یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*تعارف مفتی محمد ہاشم خان عطاری زید مجدہ*




*تعارف مفتی محمد ہاشم خان عطاری  زید مجدہ*

*اسم گرامی*

    استاذ الفقہ والحدیث  ابوالحسن محمدہاشم خان بن گل محمد بن شیر محمدبن نواب خان۔آپ  کا تعلق ملک اعوان برادری سے ہے۔

*ولادت  و مقام ولادت*

    آپ کی ولادت راولپنڈی ڈویژن کے ضلع اٹک کی ایک تحصیل پنڈی گھیپ میں7جون1979ء کو ہوئی ۔

*ابتدائی تعلیم و تربیت*

سیرت صدر الافاضل سید نعیم الدین مرادآبادی




صدر الافاضل سید نعیم الدین  مرادآبادی 

🌹امام الھند سلطان المناظرین سید المفسرین حضور صدرالافاضل فخر الاماثل علامہ مفتی سید نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ العزیز🌹

=ولادت مبارکہ

آپ کی ولادت 21؍ صفرالمظفر 1300ھ بمطابق یکم جنوری 1883ء بروز پیر کو شہر مرادآباد میں ہوئی۔

= اسم مبارک =

آپ کا تاریخی نام مبارک  ’’غلام مصطفی‘‘ تھا۔
مگر عرفی نام "سید محمد نعیم الدین"  شہرت پذیر وہمہ گیر ہے۔

= خاندان =

آپ کاخانوادہ علم و فضل میں یگانہ تسلیم کیا جاتا تھا ۔ والد ماجدمولانا سید محمد معین الدین المتخلص بہ نزہتؔ مرادآبادی (م 1339ھ) اور جد امجد مولانا سید محمد امین الدین راسخ ؔبن مولانا سید محمد کریم الدین آرزوؔ اپنے عہد کے مشاہیر علما و شعرا میں شمار کیے جاتے تھے۔

اور موجودہ دور میں بھی یہ نعیمی خانوادہ اپنی امتیازی شان کے ساتھ دین وسنیت خدمت میں ہمہ تن مصروف عمل ہے۔

جمعہ کے فضائل احکام و مسائل




تحریر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

جمعہ کے فضائل احکام و مسائل

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوةِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ وَ ذَرُوا الْبَیْعَؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(سورہ الجمعہ آیت 9)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔
 اس آیت سے نمازِجمعہ کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں  ۔یہاں  اس آیت سے متعلق تین باتیں  ملاحظہ ہوں :
(1)… اس آیت میں  اذان سے مراد پہلی اذان ہے نہ کہ دوسری اذان جو خطبہ سے مُتَّصِل ہوتی ہے۔ اگرچہ پہلی اذان حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے زمانے میں  اضافہ کی گئی مگر نماز کی تیاری کے واجب ہونے اور خرید و فروخت ترک کر دینے کا تعلق اسی سے ہے۔
(2)…دوڑنے سے بھاگنا مراد نہیں  ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ نماز کیلئے تیاری شروع کردو اورذِکْرُ اللّٰہ سے جمہور علماء کے نزدیک خطبہ مراد ہے۔
(3)… اس آیت سے نمازِ جمعہ کی فرضیّت،خرید و فروخت وغیرہ دُنْیَوی مَشاغل کی حرمت اور سعی یعنی نماز کے اہتمام کا وجوب ثابت ہوا اور خطبہ بھی ثابت ہوا ۔( خزائن العرفان، الجمعۃ، تحت الآیۃ: ۹، ص۱۰۲۵، ملخصاً)

ملک الموت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام




ملک الموت حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کیا کام سر انجام دیتے ہیں

