*پیارے آقا کا حسن و جمال*
*پیارے آقا کا حسن و جمال*
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
ہمارے نبی بے مثال، پیکرِ حُسن و جَمال صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے کیسا حُسن و جَمال عطا فرمایا ہے کہ مُسلمانوں نے جب آپ کے رُخِ زَیبا کو دیکھا تو آپ کے نام پر اپنی جانیں نچھاور کرنے سے پیچھے نہیں ہٹے اور جب کسی غیر مسلم نے دیکھا تو آپ کا حَسین سراپا، اس کی نظر میں ایسا سَمایا کہ وہ دائرۂ اسلام میں داخل ہوگیا ۔ یقیناً اَوَّلین و آخرین میں نہ تو کوئی ایسا تھا نہ ہے نہ ہوگا۔
*لَمْ یَاتِ نَظِیْرُکَ فِیْ نَظَرٍ مِثلِ تو نہ شُد پیدا جانا*
*جگ راج کو تاج تورے سَرسو ہے تجھ کو شہِ دَوسَرا جانا*
یعنی یَا رَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ جیسا تو کبھی نہ دیکھا گیا، نہ آئندہ دیکھا جائے گا، کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے آپ جیسا کوئی پیدا ہی نہیں فرمایا، جہانوں کی بادشاہی آپ ہی کو سجتی ہے، اس لئے ہم نے آپ کو جہانوں کا بادشاہ مان لیا ہے ۔
*حُسنِ یُوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگُشتِ زناں*
نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حُسن و جمال کا اَندازہ اس بات سے لگایئے کہا للہ تبارَکَ و تعالیٰ نے تمام حَسین و جمیل اَشیاء کو پیدا فرما کر پُوری کائنات کو حُسن و جَمال بخشا اور پھر پُوری کائنات کے حُسن سے بڑھ کرحضرتِ سیِّدُنا یُوسف عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو حُسن و جَمال عطا فرمایا۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَام کے حُسن و جمال کا یہ عالَم تھا کہ جب مِصْر کی عورتوں نے آپ کو دیکھا ،توآپ کے حُسن میں ایسی خُود رَفْتہ اور گُم ہوئیں کہ بے خُودی کے عالَم میں اُنہوں نے اپنے ہاتھ کی اُنگلیاں تک کاٹ ڈالیں ۔اس واقعے کو قرآنِ کریم نے ان اَلفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے:چُنانچہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے :
*فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(۳۱)*
(پ۱۲،یوسف:۳۱)
تَرْجَمَۂ کنز الایمان :جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا ،اُس کی بڑائی بولنے لگیں ، اور اپنے ہاتھ کاٹ لئے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنسِ بشر سے نہیں ،یہ تو نہیں مگر کوئی معزّز فرشتہ ۔
صَدرُ الْافاضِل حضرت مولانا مُفْتی سیِّد محمد نعیمُ الدِّین مُرادآبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ خَزائنُ الْعرفان میں اس آیتِ مُبارکہ کے تَحت فرماتے ہیں :کیونکہ اُنہوں نے اس جَمالِ عالَم اَفروز (دنیا کے حسن و جمال کو بڑھانے والے حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلَام ) کے ساتھ نُبُوَّت و رِسالت کے اَنوار اور عاجزی و اِنکساری کے آثار اور شاہانہ ہیبت و اِقْتدار اور لذیذ کھانوں اور خُوبصورت چہروں کی طرف سے بے نیازی کی شان دیکھی ، تَعَجُّب میں آگئیں اور آپ کی عَظَمَت و ہیبت دِلوں میں بھر گئی اور حُسن و جمال نے ایسا وارَفْتہ کیا کہ ان عورتوں کو خُود فراموشی ہو گئی۔اور (ان کے ) دل حضرت یُوسُف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے ساتھ ایسے مَشْغُول ہوئے کہ ہاتھ کاٹنے کی تکلیف کا اَصلاً اِحساس نہ ہوا ۔
(خزائن العرفان ،ص۴۴۷)
