یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

مختارِ کُل صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور کثرتِ سخاوتِ





*مختارِ کُل صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور کثرتِ سخاوتِ *


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

ہمارے پیارے آقا، مدینے والے مُصطفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کس قدر سَخاوت فرمایا کرتے تھے کہ کوئی بھی چیز اپنے پاس رکھنا گوارا نہ فرماتے، بلکہ جب تک لوگوں میں تقسیم نہ فرما دیتے، اس وقت تک مُطْمَئِن نہ ہوتے تھے ،خود کسی چیز کی حاجت ہونے کے با وُجُود بھی غریبوں اور مُحتاجوں پر صَدَقہ کر دیا کرتے  اور سائل کو اس قدر نوازتے کہ اُسے دوبارہ مانگنے کی حاجت ہی پیش نہ آتی۔

*سخاوت ہو تو ایسی ہو*

شہنشاہِ نَبوُّت، قاسمِ نعمت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ سَخاوت بیان کرتے ہوئے حضرت سَیِّدُنا عبدُﷲ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  لوگوں میں سب سے بڑھ کر سخی ہیں اور سَخاوت کا دریا سب سے زِیادہ اس وَقْت جوش پر ہوتا ،جب رَمَضان میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  مُلاقات کے لئے حاضِر ہوتے، جبرئیلِ امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (رَمَضانُ المبارَک کی) ہر رات میں حاضِر ہوتے اور رسولِ کریم، رءُوفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَ التَّسْلِیْم ان کے ساتھ قرآنِ عظیم کا دَور فرماتے ۔''پس رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ تیز چلنے والی ہوا سے بھی زیادہ خیر کے معاملے میں سخاوت فرماتے۔ 
 
(📗فیضانِ سنت ،بحوالہ صحیح  بخاری ج۱ص۹حدیث۶)

*واہ کیا جود و کرم ہے شہِ بطحا تیرا*
*نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا*

*دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا* 
*تارے کِھلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا*

حضرت سَیِّدُنا جابر بن عبدُ ﷲ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے کبھی کسی سائل کو جواب میں لاَ (نہیں) کا لفظ نہیں فرمایا۔

(📗شفاء شریف جلد۱ ص۱۱۱)

 ایک بار آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دربارِ گوہر بار میں 70 ہزار دِرہم لائے گئے، تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ درہم ایک چٹائی پر رکھے اور پاس کھڑے ہو کر تقسیم فرمانے لگے۔ کسی سائل کو خالی نہیں لوٹایا، حتّٰی کہ اس سے فارغ ہو گئے۔

(📗اخلاق النبى وآدابه  لابی الشيخ الاصبهانى،واما ما ذكر من جوده و سخائه،الحديث:۹۵،ص۳۰،فيه ذكر سبعين الف درهم )

*لا وَرَبِّ الْعَرْش  جس  کو  جو مِلا  اُن  سے  مِلا*

*بٹتی ہے کونین میں نِعمت رَسُوْلُ اللہ کی*

*ہم بھکاری وہ کریم ان کا خُدا ان  سے فُزوں*

*اور   نہ  کہنا   نہیں  عادت   رَسُوْلُ اللہ   کی*


*پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے سخاوت کے واقعات* 

غزوۂ حُنین میں نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس قدر کثرت سے سَخاوت فرمائی جس کا اَندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اَعراب (دیہات میں رہنے والوں ) میں بہت سوں کو سو سو اُونٹ عطا فرمائے۔

(📗،۳/۱۱۸،حدیث:۴۳۳۷)

حضرت صفوان بن اُمَیّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے (اسلام لانے سے پہلے غزوۂ حُنین کے موقع پر)بکریوں کا سُوال کیا،جن سے دو پہاڑوں کا درمیانی جنگل بھرا ہوا تھا،آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے وہ سب انکو دے دِیں۔ اُنہوں  نے اپنی قوم میں جا کر کہا: ’’اے میری قوم ! تم اسلام لے آؤ !اللہ (عَزَّ  وَجَلَّ) کی قسم! محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) ایسی سخاوت فرماتے ہیں کہ فَقْر (مُحتاجی) کاخوف  نہیں رہتا۔‘‘

(📗مشکاۃ المصابیح ،کتاب الفضائل والشمائل،ج۲، ص۳۴۶،حدیث۵۸۰۶)

حضرت سعید بن مُسَیِّب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روایت کر تے ہیں کہ حضرت صَفوان بن اُمَیَّہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے کہا کہ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ  تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حُنین کے دن مجھے مال عطا فرمانے لگے، حالانکہ آپ میری نظر میں مَبْغُوض ترین تھے ،پس آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے عطا فرماتے رہے،یہاں تک کہ میری نظر میں محبوب ترین ہوگئے۔ 

(📗سنن الترمذی ،کتاب الزکاۃ،ج۲،ص۱۴۷،حدیث۶۶۶)

