تعارفِ امام فیض احمد اویسی رحمۃ اللّٰہ علیہ
🌹 تعارفِ امام فیض احمد اویسی 🌹
آج ١٥ رمضان المبارک علامہ امام فیض احمد اویسی رحمہ اللہ کا عرس مبارک ہے۔
میں نے سوچا تھا کہ ان کے تعارف پر ایک تحریر لکھوں گا مگر رضوان طاہر بھائی کی تحریر نظر سے گزری جو امام اویسی کے تعارف پر ایک جامع تحریر ہے اسے ہی یہاں نقل کر کے آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں۔
فیض ملت مفسر قرآن علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی رحمۃ اللہ علیہ
از قلم ۔ ابو الابدال محمد رضوان طاہر فریدی
مفسر قرآن علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی بن نور احمد کی ولادت 1351ھ/1932ء کو قصبہ حامد آباد ضلع رحیم یار خان میں ہوئی
(فیوض الرحمن، جلد 1، صفحہ 4)
سلسلہ نسب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتا ہے
(مظلوم مصنف، صفحہ 9)
آپ مفسر ، محدث ، مفتی ، مناظر ، مصنف کتب کثیرہ ، عابد و زاہد ، صاحب تقوی اور بڑی شان والے بزرگ تھے پاکستان کے چاروں صوبوں میں مسلسل پچاس سال تک فی سبیل اللہ دورہ تفسیر قرآن کرواتے رہے، اپنے اوقات کے بڑے پابند تھے ، زیادہ عوامی جلسوں میں جانا پسند نہیں کرتے تھے، تن تنہا پانچ ہزار سے زائد کتب و رسائل لکھ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا، جن موضوعات پر آپ نے لٹریچر فراہم کیا ہے اگر ان کو جدید طریقہ تحقیق و تخریج، تحشیہ و تسہیل کے ساتھ شائع کیا جائے تو اہلسنت کو آئندہ پچاس سالوں تک کفایت کر جائے گا، رواں صدی میں پاکستان کے اندر آپ ہی کی ذات ہے جس پر مصنف اعظم کا لقب صادق آتا ہے۔
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اس کے بعد جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں
محدث اعظم مولانا سردار احمد چشتی
حضرت مولانا سید احمد سعید کاظمی
حضرت مولانا سراج احمد مکھن بیلوی
حضرت مولانا حکیم اللہ بخش
حضرت مولانا عبد الکریم فیضی
(یادگار فیض ملت، صفحہ 24)
پاک و ہند کے جید اہل علم کے علاوہ عرب کے بھی کئی شیوخ سے سند حدیث کی اجازات حاصل کیں۔
دوران تعلیم آپ کا حافظہ بڑا قوی تھا، فارسی میں ترکیب پر بڑی مہارت رکھتے تھے فارسی اشعار اس طرح یاد تھے جیسے حافظ قرآن کو سورہ فاتحہ یاد ہوتی ہے۔
(علامہ فیض احمد اویسی کی مذہبی اور تصنیفی خدمات ، صفحہ 17)
فراغت کے بعد اپنے آبائی گاوں حامد آباد میں جامعہ اویسیہ رضویہ منبع الفیوض کی بنیاد رکھی اور 1959ء میں بہاولپور تشریف لے آئے جہاں جامعہ اویسیہ رضویہ قائم کیا اور آخر تک یہیں تدریس کرتے رہے ۔
(فیض ملت ایک مثالی معلم ، صفحہ 4)
آپ کا انداز تدریس بڑا دلنشین، سادہ عام فہم اور علمی ہوتا، طلباء کے فطری رجحانات کو مدنظر رکھتے اور ان سے ہمیشہ شفقت اور نرمی کا مظاہرہ کرتے اور نصف صدی سے زائد عرصہ مسند تدریس کو زینت بخشی۔
(ایضا، صفحہ 9)
مسلسل کئی سال تک دورہ حدیث شریف میں مکمل صحاح ستہ اکلیے پڑھاتے رہے
(ایضا، صفحہ 6 )
آپ اپنے طلباء کو با عمل دیکھنا چاہتے تھے اس لیے ان کی تربیت پر بھرپور توجہ دیتے، انہیں رات کو جلد سونے کا مشورہ دیتے، صبح تہجد کے لیے خود بیدار کرتے، نوافل پڑھواتے اور اسباق کا مطالعہ کرنے کا حکم دیتے۔
