جواب میں اگر کوئی بات کریں تو وہ ایسی ہو، جس میں گناہ کا کوئی پہلو نہ ہو اور وہ اس جاہل کے لئے اَذِیَّت کا باعث بھی نہ ہو، ترغیب اور تربیت کے لئے یہاں ایک واقعہ ملاحظہ ہو. 

تفہیم المسائل سے ایک مسئلہ




تفہیم المسائل 
مفتی اعظم پاکستان مفتی منیب الرحمٰن

سوال: *بعض نعت خوان اس طرح کے اشعار پڑھتے ہیں اور سوشل میڈیا پر اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، اس کا شرعی حکم بیان کیجیے:*
*نبی ہے آسرا، کل جہان دا*
*نبی دا آسراہے، ماں حسین دی*
جواب:
اس شعر کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کل جہان کا سہارا ہیں،وسیلہ ہیں،اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت سے مشکل میں کام آنے والے ہیں، لیکن العیاذ باللہ تعالیٰ! آپ ﷺ اپنی صاحبزادی اور امام عالی مقام حسین رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے آسرے یا سہارے یا وسیلے کے محتاج ہیں، یہ قرآنِ کریم کی معنوی تکذیب ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: 
(۱)’’وَمَا أَرْسَلْنَاکَ إِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْن‘‘۔ترجمہ:’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے صرف رحمت ہی بناکر بھیجا ہے،(الانبیاء:107)‘‘۔
(۲)’’بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ‘‘۔ترجمہ:’’اور ( رسولِ مکرم!)مومنوں کے ساتھ (خاص طور پر)نہایت مہربان اوررحم فرمانے والے ہیں، (التوبہ:128)‘‘۔
  عالَم ’’مَاسِوَی اللّٰہ ‘‘کو کہتے ہیں،پس جب آپ ﷺ تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں، تو سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے لیے بھی رحمت ہیں، آسرا ہیں، سہارا ہیں، وسیلہ ہیں، کیونکہ عالَم (یعنی ماسوَی اللہ) میں وہ بھی شامل ہیں۔ یہ شعر سیدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کی شان بیان کرنے کی آڑ میں شانِ رسالت مآب ﷺمیں بے ادبی کا آئینہ دار ہے۔
 اب ان شکم پرور پیشہ ورنعت خوانوں سےناموسِ الوہیت جَلَّ وَعَلَا، ناموسِ رسالت مآب ﷺ اور ناموسِ مقدَّسات ِ دین محفوظ نہیں رہیں، علماء پر لازم ہے کہ ان کا مواخذہ کریں اور سادہ لوح اہلسنت وجماعت کو ان کی زبان درازی اور ریشہ دوانیوں سے محفوظ کریں۔