علمائے کرام فرماتے ہیں:حُضُورِ اَقْدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اُس ایک دن کی عطا،سخی بادشاہوں کی عُمر بھر کی سخاوت و بخشش سے زائد تھی ،جنگل بکریوں سے بھرے ہوئے ہیں اور حُضُور( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) عطا فرما رہے ہیں اور مانگنے والے ہجوم کرتے چلے آتے ہیں اور حُضُور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) پیچھے ہٹتے جاتے ہیں ۔ یہاں تک کہ جب سب اَموال تقسیم ہولئے،ایک اَعْرابی(یعنی عرب کے دیہات میں رہنے والے) نے رِدائے مُبارَک(یعنی چادر مبارک) بدنِ اَقْدس پر سے کھینچ لی، جس سے مبارک کندھے اور کمر شریف پر اس کا نشان بن گیا ، اس پر اِتنا فرمایا : اے لوگو !جلدی نہ کرو ، واللہ تم مجھے کسی وَقْت بخیل نہ پاؤگے۔

(📗ملتقطاً،صحیح البخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الشجاعۃ فی الحرب۔۔الخ، الحدیث ۲۸۲۱، ج۲، ص۲۶۰،ملفوظات، ص۱۲۲)

اسی طرح حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت ایک چادرلے کر آئی، اس نے عرض کیا: یَارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! یہ میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے ،میں آپ کے پہننے کے لئے لائی ہوں۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ضرورت تھی، اس لئے آپ نے وہ چادر لے لی، پھر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہماری طرف نکلے اور اسی چادر کو بطورِ تہبند باند ھے ہو ئے تھے۔

ایک صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دیکھ کرعرض کی: کیا اچھی چادر ہے یہ مجھے پہنا دیجئے ۔ آپ نے فرمایا: ہاں! کچھ دیر کے بعد آپ مجلس سے اُٹھ گئے، پھر واپس تشریف لائے اور وہ چادر لپیٹ کر اس صحابی کے پاس بھیج دی۔ صحابۂ کرام  عَلَیْہِمُ الرِّضْوان نے اس سے کہا کہ تم نے اچھا نہیں کیا، حالانکہ تمہیں  معلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کسی سائل کا سوال رد نہیں فرماتے۔ وہ  صحابی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہنے لگے:اللہ کی قسم! میں نے صرف اس لئے سوال کیا کہ جس دن میں مر جاؤں یہ چادر (بطورِ تَبرُّک)میرا کفن بنے۔حضرت سہل  بن سعد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ وہ چادر اس کا کفن ہی بنی۔

(📗صحیح البخاری ، کتاب العمل فی اللباس،ج۴،ص۵۴،حدیث۵۸۱۰) 

*مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں*

*دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کےخالی ہاتھ میں*


*وصالِ ظاہر ی کے بعد سخاوتِ مُصطفٰے*

اے عاشقانِ رسول ! ہمارے پیارے پیارے آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ دو جہانوں کے سردار ہیں،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ کو مالک و مختار بنایا، اپنے تمام خزانوں کی چابیاں بھی عطا فرما رکھی ہیں، مگر اپنے پاس کچھ بچا کر نہیں رکھتے ،بلکہ سب تقسیم فرما دیتے۔بلکہ حَیاتِ ظاہری کی طرح وِصالِ ظاہری کے بعد بھی اپنی اُمَّت کے پریشان حالوں پر عطاؤں کی بارش فرماتےہیں۔ اگر کسی ذِہْن میں یہ وَسْوَسہ آئے کہ حُضُورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تو اس دُنْیا سے پردہ فرما گئے تو اب کیونکر سائلوں کی داد رسی فرماتے ہیں؟ تو یاد رکھئے! اللہ عَزَّوَجَلَّ کے تمام نبی اپنے اپنے مزارات میں حیات ہیں۔

سرکارِ اعلیٰ حضرت،شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ اِرْشاد فرماتے ہیں: رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور تمام انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حیاتِ حقیقی، دُنیاوی، رُوحانی اور جسمانی سے زِنْدہ ہیں، اپنے مزاراتِ طیّبہ میں نمازیں پڑھتے ہیں، روزی دئیے جاتے ہیں، جہاں چاہیں تشریف لے جاتے ہیں، زمین و آسمان کی سَلْطَنت میں تَصَرُّف فرماتے ہیں۔ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: *اَلْاَنْبِیَاءُ اَحْیَاءٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْن* یعنی حضراتِ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے مزارات میں زِندہ ہیں اور نماز اَدا فرماتے ہیں۔

(📗مجمع الزوائد  باب ذکر الانبیاء علیہم السلام ۸/ ۳۸۶،حدیث: ۱۳۸۱۲از فتاویٰ رضویہ، ۱۴/۶۷۵)

 جبکہ ایک اور حدیثِ پاک میں ہے: *اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَاءِ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔* یعنی بے شک اللہ    عَزَّوَجَلَّ نے زمین پر انبیائے کِرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے نبی عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زِنْدہ ہیں اور ان کو روزی بھی دی جاتی ہے۔

 (📗سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ذکر وفاتہ ودفنہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، ج۲، ص۲۹۱، الحدیث ۱۶۳۷)

 جبکہ حضرتِ علامہ امام جلالُ الدِّین سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: حضراتِ انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کےلئے مَزارات سے باہر جانے اور آسمانوں اور زمین میں تَصرُّف کی اِجازت ہوتی ہے۔

(📗الحاوی للفتاوٰی رسالہ تنویر الحلک دارالفکر بیروت۲/ ۲۶۳فتاویٰ رضویہ، ج۱۴، ص۶۸۵تا۹۰)