(فیض ملت بحثیت طبیب، صفحہ 4)
آپ کے شاگردوں میں نامور فضلاء شامل ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں
شرف ملت علامہ عبد الحکیم شرف قادری
حضرت مولانا مفتی غلام سرور قادری
حضرت مولانا مفتی رضاء المصطفی نقشبندی
حضرت مولانا مفتی عبد الستار چشتی
حضرت مولانا قاری طیب نقشبندی
آپ کو مدارس سے بڑی محبت تھی بغرض تبلیغ پاکستان کے جس علاقہ میں جاتے وہاں اہلسنت کے مدرسہ کا معلوم فرماتے اور مدرسہ میں جا کرمنتظمین مدرسین کو زبردست خراج عقیدت پیش فرماتے اور ان کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے آپ کی کاوشوں سے بہاولپور اور ملک کے دیگر علاقوں میں بہت سے مدارس قائم ہوئے۔
(علامہ فیض احمد اویسی کی مذہبی اور تصنیفی خدمات ، صفحہ 64)
آپ بڑے اچھے مناظر بھی تھے اور متعدد مناظروں میں مد مقابل کو شکست فاش دی ہے، 15 سال کی عمر میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا ، 1953ء اور 1974ء کی تحاریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سیاسی لحاظ سے امام شاہ احمد نورانی کو سپورٹ کرتے تھے۔
آپ نے دوران تعلیم الحاج خواجہ محمد الدین سیرانی کے دست اقدس پر بعیت کی اور ان کی وفات کے بعد مفتی اعظم ہند مولانا مصفطی رضا خان سے بعیت ہو کر اجازات و خلافت حاصل کی ۔
(فیوض الرحمن۔ صفحہ 5)
جبکہ آپ کے خلفاء میں
حضرت مولانا پیر سید مسرت حسین شاہ
حضرت مولانا سید شوکت حسین شاہ
بانی دعوت اسلامی حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری
حضرت مولانا احمد رضا بن مولانا محمد الیاس قادری
حضرت مولانا صاحبزادہ محمد فیاض احمد اویسی
حضرت مولانا عبدالجلیل العطامی، شام وغیرہ شامل ہیں
علامہ اویسی نے تدریس و تصنیف کے ساتھ عبادت کا بھی وافر ذوق پایا تھا اوارد و وظائف کے ساتھ تلاوت قرآن اور نماز تہجد پابندی سے ادا کرتے چار مرتبہ حج بیت اللہ اور کثیر تعداد میں عمرہ کی سعادت حاصل کی آپ کی شب گزاری کے حوالہ سے علامہ زاہد حسین نعیمی نے اپنا مشاھدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ میں نے جب بھی دیکھا رات کو علامہ اویسی علیہ الرحمہ کے حجرہ کا بلب جلتا رہتا، میں جب تک جاگتا رہتا یہ منظر دیکھتا رہتا پھر سو جاتا، رات پچھلے پہر مجھے بھی اٹھنے کی عادت تھی لیکن میں جب بھی وضو کرکے سیرانی مسجد کے صحن میں پہنچتا تو میں نے علامہ اویسی علیہ الرحمہ کو تہجد پڑھتے دیکھا میں نے بہت کوشش کی کہ کبھی ان سے پہلے اٹھ جاوں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ مسجد میں موجود نہ پائے جائیں یہی ایک بات آج تک میں سمجھنے سے قاصر رہا کہ آخر حضرت کب سوتے تھے اور پھر تہجد کے لیے اٹھ جاتے تھے اور دن کے تمام معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا تھا یہ تو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ۔
(علامہ فیض احمد اویسی کی مذہبی اور تصنیفی خدمات ، صفحہ 28)