درودِتاج اور اس کے فضائل



درودِتاج اور اس کے فضائل 


درودِ تاج یہ ہے :
        *🌹درودِتاج🌹* 
*اَللّهُمَّ صَلِّ عَلٰى سَيِّدِنَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ صَاحِبِ التَّاجِ وَالْمِعرَاجِ وَالْبُرَاقِ وَالعَلَمِ ،دَافِعِ الْبَلَآءِ وَالْوَبَآءِ وَالْقَحْطِ وَالمَرَضِ وَالْاَلَمِ ، اِسْمُهٗ مَكْتُوْبٌ مَّرْفُوْعٌ مَّشْفُوْعٌ مَّنْقُوْشٌ فِی اللَّوْحِ وَالْقَلَمِ ، سَيِّدِ الْعَرَبِ وَالْعَجَمِ ،جِسْمُهٗ مُقَدَّسٌ مُّعَطَّرٌمُّطَهَّرٌ مُّنَوَّرٌفِی الْبَيْتِ ِوَالْحَرَمِ ،شَمْسِ الضُّحٰى بَدْرِ الدُّجٰى صَدْرِالْعُلٰى نُوْرِالْهُدٰى ​كَهْفِ الْوَرٰى مِصْبَاحِ الظُّلَمِ ، جَمِيْلِ الشِّيَمِ ، شَفِيْعِ الْاُمَمِ ، صَاحِبِ الْجُوْدِ وَالْكَرَمِ ، وَاللّٰهُ عَاصِمُهٗ وَجِبْرِيْلُ خَادِمُهٗ وَالْبُرَاقُ مَرْكَبُہٗ وَالْمِعْرَاجُ سَفَرُهٗ وَسِدْرَةُ الْمُنْتَهٰى مَقَامُهٗ وَقَابَ قَوْسَيْنِ مَطْلُوْبُهٗ وَالْمَطْلُوْبُ مَقْصُوْدُهٗ وَالْمَقْصُوْدُ مَوْجُوْدُهٗ سَيِّدِ الْمُرْسَلِيْنَ خَاتَمِ النَّبِيِّنَ شَفِيْعِ الْمُذْنِبِيْنَ اَنِيْسِ الْغَرِيْبِيْنَ رَحْمًةٍ لِّلْعٰلَمِيْنَ رَاحَةِالْعَاشِقِيْنَ مُرَادِ الْمُشْتَاقِيْنَ شَمْسِ الْعَارِفِيْنَ سِرَاجِ السَّالِكِيْنَ مِصْبَاحِ الْمُقرَّبِيْنَ مُحِبِّ الْفُقَرَآءِ وَالْغُرَبَآءِ وَالْمَسَاكِيْنِ سَيِّدِ الثَّقَلَيْنِ نَبِیِّ الْحَرَمَيْنِ اِمَامِ الْقِبْلَتَيْنِ​ وَسِيْلَتِنَا فِي الدَّارَيْنِ صَاحِبِ قَابَ قَوْسَيْنِ مَحْبُوْبِ رَبِّ الْمَشْرِقَيْنِ وَالْمَغرِبَيْن​ِ جَدِّ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ مَوْلَانَا وَمَوْلَى الثَّقَلَيْنِ اَبِي الْقَاسِمِ  مُحَمَّدِ  ابْنِ  عَبْدِ  اللّٰهِ نُوْرٍ مِّنْ نُوْرِاللّٰهِ ،​ يَااَيُّهَا الْمُشْتَاقُوْنَ بِنُوْرِ جَمَالِهٖ صَلُّوْا عَلَیْہِ وَآلِہٖ  وَاَصْحَابِہٖ  وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا*
درودِتاج کے فضائل درج ذیل ہیں :
 *🌹درودِ تاج کی فضائل🌹*
1- جو شخص چاند کی پہلی تاریخ سے چودھویں تک شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اورجمعہ کی درمیانی رات) نمازِعشاء کے بعد باوضو پاک کپڑے پہن کر 170 بار درودِتاج کو پڑھ کر سوئے، جب 11 راتیں مسلسل اسی طرح کر لے گا تو ان شاءاللہ عزوجل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوگی ۔
2- سحر (جادو) و آسیب، جن و شیطان کو دور کرنے کے لئے اور چیچک کے لئے 11 بار پڑھ کر دم کریں تو ان شاءاللہ عزوجل فائدہ ہوگا۔
3- دل کی صفائی کے لئے ہر روز صبح کی نماز کے بعد 60 بار اور عصر کی نماز کے بعد 3 بار اور عشاء کی نماز ک  بعد 3 بار پڑھتے رہیں۔

ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا کیسا ہے؟




ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا کیسا ہے؟

*جواب :*
ٹوٹے ہوئے برتن میں کھانا پینا جائز ہے البتہ برتن کی جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے اس جگہ منہ رکھ کر کھانا پینا منع ہے اور اس کو فقہاءِ کرام نے مکروہ قرار دیا ہے اس ممانعت اور کراہت کی درج ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں :
1- اس برتن کی جو جگہ ٹوٹی ہوئی ہے وہاں پر اچھی طرح ہونٹوں کی گرفت نہیں ہوگی اور وہ جو پانی وغیرہ ہے وہ بدن پر یا منہ پر گرے گا۔
2- وہاں پر صحیح طرح سے پاکیزگی حاصل نہیں ہو سکے گی اور پھر اس جگہ سے پینا کھانا مضرِصحت ہو سکتا ہے۔
3- اس لیے کہ ٹوٹی ہوئی جگہ سے کھانے کی وجہ سے ہونٹ اور زبان وغیرہ زخمی ہو سکتے ہیں۔
لیکن اگر اس جگہ کے علاوہ منہ رکھ کر استعمال کرتے ہیں تو بالکل جائز ہے اور اس میں کسی قسم کی بھی کراہت (ناپسندیدگی) نہیں ہے۔
البتہ طبی لحاظ سے اس کا استعمال مضرِ صحت ہو سکتا ہے کیونکہ جب برتن کے اندر دراڑ پڑ جائے یا تھوڑا سا ٹوٹ جائے تو اس کو کامل طور پر صاف کرنا مشکل ہوتا ہے اور کچھ نہ کچھ کمی رہ جاتی ہے تو اس وجہ سے جب اس کو استعمال کیا جائے گا، کھانا وغیرہ کھایا جائے گا یا کوئی پانی وغیرہ پیا جائے گا تو اس کے اندر وہ گندگی وغیرہ کے ذرات شامل ہو کر پیٹ میں جا کر بیماری کا باعث بن سکتے ہیں، لہٰذا بہتر یہی ہے کہ ٹوٹے ہوئے یا دراڑ والے برتنوں کو کھانے پینے کے علاوہ کسی اور استعمال میں لایا جائے.

حمل اگر ٹھہر جائے تو اس کو کسی مجبوری کی وجہ سے ضائع کروانا جائز ہے یا نہیں




*حمل اگر ٹھہر جائے تو اس کو کسی مجبوری کی وجہ سے ضائع کروانا جائز ہے یا نہیں ؟*


 جواب: شرعاً حکم یہ ہے کہ شدید عذرثابت ہوجانے پرچارماہ سے قبل اسقاطِ حمل جائزہے چنانچہ فقہاء کرام نے عذر کی متعدد صورتیں بیان فرمائی ہیں مثلاً عورت بہت کمزور ہے کہ بچہ جننا اس کے لئے جان لیوا ہے۔ یا پہلے بچے پر دودھ کے بند ہوجانے کی وجہ سے ہلاکت کا خوف ہے وغیرہا تو حمل ٹھہر جانے کے بعد اس میںجان پڑنے سے پہلے پہلے ضرورتاً اسے ساقط کرنا جائز ہے جس کی مدت ایک سو بیس( 120)دن بیان کی گئی ہے جبکہ جان پڑ جانے کے بعد ساقط کرنا ناجائز و گناہ ہے۔ محض معمولی کمزوری ،بچہ جننے میں دشواری ، پہلے بچے کا دودھ پینایا یہ کہنا کہ مالی حالت اچھی نہیں ہر گز ہر گز اسقاطِ حمل کے لیے عذر نہیں بن سکتا اور نہ ان وجوہ سے اسقاطِ حمل جائز کہ ہرچیز کارزق اللّٰہ تعالیٰ کے ذمہ ہے جوخَیْرُالرَّازِقِیْن ہے۔اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے :{ وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا) ترجمۂ کنزالایمان:اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو۔

(پ۱۲،ھود:۶)علامہ ابن عابدین شامی عَلَیْہِ الرَّحْمَہاس حوالے سے تحریر فرماتے ہیں:’’قَالُوْا:یُبَاحُ لَھَااَنْ تُعَالِجَ فِیْ اِسْتِنْزَالِ الدَّمِ مَادَامَ الْحَمْلُ مُضْغَۃً اَوْعَلَقَۃً وَلَمْ یُخْلَقْ لَہٗ عُضْوٌوَقَدَّرُوْاتِلْکَ الْمُدَّۃَ بِمِائَۃٍ وَعِشْرِیْنَ یَوْمًا وَجَازَلِاَنَّہٗ لَیْسَ بِاٰدَمِیٍّ فقہائے کرام نے ارشاد فرمایا ہے کہ عورت کے لیے جائز ہے کہ علاج کے طور پر اسقاطِ حمل کروائے جب تک کہ حمل مضعہ یا علقہ رہے اور اس کے اعضاء نہ بنے ہوں اور فقہائے کرام نے اس کی مقدار 120 دن مقرر کی ہے۔ اور یہ اس لیے جائز ہے کہ ابھی وہ حمل (خلقتاً) آدمی نہیں۔‘‘لیکن یاد رہے کہ یہ رخصت صرف عذر کی حالت میں ہے جیسا کہ درمختار میں ہے:’’وَجَازَ لِعُذْرٍیہ عذر کی صورت میں ہی جائز ہے۔‘‘(درمختارمع ردالمحتار، کتاب الحظروالاباحۃ، باب الاستبراء،۹/ ۶۱۵، مطبوعہ ملتان پاکستان)

