یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

#نسب_مبارک_و_پرورش_جان_دو_عالم_صلی_اللہ_علیہ #وسلم




نسب_مبارک_و_پرورش_جان_دو_عالم_صلی_اللہ_علیہ وسلم 


آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ولادت عرب کے سب سے افضل و معزز خاندان میں ہوئی جو کہ فضیلت اور اچھے اخلاق و پسندیدہ افعال میں اپنے آباء و اجداد ہی سے مشہور تھا 

والد کی جانب سے آپ کا نسب شریف محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ھاشم بن عبد مناف جبکہ والدہ کی جانب سے آمنہ بنت وھب بن عبد مناف بن زھرہ الزھریۃ ہے یو رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کا سلسلہ نسب حضرت عدنان سے ہو کر جناب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے جا ملتا ہے جوکہ عرب مستعربہ کے جد امجد ہیں 

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی ولادت با سعادت سے قبل ہی آپ کے والد ماجد انتقال فرما گئے تھے لہذا آپ کے دادا حضرت عبد المطلب نے آپ کی کفالت کا ذمہ لیا ۔ آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضي الله عنها نے چند دن دودھ پلایا پھر حضرت ثوبیہ رضی الله عنها نے اور اس کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنها  آپ کو دودھ پلانے کے لیے اپنے ساتھ دیہات لے گئیں جیسا کہ اہل مکہ کی عادت تھی کہ بچے کو پیدائش کے بعد دیہات میں رضاعت کے لئے بھیج دیتے تا کہ خالص فصیح و بلیغ عربی زبان سیکھے ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مدت رضاعت مکمل ہوگئی تو حضرت حلیمہ رضی الله عنها نے آپ  کی وجہ سے آنے والی بھلائی اور خوشحالی کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو مزید اپنے پاس رکھنے کی تمنا کی ۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی الله عنها کے یہاں پرورش کے دوران بچپن میں ایک مرتبہ آپ کے پاس دو فرشتے آئے اور آپ کا سینہ مبارک چاک کیا پھر اسے دوبارہ سی دیا  اور وہ پہلے کی طرح صحیح و سلامت ہو گیا ، آپ اس واقعہ سے بہت خوف زدہ تھے جس کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے چہرہ انور کا رنگ متغیر تھا ،

حضرت حلیمہ سعدیہ رضي الله عنها کو واقعہ کا پتا چلا تواس ڈر سے کہ کہیں کوئی حادثہ نہ پیش آجائے ، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلک  کو واپس آپ کی والدہ حضرت آمنہ رضی الله عنها کے پاس لے آئیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی عمر مبارکہ چھ سال تھی کہ جب حضرت آمنہ رضی الله عنها آپ  کو مدینہ کی جانب آپ کے ماموں کے قبیلہ بنو نجار کی طرف لے کر گئیں وہاں سے واپسی پر راستے ہی میں حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو گیا ۔ ابھی آپ علیہ السلام  کی عمر آٹھ سال تھی کہ آپ کی کفالت کرنے والے دادا حضرت عبد المطلب بھی وفات پاگئے ۔ جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ہر جانب سے یتیم ہو گئے ۔ آپ مصائب و آلام میں گھر چکے تھے ، پھر حضرت عبد المطلب کی وصیت کے مطابق آپ  کے چچا ابو طالب نے آپ  کی کفالت اچھے انداز میں کی اور ہر طرح سے آپ کا خیال رکھا ۔ آپ کی پرورش یتیمی کی حالت میں ہوئی ، در اصل اس میں رب تعالی کی بہت سی نعمتیں پوشیدہ تھیں جیسا کہ آپ  کی مکمل توجہ رب کریم کی عنایت پر رہے اور آپ کی تربیت مکمل اللہ رب العزت ہی کی جانب سے ہو  ۔ اللہ رب العزت نے آپ  کو شرک اور آپ کی قوم کی جاہلانہ عادات سے پاک رکھا ، آپ  نے نہ کبھی کسی بت کی تعظیم کی اور نہ ہی کبھی کسی بت خانہ میں گئے ، جب بھی کوئی آپ  سے بتوں کے پاس جانے کے لیے کہتا تو آپ  اسے منع فرما دیتے تھے اور اللہ کریم آپ کی حفاظت فرماتا ، یہ اللہ پاک کا کرم خاص ہی تھا کہ آپ  کو شرک ، شراب اور جوئے جیسے تمام عیوب و نقائص سے محفوظ رکھا اور تمام اچھی عادات و اخلاق سے نوازا تھا حتی کے آپ  اپنی قوم میں امانت ، سچائی اور پاکیزگی کی وجہ سے امین کے لقب سے مشہور تھے ۔ حضور پاک سال کی عمر مبارک 12 سال ہوئی تو آپ  کے چچا ابو طالب آپ کو اپنے ساتھ تجارت کے لیے ملک شام لے گئے کیونکہ آپ کے چچا ابو طالب کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی ، جب آپ شام کے ابھری نامی بازار میں پہنچے تو بيره نامی راہب نے آپ کو دیکھتے ہی آپ میں موجود نبوت کی نشانیوں کو پہچان لیا اور آپ  کے چچا ابوطالب سے کہا : ” آپ ان کو یہاں سےلے جائیں کہیں یہود ان کو نقصان نہ پہنچادیں تو آپ ان کے چچا آپ  کو مکہ واپس لے آئے پھر اس کے بعد آپ مکہ میں رہ کر اپنے چچا کے کاموں میں ہاتھ بٹانے لگے تا کہ ان سے اخراجات کے بوجھ کو ادا کر سکیں ۔ آپ  نے تعلیم امت کے لئے بکریاں چرائیں ( یعنی ایسا پیشہ اختیار فرمایا جو کہ اس وقت کے غریب افراد کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ اللہ رب العزت کا انبیائے کرام کے بارے میں یہی دستور ہے پھر آپ نے لوگوں کے مال سے تجارت کا پیشہ اپنایا جس سے آپ  کی خوبیاں اور خصائل ابھر کر لوگوں کے سامنے آئے اور آپ  امین کی حیثیت سے جانیں جانے لگے

#از_قلم_دانیال_رضا_مدنی