اذان،سنت ظہر ، فقہ حنفی اور غیرمقلدیت...........!!
اذان،سنت ظہر ، فقہ حنفی اور غیرمقلدیت...........!!
سوال:
①ایک بھائی نے سوال کیا کہ علامہ صاحب ایک غیرمقلد دوست نے کہا ہے کہ ظہر کےفراءض سے پہلے تم لوگ چار رکعت اکھٹے سنت پڑھتے ہو یہ سنت و حدیث کے خلاف فقہ حنفی کا حکم ہے...دو دو رکعت کرکے پڑھو،
②ایک دوسرے بھائی نے سوال کیا کہ علامہ صاحب ہمارے ہاں بحث چھڑ گئ ہے ایک صاحب کہتا ہے کہ اذان میں تم لوگ اللہ اکبر وغیرہ دو دفعہ کہتے ہو جبکہ حدیث و سنت میں ایک ایک مرتبہ ہے
.
جواب:
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)
.
الحدیث:
الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل
ترجمہ:
ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو
(ترمذی حدیث2378)
.
لیھذا بدمذہبوں گمراہوں سے دور رہیے ان سے دوستی نہ رکھیے کہ آہستہ آہستہ طریقے سے یہ اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں...الا یہ کہ دوستی انکو سمجھانے کے لیے ہو یا اگر مجبورا لین دین ہو, کلیک و ہم کلاس ہو تو قدرِ ضرورت پر اکتفاء کیجیے کام سے کام رکھیے کوئی دینی بحث و بات چیت نہ کیجیے کہ خطرہ ہے کہ کہیں وہ بہکا نہ دیں....اگر بات چیت کریں تو بیچ میں پر مغز معتبر اہلسنت عالم کو رکھیں
*#فقہ حنفی کے مطابق چار رکعت سنت ظہر اکھٹے پڑھنے کی دلیل:*
حدثنا محمد بن رافع النيسابوري، حدثنا إسحاق بن سليمان الرازي، حدثنا المغيرة بن زياد، عن عطاء، عن عائشة، قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ثابر على ثنتي عشرة ركعة من السنة بنى الله له بيتا في الجنة، اربع ركعات قبل الظهر، وركعتين بعدها وركعتين بعد المغرب، وركعتين بعد العشاء، وركعتين قبل الفجر
ترجمہ:
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بارہ رکعت سنت پر مداومت کرے گا(پابندی سے بارہ رکعت پرھے گا)اللہ اس کے لیے جنت میں ایک گھر بنائے گا: چار رکعتیں ظہر سے پہلے، دو رکعتیں اس کے بعد، دو رکعتیں مغرب کے بعد، دو رکعتیں عشاء کے بعد اور دو رکعتیں فجر سے پہلے...(ترمذی حدیث414)
.
حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن عبيدة بن معتب الضبي ، عن إبراهيم ، عن سهم بن منجاب ، عن قزعة ، عن قرثع ، عن ابي ايوب ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان يصلي قبل الظهر اربعا إذا زالت الشمس لا يفصل بينهن بتسليم"، وقال:" إن ابواب السماء تفتح إذا زالت الشمس
ترجمہ:
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے سورج ڈھلنے کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے اور بیچ میں سلام سے فصل نہیں کرتے تھے، اور فرماتے: ”سورج ڈھلنے کے بعد آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں...(ابن ماجہ حدیث1157)
.
*#اذانِ فقہ حنفی کی دلیل حدیث و سنت سے:*
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ "
[البخاري ,خلق أفعال العباد للبخاري ,page 54]
[سنن أبي داود ,1/135حدیث499]
[صحيح ابن خزيمة ,1/191حدیث370]
[سنن ابن ماجه ت الأرنؤوط ,1/451حدیث706]
.
*#اقامۃ کے الفاظ فقہ حنفی والے اس حدیث پاک سے ماخوذ ہین:*
اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، قَدْ قَامَتِ الصَّلَاةُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ
[سنن ابن ماجه ,1/235حدیث709]
[سنن أبي داود ,1/137حدیث502]
.
*#تقلید کی دلیل اور غیرمقلدیت کی مذمت:*
القران..ترجمہ:
اللہ کی اطاعت کرو،اور رسول کی اور اولی الامر (برحق علماء، امراء)کی اطاعت کرو.(سورہ نساء آیت59)
.
القرآن..ترجمہ:
اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور، باریک دان، سمجھدار علماء آئمہ صوفیاء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
.
مذکورہ بالا دونوں آیات میں علماء کی تقلید و پیروی کا حکم ہے اور خاص کر اہل استنباط کی طرف مراجعت کا حکم ہے…اہل استنباط میں سے چار فقہ مشھور ہیں، ان کے کئ احکامات بظاہر الگ الگ ہین مگر سب کے پاس قران حدیث سنت قول صحابہ بطور دلیل موجود ہے لیھزا کسی بھی ایک فقہ کی پیروی کرسکتے ہیں تقلید کرسکتے ہیں بلکہ عوام علماء سب پر لازم ہے کہ کسی ایک فقہ کی تقلید کریں اس فقہ کے علماء و کتب سے مراجعت رابطہ و مشاورت رکھیں البتہ نئے مسائل میں باشعور علماء پردلیل اجتہاد.و.قیاس کرسکتے ہیں،پرانے مسائل میں اجتہاد بہت ہوچکا ، پرانے مسائل میں اب اجتہاد کی گنجاءش نہیں لیھذا پرانے مسائل میں تقلید لازم
.
