نعرہ لبیک یارسول اللہ کی تحقیق.........؟؟ دین کےنام پےووٹ لینا,سیاست کرنا.....؟؟ حیات النبی اور ندا یارسول اللہ............؟؟
نعرہ لبیک یارسول اللہ کی تحقیق.........؟؟
دین کےنام پےووٹ لینا,سیاست کرنا.....؟؟
حیات النبی اور ندا یارسول اللہ............؟؟
سوال:
علامہ صاحب کچھ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دینی نعرہ ہے تو اسےسیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنا بری بات ہے…لبیک کسی کی ندا.و.پکار کے جواب میں ہوتا ہے رسول کریم کی کونسی سیاسی ندا ہے جس پر لبیک کہتے ہو.....؟؟
لبیک اللھم لبیک تو سنا ہے مگر لبیک یارسول اللہ کہاں سے ثابت ہے نیز نبی پاک تو وفات پاچکے اب انہیں دور سے یا کہہ کر پکارنا کہاں سے ثابت ہے.....؟؟
(سائل:سید شاہ فیصل ترمذی مردان،ساکن پشاور کےپی کے)
.
جواب.و.تحقیق:
نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی صحابی کو بلاتے تو صحابہ کرام علیھم الرضوان لبیک یارسول اللہ(ہم حاضر ہیں یارسول اللہ)عرض کرتے تھے...چند جھلکیاں ملاحظہ فرمائیں
.
قَالَ: «يَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ». قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ:
رسول کریم نے فرمایا اے گروہ انصار.....صحابہ کرام نے جواب عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(ہم حاضر ہیں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
(صحيح البخاري فی حديث4333)
(مسلم فی حديث1780)
.
قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا أَبَا ذَرٍّ»، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ:
سیدنا ابوذر فرماتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا اے ذر....میں نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[سنن أبي داود فی حديث4261]
.
فَنَادَى: «يَا كَعْبُ» قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،»
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ندا دی اے کعب....سیدنا کعب نے عرض کی لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
(بخاری فی حديث457)
(سنن النسائي فی حديث5408)
.
قَالَ: «يَا مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ»، قَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ:
رسول کریم نے فرمایا اےمعاذ بن جبل....سیدنا معاذ نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
(صحيح البخاري فی حديث128)
.
وَقَالَ: أَبَا هُرَيْرَةَ قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللهِ
ترجمہ:
رسول کریم نے فرمایا اے ابوہریرہ....میں نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[سنن الترمذي فی حديث2477]
.
قَالَ: «يَا جَابِرُ»، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ
رسول کریم نے فرمایا اے جابر....میں نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[سنن أبي داود فی حديث634]
.
فَنَادَى كَعْبًا، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ.
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ندا دی اے کعب....سیدنا کعب نے عرض کی لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[سنن ابن ماجة فی حديث2429]
فَقَالَ لِي: «يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ». قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کہا اے عبداللہ بن قیس....میں نے عرض کی لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[صحيح البخاري فی حديت4205]
.
فَقَالَ: «يَا أَبَا هُرَيْرَةَ» فَقُلْتُ: لَبَّيْكَ رَسُولَ اللَّهِ
ترجمہ:
رسول کریم نے فرمایا اے ابوہریرہ....میں نے عرض کیا لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ(میں حاضر ہوں یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم)
[صحيح البخاري فی حديث5375]
.
.
الحدیث:
قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم: " «من لا يهتم بأمرالمسلمين فليس منهم
ترجمہ:
جو مسلمانوں کے(دینی دنیاوی معاشی معاشرتی سیاسی وغیرہ)معاملات(بھلائی ترقی اصلاح)پر(حسب طاقت)اہتمام نا کرے، اہمیت نا دے وہ اہلِ اسلام میں سے نہیں
(مجمع الزوائد حدیث294)
.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
كانت بنو إسرائيل تسوسهم الأنبياء، كلما هلك نبي خلفه نبي، وإنه لا نبي بعدي، وسيكون خلفاء فيكثرون
(بخاری حدیث نمبر3455)
ترجمہ:
بنو اسرائیل کا سیاسی انتظام انبیاء کرام کرتے تھے،جب کبھی ایک نبی انتقال فرماتے تو دوسرے نبی ان کے پیچھے تشریف لاتے اور میرے بعد کوئی نبی نہیں،خلفاء ہونگے اور بہت ہونگے..(بخاری حدیث نمبر3455)
ان دو حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم و فداہ روحی و جسدی و ما-لی حکم دے رہے ہیں کہ حسب طاقت دین کو تخت و حکومت پے لاؤ، پاکیزہ اسلامی سیاست اپناؤ……یہ حکم تاقیامت ہر امتی کو ہے
تو
ہم سرکار کل عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم و ارشاد پر لبیک لبیک لبیک یارسول اللہ کا نعرہ لگاتے ہیں اور عملا بھی بھرپور کوشش میں مگن ہیں کہ دین سیاست.و.اقتدار میں مکمل آجائے، چھا جائے
.
