یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ایک واقعہ کی تحقیق | کیاسیدناامام حسین پر پانی بند کیا گیاتھا۔۔۔؟




ایک واقعہ کی تحقیق 
کیاسیدناامام حسین پر پانی بند کیا گیاتھا؟


میدان کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا یا نہیں؟ اس پر دونوں طرح کی روایات موجود ہیں لیکن بیان صرف انھی کو کیا جاتا ہے جس سے لوگوں کو رلایا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ تین دن تک اہل بیت کے خیمے میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا اور مسلسل تین دن تک بچوں سے لے کر بڑوں تک سب پیاسے رہے اور کچھ مقررین تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور پانچ محرم سے ہی پانی بند کر دیتے ہیں تاکہ واقعہ مزید دردناک ہو جائے۔


تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ دسویں محرم کو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل فرمایا اور خوشبو لگائی اور بعض دوسرے ساتھیوں نے بھی غسل فرمایا۔

(البداية والنهاية، ج8، ص185) 


اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیوں کہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا دھندا چوپٹ ہو جائے گا، پھر کس منھ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔


خلیفۂ حضور مفتئ اعظم ہند، شارح بخاری، حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا؟ کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو پھر خود علماے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے۔


آپ رحمہ اللہ جواباً لکھتے ہیں کہ یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے:


فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ... الخ

"اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی۔ ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا" 


(البداية والنهاية، جلد ثامن، ص178) 


اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے:


وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء

"حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا"


(ایضاً، ص177) 

شیعوں کی مکاری دھوکے بازی


 

شیعوں کی مکاری دھوکے بازی منافقت....اور...چیلنج......!!
نوحہ ماتم غم تعزیہ پر شیعہ کی مضبوط ترین دلائل اور انکا جواب....!!
سیدہ بی بی عائشہ کا نوحہ۔۔۔۔؟؟
سیدنا اویس قرنی کا ماتم..........؟؟
انبیاء سابقین کا گریہ و نوحہ...۔۔۔۔۔؟؟
ماتم نوحے کالے کپڑے غم و تعزیہ......؟؟
سیدناحمزہ کی شہادت پےنوحہ،گریہ......؟؟
سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم،بی بی سلمہ کاگریہ....؟؟
.
*ماتمی شیعوں کی کئ کتب میں نوحے ماتم تعزیہ گریہ غم کرنے کی ایک مضبوط ترین دلیل یہ لکھی ہے کہ:*
اہلسنت کی معتبر ترین کتب صحاح ستہ سیرت ابن ہشام وغیرہ کتب میں ہے کہ حضرت حمزہ کی شھادت پر نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) خود بھی روئے اور کہا کہ حمزہ پر نوحہ کرنے والے کیوں نہیں، پھر حضرت حمزہ کی شھادت پر خوب نوحہ ہوا، گریہ و زاری ہوئی...
.
اس دلیل کو بحارالانوار ،اکمال الدین، ماتم حسینی، وسائل شیعہ ،منتھی الامال وغیرہ کئ کتابوں میں پرزور طریقے سے پیش کیا گیا ہے
.
جواب.و.تحقیق
ماتم نوحے کرنے والوں کے پاس جھوٹے بے بنیاد کمزور دلائل تو ہیں مگر مستند دلیل ان کے پاس نہیں... جھوٹی بے بنیاد ٹوٹی پھوٹی دلیل تو شیطان نے بھی دی تھی کہ آدم علیہ السلام کو سجدہ نہیں کرونگا کیونکہ وہ مٹی سے بنا ہے...جی ہاں ٹوٹی پھوٹی جھوٹی دلیل تو ہر ایک کے پاس ہوتی ہے... باطلوں منافقوں کے پاس بھی جھوٹی ٹوٹی پھوٹی دلیل ہوتی ہے جس سے وہ عوام کو گمراہ بناتے ہیں، دھوکہ دیتے ہیں
.
اوپر جو حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر نوحہ کرنے کو دلیل بنایا گیا دراصل یہ بھی جھوٹ و دھوکے بازی ہیں..ہم آپ کے سامنے پوری بات، پورا واقعہ لکھیں گے، جب آپ پڑھیں گے تو خود بخود کہیں گے کہ یہ واقعہ تو نوحے کو حرام کرنے کا ہے...اس طرح ماتمیوں کی مکاری چالبازی دھوکے بازی آپ پر واضح ہوجائے گی...
.
یہ لیجیے پورا واقعہ پڑھیں... یہ واقعہ صحاح ستہ کی کتاب ابن ماجہ میں ہے...واقعہ کچھ یوں ہے کہ:
ان رسول الله صلى الله عليه وسلم مر بنساء عبد الأشهل، يبكين هلكاهن يوم أحد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لكن حمزة لا بواكي له» فجاء نساء الأنصار يبكين حمزة، فاستيقظ رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: «ويحهن ما انقلبن بعد؟ مروهن فلينقلبن، ولا يبكين على هالك بعد اليوم
(ابن ماجہ حدیث نمبر1591)
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر عبدالاشھل قبیلے کی عورتوں کے قریب سے ہوا، وہ عورتیں احد کے وفات شدگان پر رو رہی تھیں،(نوحہ کر رہی تھیں)تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لیکن حمزہ پر کوئی رونے والا نہیں....!! پس انصار عورتیں آئیں اور حضرت حمزہ پر رونے لگیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور فرمایا کہ:
ہلاکت ہو ابھی تک لوٹ کر نہیں گئیں...؟؟انہیں کہہ دو کہ لوٹ جائیں اور آج کے بعد کسی پر بھی نوحہ نہ کریں(یعنی اب نوحہ ماتم ہمیشہ کے لئے ممنوع اور حرام ہے)
(ابن ماجہ حدیث نمبر1591)
.
دیکھا آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کسی پر بھی نوحہ کرنے سے روک دیا تھا...
.
اسی طرح ماتمی دھوکے باز لوگ سیرت ابن ہشام وغیرہ کی بھی آدھی بات پیش کرکے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں جبکہ اسی واقعہ کو سیرت ابن ہشام مین تفصیلا لکھ کر یہ بھی لکھا ہے کہ
ونهي يومئذ عن النوح...ترجمہ: اس دن آپ علیہ السلام نے نوحہ کرنے سے منع کردیا..(سیرت ابن ہشام 2/99)
.
مغازی واقدی میں اسی واقعہ کے ساتھ لکھا ہے کہ
ونهاهن الغد عن النوح أشد النهي..ترجمہ اس دن کے بعد آپ علیہ السلام نے نوحہ کرنے سے سخت منع کر دیا
(مغازی الواقدی 1/317)