درود پاک کی44 برکتیں




درود پاک کی44 برکتیں 


  درودِ پاک پڑھنا عظیم ترین سعادتوں  اور بے شمار برکتوں  کے حامل اور افضل ترین اعمال میں  سے ایک عمل ہے، بزرگانِ دین نے درود شریف کی برکتوں  کو بکثرت بیان کیا ہے اور مختلف کتابوں  میں  ان برکتوں  کو جمع کر کے بیان کیا گیا ہے، یہاں  ان میں  سے 44 برکتیں  پڑھ کر اپنے دلوں  کو منور کریں  اور درودِ پاک کی عادت بنا کر ان برکتوں  کو حاصل کریں :
 (1)جو خوش نصیب رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر دُرود بھیجتا ہے، اس پر اللہ تعالیٰ،فرشتے اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خود دُرود بھیجتے ہیں۔ 
(2)درود شریف خطاؤں  کا کفارہ بن جاتا ہے۔ 
(3)درود شریف سے اعمال پاکیزہ ہو جاتے ہیں۔
 (4)درود شریف سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ 
(5)گناہوں کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ 
(6)درود بھیجنے والے کے لئے درود خود اِستغفار کرتا ہے۔
(7)اس کے نامۂ اعمال میں اجر کا ایک قیراط لکھا جاتا ہے جواُحد پہاڑ کی مثل ہوتا ہے۔
(8)درود پڑھنے والے کو اجر کا پورا پورا پیمانہ ملے گا۔
(9)درود شریف اس شخص کے لئے دنیا و آخرت کے تمام اُمور کیلئے کافی ہو جائے گا جو اپنے وظائف کا تمام وقت درود پاک پڑھنے میں  بسر کرتا ہو۔ (10)مَصائب سے نجات مل جاتی ہے۔ 
(11)اس کے درود پاک کی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ گواہی دیں  گے۔ (12)اس کے لئے شفاعت واجب ہو جاتی ہے۔
(13)درود شریف سے اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی رحمت حاصل ہوتی ہے۔ 
(14) اللہ تعالیٰ کی ناراضی سے امن ملتا ہے۔ 
(15)عرش کے سایہ کے نیچے جگہ ملے گی۔ 
(16)میزان میں  نیکیوں  کا پلڑا بھاری ہو گا۔
(17)حوضِ کوثر پر حاضری کا موقع مُیَسّر آئے گا۔
(18)قیامت کی پیاس سے محفوظ ہو جائے گا۔ 
(19)جہنم کی آگ سے چھٹکارا پائے گا۔ 
(20) پل صراط پر چلنا آسان ہو گا۔ 
(21)مرنے سے پہلے جنت کی منزل دیکھ لے گا۔
(22)جنت میں  کثیر بیویاں  ملیں  گی۔
(23) درود شریف پڑھنے والے کو بیس غزوات سے بھی زیادہ ثواب ملے گا۔
(24) درود شریف تنگدست کے حق میں  صدقہ کے قائم مقام ہوگا۔ 
(25)یہ سراپا پاکیزگی و طہارت ہے۔ 
(26) درود کے وِرد سے مال میں  برکت ہوتی ہے۔ 
(27)اس کی وجہ سے سو بلکہ اس سے بھی زیادہ حاجات پوری ہوتی ہیں ۔ 
(28)یہ ایک عبادت ہے۔ 
(29) درود شریف اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال میں  سے ہے۔
(30)درود شریف مجالس کی زینت ہے۔
(31)درود شریف سے غربت و فقر دور ہوتا ہے۔ 
(32)زندگی کی تنگی دور ہو جاتی ہے۔ 