آپ نماز با جامعت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے حتی کہ آخری عمر میں جب بہت زیادہ ضعیف ہوگے تو اس حالت میں بھی خدام ویل چیر پرمسجد میں لاتے تاکہ آپ باجماعت نماز ادا کر سکیں۔
سفر ہو یا حضر کسی بھی صورت نماز قضاء کرنا گوارہ نہیں تھا آپ نے اپنی تالیف نماز کے نقد فوائد میں ایسے کئی وقعات لکھے ہیں جب بظاہر نماز پڑھنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی مگر آپ نے ہمت کرکے نماز پڑھنے کا اہتمام کر ہی لیا ان میں سے ایک واقعہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں
ایک دفعہ کوٹ مٹھن شریف میں تقریر کے لیے آپ کو جانا تھا راستہ میں جانجنی کے مقام پر نماز عصر کا آخری وقت ہونے لگا آپ نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لیے کہا کہ میرا وضو ہے صرف دو رکعت پڑھوں گا، زیادہ وقت ضائع نہیں ہوگا مگر ڈرائیور نے ایک نہ سنی، تو آپ نے کہا بس روک دو ورنہ میں چلتی بس سے چھلانگ لگا دوں گا اس کے بعد جو کچھ ہو گا خدا کو سپرد۔ ڈرائیور نے آپ کی دھمکی کی وجہ سے بس روک کر آپ کو نیچے اتار دیا اور خود چلتا بنا ، آپ نے اطمینان سے نماز پڑھی اور باقی سفر کچھ پیدل تو کچھ دوسری بس کے ذریعہ پورا کرکے مقررہ وقت پر کوٹ مٹھن شریف تقریر کے لیے پہنچ گے۔
علامہ اویسی جب بہاولپور تشریف لائے تو یہاں بد مذہبیت اپنے عروج پر تھی ہر بات کو شرک و بدعت کہا جاتا اگر کوئی دوکان دار اپنی دوکان پر یارسول اللہ ﷺ لکھواتا تو مخالفین اس پر شرک کا فتوی لگا کر اس کی دوکان بند کروادیتے آپ کے بہاولپور آتے ہی یہاں کی فضاء تبدیل ہونا شروع ہو گئی اور لوگوں کے دل الفت و محبت رسول ﷺ سے منور ہونا شروع ہو گے جس پر مخالفین بوکھلاہٹ کا شکار ہوگے اور آپ کو پریشان کرنا شروع کر دیا، آپ کے خلاف عدالتی مقدمات قائم کیے گے قاتلانہ حملوں کی سازشیں ہوئیں ، کبھی مسجد سے ملحقہ حجرہ کی تاریں کاٹ کر پریشان کیا جاتا اور کبھی اہل محلہ کو آپ سے متنفر کرنے کے لیے تمام اخلاقی حدیں عبور کرجاتے اس ساری صورت حال کی وجہ سے آپ کو بہاولپور کی کئی مساجد کی طرف ہجرت کرنا پڑی مگر آپ کے پائے استقامت میں ذرہ بھر لغزش نہ واقع ہوئی اور انتہائی صبر و تحمل کے ساتھ اپنے مشن کو جاری رکھا یہاں تک کہ دشمنان اہلسنت ناکام و نامراد ہوئے، جب آپ نے اس شہر میں قدم رکھا تھا تو اہلسنت کی چند مساجد تھیں جبکہ اب ڈیڑھ سو سے زائد مساجد سے الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
علامہ اویسی دیگر علوم کی طرح فقہ میں بھی کامل تھے فقہی مسائل پر آپ کی گرفت بہت اچھی تھی مسائل کا استحضار و استنباط، قرآن و حدیث سے استدلال اور اقوال فقہا کی تطبیق و توضیح کا پورا پورا ملکہ حاصل تھا بعض اوقات کسی سوال کے جواب میں پورا رسالہ تصنیف فرما دیتے اور فتوی ہمیشہ امام اہلسنت الشاہ احمد رضا خان کی تحقیقات کی روشنی میں دیتے تھے۔
