یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

دعوت اسلامی کا یوم تاسیس





دعوت اسلامی کا یوم تاسیس
:::::::::::::::::::::::::::::؛؛      
**  2ستمبر 1981ء**
**  قائد اہل سنت قائد ملت اسلامیہ امام انقلاب علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ  کی دعوت پر تاسیسی اجلاس ہوا
**  تاسیسی اجلاس علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمہ  کی رہائش گاہ پر  صدر کراچی میں  غزالی زماں امام اہلسنت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ کی زیر صدارت منعقد ہوا 
**  شرکاء اجلاس میں رئیس التحریر علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ، مجاہد ملت علامہ محمد عبدالستار خان نیازی علیہ الرحمہ  ،پیر صوفی فاروق رحمانی ،علامہ عبدالمصطفی الازہری علیہ الرحمہ ، مفتی وقارالدین علیہ الرحمہ ، مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمہ  ،مفتی محمد حسین قادری علیہ الرحمہ ، مولانا محمد حسن حقانی علیہ الرحمہ ، پروفیسر سید شاہ فریدالحق  علیہ الرحمہ ، علامہ مفتی جمیل احمد نعیمی، علامہ  ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر الوری، مفتی احمد میاں برکاتی، مولانا رجب علی نعیمی علیہ الرحمہ ، مولانا شاہ حسین گردیزی،،  مولانا محمد شفیع اوکاڑوی علیہ الرحمہ ، مفتی غلام قادر کشمیری علیہ الرحمہ ، مفتی سید شجاعت علی قادری علیہ الرحمہ ، مولانا قاری نثارالحق،مولانا شبیر احمد اظہری، علامہ عبدالتواب اچھروی علیہ الرحمہ ،اور مولانا محمد یوسف شکیل سمیت ملک بھر سے کثیر تعداد میں علماء اہل سنت شامل تھے،،،،،،،
** اجلاس میں اہلسنت کی ایک تبلیغی تنظیم قائم کرنے کا فیصلہ ہوا 
**  باہمی مشاورت کے بعد ورلڈ اسلامک مشن/الدعوہ الاسلامیہ العالمیہ ،،،،،،کے اردو ترجمہ سے اخذ کر کے،،،،،دعوت اسلامی،،،،،نام تجویز ہوا 

*سبق کیسے یاد کیا جائے* ؟؟




📓 *سبق کیسے یاد کیا جائے* ؟؟ 📓


🖍 بعضوں سے یہ سننے کو ملتا ہے کہ سبق تو یاد کرتے ہیں لیکن بعد میں سبق بھول جاتا ،
یاد نہیں رہتا :-

🖍 سبق کو ہمیشہ یاد رکھنے کیلئے *5* ایسی باتیں عرض کرتا ہوں جس پہ عمل کرکے آپ اپنے سبق کو ہمیشہ یاد رکھ سکتے ہیں :-

1️⃣ سبق کو سب سے پہلے اچھی طرح سمجھ لیں :-

2️⃣ پھر اُس کو یاد کر لیں :-

3️⃣ پھر اُسی سبق کا خلاصہ اپنے لفظوں میں کسی کو سُنا دیں :-

4️⃣ پھر وہی خلاصہ زبانی کاپی پہ لکھ لیں :-

5️⃣ پھر آخر میں کچھ دنوں تک اُسی سبق کا کسی کے ساتھ تکرار کریں :-

زندگی کا تلخ تجربہ




       🗡 *زندگی کا تلخ تجربہ* 🗡


📌اس فانی دنیا میں کوئ کسی کا ساتھ نہیں دیتا۔
لوگ جو یہ دعوی کرتے ہیں ، کہ میں آپ کی ساری زندگی آپ کا ساتھ نبھائونگا ،
یہ سارے دعوے جھوٹے ہوتے ہیں ،

👈 ہاں ہاں بالکل جھوٹے ہوتے ہیں۔

لہذا❗ کسی پہ بھی بھروسہ مت کرنا
اگر آپ کو اس دنیا میں کامیاب زندگی گزارنی ہے ۔

📌کچھ لوگ تو مطلبی ہوتے ہیں ،
آپ سے تعلق جوڑنے کا مقصد صرف اپنا مطلب پورا کرنا ہوتا ہے ،

📌بے مقصد کہ کون کس سے تعلق جوڑتا ہے ؟؟
کوئ نہیں جوڑتا ،

👈 بس آپ اپنے آپ سے مخلص ہوجائیں ،
اپنے بنیں ،
اپنے ابو ، امی کے بنیں ،

📌             *یہ لوگ* ، 
یہ لوگ تو آپ کو کچھ نہیں دیں گیں ،

📌              *یہ لوگ* ،
یہ لوگ تو آپ کو گرانے کے مواقع ڈھونڈ رہے ہیں ،

📌             *یہ لوگ* ،
یہ لوگ تو آپ کو پریشان اور بے سکون دیکھنا چاہ رہے ہیں ،

📌           *یہ لوگ* ہیں 
جن پر آپ نے بھروسہ کیا ہے ۔ 
اسلئے لوگوں سے امیدیں وابستہ مت کریں۔
جو کریں ، اور جو کرنا ہے ، *خود کریں* ، *کسی کا سہارا مت لیں* :-

'' دوستی ''



🤝!!!!!!!!! '' دوستی '' !!!!!!!!!🤝



🚶‍♂️ایک بچہ اسکول سے فارغ ہونے کے بعد نوکری کرنے کیلئے جا رہا تھا جاتے جاتے ابو سے کہا کہ ابو مجھے کوئ سی نصیحت فرما دیں۔۔۔۔:::
باپ نے کہا کہ بیٹا جہاں پہ آپ نوکری کرنے جا رہے ہو وہاں پہ آپ کا ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوا کرے گا۔۔۔۔۔۔!!!!!!!

👀  دیکھیں انسان کی زندگی میں دوست ایک اہم ترین چیز شمار کی جاتی ہے۔۔:::

🔴 نئے دوست کا مل جانا اچھی بات ہے
کیونکہ زندگی کا سفر دوستوں کے ساتھ ہی اچھا گزرتا ہے 🔴

لیکن آج کل کیا ہوتا ہے چلتے پھرتے دوست بنا دیتے ہیں 
اسطرح کے دوست بسا اوقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔۔۔۔::::

✅ جی ہاں بالکل اسی طرح ہے کہ کہی بار دوست نے دوست کو قتل کر ڈالا پتہ نہیں کیا سے کیا دوست ، دوست کے ساتھ کھیل کھیلتا ہے :::

🙏 لہذا جب بھی دوست بنائیں تو پہلے اس بات کو  دیکھیں کہ میں کس سے دوستی کر رہا ہوں ۔۔۔۔:::

جب آپ نے دوستی کر لی تو اس کے بعد ان "2" باتوں پہ عمل کریں 
          "" ان شاء اللہ عزوجل  ""
آپ کی دوستی ہمیشہ رہے گی۔۔
( اس سے پہلے ایک بات یاد رکھو کہ ) 
!! دوستی پیدا کرنے میں جلدی مت کرو 
لیکن جب پیدا ہو جائے تو اس پر استقلال سے قائم رہو !!

*مالک کُل ، قاسمِ نعمتِ کُل میرے آقا صلی اللّٰہ عَلَیْہ وسلم *













*مالک کُل ، قاسمِ نعمتِ کُل میرے آقا صلی اللّٰہ عَلَیْہ وسلم *

*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: *”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ  وَاللَّهُ يُعْطِي“* یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔
(📗بخاری،ج1،ص42،حدیث:71)
اس حدیثِ مبارکہ میں اس بات کی صراحت نہیں کہ سرورِ دو عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا عطا فرمانے والے ہیں، اس صورت میں اصول کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا  کہ ہر نعمت کو تقسیم کرنے والے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واسطے کے بغیر کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔
*رزق ہے رب کا کھلاتے یہ ہیں*
فقیہِ اعظم ہند حضرت علّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں :مخلوق میں کسی کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بِلا واسطہ کچھ نہیں مل سکتا ۔ بخاری وغیرہ میں صحیح حدیث ہے کہ فرمایا : *”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“* ۔ قَاسِمٌ اور يُعْطِي دونوں کا متعلّق محذوف ہے جو عموم کا اِفادہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی دیتا ہے خواہ وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی ، ظاہری ہو یا باطنی سب حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ سے دلاتا ہے۔اس لئے علامہ احمد خطیب قسطلانی شارح بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے *”اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنیہ“* میں فرمایا، جسے علامہ محمد بن عَبدُالباقی زُرقانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے باقی رکھا: *ھُوَ صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌاِلَّا عَنْہُ وَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔* یعنی حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خزانۃ السر (یعنی پوشیدہ راز) ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے نافذ ہونے کا مرکز ، اس لئے ہر چیز حضور ہی سے منتقل ہوتی ہے اور ہر حکم حضور ہی سے نافذ ہوتا ہے۔
(📗فتاویٰ شارح بخاری،ج1،ص351)
حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کی ساری نعمتیں علم، ایمان، مال، اولاد وغیرہ دیتا اللہ  ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو مِلا حضور کے ہاتھوں مِلا کیونکہ یہاں نہ اللہ کی دَین (یعنی دینے) میں کوئی قید ہے نہ حضور کی تقسیم میں، لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔
(📗مراٰۃ المناجیح،ج1،ص177)

