یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

قرآن اور مدحتِ مصطفٰی



*🌹تیری مثل نہیں ہے خدا کی قسم🌹*
*قرآن اور مدحتِ مصطفٰی*


*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دنیا کا دستور ہے کہ بادشاہ جب اپنے درباریوں میں سے کسی کو اپنی عنایتوں سے مخصوص کرتے ہیں تو اسے ایسے خاص انعامات عطا کرتے ہیں، جس سے اس کی قدرو منزلت ہر شخص  پر ظاہر ہو جائے اور وہ دوسروں سے بالکل ہی ممتاز ہو جائے اور وہ کمالات اور مراتب جو کسی اور کو بھی ملے ہوئے ہوں تو بادشاہ اپنے خاص اور چُنے ہوئے درباریوں کو وہ دینے کے ساتھ دیگر بھی کئی بہتر مرتبوں سے سرفراز کرتا ہے،اسی طرح  بادشاہِ حقیقی یعنی اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی، مکی مدنی، محمدِ عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تمام مخلوق سے زیادہ انعامات دے کر اپنی خاص مہربانیوں سے مشرف کیا اور قرآنِ کریم میں ربِّ کریم نے مختلف مقامات پر مختلف القابات کے ساتھ اپنے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعریف  فرمائی ہے، چنانچہ

٭سورۂ فتح آیت نمبر 29 میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو *مُحَمَّدٌ رَّسُول اللہ* فرمایا۔

٭تو سورۂ اٰلِ عِمْرَان آیت نمبر 33 میں آپ  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو *”مصطفیٰ“* قرار دیا گیا۔

٭سورۂ اٰلِ عِمْرَان آیت نمبر 179 میں *”مجتبیٰ“* فرمایا۔

٭تو سورۂ جنّ آیت  نمبر 27 میں آپ کو *”مرتضیٰ“*  کے لقب سے یاد کیا گیا۔

٭سورۂ بَنِی اِسْرائیل آیت  نمبر 1 میں *عبدِ کامل* فرمایا۔

٭تو سورۂ مائِدَہ آیت نمبر 15 میں آپ کو *”نور“* فرمایا گیا ۔

٭سورۂ نِسَاء آیت نمبر 174 میں *”بُرہان(یعنی  واضح دلیل )“*

٭تو سورۂ اَحْزَاب آیت  نمبر 40 میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام کو *”خَاتمُ النَّبِیِّیْن“* فرمایا گیا۔

٭سورۂ اَحْزَاب آیت نمبر 45 میں شاہد یعنی *”حاضر و ناظر“، ”سراجِ مُنیر“(یعنی چمکتا ہوا سورج) اورداعی اِلَی اللہ(یعنی اللہ پاک کی طرف بُلانےوالا)* فرمایا گیا۔ 

٭سورۂ  یٰس آیت نمبر 1 میں آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو *”یٰس“*

٭تو سورۂ طٰہٰ آیت نمبر 1 میں *طٰہٰ* فرمایا گیا۔ 

٭سورۂ  بقرہ آیت  نمبر 119 میں *بشیر (خوشخبری سنانے والا) اور ”نذیر“(ڈر سنانے والا)* فرمایا گیا ہے۔ 

٭سورہ مُزّمّل آیت نمبر 1 میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام کو *”مُزَّمِّل“*

 ٭ تو سورۂ مُدّثّر آیت نمبر 1 میں *مُدَّثِّر* فرمایا گیا ہے ۔

٭سورۂ اٰلِ عمران آیت نمبر 164 میں اللہ پاک نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ والسَّلَام کو مومنوں پر اپنا *”احسان“* قرار دیا۔

٭تو سورۂ انبیاء آیت نمبر 160 میں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ و السَّلَام  کو تمام عالمین کیلئے *”رَحْمَت“* قرار دیا۔

