*مالک کُل ، قاسمِ نعمتِ کُل میرے آقا صلی اللّٰہ عَلَیْہ وسلم *
*مالک کُل ، قاسمِ نعمتِ کُل میرے آقا صلی اللّٰہ عَلَیْہ وسلم *
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: *”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“* یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔
(📗بخاری،ج1،ص42،حدیث:71)
اس حدیثِ مبارکہ میں اس بات کی صراحت نہیں کہ سرورِ دو عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا عطا فرمانے والے ہیں، اس صورت میں اصول کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا کہ ہر نعمت کو تقسیم کرنے والے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واسطے کے بغیر کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔
*رزق ہے رب کا کھلاتے یہ ہیں*
فقیہِ اعظم ہند حضرت علّامہ مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں :مخلوق میں کسی کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بِلا واسطہ کچھ نہیں مل سکتا ۔ بخاری وغیرہ میں صحیح حدیث ہے کہ فرمایا : *”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي“* ۔ قَاسِمٌ اور يُعْطِي دونوں کا متعلّق محذوف ہے جو عموم کا اِفادہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی دیتا ہے خواہ وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی ، ظاہری ہو یا باطنی سب حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ سے دلاتا ہے۔اس لئے علامہ احمد خطیب قسطلانی شارح بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے *”اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنیہ“* میں فرمایا، جسے علامہ محمد بن عَبدُالباقی زُرقانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے باقی رکھا: *ھُوَ صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌاِلَّا عَنْہُ وَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔* یعنی حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خزانۃ السر (یعنی پوشیدہ راز) ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے نافذ ہونے کا مرکز ، اس لئے ہر چیز حضور ہی سے منتقل ہوتی ہے اور ہر حکم حضور ہی سے نافذ ہوتا ہے۔
(📗فتاویٰ شارح بخاری،ج1،ص351)
حکیمُ الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دین و دنیا کی ساری نعمتیں علم، ایمان، مال، اولاد وغیرہ دیتا اللہ ہے بانٹتے حضور ہیں جسے جو مِلا حضور کے ہاتھوں مِلا کیونکہ یہاں نہ اللہ کی دَین (یعنی دینے) میں کوئی قید ہے نہ حضور کی تقسیم میں، لہٰذا یہ خیال غلط ہے کہ آپ صرف علم بانٹتے ہیں ورنہ پھر لازم آئے گا کہ خدا بھی صرف علم ہی دیتا ہے۔
(📗مراٰۃ المناجیح،ج1،ص177)
بعض علما نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے تقسیم میں فقط عِلم کا ذکر کیا ہے لیکن یہ تقسیم صرف عِلم کے ساتھ خاص نہیں، کثیر ائمہ نے اس تقسیم کو عام رکھا ہے کہ علم ہو یا مال ہر نعمت حضورِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تقسیم فرماتے ہیں ۔
پانچویں صدی ہجری کے بزرگ، شارحِ بخاری امام ابن بطّال مالکی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان ”اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ حضور علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام اپنے پاس کوئی مال نہیں رکھتے تھے بلکہ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان میں تقسیم فرما دیتے اور آپ علیہ الصَّلوٰۃ وَالسَّلام کا یہ فرمان لوگوں کی دل جوئی کے لئے تھا کہ کسی کو کم زیادہ مل رہا ہے تو یہ اللہ تعالٰی کی عطا ہے جس کو میں زیادہ دے رہا ہوں تو وہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے اور کسی کو اس کے مقابلے میں کم دے رہا ہوں تو یہ بھی اللہ تعالٰی کے مقرر کرنے کی وجہ سے۔
(📗شرح ابن بطال علی صحیح البخاری،ج1،ص141ملخصاً)
*آپ کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے*
دسویں صدی ہجری میں وصال فرمانے والے عظیم مُحدّث، حافظ ابنِ حجر ہیتمی مکی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں: حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ تعالٰی کے خلیفۂ اعظم ہیں،اللہ تعالٰی نے اپنے کرم کے خزانے اور نعمتوں کے دسترخوان حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھوں میں دے دیئے ہیں حضور جسے جو چاہیں عطا فرما دیں۔
(📗الجوهر المنظم، ص 80)
*رب ہے مُعْطِی یہ ہیں قاسم*
*رزْق اُس کا ہے کھلاتے یہ ہیں*
*اِنَّا اَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَر*
*ساری کثرت پاتے یہ ہیں*
*ان کے ہاتھ میں ہر کنجی ہے*
*مالک کُل کہلاتے یہ ہیں*
(📗حدائقِ بخشش)
*ایک پیالہ دودھ سب کو کافی ہوگیا*
حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ بھوک کی حالت میں راستے میں موجود تھے کہ اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف لائے اور چہرہ دیکھ کر ان کی حالت سمجھ گئے۔ انہیں ساتھ لے کر اپنے مکانِ عالی شان پر تشریف لائے تو دودھ کا ایک پیالہ موجود تھا۔ جو کسی نے بطورِ تحفہ بھیجا تھا۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ جاکر اَصحابِِ صُفّہ کو بُلا لائیں۔ آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں خیال آیا کہ ایک پیالہ دودھ سے اَہْلِ صُفّہ کا کیا بنے گا، اگر یہ دودھ مجھے عطا ہو جاتا تو میرا کام بن جاتا۔ بہر حال حکمِ رسالت پر عمل کرتے ہوئے اصحابِ صُفّہ کو بُلا لائے۔ اب اِن ہی کو حکم ہوا کہ پیالہ لے کر سب کو دودھ پِلائیں۔ آپ پیالہ لے کر اصحابِ صُفّہ میں سے ایک صاحب کے پاس جاتے، جب وہ سَیر ہو کر پی لیتے تو ان سے پیالہ لے کر دوسرے کے پاس جاتے۔ ایک ایک کر کے جب تمام حاضرین نے سیر ہوکر دودھ پی لیا تو پیالہ لے کر آقائے مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچے۔ رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے پِیالہ لے کر اپنے مبارک ہاتھ پر رکھا، ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔ پھر فرمایا: بیٹھو اور پیو۔ حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیٹھ کر دودھ پیا۔ دوبارہ حکم ہوا: پیو، انہوں نے پھر پیا۔سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بار بار فرماتے رہے: پیو، اور حضرت سیّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پیتے رہے یہاں تک عرض گزار ہوئے: اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میرے پیٹ میں اب مزید گُنجائش نہیں ہے۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پیالہ لے کر اللہ پاک کی حمد کی، بِسْمِ اللہ پڑھی اور باقی دودھ نوش فرما (یعنی پی) لیا۔
(📗بخاری،ج 4،ص234،حدیث:6452ملخصاً)
*کیوں جنابِ بُوہُریرہ تھا وہ کیسا جامِ شِیر*
*جس سے سَتّر صَاحبوں کا دودھ سے مُنھ پھر گیا*
”حدائقِ بخشش
x