جامعُ المُعجزات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معُجزات




  • *جامعُ المُعجزات صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے معُجزات*
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*


ہر نَبی کا مُعْجِزَہ چُونکہ اس کی نَبُوَّت کی دلیل ہوا کرتا ہے،لہٰذا خُداوَنْدِ عالَم جَلَّ جَلَالُہ نے ہر نَبی کو اس دَور کے ماحول اور اس کی اُمَّت کے مِزاجِ عَقْل و فَہْم کے مُناسِب مُعْجِزَات سے نوازا۔ مثلاً حَضْرتِ مُوسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے دَورِ نَبُوَّت میں چُونکہ جادُو اور سَاحِرانہ کارنامے اپنی ترقّی کی اعلیٰ تَرین مَنْزل پر پہنچے ہوئے تھے،اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو *”یَدِبَیْضا“* اور *”عَصا“* کے مُعْجِزَات عطا فرمائے، جن سے آپ نے جادُوگروں کے سَاحِرانہ کارناموں پر اس طرح غَلَبَہ حاصل فرمایا کہ تمام جادُوگر سَجْدہ میں گر پڑے اور آپ کی پر اِیْمان لائے۔ 
اسی طرح حَضْرتِ عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے زمانے میں عِلْمِ طِبْ اِنْتہائی تَرقّی پر پہنچا ہوا تھا اور اس دَور کے طَبِـیْبوں یعنی ڈاکٹروں نے بڑے بڑے اَمْراض کا عِلاج کر کے اپنی فنّی مَہارَت سے تمام اِنْسانوں کو مَسْحُور کر رکھا تھا،اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے حَضْرتِ عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو مادَر زاد اَنْدھوں اور کوڑھیوں کو شِفا دینے اور مُردوں کو زِنْدہ کر دینے کا مُعْجِزَہ عطا فرمایا، جس کو دیکھ کر آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے دَور کے  اَطِبَّاء (یعنی ڈاکٹروں) کے ہوش اُڑ گئے اور وہ حیَرْان و شَشْدَرْ رہ گئے اور بالآخر اُنہوں نے ان مُعْجِزَات کو اِنْسانی کمالات سے بالاتَر مان کر آپ کی نَبُوَّت کا اِقْرار کرلیا۔ 
 اَلْغرض اسی طرح ہر نَبی کو اس دَور کے ماحول کے مُطابِق اور اس کی قَوم کے مِزاج اور ان کی طبیعت کے مُناسِب کسی کو ایک، کسی کو دو، کسی کو اس سے زِیادہ مُعْجِزَات عطا ہوئے ،مگر نبیِّ آخرُالزّماں، سَرورِ کَوْن و مَکاں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ چُونکہ تمام نبیوں کے بھی نَبی ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سِیْرتِ مُقدَّسہ تمام اَنْبِیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ السَّلَام کی مُقدَّس زِنْدگیوں کا خُلاصَہ ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تَعْلِیْم تَمام اَنْبیا ء کِرام عَلَیْہِمُ الصّلٰوۃ وَ السَّلَام  کی تَعْلیمات کا عِطْر (نِچوڑ ) ہے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ دُنْیا میں ایک عالمگیر اور اَبَدی دِیْن لے کر تَشْرِیْف لائے تھے اور عالمِ کائنات میں اَوَّلین و آخرین کی تمام اَقْوام اور مِلّتیں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مُقدَّس دَعْوت کی مُخاطَب تھیں، اس لئے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذاتِ مُقدَّسہ کو اَنْبیائے سابِقین کے تمام مُعْجِزَات کا مَجْموعہ بنا دیا اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو قِسم قِسم کے ایسے بے شُمار مُعْجِزَات سے سرفراز فرمایا جو ہر طَبقہ، ہرگروہ، ہرقوم اور تَمام اَہْلِ مَذاہِب کے مِزاجِ عَقْل و فَہْم کے لئے ضَروری تھے۔
(📗سیرتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ص712تا 741،ملخـصًا و ملتقطاً )
علاوہ اَزِیْں بے شُمار ایسے مُعْجِزَات سے بھی حَضْرتِ حَق جَلَّ جَلَالُہ نے اپنے آخِری پَیغمبر، شَفیعِ مَحْشر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو مُمتاز فرمایا جو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے خَصائص کہلاتے ہیں۔ یعنی یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے وہ کمالات و مُعْجِزَات ہیں جو کسی نَبی و رَسُول کو نہیں عَطا کئے گئے۔
 (📗سیرتِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ص820ملخـصًا)

مختارِ کُل صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور کثرتِ سخاوتِ





*مختارِ کُل صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور کثرتِ سخاوتِ *


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس قدر سَخاوت فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بھی چیز اپنے پاس رکھنا گوارا نہ فرماتے، بلکہ جب تک لوگوں میں تقسیم نہ فرما دیتے، اس وقت تک مُطْمَئِن نہ ہوتے تھے ،خود کسی چیز کی حاجت ہونے کے با وُجُود بھی غریبوں اور مُحتاجوں پر صَدَقہ کر دیا کرتے  اور سائل کو اس قدر نوازتے کہ اُسے دوبارہ مانگنے کی حاجت ہی پیش نہ آتی۔

*سخاوت ہو تو ایسی ہو*

شہنشاہِ نَبوُّت، قاسمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ سَخاوت بیان کرتے ہوئے حضرت سَیِّدُنا عبدُﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور سَخاوت کا دریا سب سے زِیادہ اس وَقْت جوش پر ہوتا ،جب رَمَضان میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  مُلاقات کے لئے حاضِر ہوتے، جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (رَمَضانُ المبارَک کی) ہر رات میں حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم، رءُوفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْم ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دَور فرماتے ۔''پس رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ 
 
(📗فیضانِ سنت ،بحوالہ صحیح  بخاری ج۱ص۹حدیث۶)

*واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا*
*نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا*

*دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا* 
*تارے کِھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا*

فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ



"فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ"


فرانسیسی مصنوعات کی فھرست اس لنک پے
.https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=3357005101087269&id=100003334358641
اقتصادی وغیرہ مختلف قسم کےبائیکاٹ.........؟؟
*#اقتصادی تجارتی بائیکاٹ حسبِ ضرورت،حسبِ نفع:* سمجھانے سلجھانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ اگر شرعی مصلحت ہو، فائدہ ہو یا فائدہ کی امید ہو تو گستاخ کفار ممالک سے معاشی اقتصادی بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے بلکہ بائیکاٹ کرنا چاہیے
.
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مدینہ میں معاہدہ کیا تھا تو اس معاہدے کی ایک شق معاشی اقتصادی بائیکاٹ پر مشتمل تھی:
لَا تُجَارُ قُرَيْشٌ وَلَا مَنْ نَصَرَهَا
ترجمہ:
قریش سے تجارت نہ کی جائے گی اور ان سے بھی تجارت نہ کی جائے گی جو قریش کے مددگار ہوں
(البداية والنهاية ط هجر4/558)
(اللؤلؤ المكنون في سيرة النبي المأمون2/204)
(مجموعة الوثائق السياسية 1/592)
.
سیدنا ثمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایمان لے آئے ، مسلمان ہوئے تو آپ نے کفار و مشرکین مکہ سے اقتصادی و معاشی بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور فرمایا
لاَ يَأْتِيكُمْ مِنَ اليَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَةٍ، حَتَّى يَأْذَنَ فِيهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ:
تمہارے پاس یمامہ سے گندم کا ایک دانہ تک نہ آئے گا یہاں تک کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں اجازت عطا فرمائیں
[صحيح البخاري ,5/170 روایت4372]
 .
*#حسبِ طاقت میل جول وغیرہ دیگر قسم کے تعلقات کا بائیکاٹ:*
سمجھانے کے ساتھ ساتھ مجرموں گستاخوں بدمذہبوں سے سلام دعا کلام ، کھانا پانی ، میل جول ، شادی بیاہ نماز وغیرہ میں شرکت نہ کرنے، بائیکاٹ کرنے کے دلائل یہ ہیں
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں،گستاخوں، بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ قطع تعلق و بائیکاٹ کرو) کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)