٭سورۂ قلم آیت نمبر 4 میں آپ کو *”صاحبِ خُلْقِ عظیم“* فرمایا

تو سورۂ  بَنِی اِسْرائیل آیت نمبر 1 میں *صاحبِ معراج* فرمایا گیا۔

٭سورۂ  بَقَرہ آیت نمبر 33 میں *”دُعائے ابراہیمی“* ٭ تو سورۂ  صَفّ آیت نمبر 6 میں *”بشارتِ عیسیٰ“*  فرمایا گیا۔ 

٭سورۂ کوثَر آیت نمبر 1 میں *”صاحبِ کوثر“* 

٭تو سورۂ بَنیِ اسرائیل آیت  نمبر 79 میں *”صاحبِ مقامِ محمود“* قرار دیا گیا۔

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کیا ہی خوب فرماتے ہیں:

*اللہ کی سر تا بقدم شان ہیں یہ*

*اِن سا نہیں انسان وہ انسان ہیں یہ*

*قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں*

*اور ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ*

(📗حدائقِ بخشش،ص ۲۳۸)

*رب ہے معطِی یہ ہیں قاسم*

پیارے پیارے اسلامی بھائیو قرآن مجید کی آیاتِ مبارکہ،ان کے تفسیری نکات اور شانِ نزول کے واقعات پڑھے جائیں، جن سے سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان ظاہر ہو رہی ہے، اس میں شک نہیں کہ اگر قرآنِ کریم کو بنظرِ ایمان دیکھا جائے تو پورا قرآن حضور صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدحت کو بہت عالی شان انداز میں بیان کر رھا  ہے۔ آئیے! اس کی مزید کچھ جھلکیاں ملاحظہ کرتے ہیں۔

اللہ پاک پارہ 30 سورۂ کوثر  آیت نمبر 1میں یوں ارشاد فرماتا ہے:

*اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)*
 (پ۳۰، الکوثر:۱) 

تَرجَمَۂ کنزُ الایمان: اے محبوب بےشک ہم نے تمہیں بے شُمار  خوبیاں عطا فرمائیں

حضرت علامہ مولانا مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس آیت کریمہ کے تحت فرماتے ہیں :
(اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں) اور فضائلِ کثىرہ عنایت کر کے تمام خلق پر (تمہیں ) افضل کیا، حُسنِ ظاہر بھى دىا،حُسنِ باطن بھى (عطا فرمایا)، نسبِ عالى بھى (دیا)، نبوت (کا اعلیٰ مرتبہ) بھى، کتاب بھى ( عطا فرمائی اور)، حکمت بھى،(سب سے زیادہ) علم بھى (دیا اور ) (سب سے پہلے) شفاعت ( کرنے کا اختیار ) بھى، حوضِ کوثر (جیسی عظیم نعمت) بھى (دی اور) مقامِ محمود بھى، کثرتِ اُمّت بھى(آپ کا حصہ ہے اور) اعدائےدِىن (دُشمنانِ اسلام) پر غلبہ بھى(آپ کو عطا کیا)کثرتِ فتوح (کثرت کے ساتھ فتوحات)بھى(آپ کے لیے ہیں) اور بے شمار نعمتىں اور فضىلتىں (آپ کو ایسی عطا فرمائی )جن کى نہاىت(انتہاء) نہىں۔

(📗خزائن العرفان،ص:۱۱۲۲،ملخصاً)

اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امامِ اہلسنت،اِمام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:

*ربّ ہے مُعطِی یہ ہیں قاسِم*                                  *رزق اُس کا ہے کِھلاتے یہ ہیں*

*اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر*                                                                                                                        *ساری کثرت پاتے یہ ہیں*


*بارگاہِ مصطفیٰ کا آداب*

پارہ 1،سُوْرۂ بقرۃ،آیت نمبر 104میں اِرشاد ہوتا ہے:

 *یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)*

 (پ۱، البقرۃ:۱۰۴)                                            

ترجمۂ کنزالایمان:اے ایمان والو راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سُنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔

اس آیتِ کریمہ کے تحت تفسیر صراطُ الجنان میں درج کچھ علمی فائدے پیشِ خدمت ہیں:

