یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اسلام میں خنزیر کیوں حرام ہے۔۔۔۔؟



اسلام میں خنزیر کیوں حرام ہے۔۔۔۔؟

محرر: فاضل عبداللہ ہاشم عطاری مدنی
03313654057

قرآن  مجید میں خنزیر کی حرمت:

قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خنزیر کے حرام ہونے کا چار مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔
(1) سورة البقرة آیت نمبر: 173،
(2) سورة المائدة آیت نمبر:3، 
(3) سورة الانعام آیت نمبر: 145،
(4) سورة النحل آیت نمبر: 115 
اور ان آیات میں قطعی طور پر خنزیر کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے،
جیسا کہ اللہ  تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: حُرِّ‌مَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ‌ )سورة المائدةآیت 3)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں صرف گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ اصل مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اور باقی اشیاء اس کے تابع ہوتی ہیں۔ 

حدیث میں خنزیر کی حرمت:

کثیراحادیثِ مبارکہ میں بھی خنزیر  کا حرام اور نجس العین ہونا ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا:
ان الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام- ( صحيح البخاري)’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب‘ مردار‘ سور اور بتوں کے بیچنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
اس حدیث میں گوشت کا نہیں بلکہ خنزیر کا ذکر ہے تو یہ حدیث بھی عمومِ حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
امام نووی ﷬فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہو گیا ہے کہ خنزیر حرام ہے، اس کی چربی، اس کا خون اور اس کے سارے اجزاء بھی حرام ہیں۔(شرح صحيح مسلم )

خنزیر کے نہ کھانے کی کئی حکمتیں ہیں :

٭ سور کا گوشت نہ کھانے کی وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ہم ان کے حکم کے پابند ہیں،اور خنزیر تو نص قطعی سے حرام ہے، اس لیے یہ نجس العین ہے۔ اللہ تعالیٰ  کا مسلمانوں  پر بڑا انعام ہے کہ وہ پاكيزہ اشياء حلال كرتا اور خبيث اور گندى اشياء حرام كرتا ہے جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت 157 میں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے: وَيُحِلُّ لَـهُـمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْـهِـمُ الْخَبَائِث (سورۃ الاعراف :157)
٭ فطرت سلیم اسے گندہ سمجھتی ہے، نظافت طبعی اس کی طرف رغبت کرنے سے کراہت کرتی ہےعلماء فرماتے ہیں کہ خنزیر کو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک خبیث  اور پلید جانور ہے ،اس کی یہ پلیدی گوشت اور چربی سب  میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
٭ اس کے گوشت کے جو طبی نقصانات ہیں وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں  کیوں کہ یورپ میں  خون  کے کینسر میں مبتلا  ہونے والے بہت سے لوگ وہ ہیں جو خنزیر کا کوشت کھاتے ہیں۔
٭ اس میں بہت گندگی اور بدبو ہوتی ہے جو اس کے نجس العین ہونے کی دلیل ہے۔
٭ خنزیر کی حرمت بسبب اس کی نجاست خوری  ہے۔
٭ تمام جانوروں میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی مادہ کی قربت کوئی دوسرا کرے۔ لیکن خنزیز کی خباثت کا یہ عالم ہے کہ یہ دوسرے جانوروں کو گھیر گھیر کر اپنی مادہ کی طرف لاتا ہے۔ جب وہ اس مادہ کی قربت کرتے ہیں تو خوش ہوتا ہے۔خنزیر کا گوشت بکثرت استعمال سے اخلاقی خرابیاں اور بے حیائی کا پیدا ہونا ایک مسلم حقیقت ہے جن قوموں میں اس کو کثرت سے کھانے کا رواج ہے، ان کی بے حیائی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ 


 خنزیر کی حرمت ہر دور میں رہی ہے:

٭ محدثین نے لکھا ہے کہ کسی نبی کے زمانہ میں خنزیر حلال نہیں تھا، حضرت عیسی    کی شریعت کی طرف جو اس کی حلت منسوب کی جاتی ہے بالکل غلط ہے، ان کی شریعت میں بھی خنزیر حرام تھا، حدیث میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ    تشریف لائیں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے(صحیح بخاری)
اس   حدیث کے تحت علامہ عینی ﷬فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ان کی شریعت میں خنزیر حرام تھا اور اس میں ا ن عیسائیوں کی بھی تکذیب ہے جو خنزیر کی حلت کو اپنی شریعت کی طرف منسوب کرتےہیں۔وممایستفادمن الحدیث ما فیه قاله ابن بطال دلیل علی أن الخنزیر حرام في شریعة عیسیٰ علیہ السلام وقتله له تکذب للنصاریٰ أنه حلال في شریعتهم۔ 
٭ سور کی گندگی اور ناپاکی اتنی روشن اور عیاں ہے کہ بعض قدیم قومیں مثلاً اہل مصر بھی اسے نجس سمجھتی رہی ہیں، بلکہ خود یہودیوں کے یہاں بھی خنزیر حرام تھا، اس کی حرمت اور نجاست دونوں صراحت کے ساتھ بائبل میں موجود ہیں۔
   
نوٹ: شرعی غلطی پر  میری ضرور اصلاح فرمائیں

*فضائل ومناقب امام حسین رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں*



*فضائل ومناقب امام حسین رضی اللہ عنہ احادیث کی روشنی میں*



سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ نواسہ رسول ہیں اس عظیم ہستی کے جن کے امتی ہونے کیلئے انبیاء کرام دعائیں کرتے رہے۔اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کے واسطہ سے ہمیں ایمان و نعمت اسلام کی دولت سے مالا مال فرمایا۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے  اپنی امت سے کچھ نہیں مانگا  مگر صرف اپنے قرابت داروں کی محبت  اور آپ کے قربت داروں میں سب سے زیادہ عزیز سیدنا امام عالی مقام رضی اللہ عنہ ہیں تو ہم سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی  احادیث نبویہ کی روشنی میں فضیلت جانیں گے 

جیسے اللہ تعالی نے  ارشاد فرمایا
لَا أَسْأَ لُکُمْ عَلَیْہِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّۃَ فِی الْقُرْبٰی
ترجمہ:
 میں (محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تم سے اس (تبلیغ اسلام)پر کوئی اجر نہیں چاہتا ہوں سوائے  قرابت داروں کی محبت کے۔

حدیث 1️⃣:

جب یہ آیۃ نازل ہوئی تو کچھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور ﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے
یا رَسُولَ اللَّہِ ، وَمَنْ قَرَابَتُکَ ہَؤُلاءِ الَّذِینَ وَجَبَتْ عَلَیْنَا مَوَدَّتُہُمْ ؟ قَالَ : عَلِیٌّ وَفَاطِمَۃُ وَابْنَاہُمَا
اے اللہ کے پیارے حبیب ﷺ جن سے آپ نے محبت کرنے کا فرمایا ہے ان سے کون سی وہ اعلی شخصیات مرادہیں جن سے محبت کرنے پر خود رب کائنات نے بھی ارشاد فرما دیا
تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا
علی،فاطمہ اور ان کے دونوں شہزادے رضی اللہ عنہم
 (معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر: 2575)

حدیث 2️⃣:

ایک اور مقام پر ان سے محبت کو حضور ﷺ نےہدایت کی اساس قرار دیتےہوئے فرمایا
حضرت زید بن ارقم اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اکرمﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو فرمایا
اِنِّيْ تَارِکٌ فِيْکُمْ ثَقْلَيْن اِنْ اَخَذْتُمْ بِهِمَا لَنْ تَضِلُّوْا کِتَابَ اللّٰه وَعِتْرَتِيْ اَهْلَ بَيْتِيْ فَانْظُرُوْا کَيْفَ تَخْلُفُوْنِيْ فِيْهِمَا.
’’ترجمہ:
 لوگو میں تم میں دو بھاری (نہایت اہمیت والی ) چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، اگر تم نے اِن دونوں کو تھامے رکھاتو ہر گزگمراہ نہ ہوں گے
 کتاب اللہ اور میری اہل بیت۔ دیکھنا! میرے بعد تم اِن دونوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو
(جامع ترمذی، ج5، ص662، حديث 3786)

حدیث 3️⃣:

حضرت امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ  حضور ﷺ کو اتنے پیارے تھے کہ آپ ﷺ  فرمایا
حُسَیْنٌ مِنِّی وَأَنَا مِنْ حُسَیْنٍ ۔
ترجمہ: 
حسین مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں (جامع ترمذی ج2 ص 218 حدیث 4144)

حدیث 4️⃣:

