October 25, 2020 Abdullah Hashim Madni
📌 *انصاف چاہیے ، پیسہ نہیں* 📌
👈 عدل و انصاف کو ہمارے دین میں ایک بُنیادی حیثیت حاصل ہے۔
یہ ایک ایسی خصلت ہے جس کو اللہ عزوجل بھی محبوب رکھتا ہے۔
👈 انصاف کا مطلب یہ ہے کہ *حق دار کو اُس کا حق دیاجائے*
اور
*مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دی جائے*۔
👈 انصاف کا میدان تو بہت وسیع ہے۔اس کی ابتداء تنہائ سے ہوتی ہے اور انتہاء میدانِ حشر تک ہوتی ہے۔
جو بندہ اپنی تنہائ میں اپنے خیالات میں انصاف قائم نہیں کرسکتا وہ بندہ اپنی زندگی میں انصاف کبھی قائم نہیں کرسکتا۔
اپنے خیالات پر توجہ رکھیں اور ان میں عدل قائم کریں۔
👈 اب قابل توجہ بات یہ ہے کہ
خیال کا عدل کیا ہے ؟؟
خیال کا عدل یہ ہے کہ ہم اچھے خیال حاصل کریں۔اور ان کو عمل کی تقویت دے کر ان کے ساتھ اور اپنے ساتھ عدل کریں۔
👈 عادل کیلئے اپنے خیال کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔وہ اپنے دل کے دروازے پر دربان بن کر بیٹھ جائے تاکہ خیالات کے آنے اور جانے کا علم ہو۔ اور یہی عدل کا تقاضا ہے۔
👈 ہر صورت میں انصاف کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے اور کبھی بھی حق کو باطل کا لباس نہ پہنائو۔
جس قوم میں انصاف نہیں ہوتا
اُس قوم میں فساد بڑھ جاتا ہے ،
بے برکتی بڑھ جاتی ہے ،
ظلم و ستم بڑھ جاتا ہے ،
اور غربت کا ایک سبب عدل قائم نہ کرنا بھی ہے۔
👈 کل بروز قیامت ہر اُس شخص کے ماتحتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا جو اِن کا نگران ہے۔
اے حاکموں ❗
ان کے مابین انصاف قائم کرو
*حق دار کو اس کا حق دلائو*
اور
*مجرم کو اس کے کیّے کی سزا دلائو*.
👈 ایک بات یاد رکھیں ❗
جہاں پہ عدل قائم کرنے کے فوائد ہیں وہاں پہ ناانصافی کے بڑے نقصانات بھی ہیں۔
نا انصافی کرنے والا شخص *اللہ قہّار و جبّار* کے عذاب کو دعوت دے رہا ہوتا ہے۔
اور ایسے شخص کیلئے جھنم کے عذاب کی سخت وعیدیں بھی ہیں۔
👈 لہذا❗
نا انصافی کرنے سے باز آجائو
ورنہ اے ظالموں❗
کب تک نا انصافی کرتے رہو گے❓
👈 ایک ایسا دن بھی آئے گا جس دن زمین اپنے چُھپے ہوئے راز ظاہر کرے گی۔
اور اُس دن جسم کا ایک ایک عضو گواہی دے گا۔
سورج سر کے اوپر آگ برسا رہا ہوگا۔
زمین تانبے کی ہوگی۔
اِس دن سب لوگوں کے سامنے اور *رب قہّار* کے سامنے کیا جواب دوگے ❓
👈 یہ امانت گاہ ہے یہاں سے صرف عادل ہوکر گزرو ،
سچ کو سچ کہو ، جھوٹ کو جھوٹ
دن کو دن اور رات کو رات کہو ۔
سچ اور جھوٹ کو ملا کر بولنے والا بڑے دروازوں اور خوبصورت مکانوں کے اندر عذاب کی زندگی گزارتا ہے۔
جی ہاں: حقیقتاً میں ایسا شخص بے سکون ہوتا ہے۔
اور ایسے بندے کو کبھی بھی چین نہیں آتا۔
👈 حالانکہ لوگ ایسے شخص کو خوش سمجھتے ہیں۔لیکن یہ بندہ اپنی حالت کو بخوبی سمجھتا ہے کہ خوشی نام کی کوئ چیز میرے پاس نہیں ہے۔
👈 لہذا ❗ اگر سکون ، چین اور آخرت کی بھلائ چاہتے ہو تو انصاف قائم کرو۔
کیونکہ ہمارا دین *عدل و انصاف* کا عَلَم بردار ہے۔اور اِسی کا حکم دیتا ہے۔اور اِسی میں بھلائ ، عافیت اور سکون ہے۔
👈 اگر ہم قران مجید پر سچا ایمان رکھتے ہیں تو ہمیں حقیقی معنوں میں حق و انصاف پسندی کو اپنی شخصیت کا جزء بنانا ہوگا۔
👈 انصاف پر کسی قسم کا کمپرومائز نہیں ہونا چاہیے۔جس بات کو ہم حق اور انصاف سمجھتے ہیں۔اپنی استطاعت کے مطابق اس بات پر ڈٹ جانا اور اس کے مقابلے میں کسی ملامت کی پرواہ نہ کرنا وہ روّیہ ہے جس کا تقاضا دین میں کیا گیا ہے۔
👈 اگر ہم اپنی روز مرہ دینی اور دنیاوی زندگیوں میں نا انصافی کو چھوڑنا شروع کردیں۔تو بہت جلد ہماری اجتماعی زندگیوں میں حق و انصاف کا بول بالا ہوگا۔
اور ہمارے حکمران اور عدالتیں بھی انصاف کے قائم کرنے والے بن جائیں گے۔
👈 لیکن اپنے روّیے کی اصلاح کے بجائے اگر ہم حکومت ہی کو کوستے رہے تو حالات ایسے ہی رہیں گے۔بلکہ اس سے بھی بدتر ہوتے جائیں گے۔
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری*:-
*03128065131*:-