*🌹دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ اور مدارس المدینہ کا مختصر تعارف🌹*




*🌹دعوتِ اسلامی کے جامعات المدینہ اور مدارس المدینہ کا مختصر تعارف🌹*


دعوت اسلامی نے پہلا جامعۃالمدینہ آج سے 25 سال پہلے بنایا۔
اور آج دعوت اسلامی کے 851 جامعۃ المدینہ ہیں۔
(یعنی ایوریج ہر گیارہویں دن ایک جامعۃ المدینہ)
اب تک ان جامعۃالمدینہ سے کم و بیش 13000 عالم دین بن چکے ہیں.
(یعنی ایوریج ہر دوسرے دن 3 عالم دین دعوت اسلامی امت کو دے رہی ہے۔) 
دعوت اسلامی کا پہلا مدرسۃالمدینہ 1990ء میں بنا تھا، آج 30 سال ہوگئے، ان 30 سالوں کے 10ہزار 9 سو 50 (10950) دن بنتے ہیں۔
ان 30 سالوں میں دعوت اسلامی کے 4 ہزار 2 سو مدارس بن چکے ہیں۔ 
(یعنی ایوریج ہر تیسرے دن ایک مدرسۃالمدینہ) 
اور ان مدارس سے اب تک 87 ہزار حافظ قرآن بن چکے ہیں اور 2 لاکھ 72 ہزار ناظرہ قرآن مکمل کر چکے ہیں۔
(یعنی ایوریج روزانہ دعوتِ اسلامی امت کو 8 حافظِ قرآن اور 25 ناظرہ خواں دے رہی ہے۔) 
اور ان مدارس المدینہ اور جامعۃ المدینہ کا ایک سال کا خرچ ہے ساڑھے تین (3) ارب روپے۔۔۔
15 نومبر کو دعوت اسلامی ان مدارس المدینہ و جامعۃالمدینہ کے قیام و انتظام کے جملہ اخراجات کے لیے ٹیلی تھون (مدنی عطیات مہم) کر رہی ہے جس کا ایک یونٹ 10ہزار روپے کا ہے۔
آپ بھی اپنا حصہ ملائیں۔
اور دوسروں کو بھی ترغیب دلائیں۔
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ :
"صدقہ ستؔر (70) بلاءوں کو ٹالتا ہے۔"

*ابواسیدعبیدرضامدنی*
*مدرس جامعۃالمدینہ میانوالی*
09/11/2020
03068209672

اس تحریر کے آخر سے تھو ری تبدیلی کی گئی ہے
العارض: عبداللہ ہاشم عطاری مدنی

اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا کیسا ہے ؟




*اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا کیسا ہے ؟*

سائل : محمد عرفان مدنی شہر پپلاں
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا ناجائز و حرام ہے کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حق میں یقینی طور پر محال (ناممکن) ہے اور اس طرح کا لفظ جب تک قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو تو اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کی شان میں بولنا یقینی طور پر ممنوع ہوتا ہے کیونکہ محال معنی کا صرف وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہوتا ہے.
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :
اللہ تعالی کو عاشق اور حضور پرنور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"ناجائز ہے کہ معنی عشق، اللہ عزوجل کے حق میں محالِ قطعی ہے۔ اور ایسا لفظ بے ورودِ ثبوتِ شرعی، حضرت عزت (یعنی اللہ پاک) کی شان میں بولنا ممنوع قطعی۔"
ردالمحتار میں ہے :
*"مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع"*
صرف معنی محال کا وہم ممانعت کے لئے کافی ہے۔
*(ردالمحتار، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، جلد 5، صفحہ 253، داراحیاء التراث العربی بیروت)*

نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟




نماز کے دوران ہاتھوں کو چادر میں چھپانا کیسا ہے ؟


سائلہ : مدنیہ عطاریہ پنجاب پاکستان 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
نماز میں اس طرح ہاتھوں کو چادر کے نیچے چھپانا کہ ان کو بآسانی باہر نکالا جا سکتا ہو تو یہ بغیر کسی کراہت کے جائز ہے اور اگر اس طرح کپڑا لپیٹ کر ہاتھوں کو چادر کے اندر چھپا لیا کہ بآسانی ہاتھ باہر نہ نکل سکتے ہوں تو یہ مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہے بلکہ نماز کے علاوہ بھی اس سے بچنا چاہیے کیونکہ اس سے دشمن سے بچاؤ مشکل ہوتا ہے اور نماز میں ہاتھ چھپانے کی جس صورت کو بعض فقہاءکرام رحمۃ اللہ علیھم نے جیسے عمدۃ المحققین علامہ ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ اور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے مکروہِ تحریمی قرار دیا ہے، وہ ایک خاص صورت پر محمول ہے اور وہ صورت اشتمالِ صَمَّاء کی ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک کپڑے کو جسم پر تہبند باندھے بغیر اس طرح لپیٹ لینا کہ جس سے ہاتھ بآسانی باہر نہ نکل سکتے ہوں 
یہ وہ صورت ہے جس سے حدیثِ مبارکہ میں منع کیا گیا ہے اور اس کو یہودیوں کا طریقہ قرار دیا گیا ہے مگر اس خاص صورت کے مکروہِ تحریمی ہونے کا سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے رد فرمایا ہے، لہٰذا یہ خاص صورت مکروہِ تنزیہی اور شرعاً ناپسندیدہ ہوگی.
چنانچہ نورالایضاح مع مراقی الفلاح میں ہے :
*(اندراج فیہ) ای الثوب (بحیث لا) یدع منفذا (یخرج یدیہ) ای منہ و ھی الاشتمالۃ الصماء، قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم :*

اہم سوالات




اہم سوالات

ایک شخص جو کہ امام ہے،
1- اس کی بیوی چند نوجوان لڑکیوں کو لے کر محفلِ میلاد پر اونچی اونچی آواز میں تلاوت، نعت اور بیان کرتی ہے، آواز اس قدر بلند ہوتی ہے کہ پورے محلے میں سنائی دیتی ہے، اور پردے کا بھی خاص انتظام نہیں ہوتا، منع کرنے پر کہتے ہیں کہ یہ ہمارا کاروبار ہے۔
2- رمضان میں صلاةالتسبیح  اور جمعہ کی نماز کے نام پر عورتوں کو مسجد میں جمع کرکے جماعت کرواتے ہیں۔
3- وہ امام نہ حافظ ہے، نہ عالم لیکن اپنے آپ کو حافظ کہلواتا  ہے۔
4- مسجد کے احاطے میں بیٹھ کر سگریٹ پیتا ہے، منع کرنے پر قرآن و حدیث سے منع کا ثبوت مانگتا ہے۔
5- اگر کوئی مسجد میں دین کا کام شروع کرے تو بھرپور مخالفت کرتا ہے، کام حد سے بڑھ جائے تو بدمعاش لڑکوں کے ذریعے لڑائی اور فتنہ و فساد کرواتا ہے۔
6- جب امام رکوع سے کھڑا ہوتا ہے تو دونوں ہاتھوں سے قیمض درست کرتا ہے۔
7- سجدے میں جائے تو شلوار اوپر کو دونوں ہاتھوں سے کھچیتا ہے۔
8- اس کے نائب امام کا ذہنی توازن درست نہیں ہے، وہ دو کے بجائے چار اور چار کی بجائے تین رکعات نماز پڑھا دیتا ہے لیکن اس کے باوجود امام نے اسے نائب امام کے طور پر مقرر کیا ہوا ہے۔
9- وہ امام مسجد کے صحن میں سبزی لگا کر پانی مسجد کے پمپ سے لگاتا ہے اور استعمال خود کرتا ہے۔
ایسے امام کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟ 
سائل : ڈاکٹر امجد اور محمد رفاقت