اے عاشقانِ رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم! یہ تو حضرتِ سَیِّدُنا یوسُف عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حُسن کا عالَم تھا کہ جنہیں تمام مخلوق سے بڑھ کرحُسن و جَمال عطا کیا گیا ،توحُسن و جَمال کے شاہکار، حبیبِ پروَرْدگار حضرت محمد مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے حُسن وجمال کا کیا عالم ہوگا، کہ جن کا حُسن حضرتِ یُوسف عَلَیْہِ السَّلَام کے حسن و جمال سے بھی بڑھ کر ہے ۔
*حُسنِ یُوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگُشتِ زناں*
*سر کَٹاتے ہیں ترے نام پہ مَردانِ عرب*
*جمالِ مصطفیٰ اور حضرت سَیِّدُنا عائشہ صدیقہ*
اُمُّ الْمؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں:
*فَلَوْ سَمِعُوْا فِیْ مِصْرَ اَوْصَافَ خَدِّہٖ*
*لَمَا بَذَ لُوْا فِیْ سَوْمِ یُوْسُفَ مِنْ نَقْدٍ*
یعنی اگر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے رُخْسارِ مُبارک کی خوبیاں، اہلِ مصر سُن لیتے تو جنابِ یوسُف عَلَیْہِ السَّلام کی قیمت لگانے میں سیم و زر (مال ودولت)نہ بہاتے۔
*لَواحِیْ زُلَیْخَا لَوْ رَأَیْنَ جَبِیْنَہُ*
*لَاَثَرْنَ بِالْقَطْعِ الْقُلُوْبَ عَلَی الْاَیْدِی*
یعنی اگر زُلیخا کو مَلامت کرنے والی عورتیں، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نورانی پیشانی کی زِیارت کر لیتیں، تو ہاتھوں کے بجائے اپنے دل کاٹنے کو ترجیح دیتیں۔
(📗زرقانی علی المواہب ،عائشہ ام المومنین، ٤/۳۹۰)
*ترا مَسندِ ناز ہے عرشِ بریں ترا مَحرمِ راز ہے رُوح ِامیں*
*تو ہی سرورِ ہر دو جہاں ہے شہا ترا مِثل نہیں ہے خُدا کی قسم*
(حدائق بخشش،ص۸۱)
*حسنِ مصطفیٰ اور صحابہ اکرام*
حُضُورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شانِ بے مثال کو ہم بَھلا کیا سمجھ سکتے ہیں؟ حَضرات صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جو دن رات سفر و حضر میں جمالِ نُبُوَّت کی تجلیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا کرتے، اُنہوں نے نُور کے پیکر، محبوبِ ربِّ اکبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے جمالِ بے مِثال کو جِن لفظوں میں بیان فرمایا، آئیے !اُسے سُنتےہیں۔ چُنانچہ
حضرت سَیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں نے ہر حَسین چیز دیکھی ہے، لیکن رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زِیادہ حَسِین وجَمِیل میں نے کبھی نہیں دیکھا ۔
(📗سبل الہدی والرشاد ،ج۲،ص۷)
اسی طرح صحابیِ رَسُول، حضرت سَیِّدُنا جابر بن سَمُرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ایک مرتبہ میں نے رَسُوْلُ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو چاندنی رات میں دیکھا، میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اور کبھی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے چہرۂ اَنور کو دیکھتا، تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا ۔
(📗الشمائل المحمدیہ للترمذی،باب ماجاء فی خلق رسول اللہ،ص۲۴ حدیث۹)
*یہ جو مَہر و مَہ پہ ہے اِطلاق آتا نُور کا*
*بھیک تیرے نام کی ہے اِسْتِعارہ نُور کا*
(حدائقِ بخشش،ص٢٤٨)
*نُور کی خَیْرات لینے دوڑتے ہیں مَہر و ماہ*
*اٹھتی ہے کس شان سے گَردِ سُواری واہ واہ*
(حدائقِ بخشش،ص١٣٤)
*جمال مصطفیٰ کے متعلق ایک وَاقِعہ*