ایک امام نےقبلہ کی طرف تھوکا،رسول کریمﷺنےفرمایا:
لایصلی لکم
ترجمہ:
وہ تمھیں نماز نہیں پڑھا سکتا
(ابوداؤد حدیث481، صحیح ابن حبان حدیث1636,
مسند احمد حدیث16610 شیعہ کتاب احقاق الحق ص381)
صدر الشریعہ خلیفہ اعلی حضرت سیدی مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں:
اس وقت جو کچھ ہم کرسکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے مُقاطَعہ(بائیکاٹ) کیاجائے اور ان سے میل جول نشست وبرخاست وغیرہ ترک کریں.(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص60)

چند اوراق بعد لکھتے ہیں:
سب سے بہتر ترکیب وہ ہے جو ایسے وقت کے لیے قرآن وحدیث میں ارشاد ہوئی اگر مسلمان اس پر عمل کریں تمام قصوں سے نجات پائیں دنیا وآخرت کی بھلائی ہاتھ آئے۔ وہ یہ ہے کہ ایسے لوگوں سے بالکل میل جول چھوڑ دیں، سلام کلام ترک کر دیں، ان کے پاس اٹھنا بیٹھنا، ان کے ساتھ کھانا پینا، ان کے یہاں شادی بیاہ کرنا، غرض ہر قسم کے تعلقات ان سے قطع کر دیں..(بہار شریعت جلد1 حصہ9 ص84)
.
الحدیث:
فَلَا تُجَالِسُوهُمْ، وَلَا تُؤَاكِلُوهُمْ، وَلَا تُشَارِبُوهُمْ، وَلَا تُنَاكِحُوهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا مَعَهُمْ، وَلَا تُصَلُّوا عَلَيْهِمْ
ترجمہ:
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ میل جول نہ رکھو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان سے شادی بیاہ نہ کرو، ان کے معیت میں(انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/483حدیث769]
.
الحدیث:
فلا تناكحوهم ولا تؤاكلوهم ولا تشاربوهم ولا تصلوا معهم ولا تصلوا عليهم
ترجمہ:
بدمذہبوں گستاخوں کے ساتھ شادی بیاہ نہ کرو، ان کے ساتھ کھانا پینا نہ رکھو، ان کے معیت میں (انکے ساتھ یا ان کے پیچھے) نماز نہ پڑھو(الگ پرھو)اور نہ ہی انکا جنازہ پڑھو
[جامع الأحاديث ,7/431حدیث6621]
.
سمجھانے کےساتھ ساتھ جب مسلمانی کے دعوےدار بدمذہب و گستاخ سے بائیکاٹ کا حکم ہے تو گستاخی کرنے والے غیرمسلم ممالک سے بھی میل جول ، کھانا پانی ،لین دین ، خرید و فروخت ، انکی مصنوعات وغیرہ کا بائیکاٹ کیا جاسکتا ہےبلکہ بائیکاٹ کرنا چاہیے
.
واللہ تعالیٰ اعلم و رسولہ صلی اللہ علیہ وسلم اعلم
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
00923468392475

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ


 

 وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ  ( سورۃ الانبیاء 107)

ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ۔


اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیب کا متعدد مقامات پر صفت رحمت سے ذکر فرمایا ہے، رحمة کا لفظ اپنے اندر اہم ترین صفات ومعانی کو شامل ہے،چنانچہ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ہمیں اردو میں شفقت ،نرمی وغیرہ الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے،
خالق کائنات مالک ارض و سماء اللہ ربّ العزت کی طرف سے نبی کریم ﷺ کو پوری کائنات کے لیے رحمت اللعالمین بنا کر بھیجا گیا۔ اللہ ربّ العزت نے آپ ﷺ کو ایسا بنایا ہے کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے اعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپ ﷺ کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں،اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی خاتم النبین نبی کریم ﷺ کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآب ﷺ کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ کیونکہ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے
 ’’اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم نے آپ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے۔جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے،جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درودوسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ ﷯ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا۔ مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفاء، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ رب العزت کی ذات نے آپ ﷺکی ذاتِ کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی ﷺ ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم ﷺ کو بے شمار خصوصیات عطافرمائی ہیں جن کو لکھنا تو در کنارسارے جہاں کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ ﷺ کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپ کا ئنات کا مجموعہ حسن ہیں، اللہ  ﷯ نے آپ ﷺ کی اس دنیا میں سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔جنانچہ
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے حبیب کا متعدد مقامات پر صفت رحمت سے ذکر فرمایا ہے، رحمة کا لفظ اپنے اندر اہم ترین صفات ومعانی کو شامل ہے،چنانچہ عربی زبان کے اس لفظ کے مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ہمیں اردو میں شفقت ،نرمی وغیرہ الفاظ کا سہارا لینا پڑتا ہے،

*انصاف چاہیے ، پیسہ نہیں*




📌 *انصاف چاہیے ، پیسہ نہیں* 📌


👈 عدل و انصاف کو ہمارے دین میں ایک بُنیادی حیثیت حاصل ہے۔
یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کو اللہ عزوجل بھی محبوب رکھتا ہے۔
👈 انصاف کا مطلب یہ ہے کہ *حق دار کو اُس کا حق دیاجائے*
                  اور
*مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے*۔
👈 انصاف کا میدان تو بہت وسیع ہے۔اس کی ابتداء تنہائ سے ہوتی ہے اور انتہاء میدانِ حشر تک ہوتی ہے۔
جو بندہ اپنی تنہائ میں اپنے خیالات میں انصاف قائم نہیں کرسکتا وہ بندہ اپنی زندگی میں انصاف کبھی قائم نہیں کرسکتا۔
اپنے خیالات پر توجہ رکھیں اور ان میں عدل قائم کریں۔
👈 اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ 
خیال کا عدل کیا ہے ؟؟
خیال کا عدل یہ ہے کہ ہم اچھے خیال حاصل کریں۔اور ان کو عمل کی تقویت دے کر ان کے ساتھ اور اپنے ساتھ عدل کریں۔
👈 عادل کیلئے اپنے خیال کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔وہ اپنے دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جائے تاکہ خیالات کے آنے اور جانے کا علم ہو۔ اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔
👈 ہر صورت میں انصاف کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور کبھی بھی حق کو باطل کا لباس نہ پہنائو۔

مطالعہ سیرتِ رسول کی ضرورت و اہمیت




🌹 *مطالعہ سیرتِ رسول کی ضرورت و اہمیت*🌹


سرکار دوعالم "صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم'' کی ولادت مبارکہ سے پہلے عرب کی حالت بد سے بدتر تھی۔
جہالت کے اندھیروں میں وہ غرق تھے۔ جہالت ہی نے بُت پرستی جنم دی تھی۔ بُت پرستی کی لعنت نے ان کے انسانی دل و دماغ پر قابض ہوکر ان کو تو ہم پرست بنا دیا تھا۔
یہ لوگ پتھر، چاند، ستارے، سورج اور آگ وغیرہ کو اپنا معبود سمجھتے تھے۔  اپنے ہاتھوں سے بنے ہوئے پتھروں کی عبادت کرتے تھے۔  اسی کو اپنا رازق مانتے تھے۔ ہر چیز کا خالق انہی بُتوں کو سمجھتے تھے۔
ان کے عقائد تو دن بدن بگڑتے جارہے تھے لیکن عقائد کے ساتھ ساتھ ان کے افعال و اعمال بھی بے حد خراب ہوتے جارہے تھے۔ قتل و غارت گری ، شراب نوشی ، جوّا ، زناکاری ، لواطت ، عورتوں کو زندہ دفن کرنا ، فُحش گوئی ، گالی گلوچ ، بد اخلاقی، الغرض کون سا ایسا گندہ فعل تھا؟ جو ان میں نہ تھا ۔
ان کو جہالت سے نکالنے کیلئے اللہ عزوجل نے اپنے پیارے بندے "حضرت *محمد* " (صلی اللہ تعالی علیہ وسلم) کو پیدا فرما کر اس امتِ مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا۔
ایسی ہستی کو اللہ عزوجل نے پیدا فرمایا کہ جنہوں نے ان کو جہالت کے اندھیرے سے نکال کر روشنی کا راستہ دیکھایا۔
بُت پرستی سے نکال کر معبودِ حقیقی کی طرف دعوت دی۔
جنہوں نے اس دعوت کو قبول کیا وہ شخص کامیاب و کامران ہوگیا
اور جنہوں نے اس دعوت کو قبول نہ کیا وہ ناکام ہوگیے۔
اب بھی جو شخص کامیاب ہونا چاہ رہا ہے وہ ایسی ذات کا محتاج ہے جو کامل و اکمل ہو۔ وہ ذات حضور (صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم) کی ذات اقدس ہے۔
یہ ایسی ذات ہے جن کہ بارے میں ایک عاشق لکھتے ہیں کہ
"وہ کمالِ حسن حضور ہے کہ گمانِ نقص جہاں نہیں