*واقعہ کربلا*





📜 *واقعہ کربلا*📜


✍🏻 *ابو بنتین محمد فراز عطاری مدنی عفی عنہ*

📃 *تمہید:* 
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے اور اس کی ابتدا ہی ہمیں صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین کی قربانیاں یاد دلا کر ہم سے ضرورت پڑنے پر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہنے کا تقاضا کرتی ہے۔یہ بات تو مسلمان جانتے ہیں کہ واقعہ کربلا محرم الحرام میں پیش آیا مگر ایک بڑی تعداد اس کی تفصیل نہیں جانتی اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ یہ واقعہ ان میں سے ہے جس کو بعض واعظین اور مقررین غیر مستند روایات کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ان دو باتوں کے پیش نظر میں نے یہ ذہن بنایا کہ عوام تک واقعہ کربلا مختصر مگر مستند طور پر پیش کیا جائے تاکہ عوام کو کچھ آگاہی بھی ہوجائے اور جو بیان کرنا چاہے وہ اس سے مدد حاصل کرلے۔چونکہ میری تحریریں خصوصا عوام کے لئے ہوتی ہیں اس لئے میں عموما خلاصۃ اور آسان انداز میں تحریر لکھتا ہوں اور الحمدللہ اس کی وجہ سے فیڈ بیک بھی اچھا ملتا ہے،اس لئے اس تحریر کو بھی خلاصہ کر کے پیش کروں گا۔

 📍اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ ذکر شہادت پڑھنے یا سننے کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:"مولانا شاہ عبد العزیز صاحب کی کتاب جو عربی میں ہے (سر الشہادتین) وہ یا حسن میاں مرحوم میرے بھائی کی کتاب آئینہ قیامت میں صحیح روایات ہیں انہیں سننا چاہیے،باقی غلط روایات کے پڑھنے سے نہ پڑھنا اور نہ سننا بہت بہتر ہے۔
📙 *(ملفوظات اعلی حضرت،حصہ دوم،ص 293)*

میں نے بھی اس تحریر کے لئے ان دو کتابوں کو منتخب کیا ہے،اللہ پاک قبول فرمائے۔

📖  *ابتدائی حالات*

رجب سن 60 ہجری میں جب یزید پلید تخت سلطنت پر بیٹھا تو سب سے پہلے اس نے امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ کے خلاف سازش کرنے کی کوشش کی اور آپ کو رضی اللہ عنہ کو زہر دلوایا،پہلے تو زہر نے کچھ نقصان نہ پہنچایا مگر بعد میں سخت تیز زہر دینے کی وجہ سے آپ کو شدید تکلیف پہنچی اور اس کے اثر سے آپ رضی اللہ عنہ شہید ہوئے۔
وصال شریف سے پہلے امام حسن رضی اللہ عنہ نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی:" حسین! دیکھو کوفہ کے بے وقوف لوگوں سے بچ کر رہنا،کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں باتوں میں لے کر اپنے پاس بلا لیں اور وقت پر چھوڑ دیں،پھر بچاؤ کا وقت گزر جائے گا۔"
آپ کی یہ وصیت موتیوں میں تولنے کے قابل تھی مگر اس ہونے والے واقعے کو کون روک سکتا تھا جسے قدرت نے مدتوں پہلے سے مشہور کر رکھا تھا۔

شَہْد کا استِعمال سُنَّت ہے:|شَہْد پینے کا طریقہ|شَہْد کی مکھی کو نہیں مارنا چاہیے۔




مرتب: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057


شَہْد کا استِعمال سُنَّت ہے:


