یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"فرانس میں رسول اللہﷺ کی گستاخی سے علامہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری تک کا منظر"



"فرانس میں  رسول اللہﷺ  کی گستاخی سے

علامہ سعد حسین رضوی کی گرفتاری تک کا منظر"


گزشتہ برس اکتوبر2020 میں فرانس کی ایک یونیورسٹی کی کلاس میں حضور اکرمﷺ کا گستاخانہ خاکہ بنانے والے تاریخ کے ٹیچر کو ایک طالب علم نےجہنّم واسل  کردیا جس کے بعد فرانس میں مسلمانوں اور حکومت کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئیں۔
جب فرانس کاصدر (ایمانوئل میکرون )نے مسلمانوں پر شدید تنقید کی اور گستاخانہ خاکوں کو نہ روکنے کی ترغیب دی، اس کے بعد دنیا بھر کے مسلمان  سراپہ احتجاج ہوئے  اور کئی مسلم  ممالک  سر براہوں نے فرانسیسی مصنوعات کا تاریخی مائیکاٹ کیا  ۔ مگر پاکستان کے بے غیرت اور  بے ایمان حکومتِ وقت کے سربراہ ( عمران خان ) نے فرانسیسی مصنوعات کا مائیکاک کرنے کے بجائے اس کے بر عکس   فرانس ا ور فرانسیسی  مصنوعات  کی دھبے الفاظوں میں حمایت کی اور فہد مصطفیٰ جیسے بدّو( دیہاتی)  اس کمپنی کے ساتھ کام کیا  جو پاکستان میں فرانس کی مصنوعات فرو خت کرتی ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی (مرحوم) نے  7نومبر 2020 کو تحریک لبیک پاکستان کے پلیٹ فارم سے  فرانسیسی حکومت کے خلاف کراچی میں ایک بڑی ریلی نکالی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانس کے ساتھ تمام تر سفارتی تعلقات ختم  کرے، اپنے سفیر کو پاکستان بھلوائے اور فرانس کے سفیر  کو ملک ِ  پاکستان  سے نکالے۔
14نومبر2020 کو راولپنڈی میں تحریک لبیک پاکستان نے ریلی کا انعقاد کیا۔ اس ریلی کے پیش نظر راولپنڈی سے اسلام آباد جانے والے  تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا اور تحریک لبیک کے لیڈراور کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا گیا۔ جس میں پولیس نےسینکڑوں کارکناں اور عاشقانِ رسول کو گرفتار کیا اورسینکڑوں افراد کورخمی کیا  گیا۔

15نومبر 2020 کو پولیس نے حکومت کے کہنے پر نا موس ِ رسالت  کے مجاہدیں کے خلاف آنسو گیس کا بے دریغ استعمال کیا۔
16 نومبر2020 کو  تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور حکومت نے مطالبات تسلیم کر لیے۔
 اس وقت کے وزیر داخلہ اعجاز شاہ ، وفاقی وزیر مذہبی امور نورالحق قادری اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے حکومت کی طرف سے معاہدے پر دستخط کیے۔ تحریک لبیک کی جانب سے شیئر کردہ اس مبینہ معاہدے کے مطابق، مذاکرات میں ان چار نکات پر اتفاق ہوا:
(1) حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمنٹ سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی۔
 (2) فرانس میں پاکستان کا سفیر بھی نہیں لگایا جائے گا۔
(3)تمام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
 (4) تمام کارکنان کی رہائی کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
3 جنوری2021 کوعلامہ خادم حسین رضوی(مرحوم) کی وفات کے بعد تحریک لبیک پاکستان کے نوجوان سربراہ  علامہ سعد حسین رضوی حفظہ اللہ نے حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کو اپنا وعدہ یاد نہیں ہے تو ہم اسے آپ کو یاد کرواتے ہیں۔ علامہ سعد حسین رضوی  حفظہ اللہ نے حکومت کو فیصلہ کرنے کیلئے 17فروری تک کا وقت دیا۔
11 فروری کو حکومت نے ایک بار پھر تحریک لبیک پاکستان کی قیادت سے ایک اور معاہدہ کیا کہ 20اپریل تک حکومت فرانسیسی سفیر معاملے کو پارلیمنٹ میں لے جائے گی اور ملک سے فرانس کے سفیر   کونکال دیا  جائے گا۔ فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا  اور ذلیلِ اعظم عمران خان نے کو یقین دہانی کرائی کہ حکومت ناموس رسالتﷺ کے مسئلے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی ۔ اس لنک دے ذریعے عمران خان کا  بیان دیکھا  جا سکتا ہے۔
 https://www.facebook.com/watch/?ref=external&v=236733624715555
 
اس سب کے باجود  نہ فرانس  کے سفیر کو نکالا گیا  اور  فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ  کیا گیا اور نہ کسی بھی قسم کا عملی اقدام اٹھایا گیا  بلکہ اس کے بر عکس  سربراہ ِتحریک لبیک پاکستان   علامہ سعد حسین رضوی حفظہ اللہ کو 12 اپریل 2021 پیر کے دن گرفتار کر لیا گیا۔ یہ سب باتیں اس کی دلیل ہے کہ اہل اقتدار کو ناموسِ رسالت ﷺ سے زیادہ اپنی کرسی  سے پیار ہے اور عالمی طاقتوں کی غلامی کرنا   ان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
اپریل کے  مہینے کے کا آغاز ہوتے ہی تحریک لبیک پاکستان نے ایک بار پھر حکومتِ وقت کو یاد دیہانی کراوائی نہ  20 اپریل2021 دور نہیں ہے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرو۔ورنہ ہم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان  کریں گے۔مگر 12 اپریل 2021  کو دوپہر تقریبا 3 بجے حکومت وقت  اپنے  وعدہ  کے خلاف جا کر  تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ  سعد  حسین رضوی کو حراست میں لے لیا۔ جس کے بعد تحریک لبیک پاکستان  کےکارکنان   اورعاشقانِ رسول ﷺ نے ملک بھر کی شاہراہوں پر دھرنے دے دیے۔
ملک اس وقت تقریباً جام ہو چکا ہے۔ ۔ لاہور ، کراچی، راولپنڈی اسلام آباد سمیت ملک کے تمام بڑے شہر اور بڑی شاہرائیں  پر حکومت وقت  کی پولیس  کی جانب سے  عاشقانِ رسول پر بد ترین شیلنگ  کی گئی۔ کئی لوگوں کو زخمی کیا گیا اور کئی نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔یا اللہ! عمران نیازی کی حکومت کو پناہ و  برباد فرمایا۔آمین۔
عمران خان تیری گفتار ، تیرے کردار۔ تیرے انداز پہ تھو۔
اے حاکم وقت تیرے ہر جھوٹ کے بازار پہ تھو۔
تونے کئے تھے علماء اسلام سے بے شمار بار وعدے
تیرے وعدے سبھی قسموں پہ تھو۔
تو لٹیروں کی طرح اندر سے لٹیرا نکلا
تیرے انداز سیاست ، اس انصاف پہ تھو۔

نکاح کب کرنا چاہئے۔۔۔۔؟


"نکاح کب کرنا چاہئے۔۔۔۔؟ " 

         
از: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

مرد کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ  اعتدال کی حالت میں یعنی نہ شہوت کا زیادہ غلبہ ہو اور وہ نا مرد بھی نہ ہو، نیز مہر اور نان نفقہ دینے پر قدرت رکھتا ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا سنتِ مؤکَّدہ ہے۔ لیکن اگر اسے زنا میں پڑنے کا اندیشہ ہے اور وہ زوجیت کے حقوق پورے کرنے پر قادر ہے تو اس کے لئے نکاح کرنا واجب ہے اور اگر اسے زنا میں پڑنے کا یقین ہو تو ا س پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر اسے زوجیت کے حقوق پورے نہ کر سکنے کا اندیشہ ہو تو اس کانکاح کرنا مکروہ اور حقوق پورے نہ کرسکنے کا یقین ہو تو اس کے لئے نکاح کرنا حرام ہے۔      (بہار شریعت، حصہ ہفتم،     ۲ / ۴-۵    ، ملخصاً)        

عورت کے لئے نکاح کا شرعی حکم یہ ہے کہ جس عورت کو اپنے نفس سے اس بات کا خوف ہو کہ غالباً وہ شوہر کی اطاعت نہ کر سکے گی اور شوہر کے واجب حقوق اس سے ادا نہ ہو سکیں گے تو اسے نکاح کرنا ممنوع وناجائز ہے، اگر کرے گی تو گناہگار ہو گی۔ اگر اسے ان چیزوں کا خوف یقینی ہو تو اسے نکاح کرنا حرام قطعی ہے۔ جس عورت کو اپنے نفس سے ایسا خوف نہ ہو اسے اگر نکاح کی شدید حاجت ہے کہ نکاح کے بغیر     مَعَاذَ اللہ     گناہ میں مبتلاء ہو جانے کا ظنِ غالب ہے تو ایسی عورت کو نکاح کرنا واجب ہے اور اگر نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا یقین کلی ہو تو اس پر نکاح کرنا فرض ہے۔ اگر حاجت کی حالت اعتدال پر ہو یعنی نہ نکاح سے بالکل بے پروائی ہو، نہ اس شدت کا شوق ہو کہ نکاح کے بغیر گناہ میں پڑنے کا ظنِ غالب ہو تو ایسی حالت میں اس کے لئے نکاح کرنا سنت ہے جبکہ وہ اپنے آپ پر اس بات کا کافی اطمینان رکھتی ہو کہ ا س سے شوہر کی اطاعت ترک نہ ہوگی اور وہ شوہر کے حقوق اصلاً ضائع نہ کرے گی۔     (فتاوی رضویہ،     ۱۲ / ۲۹۱-۲۹۳    ، ملخصاً)