عقائد کے حوالہ سے آپ کی ثابت قدمی کے متعلق سید محمود الحسن شہاب دہلوی صاحب مشاہیر بہاولپور نے یوں تعارف کروایا ہے، عقائد کے معاملہ میں مولانا اویسی بڑے متشدد واقع ہوئے ہیں آپ اس سلسلہ میں کوئی رورعایت کے قائل نہیں تھے جو ان کے عقائد کے خلاف ہوتا ان سے میل وجول تو دور کی بات مصافحہ تک نہیں کرتے، ڈنکے کی چوٹ پر ان کی مخالفت کرتے تھے تقریر و تحریر میں ان کے خیالات کا رد بڑے شد و مد سے کرتے تھے بعض حضرات کہتے تھے کہ اگر مولانا اپنے مخالفوں کے ساتھ اتنا سخت رویہ نہ رکھتے تو لوگوں میں ان کا وقار اور احترام کافی بڑھ سکتا تھا اور ان کے خلاف محاذ آرائی بھی بند ہو سکتی تھی لیکن اس سلسلہ مینٓں وہ اپنی ذات کی پرواہ نہیں کرتے تھے وہ کہتے تھے عظمت مصطفی ﷺ میں ان کی ذات کیا حقیقت رکھتی ہے جو لوگ اہانت رسول ﷺ سے باز نہیں آتے ان سے وہ کسی قسم کا سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں تھے۔
(علامہ فیض احمد اویسی کی مذہبی اور تصنیفی خدمات ، صفحہ 27)
علامہ اویسی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تصانیف و تالیفات ہیں تدریس کے بعد یہی آپ کا محبوب مشغلہ تھا عالم دنیا میں ہم کسی دوسرے مصنف کو نہیں جانتے جس نے گوناں گو موضوعات پر پانچ ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہو، آپ نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کی تعداد چالیس سے زائد ہے
آپ سے جب سوال ہوا کہ اس قدر تیز رفتار علمی کام کا راز کیا ہے؟
تو ارشاد فرمایا ، فقیر نے بچپن سے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں قلم کی تیز رفتاری سیکھی، سوائے حوائج ضروریہ اور مقاصد اصلیہ کے قلم چلتا ہی رہتا، سفر وحضر اور تنہائی و جلوت کی کوئی قید نہیں، بسوں، گاڑیوں، جہازوں کی سواری فقیر کے قلم کو نہیں روکتی صحت و عافیت کے ساتھ اولاد صالحہ سے نوازہ گیا ہوں، انہوں نے مجھے ہر کام سے فارغ البال رکھا ہوا ہے اسی لیے شب روز مشغلہ اپنے جوش و جوبن میں رہتا ہے۔
(علم کے موتی ، صفحہ 12)
آپ کی کتب صرف چھوٹے رسائل ہی نہیں بلکہ بعض ضخیم اور کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں
1۔ فیض القرآن فی ترجمۃ القرآن
2۔ فیوض الرحمن۔
علامہ اسماعیل حقی کی روح البیان کا ترجمہ،مطبوعہ ہے اور صفحات کی تعداد تقریبا دس ہزار ہے یہ ترجمہ آپ نے تقریبا 31 سال میں کیا جبکہ اس دوران بہت سی کتب و رسائل بھی تحریر کیئے
3۔ تفسیر اویسی، 15 مجلدات
4۔ فضل المنان فی تفسیر القرآن، 10 مجلدات
قرآن مجید کی یہ مکمل تفسیر عربی زبان میں ہے اس کے مختلف اجزاء مختلف جگہوں سے شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی سننے میں آیا کہ اب یہ مکمل تفسیر بیروتی طرز پر دبئی سے طبع ہونے جا رہی ہے اللہ کرے یہ خبر درست ہو
5۔ فیض الرسول فی اسباب النزول، 10 مجلدات
6۔ الھلالین ترجمہ و شرح جلالین، 5 مجلدات
7۔ تفیسر بالرائے 3 مجلدات
8۔ احسن البیان فی اصول تفسیر القرآن ، 3 مجلدات
9۔ فیض القدیر فی اصول تفسیر
10۔ فیض القرآن فی تفسیر آیات القرآن
11۔ تاریخ تفسیر القرآن
12۔ الفیض الجاری شرح بخاری، مبطوعہ 10 مجلدات
13۔ انوار المغنی شرح سنن دار قطنی 10 مجلدات
14۔ شرح سنن دارمی، 8 مجلدات
15۔ شرح صحیح مسلم، 10 مجلدات
16۔ شرح جامع ترمذی، 5 مجلدات