*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- عورتوں کا میلاد کی محافل و مجالس میں نعتیں، بیانات، قرآنِ پاک پڑھنا اور دیگر ذکر و اذکار کرنا جائز اور اجر و ثواب کا باعث ہیں لیکن اس میں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ عورت کی خوش الحانی (یعنی ترنم والی آواز) نامحرم مردوں تک نہ جائے کیونکہ اگر عورت کی ترنم والی آواز اتنی بلند ہو کہ غیر محرموں تک اس کی آواز پہنچے گی تو اس کا اتنی بلند آواز سے پڑھنا ناجائز و گناہ ہوگا اس لیے کہ عورت کی خوش الحانی کو غیر محرم مرد (اجنبی مرد) کا سننا، محلِ فتنہ ہے جس کی وجہ سے اسے ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں :
”ناجائز ہے کہ عورت کی آواز بھی عورت ہے اور عورت کی خوش الحانی کہ اجنبی سنے محلِ فتنہ ہے۔“
*(فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 240 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
”عورت کا خوش الحانی سے بآواز ایسا پڑھنا کہ نامحرموں کو اس کے نغمہ کی آواز جائے، حرام ہے۔
نوازل امام فقیہ ابو اللیث میں ہے :
*’’نغمۃ المرأۃ عورۃ‘‘*
یعنی عورت کا خوش آواز کرکے کچھ پڑھنا عورت یعنی محلِ ستر ہے۔
کافی امام ابو البرکات نسفی میں ہے :
*’’لاتلبی جھراً لان صوتھا عورۃ‘‘*
یعنی عورت بلند آواز سے تلبیہ نہ پڑھے، اس لیے کہ اس کی آواز قابلِ ستر ہے۔
*(فتاوی رضویہ جلد 22 صفحہ 242 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*

امیرِاہلسنّت اور فکرِ رضا



*امیرِاہلسنّت اور فکرِ رضا*

 
از قلم! ابوالایمن حامد رضا مصطفائی عطاری

زیر نظر موضوع "فکر رضا اور امیرِ اہلسنت" پر کچھ لکھنا اگرچہ میری دیرینہ خواہش تھی لیکن ایک طرف موضوع کی وسعت و گہرائی 
تو دوسری جانب اپنی کم علمی وکم ہمتی!  ایسے میں موضوع کے ساتھ انصاف کر پانا!
ایں خیال است ومحال است.  اب چونکہ بعض احباب کی طرف سے بھی اس موضوع پر لکھنے کو کہا گیا بالخصوص میرے ہم درجہ پیارے دوست.......... 
مولانا سجاد مدنی (فیصل آباد) کا حکم تھا کہ
چھبیس (26) رمضان المبارک 
(جو کہ امیرِ اہلسنت کا یومِ ولادت ہے)سے پہلے لکھا جائے ولھذا...... چند باتیں آپ کے سامنے پیش کرنے کی
سعادت حاصل کر رہا ہوں............. 
اعلی حضرت امام احمد رضا خاں کی فکر اور تعلیمات کو عام کرنے کی جو تڑپ اور جذبہ
  شیخِ شریعت وطریقت،رہنمائےحقیقت ومعرفت،
  آفتابِ قادریت، ماہتابِ رضویت، امیرِ اہلسنت مولانامحمد الیاس عطّار قادری رضوی ضیائی کی ذات میں موجود ہے
  وہ اپنی مثال آپ ہے. 
فکر رضا اور تعلیماتِ رضا کی خوشبو سے دنیا بھر کو معطّر کرنا ان کے ہاں اس لیے بھی ضروری ہے کہ فکرِرضا  فکرِ مستقیم ہے اور تعلیماتِ رضا در حقیقت تعلیماتِ قرآن وسنت ہیں. امام احمد رضا کی فکر اور سوچ کے بے شمار گوشے اور پہلو جن کو عام کرنے کے لیے امیرِ اہلسنت نے اپنے خون کا ایک ایک قطرہ وقف کیا ہوا ہے. ان کی تفصیلات بیان کرنے پر میں قطعاً قدرت نہیں رکھتا. تاہم اسلام وسنیت کی ترویج واشاعت اور فروغ کے حوالے سے سیّدی اعلی حضرت امام احمد رضا خاں( علیہ الرحمہ) کی عطا کردہ مختلف تجاویز وتدابیر اور ان پر عملی اقدامات کے لیے 
عاشقِ اعلی حضرت، امیرِ اہلسنت کی زبردست اور کامیاب کوشش کی چند مثالیں  سینۂ قرطاس پر منتقل کرنے کی سعادت پا رہا ہوں .