 شَہْد کا استِعمال سُنَّت ہے ۔  ہمارے پیارے آقا ، مکی مدنی مصطفے ٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم اسے پسند فرماتے تھے جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے :  کَانَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  یُعْجِبُہُ الْحَلْوَآءُ وَالْعَسَلُ یعنی  نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم میٹھی چیز  اور شہد پسند فرماتے تھے ۔ (بخاری ، کتاب الطب ، باب الدواء  بالعسل ، ۴ / ۱۷، حدیث : ۵۶۸۲ )

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے شَہْد میں شفا  رکھی ہے چنانچہ پارہ 14سورۃُ النحل کی آیت نمبر 69 میں اِرشاد ہوتا ہے :  (فِیْهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِؕ-ترجمۂ کنزالایمان : ”جس (شہد) میں لوگوں کی تندرستی ہے ۔ “حدیث شریف میں ہے : اَلشِّفَآءُ شِفَاءَانِ، قِرَاءَۃُ الْقُرْاٰنِ  وَشُرْبُ الْعَسَلِ یعنی شِفا  دو چیزوں میں ہے ، قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے اور شہد پینے میں ۔ (مستدرکِ حاکم ، کتاب الطب ، الشفاء  شفاءان...الخ ، ۵ / ۲۸۲، حدیث : ۷۵۱۳  )

شَہْد کے چار رَنگ ہوتے ہیں : اَبیض(سفید)، اَصْفَر(زرد)، اَحمر(سرخ)اور  اَسْوَد(کالا) اور یہ رنگ بھی مکّھی کی عمر کے اِعتبار سے ہوتے ہیں ۔ سفید رنگ جوان مکّھی کا ہو گا اور زرد ادھیڑ عمر والی کا اور سُرخ رنگ بوڑھی مکّھی کا اور کالا رنگ اُس مکّھی کا ہو گا جو اس سے زائد عمر میں پَہُنچ کر محنت کرے ۔ (تفسیرحسنات، پ۱۴، النحل، تحت الآیۃ : ۶۹، ۳ / ۶۳۷ ماخوذاً)

کیا نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب ہے ؟ |کیا ٹیلیفون پر نکاح دُرُست ہے ؟



مرتب: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057

کیا نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب ہے ؟


 نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔  ہاں جب پڑھا جائے تو حاضِرین پر سُننا واجب ہے ۔ خطبۂ نِکاح کے علاوہ نِکاح کے مزید چند مستحبات یہ بھی  ہیں : ”(۱)عَلانیہ نکاح(۲)نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں وارِد ہو(۳)مسجد میں ہونا(۴)جمعہ کے دن(۵) گواہانِ عادل کے سامنے (۶)عورت عمر، حسب ، مال، عزّت میں مرد سے کم ہو اور (۷)چال چلن اور اخلاق وتقویٰ وجمال میں بیش(یعنی بڑھ کر ) ہو ۔ (۸)جس سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوا لے اور عادات و اطوار و سلیقہ وغیرہ کی خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں ۔ (۹) کنواری عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی اُمّید ہو نکاح کرنا بہتر ہے ۔  سِن رسیدہ، بدخلق اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر ۔ (۱۰)عورت کو چاہیے کہ مرد دِیندار، خوش خلق، مال دار، سخی سے نکاح کرے فاسق بدکار سے نہیں اور یہ بھی نہ چاہیے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے ۔ “(بہارِ شریعت، ۲ / ۵، حصہ  : ۷ ملتقطاً )

محرم الحرام میں ناجائز رسومات کیا ہیں؟|تعزیہ بنانا کیسا ؟|تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟



محرم الحرام میں ناجائز رسومات کیا ہیں؟|تعزیہ بنانا کیسا ؟|تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟|

محرّم الحرام اور غیر شرعی رسومات!

جب تک اسلام عرب کی زمین تک محدود رہا۔ اس وقت تک مسلمانوں کا معاشرہ اور ان کا طرزِ زندگی بالکل ہی سیدھا سادہ اور ہر قسم کی رسومات اور بدعات و خرافات سے پاک صاف رہا۔ لیکن جب اسلام عرب سے باہر نکل کر دوسرے ملکوں میں پہنچا تو دوسری قوموں اور دوسرے مذہب والوں کے میل جول اور ان کے ماحول کا اسلامی معاشرہ اور مسلمانوں کے طریقہ زندگی پر بہت زیادہ اثر پڑا اور کفار و مشرکین اور یہود و نصاریٰ کی بہت سی غلط سلط اور من گھڑت رسموں کا مسلمانوں پر ایسا جارحانہ حملہ ہوا، اور مسلمان ان مشرکانہ رسموں میں اس قدر ملوث ہو گئے کہ اسلامی معاشرہ کا چہرہ مسخ ہو گیا اور مسلمان رسم و رواج کی بلاؤں میں گرفتار ہو کر خیرالقرون کی سیدھی سادھی اسلامی طرز زندگی سے بہت دور ہوگئے۔