اسالیب طریقت



_*اسالیب طریقت*_

حضرت سید علی بن عثمان جلابی المعروف حضور داتا گنج بخش ہجویری رحمةاللہ علیہ  نے اپنی شہرہ آفاق کتاب کشف المحجوب میں صوفیوں کے جن 12 (بارہ) گروں کا تذکرہ فرمایا ہے وہ سب تیسری اور چوٹھی صدی ہجری میں پیداء ہوئے چنانچہ آپ رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ صوفیوں کے بارہ گروہوں میں سے دوگروہ مردود اور دس مقبول ہیں وہ دو گروہ یہ ہیں
 1 حلولی 2 حلاجی

جن کا مختصراً تعارف حاضر ہے 

*1* حلولی :
جو حلال و امتزاج سے منسوب ہے اور عالمی اور مشبہ ان سے تعلق رکھتے ہیں 

*2* حلاجی :
جو ترک شریعت کے قائل ہیں انہوں نے الحاد کی راہ اختیار کی جس سے وہ ملحد و بے دین ہوگئے اباحتی و فارسی گروپ بھی ان ہی سے متعلق ہیں 
اب ان شاء اللہ دس گروہوں کا مختصر تعارف پیش کروں گا 

*1* محاسبیہ :
اس گروہ کے پیشوا حضرت سیدنا ابوعبداللہ حارث بن اسد محاسبی رحمةاللہ علیہ ہیں

*2* قصاریہ :
اس گروہ کے پیشوا حضرت سیدنا ابوصالح بن حمدون بن احمد قصار رحمةاللہ علیہ ہیں 

*3* طیفوریہ :
اس گروہ کے پیشوا امام حضرت سیدنا ابویزید طیفور بن سروشاں بسطامی رحمةاللہ علیہ (المعروف بایزید بسطامی)ہیں

*4* جنیدیہ :
اس گروہ کے پیشوا حضرت سیدنا ابوالقاسم جنید بن محمد بغداد رحمةاللہ علیہ ہیں
آپ صحو کے قائل تھے اور باطن کا مراقبہ آپ رحمةاللہ علیہ کے گروہ کا امتیاز ہے 

*5* نوریہ : 
حضرت سیدنا ابوالحسن احمد بن محمد نوری رحمةاللہ علیہ 
آپ کے مذھب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ آپ رحمةاللہ علیہ کے نزدیک تصوف فقرے سے افضل ہے 

*6* سھیلیہ :
اس طبقہ کے پیشوا حضرت سیدنا سہل بن عبداللہ تستری رحمةاللہ علیہ ہیں
یہ تصوف میں اپنے زمانے کے سلطان وقت اور طریقت میں اہل حل و عقد اور صاحب اسرار تھے 

*7* حکمیہ : 
اس گروہ کے پیشوا حضرت سیدنا ابو عبداللہ محمد علی حکیم ترمذی رحمةاللہ علیہ ہیں 

*8* خرازیہ : 
اس طبقہ کے بانی و پیشوا حضرت سیدنا ابو سعید خرازی رحمةاللہ علیہ ہیں 
فناء و بقاء کے حال پر سب سے پہلے آپ نے گفتگو فرمائ

*9* خفیفیہ : 
اس گروہ کے پیشوا حضرت سیدنا ابو عبداللہ محمد بن خفیف شیرازی  رحمةاللہ علیہ ہیں 
آپ رحمةاللہ علیہ کے مسلک کا اصل اصول غَیْبَتْ و حضور ہے

*10* سیاریہ : 
یہ طبقہ حضرت سیدنا ابوالعباس سیاری رحمةاللہ علیہ سے تعلق رکھتا ہے 
آپ رحمةاللہ علیہ کے مذھب کی بنیادی خصوصیت جمع و تفرقہ (تصوف کی اصلاح ہیں) ہے 

✒️✒️ احمدرضا مغل 
بتاریخ 9 ۔ 7 ۔ 20 
وقت رات 8:32

روزے کے مسائل اور ان کا حل



*🌹روزے کے مسائل اور ان کا حل🌹*

سوال نمبر 1 تا 180


*سوال1:*
کیا قے (الٹی) سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
*جواب:*
قے (الٹی) کی صرف دو صورتیں ایسی ہیں، جن میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے باقی تمام صورتوں میں روزہ نہیں ٹوٹتا۔
قے کی جن صورتوں میں روزہ ٹوٹ جاتا ہے وہ یہ ہیں :
1- روزہ یاد ہونے کے باوجود جان بوجھ کر قے کی مثلاً انگلی وغیرہ حلق میں ڈال کر قے کی اور وہ قے منہ بهر ہوئی تو روزہ ٹوٹ جائےگا بشرطیکہ قے کھانے، پانی یا بہتے خون وغیرہ کی ہو۔
2- بغیر اختیار کے منہ بھر قے آئی اور ایک چنے یا اس سے زیادہ مقدار میں واپس حلق سے نیچے واپس لوٹا دی تو روزہ ٹوٹ جائے گا. 
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 3، صفحہ 450، 451، 452، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*فائدہ :* 
جس قَے کو بغیر تَکَلُّف کے نہ روکا جا سکے اُسے "مُنہ بھَر قَے" کہتے ہیں. 
*(فتاوی عالمگیری، جلد 1، صفحہ 11، دارالفکر بیروت)*
*سوال2:*
کیا روزے میں احتلام ہوجانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
*جواب:*
 روزے میں احتلام ہوجانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 3، صفحہ 421، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال3:*
اگر روزے کی حالت میں فرض غسل کرنا ہو تو کیا کلی کرنا اور ناک میں پانی چڑھانا منع ہے ؟ 
*جواب :*
روزہ شروع ہونے سے پہلے غسل فرض ہو یا روزہ میں احتلام ہو جانے کی وجہ سے غسل فرض ہو تو روزہ کی حالت میں غسل کے تمام فرائض ادا کیے جائیں گے. 
غسل میں کلی کرنا اور ناک میں نرم حصہ تک پانی پہنچانا اور تمام ظاہری بدن پر ایک مرتبہ پانی بہانا فرض ہے، ان فرائض کے بغیر نہ غسل اترے گا اور نہ نمازیں ہوں گی.
*(ماخوذ از ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الطھارۃ، جلد 1، صفحہ 311، 312، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ وغیرہ)*
*سوال4:*
روزے میں فرض غسل کرنا ہو تو کیا غرغرہ کرسکتے ہیں ؟
*جواب:*
 روزہ ہو تو غرغرہ نہیں کریں گے اور عام دنوں میں بهی غرغرہ غسل کا فرض یا کلی کا حصہ نہیں بلکہ ایک جداگانہ سنت ہے وہ بهی اس وقت سنت ہے جب روزہ نہ ہو، کیونکہ روزے کی حالت میں غرغرہ مکروہ ہے. 
*(حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح، جلد 1، صفحہ 152، المکتبۃ الغوثیہ، الجوھرۃ النیرۃ شرح مختصر القدوری، جلد 1، صفحہ 30، مکتبہ رحمانیہ، نماز کے احکام، صفحہ 102، مکتبۃ المدینہ کراچی )*
*سوال5:*
کیا روزے کی حالت میں مسواک کرسکتے ہیں ؟
*جواب :*
روزے کی حالت میں دن کے کسی بھی وقت مسواک کر سکتے ہے اور اس سے اور دنوں کی طرح سنت کا ثواب بھی حاصل ہو گا البتہ اگر مسواک چبانے سے اس کے ریشے چھوٹتے ہوں یا مزہ محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے کی حالت میں نہیں کرنی چاہیے. 
*(البحرالرائق، کتاب الصوم، باب مایفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 2، صفحہ 411، مطبوعہ کوئٹہ، فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 511، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*سوال 6:*
کیا روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ اور منجن کرسکتے ہیں ؟
*جواب:* 
روزے کی حالت میں ضرورتِ صحیحہ کے بغیر ٹوٹھ پیسٹ اور منجن وغیرہ کرنا مکروہِ تنزیہی ہے اور اگر اس کا کوئی جز حلق سے نیچے اتر گیا تو روزہ ہی ٹوٹ جائے گا، اس لیے روزے کی حالت میں ان کو استعمال کرنے سے بچنا چاہیے۔
*(ماخوذ از فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 551، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*سوال7:*
روزے کی حالت میں تیل لگانا اور زیرِ موئے ناف بنانا کیسا ہے ؟
*جواب:*
روزے کی حالت میں تیل لگانا اور موئے زیر ناف بنانا جائز ہے, ان سے روزہ نہیں ٹوٹتا.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 3، صفحہ 421، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ وغیرہ)*
*سوال8:*
کیا سرمہ لگانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ؟
*جواب :*
سرمہ لگانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا.
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 3، صفحہ 421، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*سوال 9:*
کیا روزے کی حالت میں سرمے کی طرح کاجل بھی لگا سکتے ہیں ؟ 
*جواب:*
جی نہیں! 
کاجل کا حکم سرمہ والا نہیں لہذا روزے کی حالت میں کاجل نہیں لگا سکتے.
*(دارالافتاء اہلسنت، دعوتِ اسلامی)*
*سوال 10:*
کیا روزے کے لئے سحری شرط ہے ؟
*جواب:*
روزے کے لئے سحری شرط نہیں ہے، سحری کے بغیر بھی روزہ ہوسکتا ہے مگر جان بوجھ کر سحری نہ کرنا اپنے آپ کو عظیم سنت سے محروم کرنا ہے۔
لہذا اگر سحری نہ کی اور رات میں روزے کی نیت کرلی تھی یا پهر زوال سے پہلے پہلے نیت کرلی تو روزہ ہوجائے گا لیکن سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد اور زوال سے پہلے نیت اُس وقت کرسکتے ہیں جب دو چیزیں پائی جائیں : 
1- پہلی چیز یہ کہ روزہ بند ہونے کے بعد سے کوئی منافی روزہ کام مثلا کهانا پینا وغیرہ نہ کیا ہو. 
2- دوسری چیز یہ کہ یوں نیت کرے کہ میں روزہ بند ہونے کے وقت سے روزے سے ہوں۔
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم و ما لایفسدہ، جلد 3، صفحہ 393، 394، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
*نوٹ :*
سحری میں خوب ڈٹ کر کھانا ہی ضروری نہیں، چند کھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نیتِ سحری استعمال کرلیں جب بھی کافی ہے (یعنی سحری ہوجائے گی۔)
*(فیضان رمضان مُرَمَّم، صفحہ 108، مکتبۃ المدینہ کراچی)*