س فرشتہ کا نام حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام  ہے جو      اللہ تعالیٰ کی طرف سے روحیں  قبض کرنے پر مقرر ہیں ۔ اپنے کام میں  کچھ غفلت نہیں  کرتے اور جس کی موت کا وقت آجاتا ہے ، بلاتاخیر اس کی روح قبض کرلیتے ہیں  ۔مروی ہے کہ ملک الموت عَلَیْہِ السَّلَام کے لئے دنیا ہاتھ کی ہتھیلی کی طرح کردی گئی ہے تو وہ مَشارق و مَغارب کی مخلوق کی روحیں  کسی مشقت کے بغیر اُٹھالیتے ہیں  اور رحمت و عذاب کے بہت سے فرشتے اُن کے ماتحت ہیں۔(      خازن، السجدۃ، تحت الآیۃ:      ۱۱     ،      ۳      /      ۴۷۶     )     
مروی ہے کہ حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام کسی مومن کی روح اس کو سلام کئے بغیر قبض نہیں  فرماتے ۔ حضرت       عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ جب حضرت عزرائیل عَلَیْہِ السَّلَام مومن کی روح قبض کرنے آتے ہیں  تو کہتے ہیں  : تیرا ربّ تجھے سلام فرماتا ہے اور ایک روایت میں  یہ بھی ہے کہ مومنین جب قبروں  سے نکلیں  گے تو فرشتے سلامتی کی بشارت کے طور پر انہیں  سلام کریں  گے۔      (      جمل، الاحزاب، تحت الآیۃ:       ۴۴      ،       ۶       /       ۱۸۰      ، خازن، الاحزاب، تحت الآیۃ:       ۴۴      ،       ۳       /       ۵۰۴      ، ملتقطاً      )    

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور پردہ



تحریر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی 03313654057

اَزواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ اور پردہ
   
     وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِیَّةِ الْاُوْلٰى وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِیْنَ الزَّكٰوةَ وَ اَطِعْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(سورہ الاحزاب آیت 33)
ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور بے پردہ نہ رہو جیسے پہلی جاہلیت کی بے پردگی اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو۔اے نبی کے گھر والو! اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے ہر ناپاکی دور فرما دے اور تمہیں پاک کرکے خوب صاف ستھرا کردے۔
   یعنی اے میرے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     کی ازاواج! تم اپنے گھروں  میں  ٹھہری رہو اور اپنی رہائش گاہوں  میں  سکونت پذیر رہو (اور شرعی ضرورت کے بغیر گھروں  سے باہر نہ نکلو۔) یاد رہے کہ اس آیت میں  خطاب اگرچہ ازواجِ مُطَہَّرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُنَّ     کو ہے لیکن اس حکم میں  دیگر عورتیں  بھی داخل ہیں ۔    (     روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ:     ۳۳    ،     ۷     /     ۱۷۰    )  

"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"




"اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو"

تحریر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی 03313654057

سورہ الزمر آیت 53  میں اللہ تعالیٰ نے بندوں پر اپنی کامل رحمت،فضل اور احسان کا بیان فرمایا ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا کہ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(الذمر آیت 53)
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ کی رحمت سے نااُمید نہ ہو بیشک اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے۔
یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ، آپ فرما دیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اے میرے وہ بندو! جنہوں نے کفر اور گناہو ں میں مبتلا ہو کر اپنی جانوں پر زیادتی کی، تم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا اور یہ خیال  نہ کرناکہ ایمان قبو ل کر لینے کے بعد سابقہ کفر و شرک پر تمہارا مُؤاخذہ ہو گا، بیشک    اللہ    تعالیٰ اُس کے سب گناہ بخش دیتا ہے جو اپنے کفر سے باز آئے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر لے ،بیشک وہی گناہوں پر پردہ ڈال کربخشنے والا اور مصیبتوں  کو دور کر کے مہربانی فرمانے والا ہے۔    (   تفسیرکبیر، الزّمر،تحت الآیۃ:   ۵۳   ،    ۹    /    ۴۶۳   -   ۴۶۴   ، جلالین مع جمل، الزّمر، تحت الآیۃ:    ۵۳   ،    ۶    /    ۴۳۹   -   ۴۴۰   ، مدارک، الزّمر، تحت الآیۃ:    ۵۳   ، ص   ۱۰۴۳   ، ملتقطاً   ) 