چنانچہ خوشی و غمی، پیدائش و موت، ختنہ و شادی، بیاہ وغیرہ الغرض مسلمانوں کی جملہ تقریبات بلکہ ان کی زندگی و موت کے ہر مرحلہ اور موڑ پر نت نئی و غیر شرعی رسموں کی فوجوں کا اس طرح عمل دخل ہوگیا ہے کہ مسلمان اپنی تقریبات کو باپ داداؤں کی ان روایتی رسموں سے الگ کر ہی نہیں سکتے اور یہ حال ہوگیا ہے ۔اس صورتحال کو کسی نے اس انداز سے  بیان کیا .(جنتی زیور، صفحہ نمبر 1)


چند غیر شرعی رسم ورواج:


سوال : تعزیہ بنانا کیسا ؟


جواب : سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:


” تعزیہ بنانا بدعت و ناجائز ہے“


[فتاویٰ رضویہ جدید، جلد 24، ص 501، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور]


سوال:تعزیہ داری میں تماشا دیکھنا کیسا؟


جواب: سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان محدث بریلی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ:

” چونکہ تعزیہ بنانا ناجائز ہے، لہذا ناجائز بات کا تماشا دیکھنا بھی ناجائز ہے“


[ملفوظات شریف، ص 286]

گستاخ شیخین رضی اللہ عنھما کے پاس بیٹھنے والوں کا انجام"



" گستاخ شیخین رضی اللہ عنھما کے پاس بیٹھنے والوں کا انجام"

امام اہل سنت فرماتے ہیں:
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ شرح الصدور میں فرماتے ہیں: ایک شخص رافضیوں کے پاس بیٹھا کرتا تھا اس کے مرتے وقت لوگوں نے اسے کلمہ طیبہ کی تلقین کی، اس نے کہا: نہیں کہا جاتا، پوچھا کیوں؟ کہا: یہ دو شخص کھڑے ہیں یہ کہتے ہیں *تو ان کے پاس بیٹھا کرتا تھا جو ابوبکر و عمر (رضی اللہ تعالی عنہما)کو برا کہتے تھے اب چاہتاہے کہ کلمہ پڑھ کر اٹھے نہ پڑھنے دیں گے*

(شرح الصدور باب ما یقول الانسان فی مرض الموت مصطفی البابی مصر ص۱۶)

(سیرت بحر العلوم مولانا مفتی سید محمد افضل حسین رضوی مونگیری علیہ الرحمہ سابق مفتی دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف )




 (سیرت بحر  العلوم مولانا مفتی سید محمد افضل حسین رضوی  مونگیری علیہ الرحمہ  سابق مفتی دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف )

نام و نسب:

 بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی سید محمد افضل حسین رضوی بن میر سید حسن بن میر سید جعفر علی میر سید خیرات علی بن میر سید منصور علی۔

(علیہم الرحمہ

تاریخ ِ ولادت:

ہندوستان کے علاقے بوانا (صوبہ بہار) میں 14/رمضان المبارک1337ھ؍13/جون1919،ء بروز جمعۃ المبارک صبح صادق کے وقت ولادت ہوئ


تحصیلِ علم:*

آپ نے درسِ نظامی کی کتب ِمتداولہ مدرسہ فیض الغرباء آرہ صوبہ بہار، شمس العلوم بدایوں اور جامعہ رضویہ منظرِ اسلام بریلی شریف میں حضرت مولانا محمد اسماعیل آروی، حضرت مولانا محمد ابراہیم آروی، حضرت مولانا محمد ابراہیم آروی، حضرت مفتی محمد ابراہیم سمستی پوری، حضرت مولانا مفتی ابرار حسین، حضرت مولانا احسان علی مظفر پوری اور شیخ المحدثین علامہ مولانا مفتی نور الحسین مجددی رامپوری شارح قاضی مبارک سے پڑھنے کے بعد شعبان 1359ھ؍ ستمبر 1940ء میں جامعہ رضویہ منظر اسلام بریلی شریف سے سندِ فراغت حاصل کی۔

" کیا بارش کا پانی برکات والا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟"


بارش کے بارے میں اہم معلومات پر مشتمل مضمون

محرر : عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
00923313654057

" کیا بارش کا پانی برکات والا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟"

وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِۙ

(۹) (پ۲۶، ق : ۹)

ترجمۂ : اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا تو اس سے باغ اُگائے اور اناج کہ کاٹا جاتا ہے  ۔


*بارش کا پانی جمع کرنے کا طریقہ*

بارش کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے بارش  شروع ہوتے ہی پانی جمع کرنا شروع نہ کیا جائے  کیونکہ فَضا میں گَرد و غُبار، دُھواں اور کیمیاوی عَناصِر وغیرہ ہوتے ہیں ۔  ابتِدائی برسات اِن کو بہا کر زمین کی طرف لاتی ہے ۔  جب کچھ دیر بارش برس جاتی ہے تو یہ آلُودگیاں ختم ہو جاتی ہیں، اب کھلی فَضا میں چوڑے مُنہ کا برتن (پتیلا، تھال وغیرہ) رکھ کر بارش کا  پانی جمع کر لیں اور صاف بوتلوں میں بھر کر محفوظ کر لیں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ مریضوں کے لیے کارآمد رہے گا  بلکہ سبھی کو تَبَرُّکاً پینا چاہیے کہ قرآنِ پاک میں اس کو مبارَک پانی قرار دیا گیا ہے چنانچہ خُدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ  کا فرمانِ عالیشان ہے :  

وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِۙ(۹) (پ۲۶، ق : ۹)

ترجمۂ : اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا تو اس سے باغ اُگائے اور اناج کہ کاٹا جاتا ہے  ۔

"منکر عذابِ قبر کا حکم‎"



 منکر عذابِ قبر  کا حکم‎:

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

     عذاب قبر برحق ہے،جس کاانکارکرنے والابدعتی اورگمراہ ہے۔عذابِ قبرکےثبوت پربہت سی آیاتِ قرآنیہ واحادیث نبویہ شاہدہیں،جن میں سے چندایک درج ذیل ہیں۔

     اللہ تعالی قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتا ہے : ﴿اَلنَّارُ یُعْرَضُوۡنَ عَلَیۡہَا غُدُوًّا وَّ عَشِیًّا ۚوَ یَوْمَ تَقُوۡمُ السَّاعَۃُ ۟اَدْخِلُوۡۤا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ﴾ترجمۂ کنزالایمان:آ گ جس پر ( وہ ) صبح و شام پیش کیے جاتے ہیں  اور جس دن قیامت قائم ہوگی ، حکم ہوگا فرعون والوں کو سخت تر عذاب میں داخل کرو۔(القرآن،پارہ 24،سورة المومن،آیت46)

     مذکورہ بالاآیت کریمہ کی تفسیرمیں امام فخرالدین رازی علیہ رحمۃ اللہ الوالی فرماتے ہیں:”احتج أصحابنا بھذہ الآیة علی اثبات عذاب القبر“ترجمہ:اس آیت سے ہمارے علماء نے عذاب قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ (التفسیر الکبیر،ج27،ص521،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)

     اسی آیت کے تحت شیخ القرآن ابوالصالح مفتی محمدقاسم قادری دامت برکاتہم العالیہ لکھتے ہیں:”اس آیت سے عذابِِ قبرکے ثبوت پراستدلال کیاجاتاہے ،کیونکہ یہاں پہلے صبح وشام فرعونیوں کوآگ پرپیش کیے جانے کاذکرہوا اوراس کے بعدقیامت کے دن سخت ترعذاب میں داخل کیے جانے کابیان ہوا،اس سے معلوم ہواکہ قیامت سے پہلے بھی انہیں آگ پرپیش کرکے عذاب دیاجارہاہے اوریہی قبرکاعذاب ہے۔کثیراحادیث سے بھی قبرکاعذاب برحق ہوناثابت ہے۔“(تفسیرصراط الجنان،ج08،ص570، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

شیطان کو موت کب آئے گی؟



شیطان کی موت کا وقت...؟


    شیطان کو نفخہ اُولیٰ کے وقت موت آئے گی۔نفخہ اُولیٰ سے مرادحضرت اسرافیل علیہ السلام کا پہلی مرتبہ صور پھونکنا ہے ، جس کی وجہ سے ہر چیز فنا ہو جائے گی ،انسان ہوں یا فرشتے ، جن ہو یا شیاطین سب مرجائیں گے ،اس کے چالیس سال بعد دوسرا صور پھونکا جائے گا، تو مردے زندہ ہو جائیں  گے ، پھر قیامت قائم ہوگی ۔

    تفسیر درمنثورمیں ہےکہ” النفخۃ الاولیٰ یموت فیھا ابلیس وبین النفخۃ والنفخۃاربعون سنۃ قال فیموت ابلیس اربعین سنۃ “یعنی نفخہ اُولیٰ  کے وقت ابلیس کو موت آئے گی اور نفخہ اُولیٰ اورنفخہ ثانیہ کے مابین چالیس سال کا عرصہ ہو گا اور کہا کہ ابلیس چالیس سال تک مردہ  رہےگا۔

(تفسیر در منثور ، ج5،ص71،مطبوعہ دار الاحیاء والتراث )

   

قبر پر اذان دینا کیسا؟‎



  قبر پر اذان دینا کیسا؟ 
 میت کو دفن کرنے کے بعد قبر کے سر کی جانب قبلہ کی طرف منہ کر کے اذان کہناجیسا کہ اہل سنت وجماعت کا معمول ہے،قطعاجائز،بلکہ مستحسن عمل ہے۔اِس کے دلائل درج ذیل ہیں:
     (1)جب میت کو دفن کر دیا جاتا ہے،تو سوالاتِ قبر کے وقت شیطان  قبر میں مردے کو درست جوابات سے بہکانے کی کوشش کرتا ہے۔جیسا کہ حضرت سفیان ثوری علیہ الرحمۃ سے مروی ہے:’’اذا سئل المیت من ربک تراءی لہ الشیطان فی صورۃ فیشیر الی نفسہ ای انا ربک فھذہ فتنۃ عظیمۃ‘‘ترجمہ:جب میت سے قبر میں سوال کیا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟تو اُسےشیطان ایک صورت میں دکھائی دیتا ہے اور وہ اپنی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی میں تیرا رب ہوں،پس یہ بڑی آزمائش ہے۔(نوادر الاصول،ج3،ص227،بیروت)
     اِس کے بعد حکیم ترمذی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:’’فلو لم یکن ھناک سبیل ماکان لیدعو لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم بان یجیرہ من الشیطان‘‘ترجمہ:اگر مسلمان مردے کو دفن کرنے کے بعدبہکانے کے لیے شیطان کے قبر میں آنے کی کوئی راہ نہ ہوتی،تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میت (جو قبرمیں ہے،اُس)کےحق  میں شیطان سے حفاظت کی دعا نہ فرماتے۔(نوادر الاصول،ج3،ص227،بیروت)
     اور صحیح حدیثوں سے ثابت ہے کہ اذا ن شیطان کو دفع کرتی ہے۔چنانچہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’اذا اذن المؤذن ادبر الشیطان ولہ حصاص‘‘ترجمہ:جب مؤذن اذان دیتا ہے،توشیطان پیٹھ پھیر کر،گوز لگا کر بھاگتا ہے۔(الصحیح لمسلم،ج1،ص291،دار احیاء التراث،بیروت)
     لہٰذا اہلِ سنت وجماعت اپنے مسلمان بھائی کی بھلائی کے لیے اُس کی قبر پر اذان دیتے ہیں تا کہ سوالاتِ قبر کے جوابات کے وقت شیطان  وہاں سے بھاگ جائے اور وہ مسلمان شیطان کے فتنے سے بچ کر درست جوابات دینے میں کامیاب ہو کر آخرت میں سُرخرو ہوجائے ۔