جرائم کی وجوہات




جرائم کی وجوہات  


ہمارے معاشرے میں دن بدن مسائل و جرائم بڑھتے جارہے ہیں 
( چوری ، ڈکیتی ، زیادتی ، خود کشی وغیرہ وغیرہ )
گرچہ حکومت ان کی سزائیں بھی مقرر کر رہی ہے 
جیسا کہ حالی ہی اندر سیالکوٹ میں ایک عورت سے زیادتی کی گئ  
اس طرح کے کئ واقعات آئے دن ہوتے رہتے ہیں
ان میں سے کئ مجرموں کو تو سزا بھی نہیں ملتی اور کچھ کو سزا مل بھی جاتی ہے 

لیکن میرا عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ حکومت کوئ ایسا شعبہ ، کمیٹی قائم کرے جو ان بڑھتے جرائم کی وجوہات کو تلاش کرے پھر حکومت ان وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرے
اس طرح سے جرائم کم ہونگے
اور کئ جانیں اور عزتیں  محفوظ رہیں گیں 

💓........رشتوں کی اہمیت...........💓




💓........رشتوں کی اہمیت...........💓


آج اس زمانے میں دوست , دوست کو قتل کر رہا ہے دولت کی خاطر ،
بیٹا ماں کو مار رہا ہے اسی جائیداد کی بناء پر ،
اس دولت و جائیداد کی بناء پر کیا سے کیا نہیں ہو رہا ؟

حالانکہ اے میرے پیارے بھائیو ❗
 اس دنیا میں رشتوں کی حاجت پڑتی ہے۔
اسلئے کہ اس دنیا میں آپ کا کوئ ہاتھ پکڑنے والا ہو گا تو آپ کی تکلیفیں کم ہو جائیں گیں۔

🖤 ایک بات یاد رکھنا 
"" آپ اکیلے ہیں تو آپ کی خوشی غم میں تبدیل ہو جائے گی کیونکہ آپ کے ساتھ خوشی منانے والا کوئ ساتھ نہیں ہے ""

خوشیاں بڑھتی ہیں اپنوں کے ساتھ آپ کے رشتے دار ہیں تو آپ کی ایک خوشی دس خوشیوں میں تبدیل ہو جائے گی۔

🤎 اس دنیا میں کسی غمگسار کا ہونا بھی ضروری ہےجو آپ کے ساتھ ہو ۔۔۔؛؛؛؛؛؛
آپ کے غم میں شریک ہو۔۔۔۔،،،،،،

💌 آج ہم اور آپ اشیاء کو اہمیت دیتے ہیں۔انسانوں کو استعمال کرتے ہیں۔
لیکن ہونا تو اسطرح چاہیے کہ 
انسانوں کو اہمیت دیتے اور
اشیاء کو استعمال کی حد تک رکھتے۔۔۔۔؛؛؛؛
 
رشتے کیوں بکرتے ہیں ؟؟؟
اس کی "10" وجوہات عرض کرتا ہوں۔

1️⃣ بد اخلاقی کی بناء پر :-

2️⃣ بد گمانی کی بناء پر :-

3️⃣ شک کی بناء پر :-

4️⃣ عدم برداشت کی بناء پر :-

5️⃣ عدم عاجزی کی بناء پر :-

6️⃣ عدم اعتمادی کی بناء پر :-

7️⃣ حرص کی بناء پر :-

8️⃣ جائیداد کی بناء پر :-

9️⃣ لا شعوری کی بناء پر :-

🔟 دوسروں کی باتوں میں آنے کی بناء پر :-

🌐 طالب علم کی تعریف 🌐




🌐 طالب علم کی تعریف 🌐


جب ایک طالب علم سے کوئ بندہ طالب علم کی تعریف معلوم کرتا ہے تو سامنے سے جواب آتا ہےکہ 
                                 طالب علم وہ ہوتا ہے جو علم کوطلب کرے یا علم کو حاصل کرے۔۔
                            اگر اکثر بولو تب بھی غلط نہیں ہوگا کہ طالب علم کی اکثر طور پر یہی تعریف بیان کی جاتی ہے۔
                         اور یہی تعریف مشھور ہے۔
              ہالانکہ طالب علم کی تعریف
( : غور و فکر کرنا ،
کسی چیز میں تدبر کرنا ،
اشیاء میں تفکر کرنا : )
یہ ہے ۔۔
 
🌴 جب طالب علم کو استاذ صاحب ایک بات سمجھائے تو
پھر طالب علم کو چاہیے کہ اس بات میں مزید غور و فکر کرے کہ اس ایک بات میں اور کیا کیا باتیں ہوسکتیں ہیں۔؟؟

🌲 جیسے استاذ نے طالب علم کو سمجھایا کہ جھوٹ حرام ہے۔
تو اب طالب علم سوچے کہ جھوٹ کے کیا کیا نقصانات ہوسکتے ہیں ؟؟
اور کیا کیا خرابیاں ہیں ؟؟
و علی ھذا القیاس

♣️ فیصلہ کس بنیاد پر ہو۔۔؟ ♣️




♣️ فیصلہ کس بنیاد پر ہو۔۔؟ ♣️


ایک بات یاد رکھیں کہ "" فیصلہ "" کامیابی اور ناکامی دونوں پر اثر ہوتا ہے۔اور فیصلے کے اثرات مستقبل کے ساتھ جُڑے ہوتے ہیں۔
فیصلوں کی وجہ سے مستقبل متاثر ہوتا ہے۔آج ہم اور آپ جس مقام پر کھڑے ہیں۔یہ بھی ہمارے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔اور جس مقام پر نہیں ہیں۔یہ بھی ہمارے اور آپ کے فیصلوں کی وجہ سے ہے۔

🍂 یہ فیصلے کبھی ماضی میں کیے تھے۔اور ان فیصلوں کے اثرات آج نتائج دے رہے ہیں۔

⚘ انسان کی خوش بختی اور بد بختی دونوں بھی فیصلوں سے جُڑی  ہوتی ہیں۔
اگر کسی مجرم سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر کیسے پہنچے۔تو وہ آپ کو جواب دے گا کہ مجھ سے ایک غلط فیصلہ ہوگیا تھا۔
اور اگر کسی کامیاب شخص سے پوچھا جائے کہ آپ یہاں پر  کیسے پہنچے تو وہ جواب دے گا کہ میں نے کچھ ایسے فیصلے کیے تھے۔جنھوں نے مجھے اس مقام پر لا کر کھڑا کیا ہے۔

🍁 تاریخ کے جتنے بھی کامیاب یا ناکام انسان ہیں۔وہ فیصلوں کی وجہ سے کامیاب یا ناکام ہوئے ہیں۔

🍀 قسمت کا وہ ایک حصہ جسے بدلا جا سکتا ہے۔ اس کی بنیاد بھی فیصلوں پر ہے۔اگر آپ کا فیصلہ مضبوط اور واضح اور خود اعتمادی کے ساتھ ہے۔تو آپ کا یہ حصہ خوش قسمتی میں تبدیل ہو جائے گا۔

🌺 جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے تو وہ کامیاب نہیں ہونگے۔کیونکہ جب تک ان کے پاس فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہو گی۔تو وہ کامیابی تک کیسے پہنچے گیے۔

🕸 اب سوال یہ ہے کہ !! فیصلے !!
کا مطلب کیا ہے     ؟؟؟
اور فیصلہ کس بنیاد پر کیا جائے  ؟؟