(1) انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تعظیم و توقیر اور ان کی جناب میں ادب کا لحاظ کرنا فرض ہے اور جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی سا بھی اندیشہ ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔

(2) وہ الفاظ جن  کے دو معنیٰ ہوں، اچھے اور بُرے اور لفظ بولنے میں اس بُرے معنیٰ کی طرف بھی ذہن جاتا ہو تو وہ بھی اللہ پاک اور حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے لئے استعمال نہ کئے جائیں۔

(3) یہ بھی معلوم ہوا کہ حضورِ پُر نور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ کا ادب رَبُّ الْعَالَمِیْن خود سکھاتا ہے اور تعظیم کے متعلق احکام کو خود جاری فرماتا ہے۔

(4) اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جناب میں بے ادبی کفر ہے ۔

جبکہ مشہور مفسرِ قرآن،حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: سُبْحَان اللہ! کیا عظمتِ محبوب ثابت ہوئی کہ پَروَرْدْگارِ عالم کو اپنے محبوب کی شان اس قدر بڑھانا منظور ہے کہ کسی کو ایسی بات کہنے کی اجازت نہیں دیتا کہ جس کلمہ سے دوسرے کو بدگمانی کرنے کا موقع ملے۔

 (📗شانِ حبیب الرحمان ، ص۳۶)

*یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اُنظُرْ حَالَنَا*
*طالبِ نظرِ کرم بدکار ہے*

*یَاحَبِیْبَ اللّٰہِ اِسمَعْ قَالَنَا*
*التجاء یا سید الابرار ہے*

*اِنَّنِی فِی بَحرِْ ھَمِّ مُّغْرَقٌ*                                                                                     *ناؤ ڈانواں ڈَول دَر منجدھار ہے*

*خذْیَدِیْ سَھِّلْ لَّنَا اَشْکَالَنَا*
*نا خُدا آؤ تو بیڑا پار ہے*


اے عاشقانِ رسول! سنا آپ نے کہ قرآنِ کریم میں خود ربّ کریم  اپنے محبوب کی تعریف فرما رہاہے، اپنے محبوب کے اوصاف ،شان و عظمت اور خصوصیات کو اپنے پاکیزہ کلام میں بیان فرما رہا ہے۔

جن کی تعریف خود ان کا ربّ فرمائے تو کسی انسان کے بس  کی بات نہیں کہ اللہ پاک کے محبوب صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تعریف کا حق ادا کرسکے۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا:

*اے رضاؔ خود صاحبِ قرآں ہے مدّاحِ حضور* 
*تجھ سے کب ممکن ہے پھر مدحت رسول اللہ کی*

(حدائقِ بخشش،ص ۱۵۳)

مختصر وضاحت: 
اس شعر میں اعلیٰ حضرت اپنی ذات کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے احمد رضا ! تُو جتنی بھی اپنے آقا کی تعریف کر لے، لیکن تجھ سے اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کا ربّ ہی ان کی تعریف فرماتا ہے تو اور کوئی کس طرح ان کی ثناءخوانی کا حق ادا کر سکتا ہے۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہم پیارےآقا، مکی مدنی مُصطَفٰےصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شانِ اقدس ،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کےفضائل  اور خصوصیات بزبانِ قرآن سُنے، یقیناً ہمارے پیارے آقا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان تو بے مثال ہے ، یقیناًجس ذاتِ بابرکات پر اللہ پاک کافضلِ عظیم ہوان کی فضیلت کون شمارکرسکتاہے؟

حضرت امام قاضی عیاض مالکی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ *”شفاءشریف“* میں لکھتے ہیں: *حَارَتِ الْعُقُولُ فِي تَقْدِيرِ فَضْلِہٖ عَلَيْهِ وَخَرِسَتِ الْأَلْسُنُ،* یعنی اللہ کریم کا جو فضل حضور عَلَیْہِ السَّلَام پر ہے ، اس کا اندازہ کرنے سے عقلیں حیران ہیں اور زبانیں عاجز ہیں۔

(📗الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ،۱ /۱۰۳)