شوہر اور بیوی کی میت کے احکام



*استفتاء*
1- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو چھو سکتے ہیں ؟
2- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو غسل دے سکتے ہیں ؟ 
3- کیا شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی میت کو بوسہ دے سکتے ہیں ؟
4- کیا شوہر اپنی بیوی کے جنازہ کو اٹھا سکتا ہے ؟ 
5- کیا شوہر اپنی بیوی کو قبر میں اتار سکتا ہے ؟
6- کیا غیر محرم مرد، عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے ؟
7- کیا غیر محرم مرد، عورت کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہے ؟
سائل : انجینئر الله بخش قادری شہر تلہ گنگ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- چونکہ بیوی مرنے کے بعد شوہر کے نکاح سے نکل جاتی ہے، اور شوہر اپنی بیوی کے لئے اجنبی کی طرح ہو جاتا ہے، اسی لئے شوہر اپنی بیوی کی میت کو بلاحائل نہیں چھو سکتا، البتہ اسے دیکھ سکتا ہے۔
اور شوہر کے انتقال کے وقت چونکہ عدّتِ وفات پوری ہونے تک عورت شوہر کے نکاح میں باقی رہتی ہے، اسی وجہ سے بیوی اپنے شوہر کی میت کو بلاحائل چھو سکتی ہے۔
2- شوہر اپنی بیوی کی میت کو غسل نہیں دے سکتا جبکہ بیوی اپنے شوہر کی میت کو غسل دے سکتی ہے بشرطیکہ موت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسی بات واقع نہ ہوئی ہو کہ جس سے اس کا نکاح ہی ختم ہوگیا ہو جیسے شوہر کے مرنے بعد معاذاللہ عورت مرتدہ ہوگئی ہو تو اب اس کا نکاح ختم ہو گیا اور وہ شوہر کے لئے اجنبیہ ہوگئی، اگرچہ وہ غسل سے پہلے دوبارہ مسلمان ہوجائے پھر بھی شوہر کو غسل نہیں دے سکتی۔
3- شوہر اپنی بیوی کی میت کا بوسہ نہیں لے سکتا، جبکہ بیوی اپنے شوہر کی میت کا بوسہ لے سکتی ہے۔
4،5- شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے اور اسے قبر میں بھی اتار سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اسے محارم ہی قبر میں اتاریں۔
6،7- غیر محرم مرد عورت کے جنازے کو کندھا بھی دے سکتا ہے اور اسے قبر میں بھی اتار سکتا ہے لیکن بہتر ہے کہ اسے محارم ہی قبر میں اتاریں۔
چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے :
*"و یجوز للمراۃ ان تغسل زوجھا اذا لم یحدث بعد موتہ ما  یوجب البینونۃ من تقبیل ابن زوجھا او ابیہ و ان حدث ذلک بعد موتہ لم یجز لھا غسلہ و اما ھو فلایغسلھا عندنا کذا فی السراج الوھاج"*
یعنی عورت کے لئے جائز ہے کہ وہ اپنے شوہر کو غسل دے جب کہ شوہر کی موت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسا امر واقع نہ ہوا ہو جس سے اُس کے نکاح سے نکل جائے، جیسے اپنے شوہر کے بیٹے یا اس کے باپ کا (شہوت کے ساتھ) بوسہ لیا، اگرچہ موت کے بعد ایسا کوئی امر واقع ہوا ہو تو بھی عورت کا شوہر کو غسل دینا جائز نہیں، اور بہرحال ہمارے نزدیک مرد (کسی بھی حالت میں)  عورت کو غسل نہیں دے سکتا جیسا کہ ’’السراج الوہاج ‘‘ میں ہے۔
*(فتاویٰ عالمگیری، جلد 1، صفحہ 160، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
تنویرالابصار میں ہے :
*"و یمنع زوجھا من غسلھا و مسھا لا من النظر إلیھا علی الأصح و ھي لا تمنع من ذلک"*
یعنی صحیح تر قول کے مطابق شوہر کا بیوی کی میت کو غسل دینا اور چھونا ممنوع ہے جبکہ اسے دیکھنا منع نہیں ہے اور عورت کو اس سے منع نہیں کیا جائے گا (یعنی شوہر کو غسل دینے سے منع نہیں کیا جائے گا بشرطیکہ نکاح باقی ہو۔) 
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب الصلاۃ، باب صلوۃ الجنائز،جلد 3، صفحہ 105، 106، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
فتاوی عالمگیری میں ہے :
*"و ذو الرحم المحرم أولی بادخال المرأة من غیرھم، وکذا ذو الرحم غیر المحرم أولی من الأجنبي فان لم یکن فلاباس للاجانب وضعھا، کذا فی البحر الرائق"*
یعنی عورت کو قبر میں اتارنے کے لیے محرم رشتہ دار اپنے علاوہ دیگر سے بہتر ہیں، ایسے ہی جوہرہ نیرہ میں ہے، اور ایسے ہی غیر محرم رشتہ دار اجنبی سے بہتر ہے اور اگر یہ نہ ہوں تو اجنبیوں کے اتارنے میں بھی کوئی حرج نہیں، ایسے ہی بحرالرائق میں ہے۔
*(فتاوی عالمگیری، کتاب الصلاة، باب الجنائز، الفصل السادس في القبر و الدفن و النقل من مکان الی مکان آخر، جلد 1، صفحہ 166، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"یہ مسئلہ مرد کے بارہ میں صحیح ہے کہ وُہ بعد وفاتِ زن اُسے غسل نہیں دے سکتا، نہ اُس کے بدن کو ہاتھ لگا سکتا ہے کہ موت سے عورت اصلاً محلِ نکاح نہ رہی۔ چھُونے کا جواز صرف بر بنائے نکاح تھا ورنہ زن و شوہر اصل میں اجنبی محض ہوتے ہیں، اب کہ نکاح زائل ہو گیا، چھونے کا جواز بھی جاتا رہا۔ اور عورت کے بارے میں بھی صحیح ہے اُس حالت میں کہ وقتِ غسل عورت زوجیتِ زوج میں نہ ہو۔ مثلاً مرد نے طلاق بائن دے دی تھی یا بعدِ وفات شوہر عدت گزر گئی، مثلاً عورت حاملہ تھی شوہر کے انتقال ہوتے ہی بچہّ پیدا ہوگیا کہ اب عدّت نہ رہی اور زوجیت سے یکسر نکل گئی، اسی طرح عورت معاذﷲ بعد وفات شوہر مرتدہ ہوگئی، پھر اسلام لے آئی یا پسرِ شوہر کو شہوت کے ساتھ چھو لیا کہ ان سب صورتوں میں نکاح زائل ہو گیا، بخلاف اس کے کہ شوہر مر گیا اور عورت عدّتِ وفات میں ہے، یا شوہر نے طلاق رجعی دی تھی اور ہنوز عدت باقی تھی کہ اس کا انتقال ہوا، ان صورتوں میں عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کہ ہنوز حکمِ زوجیّت  باقی ہے۔"
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 95، 96، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
”شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔ زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔ یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔“
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 138، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
”عورت مر جائے تو شوہر نہ اسے نہلا سکتا ہے نہ چھو سکتا ہے اور دیکھنے کی ممانعت نہیں۔ عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔“
*(بہارِشریعت، میت کے نہلانے کا بیان، جلد 1، صفحہ 813، مکتبۃ المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
20/04/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
1- الجواب صحيح والمجیب نجیح
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*
2- الجواب صحیح 
*فقط ابو آصف راجہ محمد کاشف مدنی نعیمی رئیس دارالافتاء ھاشمیہ کراچی*
3- الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*