🌹 جلد بازی نہیں کرنا🌹




🌹 جلد بازی نہیں کرنا🌹


💐  ایک باپ کے 4 بیٹے تھے۔ باپ نے سوچا کہ ان بیٹوں کو نصیحت کرنی ہے کہ کبھی بھی 
" جلدی میں کوئ فیصلہ مت کرنا "
اب باپ یہ سوچ رہا تھا کہ یہ نصیحت کس طرح کروں کہ ان کو سمجھ میں آجائے۔
اسی جستجو میں اس کو خیال آیا اور بیٹوں کو بُلا کر کہا کہ فلان علاقے میں ایک ' ناشپتی ' کا درخت ہے ۔۔۔۔؛؛
ایک بیٹا سردی میں جائے 
ایک بیٹا خزاں میں جائے
ایک بیٹا بہار میں جائے
ایک بیٹا گرمی میں جائے
اس درخت کو دیکھ کر آئیں۔
کہ درخت کس حالت میں ہے۔؛؛

⚘ مختلف موسموں میں چاروں بچے  باری باری دیکھنے کیلئے گئے اور واپس آگئے۔۔؛؛

🍂 اب باپ نے چاروں کو اپنے پاس بلایا اور درخت کی کیفیت معلوم کی کہ درخت کس حالت میں تھا ۔۔؛؛

🍁 سردی میں جانے والے نے کہا کہ درخت زمین کی طرف مائل تھا
اور بد صورت تھا۔۔؛؛

🍃 خزاں میں جانے والے نے کہا کہ نہیں درخت تو زمین سے اٹھا ہوا تھا اور بد صورت نہیں تھا۔۔؛؛

🥀 بہار میں جانے والے نے کہا کہ نہیں درخت پر پتے وغیرہ تھے۔۔؛؛

🌷 گرمی میں جانے والے نے کہا کہ نہیں درخت پر پتے بھی تھے اور اس درخت سے خوشبو بھی مہک رہی تھی۔۔؛؛

🌿 باپ نے چاروں کی باتیں سن کر کہا تم چاروں اپنی جگہ پہ درست بول رہے ہو ۔۔؛؛
کہ سردی میں ٹھنڈ کی وجہ سے درخت بد صورت لگتا ہے
اور گرمی میں سورج کی کرنیں پڑنے سے اپنی حالت پہ آجاتا ہے۔۔؛؛

*پیارے آقا کی پیاری پیاری ادائیں*




*پیارے آقا کی پیاری پیاری ادائیں*


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

رسولِ محتشم، نبیِّ مُکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پاکیزہ اور مبارَک سیرت رہتی دنیا تک  کے لئے مَشعلِ راہ ہے۔ آپ کی ہر ہر ادا میں ڈھیروں حکمتیں چُھپی ہیں، عاشقانِ رسول ان اداؤں کو بجا لانا اپنے لئے باعثِ فخر سمجھتے ہیں اور اسے دِین و دنیا کا سَرمایہ جانتے ہیں۔ ایک عاشقِ رسول اپنے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اداؤں کو بجا لانے کے لیے گویا کہ موقع تلاش کرتا رہتا ہے، آئیے! پیارے مُصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری اداؤں کے بارے میں جانتے ہیں:

(1) *رَفتار مبارَک:* 

پیارے آقا، مکی مدنی مصطفیٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تو پاؤں جما کر چلتے گویا آپ بلندی سے نیچے اُترتے معلوم ہوتے۔
(📗وسائل الوصول الی شمائل الرسول،ص60)

 ایک روایت میں ہے کہ جب آقا کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چلتے تھے تو پوری قُوّت سے چلتے تھے اور کاہل کی طرح نہیں چلتے تھے۔
( 📗سبل الہدیٰ والرشاد،الباب الثالث فی مشیہ،۷/۱۵۹) 

(2) *چھینکنے کا انداز:* 

سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بلند آواز سے چھینکنے کو نا پسند فرماتے تھے۔ جب چھینک آتی تو منہ مبارَک کو کپڑے یا ہاتھ مبارک سے ڈھانپ لیتے۔
(📗وسائل الوصول الی شمائل الرسول، ص99)

(3) *آرام فرمانے کا انداز:* 

رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سوتے وقت اپنا دایاں ہاتھ مبارک رُخسار کے نیچے رکھتے۔
(📗سبل الہدیٰ والرشاد،7/253) 

اور یہ دُعا پڑھتے: *اَللّٰهُمَّ بِاسْمِكَ اَمُوتُ وَ اَحْيَا* یعنی اے اللہ میں تیرے نام کے ساتھ ہی مرتا اور جیتا ہوں (یعنی سوتا اور جاگتا ہوں) اور جب بیدار ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: *اَلْحَمْدُلِلَّهِ الَّذِي اَحْيَانَابَعْدَ مَا اَمَاتَنَا وَاِلَيْهِ النُّشُور* یعنی شکر ہے اللہ کا جس نے ہمیں مر جانے کے بعد زندہ کیا اور اُسی کی طرف اُٹھنا  ہے۔
(📗شمائل محمدیہ، ص157، حدیث:243)

(4) *پانی پینےکا انداز:* 

سرکارِ مکۂ مکرمہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پانی تین(3) سانس میں نوش فرماتے۔
(📗مسلم، ص863،حدیث:5287)


(5) *خُوشبو کااستعمال:*

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خوشبو پسند تھی، خوشبو کا تحفہ رَد نہ فرماتے، مُشک و عنبر خوشبو استعمال فرماتے۔
(📗مواہبِ لدنیہ،2/70)

(6) *آئینہ دیکھنے کا انداز:*

*بے مثل و بے مثال آقا کی جسمانی طاقت*




*بے مثل و بے مثال آقا کی جسمانی طاقت*


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جن کی عزت و عظمت سب سے زیادہ ہے، جن کا ہر ایک پر رُعب و دَبدَبہ ہے، جنہیں ہر ایک پر غلبہ حاصل ہے، جنہیں ہر طاقت و قوّت عطا کی گئی ہے، جن کی سرداری ہر ایک پر ظاہر ہے، جن کی حکومت ہر شے پر قائم ہے، جو دنیا و آخرت میں ہماری بگڑی بنانے والے ہیں، ہمیں تکالیف و مصیبتوں سے نجات دِلانے والے ہیں، جس طرح دوسرے خصائص میں آقا عَلَیْہِ السَّلَام کا کوئی ثانی نہیں تھا، اسی طرح جسمانی طاقت میں بھی آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بے مثل و بے مثال تھے۔

*میرے آقا اور یزید بن رُکانہ*

رُکانہ عرب کا ایک مشہور اور طاقتور پہلوان تھا۔ اس کا ایک بیٹا جس کا نام یزید تھا وہ بھی مانا ہوا پہلوان تھا۔ ایک بار یہ تین سو (300) بکریاں لے کر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا اور کہا کہ اے محمد! (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) آپ مجھ سے کشتی لڑیئے۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ اگر میں نے تمہیں پچھاڑ دیا تو تم کتنی بکریاں مجھے انعام میں دو گے؟ اس نے کہا کہ ایک سو (100) بکریاں میں آپ کو دے دوں گا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تیار ہو گئے اور اس سے ہاتھ ملاتے ہی اس کو زمین پر پٹخ دیا اور وہ حیرت سے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کا منہ تکنے لگا اور وعدے کے مطابق ایک سو(100) بکریاں اس نے آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دے دیں۔ مگر پھر دوبارہ اس نے کُشتی لڑنے کے لئے چیلنج دیا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دوسری مرتبہ بھی اس کی پیٹھ زمین پر لگا دی۔ اس نے پھر ایک سو (100) بکریاں آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دے دیں۔ پھر تیسری بار اس نے کُشتی کے لئے للکارا۔ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کا چیلنج قبول فرما لیا اور کُشتی لڑ کر اِس زور کے ساتھ اس کو زمین پر دے مارا کہ وہ چِت ہو گیا۔اس نے باقی ایک سو (100) بکریوں کو بھی آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں پیش کر دیا۔ مگر کہنے لگا کہ اے محمد! سارا عرب گواہ ہے کہ آج تک کوئی پہلوان مجھ پر غالب نہیں آ سکا،مگر آپ نے تین بار جس طرح مجھے کُشتی میں پچھاڑا ہے اس سے میرا دل مان گیا ہے کہ یقیناً آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خدا کے نبی ہیں، یہ کہا اور کلمہ پڑھ کر دامنِ اسلام میں آ گیا۔ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اُس کے مسلمان ہو جانے سے بے حد خوش ہوئے اور اس کی تین سو(300) بکریاں واپس کر دِیں۔

