* انبیاء کرام اور شانِ مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم *
* انبیاء کرام اور شانِ مصطفٰی صلی اللّٰہ علیہ وسلم *
*✍️ غلام نبی انجـــــــم رضا عطاری*
ہمارے آقا و مولی، دو عالم کے داتا صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے تمام اچھے اوصاف سے مزین فرمایا ہے اور ہر عیب سے پاک پیدا فرمایا، کئی زمانے آئے اور گُزر گئے مگر آج تک ایسی شان و شوکت ،عزت و مرتبت والا کوئی آیا ہے نہ آئے گا۔ آج ہم انبیائے کرامصل عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی زبانی آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان و عظمت سے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے۔اعلیٰ حضرت ،امام عشق و محبت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کا بہت ہی پیارا شعر سُنتے ہیں۔
*تِرے خُلق کو حق نے عظیم کہا*
*تِری خِلق کو حق نے جمیل کیا*
*کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا*
*ترے خالقِ حُسن و اَدا کی قسم*
*حدائق بخشش ،ص80*
*شانِ مُصْطَفٰے بزبانِ کلیم اللہ*
نبیِ کریم ،رؤفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا :جب حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام پر تورات نازِل ہوئى اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس کو پڑھا تو اس مىں ایک اُمَّت کا ذکر دیکھ کر کہنے لگے۔ یا ربّ (عَزَّوَجَلَّ) میں نے تورات مىں اىک ایسى اُمَّت کا تذکرہ پڑھا ،جو سب سے آخر میں آئے گی اور سب پرسبقت لے جائے گی،اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ) :تُو اُس اُمَّت کو میری اُمَّت بنا دے!تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرماىا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے *‘‘حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی*:اے میرے پروردگار (عَزَّوَجَلَّ) ! میں نے تورات میں ایک ایسى اُمَّت کا تذکرہ پڑھا جو خدا (عَزَّوَجَلَّ) کو پُکارے گی اور ان کى دعائیں قبول ہوں گى، اس امّت کو میرى اُمّت بنادے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے،حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی، اے مالک (عَزَّوَجَلَّ)! میں نے تورات مىں ایک ایسی اُمَّت کا تذکرہ پڑھا، جن کى کتاب ان کے سینوں مىں محفوظ ہو گى اور وہ اس کی زبانى تلاوت کریں گے،کیونکہ پہلے کے لوگوں کو اپنی آسمانی کتابیں زبانی یاد نہیں ہوتی تھیں، وہ اُنہیں دیکھ کر پڑھتے تھے،تو عرض کی :اُس امّت کو میری اُمَّت بنا دے ،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا : *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ*، وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى امت ہے، حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ)! میں نے تورات مىں ایک ایسی امّت کا تذکرہ پڑھا کہ جو اپنے ہى رشتے داروں کوصدقہ دے گی،اور اس پر بھی انہیں اَجْر دیا جائے گا، اس امّت کو مىرى اُمَّت بنادے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمَّت ہے ۔حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی:اے میرے پروردگار (عَزَّوَجَلَّ)! مىں نے تورات میں ایک ایسی اُمَّت کا تذکرہ پڑھا کہ اُس کا کوئی فرد نیکی کا اِرادہ کرے گا تو صرف اِرادہ کرنے پر ہی اسے ایک نیکی کا ثواب عطا کر دیا جائے گا اور اگر وه اُس نیکی کو کر لے گا تو اُسے دس (10) نیکیوں کا ثواب دیا جائے گا، اے میرے مالک (عَزَّوَجَلَّ) :اُس اُمَّت کو میری اُمّت بنا دے،اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی وہ بھی احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمَّت ہے حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی ، اے میرے رَبّ (عَزَّوَجَلَّ)! میں نے تورات میں ایک ایسی اُمّت کا تذکرہ پڑھا کہ جب اُس کا کوئی فرد گُناہ کا ارادہ کرے گا تو گُناہ نہیں لکھا جائے گا اور اگر گُناہ کر لےگا تو صرف ایک گُناہ لکھا جائے گا تو اے میرے مالک (عَزَّ وَجَلَّ): اس اُمّت کو میری اُمَّت بنا دے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* یعنی یہ بھى احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کى اُمت ہے، حضرت سیدنا موسىٰ کلیم اللہ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی: اے میرے رَبّ (عَزَّوَجَلَّ) میں نے تورات میں ایک ایسی اُمّت کا تذکرہ پڑھا کہ جنہیں اگلے پچھلوں کا علم عطا ہوگا اور وہ گمراہى کو مٹا دیں گے اور دَجّال کو قتل کریں گے، پروردگار! (عَزَّوَجَلَّ) اُس اُمَّت کو میری اُمَّت بنادے، اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا: *تِلْکَ اُمَّۃُ اَحْمَدْ* کہ وہ تو احمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی اُمّت ہے۔تو موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کی : پھر مجھے اُمّتِ احمد میں سے بنا دے ،اس دُعا پر خدا تعالىٰ نے حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو دو خُصُوصیات سے نوازتے ہوئے فرمایا،اے موسىٰ مىں نے تمہىں اپنے پىغامِ (رسالت) اور اپنے کلام کے لىے چُن لیا ہے ، اور جو کچھ میں تم کو دے رہا ہوں اسے لو اور شُکر گزاروں میں سے ہوبجاؤ،اس ارشاد پر حضرت موسىٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا،اے رَبّ (عَزَّوَجَلَّ) میں راضى ہوگىا۔
(📗دلائل النبوۃ لابی نعیم،الفصل الرابع:ذکر الفضیلۃ…الخ،ص۳۳،حدیث:۳۱ )
*شانِ مُصْطَفٰے بزبانِ آدم صَفِیُ اللہ*