پاکیزہ سیاست انبیاء کرام کی سنت ہے یہ کوئی بری چیز نہیں اس لیے دینی نعرے دینی سیاست کےلیے لگانا برحق و لازم ہے...دین کے نام پےدین کےلیے ووٹ لینا الیکشن لڑنا برحق و حسب طاقت لازم ہے...مانا کہ اس وقت مکمل اسلامی سیاست نہیں مگر ہم اہلسنت اس بری سیاست میں گھس کر اسے اسلامی سیاست بنانے کے منصوبے پے عمل پیرا ہیں...اس بری سیاست سے جتنا دور ہونگے اتنی ہی یہ سیاست بری ہوتی جائے گی اور مضبوط ہوتی جاءے گی....اس ناسور کا اس دور میں علاج یہی لگتا ہے کہ اس سیاست میں گھس کر اسے پاکیزہ بنایا جائے اگرچہ اس میں وقت لگ سکتا ہے مگر ہمارے پاس کوئی اور نعم البدل حسب طاقت کوئی اور چارہ نہیں..لیھذا ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے، کاہلی سستی نہیں کرنی چاہیے…اپنے دنیاوی نسلی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر اسلامی سیاست والوں، سچےاہلسنت کا ساتھ دینا چاہیے انہیں ووٹ دینا چاہیے...سچےاہلسنت ہزار بار بھی الیکشن ہاریں تب بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے تب بھی ووٹ سچے اہلسنت کو دینا چاہیے کہ ظاہری ہار جیت اتنی معنی نہین رکھتی...معنی تو یہ بات رکھتی ہے کہ آپ نے ووٹ دین و سنت کے لیے دیا یا دنیاوی مفاد و نسلی مفاد میں دیا....؟؟
جس نے سچے اہلسنت علماء لیڈرز کو ووٹ دیا وہ ہار بھی جائے تب بھی اسکی جیت ہے کہ دین و سنت کے لیے ووٹ دیا،ساتھ دیا
.
القرآن،ترجمہ:
(اسلام و حق پے)نہ سستی کرو،نہ غم(آل عمران139
حق،سچ بظاہر ہار بھی جائے تو بھی جیتا ہوا ہوتا ہے
کوئی غم نہیں مگر سستی بھی جرم
.
تلخیصِ حدیث:
جو بلاعذر محض دنیاوی مفاد کےلیے بیعت کرے(حمایت کرے،ووٹ دے)اسے قیامت کے دن دردناک عذاب ہوگا(بخاری7212)
.
پاکستان بنا ہی دینی نعروں پے ہے دین کے نام پے ہی علماء و مشائخ اہلسنت اور علامہ اقبال اور قائد اعظم محمد علی جناح سب نے دو قومی نظریہ کے تحت ہی اور اسلام کے نام پے ہی الگ ملک حاصل کیا اور قران و سنت کو ہی ملک پاکستان کا آئین کہا...تو دین کے نام پے ووٹ لینا شرعا بھی درست ہے تو اکابرین و بانیان پاکستان کا بھی وطیرہ رہا ہے
.
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ
ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں(قرآن و سنت) پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)
.
.