17۔ الاحادیث السنیہ فی الفتاوی الرضویہ، 10 مجلدات
18۔ الاحادیث الموضوعۃ، 5 مجلدات
19۔ اللمعات شرح مشکوۃ، 4 مجلدات
20۔ تعلیقات علی المشکوۃ
21۔ شرح اربعین نووی
22۔ اصطلاحات علم الحدیث
23۔ اقسام الحدیث
24۔ فتاوی اویسیہ، 12 مجلدات
25۔ حاشیہ قدوری
26۔ شرح ہدایہ
27۔ شرح وقایہ
28۔ شرح اصول الشاشی
29۔ اصول فقہ
30۔ زینۃ القرطاس بالاجماع و القیاس
31۔ حقیقۃ الیاقوت شرح مسلم الثبوت
32۔ المیقاس فی ابحاث القیاس
33۔ سر المکتوم ترجمہ و شرح سلم العلوم
34۔ قواعد منطق
35۔ تعلیم المنطق
36۔ علم المناظرہ
37۔ شرح مناظرہ رشیدیہ
38۔ النجاح شرح مراح الارواح
39۔ نعم الحامی شرح شرح جامی
40۔ شرح کافیہ
41۔ فضائل میلاد النبی
42۔ تصانیف المیلاد
43۔ القول السداد فی بیان المیلاد
44۔ بارہ ربیع الاول کے جلوس کا ثبوت
45۔ انطاق المفہوم فی ترجمہ احیاء العلوم، 4 مجلدات
46۔ ترجمہ کیمائے سعادت
47۔ شرح حدائق بخشش، 25 مجلدات
48۔ ترجمہ و حاشیہ حلیۃ الاولیاء
49۔ احادیث تصوف
50۔ انوار مصطفی فی کرامات الاولیاء
51۔ تصوف اور اسلام
52۔ تصوف کی شرعی حثیت
53۔ بیعت کا جواز
54۔ تعارف سلاسل طریقت
55۔ صوفیاء کرام اور اشاعت اسلام
56۔ اصطلاحات تصوف
57۔ سلوک العارفین
58۔ القواعد الاویسیہ شرح عقائد نسفیہ
59۔ عقائد اسلامی
60۔ کشف الغمہ فی عقائد اہلسنہ
61۔ عنایۃ اللہ فی عقائد شاہ ولی اللہ
62۔ فیض اللغات
63۔ لغات القرآن
64۔ سائنس اور اسلام
65۔ قرآن اور سائنس
66۔ خاندانی منصوبہ بندی
67۔ گستاخ صحابہ کا انجام
68۔ کرامات صحابہ
69۔ صحابہ کرام اور علم غیب رسول ﷺ
70۔ فضائل نکاح
71۔ مناقب امام اعظم
72۔ امام اعظم اور علم الحدیث
73۔ امام احمد رضا اور علم الحدیث
74۔ مرزا قادیانی کے عقائد و اخلاق
75۔ آئینہ مرزا نما
76۔ امی، رد مودودی
77۔ اسلام اور عیسائیت کا موازنہ
78۔ ہمارے نبی ﷺ غیر مسلموں کی نظر میں
79۔ تقابل ادیان
80۔ رد کیمونسٹ
علم کے موتی نامی کتاب میں آپ کی کتب کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دے دی گئی ہے جہاں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے آپ کی کتب کی اشاعت کے لیے کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن کے تحت تقریبا پچیس سو سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں اس کے باوجود بھی ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جہاں پر آپ کی تمام چھوٹی بڑی کتب موجود ہوں اور اس کے تحت قلمی کتب کی بہرین انداز میں اشاعت ہو اور مطبوعہ کتب کو جدید طریقہ تحقیق کے مطابق دوبارہ شائع کیا جائے نیز ایک ایسی ویب سائٹ کو بھی لانچ کیا جائے جہاں نہ صرف آپ کی تمام مطبوعہ کتب موجود ہوں بلکہ آپ کی شخصیت پر لکھی گئی کتب، رسائل و مقالات بھی دستیاب ہوں۔
علامہ فیض احمد اویسی نے خدمات اسلام سے پر زندگی گزارنے کے بعد 15 رمضان المبارک 1431ھ/ 26 اگست 2010ء کو انتقال فرمایا، مزار مبارک دارلعلوم جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپور میں مرجع خلائق ہے۔
(فیض ملت ایک مثالی معلم، صفحہ9)
مشمولہ ، تذکرۃ الخواص
ابوالابدال محمد رضوان طاہر فریدی