عمرہ کا آسان طریقہ




تحریر و مرتب عبداللہ ھاشم عطاری مدنی 03313654057

عمرہ کا آسان طریقہ

اَلحَمدُلِلّٰہِ رَبِّ العٰلَمِینَ
الصلاۃ والسلام علیک یا رسول اللہ   ﷺ
عمرہ کی فضیلت:

(۱) رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:رمضان میں عمرہ میرے  ساتھ حج کے برابر ہے۔(بخاری ج ا ص ۶۱۴ حدیث ۱۸۶۳)
(۲)رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عمرہ سے عمرہ تک اُن گناہوں کا کفارہ ہے جو درمیان میں ہوئے اور حج ِ مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(بخاری ج اج۵۸۶حدیثا۷۷۳)
احرام کسے کہتے ہیں؟:
حرام کے لفظی معنیٰ ہیں حرام کرنا کیونکہ  احرام باندھنے والے  پر بعض حلال باتیں بھی حرام ہو جاتی ہیں ۔ 
حج اور عمرہ کے احرام میں  فرق:

حج ہو یا عمرہ احرام باندھنے کا طریقہ دونوں کا ایک ہی ہے ۔ بس  نیت اور اس کے الفاظ میں تھورا سا فرق ہے۔
احرام باندھنےسے پہلے کے کام:
 (۱)ناخن تراشنا    (۲)زیر موئے ناف بالوں کو صا ف کرنا   (۳)مسواک ، وضو ، غسل کرنا      (۴)جسم اور احرام کی چادروں  پر خوشبو  لگا نا سنت ہے۔( وہ خوشبو ایسی ہو جس  سے تَہ نہ جمتی  ہو

احرام باندھنے کا طریقہ:

        مرد سِلے ہوئے کپڑے اُتار کر ایک نئی یا دُھلی ہوئی سفید چادر اوڑ ھیں اور ایسی ہی چادر کا تہبند باندھیں۔ پاسپورٹ یا رقم وغیرہ رکھنے کے لئے  جیب والا نائیلون یا  چمڑے کا بیلٹ باندھ  سکتے ہیں۔

عورت کا احرام:

            عورت  حسب معمول سلے ہوئے کپڑے پہنیں ،دستانے اور موزے بھی  پہن سکتی ہے اور سَر بھی ڈھانپیں مگر چہرے پر چادر نہیں اوڑھ سکتیں کیوں کہ  عورتوں کو کسی ایسی چیز سے منہ چھپانا جو چہرے سے چِپٹی ہو حرام ہے۔ ، غیر مردوں سے چہرہ چھپانے کے لئے ہاتھ  کا پنکھا یا کتاب وغیرہ سےآڑ کر لیں۔

شرک کیاہےاور مشرک کون ہے؟



 شرک کیاہےاور مشرک کون ہے؟


شرک کی تعریف و  اہلِ عرب میں شرک و بت پرستی کی ابتداء کب ہوئی اور شرک کی اقسام:


شرک کی تعریف یہ ہے کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کسی غیر کو واجبُ الوجود یا لائقِ عبادت سمجھا جائے ۔ حضرت علامہ سعدُ الدین تفتازانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ شرک کی حقیقت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں :’’اَ لْاِشْتِرَا کُ ھُوَاِثْبَاتُ الشَّرِیْکِ فِی الْاُلُوْہِیَّۃِ بِمَعْنٰی وُجُوْبِ الْوُجُوْدِ کَمَا لِلْمَجُوْسِ اَوْ بِمَعْنٰی اِسْتِحْقَاقِ الْعِبَادَۃِ کَمَا لِعَبَدَۃِ الْاَصْنَامِ‘‘ ۔ یعنی ’’شرک یہ ہے کہ خدا کی اُلوہیت (یعنی معبود ہونے) میں کسی کو شریک کرنا اس طرح کہ کسی کو واجبُ الوجود مان لینا جیسا کہ مجوسیوں کا عقیدہ ہے یا خدا کے سوا کسی کو عبادت کا حقدار مان لینا جیسا کہ بت پرستوں کا خیا ل ہے ۔ (شرح عقائد نسفیہ، مبحث الافعال کلہا بخلق اللہ تعالی والدلیل علیہا، ص ۷۸،)

اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت امام احمد رضا خان محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں : آدمی حقیقۃً کسی بات سے مشرک نہیں ہوتا جب تک غیرِخدا کو معبود یا مستقل بالذّات و واجبُ الوجود نہ جانے ۔ (فتاوی رضویہ جدید ، ۲۱/۱۳۱،)

مردہ سنتا اور دیکھتا ہے



"مردہ سنتا اور دیکھتا ہے"

آیت  ’’ اِنَّكَ لَا تُسْمِعُ الْمَوْتٰى  بیشک تم مُردوں   کو نہیں   سناسکتے ‘‘( سورہ النمل آیت 80)  سے مُردوں   کے نہ سننے پر اِستدلال کرنے والوں   کا رد: 

              بعض حضرات اس آیت سے مُردوں   کے نہ سننے پر استدلال کرتے ہیں ، ان کا استدلال غلط ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں   کفار کو مُردہ فرمایا گیا اور اُن سے بھی مُطلَقاً ہر کلام سننے کی نفی مراد نہیں   ہے بلکہ وعظ و نصیحت اور کلامِ ہدایت قبول کرنے کیلئے سننے کی نفی ہے اور مراد یہ ہے کہ کافر مردہ دل ہیں   کہ نصیحت سے کوئی فائدہ نہیں   اٹھاتے۔ حضرت ملا علی قاری   رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ   فرماتے ہیں : ’’مردوں   سے مراد کفار ہیں   اور  (یہاں )  مطلق سننے کی نفی نہیں   بلکہ معنی یہ ہے کہ ان کاسننا نفع بخش نہیں   ہوتا۔ (  مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجہاد، باب حکم الاسرائ، الفصل الاول،  ۷  /  ۵۱۹ ، تحت الحدیث:  ۳۹۶۷ ) 

قرآن پاک کی ضرورت، اہمیت اور فوائد



قرآن پاک کی ضرورت، اہمیت اور فوائد

قرآن کریم وحی الہٰی ہے، یہ قُربِ خداوندی کا ذریعہ ہے، رہتی دنیا تک کےلیے نسخۂ کیمیاء ہے، تمام علوم کا سرچشمہ ہے، یہ ہدایت کا مجموعہ، رحمتوں کا خزینہ اور برکتوں کامنبع ہے، یہ ایسا دستور ہے جس پر عمل پیرا ہوکر تمام مسائل حل کیے جاسکتے ہیں، ایسا نور ہے، جس سے گمراہی کے تمام اندھیرے دور کیے جاسکتے ہیں ایسا راستہ ہے، جو سیدھا اللہ پاک کی رضا اور جنّت تک لے جاتا ہے، اصلاح و تربیت کا ایسا نظام ہے جو انسان کا تزکیہ کرکے (یعنی انسان کو پاک کرکے) اسے مثالی بنادیتا ہے، ایسادرخت ہے جس کے سائے میں بیٹھنے والا قلبی سکون محسوس کرتاہے، ایساباوفا ساتھی ہے جو قبر میں بھی ساتھ نبھاتا ہے اور حشر میں بھی وفا کا حق اداکرے گا۔ آئیے جانتے ہیں کہ قرآن کریم کیوں نازل ہوا؟ اس کی اہمیت کیاہے؟ اس کے فوائد وثمرات کیاہیں؟

مناسکِ حج و عمرہ کے دوران مختلف مقامات پر پڑھنی جانے والی دعائیں



تحریر
عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057    
 
  مناسکِ حج و عمرہ  کے دوران مختلف مقامات پر پڑھنی  جانے والی دعائیں 

حج کی نیت:

اَللّٰهُمَّ إِنِّي أُرِيْدُ الْحَجَّ، فَيَسِّرْه لِي، وَتَقَبَّلْه مِنِّی، وَأَعِنِّي عَلَيْه، وَبَارِکْ لِي فِيْه، نَوَيْتُ الْحَجَّ، وَأَحْرَمْتُ بِهﷲِ تَعَالٰی.(حصکفی، الدر المختار، کتاب الحج، 2 : 482)
عمرے کی نیت: 
 