*#نبی کریم کی رحلت(وفات)کے بعد یانبی یارسول اللہ کہنا:*
فَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ، ثُمَّ أَكَبَّ عَلَيْهِ، فَقَبَّلَهُ، ثُمَّ بَكَى، فَقَالَ: «بِأَبِي أَنْتَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ،
(صحابہ کرام کے مجمعےمیں نبی پاک کی رحلت (وفات) کے بعد)حضرت سیدنا ابوبکر صدیق نبی پاک کے چہرہ مبارک سے کفن ہٹایا اور آپ سے لپٹ گئے اور نبی پاک کا بوسہ لیا پھر روئے اور پھر کہا "یا نبی اللہ آپ پر میرے ماں باپ قربان
[صحيح البخاري ,2/71 فی حدیث1241]
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرام کے مجمعے میں یا کہہ کر ندا کی سیدنا صدیق اکبر نے اور کسی صحابی نے انکار نہ فرمایا.....گویا صحابہ کرام کا اجماعی نظریہ عقیدہ ثابت ہوگیا کہ میت کو یا کہہ کر پکار سکتے ہیں...البتہ اس پے اعتراض ہوسکتا ہے کہ وفات کے بعد قریب سے یارسول اللہ کہہ سکتے ہیں...دور سے نہیں، چلیے دور سے بھی یا رسول اللہ کہنے کی دلیل پیش کرتے ہیں
.
*#بعد از رحلت(وفات) دور سے یامحمد یارسول اللہ کہنا:*
وَكَانَ شِعَارُهُمْ يَوْمَئِذٍ يَا مُحَمَّدَاهْ
مسلیمۂ کذاب سے جہاد کرتے وقت صحابہ کرام تابعین عظام کا نعرہ تھا یامحمد یا محمد
[ابن كثير ,البداية والنهاية ط الفكر ,6/324]
[الطبري، أبو جعفر ,تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري ,3/293]
[ابن الأثير،الكامل في التاريخ ,2/217]
.
الحدیث،ترجمہ:
مجھ پر میری امت کے تمام اچھے برے اعمال پیش کیے گئے.(مسلم حدیث نمبر1120 سند صحیح ہے)
.
الحدیث:
تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُم
ترجمہ:
تمھارے تمام اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں
(مجمع الزوائد جلد9 صفحہ24سند صحیح ہے)
.
الحدیث:
وَعَنْ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: " «إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ رَفَعَ لِيَ الدُّنْيَا فَأَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا وَإِلَى مَا هُوَ كَائِنٌ فِيهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّمَا أَنْظُرُ إِلَى كَفِّي هَذِهِ
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,8/287]
ترجمہ:
بے شک اللہ نے میرے لیے دنیا کو اس طرح مرتفع کر دیا کہ مین اسے اور اس مین ہونے والے تمام معاملات قیامت تک ایسے دیکھتا ہوں جیسے اپنی اس ہتھیلی کو دیکھ رہا ہوں
(مجمع الزوائد جلد8 صفحہ287)
اسکی سند کو بعض علماء نے اگرچہ ضعیف کہا ہے مگر اوپر والی احادیث کی تائید کی وجہ سے ضعیف ختم ہوجاتا ہے
.
اہلسنت و دیوبند وغیرہ کے معتبر ترین علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں..ترجمہ:
علماء میں کثرت اختلاف اور بہت سے مذاہب ہین لیکن اسکے باوجود سب کا اس میں اتفاق ہے کہ رسول اللہ.صلی اللہ علیہ وسلم(رحلت،وفات کے بعد)حقیقتا بلا شک و شبہ بلا توھم و تاویل کے زندہ ہیں،دائم.و باقی ہیں.. امت کے تمام اعمال پر حاضر و ناظر ہیں،حقیقت کے.طلبگاروں اور متوجہ ہونے والوں کو فیض پہنچاتے ہیں..
(مکتوبات علی ہامش اخبار الاخیار ص155)
.
غیرمقلدوں اہل حدیثوں وہابیوں کے معتمد عالم شمس الحق اور قاضی شوکانی لکھتے ہیں:
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ
ترجمہ:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم رحلت( وفات) کے بعد زندہ ہیں اور وہ امت کی نیکیوں سے خوش ہوتے ہیں
(نیل الاوطار جلد4 صفحہ183)
.
حدیث پاک میں ہے کہ:
حتى إنه ليسمع قرع نعالهم
ترجمہ:حتی کہ مردہ تو لوگوں کے جوتوں کی ہلکی سی آہٹ تک سنتا ہے...(بخاری حدیث1338)
.