کیا قرآن پاک چالیس پاروں میں نازل ہوا؟



کیا قرآن پاک چالیس پاروں میں نازل ہوا؟


حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں قرآن مجید جو آج ہمارے پاس کتابی شکل میں موجود ہے ویسے ہی تھا بعد میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں چالیس پارے تھے اور بعد میں دس کم کر دیے گئے ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر و مرتد ہے۔ اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :

إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.

(الْحِجْر ، 15 : 9)

ترجمہ کنز الایمان:

 {    بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہےاور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

 اس آیت میں  کفار کے اس قول’’اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے   اللّٰہ    تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب!    صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، بے شک ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم خود  تحریف ، تبدیلی ، زیادتی اور کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ۔‘‘     

لہٰذا قرآن مجید جیسے نازل ہوا تھا ویسے ہی آج موجود ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا اس میں تحریف نہ ہوئی ہے اور نہ کبھی ہو گی۔ قرآن مجید میں تحریف کا قائل مسلمان نہیں ہے۔ ایسا شخص کافر اور مرتد ہے۔ لہذا آپ ایسے بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ نہ رہا کریں ان کی مجلس اختیار نہ کریں جن سے عقیدہ خراب ہونے کا خدشہ ہو۔

     

قرآنِ مجید کی حفاظت :        

            یاد رہے کہ تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں  یہ طاقت نہیں  ہے کہ قرآنِ کریم میں  سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ     اللّٰہ     تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے، دوسری کسی کتاب کو یہ بات مُیَسّر نہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ حفاظت کئی طرح سے ہے        

(1)… قرآنِ کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں  مل ہی نہ سکے ۔        

(2)… اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو۔        

(3)… ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔     (    خازن، الحجر، تحت الآیۃ    :     ۹    ،     ۳ / ۹۵    ،     تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ    :     ۹    ،     ۷ / ۱۲۳    ،     ملتقطاً    )        

            تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی نے قرآن کے نور کوبجھانے ، اس میں  کمی زیادتی ،تحریف اور تبدیلی کرنے یا اس کے حروف میں  شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کی بھی تو وہ کامیاب نہ سکا۔     قَرَامِطَہْ     کے مُلحد اور گمراہ لوگ سینکڑوں  سال تک اپنے تمام تر مکر ،دھوکے اور قوتیں  صرف کرنے کے باوجود قرآن کے نور کو تھوڑا سا بھی بجھانے پر قادر نہ ہو سکے ،اس کے کلام میں  ذرا سی بھی تبدیلی کر سکے نہ ہی اس کے حروف میں  سے کسی ایک حرف کے بارے میں  مسلمانوں  کو شک و شبہ میں ڈال سکے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں  اہلِ بیان،علمِ لسان کے ماہرین ، ائمہ بلاغت، کلام کے شہسوار اور کامل اساتذہ موجود رہے، یونہی ہر زمانے میں  بکثرت ملحدین اور دین و شریعت کے دشمن ہر وقت قرآنِ عظیم کی مخالفت پر تیار رہے مگر ان میں  سے کوئی بھی اس مقدس کلام پر اثر انداز نہ ہو سکا اور کوئی ایک بھی قرآنِ حکیم جیسا کلام نہ لا سکا اور نہ ہی وہ کسی آیتِ قرآنی پر صحیح اِعتراض کر سکا ۔        