آپ کی ولادت کی خبر پیدائش سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کو دے دی گئی تھی جیسا کہ حضور ﷺ کی چچی ام فضل بنت حارث رضی اللہ عنہا  کی روایت سے ثابت ہے کہ ایک دن انہوں نے ایک خواب دیکھا تو حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور عرض گزار ہوئیں
یا رسول اللہ ﷺ آج رات میں نے ایک ڈرا دینے والا خواب دیکھا ہے۔تو آپ ﷺ نے پوچھا کہ اے چچی جان !آپ نے ایسا کیا دیکھا ہے خواب میں؟
عرض کرنے لگی بہت ہی خوفناک ہے ،آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ ہے کیا؟
عرض کرنے لگی کہ میں نے دیکھا ہے گویا آپ ﷺ کے جسم اطہر سے ایک ٹکڑا کاٹ دیا گیاہے اور میری گو د میں رکھ دیا گیاہے۔سننے کے بعد مسکراتے ہوئے رسول اللہ ﷺ فرمانے لگے کہ تم نے تو کتنا اچھا  خواب دیکھا ہے۔ان شاء اللہ فاطمۃ الزھرا ء رضی اللہ عنہا  سے بچہ پیدا ہوگا  اور وہ تمہاری گودمیں پرورش پائےگا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔حضور ﷺ کی بیان فرمائی ہوئی بشارت کے عین مطابق ہی بی بی فاطمۃالزھراء رضی اللہ عنہاکو حضرت امام حسرضی اللہ عنہ پیدا  ہوئے اور وہ میری گود میں آئے۔
(مشکوۃ المصابیح،ج۱،ص572)

حدیث 5️⃣:

آپ کا نام خود امام الرسل صلی اللہ علیہ وسلم نے تجویز فرمایا جیسا کہ حدیث میں ہے 
عَنْ عَلِیٍّ رَضِیَ اللَّہُ تَعَالی عَنْہُ , أَنَّہُ سَمَّی ابْنَہُ الأَکْبَرَ حَمْزَۃَ ، وَسَمَّی حُسَیْنًا جَعْفَرًا بِاسْمِ عَمِّہِ ، فَسَمَّاہُمَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَسَنًا وَحُسَیْنًا
ترجمہ:
حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے بڑے بیٹے حضرت حسن کا نام مبارک حمزہ اور چھوٹے بیٹے کا نام مبارک آپ کے چچا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نام پر رکھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے ان کانام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما رکھا۔
(معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر2713)

حدیث 6️⃣:

ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ایک موقعہ پر پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دونوں نام رکھنے کی وجہ بھی بیان فرما دی۔
حسن اور حسین یہ دونوں نام اہل جنت کے اسماء ہیں اور اسلام سے پہلے عرب میں یہ دونوں نام نہیں رکھے گئے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کا نام شبیر و شبر رکھا اور میں نے اپنے بیٹوں کا انہیں کے نام پر حسن اور حسین رکھا۔
 (صواعق محرقہ، صفحہ 118) 

حدیث 7️⃣:

اس لئے حسنین کریمین کو شبیر اور شبر کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ سریانی زبان میں شبیر و شبر اور عربی زبان میں حسن و حسین دونوں کے معنیٰ ایک ہی ہیں
علامہ ابن حجر مکی ہیتمی نے الصواعق المحرقہ میں صفحہ 115 پر یہ روایت درج فرمائی ہے۔
امام عالی مقام سیدنا امام حسین علیہ السلام کی کنیت ابو عبد اللہ ہے اور القاب مبارکہ ریحانہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم،سیدشباب اھل الجنۃ،الرشید،الطیب،الزکی،السیداورالمبارک ہیں۔
جب آپ علیہ السلام کی ولادت با سعادت ہوئی تو آپ کے کانوں میں آذان کہی گئی اور وہ آذان کی متبرک آواز حضور رحمۃ اللعالمین ﷺ کی تھی۔
جیسا کہ روایت میں آتا ہے
عَنْ أَبِی رَافِعٍ ، أَنّ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : ” أَذَّنَ فِی أُذُنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ حِینَ وُلِدَا
ترجمہ: حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے تو حضور ﷺ نے ان کے کانوں میں آذان کہی۔(معجم کبیر طبرانی،حدیث نمبر 2515)

حدیث 8️⃣:

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہماکی ولادت پر عقیقہ کیا اور اس کے لئے ایک ایک دنبہ کو ذبح فرمایا جیسا کہ ابو داود شریف کی روایت ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَقَّ عَنِ الْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ کَبْشًا کَبْشًا.
ترجمہ:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ نے حضرات حسن وحسین رضی اللہ عنہما کے عقیقہ میں ایک ایک دنبہ ذبح فرمایا۔
 (سنن ابوداؤد، ص392، حدیث نمبر2843)

حدیث 9️⃣:

حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا
یَمْتَصُّ لُعَابَالْحُسَیْن کَمَا یَمْتَصُ الرَّجُلُ التَّمَرَۃَ
وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے لعابِ دہن  کو اس طرح چوستے ہیں جیسے کہ آدمی کھجور چوستا ہے۔
 (نور الابصار صفحہ 114)

حدیث 0️⃣1️⃣:

کیا محبت کا عالم ہو گا۔اتنی محبت جہاں میں کسی نے بھی اپنے نواسوں سے نہیں کی ہو گی پر نواسوں نے بھی محبت کا حق ادا کیا ،خاندان لوٹا دیے ،گردنیں کٹوا دیں پر نانا کے دین پر حرف نہ آنے دیا۔
ایک دفعہ تو حضور ﷺ نے امام حسین علیہ السلام کو اپنی گود میں بٹھایااور آپ کے لبوں کو بوسہ دے کر ان سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے اس طرح فرمایا اور ساتھ ساتھ جو ان سے محبت کرے ان کو بھی دعا دی فرمایا
اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا
ترجمہ:
اے اللہ !میں ان (حسن و حسین )سے محبت رکھتا ہو ں تو بھی ان سے محبت رکھ اور جو ان سے محبت رکھے اس کو اپنا محبوب بنا لے
(جامع ترمذی،ج 2 ص218)

حدیث 1️⃣1️⃣

ایک اور مقام پر حضور ﷺ نے امام حسن و حسین کی شان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا
فَقَالَ ہَذَانِ ابْنَایَ وَابْنَا ابْنَتِی اللَّہُمَّ إِنِّی أُحِبُّہُمَا فَأَحِبَّہُمَا وَأَحِبَّ مَنْ یُحِبُّہُمَا .
ترجمہ :یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ائے اللہ !تو ان دونوں سے محبت فرما اور جو ان سے محبت رکھے اسکو اپنا محبوب بنالے۔
(جامع ترمذی، حدیث  4138 )

حدیث 2️⃣1️⃣

حسنین کریمین  خود تو اللہ کو محبو ب ہیں جو ان سے محبت کرے وہ بھی اللہ کے محبوبوں میں شامل ہو جاتاہے۔کیونکہ ایسے انسان کےلئے جو حسنین کریمین سے محبت کرتاہے خود رسول خدا دعا فرما رہے ہیں
أَحَبَّ اللَّہُ مَنْ أَحَبَّ حُسَیْنًا-
ترجمہ:
اللہ تعالیٰ اس کو اپنا محبوب بنالے جس نے حسین رضی اللہ عنہ سے محبت رکھی۔ (جامع ترمذی.ج2ص218 حدیث  4144-)

ایک لحاظ سے تو اللہ سبحانہ و تعالی نے ان کو جو یہ چاہتےہیں کہ اللہ ان سے محبت کرے کو ایک نسخہ بتا دیا کہ ہر وقت امام حسنین و کریمین رضی اللہ عنہما کے قصیدے پڑھوں ،ان کی شان کو بیان کرو کیونکہ ان کی شان کو بیان کرنا سنت مصطفی ﷺ ہے اور سنت بھی ایسی کہ جو محمد رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ پسند تھی۔
حضور کی محبت کے عالم کا اندازہ تو کریں کہ نہ صرف اس کے لئے دعا فرمائی جو ان سے محبت کرتاہے بلکہ جو ان سے بغض رکھتا ہے اس کے لئے وعید بھی بیا ن فرما دی اس نبی نےجس نے کفارکے ظلم پر بھی بارگاہ خدا وندی میں یہ کہا کہ اے اللہ ان کو ہدایت عطا فرما یہ نہیں پہچانتے مجھ کو کہ جو حسنین کریمین سےبغض رکھتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی محمد رسول اللہ سے بغض رکھتاہے

حدیث 3️⃣1️⃣

عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مَنْ أَحَبَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنَ فَقَدْ أَحَبَّنِی وَمَنْ أَبْغَضَہُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِی.
ترجمہ : 
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے محبت کی، اس نے درحقیقت مجھ ہی سے محبت کی اور جس نے حسن اور حسین رضی اللہ تعالی عنہما سے بغض رکھا اس نے مجھ ہی سے بغض رکھا۔
( سنن ابن ماجہ شریف، حدیث نمبر148)