جب محبوبِ ربّ،شہنشاہِ عجم و عرب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ،مکۂ مکرّمہ سے مدینۂ مُنوَّرہ زَادَہُمَا اللّٰہُ شَرَفًا وَّ تَعْظِیْماً کی طرف ہجرت کے لئے اپنے چند صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ روانہ ہوئے ،تو حضرت اُمِّ مَعْبَد کے خیمے کے پاس سے گُزرے ۔ وہ خاتُون آپ کو پہچانتی نہیں تھیں، لیکن وہ بڑی عقلمند تھیں ،اپنے خیمے کے پاس بیٹھ جاتیں اور مُسافِروں کو کھانا وغیرہ کھلایا کرتیں۔ اس مُبارک کارواں نے اِن سے گوشت اور کھجوروں کے بارے میں پُوچھا تاکہ ان سے خرید لیں، لیکن اتفاق سے اُس وَقْت اُن کے پاس کچھ نہ تھا۔ حُضُورِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خیمہ کے کونے میں ایک کمزور بکری کو دیکھا اور آپ نے پُوچھا: *”اے اُمِّ مَعْبَد یہ کیسی بکری ہے ؟“* اُنہوں نے عَرْض کی : اس کے تھنوں میں دُودھ نہیں ہے،بلکہ اس نے تو کبھی بچہ بھی نہیں جَنا ۔حُضُور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بِسْمِ اللہ شریف پڑھ کر اس کے تَھنوں اور کمر پر اپنا دَسْتِ شِفا بخش پھیرا اور اس کے لئے دُعا فرمائی ۔ بکری نے اپنی ٹانگیں کُشادہ کر دیں اور دُودھ دینے لگی، سب نے سیر ہو کر پیا پھر آپ روانہ ہوگئے،تھوڑی ہی دیر کے بعد اُمِّ مَعْبد کے شوہر گھر آئے۔ جب اُنہوں نے اِتنا کثیر دُودھ دیکھا تو مُتَعَجِّب ہو کر پُوچھا: اُمِّ مَعْبد ! اِتنا دُودھ کہاں سے آگیا ؟حالانکہ گھر میں دُودھ والا کوئی جانور بھی نہیں ؟ اُنہوں نے کہا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم ! ابھی ابھی یہاں سے ایک مُبارک ذات گُزری ہے ۔ ابُو مَعْبد نے کہا : ذَرا میرے سامنے ان کا حُلیہ تو بیان کرو۔ اس پر اُمِّ مَعْبد نے کہا: ”میں نے ایک ایسی ذات دیکھی ہے، جن کا حُسن نُمایاں تھا ،جن کا چہرہ خُوبصورت اور تخلیق بہت عُمدہ ہوئی تھی، بڑے حَسین، اِنْتہائی خُوبصورت تھے ، آنکھیں سیاہ اور بڑی، پلکیں لمبی تھیں، ان کی آواز گُونج دار،گردن چمکدار، جبکہ داڑھی مُبارَک گھنی تھی۔دونوں اَبرو باریک اور ملے ہوئے تھے۔ ان کے مُبارَک قَد میں بھی بہت مِیانہ رَوِی تھی ،نہ اِتنا طویل قَد کہ دیکھ کر بُرا لگے ،نہ اِتنا پَسْت کہ دیکھ کر حقیر معلوم ہو ،دُور سے دیکھو تو بہت زِیادہ با رُعب اور حَسین و جمیل نظر آتے اور جب قریب سے دیکھا جائے تو اس سے کہیں زِیادہ خُوبرُو اور حَسین دِکھائی دیتے ۔یہ سراپا سُن کر ابُومَعْبَد نے کہا :اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !یہ تو وہی ذاتِ گرامی ہیں، جن کا مُعاملہ ہمیں مکۂ مکرّمہ سے پہنچا ہے، میری توخواہش ہے کہ ان کی رَفاقت اِخْتیار کروں ۔ اگر میرے اِخْتیار میں ہوا تو میں اپنی اس خواہش کی تکمیل ضَرور کروں گا۔(اور پھر ایسا ہی ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے نبیِ رَحمت ،باعثِ خَیْر و برکت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بابرکت قدم ان کے گھر میں پڑجانے کی برکت سے نہ صِرف اُمِّ مَعْبد کے شوہر بلکہ خود اُمِّ مَعْبد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا کو بھی دولتِ اسلام سے سرفَراز فرمایا اور شرفِ صحابیّت بھی عطا فرمادیا)۔
(📗سبل الہدی والرشاد، الباب الرابع فی ہجرۃ …الخ، ۳/۲۴۴ملتقطا)
*خلق تُمہاری جمیل ،خُلق تمہارا جلیل*
*خلق تمہاری گدا تم پہ کروروں دُرُود*
(حدائق بخشش،ص۲۶۸)