اِللّٰھُمَّ اِ نِّی اُ رِیدُ العُمرَۃَ فَیَسِّرھَا لِی وَ تَقَبَّلھَا مِنِّی وَاَعِنِّی عَلَیھَا وَ بَارِک لِی فِیھاط  نَوَیتُ العُمرَۃَ وَاَحرَمتُ بِھَا لِلہِ تَعَالٰی ط

 تلبیہ:
لَبَّیکَ ط اِللّٰھُمَّ لَبَّیکَ ط لَبَّیکَ لاَ شَرِیکَ ط لَکَ لَبَّیکَ ط اِنَّ الحَمدَ وَالنِّعمَۃَلَکَ وَالمُلکَ ط  لاَ شَرِیکَ لَکَ ط 



 جنت کی دعا مانگنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام  کی سنت ہے

      حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام نے  دعا مانگی وَ اجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرِیْنَۙ(سورہ الشعراء آیت 84)  ترجمہ کنز العرفان :  اوربعدوالوں میں میری اچھی شہرت رکھ دے۔ یعنی اے میرے رب! میرے بعد آنے والی امتوں  میں  میری اچھی شہرت رکھ دے، چنانچہ اللہ تعالٰی  نے حضرت ابراہیم  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام  کو یہ عطا فرمایا کہ ہر دین والے اُن سے محبت رکھتے ہیں  اور اُن کی ثناکرتے ہیں ۔ مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ :  ۸۴   ، ص  ۸۲     
       دنیا کی سعادتیں  طلب کرنے کے بعد آخرت کی سعادتیں  طلب کرتے ہوئے حضرت ابراہیم       عَلَیْہِ             الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام نے دعا مانگی  وَ اجْعَلْنِیْ مِنْ وَّرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِیْمِۙ(سورہ الشعراء آیت 85) ترجمہ کنز العرفان: اور مجھے ان میں سے کردے جو چین کے باغوں کے وارث ہیں ۔
 یعنی اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ مجھے ان لوگوں  میں  سے کر دے جنہیں  تو اپنے فضل وکرم سے چین کے باغوں  اورنعمت کی جنت کا وارث بنائے گا۔(       بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب درجات المجاہدین فی سبیل اللہ      ۔۔۔       الخ      ،       ۲ / ۲۵۰      ، الحدیث:       ۲۷۹۰      )  

خواہشات کی پیروی دنیا اور آخرت کے لئے بہت نقصان دہ ہے




خواہشات کی پیروی دنیا اور آخرت کے لئے بہت نقصان دہ ہے:      
  نفسانی خواہشات کی پیروی دنیا اور آخرت دونوں  کے لئے بہت نقصان دہ ہے۔ نفسانی خواہشات کی پیروی کی مذمت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:     
’’       وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ هَوٰىهُ بِغَیْرِ هُدًى مِّنَ اللّٰهِ   قصص: ۵۰  )      
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون جو اللہ کی طرف سے ہدایت کے بغیر اپنی خواہش کی پیروی کرے۔      
            اور ارشاد فرماتا ہے:      
     وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ         
ترجمہ کنزُالعِرفان  : اور نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی بیشک وہ جو       اللہ       کی راہ سے بہکتے ہیں  ان کے لیے سخت عذاب ہے اس بنا پر کہ انہوں  نے حساب کے دن کو بھلا دیا ہے۔      
            اور ارشاد فرماتا ہے:      
’’       وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا      ‘‘      (      کہف:      ۲۸      )      
ترجمہ   کنزُالعِرفان  : اور اس کی بات نہ مان جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔    

نیک اعمال کو ضائع نہ کرو



"نیک اعمال کو ضائع نہ کرو"
             