حدیث 4️⃣1️⃣

یہ شہزادے تو وہ ہیں جن کا رونا بھی محبوب خدا کو نا گوار گزرتاہے
عَنْ زَیْدِ بْنِ اَبِیْ زِیَادَۃَ قَالَ خَرَجَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ بَیْتِ عَائِشَۃَ فَمَرَّعَلَی بَیْتِ فَاطِمَۃَ فَسَمِعَ حُسَیْنًا یَبْکِیْ فَقَالَ اَلَمْ تَعْلَمِیْ اَنَّ بُکَائَہُ یُؤْذِیْنِیْ.
ترجمہ:
سیدنازید بن ابی زیادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، حضرت رسول اللہ صلی علیہ وسلم ام المومنین حضرت عائشہ الصدیقہ رضی اللہ عنہاکے حجرہ مبارکہ سے باہرتشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے دولت خانہ سے گزر ہوا ،امام حسین رضی اللہ عنہ کی رونے کی آوازسنی توارشادفرمایا:
بیٹی کیا آپ کو معلوم نہیں!ان کارونا مجھے تکلیف دیتا ہے۔
(نورالابصارفی مناقب ال بیت النبی المختار ص139 )

حدیث 5️⃣1️⃣

کیوں نہ ایسی حالت ہوتی جن کے بارے میں میرے پیارے مصطفی کا یہ فرمان ہو
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔اِنَّ الْحَسَنَ وَالْحُسَیْنُ ھُمٰا رُ یُحَانتیْ مِنَ الدُنْیَا 
حسن اور حسین دنیا کے میرے دو پھول ہیں (مشکوٰۃ شریف صفحہ 570)

حدیث 6️⃣1️⃣

ایک بار تو ایسا ہو ا کہ حضور نے ان کی خاطر منبر سے خطبہ فرماتے وقت خطبہ کو موقوف فرمادیا ،منبر سے نیچے تشریف لائے اور ان کو اپنی گود میں لے لیا

حَدَّثَنِی عَبْدُ اللَّہِ بْنُ بُرَیْدَۃَ قَالَ سَمِعْتُ أَبِی: بُرَیْدَۃَ یَقُولُ کَانَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُنَا إِذْ جَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ عَلَیْہِمَا السَّلاَمُ عَلَیْہِمَا قَمِیصَانِ أَحْمَرَانِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم مِنَ الْمِنْبَرِ فَحَمَلَہُمَا وَوَضَعَہُمَا بَیْنَ یَدَیْہِ ثُمَّ قَالَ صَدَقَ اللَّہُ (إِنَّمَا أَمْوَالُکُمْ وَأَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ) فَنَظَرْتُ إِلَی ہَذَیْنِ الصَّبِیَّیْنِ یَمْشِیَانِ وَیَعْثُرَانِ فَلَمْ أَصْبِرْ حَتَّی قَطَعْتُ حَدِیثِی وَرَفَعْتُہُمَا.
ترجمہ: 
حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انہوں نے حضرت ابوبریدہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا حبیب اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرمارہے تھے کہ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما سرخ دھاری دار قمیص مبارک زیب تن کئے لڑکھڑاتے ہوئے آرہے تھے توحضرت رسول اکرم ﷺ منبر شریف سے نیچے تشریف لائے امام حسن وامام حسین رضی ا للہ عنہما کوگود میں اٹھالیاپھر(منبر مقدس پر رونق افروز ہوکر)ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا،تمہارے مال اورتمہاری اولادایک امتحان ہے میں نے ان دونوں بچوں کو دیکھا سنبھل سنبھل کرچلتے ہوئے آرہے تھے لڑکھڑارہے تھے مجھ سے صبر نہ ہوسکا یہاں تک کہ میں نے اپنے خطبہ کو موقوف کرکے انہیں اٹھالیا ہے
(سنن ابی داود )

حدیث 7️⃣1️⃣

امام حسین کی شہادت کے بارے میں بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہی فرما دیا تھا
إِنَّ اِبْنِیْ ہَذَا یَعْنِی الْحُسَیْنَ یُقْتَلُ بِأَرْضٍ مِنْ أَرْضِ الْعِرَاقِ یُقَالُ لَہَا کَرْبَلَاء ، فَمَنْ شَہِدَ ذَلِکَ مِنْہُمْ فَلْیَنْصُرْہُ- 
ترجمہ:
یقینا میرا یہ بیٹایعنی حسین رضی اللہ عنہ عراق کے ایک علاقہ میں شہیدکیا جائے گا، جسے کربلا کہا جائے گا،توافراد امت میں سے جو اس وقت موجود ہو اسے چاہئیے کہ ان کی نصرت وحمایت میں کھڑاہوجائے۔ 
(کنز العمال،حدیث نمبر34314-)

حدیث 8️⃣1️⃣

جبکہ شہید اور مخالفت کرنے والوں نے اس ارشاد کو بھولا دیا
الْحَسَنُ وَالْحُسَیْنُ سَیِّدَا شَبَابِ أَہْلِ الْجَنَّۃِ۔
ترجمہ:حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار ہیں ۔
 (جامع ترمذی،حدیث 4136)

حدیث 9️⃣1️⃣

حسنین کریمین رضی اللہ عنہماکو حضور ﷺ نے ا ن کو اپنے جاہ و جلال ،سرداری اور جرات و سخاوت کا وارث بنایا تھا
عَنْ فَاطِمَۃَ بنتِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَنَّہَا أَتَتْ بِالْحَسَنِ وَالْحُسَیْنِ إِلَی رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَکْوَاہُ الَّذِی تُوُفِّیَ فِیہِ، فَقَالَتْ: یَا رَسُولَ اللَّہِ ! ہَذَانِ ابْنَاکَ فَوَرِّثْہُمَا شَیْئًا، فَقَالَ:أَمَّا الْحَسَنُ فَلَہُ ہَیْبَتِی وَسُؤْدُدِی، وَأَمَّا حُسَیْنٌ فَلَہُ جُرْأَتِی وَجُودِی.
ترجمہ:
خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہراء رضی اللہ تعالی عنہاسے روایت ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مرضِ وصال کے دوران حضرت حسن وحسین رضی اللہ تعالی عنہما کو آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں لائیں اور عرض کیا : یا رسول اﷲ ﷺ!یہ آپ کے شہزادے ہیں، انہیں اپنی وراثت میں سے کچھ عطا فرمائیں! تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا : حسن’ میرے جاہ وجلال اور سرداری کا وارث ہے اور حسین’ میری جرات و سخاوت کا وارث ہے 
 (معجم کبیر طبرانی، حدیث 18474)

حدیث 0️⃣2️⃣

سید الشہداء حضرت امام حسین سلام اللہ علیہ کی پیدائش کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی شہرت بھی عام ہو گئی تھی ۔ 
حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضورﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟
 فرمایا میرے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی 
 اِنَّ اُمَّتِیْ سَتَقْتُلْ اِبْنِی 
میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی حضرت اُم الفضل کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! (امام حسین اس وقت گود مصطفی ﷺ میں تھے ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے )کیا اس فرزند کو شہید کرے گی! حضور ﷺ نے فرمایا ہاں پھر حضرت جبرئیل میرے پاس اس کی شہادت گاہ کی سرخ مٹّی بھی لائے
 (مشکوٰۃ صفحہ 572)

حدیث 1️⃣2️⃣

 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے  انہوں نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا
 اِنَّ اِبْنِیْ اَلْحُسَیْنُ یُقْتَلْ بَعْدِ بِاَرْضِ الطَّفِ میرا بیٹا میرے بعد ارضِ طِف میں قتل کیا جائے گا۔ اور جبرائیل میرے پاس وہاں کی مٹی بھی لائے اور مجھ سے کہا کہ یہ حسین کی خوابگاہ (مقتل) کی مٹی ہے
 (الصواعق المحرقہ، صفحہ 118)
 طف قریب کوفہ اس مقام کا نام ہے جس کو کربلا کہتے ہیں۔

 حدیث 2️⃣2️⃣

 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بارش کے فرشتے نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضری دینے کے لئے اللہ سے اجازت طلب کی جب وہ فرشتہ اجازت ملنے پر بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوا تو اس وقت حضرت حسین رضی اللہ عنہ آئے اور حضور ﷺ کی گود میں بیٹھ گئے تو آپ ان کو چومنے اور پیار کرنے لگے۔ فرشتے نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ حسین سے پیار کرتے ہیں ؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا اِنَّ اُمَّتَکَ سَتَقْتُلْہ’ آپ کی امت حسین کو قتل کر دے گی۔ اگر آپ چاہیں تو میں ان کی قتل گاہ کی (مٹی) آپ کو دکھا دوں۔ پھر وہ فرشتہ سرخ مٹی لایا جسے اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے کپڑے میں لے لیا۔ اور ایک روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اے ام سلمہ ! جب یہ مٹی خون بن جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس مٹی کو ایک شیشی میں بند کر لیا جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن خون ہوگئی۔ (الصواعق المحرقہ، صفحہ 118)