حضرت سَیِّدُنا آدم صفیُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ذاتِ مقدسہ سے کون ناواقف ہے کہ جنہیں ربّ تعالٰی نے تمام انسانوں کے باپ (والد) بننے کا شرف عطا فرمایا، تمام فرشتوں سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کو سجدہ کروایا اور اپنی بنائی ہوئی جنّت کا نظارہ کروایا، اس قدر بلند و بالا رُتبہ نصیب ہونے کے باوجود حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی محبت کا عالم تو مُلاحظہ فرمائیے کہ ایک مرتبہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنے نورِ نظر حضرت شِیْثْ عَلَیْہِ السَّلَام کو نصیحت کرتے ہوئے ان کے سامنے بڑے ہی دلنشین انداز میں تاجدارِ انبیاء، محبوبِ کبریا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مدح سرائی فرمائی اور انہیں ذکرِ مُصْطَفٰے کرتے رہنے کی تلقین بھی ارشاد فرمائی۔ چنانچہ
حضرت سَیِّدُنا آدَم صفیُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹے حضرت شِیْث عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا :تُم جب بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا ذِکْر کرو تو ساتھ حضرت محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا نامِ نامی، اِسْمِ گِرامی بھی ذِکْر کرنا، کیونکہ میں نے اُس وَقْت بھی اُن کا مُبارَک نام عَرْش کے سُتُونوں پر لکھا ہوا دیکھا تھا، جب میں رُوْح اور مٹی کے دَرْمِیان (تَخْلِیْقِی مَراحِل میں) تھا، پھر جب مُجھے آسمانوں کی سَیر کرائی گئی تو اس وَقْت بھی میں نے ہر جگہ اِن کا اِسْمِ گرامی لکھا دیکھا،پھر میرے رَبّ عَزَّوَجَلَّ نے مجھے جَنَّت میں ٹھہرایا تو وہاں بھی میں نے ہر جَنَّتی مَحل اور دروازے پر نامِ محمد(صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ) لکھا پایا ،اس کے عِلاوہ حُوْرُالْعِیْن کی پیشانیوں، دَرَخْتِ طُوبیٰ و دَرَخْتِ سِدْرَةُ الْمُـنْـتَـهٰی اور دیگر جَنَّتی دَرَخْتوں کے پتّوں نیز حِجاباتِ اِلٰہیّہ کے کَناروں اور فِرشْتوں کی آنکھوں کے دَرْمیان بھی یہی نامِ محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ لکھا ہوا دیکھا ہے۔ لہٰذا اُن کا کَثْرت سے ذِکْر کرنا، بے شک فِرِشْتے بھی ہر گھڑی ان کے ذِکْرِ خیر سے اپنی زبان تَر رکھتے ہیں۔
(📗تاریخ ابن عساکر، ۲۳/۲۸۱،رقم:۲۷۸۱:شیث ویقال شبیث بن آدم)
*مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب کون؟*
نبی کریم ،رؤفٌ رَّحیم، محبوبِ ربِّ عظیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:جب حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بارگاہِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں عرض کی: اے میرے ربّ عَزَّوَجَلَّ! مجھے محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے میں معاف فرما دے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟ حضرت آدم عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے عرض کی: اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! جب تُو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر رُوح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اُٹھایا تو میں نے عرش کے سُتونوں پر لَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا، تو میں نے جان لیا کہ تُو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ عَزَّوَجَلَّ نے فرمایا: اے آدم! تُو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔ تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور *’’وَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُكَ‘‘* اگر محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ)نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔
( 📗مستدرک،و من کتاب آیات رسول اللہ…الخ،استغفارآدم علیہ السلام …الخ ،۳/۵۱۷،حدیث:۴۲۸۶)
*نُوح و خلیل و مُوسیٰ و عیسیٰ*
*آنکھوں کا تارا نامِ محمد*
*سب کا ہے آقا نامِ محمد*
*دل کا اُجالا نامِ محمد*
امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے بھی اپنے بیان و تحریر میں اور اشعار کی صورت میں نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ثناخوانی بیان کی ہے ۔آپ کا نعتیہ دیوان *"حدائقِ بخشش "* کے نام سے مشہور و معروف ہے ۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تعَالٰی عَلَیْہ نے اس میں سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی شان میں ایک کلام لکھا کہ
*سرور کہوں کہ مالک و مولیٰ کہوں تجھے*
*باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے*
(حدائقِ بخشش،ص۱۷۴)
شعر کی وضاحت: یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ذاتِ گرامی میں تمام خُوبیاں جمع ہیں، لہٰذا میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی کس کس خوبی کو بیان کروں ؟میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نبیوں کا سردار کہوں؟ اپنا آقا و مولیٰ کہوں؟ حضرت ابراہیم خلیلُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باغ کا خوب صُورت پھول کہوں؟
پھر اس کے بعد نبیوں کے تاجدار،منبعِ اَنوار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مختلف اَوصاف ذکر فرماتے گئے،جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے مکی مدنی آقا صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے بے شُمار اوصاف و کمالات ،فضائل و خصوصیات پر غور کیا توحیران رہ گئے کہ آپ کی تعریف و ثنا کس طرح بیان کی جائے تو پھر آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ نے اس کلام کا اختتام ان اشعار پر یوں فرمایا:
*تیرے تو وَصف ''عیبِ تنا ہی'' سے ہیں بَری*
*حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے*
*کہہ لے گی سَب کچھ اُن کے ثناخواں کی خامشی*
*چُپ ہورہا ہے کہہ کے میں کیا کیاکہوں تجھے*
*لیکن رضاؔ نے ختم سُخن اس پہ کر دیا*
*خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے*
والسلام علیکم بالخیر
/