   سورہ محمّد آیت 33 میں نیک عمل کو باطل کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے
 وَ لَا تُبْطِلُوْۤا اَعْمَالَكُمْ۔ ترجمہ کنز الایمان: اور اپنے عمل باطل نہ کرو۔
 یعنی ریاکاری یا منافقت کرکے اپنے اعمال باطل نہ کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو ریا کاری اور نفاق سے خالی ہو اور صرف اللہ تعالیٰ رضا حاصل کرنے کے لئے   کیا گیا ہو۔   لہٰذا آدمی جو عمل شروع کرے خواہ وہ نفلی نماز یا روزہ یا کوئی اور ہی عمل ہو ،اس پر لازم ہے کہ اس کو باطل نہ کرے بلکہ اسے پورا کرے۔ 

انسان کا جسم مرنے کے بعد مٹی ہو جائے گا



"انسان کا جسم مرنے کے بعد مٹی ہو جائے گا"

سورہ ق آیت 3 میں رب العزت ارشادِ فرماتا ہے ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًاۚ-ذٰلِكَ رَجْعٌۢ بَعِیْدٌ
ترجمہ کنز الایمان: کیا جب ہم مرجائیں اور مٹی ہوجائیں گے پھر جئیں گے یہ پلٹنا دُور ہے۔
کفارِ مکہ نے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے پر بھی تعجب کیا اور کہا: مرنے کے بعدجب ہمارے جسم کے اَجزاء زمین میں  بکھر جائیں گے اور ہم بوسیدہ ہو کر مٹی ہو جائیں  گے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ جیسا ابھی ہمارا جسم ہے اور جس طرح ابھی ہم زندہ ہیں  دوبارہ اسی طرح ہمارا جسم بن جائے اور ہم پھر سے زندہ ہو جائیں  ،اس کا واقع ہونا عقلی طور پربعید ہے اور ایسا ہوتا کبھی دیکھا نہیں  گیا۔کفارِ مکہ کی اس بات کا رد کرتے اور انہیں  جواب دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’اُن کے جسم کے جو حصے، گوشت، خون اور ہڈیاں  وغیرہ زمین کھا جاتی ہے ان میں  سے کوئی چیز ہم سے چھپی نہیں  بلکہ ہم ان کے بدن کے ہر حصے کے بارے میں  جانتے ہیں  کہ وہ بکھر کر کہا ں گیا اور کس چیز میں  مل گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے پاس ایک یاد رکھنے والی کتاب لوحِ محفوظ ہے جس میں  ان کے اسماء، اَعداد اور جو کچھ ان کے جسم میں  سے زمین نے کھایا سب درج،لکھا ہو ااور محفوظ ہے۔جب ہمارے علم کا یہ حال ہے اور ہم انہیں  ویسے ہی زندہ کرنے پر قادر بھی ہیں  جیسے پہلے تھے تو پھر انہیں  پہلے کی طرح دوبارہ زندہ کر دیا جانا عقل سے کیسے دور ہے۔( ابن کثیر ، ق ، تحت الآیۃ : ۳-۴، ۷ / ۳۶۹ ، ابو سعود ، ق، تحت الآیۃ: ۳
-۴، ۵ / ۶۱۷، خازن، ق، تحت الآیۃ: ۳-۴، ۴ / ۱۷۴-۱۷۵، ملتقطاً

دل کی سختی کے اسباب اور ا س کی علامات




د ل کی سختی کے اسباب اور ا س کی علامات

   دل کی نرمی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے اور دل کی سختی بہت بڑی آفت ہے کیونکہ دل کی سختی کا    انجام یہ ہوتا ہے کہ اس میں  وعظ و نصیحت اثر نہیں     کرتا،انسان کبھی اپنے سابقہ گناہوں  کو یاد کر کے نہیں     روتا اور اللہ تعالیٰ کی  آیات میں غورو فکر نہیں   کرتا۔دل کی سختی کے مختلف اَسباب اور علامات ہیں ، ان میں سے چند یہ ہیں :   
(   1   )…   اللہ  تعالیٰ کے ذکر سے غفلت برتنا۔    
(   2   )…   قرآنِ پاک کی تلاوت نہ کرنا۔   
(   3   )…    موت کو یاد نہ کرنا۔   
(   4   )…   بیکار باتیں  زیادہ کرنا۔   
(   5   )…    فحش گوئی کرنا۔   