تحریر :
محمد ساجد مدنی 
٥٣شعبان المعظم ١٤٤٢بمطابق ٢٠ مارچ ٢٠٢١

WhatsApp:
📲+923013823742

اگر غیراللہ سے مدد طلب کرنا درست ہے تو پھر ہم ہر نماز میں *وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن* (ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) کیوں کہتے ہیں ؟




اگر غیراللہ سے مدد طلب کرنا درست ہے تو پھر ہم ہر نماز میں *وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن* (ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) کیوں کہتے ہیں ؟

سائل : فہیم میانوالی 
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ پاک ہم حقیقی طور پر تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ سے جو مدد طلب کی جاتی ہے تو چونکہ وہ اللہ پاک کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور خود اللہ پاک ان کو مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے تو اس عطا اور اختیار کی بناء پر ان کی مدد اللہ پاک کی مدد ہی ہوتی ہے جیسا کہ غزوہ بدر میں فرشتوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ پاک نے اپنی مدد قرار دیا۔ 
چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : 
*"وَلَقَدْنَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃ"*
ترجمہ : اور بےشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی، جب تم بالکل بےسروسامان تھے.
 *(پارہ : 4، سورہ : الِ عمران، آیت :123)*
فرشتوں کی مدد کو اپنی مدد اس لیے قرار دیا کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اختیار خود دیا، یہی معاملہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کا ہے کہ وہ بھی اللہ پاک کی عطا اور اختیار سے مدد کرتے ہیں تو ان کی مدد بھی درحقیقت اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے لہذا ان مقدس ہستیوں سے مدد طلب کرنا، سورہ فاتحہ کی آیتِ مبارکہ کے اس جز *"وایاک نستعین"* کے خلاف نہیں.
چنانچہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا حشمت علی رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
استعانت کے معنی مدد چاہنے کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ مدد اسی سے چاہی جاتی ہے جو مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور وہ حقیقۃً اللہ تبارک و تعالی ہی ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی مدد کرنا اور دوسروں کو مدد کرنے کی توفیق و طاقت بخشنا ہے، اسی کا اقرار بندے کی زبان سے ان آیات میں کرایا گیا ہے، انبیاء و اولیاء وغیرہ محبوبان خدا اس کے وسائل ہیں، تو ان سے جو امداد چاہی جاتی ہے وہ حقیقۃً خدا ہی سے مدد چاہنا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے : *"وابتغوا الیہ الوسیلۃ"* (المائدۃ : 35) اللہ کی طرف پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو۔ اور وہ وسیلہ یہی انبیاء و اولیاء و صلحاء اور نماز وغیرہ اعمال صالحہ ہیں، جن کے ذریعہ سے بندے کی دعا دربار الہی تک پہنچتی ہے اور اس کا مدعا بر آتا ہے، اسی لیے بندے کو گناہ کرنے کے بعد اپنے محبوب کے دربار میں حاضر ہو کر ان کے وسیلہ سے استغفار کرنے اور گناہ کی معافی چاہنے کا حکم دیا ہے کما قال اللہ تعالی : *"ولو انھم اذظلموا انفسھم جاؤوک الخ"* (النساء : 64) یعنی اگر وہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کریں یعنی گناہ کریں تو اے نبی تیری بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا پائیں گے۔ ابو جعفر نے مسجد نبوی میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے دریافت کیا کہ کیا میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب، تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی نے فرمایا : تم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب سے کیوں منہ پھیرتے ہو وہ تو تمہارے اور تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے قیامت تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں وسیلہ ہیں، انہیں کی طرف توجہ کرو اور ان سے اپنی حاجت و مراد میں شفاعت چاہو، پس اللہ تبارک و تعالی تمہارے لئے ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (شرح شفا لعلی القاری) اور اسی لئے صبر و صلوۃ سے استعانت کرنے کا حکم دیا گیا *"واستعینوا بالصبر والصلاۃ"* (البقرة : 45) فرمایا گیا ہے بلکہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کرنے اور مدد لینے کا حکم دیا گیا *" وتعاونوا علی البر و التقوی"* (المائدۃ : 2) فرمایا گیا ہے، تو اگر کسی سے مدد چاہنا اور کسی کی مدد کرنا مطلقاً ممنوع یا ناجائز ہوتا تو آیتِ مذکورہ میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو وسیلہ بنانے اور وسیلہ تلاش کرنے اور استعانت کرنے اور آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے اور مدد کرنے کا حکم نہ فرمایا جاتا، اور طبرانی وغیرہ کی احادیث میں *"اعینونی یاعباداللہ"* وارد نہ ہوتا اور سرورِ عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ایک نابینا کو دعا میں یہ الفاظ تعلیم نہ فرماتے : *"اللھم انی اسئلک و اتوجہ الیک بنبیک محمد الخ"* یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے نبی کے توسل سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں. (ترمذی و نسائی و ابن ماجہ وغیرہ) بلکہ بندوں تک اپنے احکام پہنچانے کے لیے حضرت جبرائیل اور انبیاء علیھم السلام کو واسطہ و ذریعہ نہ بناتا، گویا اسی نے ہمیں وسیلہ اور ذریعہ بنانا سکھایا، اس سے معلوم ہوا کہ دراصل استعانت حقیقی اللہ عزوجل ہی سے ہے اور انبیاء و اولیاء اس سے مدد چاہنے کا وسیلہ ہیں، ان کی طرف استعانت کی نسبت مجازاً کی جاتی ہے،اس قدر کے تو وہابیہ بھی قائل ہیں تو اصاغر کو بھی اس پر ایمان لانا چاہیے۔"
*(تفسیر جوہر الایقان المعروف تفسیرِ رضعی، جلد 1، صفحہ 5، مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شعر میں کیا خوب فرمایا : 
حاکم حکیم داد و دوا دیں، یہ کچھ نہ دیں 
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے۔ 
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
22/03/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
انبیاء و اولیاء سے مدد چاہنے کے حوالے سے جو آپ کا تحقیقی فتویٰ ہے، بندہ ناچیز اس کی مکمل تائید و توثیق کرتا ہے، اہل اللہ سے مدد مانگنا درحقیقت اللہ ہی سے مدد مانگنا ہے، اللہ ہی ان کو یہ توفیق بخشتا ہے کہ وہ آگے کسی کی مدد کر سکیں، ایک سڑیل وہابی نے یہ کہا تھا :
وہ کیا ہے جو ملتا نہیں خدا سے جسے مانگتے ہو تم اولیاء سے
تو اسے یہ جواب دیا گیا :
وہ چندہ ہے جو نہیں ملتا خدا سے
جسے مانگتے ہو تم اغنیاء سے۔
اہل اللہ کا در چھوڑ کر پھر یہ اہل الدنیا کے در پر گرتے پڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم نصیب فرمائے۔
اس حوالہ سے اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب *"برکات الامداد لاہل الاستمداد"* کافی اور وافی ہے۔ 
اور آسان لفظوں میں مختصر دلائل کے ساتھ فقیر معطر قادری گدائے رضوی کا مطبوعہ سولہ صفحات کا فتویٰ *"الاستمداد"* بھی سالہا سال سے شائع ذائع ہے، الله تعالیٰ سمجھ کی توفیق نصیب فرمائے۔
وماتوفیقی الا بالله العلی العظيم۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*

یومِ پاکستان اور حقوقِ پاکستان


🇵🇰 *یومِ پاکستان اور حقوقِ پاکستان* 🇵🇰

کالم نگار✒️ ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
23/3/2021
03163627911
https://www.facebook.com/abuamjad1163/

🇵🇰 *یوم پاکستان* 🇵🇰 
یوم قرارداد پاکستان23 مارچ، 1940ء کو کہا جاتا ہے جس دن لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ سالانہ اجلاس کے اختتام پر وہ تاریخی قرارداد منظور کی گئی تھی

 جس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے برصغیر میں مسلمانوں کے لیے عليحدہ وطن کے حصول کے لیے تحریک شروع کی اور سات برس کے بعد اپنا مطالبہ منظور کرانے میں کامیاب رہی۔

 🇵🇰 *حقوق پاکستان* 🇵🇰

اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر بجا لانا ضروری ہے اور انھی نعمتوں میں سے ایک نعمت...
🌍 *آزاد اسلامی ملک پاکستان* 🌍
کا ملنا بھی ہے اور قرآن کے حکم کے مطابق ہمیں اللہ پاک کی نعمتوں کا شکر بجا لانا چاہئے

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا
لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ: اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں  تمہیں اور زیادہ عطا کروں  گا۔