            یہاں  قرآنِ مجید کی حفاظت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت یحییٰ بن اَکثَم          رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں  ’’مامون رشید کی مجلس میں  ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس ، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی ۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں  تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں  نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا، چنانچہ میں  نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں  اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی،ا س کے بعدمیں  یہودیوں  کے مَعْبَد میں  گیا تو انہوں  نے مجھ سے وہ تینوں  نسخے خرید لئے۔پھر میں  نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں  بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔ جب میں  یہ نسخے لے کر عیسائیوں  کے گرجے میں  گیا تو انہوں نے  بھی وہ نسخے خرید لئے۔ پھر میں  نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں  بھی کمی بیشی کر دی ۔ جب میں  قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں  گیا تو انہوں  نے پہلے ا ن نسخوں  کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں  نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔اس سے میری سمجھ میں  آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں  کوئی تبدیلی نہیں  کر سکتا۔ اس وجہ سے میں  نے اسلام قبول کرلیا۔     (    قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ    :     ۹    ،     ۵ / ۶    ،     الجزء العاشر، ملخصاً    )        

 

واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔


قبرستان میں لگی خشک گھاس کو جلانا کیسا ۔؟




بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

قبرستان میں لگی خشک گھاس کو جلانا کیسا ۔؟

    قبرستان میں لگی خشک گھاس وغیرہ  کوکاٹنے یااکھیڑنے کی اجازت ہے،لیکن یادرہے!اس گھاس کو صاف کرنےکےلئےقبرستان میں آگ لگاناممنوع ومکروہِ تنزیہی ہے،جبکہ کسی قبرپر آگ نہ لگائی جائےاوراگرقبر کےاوپر لگی خشک گھاس وغیرہ کوآگ جلا کرصاف کیا،تویہ فعل مکروہِ تحریمی،ناجائز و گناہ ہوگاکہ اس میں آگ کی وجہ سے بُری فال اورمیت کو اذیت دینا ہے،لہٰذااگرقبرستان یا قبروں پر گھاس اُگ پڑے،تو  گھاس کاٹنے والی مشین یا اسی طرح کے کسی اور آلے کے ذریعےاُسےکاٹ دیاجائے۔

    علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’یکرہ ایضاقطع النبات الرطب والحشیش من المقبرۃدون الیابس‘‘ترجمہ: قبرستان سےترنباتات اور تر گھاس کاٹنامکروہ ہےاور خشک ہو،توکاٹنا مکروہ نہیں۔                       

(ردالمحتار،ج3،ص184،مطبوعہ پشاور)

    فتاوی فیض الرسول میں ہے:’’قبروں پرلگی ہوئی گھاسوں کو جلاناممنوع ہے لما فیہ من التفاؤل القبیح بالناروایذاءالمیت (کیونکہ اس میں آگ کی وجہ سے بری فال  اور میت کو اذیت دینا ہے)۔‘‘                  

(فتاوی فیض الرسول،ج1،ص466،شبیربرادرز،لاھور)

    صدرالشریعۃمفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’قبرستان میں آگ جلانا بھی مکروہِ تنزیہی ہے،جبکہ قبرپرنہ ہو۔‘‘

(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی)

    اس کےتحت حاشیے میں شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں:’’اوراگرقبرپرآگ جلائیں،توناجائزوگناہ۔‘‘

(فتاوی امجدیہ،ج1،ص362،مکتبہ رضویہ،کراچی) 

* سوانح حیات شہنشاہ اہل سنت مرد مومن مرد حق علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی نور اللہ‎ مرقدہ*


 








* سوانح حیات شہنشاہ اہل سنت مرد مومن

 مرد حق علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رضوی نور اللہ‎ مرقدہ*

علامہ شاہ تراب الحق قادری قیام پاکستان سے ایک سال قبل 27 رمضان 1365 ہجری بمطابق 25 اگست 1946ء کو بھارت کی ریاست حیدرآباد دکن کے شہر ناندھیڑ کے مضافات میں موضع کلمبر میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام سید شاہ حسین قادری تھا اور والدہ ماجدہ کا نام اکبر النساء بیگم تھا۔ والد ماجد کی طرف سے سید ہیں اور والدہ ماجدہ کی طرف سے فاروقی۔ اپنے وقت کے جید عالم، مدیر المہام امور مذہبی حیدرآباد دکن مولانا انوار اﷲ خان صاحب فاروقی سے ان کا ننھیال ہے۔ علامہ سیف شاہ تراب الحق قادری نے ابتدائی تعلیم مدرسہ تحتانیہ دودھ بولی بیرون دروازہ نزد جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاصل کی۔ ان کا خاندان تقسیم ہند اور سقوط حیدرآباد دکن کے بعد 1951ء میں بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آیا۔ پاکستان آنے کے بعد پی آئی بی کالونی (کراچی) کے قریب لیاقت بستی میں قیام کیا، اس کے بعد کورنگی منتقل ہوگئے۔ کراچی میں ’’فیض عام ہائی اسکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد اپنے رشتے کے خالو اور سسر الحاج الحافظ استاذ العلماء شیخ التتفسیر قاری مصلح الدین صدیقی علیہ الرحمہ کے گھر پر تعلیم حاصل کی، پھر دارالعلوم امجدیہ سے دینی تعلیم حاصل کی۔

قَبْرکُشائی کا شرعی حکم کیا ہے ۔۔۔۔؟



قَبْرکُشائی کا شرعی حکم کیا ہے۔۔۔؟؟

سوال نمبر:4043
اگر میت کر دفنانے کے فوری بعد قبر بیٹھ جائے تو کیا قبر کو کھود کر میت کو باہر نکال کر دوبارہ قبر کی اندرونی سطح کو درست کرنے کے بعد میت کو دفنانا درست عمل ہے؟ تفصیل سے جواب دیجیے گا۔