(📗 زرقانی علی المواہب،الفصل الثانی فیما اکرمہ اللہ ...الخ ،۶/۱۰۳)

*پیارے آقا کا حسن و جمال*




*پیارے آقا کا حسن و جمال*


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

ہمارے نبی بے مثال، پیکرِ حُسن و جَمال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کیسا حُسن و جَمال عطا فرمایا ہے کہ مُسلمانوں نے جب آپ کے  رُخِ زَیبا کو دیکھا تو آپ کے نام پر اپنی جانیں نچھاور کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے اور جب کسی غیر مسلم نے دیکھا تو آپ کا حَسین سراپا، اس کی نظر میں ایسا سَمایا کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ۔ یقیناً اَوَّلین و آخرین میں نہ تو کوئی ایسا تھا نہ ہے نہ ہوگا۔

*لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مِثلِ تو نہ شُد پیدا جانا*

*جگ راج کو تاج تورے سَرسو ہے تجھ کو شہِ دَوسَرا جانا*

یعنی یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ جیسا تو کبھی نہ دیکھا گیا، نہ آئندہ دیکھا جائے گا، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ جیسا کوئی پیدا ہی نہیں فرمایا، جہانوں کی بادشاہی آپ  ہی کو سجتی ہے، اس لئے ہم نے آپ کو جہانوں کا بادشاہ مان لیا ہے ۔

*حُسنِ یُوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگُشتِ زناں*

نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسن و جمال کا اَندازہ اس بات سے لگایئے کہا للہ تبارَکَ و تعالیٰ نے تمام حَسین و جمیل اَشیاء کو پیدا فرما کر پُوری کائنات کو حُسن و جَمال بخشا اور پھر پُوری کائنات کے حُسن سے بڑھ کرحضرتِ سیِّدُنا یُوسف عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حُسن و جَمال عطا فرمایا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حُسن و جمال کا یہ عالَم تھا کہ جب مِصْر کی عورتوں نے آپ کو دیکھا ،توآپ کے حُسن میں ایسی خُود رَفْتہ اور گُم ہوئیں کہ بے خُودی کے عالَم میں اُنہوں نے  اپنے ہاتھ کی اُنگلیاں تک کاٹ ڈالیں ۔اس واقعے کو قرآنِ کریم نے ان اَلفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے:چُنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :

*فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(۳۱)*

 (پ۱۲،یوسف:۳۱)         

میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذریعہ نجات




*میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ذریعہ نجات*

مشہور محدث علامہ ابن جوزی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں 

ہر وہ شخص جو میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر خوش ہوا تو اللہ تعالی نے اس (خوشی) کو آگ سے محفوظ رہنے کیلئے حجاب اور ڈھال بنادی اور جس نے میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک درھم خرچ کیا  بروز قیامت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے شفاعت کرنے والے ہونگے ، اللہ تعالی اسے ہر درھم کے بدلے دس درھم عطا فرمائے گا۔

اے امت محمدیہ تمھیں خوشخبری ہو کہ تم خیر کثیر کو پایا 
سعادت مند ہے وہ جو احمد صلی اللہ علیہ وسلم کے میلاد کیلئے کوئی کام کرتا ہے تو اسے خوشی ،عزت، بھلائی دی جاتی ہے 
اور جنت عدن میں ہوگا جس کے نیچے مرصع موتی ہونگے 

(المولد العروس ص 11)

*✍محمد ساجد مدنی*

24-10-2020

ہر سال ایام معین کرکےمیلاد منانےکی ایک دلیل..........!!




ہر سال ایام معین کرکےمیلاد منانےکی ایک دلیل..........!!

الحدیث:
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَمَّا قَدِمَ المَدِينَةَ، وَجَدَهُمْ يَصُومُونَ يَوْمًا، يَعْنِي عَاشُورَاءَ، فَقَالُوا: هَذَا يَوْمٌ عَظِيمٌ، وَهُوَ يَوْمٌ نَجَّى اللَّهُ فِيهِ مُوسَى، وَأَغْرَقَ آلَ فِرْعَوْنَ، فَصَامَ مُوسَى شُكْرًا لِلَّهِ، فَقَالَ «أَنَا أَوْلَى بِمُوسَى مِنْهُمْ» فَصَامَهُ وَأَمَرَ بِصِيَامِهِ
ترجمہ:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو وہاں کے لوگ ایک دن یعنی عاشورا کے دن روزہ رکھتے تھے۔ ان لوگوں نے کہا کہ یہ بڑی عظمت والا دن  ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی تھی اور آل فرعون کو غرق کیا تھا۔ اس کے *#شکر* میں موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں موسیٰ علیہ السلام کا ان سے زیادہ قریب ہوں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  خود بھی اس دن کا روزہ رکھنا شروع کیا اور صحابہ کرام کو بھی اس کا حکم فرمایا۔
[صحيح البخاري ,4/153حدیث3397]
ایسی حدیث پاک مسلم ابن ماجہ طبرانی شعب الایمان صحیح ابن حبان وغیرہ کئ کتب میں ہے
.
علامہ شامی علیہ الرحمۃ نقل فرماتے ہیں کہ:
فيستفاد من فعل ذلك شكرا لله تعالى على ما من به في يوم معين من إسداء نعمة أو دفع نقمة، ويعاد ذلك في نظير ذلك اليوم من كل سنة، والشكر لله تعالى يحصل بأنواع العبادات والسجود والصيام والصدقة والتلاوة، وأيّ نعمة أعظم من النعمة ببروز هذا النبي الكريم نبيّ الرحمة في ذلك اليوم؟

اذان،سنت ظہر ، فقہ حنفی اور غیرمقلدیت...........!!




اذان،سنت ظہر ، فقہ حنفی اور غیرمقلدیت...........!!

سوال:
①ایک بھائی نے سوال کیا کہ علامہ صاحب ایک غیرمقلد دوست نے کہا ہے کہ ظہر کےفراءض سے پہلے تم لوگ چار رکعت اکھٹے سنت پڑھتے ہو یہ سنت و حدیث کے خلاف فقہ حنفی کا حکم ہے...دو دو رکعت کرکے پڑھو،
②ایک دوسرے بھائی نے سوال کیا کہ علامہ صاحب ہمارے ہاں بحث چھڑ گئ ہے ایک صاحب کہتا ہے کہ اذان میں تم لوگ اللہ اکبر وغیرہ دو دفعہ کہتے ہو جبکہ حدیث و سنت میں ایک ایک مرتبہ ہے
.
جواب:
الحدیث:
[ ایاکم و ایاھم لا یضلونکم و لا یفتنونکم ]
’’گمراہوں بدمذہبوں سے دور بھاگو ، انہیں اپنے سے دور کرو ، کہیں وہ تمہیں بہکا نہ دیں، کہیں وہ تمہیں فتنہ میں نہ ڈال دیں‘‘(صحیح مسلم1/12)
.
الحدیث:
الرجل على دين خليله، فلينظر أحدكم من يخالل
ترجمہ:
ہر شخص اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو تمہیں سوچنا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو
(ترمذی حدیث2378)
.
لیھذا بدمذہبوں گمراہوں سے دور رہیے ان سے دوستی نہ رکھیے کہ آہستہ آہستہ طریقے سے یہ اپنے جال میں پھنسا لیتے ہیں...الا یہ کہ دوستی انکو سمجھانے کے لیے ہو یا اگر مجبورا لین دین ہو, کلیک و ہم کلاس ہو تو قدرِ ضرورت پر اکتفاء کیجیے کام سے کام رکھیے کوئی دینی بحث و بات چیت نہ کیجیے کہ خطرہ ہے کہ کہیں وہ بہکا نہ دیں....اگر بات چیت کریں تو بیچ میں پر مغز معتبر اہلسنت عالم کو رکھیں