صراط الجنان میں ہے۔۔
  اس آیت سے معلوم ہوا کہ شکر سے نعمت زیادہ ہوتی ہے۔ شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اِس چیز کا عادی بنائے۔ یہاں  ایک باریک نکتہ ہے کہ بندہ جب اللّٰہ تعالیٰ کی نعمتوں  اور اس کے طرح طرح کے فضل و کرم اور احسان کا مطالعہ کرتا ہے تو اس کے شکر میں  مشغول ہوتا ہے، اس سے نعمتیں  زیادہ ہوتی ہیں اور بندے کے دل میں اللّٰہ تعالیٰ کی محبت بڑھتی چلی جاتی ہے یہ مقام بہت برتر ہے اور اس سے اعلیٰ مقام یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی محبت یہاں  تک غالب ہو جائے کہ دل کا نعمتوں  کی طرف میلان باقی نہ رہے، یہ مقام صدیقین کا ہے۔ 
(خازن، ابراہیم، تحت الآیۃ: ۷، ۳ / ۷۵-۷۶)

معافی یا رسم معافی



📚 *معافی یا رسم معافی* 📚

از قلم✒️ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
20/3/2021
https://www.facebook.com/abuamjad1163/

عموما 15شعبان کی رات آنے سے پہلے ایک رسم شروع ہو جاتی ہے جسے
😭 *{معافی نامہ}* 😭کہا جاتا ہے 

عجب یہ کہ ہم فیس بک اور واٹس ایپ پہ معافیاں مانگ رہے ہوتے ہیں حالانکہ عموما نہ تو ہم نے فیس بک پہ بنے فرینڈز کے حق تلف کیے ہوتے ہیں نہ ہی عموما انکی دل آزاری کی ہوتی ہے بس ایک رسم نبہائی جاتی ہے جبکہ ہمارے ارد گرد موجود گھر والے، پڑوسی، ذوی الارحام رشتہ دار کہ جنکے حقوق اکثر یا بعض اوقات ہم تلف کر ہی چکے ہوتے ہیں ان کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی۔ 
تو خدارا جنکی حقیقتا حق تلفیاں کی یا قطع تعلقی کی ان سے راضی نامہ و معافی تلافی کیجیئے 

🔸 *حقوق دو طرح کے ہیں* 🔸

 🥀 *حقوق اللہ* 
 🥀 *حقوق العباد* 
حقوق اللہ کی معافی بھی بے حد ضروری ہے ۔حقوق العباد کا معاملہ تو اس سے بھی سخت ہے

یاد رکھیئے معافی کے ساتھ ساتھ تلافی کا ہونا ضروری ہے

🌻 *حقوق اللہ کی معافی کا طریقہ* 🌻

جن گناہوں کا تعلق حقوقُ اللہ سے ہوتا ہے جیسے نماز ، روزہ، حج، قربانی اورزکوٰۃ وغیرہ کی ادائیگی میں سستی کرنا، بدنگاہی کرنا، قرآنِ پاک کو بے وضو ہاتھ لگانا، شراب نوشی کرنا ، فحش گانے سننا وغیرھا۔ 

حقوق اللہ سے تعلق رکھنے والے گناہ اگر کسی عبادت میں کوتاہی کی وجہ سے سرزد ہوں تو توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عبادات کی قضا بھی واجب ہے۔ مثلاً اگر نمازیں فوت ہوئی ہوں یا رمضان کے روزے چھوٹے ہوں تو ان کا حساب لگائے اور ان کی قضا کرے، اگر زکوۃ کی ادائیگی میں کوتاہی ہوئی ہو تو حساب لگا کر ادائیگی کرے، اگر حج فرض ہوجانے کے باوجود ادا نہیں کیا تھا تو اب ادا کرے

اور اگر گناہوں کا تعلق عبادات میں کوتاہی سے نہ ہومثلاً بدنگاہی کرنا، شراب نوشی کرنا وغیرہ،
تو اِن پر ندامت وحسرت کا اِظہار کرتے ہوئے بارگاہِ الٰہی میں توبہ کرے اور نیکیاں کرنے میں مشغول ہو جائے

🌻 *حُقُوقُ الْعِباد کی معافی کا طریقہ* 🌻

 میرے آقا، اعلیٰ حضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمع رسالت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَــیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن حُقوق العباد کی معافی کا طریقہ بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں  
 حقوق العباد معاف ہونے کی دو صورتیں  ہیں
 🌹جو قابل ادا ہے ادا کرنا ورنہ ان سے معافی چاہنا۔ 
🌹صاحبِ حق بلامعاوضہ لئے معاف کر دے۔

اور بعض طُرُقِ جامعہ جن سے حُقوق  اللہ و حقوق العباد باذنِ اللہ تعالیٰ سب معاف ہو جاتے ہیں  
مثلاً
 (جس سے اُس کا کوئی حق معاف کرانا ہے اس سے اس طرح کہے:)
  ’’چھوٹے سے چھوٹا بڑے سے بڑا جو گناہ ایک مرد دوسرے کا کر سکتا ہے جان مال عزت آبرو ہر شے کے متعلق اس میں  سے جو تیرا میں  نے گناہ کیا ہو سب مجھے معاف کر دے۔‘‘
 (فتاویٰ رضویہ ج۲۴،ص۳۷۳-۳۷۴ )

 *ہم حقوق العباد معاف کروانے میدان عرفات میں تو پہنچ جاتے ہیں مگر جس سے حق معاف کروانا ہے اس تک نہیں پہنچ پاتے* 
 
🤲🏻 *توبہ کے ارکان* 🤲🏻
توبہ کے تین رکن ہیں

🔸 *گناہ کا اقرار*

🔸 *گزشتہ گناہوں پر نادم* 

🔸 *وہ گناہ چھوڑدے اور آئندہ اس گناہ سے بچنے کا پختہ عہد کرے* 

 اگر حُقوق (یعنی حُقوقُ اللہ اور حُقوقُ العباد میں کوتاہی کی تھی اور اس) سے توبہ کرتا ہے تو ان کو بھی ادا کرے۔ 
(تفسیرِ نعیمی، ج1،ص266)

👏 *اہم بات* 👏
یہ بات بھی دیکھنے کو ملتی ہے کہ بسا اوقات جس سے معافی مانگی جا رہی ہوتی ہے وہ معاف نہیں کرتا 
یہ عادت اچھی نہیں معاف کرنے کے فضائل بے شمار ہیں ہمیں انھیں حاصل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہیے 

🌻 *معاف کر دینے کی فضیلت پر دو فرامِینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ 🌻* 

🌹جسے یہ پسند ہوکہ اُسکے لیے  (جنَّت میں ) مَحَل بنایا جائے اوراُسکے دَرَجات بُلند کیے جائیں ،   اُسے چاہیے کہ جو اُس پرظلم کرے یہ اُسے مُعاف کرے اورجو اُسے مَحروم کرے یہ اُسے عطا کرے اورجو اُس سے قَطع تعلُّق کرے   (یعنی تعلقات توڑے)  یہ اُس سے ناطہ  (یعنی رشتہ)  جوڑے۔

  (اَلْمُستَدرَک لِلْحاکِم ج۳ ص۱۲ حدیث ۳۲۱۵ دارالمعرفۃ بیروت)
  
🌹قِیامت کے روز اِعلان کیا جائے گا:  جس کا اَجر اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذِمّۂ کرم پر ہے، وہ اُٹھے اور جنَّت میں داخِل ہو جائے۔ پوچھا جائے گا:  کس کے لیے اَجر ہے؟ وہ مُنادی (یعنی اِعلان کرنے والا) کہے گا :   ’’اُن لوگوں کے لیے جو مُعاف کرنے والے ہیں ۔   ‘‘ تو ہزاروں آدَمی کھڑے ہوں گے اور بِلا حساب جنَّت میں داخِل ہوجائیں گے۔

 (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط ج۱ص۵۴۲حدیث۱۹۹۸)
📢📢 *اہم گزارش* 📢📢

 *خدارا معافی کو رسم نہ بنائیں جو معافی کے تقاضے ہیں انھیں پورا کریں اور جن کے واقعی حقوق آپ پر ہیں انھیں ادا کریں* 
 *سوشل میڈیا پر معافی مانگنے کی رسم کے بجائے جن کی حق تلفیاں آپ نے کی ہوں  انھیں سے معافی مانگ لیجئے*

مثبت اور منفی سوچ




موضوع

 *📒{مثبت اور منفی سوچ}📒* 

Positive think&
Negative think
از قلم:ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
03163627911
https://www.facebook.com/abuamjad1163/
سوچ کا زندگی پر بہت اثر ہوتا ہے انسان جو بھی ہوتا ہے وہ اپنی سوچ کے سبب ہی ہوتا ہے سوچ تین چیزوں کا نتیجہ ہوتی ہے 

🥀1.سننےکا
🥀2.دیکھنےکا
🥀3.محسوس کرنےکا

لہذاسب سے پہلے آپ اس بات پہ غور کریں کہ آپ روزانہ کیا دیکھتے ;سنتے اور محسوس کرتے ہیں 
انسان کی سوچ دو طرح کی ہوتی ہے