کیا مرحومین کی ارواح اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ان سے اپنے لیے ایصال ثواب اور صدقہ خیرات کی التجا کرتی ہیں ؟




کیا مرحومین کی ارواح اپنے گھروں میں آتی ہیں اور ان سے اپنے لیے ایصال ثواب اور صدقہ خیرات کی التجا کرتی ہیں ؟ 

سائل : محمد شفیق عطاری فیصل آباد
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جی ہاں! بعض روایات کے مطابق ہر شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات)، ہر روزِ جمعہ، روزِ عید، روزِ عاشورا اور شبِ براءت کو روحیں اپنے گھروں کی طرف آتی ہے اور ان سے ایصال ثواب اور صدقہ (خیرات) کا تقاضا کرتی ہیں، لہٰذا ان دنوں اور راتوں میں فاتحہ کا اہتمام کرکے ایصال ثواب کرنا چاہیے اور یہ جائز و مستحسن عمل ہے۔
چنانچہ خاتمۃ المحدثین شیخ محقق مولانا عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ ﷲ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"مستحب است کہ تصدق کردہ شود از میّت بعد از رفتن او از عالم تا ہفت روز تصدق از میّت نفع می کند او را بے خلاف میان اہل علم وارد شدہ است در آں احادیث صحیحہ خصوصاً آب، و بعضے از علماء گفتہ اند کہ نمی رسد بہ میّت را مگر صدقہ و دعا، و در بعض روایات آمدہ است کہ روح میّت می آید خانہ خود را شب جمعہ، پس نظر می کند کہ تصدق می کنند ازوے یا نہ۔''*
یعنی میّت کے دنیا سے جانے کے بعد سات دن تک اس کی طرف سے صدقہ کرنا مستحب ہے۔ میّت کی طرف سے صدقہ اس کے لیے نفع بخش ہوتا ہے۔ اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں، اس بارے میں صحیح حدیثیں وارد ہیں، خصوصا پانی صدقہ کرنے کے بارے میں، اور بعض علماء کا قول ہے کہ میّت کو صرف صدقہ اور دعا کا ثواب پہنچتا ہے۔ اور بعض روایات میں آیا ہے کہ رُوح شب جمعہ کو اپنے گھر آتی ہے اور انتظار کرتی ہے کہ اس کی طرف سے صدقہ کرتے ہیں یا نہیں۔
*(اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ المصابیح، باب زیارۃ القبور، جلد 1، صفحہ 716، 717، مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر)*
شیخ الاسلام ''کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء'' فصل ہشتم میں فرماتے ہیں :
*''در غرائب و خزانہ نقل کردہ کہ ارواحِ مومنین می آیند خانہ ہائے خودرا ہر شب جمعہ روز عید و روز عاشورہ و شب برات، پس ایستادہ می شوند بیرون خانہائے خود و ندامی کند ہریکے بآوازِ بلند اندوہ گین اے اہل و اولاد من و نزدیکانِ من مہربانی کنید برما بصدقہ۔''*
یعنی غرائب اور خزانہ میں منقول ہے کہ مومنین کی روحیں ہر شب جمعہ، روز عید، روز عاشورہ، اور شب برات کو اپنے گھر آکر باہر کھڑی رہتی ہیں اور ہر روح غمناک بلند آواز سے ندا کرتی ہے کہ اے میرے گھر والو، اے میری اولاد، اے میرے قرابت دارو! صدقہ کرکے ہم پر مہربانی کرو۔
*(کشف الغطاء عمالزم للموتی علی الاحیاء، فصل احکام دعا و صدقہ، صفحہ 66، ماخوذ از فتاوی رضویہ جلد 9، صفحہ 649، 650، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
خزانۃ الروایات میں ہے :
*عن بعض العلماء المحقیقین ان الارواح تتخلص لیلۃ الجمعۃ و تنتش فجاؤا الی مقابرھم ثم جاؤا فی بیوتھم*
بعض علماء محققین سے مروی ہے کہ روحیں شبِ جمعہ چھُٹی پاتی اور پھیلتی جاتی ہیں، پہلے اپنی قبروں پر آتی ہیں پھر اپنے گھروں میں۔
(خزانۃ الروایات)
دستور القضاۃ مسند صاحبِ مائۃ مسائل میں فتاوٰی امام نسفی سے ہے :
*ان ارواح المومنین یاتون فی کل لیلۃ الجمعۃ و یوم الجمعۃ فیقومون بفناء بیوتھم ثم ینادی کل واحد منھم بصوت حزین یا اھلی و یا اولادی ویا اقربائی اعطفوا علینا بالصدقۃ و اذکرونا و لاتنسونا و ارحمونا فی غربتنا الخ۔*
بیشک مسلمانوں کی روحیں ہر روز و شب جمعہ اپنے گھر آتی اور دروازے کے پاس کھڑی ہو کر دردناک آواز سے پکارتی ہیں کہ اے میرے گھر والو! اے میرے بچّو! اے میرے عزیزو! ہم پر صدقہ سے مہر کرو، ہمیں یاد کرو بھول نہ جاؤ، ہماری غریبی میں ہم پر ترس کھاؤ۔
(دستور القضاۃ)
نیز خزانۃ الروایات مستند صاحب مائۃ مسائل میں ہے :
*عن ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما اذا کان یوم عید او یوم جمعۃ او یوم عاشوراء و لیلۃ النصف من الشعبان تاتی ارواح الاموات و یقومون علٰی ابواب بیوتھم فیقولون ھل من احد یذکرنا ھل من احد یترحم علینا ھل من احد یذکر غربتنا الحدیث۔*
ابن عباس رضی ﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے جب عید یا جمعہ یا عاشورہ کا دن یا شب برات ہوتی ہے اموات کی روحیں آکر اپنے گھروں کے دروازوں پر کھڑی ہوتی اور کہتی ہیں : ہے کوئی کہ ہمیں یاد کرے، ہے کوئی کہ ہم پر ترس کھائے، ہے کوئی کہ ہماری غربت کی یاد دلائے۔ 
(خزانۃ الروایات)
اسی طرح  کنز العباد میں بھی کتاب الروضہ امام زندویسی سے منقول."
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 653، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید اس مسئلہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں :
"بالجملہ یہ مسئلہ نہ بابِ عقائد سے نہ باب احکامِ حلال و حرام سے۔ اسے جتنا ماننا چاہئے کہ اس کے لیے اتنی سندیں کافی و وافی، منکر اگر صرف انکار یقین کرے یعنی اس پر جزم و یقین نہیں تو ٹھیک ہے، اور عامہ  مسائل سیر و مغازی و اخبار وبفضائل ایسے ہی ہوتے ہیں، اس کے باعث وہ مردود نہیں قرار پا سکتے، اور اگر دعوٰی نفی کرے یعنی کہے مجھے معلوم و ثابت ہے کہ روحیں نہیں آتیں تو جھوٹا کذاب ہے، بالفرض اگر ان روایات سے قطع نظر بھی تو غایت یہ کہ عدم ثبوت ہے نہ ثبوت عدم، اور بے دلیل عدم ادعائے عدم محض تحکم و ستم، آنے کے بارے تو اتنی کتب علماء کی عبارات اتنی روایات بھی ہیں نفی و انکار کے لیے کون سی روایت ہے ؟ کس حدیث میں آیا کہ روحوں کا آنا باطل و غلط ہے؟ تو ادعائے بےدلیل محض باطل و ذلیل۔ کیسی ہٹ دھرمی ہے کہ طرف مقابل پر روایات موجودہ بربنائے ضعف مردود، اور اپنی طرف روایت کا نام و نشان اور ادعائے نفی کا بلند نشان، روحوں کا آنا اگر بابِ عقائد سے ہے تو نفیاً و اثباتاٍ ہر طرح اسی باب سے ہوگا، اور دعوٰی نفی کے لیے بھی دلیل قطعی درکار ہوگی، یا مسئلہ ایک طرف سے باب عقائد میں ہے کہ صحاح بھی مردود، اور دوسری طرف سے ضروریات میں ہے کہ اصلاً حاجت دلیل مفقود۔"
*(فتاویٰ رضویہ، جلد 9، صفحہ 656، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
*نوٹ :*
فتاویٰ رضویہ، جلد 9 (صفحہ 649 تا 656) میں سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے اس موضوع پر مکمل رسالہ بنام *’’اِتْیَانُ الْاَرْوَاحِ لِدِیَارِھِمْ بَعْدَ الرَّوَاحِ‘‘* (روحوں کا بعدِ وفات اپنے گھر آنا) تحریر فرمایا ہے، جس کی روشنی میں مذکورہ جواب تحریر کیا گیا ہے، لہٰذا اس رسالے کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
01/04/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
آپ کا ارواح کے اجسام سے نکلنے کے بعد گھر لوٹ کر آنے کے ثبوت پر جو فتویٰ ہے، میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے، ماشاء اللہ بہت ہی مدلل و مفصل فتویٰ ہے، میں اس کی مکمل تائید و تصویب کرتا ہوں، اللہ پاک آپ کے علم و فضل میں اضافہ فرمائے۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*

کیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر قرآنِ پاک میں موجود ہے؟




سائل : عبداللہ میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
جی ہاں! بلاشک و شبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا ذکر قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر موجود ہے لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے علمِ غیب سے متعلق مسلمانوں کا عقیدہ کیا ہے ؟ اس حوالے سے چند باتیں پیشِ نظر رہیں گی تو اِنْ شَآءَ اللہُ کوئی گمراہ جو مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علمِ غیب کا منکر ہے وہ کسی مسلمان کو گمراہ اور پریشان نہیں کر سکے گا۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
1- بے شک غیرِ خدا کے لیے ایک ذرہ کا علمِ ذاتی نہیں، اس قدر (یعنی اتنی بات) خود ضروریاتِ دین سے ہے اور اس کا منکر کافر ہے۔
2- بے شک غیرِ خدا کا علم اللہ پاک کی معلومات کو حاوی نہیں ہوسکتا، برابر تو درکنار۔ تمام اَوّلِین و آخِرین، اَنبیاء و مُرسَلین، ملائکہ و مقربین سب کے علوم مل کر علومِ الہِٰیّہ سے وہ نسبت نہیں رکھ سکتے جو کروڑہا کروڑ سمندروں سے ایک ذرا سی بوند کے کروڑویں حصے کو ہے کہ وہ تمام سمندر اور یہ بوند کا کروڑواں حصہ دونوں مُتَناہی ہیں (یعنی ان کی ایک انتہا ہے)، اور متناہی کو متناہی سے نسبت ضرور ہے، جبکہ اللہ پاک کے علوم وہ غیر متناہی در غیر متناہی در غیر متناہی ہیں (یعنی ان کی کوئی انتہا ہی نہیں)۔ اور مخلوق کے علوم اگرچہ عرش و فرش، مشرق و مغرب، روزِ اول تا روزِ آخر جملہ کائنات کو محیط ہو جائیں پھر بھی متناہی ہیں کہ عرش و فرش دو حدیں ہیں، روزِ اول و روزِ آخر دو حدیں ہیں اور جو کچھ دو حدوں کے اندر ہو سب متناہی ہے۔

پندرہ (15) شعبان المعظم، شبِ براءت کو مغرب کے بعد چھ (6) نوافل پڑھنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟



سائلہ : زویا عطاریہ کراچی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دامت برکاتہ العالیہ تحریر فرماتے ہیں :
"معمولاتِ اولیائےکرام رحمہم اللہُ السلام سے ہے کہ مغرب کے فرض اور سنت وغیرہ کے بعد چھ رکعت نفل، دو دو رکعت کرکے ادا کیے جائیں.
پہلی دو رکعتوں سے پہلے یہ نیت کیجئے : 
*"یاللہ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے درازئ عمر بالخیر عطا فرما۔"*
دوسری دو رکعتوں میں یہ نیت فرمائیے : 
*"یا اللہ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے بلاؤں سے میری حفاطت فرما۔"*
تیسری دو رکعتوں کے لیے یہ نیت کیجئے : 
*"یا اللہ عزوجل ان دو رکعتوں کی برکت سے مجھے اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔"* 
ان چھ (6) رکعتوں میں سورۃُ الْفَاتِحَہ کے بعد جو چاہیں وہ سورتیں پڑھ سکتے ہیں، چاہیں تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ کے بعد تین تین بار سورۃ الاخلاص پڑھ لیجئے. ہر دو رکعت کے بعد 21 بار *"قل ھو اللہ ھو احد"* (پوری سورت) یا ایک بار سورہ یاسین شریف پڑھیے بلکہ ہو سکے تو دونوں ہی پڑھ لیجئے. یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی ایک اسلامی بھائی بلند آواز سے یاسین شریف پڑھیں اور دوسرے خاموشی سے خوب کان لگا کر سنیں، اس میں یہ خیال رہے کہ سننے والا اس دوران زبان سے یاسین شریف بلکہ کچھ بھی نہ پڑھے، اور یہ مسئلہ خوب یاد رکھیے کہ جب قرآن کریم بلند آواز سے پڑھا جائے تو جو لوگ سننے کے لئے حاضر ہیں ان پر فرضِ عین ہے کہ چُپ چاپ خوب کان لگا کر سُنیں. ان شاءاللہ عزوجل رات شروع ہوتے ہی ثواب کا اَنْبار لگ جائے گا. 

کسی کو یہ کہنا کیسا ہے کہ تم فلاں کے معاملے میں مت پڑو ورنہ بے موت مارے جاؤ گے ؟


*

کسی کو یہ کہنا کیسا ہے کہ تم فلاں کے معاملے میں مت پڑو ورنہ بے موت مارے جاؤ گے ؟

سائل : آفتاب لاہور 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
کسی کو یہ کہنا کہ تم بے موت مارے جاؤ گے، یہ الفاظ قرآنِ پاک کے حکم کے خلاف ہونے کی وجہ سے بَہُت سخت ہیں کیونکہ *’’بے موت‘‘* کوئی مر ہی نہیں سکتا، لہٰذا جس نے یہ الفاظ بولے ہیں، اس پر توبہ فرض ہے اور اسے تجدیدِ ایمان کرنا چاہیے اور اگر شادی شدہ ہے تو تجدیدِ نکاح بھی کرنا چاہیے اور کسی پیرِ کامل سے مرید ہو تو تجدیدِ بیعت بھی کرلے۔
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
’’جو لوگ کہتے ہیں کہ لوگ اس میں بے موت مر جاتے ہیں وہ گمراہ ہیں، اس میں قراٰنِ عظیم کا انکار ہے، ان پر توبہ فرض ہے اور تجدیدِ اسلام و تجدیدِ نکاح چاہئے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے :
*وَ مَا كَانَ لِنَفْسٍ اَنْ تَمُوْتَ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِ كِتٰبًا مُّؤَجَّلًاؕ-*
کوئی جان بے حکمِ خدا نہیں مر سکتی، لکھا ہوا حکم ہے، وقت باندھا ہوا (یعنی سب کا وقت لکھا رکھا ہے)۔
*(پ 4، سورۃ ال عمران : 145)*
پیڑ (درخت) سے (عموماََ) ایک آدھ پھل ٹپکتا رہتا ہے، اِسی کا ٹپکنا لکھا تھا اور (بسا اوقات) ایک آندھی آتی ہے کہ ہزاروں پھل ایک ساتھ جھڑ پڑتے ہیں، (جھڑ پڑنے میں) ان کا ساتھ ہونا ہی لکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
*وَكُلُّ صَغِیْرٍ وَّ كَبِیْرٍ مُّسْتَطَرٌ"* 
(اور) ہر چھوٹی بڑی بات لکھی ہوئی ہے۔
(پ 27، سورۃ القمر : 53)
*(فتاوٰی رضویہ، جلد 24، صَفْحَہ 199، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
24/03/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*

کیا اسٹابری (Strawberry) کا پھل کھانا حرام ہے ؟




کیا اسٹابری (Strawberry) کا پھل کھانا حرام ہے ؟

کیا یہ واقعی جہنم کا پھل ہے ؟ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسٹابری (Strawberry) وہی جہنمی پھل ہے جسے قرآن پاک میں زَقُّوْم کہا گیا ہے تو اس بارے میں قرآن وحدیث کی روشنی سے جواب عطاء فرمائیں؟
سائل : محمد اکرام بہاولنگر
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اسٹابری (Strawberry) سرخ رنگ کا خوبصورت، لذیذ اور مفید پھل ہے، جس کا کھانا حرام نہیں بلکہ جائز ہے اور اِس پھل کو عربی میں *"فراولة"* کہتے ہیں۔
اور جہنمیوں کی غذا ”زَقُّوْم“ کا درخت ہوگا، جو ایک خاردار، کڑوا اور زہریلا درخت ہے بلکہ حدیثِ مبارکہ کے مطابق اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگی برباد ہوجائے گی، اسے اردو میں تھوہڑ اور انگریزی میں کیکٹس (Cactus) کہتے ہیں۔
تو چونکہ اسٹابری (Strawberry) اور زقوم دونوں کے نام الگ، دونوں کی صورت جدا اور دونوں کے ذائقے متفرق ہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ اسٹابری (Strawberry) ہرگز جہنمی زقوم نہیں ہے اور یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے کہ جہنمیوں کو جہنم میں ایسا خوش ذائقہ اور راحت بخش پھل دیا جائے گا جبکہ جہنم سخت مصائب و آلام کی جگہ ہے، جہاں نہ کوئی راحت، نہ کوئی لذت ہوگی۔
چنانچہ زقوم نامی درخت کے بارے میں ایک مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا :
*’’اَذٰلِكَ خَیْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ (۶۲) اِنَّا جَعَلْنٰهَا فِتْنَةً لِّلظّٰلِمِیْنَ (۶۳) اِنَّهَا شَجَرَةٌ تَخْرُجُ فِیْۤ اَصْلِ الْجَحِیْمِۙ (۶۴) طَلْعُهَا كَاَنَّهٗ رُءُوْسُ الشَّیٰطِیْنِ (۶۵) فَاِنَّهُمْ لَاٰكِلُوْنَ مِنْهَا فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَ (۶۶)"*
ترجمہ : تو یہ مہمانی بھلی یا تھوہڑ کا پیڑ۔ بے شک ہم نے اسے ظالموں کی جانچ کیا ہے۔ بےشک وہ ایک درخت ہے جو جہنم کی  جڑ میں سے نکلتا ہے۔ اس کا شگوفہ ایسے ہے جیسے شیطانوں کے سَر ہوں۔ پھر بے شک وہ اس میں  سے کھائیں  گے پھر اس سے پیٹ بھریں گے۔
*(پارہ 23، الصّٰفٰت : 62 تا 66)*

 ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :
*"اِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّوْمِۙ(۴۳) طَعَامُ الْاَثِیْمِ ﳝ (۴۴) كَالْمُهْلِۚۛ-یَغْلِیْ فِی الْبُطُوْنِۙ (۴۵) كَغَلْیِ الْحَمِیْمِ(۴۶)"*
ترجمہ : بیشک تھوہڑ کا پیڑ۔ گنہگاروں کی خوراک ہے۔ گلے ہوئے تانبے کی طرح پیٹوں میں جوش مارے۔ جیسا کھولتا پانی جوش مارے۔
*(پارہ 25، سورۃ الدخان : 43، 44، 45، 46)*
مزید ایک اور مقام پر فرمایا :
*’’ثُمَّ اِنَّكُمْ اَیُّهَا الضَّآلُّوْنَ الْمُكَذِّبُوْنَۙ (۵۱) لَاٰكِلُوْنَ مِنْ شَجَرٍ مِّنْ زَقُّوْمٍۙ؛(۵۲) فَمَالِــٴُـوْنَ مِنْهَا الْبُطُوْنَۚ (۵۳) فَشٰرِبُوْنَ عَلَیْهِ مِنَ الْحَمِیْمِۚ (۵۴) فَشٰرِبُوْنَ شُرْبَ الْهِیْمِؕ (۵۵) هٰذَا نُزُلُهُمْ یَوْمَ الدِّیْنِ(۵۶)"*
ترجمہ : پھر اے گمراہو، جھٹلانے والو! بیشک تم۔ ضرور زقوم (نام) کے درخت میں سے کھاؤ گے۔ پھر تم اس سے پیٹ بھرو گے۔ پھر اس پر کھولتا ہوا پانی پیو گے۔ تو ایسے پیو گے جیسے سخت پیاسے اونٹ پیتے ہیں۔ انصاف کے دن یہ ان کی مہمانی ہے۔
*(پارہ 27، سورۃ الواقعہ : 51 تا 56)*
حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا  سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :
*’’لَوْ أَنَّ قَطْرَةً مِنْ الزَّقُّومِ قُطِرَتْ فِي دَارِ الدُّنْیَا لَأَفْسَدَتْ عَلَی أَهْلِ الدُّنْیَا مَعَایِشَهُمْ فَکَیْفَ بِمَنْ یَکُونُ طَعَامَهُ"*
یعنی اگر زقوم کا ایک قطرہ دنیا میں ٹپکا دیا جائے تو دنیا والوں کی زندگانی خراب (برباد) ہو جائے تو اس شخص کا کیا حال ہو گا جس کا کھانا ہی یہی ہو گا۔
*(سنن ترمذی، کتاب صفۃ جہنّم، باب ما جاء فی صفۃ شراب اہل النّار، رقم الحدیث : 2594، جلد 4، صفحہ 263)*
*نوٹ :*
ہم اِسٹابری (Strawberry) اور اُس کے فوائد ذکر کرتے ہیں :
سرخ رنگ کا یہ لذیذ پھل دیکھنے میں جتنا خوبصورت ہے انسانی صِحَت کے لئے بھی اُتنا ہی فائدہ مند ہے، اس کا مزاج سرد ہوتا ہے۔

زندگی تو ختم کردے گی



      🌹 *زندگی تو ختم کردے گی* 🌹


*✍ ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*

👈 اس بات پہ سب کا اتفاق ہے کہ زندگی روز ایک ایک دن کرکے مارے گی ، جسم ٹوٹ جائے گا ، نیند روٹھ جائے گی ، انگ انگ فریاد کرے گا۔ اور خوشی ملتی رہے گی مگر درد کے دو پٹھوں میں آڑ بن کر۔ مگر جس حال میں جینا مشکل ہو ، اسی حال میں جینا لازم ہے۔

👈 ہم سب کے خواب ہیں ، نیتیں ہیں ، ارادے ہیں ، عزائم ہیں ، امیدیں ہیں کچھ پوری ہوں گی اور کچھ ادھوری رہ جائیں گیں۔ کچھ پوری ہوکر ادھوری ہو جائیں گی۔ ہم سب اپنے خوابوں کے تعاقب میں مارے جائیں گے۔

👈 سوچوں کی راہوں میں چلتے ہوئے بیس برس سے زائد عرصہ ہوگیا. اس عرصے کے دوران ایک چیز سیکھنے کو یہ ملی کہ ہم میں سے اکثر جذباتی طور پر کانچ کے بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ اب زندگی جب اپنا اصلی رُخ دیکھاتی ہے تو ہم چور چور ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہم نے اس کانچ کو آگ پر صیقل نہیں کیا ہوتا۔

👈 ہمیں ذاتی طور پر اور قومی طور پر ، جذباتی طور پر ٹف ہونا پڑے گا ، اپنے جذباتی مسلز کے اوپر سے چربی پگھلانا پڑے گی۔ اگر ہم جذباتی طور پر تگڑے ہوجائیں تو زندگی کے حادثات ہمیں تھکا سکتے ہیں مگر توڑ نہیں سکتے۔ کیونکہ مشکل راستہ نہیں ، مشکل ہی راستہ ہے۔ راستے میں جو رکاوٹ آتی ہے ، وہ بھی راستے کا حصہ بن جاتی ہے۔

👈 تمہاری زندگی میں جتنی بھی اینٹیں پھینکی جائیں گیں ، ان سے ہی پہاڑ کی چوٹی کی جانب جاتا ہوا رستہ تعمیر ہوجائے گا۔ ہم حالات پر نہیں ، اپنے اوپر بس چلا سکتے ہیں۔ جب زندگی ہمیں اپنے قدموں پر اوندھے منہ جھکا دے اور اٹھنے کی سکت نہ ہو تو پھر بھی ہم گرے رہنے سے انکار کر سکتے ہیں۔

زندگی کا سفر


             *👈 زندگی کا سفر 👉*


*✍ ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*

👈 بچہ پیدا ہوتا ہے ابتداء ماں کی گود میں پروان چڑھتا ہے آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جاتا ہے ، سمجھ بوجھ آتی جاتی ہے ، پھر تعلیم حاصل کرنے کیلئے اسکول جاتا ہے۔ 

👈 اسی دوران اس کو اپنی جوانی اور خوبصورتی پہ ناز ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ موج مستی کرنا شروع کردیتا ہے۔ پھر شادی کرتا ہے۔ بال بچے پیدا ہوجاتے ہیں۔

👈 پھر کچھ عرصے کے بعد بدصورتی اور خوبصورتی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ اپنے زمانے کے حسین ترین انسان کے چہرے پر بھی جھریاں نظر آنے لگتی ہے۔

👈 پھر اس کے بعد بڑے عہدے اور چھوٹے عہدے کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ سر کو ریٹائرمنٹ کے بعد دفتر کا چپڑاسی ، چوکیدار بھی سلام نہیں کرتا۔

👈 پھر اس کے بعد عمر میں چھوٹے گھر اور بڑے گھر کا فرق ختم ہوجاتا ہے۔ گھٹنوں کا درد اور کمر کی تکلیف کی وجہ سے صرف بیٹھنے کی جگہ ہی تو چائیے۔

👈 پھر اس کے بعد پیسے کی قدر و قیمت ختم ہوجاتی ہے۔ اگر اکاونٹ میں کروڑوں اور جیب میں لاکھوں روپے بھی ہوں تو کونسا سکھ خرید لو گے؟

👈 پھر اس کے بعد سونا اور جاگنا ایک برابر ہو جاتا ہے۔ جاگ کر بھی کیا تیر مار لو گے ؟

👈 لہذا اے مسلمانو! آج سے ہی اپنی زندگی کے ایک ایک پل کو اللہ کی رضا میں صَرف کرو اور ہر حال میں اللہ پاک کا شکر ادا کرتے رہو ۔

👈 *( فَبِأَيّ اٰلَآءِ رَبِِّّكُمَا تُكَذِِّبَان )*
ترجمہ: تو اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلائو گے۔