مروجہ غیر مقلدیت فتنہ ہے نفسا نفسی من پسندیت کا نام ہے....اسلاف کی توہین و طعن کرنا ، جھوٹے الزام و مذمت کرنا مروجہ غیرمقلدیت کا شیوہ ہے...اللہ کریم ان سے بچائے...آپ کے سامنے مثال موجود ہے کہ کس طرح بےدردی سے بلاتحقیق فورا ہی ڈھٹائی سے فقہ حنفی کو خلاف سنت کہہ دیا حالانکہ مذکورہ مسلے میں فقہ حنفی کی دلیل حدیث و سنت سے موجود ہے بلکہ چاروں فقہ کےدلاءل قران و سنت حدیث قول صحابی سے ثابت ہے جہاں نص نہ ہو وہاں قیاس برحق ہے...وہاں قیاس سنت سے ثابت ہے
.
*#اجتہاد.و.قیاس کرنے کی دلیل:*
الحدیث:
حدثنا حفص بن عمر، عن شعبة، عن ابي عون، عن الحارث بن عمرو اخي المغيرة بن شعبة، عن اناس من اهل حمص، من اصحاب معاذ بن جبل، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، لما اراد ان يبعث معاذا إلى اليمن، قال:" كيف تقضي إذا عرض لك قضاء؟، قال: اقضي بكتاب الله، قال: فإن لم تجد في كتاب الله؟، قال: فبسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فإن لم تجد في سنة رسول الله صلى الله عليه وسلم، ولا في كتاب الله؟، قال: اجتهد رايي ولا آلو، فضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم صدره، وقال: الحمد لله الذي وفق رسول رسول الله لما يرضي رسول الله".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے حمص کے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن (کا گورنر) بنا کر بھیجنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”جب تمہارے پاس کوئی مقدمہ آئے گا تو تم کیسے فیصلہ کرو گے؟“ معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کی کتاب کے موافق فیصلہ کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ کی کتاب میں تم نہ پا سکو؟“ تو معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے موافق، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر سنت رسول اور کتاب اللہ دونوں میں نہ پاس کو تو کیا کرو گے؟“ انہوں نے عرض کیا: پھر میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا، اور اس میں کوئی کوتاہی نہ کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کا سینہ تھپتھپایا، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو اس چیز کی توفیق دی جو اللہ کے رسول کو راضی اور خوش کرتی ہے
(ابوداؤد حدیث3592)
یہ حدیث مبارک مشعل راہ ہے کہ قران پھر حدیث و سنت پھر قیاس و استدلال....اس حدیث مبارک سے واضح ہوتا ہے کہ قران حدیث و سنت سے اجتہاد و استدلال کرنا برحق و ماہر علماء کا منصب بلکہ ذمہ داری ہے....استدلال و قیاس کرنے میں سب متفق ہوں یہ ضروری نہیً لیھذا غیرمنصوص ظنیات و فروعیات میں اختلاف ہونا فطری عمل ہے
.
*اجتہاد میں #اختلاف ہوجانے اور ایک دوسرے کی مذمت تفضلیل تفسیق نہ کرنے کی دلیل:*
الحدیث:
قال النبي صلى الله عليه وسلم لنا لما رجع من الأحزاب: «لا يصلين أحد العصر إلا في بني قريظة» فأدرك بعضهم العصر في الطريق، فقال بعضهم: لا نصلي حتى نأتيها، وقال بعضهم: بل نصلي، لم يرد منا ذلك، فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم، فلم يعنف واحدا منهم
ترجمہ:
غزوہ احزاب سے واپسی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم(یعنی صحابہ کرام) سے فرمایا کہ:
تم میں سے ہر ایک بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر کی نماز پڑھے" (صحابہ کرام نے جلد پہنچنے کی بھر پور کوشش کی مگر)راستے میں عصر کا وقت ختم ہونے کو آیا تو کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ ہم عصر نماز بنی قریظہ پہنچ کر ہی پڑہیں گے اور کچھ صحابہ کرام نے فرمایا کہ نبی پاک کا یہ ارادہ نا تھا(کہ نماز قضا ہو اس لیے) ہم عصر پڑھ لیں گے
(طبرانی ابن حبان وغیرہ کتب میں روایت ہے جس میں ہے کہ کچھ صحابہ نے راستے میں ہی عصر نماز پڑھ لی اور کچھ نے فرمایا کہ ہم رسول کریم کی تابعداری اور انکے مقصد میں ہی ہیں لیھذا قضا کرنے کا گناہ نہین ہوگا اس لیے انہوں نے بنی قریظہ پہنچ کر ہی عصر نماز پڑھی)
پس یہ معاملہ رسول کریم کے پاس پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک پر بھی ملامت نا فرمائی
(بخاری حدیث946)
.
دیکھا آپ نے صحابہ کرام علیھم الرضوان کا قیاس و استدلال اور اس میں اختلاف... صحابہ کرام نے اس برحق اختلاف پر ایک دوسرے کو کافر منافق فاسق گمراہ گستاخ خلاف سنت نہیں کہا اور نبی پاک نے بھی کسی کی ملامت نا فرمائی...ایسا اختلاف قابل برداشت ہے بلکہ روایتوں مین ایسے فروعی برحق پردلیل باادب اختلاف کو رحمت فرمایا گیا ہے...ایسی اختلاف میں غلطی پر مجتہد کی مذمت نہیں بلکہ ایک اجر ہے
الحدیث:
فاجتهد ، ثم اصاب فله اجران ، وإذا حكم فاجتهد ، ثم اخطا فله اجر
مجتہد اجتہاد کرے اور درستگی کو پالے تو دو اجر اور اگر اجتہادی خطاء کرے تو اسے ایک اجر ملے گا
(بخاری حدیث7352)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
00923468392475
.