 🔸1.مثبت سوچ
🔸2.منفی سوچ 

سب سے پہلے ایک مثال سےان قسموں کو سمجھیے ایک پانی کا گلاس پانی سے آدھا بھرا ہواہےتودومختلف لوگ یوں کہتے ہیں ایک کہتا ہے آدھا گلاس بھرا ہوا ہے جبکے دوسرا کہے گا آدھا خالی ہے تو یہی وجہ ہے کہ مثبت سوچ والے نے مثبت دیکھا اور اسے بھرا ہوا نظر آیا جبکے دوسرے نے منفی سوچ کے چشمے سے دیکھا اسے آدھا خالی نظر آیا اسی جیسی مثال قرآن پاک میں بھی مذکور ہے (للذکرمثل حظ الانثیین) مطلب کے مرد کا حصہ عورت سے دگنا ہے۔اسکو یوں بھی کہا جا سکتا تھا کے عورت کا حصہ مرد کے مقابلہ میں آدھا ہے لیکن قرآن ہمیں مثبت انداز کا درس دیتا ہے کے کوئی بھی شئ آپ مثبت انداز میں بیان کریں کیونکہ سوچ منفی ہو تو ہر موقع پر مشکل نظر آتی ہے اور اگر سوچ مثبت ہو توہر مشکل میں حل نظر آتا ہے 

انسان کو کمال اور زوال کی طرف اسکی سوچ لے جاتی ہے

🌹 *مثبت سوچ ۔۔کمال کی طرف* 🌹

🌹 *منفی سوچ۔۔زوال کی طرف* 🌹

اگر آپ اپنے اندر مثبت سوچ کو پیدا کر لیں تو بہت سارے رکے ہوئے اور بگڑے کام سنورنا شروع ہو جائیں ایک استاد کا قول ہے کہ مثبت سوچیں آپ کی عمر میں اضافہ کرتی ہیں اور منفی سوچیں زہر سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی ہیں 
منفی محسوسات برسوں پرانی عداوتیں محرومیاں نفرتیں اور شکوے جمع کیے رکھتے ہیں یہ اذیت اور دبے ہوئے احساسات زندگی کی خوشیاں اور اطمینان چھین لیتے ہیں 
انسان اکثر اسی کو سوچتا ہے جسے وہ کھوچکا ہوتا ہے جسکے سبب وہ پریشان رہتا ہے اگر ہم اسکو سوچنا شروع کردیں جو ہمارے پاس موجود ہے تو ہم خوش رہینگے 
منفی سوچ اور رویےکے ساتھ مثبت زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے 
مثبت سوچ امید کو پیدا کرتی ہے جبکہ
منفی سوچ مایوسی پیدا کرتی ہے حالانکہ ایک مسلمان کے لیے مایوسی کفر ہے
مثبت سوچ کے سہارے انسان دنیا کا ہر مشکل کام کر جاتا ہے
آپ اپنے اندر مثبت سوچ پیدا کیجیے ہر معاملے میں اچھا سوچیے آپکے بازوں کا زور چٹانوں کو بھی توڑ ڈالے گا ورنہ آپ کچھ نہیں کر پائنگے

سیدنا حسین کے بعض فضائل



سیدنا حسین کے بعض فضائل.............!!

.
سیدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ولادت باسعادت پانچ شعبان میں ہوئی(طبرانی کبیر روایت2852)
.
الحدیث:
هُمَا رَيْحَانَتَايَ مِنَ الدُّنْيَا
یعنی
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حسن حسین میرے دو پھول ہیں(بخاری حدیث3753)
کیا بات رضا اُس چمنستانِ کرم کی
زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول

.
الحدیث:
الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ سَيِّدَا شَبَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ
ترجمہ:
حسن اور حسین اہل جنت کے نوجوانوں کےسردار ہیں
(ترمذی حدیث3768)
یعنی دنیا میں جو نوجوانی میں وفات پاجاءیں گے جنت میں ان کے سردار حسن و حسین رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہونگے اور جو دنیا میں ادھیڑ عمر میں انتقال کریں گے جنت میں ان کے سردار سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما ہونگے

مسلم،نومسلم بالغ کا ختنہ..............؟؟



مسلم،نومسلم بالغ کا ختنہ..............؟؟

سوال:
دو احباب سےسوال موصول ہوا جسکا خلاصہ ہے کہ:
حضرت نو مسلم بالغ کا ختنہ کرانا لازم ہے یا نہیں، ہم نے کہیں پڑھا تھا کہ نہ کرانے کی اجازت ہے، تحقیقی مدلل اور جتنا جلدی ہوسکے جواب بھیجیں
.
جواب:
نومسلم(نیا مسلمان ہونے والا) بالغ کے ختنے کی تاکید احادیث و کتب فقہ میں آئی ہے…چند دلائل و حوالہ جات پیش خدمت ہیں جن سےاندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عذر نہ اور طاقت ہو تو ختنہ کرنا ، کرانا کتنا لازم ہے
.
جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: قَدْ أَسْلَمْتُ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اختتن
یعنی
ایک شخص نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوا تو آپ علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا اپنا ختنہ کرنا
(سنن أبي داود ,1/98حدیث356ملتقطا)
(السنن الكبرى للبيهقي ,1/265 حديث811ملتقطا)
(مسند احمد حدیث 15432ملتقطا)
.

.أنه - صلى الله عليه وسلم - يأمر من أسلم أن يختتن
ترجمہ:
جو بھی مسلمان ہوتا بےشک نبی پاک صلى الله عليه وسلم اسے اپنا ختنہ کرنے کا حکم دیتے تھے
(جمع الفوائد من جامع الأصول ومجمع الزوائد ,1/140)
(المعجم الكبير للطبراني ,19/14روایت20)


.
الحدیث
مَنْ أَسْلَمَ فَلْيَخْتَتِنْ، وَلَوْ كَانَ كَبِيرًا
ترجمہ:
جو مسلمان ہو وہ اپنا ختنہ کرے اگرچے بڑا(بالغ،ایجڈ)ہو
التلخيص الحبير ط العلمية ,4/223)
.
علامہ شامی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں
و من بلغ غَيْرَ مَخْتُونٍ أَجْبَرَهُ الْحَاكِمُ عَلَيْهِ
ترجمہ:
جو بالغ ہوگیا اور ابھی تک اسکا ختنہ نہ ہوا ہو تو حاکم اس پر زبردستی کرے گا ختنہ کے معاملے میں
(رد المحتار ,6/752)
.
ختنہ کی اہمیت و تاکید کتنی ہے مذکورہ روایات و حوالہ جات سے باخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے حتی کہ عندالضرورة علماء نے بالغ کا ختنہ کرنے کے لیے دوسرے مرد ، حجام،  ڈاکٹر وغیرہ کو اجازت دی کہ وہ بالغ کا ستر و پردہ والی جگہ دیکھ سکتا ہے، چھو سکتا ہے
.
الرجل يريد أن يحتقن أو يختتن وهو كبير. ولا بأس بأن يحقنه أو يختنه رجل؛ لأن هذا موضع عذر
یعنی
بڑا آدمی ختنہ یا حقنہ کرنا چاہتا ہے(مگر خود نہین کرسکتا اور دیگر جائز صورتیں بھی میسیر نہیں تو)دوسرا شخص اس کا ختنہ و حقنہ کرسکتا ہے کیونکہ یہ یہاں عذر ہے
(الأصل للشيباني ط قطر ,2/238)
.
يَحِلُّ لِلرَّجُلِ أَنْ يَنْظُرَ مِنْ الرَّجُلِ الْأَجْنَبِيِّ إلَى سَائِرِ جَسَدِهِ إلَّا مَا بَيْنَ السُّرَّةِ وَالرُّكْبَةِ إلَّا عِنْدَ الضَّرُورَةِ فَلَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ الرَّجُلُ مِنْ الرَّجُلِ إلَى مَوْضِعِ الْخِتَانِ لِيَخْتِنَهُ وَيُدَاوِيَهُ بَعْدَ الْخَتْنِ
ترجمہ:
ایک مرد دوسرے مرد کے سارے جسم کی طرف نگاہ کر سکتا ہے سوائے ناف سے لے کر گھٹنے تک۔۔۔البتہ ضرورت ہو تو اس پردے والے جگہ پر بھی نظر کر سکتا ہے(مثلا)کسی بالغ کا ختنہ کرنے کے لئے اس کی ختنہ والی جگہ کی طرف نظر کرنا تاکہ ختنہ کرے اور ختنہ کرنے کے بعد دوا کرے یہ ضرورتا جائز ہے
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ,5/123)
.
خلیفہ اعلی حضرت، صدرالشریعہ، مفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
دوسرے کی شرمگاہ کی طرف دیکھنا حرام، مگر بضرورت جائز،جیسے دائی اور ختنہ کرنے والے اور عمل دینے والے اور طبیب کو بوقت ضرورت اجازت ہے
(بہارِ شریعت جلد2حصہ9 ص384)
.
سیدی اعلیٰ حضرت، امامِ احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن
 بالغ نومسلم کے ختنہ کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
اگر ختنہ کی طاقت رکھتا ہو تو ضرور کیا جائے…ہاں اگر خود کر سکتا ہو تو آپ اپنے ہاتھ سے کر لے یا کوئی عورت جو اس کام کو کرسکتی ہو، ممکن ہو تو اس سے نکاح کرا دیا جائے وہ ختنہ کر دے، اس کے بعد چاہے تو اسے چھوڑ دے یا کوئی کنیز شرعی واقف ہو تو وہ خرید دی جائے۔اور اگر یہ تینوں صورتیں نہ ہو سکیں تو حجام(ڈاکٹر وغیرہ جو ختنہ کرنا جانتے ہوں وہ)ختنہ کر دے کہ ایسی ضرورت کے ليے ستر دیکھنا دکھانا منع نہیں
(فتاویٰ رضویہ جلد 22 صفحہ 593ملتقطا)
.
ہاں اگر ختنہ کی طاقت نہ ہو، معتبر ڈاکٹر طبیب کہہ دیں کہ بیماری یا زیادہ عمر وغیرہ وجہ سے زخم ٹھیک نہ ہو گا جس سے عضو ضائع ہونے کا بھی خطرہ ہوسکتا ہے تو اس صورت میں ختنہ نہ کرانے کی اجازت ہے