  •  شریعت کا اصول ہے کہ  میت کی تدفین کے بعد بلاعذر قبر کو کھولنا اور اس جگہ سے میت کو نکالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ جگہ اس کے لئے خاص ہوجاتی ہے۔ اگر ضرورت درپیش ہو یا ایسی مصلحت سامنے آجائے جو علماء کے مطابق راجح ہو تو قبر کھولنا اور میت کو نکالنا جائز ہے۔

عبدالرحمان الجزیری قبر کھولنے کے مسئلہ پر فقہائے اسلام کا مؤقف بیان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

يحرم نبش القبر مادام يظن بقاء شئي من عظام الميت فيه، ويستثنیٰ من ذالک الامور: منها ان يکون الميت قد کفن بمغصوب، و ابي صاحبه ان ياخذ القيمة، منها ان يکون قد دفن ارض مغصوبة ولم يرص مالکها ببقائه، و منها ان يدفن معه مال بقصد او بغير قصد سواء کان هٰذا المال له او غيره، وسواء کان کثيراً او قليلاً و لو درهماً، سواء تغيرالميت او لا، وهٰذا متفق عليه، الا عند المالکيه.

*درس نظامی کے نئے فارغ التحصیل علماء سے چند گزارشات*




*درس نظامی کے نئے فارغ التحصیل علماء سے چند گزارشات*


تحمید و تبریک کا خوش گوار اور پربہار موسم ہے ، جامعات کے سالانہ امتحانات دیکر دورہ حدیث شریف سے فارغ ہونے والے فضلاء کی صفوں میں خوشیوں اور شادمانیوں کی دھوم دھام ہے ، بالاخر وہ دن آہی گیا جسکا مدتوں سے بے چینی اور حسرتوں سے انتظار تھا ، اس نعمت عظمی کے تشکر و امتنان کی غرض محمود کی بنا پر دعوتوں ، ظہرانوں یا عشائیوں کا پرخلوص اور چاہتوں سے بھرپور سلسلہ ہے ، اللہ کریم اہل سنت کی صفوں میں ایسے فضلاء کی کثرت فرماۓ اور محراب و ممبر کو ایسے وارثین انبیاء سے تقویت اور زینت بخشے-

علماء فرماتے ہیں : اہل علم کیلئے سب سے آسان کام ..
*1- تقریر اور خطاب کرنا ہے*  پھر ..
2- *تدریس کرنا* -  پھر ..
3- *کتاب لکھنا* - اور ..
4- *سب سے مشکل کام فتوی دینا ہے* -

درس نظامی میں طویل عرصہ تحصیل علم کے بعد نوجوان علما کا فرض منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و اشاعت دین کے عظیم کام کی جانب متوجہ ہوں ، جسے قرآن کی زبان میں *" ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون " اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں* فرمایا گیا ہے- اور مذکور چاروں امور اس مقصد کی تکمیل کیلئے بہترین ذرائع ہیں -

*سلطان الاسلام الشیخ ابوالحسین محمد کرت علامہ تفتازانی کی نظر میں* *موجودہ حکمرانوں کیلئے درس عبرت*



*سلطان الاسلام الشیخ ابوالحسین محمد کرت علامہ تفتازانی کی نظر میں*
*موجودہ حکمرانوں کیلئے درس عبرت*


✍️ نوید کمال مدنی

علماۓدین کا یہ شعارقدیم رہا ہے کہ وہ اصحاب اقتدار و ثروت اور سلاطین ریاست وحکومت کو خاطر میں نہ لاتے اور ان کے قرب و صحبت سے کوسوں دور رہتے ہیں ..
مگر ان میں وہ افراد جنکی سوچ و فکر ، زاویہ نظر اور ہر فیصلہ و قضا اسلام و مسلمین کے حق میں ہوتا ، جنکے عدل و انصاف پر زمانہ شاھد ہوتا ، جنکی تلوار محض ظالم و جابر پر اٹھتی اور جن کا غلبہ و سطوت کفار پر قہر بن کر ٹوٹتا ایسے سلاطین امت کا علماۓ دین ضرور ساتھ دیتے ، انکے قصیدے پڑھتے اور بارگاہ رب ذوالجلال میں انکی صحت و سلامتی کیلئے ملتجی ہوتے - 

صاحب مطول علامہ سعدالدین مسعود بن عمر تفتازانی رحمه الله نے مطول کے طویل خطبے میں خراسان کے مشہور شہر ہرات کے حاکم وقت الشیخ ابوالحسین محمد کرت رحمه الله کے جو اوصاف جمیلہ و خصائل حمیدہ رقم کئے ہیں واقعی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں جنکے مطالعے سے اسلام کے حقیقی ، سچے اور وفادار حکمرانوں کی ترجمانی ہوتی ، اولی الامر کی شان و شوکت ظاہر ہوتی اور خوب صورت ، پرامن ، سلامتی ، تہذیب یافتہ ، عدل و انصاف سے مملو و بھرپور اور اسلامی معاشرے کی منظرکشی ہوتی ہے -