رسولِ کریم صلی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے



رسولِ کریم صلی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے:  
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(سورہ احزاب آیت 21)
ترجمہ کنز العرفان: بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔
 سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی سیرت میں  پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے،جیسے غزوہِ خندق کے موقع پر جن سنگین حالات کا سامنا تھا کہ کفارِ عرب اپنی بھرپورافرادی اور حَربی قوت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے اچانک نکل پڑے تھے اور ان کے حملے کو پَسپا کرنے کے لئے جس تیاری کی ضرورت تھی اس کے لئے مسلمانوں  کے پاس وقت بہت کم تھا اور افرادی قوت بھی ا س کے مطابق نہ تھی،خوارک کی اتنی قلت ہو گئی کہ کئی کئی دن فاقہ کرنا پڑتا تھا،پھر عین وقت پر مدینہ منورہ کے یہودیوں  نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا اور ان کی غداری کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے، ایسے ہو شْرُبا حالات میں  تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے اپنی کیسی شاندار سیرت پیش فرمائی کہ قدم قدم پر اپنے جانثار صحابہ ٔکرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ کے ساتھ ساتھ موجود ہیں ، 

دشمنوں پر رحم کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا بزرگانِ دین کا طریقہ ہے



        

دشمنوں  پر رحم کرنا اور ان کی خیر خواہی کرنا بزرگانِ دین کا طریقہ ہے    
     اللہ تعالیٰ کے اولیاء کا طریقہ یہ ہے کہ وہ غصہ پی جاتے ہیں  اور اپنے دشمنوں  پر بھی رحم فرماتے ہیں یہی ایک کامل مومن اور  مُبَلِّغ اسلام کی شان کے لائق  ہے کہ وہ لوگوں  کی دشمنی اور مخالفت کی طرف توجہ نہ کرے بلکہ ہر حال میں  ان کا خیر خواہ رہے اور ان کی اصلاح کی دعا کرتا رہے۔ اسی مناسبت سے یہاں  دشمنوں  پر رحم اور ان کی خیر خواہی کرنے سے متعلق تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت سے 3واقعات اور خود کو تکلیف پہنچانے والوں  کی خیرخواہی کرنے سے متعلق دیگر بزرگانِ دین کے دوواقعات ملاحظہ ہوں ،    

محمد اقبال کی سوانح حیات:



محمد اقبال کی سوانح حیات:

ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال (٩ نومبر ١٨۷۷ء تا ٢١ اپریل ١٩٣٨ء) بیسویں صدی کے ایک معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ اردو اور فارسی میں شاعری کرتے تھے اور یہی ان کی بنیادی وجہ شہرت ہے۔ شاعری میں بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ "دا ریکنسٹرکشن آف ریلیجس تھاٹ ان اسلام" کے نام سے انگریزی میں ایک نثری کتاب بھی تحریر کی۔ علامہ اقبال کو دور جدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ بحیثیت سیاست دان ان کا سب سے نمایاں کارنامہ نظریۂ پاکستان کی تشکیل ہے، جو انہوں نے ١٩٣٠ء میں الہ آباد میں مسلم لیگ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے پیش کیا تھا۔ یہی نظریہ بعد میں پاکستان کے قیام کی بنیاد بنا۔ اسی وجہ سے علامہ اقبال کو پاکستان کا نظریاتی باپ سمجھا جاتا ہے۔ گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعر کی حیثیت حاصل ہے۔

"نکاح کی سنت کو عام اور آسان کرو"