الشَّيْخُ الضَّعِيفُ إذَا أَسْلَمَ وَلَا يُطِيقُ الْخِتَانَ إنْ قَالَ أَهْلُ الْبَصَرِ لَا يُطِيقُ يُتْرَكُ...فِي الْخُلَاصَةِ..قِيلَ فِي خِتَانِ الْكَبِيرِ إذَا أَمْكَنَ أَنْ يَخْتِنَ نَفْسَهُ فَعَلَ وَإِلَّا لَمْ يَفْعَلْ إلَّا أَنْ يُمْكِنَهُ أَنْ يَتَزَوَّجَ أَوْ يَشْتَرِيَ خِتَانَةً فَتَخْتِنُهُ وَذَكَرَ الْكَرْخِيُّ فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ وَيَخْتِنُهُ الْحَمَّامِيُّ
یعنی
ایک بوڑھا مسلمان ہوا اور وہ ختنہ کی طاقت نہیں رکھتا اگر اہل نظر طبیب کہہ دیں کہ یہ واقعی طاقت نہیں رکھتا تو اس کا ختنہ نہ کیا جائے گا۔۔۔خلاصہ میں ہے کہ بڑے شخص کا ختنہ کرنے کے بارے میں یہ حکم ہے کہ اگر ختنہ خود کرسکتا ہے تو خود کرے اگر خود نہیں کر سکتا اور ممکن ہے کہ وہ کسی ختنہ کرنے والی عورت سے شادی کرلے تو شادی کر لے یا پھر ختنہ کرنے والی لونڈی خریدے اگر یہ سب نہیں کرسکتا تو امام کرخی نے فرمایا کہ حمامی(حجام ڈاکٹر ختنہ کرسکنے والے)اسکا ختنہ کر دیں
(الفتاوى الهندية ,5/357بحذف)
(نحوه في رد المحتار  ,7/531)
(نحوه في البحر الرائق ,7/96)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475

شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی خصوصا درج ذیل پانچ کام ضرور شروع کر لینے چاہیے



شعبان کا مہینہ شروع ہوتے ہی خصوصا درج ذیل پانچ کام ضرور شروع کر لینے چاہیے

.
①قرآن مجید کی تلاوت شروع کر دیجیے، قرآن پاک کو مستند تفسیر کے ذریعے سمجھنا شروع کر دیجیے تاکہ تراویح میں قرآن سننے کا مزہ دوبالا ہوجائے
.
②زکواۃ نکالنا شروع کر دیجیے تاکہ رمضان سے پہلے غریب غرباء مدارس وغیرہ کو صدقہ خیرات زکواۃ کے ذریعے خوشحالی میسر ہو.....تاکہ رمضان المبارک میں غرباء کا خرچہ آسان ہو اور انہین رمضان میں زیادہ محنت مزدوری کی حاجت نا پڑے اور وہ آسانی سے روزہ رکھ سکیں
.
③قیدیوں پر خصوصی رعایت کی جائے، جن پر کوئی سزا بنتی ہو تو سزا دی کر جلد ریہا کیا جائے تاکہ وہ مبارک مہینے اور عید اپنوں کے ساتھ گزار سکیں
.
④تاجروں کو چاہیے کہ اپنے قرضے ادا کر دیں اور جن سے قرض لینا ہو ان سے قرض لے لیں اور کاروبار کے مسائل وغیرہ حل کر دیں تاکہ  رمضان و اعتکاف آسانی اور خشوع خضوع سے گذار سکیں

نئے قمری سال یا نئے قمری مہینے




نئے قمری سال یا نئے قمری مہینے کے شروع ھونے پے نبی پاک صلی اللہ علیہ و علی الہ واصحابہ اجمین کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین اس دعا کی تعلیم فرماتے تھے:
اللَّهُمَّ أَدْخِلْهُ عَلَيْنَا بِالْأَمْنِ وَالْإِيمَانِ، وَالسَّلَامَةِ وَالْإِسْلَامِ،وَرِضْوَانٍ مِنَ الرَّحْمَنِ،وَجَوَازٍ مِنَ الشَّيْطَانِ(طبرانی حدیث6241)
اور بھی بہت سی دعائیں،معتبر وظائف ہیں وہ بھی پڑھ سکتے ہیں
.
خیال رہے کہ چاند کی طرف ہاتھ کرکے یا چاند کی طرف رخ کرکے دعا نہیں مانگنی چاہیے...اسی طرح چاند کی طرف تنکا پھینکنا یا چاند سے کچھ مانگنا بھی بہت بری جہالت ہے....نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم چاند دیکھ کر اس سے رخ ہٹا لیتے،پھر دعا فرماتے( دیکھیے ابوداود 2/339، فتاوی رضویہ10/458,459)
.
ایک سوچ:
پہلی تاریخ کے واضح یا بڑے چند کو دیکھ کر خیال آتا ہے کہ یہ تو دو دن کا ہے...
جواب:
 یہ خیال ٹھیک نہیں...پہلی تاریخ کا چاند کبھی بہت باریک اور کم وقت تک نظر آنے والا ہوتا ہے اور کبھ کچھ بڑا ہوتا ہے،دیر تک نظر آتا ہے..
الحدیث:
سیدنا ابن عباس سے روایت ہے کہ
إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: إن الله مده للرؤية، فهو لليلة رأيتموه
ترجمہ:
بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اس(پہلی تاریخ کے)چاند کو اللہ نے بڑا(یا زیادہ دیر تک نظر آنے والا) کیا ہے دیکھنے کے لیے،
یہ اسی رات کا ہے جس رات دیکھو
(مسلم حدیث نمبر1018 باب چاند کے چھوٹے بڑے ہونے کا اعتبار نہیں)اب تو سائنسی لحاظ سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پہلی تاریخ کا چاند تھوڑا بڑا اور واضح ہوسکتا ہے..
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475

سیرت نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ💟



سیرت نواسہ رسول حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ💟


*نام و نسب :*

امام عالی مقام کا نام رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے   حسین اور شبیر رکھا کنیت  ابو عبد اللہ لقب ریحانۃ النبی، سید شباب اہل الجنۃ
والد کا نام علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور     والدہ کا نام خاتون جنت  سیدہ  فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا ہے  
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امام حسن کا نام شبر اور امام حسین رضی اللہ عنہما  کا نام شبیر  حضرت ہارون علیہ السلام کے بچوں کے نام پر رکھے تھے 
(فضائل الصحابة لاحمد بن حنبل ص ٥٦٤)


*آپ کی پیدائش:*

آپ کی ولادت باسعادت 5 شعبان المعظم 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں ہوئی 
سیدنا عبدالرحمن جامی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی مدت حمل چھ ماہ ہے ،حضرت یحیی علیہ السلام اور امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا  جس کی مدت  حمل چھ ہوئی ہو .
(شواہد النبوة ص٢٢٨)

 ابھی آپ شکم مادر میں تھے کہ حضرت حارث  رضی اللہ عنہ  کی صاحبزادی اور زوجہ عمِ رسول سیدنا عباس رضی اللہ عنہ  حضرت ام فضل رضی اللہ عنہا نے خواب دیکھا کہ کسی نے رسول اکرمﷺ کے جسم اطہر کا ایک ٹکڑا کاٹ کر ان کی گود میں رکھ دیا ہے۔ انہوں نے آپ ﷺ سے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ ! میں نے ایک ناگوار اور بھیانک خواب دیکھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کہ بیان کرو، آخر کیا ہے؟ 
چنانچہ آپ ﷺ کے اصرار پر انہوں نے اپنا خواب بیان کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو نہایت مبارک خواب ہے، اور فرمایا کہ فاطمہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا اور تم اسے گود میں لوگی۔
(تاریخ دمشق ج١٤ ص ١٩٦)

حقائق


     
       