* پیارے آقا کی مبارک جوانی *




* پیارے آقا کی مبارک جوانی *


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

حُضورِ اَقْدَس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا بچپن کا زَمانہ خَتْم ہوا اور جَوانی کا مُبارَک زَمانہ آیا تو بچپن کی طرح آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی جَوانی بھی عام لوگوں سے نِرَالی تھی۔اِعلانِ نَبُوَّت سے قَبْل بھی حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تمام زِندگی بہترین اَخلاق و عادات کا خَزانہ تھی۔ سچائی، دِیانت داری، وَفاداری، وَعدےکی پابندی، بُزرْگوں کی عَظمت، چھوٹوں پر
 شَفْقَت، رِشتہ داروں سے مَحَبَّت، رَحم و سَخاوت،  قوم کے کام آنا،دوستوں سے ہمدردی، عزیزوں کی غَم خَواری،غریبوں اور مُفْلِسوں کی خَبَر گیری، دُشمنوں کے ساتھ نیک بَرتاؤ، مَخلوقِ خُدا کی خَیْرخَواہی، اَلْغَرَض تمام نیک عادتوں اور اچّھی اچّھی باتوں میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِتنی بُلند مَنْزِل پر پہنچے ہوئے تھے کہ دُنیا کے بڑے سے بڑے اِنسانوں کے لئے وہاں تک رَسائی تو کیا؟اِس کا تَصَوُّر بھی مُمکِن نہیں۔آئیے!  صاحِبِِ جُود و نَوال،پیکرِ حُسنِ وجَمال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی قابِلِ رَشک اور لائقِ تَقْلِید  مبارک جَوانی کے روشن پہلوؤں سے مُتَعَلِّق پڑھتے ہیں۔


*تیری صُورت تیری سِیرت زمانے سے نِرالی ہے*                           
 
دورِ جوانی میں ہمارے آقا و مَوْلیٰ، اَحمدِ مجتبیٰ، محمدِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اَمانت داری، سچّائی اور اچھے اَخلاق کی کِس قَدَر دُھوم دھام تھی کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِن عُمدَہ ترین خُوبیوں کے سبب اپنے پرائے، عَوَام و خَوَاص سَبِھی میں صادِق و اَمِیْن (یعنی سچے اورامانت دار) کے لَقَب سے پہچانے جاتے تھے،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دِیانت داری،سچّائی اور اچّھے اَخلاق کا فَیْضان ہی تو تھا کہ حضرت سَیِّدَتُنا خَدِیجۃُ الکُبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بِلا خَوْف و خَطَر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اپنا تِجارَتی سامان بیچنے کے لئے دے دِیا کرتی تھیں،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دِلْرُبا مَدَنی اَداؤں نے حضرت سَیِّدَتُنا خَدِیجۃُ الکُبریٰ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا جیسی پاک دامَن خاتون کے دِل کو موہ لیا حتّٰی کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا  حُضورِ اَنْوَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے نِکاح کر کے اُمُّ الْمُؤمنِیْن کے شاندار شَرَف سے سَرْفَراز ہوگئیں۔

*تیری صُورت تیری سِیرت زمانے سے نِرالی ہے*                                                                                
     *تیری ہر ہر ادا پیارے دلیلِ بے مثالی ہے*

"کیا سنّت پر عمل کرنا ضروری ہے"




"کیا سنّت پر عمل کرنا ضروری ہے"



یقیناً کامیاب و کامران وہی ہے کہ جوفرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبیٔ کریم ﷺ ٖ کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے کیونکہ فلاحِ دارین کا جو وظیفہ سرکار ﷺ  نے اپنی امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنّت کو مضبوطی سے تھام لیں چنانچہ 
سنت کو مضبوطی سے تھام لو:
حضرت سیّدنا عِرباض بن سارِیہ   سے مروی ہے کہ رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو ۔ (ابوداؤد، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ، ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا دار احیاء التراث العربی بیروت 1426ھ) 
نبی کریم  ﷺ کی  اطاعت کی ضرورت و  اہمیت:
اللہ ﷯ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿ اٰل عمران۳۱﴾
ترجمہ کنزالایمان:
 اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ایک  اور مقام  پر ارشادِ خدا وندی ہے۔
قُلْ اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲ اٰل عمران﴾ 
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کاپھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔

اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! ﷺ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ  تعالیٰ نے میری اطاعت اس لئے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ اس کے رسول ہی ہیں اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہ ہو گی اور اللہ  تعالیٰ انہیں سزادے گا۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳/۱۹۸، جلالین،  اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۹، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت  ﷺ کی اطاعت ہی محبت ِ الٰہی  عَزَّوَجَلَّ کی دلیل ہے اور اسی پر نجات کا دارو مدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کاحصول، اپنی خوشنودی اور قرب کو حضور پرنور  ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب کسی کو رضا و قربِ الٰہی ملے گا تو محبوبِ رب  ﷺ کی غلامی کے صدقے ملے گا ورنہ دنیا جہاں کے سارے اعمال جمع کرکے لے آئے، اگر اس میں حقیقی اطاعتِ مصطفی  ﷺ موجود نہ ہوگی وہ بارگاہ ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یقینا قطعا ًمردود ہوگا۔ 

حضور کا باکمال بچپن





*حضور کا باکمال بچپن*


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

*12 ربیعُ الاول شریف بَمُطابِق 20 اپریل571؁ بروز پیر صُبحِ صادِق کی روشن و مُنوَّر سُہانی گھڑی میں ہَمارے پِیارے آقا، حبیبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ كی صُورت میں اَزَلی سَعادَتوں اور اَبَدی مُسَرَّتوں کا نُور بَن کر مكہ مُکرَمَہ میں پیدا ہوئے۔* 

(📗اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ لِلْقَسْطَلَانِیّ ج۱ ص۶۶۔۷۵ملتقطا)

*جس سُہانی گھڑی چمکا طیبہ کا چاند*
*اس دِل افروزْ ساعت پہ لاکھوں سلام*

اللہ عَزَّوَجَلَّ کے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ولادتِ باسعادت ہوتے ہی ظُلمَت کے بادَل چَھٹ گئے ، شاہ ِایران کِسریٰ  کے مَحل پر  زَلزَلہ آیا ، چودہ (14) کُنْگرے گِرگئے ، اِیران کا آتَش کَدہ جو ایک ہزار (1000) سال سے شُعلہ زَن تھا  وہ بُجھ گیا اور دَریائے ساوَہ خُشک ہوگیا اور کعبہ کو وجد آگیا ۔
(📗صبح  بہاراں ، ص  ۲)

*چاند سا چمکاتے چہرہ نور برساتے ہوئے*
*آگئے بدرُ الدُّجٰی، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*

*جُھک گیا کعبہ سبھی بُت منہ کے بل اَوندھے گِرے*
*دَبْدَبہ آمد کا تھا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*

*چودہ کنگورے گِرے آتشکدہ ٹھنڈا ہوا*                           *سٹپٹا شیطاں گیا ، اَھلاً وَّ سَہلاً مرحبا*

                                                                                       (وسائل بخشش،ص۱۴۶،۱۴۷)

*پیارے آقا کی والدہ ماجدہ*

آقائے دوجہاں ،رحمتِ عالَمِیاں ،محبوبِ رَحماں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی وِلادَت کے بعد سب سے پہلے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی والِدہ ماجِدہ حضرت سیِّدَتُنا بی بی آمنہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے اپنے نُورِ نظر اور لختِ جگر کو دُودھ پلایا پھر ابولَہب کی آزاد کردہ کنیز حضرت ثُوَیْبَہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا نے یہ شرف پایا۔ اِن کے بعد آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو دُودھ پلانے کی سَعادَت حضرت سیِّدَتُنا حَلیمہ سَعدِیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کے حصّے میں آئی ۔ 

(📗سیرتِ رسولِ عربی،ص۵۹)

* انبیاء کرام اور شانِ مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم *





* انبیاء کرام اور شانِ مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم *


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

ہمارے آقا و مولی، دو عالم کے داتا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمام اچھے اوصاف سے مزین فرمایا ہے اور ہر عیب سے پاک پیدا فرمایا، کئی زمانے آئے اور گُزر گئے مگر آج تک ایسی شان و شوکت ،عزت و مرتبت والا کوئی آیا ہے نہ آئے گا۔ آج ہم انبیائے کرامصل  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی زبانی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان و عظمت سے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے۔اعلیٰ حضرت ،امام عشق و محبت  مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا بہت ہی پیارا شعر سُنتے ہیں۔

*تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا*
*تِری خِلق کو حق نے جمیل کیا*

*کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا*
*ترے خالقِ حُسن و اَدا کی قسم*