آج کا کام کل پر مت چھوڑیں


      🌺 *آج کا کام کل پر مت چھوڑیں* 🌺


✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*

👈 ایک اور دھوکہ ہے جو انسان کو وقت ضائع کرنے پر ندامت اور افسوس سے بچاتا رہتا ہے اور وہ کل ہے کہا گیا کہ انسان کی زبان میں کوئ لفظ ایسا نہیں ہے جو کل کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں ، اتنی غفلتوں ، اتنی بے پرواہیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کیلئے جواب دہ ہو؛ کیوں کہ اس کی آنے والی کل یعنی فروا آتی نہیں۔

👈 بلکہ وہ فرواے قیامت یا گزری ہوئ کل یعنی دیر وزبن جاتی ہے اور پچھلی کل کو کبھی واپس نہیں کرسکتے اور فرواے نہایت ہی دور ہوتی ہے ان دونوں قسم کی کل کو ہم آج میں تبدیل نہیں کرسکتے۔

👈 ذرا سوچیں تو سہی کہ ہم کب سے روز وعدہ کرتے ہیں کہ کل سے یہ کام کریں گیں اور کل ، کل کرتے ، ہر کل آج ہوتی چلی جارہی ہے۔ جب ہم نے آج ہی نہیں کیا، تو کل کیسے کرپائیں گیں ؟ 

👈 ہمیں شاید معلوم نہیں کہ جو کل آچکی ہے وہ گزشتہ دن کے حکم میں ہے۔ جو کام ہم آج نہیں کرسکے تو کل اس کا کرنا ہمارے لیے اور بھی مشکل ہے۔ 

👈 لہذا اگر ہم آج عاجز ہیں تو کل بھی عاجز ہوں گیں۔ اسلئے کہا گیا ہے کہ وقت جب ایک دفعہ مرگیا تو اس کو پڑا رہنے دیں ، اب اس کے ساتھ اور کچھ نہیں ہوسکتا سوائے اس کے کہ اس کی قبر پر آنسو بہائے جائیں۔ لہذا! انسان کو آج کی طرف لوٹ آنا چاہیے مگر لوگ اس کی طرف لوٹتے نہیں ہیں۔

والدہ کی عظمت


       

   🌹 *والدہ کی عظمت* 🌹


*✍ ابو المتبسِّم ایازاحمد عطاری*

👈 گھر کا ایک ایسا شخص جو کبھی کام کرنے سے تھکا نہیں ، کبھی پہلے کھانا کھایا نہیں ، کبھی اپنی فرمائش کا کھانا پکایا نہیں۔
وہ شخصیت *والدہ* ہیں۔

👈 جی ہاں میرے پیارے بھائیو!! یہ ایک ایسی شخصیت ہیں۔ اگر کسی کو اس کی قدر معلوم کرنی ہے تو اُن سے پوچھو جن کی والدہ نہیں ہے۔ جاکہ اِن سے پوچھو کہ بھائ بتا کہ ماں کیا چیز ہوتی ہے ؟
ماں کی قدر کیا ہوتی ہے ؟

👈 یقین مانیں ان لوگوں کے پاس الفاظ نہیں ہونگے کہ وہ آپ کو والدہ کی عظمت بیان کرسکیں سواء آنسوئوں کہ ۔

👈 جن بھائیوں کی والدہ حیات ہیں اے میرے بھائیو! آپ ان کی قدر کریں۔ کبھی تو اپنی والدہ سے کہیں کہ
 *امی آپ بہت اچھی لگتی ہیں*
*امی آپ کا بہت شکریہ*
*امی I love you*
*امی اب آپ بیٹھو میں آپ کیلئے چائے لے کر آتا ہوں*
*امی اب میں آپ کی خدمت کرونگا*

روزہ کے روحانی اور جسمانی فوائد


  * روزہ کے روحانی اور جسمانی فوائد *


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* 

رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے رب کا خاص انعام ہے۔ اس مبارک مہینے میں لوگ عبادات کر کے اپنے رب کو منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ دن کو روزہ رکھ کر رات کو قیام کرتے ہیں۔ اور اللہ تَبارَکَ وَ تَعَالٰی  کا کتنا بڑا کرم ہے کہ اُس نے ہم پر ماہِ رَمَضانُ المبارَک کے  روزے فرض کرکے  ہمارے لئے سامانِ تقویٰ فراہم کیا۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ پارہ2 سُوْرَۃُ الْبَقْرَہ کی آیت نمبر 183تا 184 میں  ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)  اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍؕ-فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَؕ-وَ عَلَى الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَهٗ فِدْیَةٌ طَعَامُ مِسْكِیْنٍؕ-فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَهُوَ خَیْرٌ لَّهٗؕ-وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۱۸۴)
ترجَمَۂ کنزالایمان:  اے ایمان والو! تم پر روزے فَرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے، گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دِنوں میں اور جنہیں اِس کی طاقت نہ ہو وہ بدلے میں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اُس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بَھلا ہے اگر تم جانو۔

روزہ بڑی پرانی عبادت ہے:
آیت کریمہ کے  ابتدائی حصّے کے  تحت ’’تَفْسِیرِ خازِن‘‘  میں  ہے: تم سے پہلے لوگوں سے مراد یہ ہے:  حضرت سَیِّدُنا آدَم صَفِیُّ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام سے حضرت سیِّدُنا عیسیٰ رُوحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تک جتنے انبیائے کرام عَلَيْهمُِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام تشریف لائے اور ان کی اُمتیں آئیں ان پر روزے فرض ہوتے چلے آئے ہیں (مگر اُس کی صورت ہمارے روزوں سے مختلف تھی) مطلب یہ ہے کہ روزہ بڑی پرانی عبادت ہے اور گزشتہ اُمتوں میں کوئی اُمت ایسی نہیں گزری جس پر اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمہاری طرح روزے فرض نہ کیے ہوں ۔(تفسیرِ خازن ج1 ، ص 119 مُلَخَّصاً)

آخر کب تک برداشت کریں


    

      *آخر کب تک برداشت کریں* ❓


✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*:-

👈 ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے کانچ کے ھیرے اور اصلی ھیرے ایک تھیلی میں ڈال کر اعلان کیا کہ "ھے کوئی جوھری جو کانچ اور اصلی ھیرے الگ کر سکے"۔

👈 شرط یہ تھی کہ کامیاب جوھری کو منہ مانگا انعام اور ناکام کا سر قلم کردیا جائے گا۔ لیکن جو جوھری آتا صحیح طرح سے پہچان نہیں کر پاتا اور بادشاہ اس کا سر قلم کردیتا۔ اس طرح سے کئ جوھریوں کے سر قلم ہوئے۔ کیونکہ کانچ کے نقلی ھیروں کو اس مہارت سے تراشا گیا تھا کہ اصلی کا گمان ھوتا تھا۔

 👈 بادشاہ کا اعلان سن کر ایک اندھا ، شاھی محل میں حاضر ھوا۔سلام کے بعد بولا کہ میں وہ ھیرے اور کانچ الگ الگ کر سکتا ہوں۔ بادشاہ نے تمسخر اڑایا اور ناکامی کی صورت میں سر قلم کرنےکی شرط بتائی۔ اندھا ھر شرط ماننے کو تیار ھوا۔

👈 ھیروں کی تھیلی اٹھائی اور محل سے نکل گیا۔ ایک گھنٹے بعد حاضر ھوا اس کے ایک ھاتھ میں اصلی اور دوسرے ھاتھ میں کانچ کے نقلی ھیرے تھے۔ شاھی جوھریوں نے تصدیق کی کہ اندھا جیت گیا ھے۔

👈 بادشاہ بہت حیران ھوا اس کی حیرت کی انتہا نہ رھی کہ ایک جو کام آنکھوں والے نہ کر سکے وہ کام ایک نابینا کیسے کر گیا۔ بادشاہ نے اندھے سے دریافت کیا کہ اس نے اصلی اور نقلی کی پہچان کیسے کی؟

علم البلاغة کی اہمیت و حاجت


  🌹 *علم البلاغة کی اہمیت و حاجت* 🌹


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*

👈 قرآن پاک ایک معجزہ ہے اس کا سب اعتراف کرتے ہیں۔ لیکن کس اعتبار سے معجزہ ہے اس بارے میں مختلف علماء کرام علیھم الرضوان کے اقوال ہیں:

*1۔* قرآن پاک میں جو غیب کی خبریں بیان کی گئ ہیں وہ سب کی سب سچی ہیں اس اعتبار سے قرآن پاک معجزہ ہے۔

*2۔* قرآن پاک اپنی تأثیر کے اعتبار سے معجزہ ہے۔
جیسے: حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قرآن پاک سنا تو قتل کرنے کا ارادہ ترک کرکے بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوکر اسلام قبول فرما لیا۔

*3۔* قرآن پاک انداز بیان کے اعتبار سے معجزہ ہے۔
جیسے: جہاں خوش خبری کا بیان ہے تو وہاں پہ ڈر سنانے کا بیان ، جہاں قصص کا ذکر ہے وکاں وعظ کا۔