"نکاح کی سنت کو عام اور آسان کرو "
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ ط
         اللہ عزوجل فرماتاہے:
{ فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰى وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَۚ  فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَةً }( پ۴،النساء۳۔  
ترجمہ نکاح کرو جو تمھیں  خوش آ ئیں  عورتوں  سے دو دو اور تین تین اورچار چار۔ اور اگر یہ خوف ہوکہ انصاف نہ کر سکو گے تو ایک سے۔
                اور فرما تا ہے:
                { وَ اَنْكِحُوا الْاَیَامٰى مِنْكُمْ وَ الصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَ اِمَآىٕكُمْؕ-اِنْ یَّكُوْنُوْا فُقَرَآءَ یُغْنِهِمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۳۲)وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖؕ-}(2پ۱۸،النور:۳۲۔۳۳)
 ترجمہ اپنے یہاں  کی  بے شوہر والی عورتوں  کا نکاح کر دو اور اپنے نیک غلاموں  اور باندیوں  کا۔ اگر وہ محتاج ہوں  تو اللہ  (عزوجل) اپنے فضل کے سبب اُنھیں  غنی کر دے گا۔ اور اللہ  (عزوجل) وسعت والا علم والا ہے اور چاہیے کہ پارسائی کریں  وہ کہ نکاح کا مقدور نہیں  رکھتے یہاں  تک کہ اللہ  (عزوجل) اپنے فضل سے انھیں  مقدور والا کر دے۔

"امام اہلسنت احمد رضا خان فاضل بریلوی کا تعارف



"امام اہلسنت احمد رضا خان فاضل بریلوی کا تعارف"
مجتہد، مجدد، مصلح، نعت گو شاعر، سائنس دان، فلسفی

امام احمد رضا خان (14 جون 1856ء – 28 اکتوبر 1921ء) بیسویں صدی عیسوی کے مجدد، نامور حنفی فقہیہ، محدث، اصولی، نعت گو شاعر، علوم نقلیہ وعقلیہ کے ماہر، سلسلہ قادریہ کے شیخ، عربی، فارسی اور اردو کی کثیر کتابوں کے مصنف جن میں مشہور ترجمہ قرآن کنزالایمان، فتاوی کا مجموعہ فتاویٰ رضویہ اور نعتیہ دیوان حدائق بخشش مشہور ہیں۔ احمد رضا خان نے شدت سے تقلید اور حنفیت کا دفاع کیا سلسلۂ حدیث میں شاہ ولی اللہ اور عبد الحق محدث دہلوی سے استفادہ کیا اور فقہ میں سند اجازت شیخ عبد الرحمن حنقی مکی سے حاصل کی، جن کا سلسلہ عبد اللہ بن مسعود تک پہنچتا ہے احمد رضا خان نے دو قومی نظریہ کا پرچار کیا اور کسی بھی سطح پر ہندو مسلم اتحاد کو رد کیا، تحریک ترک موالات اور تحریک خلافت میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ان تحریکوں میں مسلم ہندو اتحاد کا نعرہ لگایا جا رہا ہے جو شرع حیثیت سے ناجائز ہے عورتوں کی ضروری دینی تعلیم کی سختی سے تلقین کی۔ عورتوں کے زیارت قبور کے لیے گھر سے نکلنے کے مسئلے پر ممانعت کا فتوی دیا۔

شیطان اور شہابِ ثاقب



"شیطان اور شہابِ ثاقب "

    اللّٰہ تعالیٰ نے آسمانِ دنیا کو ہر مردود اور لعین شیطان سے محفوظ رکھا ہے لیکن جو شیطان آسمانوں     میں     ہونے والی گفتگو چوری کر کے ایک دوسرے کو بتاتے ہیں     تو ان کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑ جاتا ہے( یعنی شیطان کو ستاروں کے ذریعہ مارا جاتا ہے)   (   تفسیر طبری، الحجر، تحت الآیۃ   : ۱۷-۱۸، ۷ / ۴۹۹   )   
اس بات کی دلیل قرآن مجید کی سورہ  الحجر کی آیت 17 اور 18 میں ان الفاظ میں ذکر ہے۔: 
وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍۙ(۱۷)اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(۱۸)
ترجمہ کنز العرفان: اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا ۔ البتہ جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے ایک روشن شعلہ پڑجاتا ہے۔