*حدائق بخشش ،ص80*

*شانِ مُصْطَفٰے بزبانِ کلیم اللہ*

نبیِ کریم ،رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :جب حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر تورات نازِل ہوئى اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کو پڑھا  تو اس مىں ایک  اُمَّت کا ذکر دیکھ کر کہنے لگے۔ یا ربّ (عَزَّوَجَلَّ) میں نے  تورات مىں اىک ایسى اُمَّت کا تذکرہ پڑھا  ،جو سب سے آخر میں آئے گی اور سب پرسبقت لے جائے گی،اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ) :تُو اُس اُمَّت کو میری اُمَّت بنا دے!تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد  فرماىا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے *‘‘حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی*:اے میرے  پروردگار (عَزَّوَجَلَّ) ! میں نے تورات میں ایک ایسى اُمَّت کا تذکرہ پڑھا جو خدا (عَزَّوَجَلَّ) کو پُکارے گی  اور ان کى دعائیں قبول ہوں گى، اس امّت کو میرى اُمّت بنادے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد  فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے،حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی، اے مالک (عَزَّوَجَلَّ)! میں نے  تورات مىں ایک ایسی اُمَّت کا تذکرہ پڑھا، جن کى کتاب ان کے سینوں مىں محفوظ ہو گى اور وہ اس کی  زبانى تلاوت کریں گے،کیونکہ پہلے کے لوگوں کو اپنی آسمانی کتابیں زبانی یاد نہیں ہوتی تھیں، وہ اُنہیں دیکھ کر پڑھتے تھے،تو عرض کی :اُس امّت کو میری اُمَّت بنا دے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ*، وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى امت ہے، حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ)! میں نے تورات مىں ایک ایسی امّت کا تذکرہ پڑھا  کہ جو اپنے ہى رشتے داروں کوصدقہ دے گی،اور اس پر بھی انہیں اَجْر دیا جائے گا، اس امّت کو مىرى اُمَّت بنادے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمَّت ہے ۔حضرت  موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:اے میرے پروردگار (عَزَّوَجَلَّ)!  مىں نے تورات میں ایک ایسی اُمَّت کا تذکرہ پڑھا  کہ اُس کا کوئی فرد نیکی کا اِرادہ کرے گا تو صرف اِرادہ کرنے پر ہی اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کر دیا جائے گا اور اگر وه اُس نیکی کو کر لے گا تو اُسے دس (10) نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا، اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ) :اُس اُمَّت کو میری اُمّت بنا دے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ بھی احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے حضرت موسىٰ  عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی ، اے میرے رَبّ  (عَزَّوَجَلَّ)!  میں نے تورات میں ایک ایسی اُمّت کا تذکرہ پڑھا کہ جب اُس کا کوئی فرد گُناہ کا ارادہ کرے گا تو گُناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر گُناہ کر لےگا تو صرف ایک گُناہ لکھا جائے گا تو اے میرے مالک (عَزَّ وَجَلَّ): اس اُمّت کو میری اُمَّت بنا دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی یہ بھى احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمت ہے، حضرت سیدنا موسىٰ کلیم اللہ عَلَیْہِ السَّلَام  نے عرض کی: اے میرے رَبّ (عَزَّوَجَلَّ) میں نے تورات میں ایک ایسی اُمّت کا تذکرہ پڑھا کہ جنہیں اگلے پچھلوں کا علم عطا ہوگا اور وہ گمراہى کو مٹا دیں گے اور دَجّال کو قتل کریں گے، پروردگار! (عَزَّوَجَلَّ) اُس اُمَّت کو میری اُمَّت بنادے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* کہ وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمّت ہے۔تو موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : پھر مجھے اُمّتِ احمد میں سے بنا دے ،اس دُعا پر خدا تعالىٰ نے حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دو خُصُوصیات سے نوازتے ہوئے فرمایا،اے موسىٰ مىں نے تمہىں اپنے پىغامِ (رسالت) اور اپنے کلام کے لىے چُن لیا ہے ، اور جو کچھ میں تم کو دے رہا ہوں اسے لو اور شُکر گزاروں میں سے  ہوبجاؤ،اس ارشاد پر حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا،اے رَبّ (عَزَّوَجَلَّ) میں راضى ہوگىا۔

(📗دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الرابع:ذکر الفضیلۃ…الخ،ص۳۳،حدیث:۳۱ )


*شانِ مُصْطَفٰے بزبانِ آدم صَفِیُ اللہ*

حضرت سَیِّدُنا آدم صفیُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذاتِ مقدسہ سے کون ناواقف  ہے کہ جنہیں ربّ تعالٰی نے تمام انسانوں کے باپ (والد) بننے کا شرف عطا فرمایا، تمام فرشتوں سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو سجدہ کروایا اور اپنی بنائی ہوئی جنّت کا نظارہ کروایا، اس قدر بلند و بالا رُتبہ نصیب ہونے کے باوجود حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی محبت کا عالم تو مُلاحظہ فرمائیے کہ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے  نورِ نظر حضرت شِیْثْ عَلَیْہِ السَّلَام کو نصیحت کرتے ہوئے ان کے سامنے بڑے ہی دلنشین انداز میں تاجدارِ انبیاء، محبوبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدح سرائی فرمائی اور انہیں ذکرِ مُصْطَفٰے کرتے رہنے کی تلقین بھی ارشاد فرمائی۔ چنانچہ

سیدنا حسن، سیدنا معاویہ اور شیعہ..........!!




سیدنا حسن، سیدنا معاویہ اور شیعہ..........!!

.
5ربیع الاول سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن ہے...ایصال ثواب کیجیے،مستند کتب سےانکی سیرت کا مطالعہ کیجیےپیروی کیجیے
.
 مات  الحسن بن علي لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی
(كتاب الطبقات الكبرى - متمم الصحابة - الطبقة الخامسة1/354)
.
وتوّفي لخمس ليالٍ خلون من ربيع الأول
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی
(صفۃ الصفوۃ1/350)
.
 مات الحسنُ بن  علي لخمس ليالٍ خَلَوْنَ من شهر ربيعٍ الأول
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی
(مرآۃ الزمان7/133)
.
ومات لخمس ليال خلون من شهر ربيع الأول
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی
(نسب قریش ص40)
.
الحَسَنْ)وَكَانَت وَفَاته لخمس خلون من ربيع الأول 
سیدنا حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی وفات پانچ ربیع الاول میں ہوئی
(سمط النجوم3/102)
.
*#سیدنا_حسن کے بعض فضائل:*
الحدیث:
عَانَقَهُ وَقَبَّلَهُ وَقَالَ : " اللَّهُمَّ أَحْبِبْهُ، وَأَحِبَّ مَنْ يُحِبُّهُ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حسن کو گلے لگایا اور بوسہ دیا اور فرمایا یا اللہ اسے محبوب رکھ اور اُسے بھی محبوب رکھ جو ان سے(سچی برحق)محبت رکھے
(بخاری حدیث2122)
.
الحدیث:
مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ، وَالْحُسَيْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي
جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض کیا اس نے مجھ سے بغض کیا
(ابن ماجہ حدیث143)

حضور_علیہ_السلام_کے_اخلاق_کریمہ




حضور_علیہ_السلام_کے_اخلاق_کریمہ


1   آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑھ کر وسعت قلبی والے اور سب سے بڑھ کر نرم مزاج تھے اور سب سے بڑھ کر خندا پیشانی سے ملنے والے اور سب سے بڑھ کر جود و سخا والے تھے 
جو آپ کو اچانک دیکھتا اس پر رعب طاری ہوجاتا اور جو آپ کو پہچانتا آپ کو پسند کرتا آپ سے محبت کرتا 

2   آپ علیہ السلام بہت ذیادہ رحیم و شفیق تھے آپ اپنی ازواج کی وحشت دور کرتے ان کو مانوس کرتے تھے اور گھریلو معاملات میں انکی مدد کرتے تھے ان کی تعظیم کرتے  
3   آپ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹوں پر لطف فرماتے اور جب ان سے ملتے تو سلام میں پہل فرماتے اور جب بیٹی آتی تو اسکی تعظیم کرتے اور اسکے ساتھ خوش اخلاقی کا معاملہ فرماتے 
اور بچوں کی دین و دنیا کی تعلیم دینے پر لوگوں کو ابھارتے اور انکے درمیان برابری کرنے پر ابھارتے

4   اسی طرح اپنی امت پر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم شفقت فرمانے والے ہیں بلکہ دشمنوں پر بھی اسی قدر شفیق ہیں حالانکہ وہ آپ کو جھٹلاتے آپ کو تکلیفیں دیتے اور آپ سے برائی کرتے 
یہاں تک کہ آپ کی رحمت و شفقت اس قدر عظیم تھی کہ قرآن میں بہت سی آیتیں ایسی ہیں جس میں آپ کو تخفیف و کمی کا فرمایا جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے فلا تذھب نفسک علیھم حسرات لعلک باخع نفسک