آیات آحادیث اقوال کے علاوہ قبر میں سوال جواب اور قبرستان میں السلام علیکم کہنے سے بھی مردوں کا سننا بولنا سمجھنا محسوس کرنا جواب دینا بہت کچھ ثابت ہوتا ہے... بس ہمیں اس کا شعور نہیں کیونکہ یہ اللہ کا بنایا ہوا نظام ہے.. اللہ فرماتا ہے..ترجمہ:
اور جو اللہ کی راہ میں مارے جائیں انھیں مردہ نا کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں مگر تمھیں اسکا شعور نہیں.
(سورہ بقرہ آیت154)
.
الحدیث:
إن الله عز وجل حرم على الأرض أجساد الأنبياء
ترجمہ:
بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے...(ابو داؤد حدیث 1047)
یہ حدیث پاک ایک نہین بلکہ بہت ساری کتابوں میں موجود ہے حتی کہ انہیں نجدیوں کے محدث وقت البانی کو بھی اقرار کرنا پڑا کہ یہ حدیث صحیح ہے
.
ایک اور حدیث پاک میں مزید وضاحت ہے کہ
الحدیث:
وبعد الموت، إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء، فنبي الله حي يرزق
ترجمہ:
میری رحلت(وفات)کے بعد بھی تمھارا درود مجھ تک پہنچے گا کیونکہ بے شک اللہ عزوجل نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انیباء کرام کے جسموں کو کھائے، تو اللہ عزوجل کے انبیاء کرام وفات کے بعد بھی زندہ ہوتے ہیں، رزق دیے جاتے ہیں
(ابن ماجہ حدیث1638)
یہ حدیث پاک بھی کئ کتابوں مین موجود ہے....نجدیوں سے پہلے کے مستند علماء نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے، اسلام کو آئے ہوئے کوئی چودہ سو سال ہوئے ہیں جبکہ نجدی تو کوئی دو سو سال کی پیداوار ہیں، ان سے پہلے کے علماء کرام نے اس حدیث پاک کی سند کے متعلق لکھا ہے کہ:
وقال المنذرى رواه ابن ماجه بإسناد جيد. وقال المناوى قال الدميرى: رجاله ثقات
ترجمہ:
امام منذری فرماتے ہیں کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے روایت کیا ہے جسکی سند جید(بہترین) ہے اور امام مناوی نے امام دمیری کے حوالے سے لکھا کہ اس حدیث کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں(لیھذا یہ حدیث ضعیف نہیں)
(حاشیہ جامع الاحادیث 5/375)
.
قران مجید میں تو کسی کا کوئی اختلاف نہین ہوسکتا...جو قرآن کو نا مانے وہ مسلمان نہیں ہوسکتا...اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے کہ:
وَلاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاء عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُون
ترجمہ:
جو اللہ کی راہ میں شھید ہوئے انہیں مردہ مت سمجھو، بلکہ وہ تو زندہ ہیں اپنے رب کریم کے پاس سے رزق دیے جاتے ہیں
(سورہ آل عمران آیت169)
جب شھید امتی زندہ ہیں تو انبیاء کرام تو شھداء سے کہین بڑھ کر مقام و مرتبہ رکھتے ہین وہ بھی لازما زندہ ہیں
.
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر شھداء اور انبیاء کرام زندہ ہیں تو ہم سے ملتے کیوں نہین....؟ دکھائی کیوں نہین دیتے....؟؟
اسکا جواب بھی اللہ کریم نے قرآن پاک مین ارشاد فرما دیا ہے کہ:
بَلْ أَحْيَاء وَلَكِن لاَّ تَشْعُرُونَ
ترجمہ:
وہ (وفات کے بعد بھی) زندہ ہیں لیکن تمھیں اسکا شعور نہیں
(سورہ بقرہ ایت154)
.
جی ہاں وہ بلا شک و شبہ زندہ ہیں مگر ہمیں اسکا شعور نہیں...ان سے ملاقات ہو جاتی وہ دکھائے دیتے،جنت جہنم کا احوال بتاتے تو ایمان و کفر کا معاملہ ہی ختم ہو جاتا، پھر تو سارے ہی فورا مسلمان ہو جاتے.. دنیا کا امتحان امتحان نا رہتا،لیھذا یہ اللہ نےنظام بنایا ہے کہ ہمیں انکی حیات بعد الممات کا شعور نہیں.....!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
+923468392475