*4۔* قرآن پاک کی کوئ مثل نہیں لا سکا اس اعتبار سے قرآن پاک معجزہ ہے۔

👈 قرآن پاک کے اس معجزے کو سمجھنے کیلئے بلاغت کا آنا ضروری ہے۔ بغیر علم البلاغة کے اس معجزے کو سمجھنا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے مختلف اداروں میں فن البلاغة کو شامل نصاب رکھا گیا ہے تاکہ اس بات کو سمجھا جائے کہ قرآن پاک کس اعتبار سے معجزہ ہے۔

                     *علم البلاغة کی حاجت*
                        __________________

👈 جب صحابہ کرام علیھم الرضوان کو کوئ مسئلہ در پیش ہوتا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر مسئلہ عرض کرتے۔ 

👈 اسی طرح زمانہ گزرتا گیا اور آہستہ آہستہ عجمی لوگ بھی دار اسلام میں داخل ہوتے گئے۔ جب عجمی داخل ہوئے تو وہ اپنے الفاظ استعمال کرتے تو اس طرح پھر عربیت میں فرق آتا گیا۔ اور عربی کو سمجھنے میں مشکل پیدا ہوگئ۔

👈 تو اس مشکل کو دور کرنے کیلئے ایک ایسے فن کی حاجت پیش ہوئ جس کے ذریعے اس مشکل کو دور کیا جائے۔ تاکہ قرآن پاک کا معجزہ سمجھ آجائے جو فصیح و بلیغ کلام ہے۔

👈 اس مشکل کو دور کرنے کیلئے *علم البلاغة* کو  وضع کیا گیا تاکہ اس علم کے قواعد کو سمجھ کہ قرآن پاک کے معجزے کو سمجھ جائے۔

*نوٹ:-* خلاصه التقریر *علامہ عبد الرزاق المدنی دامت فیوضھم*

دوسروں کے جذبات کا احترام کریں


  *دوسروں کے جذبات کا احترام کریں*  


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-

👈 دوسروں کے جذبات کا احترام کیجئے ممکن ہے آپ کی نظر میں ان کے جذبات کی کوئ اہمیت نہ ہو ، لیکن ان کے یہی جذبات ان کیلئے زندگی جینے کی سب سے بڑی وجہ ہوسکتے ہیں۔

👈 بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ ، کچھ لوگوں کے بارے میں بولتے ہیں کہ یہ بندہ خاموش ہے ، یہ بچارہ سادہ طبیعت کا مالک ہے ، اس کو بولنا نہیں آتا وغیرہ وغیرہ۔ میرے بھائ!! اللہ تعالی نے ان کو زبان بھی دی ہے ، اور یہ سب کچھ سمجھتے بھی ہیں ، لیکن بس پھر بھی صرف رشتے کو قائم رکھنے کیلئے خاموش رہتے ہیں۔ 

👈 بعض لوگوں کے پاس بے پناہ الفاظ اور خیالات کا ذخیرہ ہوتا ہے۔جنہیں وہ جب چاہیں جہاں بھی استعمال کرنا چاہیں کرسکتے ہیں۔لیکن وہ خاموش رہتے ہیں انہیں ہر بات پر بحث کرنا نہیں آتا۔وہ ہر درد ہر تکلیف کا جواب اپنی مسکراہٹ اور معمولی سے آنسوؤں کے قطروں سے دیتے ہیں۔بظاہر تو وہ بہت پرسکون اور خوش نظر آتے ہیں۔ مگر اندر سے وہ ہزاروں طوفان کے ساتھ لڑ رہے ہوتے ہیں۔

👈 وہ ان روّیوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں جو ناقابل یقین ہوتے ہیں۔ دراصل وہ اپنی زندگی سے لڑ رہے ہوتے ہیں اور اسی لڑائی میں وہ اپنی آخری سانس بھی گنوا دیتے ہیں جن کا افسوس بھی نہیں رہتا۔ 

👈 کہنے کو تو دنیا بہت کچھ کہتی ہے مگر ایسے لوگوں کی پہچان بہت مشکل کر پاتی ہے یہ دنیا اور اس دنیا کے لوگ اپنے آس پاس کے لوگوں کا خیال کیجئے انکی تکلیفوں کو سمجھنے اور کم کرنے کی کوشش کیجئے ، ناکہ انہیں پاگل کہہ کر دهتکاریں ، خاموش ہو کر انکی خاموشی کا احترام کریں اور انہیں اس درد سے باہر لائیں۔

👈 ایک بات ہاد رکھیں!! جس طرح علم کا پھول کبھی نہیں مُرجھاتا اسی طرح نیک نیتی سے کیا گیا عمل کبھی نقصان نہیں پہنچاتا۔

ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ


 *🌹 ماں کی گود بچے کا پہلا مدرسہ 🌹* 


*✍ ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*

👈 انسانی زندگی کی ابتداء ماں کے بطن سے ہوتی ہے۔ بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہو کر دنیا میں آتا ہے۔ اسی لیے *ماں کی گود کو بچے کا پہلا مدرسہ* کہا جاتا ہے۔ اسی لیے اگر کسی بچے کو ماں کی دینی گود ملے تو وہ بچہ خوش قسمت ہوگا کیونکہ پہلے مدرسے سے اس کو *صراط مستقیم* کی تعلیم میسَّر ہوگی۔ تو آگے جاکر وہ اسی راستے پر چلے گا۔ اور اگر پہلا مدرسہ درست نہ ہوا تو آگے اس بچے کی زندگی بھی اجیرن ہوگی۔

👈  اسلئے ماؤں کی گود کو دینی گود بنانے کی ضرورت ہے۔ عورتوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم دینا انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ جب کوئی مستری کسی دیوار کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دیتا ہے تو وہ دیوار آسمانوں تک اُونچی چلی جائے اس کا ٹیڑھا پن بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح اگر ماں کی اپنی زندگی میں دیندادی نہیں اور وہ بچے کی پرورش کررہی ہے تو وہ بچے میں دین کی محبت کیسے پیدا کر پائے گی۔ اس لیئے پہلی اینٹ کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

👈 کسی نے کیا خوب فرمایا ہے کہ اگر کسی کے دو بچے ہوں ایک بیٹا اور ایک بیٹی اور اس کی حیثیت اتنی ہو کہ دو میں سے ایک کو تعلیم دلوا سکتا ہے تو اس کو چاہیئے کہ بیٹی کو تعلیم پہلے دلوائے اس لیئے کہ عورت پڑھی خاندان پڑھا۔

👈 آج کل کے مردوں میں ایک بات مشہور ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ عورتیں عقل اور دین میں ناقص ہوتی ہیں۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ عورتوں کے عقل میں جذباتیت زیادہ ہوتی ہے ، ذرا سی بات پہ بھڑک اُٹھتی ہیں ، محسوس جلدی کرلیتی ہیں ، اور بعض اوقات جذبات میں آکر دین کی باتوں کو بھی ٹھکرا بیٹھتی ہیں۔

 👈 لیکن یہ ایسی ناقصات ہیں کہ بڑے بڑے عقل مند مردوں کے عقل کو اُڑا دیتی ہیں۔ اس لئے یہ بات تجربے میں بھی آئی ہے کہ عورتیں جب کسی چیز کو منوانے پہ تل جائیں ، ضد کریں ، ہٹ دھرمی کریں یا خاوند کو پیار و محبت کی گولی کھلائیں ، خاوند کو مجبور کرکے اپنی بات منوا لیتی ہیں۔ تو جب دنیا کی یہ باتیں منوا لیتی ہیں تو دین کی تعلیم حاصل کرنے کی یہ بات کیوں نہیں منوا سکتیں۔

👈 آپ دیکھے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں میں کوئی نبیّہ نہیں بھیجا مگر نبیّوں کی ماں ضرور بنایا ہے۔ یہ عورت کا مقام ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جب عورت کو اپنے دین کے خدمت کیلئے قبول کرے تو اسکی نسل نسل میں دین کو آباد رکھتا ہے۔

👈 اللہ رب العزت نے عورت کے اندر بڑی غیر معمولی صلاحتیں رکھی ہیں۔ اگر یہ تعلیم و تربیت سے منوَّر ہوجائے تو اس کے اندر بڑی تحمَّل مزاجی بھی پیدا ہوجاتی ہے ، صبر بھی پیدا ہوجاتا ہے اور آنے والی نسل کے لئے خیر کا باعث بنتی ہے۔ 

👈 لہذا! ہمیں چاہئے کہ عورتوں کو دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا بھی خاص خیال رکھیں تاکہ وہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کرسکیں۔ ایک عورت کی وجہ سے پورا خاندان صحیح سمت چل سکتا ہے اور نسلوں میں اس کا اثر چلتا رہتا ہے۔ بعض لوگ تو عورتوں کے تعلیم کے مخالف ہوتے ہیں۔ اور جو مخالف نہیں تو وہ دینی تعلیم کا انتظام نہیں کرواتے۔

👈 لہذا! دینی و دنیوی دونوں قسم کے تعلیم سے عورت کو منوَّر کرنا چاہئے تاکہ وہ اس معاشرے کی دیوار کی پہلی اینٹ کو درست لگادے تو باقی دیوار خود بخود سیدھی سمت چلے گی۔