    ⏺ *حقائق* ⏺


✍ *ابو المتبسم ایاز احمد عطاری*:-

🥉زندگی کتنی ہی تنگ ، راستے کتنے ہی تاریک اور وسائل کتنے ہی محدود کیوں نہ ہوجائیں اپنے رب پر بھروسہ رکھیں وہی مسبب الاسباب ہے۔

🥉ہمت کے ساتھ آگے بڑھتے رہیں ، آنسو بھی تھم جائیں گے اور مشکل بھی دور ہوجائے گی۔

🥉جب انسان زندگی کی تلخیوں سے تھکنے لگتا ہے ، تب آسمان کو الجھی ہوئ نظروں سے تکنے لگتا ہے۔

🥉کُچھ لوگوں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہوتا لیکن وہ پھر بھی اچھے لگتے ہیں۔ یہ اچھا لگنا عشق ،  محبت والا نہیں ہوتا بلکہ عزت و احترام والا ہوتا ہے۔

🥉اُمید دینے والے بنیں ، آپ کے پاس سے جو اُٹھے آپ سے اُمید لے کر اُٹھے اور مسکراہٹ لے کر جائے۔

🥉تعلقات کو نبھانے کے لئے عہد و پیماں کی ضرورت نہیں ہوتی ، ضرورت ہوتی ہے تو بس اخلاص کی ہوتی ہے۔

🥉اگر انسان اپنی انگلیوں کا استعمال اپنی ہی غلطیوں کو گننے کیلئے کرے تو دوسروں پر انگلی اٹھانے کا وقت ہی نہ ملے۔

🥉زندگی کا ہر لمحہ قیمتی ہے ، جس کا صحیح اندازہ بروز حشر ہوگا۔

. *شعبان المعظم کی کیا ہی بات ہے*


*شعبان المعظم کی کیا ہی بات ہے* 


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-

👈 شعبان المعظّم کا چاند نظر آتے ہی فضاء میں نور کی خوشبو بکھر جاتی یے۔ اور اللہ کے مہینے رجب المرجب کے بعد میرے آقا کے مہینے شعبان کا آغاز ہو جاتا یے۔ یہ مہینہ اسلامی تعلیمات کی رو سے بابرکت مہینوں میں شمار ہوتا ہے۔

👈 حضرتِ سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہو جاتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غرباء و مساکین مسلمان ماہِ رَمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں ، حکام قیدیوں کو طَلَب کرکے جس پر ’’حَد‘‘ (یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حَد قائم کرتے ، بَقِیّہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے ادا کردیتے ، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے۔ اور رَمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات ) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔
(غنية الطالبين ص 341 )
 
👈 اللہ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان قطعی جنتی ہونے کے باوجود پھر بھی کس قدر عبادت کا شوق و ذوق تھا۔ لیکن افسوس! فی زمانے کے مسلمانوں کو زیادہ تر حصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنے بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اَجْر و ثواب خوب بڑھا دیتا ہے۔ 

👈 اس ماہِ مبارک میں روزے رکھنے کی کیا ہی بات ہے۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا پسند فرماتے۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن ابی قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو فرماتے سنا:  نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمُبارَک سے ملادیتے۔
(سُنَنِ ابوداوٗد ، ج 2، ص 476 ، حدیث 2431 )

👈 لیکن لوگ اس مہینے کی فضیلت سے ناواقف ہیں۔ اور اس مہینے کو غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے؟  فرمایا: رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ، لوگ اِس سے غافل ہیں ، اِس میں لوگوں کے اَعمال اللہُ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔  
(سُنَن نَسائی ص 387حدیث 2356)  

اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم



اسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم


شرح اسماء النبی 
قسط نمبر:3
 
لفظ محمد اتنا پیارا اور اتنا حسین ہے کہ اس کے سنتے ہی ہر نگاہ فرط تعظیم اور فرط ادب سے جھک جاتی ہے، ہر سر خم ہو جاتا ہے اور زبان پر درود سلام کے نغمے جاری ہو جاتے ہیں، لیکن کم لوگ جانتے ہیں کہ اس لفظ کا معنی و مفہوم بھی اس کے ظاہر کی طرح کس قدر حسین اور دل آویز ہے۔

 📒حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لِي خَمْسَةُ أَسْمَاءٍ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَحْمَدُ وَأَنَا المَاحِي الَّذِي يَمْحُو اللَّهُ بِي الكُفْرَ، وَأَنَا الحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَى قَدَمِي، وَأَنَا العَاقِبُ۔
ترجمہ: 
نبی کریمﷺنے فرمایا میرےپانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں اللہ تعالیٰ میرے سبب سے کفر مٹا دے گا اور میں حاشر ہوں اللہ تعالیٰ میرے بعد حشر قائم کرے گا اورمیں عاقب ہوں ۔

(صیحح بخاری،باب ماجاء فی اسماءرسول اللہ ،رقم الحدیث ۳۵۳۲،صحیح مسلم ،رقم الحدیث ۲۳٥٤)

لفظ محمد اسم مفعول کا صیغہ ہے اور اس سے مراد ہے۔
(وہ ذات) جس کی کثرت کے ساتھ اور بار بار تعریف کی جائے اور محمد اسے کہتے ہیں جس کی قابل تعریف عادات حد سے بڑھ جائیں۔
سارا قرآن ہی آپ کی حمد اور بے پایاں تعریف و توصیف سے معمور ہے۔ یہاں یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ تعریف ہمیشہ خوبی اور کمال پر کی جاتی ہے، نقص اور عیب پر نہیں۔ اس اعتبار سے حضورﷺ کے نام نامی کے لغوی مفہوم میں حضورﷺ کا ہر انسانی لغزش و خطا اور ہر بشری نقص و عیب سے پاک ہونا اور اس کے ساتھ ہر صفت کاملہ کا فطری طور پر موجود ہونا ثابت ہو رہا ہے۔

سرکار مدینہ کے ناموں کی تعداد ۔!



سرکار مدینہ کے ناموں کی تعداد ۔!!

شرح اسماء النبی صلی اللہ علیہ وسلم
قسط نمبر:2

قال العلماء رضي الله تعالى عنهم: كثرة الأسماء دالّة على عظم المسمّى ورفعته، وذلك للعناية به وبشأنه، ولذلك ترى المسمّيات في كلام العرب أكثرها محاولةً واعتناء.

علماء کرام فرماتے ہیں کسی شخص یا چیز کے نام زیادہ ہونا مسمی کی  عظمت و رفعت پر دلالت کرتے ہیں  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس طرح دوسری خصوصیات میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے اعلی اسی طرح آپ کو ناموں میں بھی تمام انبیاء کرام کے ناموں سے خاص عنایت فرمائی ہے اسی وجہ سے اہل عرب کے کلام میں دیکھو گے کہ جس کے نام زیادہ ہوتے اسکی عظمت بھی زیادہ ہوتی ہے

📔امام ابن عربی مالکی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں
اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے نام عطا فرمائے جس چیز کی قدر و منزلت زیادہ ہوتی ہے تو اسکے نام بھی زیادہ ہوتے ہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آسمانوں میں الگ، زمین میں الگ، مختلف مخلوقوں میں الگ ،اور پچھلی امتوں میں الگ نام ہیں ۔

آقا نامدار مدینے کے تاجدار ہم غریبوں کے مددگار صلی اللہ علیہ وسلم کے کتنے نام ہیں اس بارے میں مختلف اقوال ہیں

1️⃣:ایک قول یہ بھی ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کے 99 نام ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی  99 نام ہیں

2️⃣: حافظ ابن دحیہ نے اپنی کتاب نہایة السول فی خصائص الرسول میں 300 نام ذکر کیے ہیں ۔

3️⃣: امام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ نے الریاض الانیقہ میں 340 ذکر کیے ہیں

4️⃣: مشہور عاشق درود امام یوسف بن اسماعیل نبھانی علیہ الرحمہ الاسماء فیما سیدنا  لمحمد من الاسماء میں 820 شمار کیے ہیں
اور اپنی دوسری کتاب الاستغاثة الکبری باسماء الحسنی میں 80 ذکر کیے ۔

آپ تحریر کیوں نہیں لکھتے۔۔۔۔۔؟



آپ تحریر کیوں نہیں لکھتے۔۔۔۔۔؟

از قلم :  فاضل عبداللہ ہاشم عطاؔری مدنی
03313654057

کیا اچھا مقرر اچھا محرر  بھی ہو سکتا ہے۔۔۔؟
جس طرح تقریر دین اسلام کی ترویج و اشاعت کا ایک اہم ذریعہ ہے اسی طرح قلم ایک نعمت ہے اور لکھنا ایک مقدس عمل  اور مؤثرذریعہ تبلیغ  ہے۔ ایک اچھا لکھنے والا، اچھا مقرر بھی بن سکتا ہے ،کیوں کہ اس کے پاس معلومات کا خزانہ اور بہترین تحریری مواد ہوتا ہے،اور یہ ضروری نہیں کہ ایک اچھا مقرر اچھا محرر بھی  ہو  کیوں  کہ اسکا اندازہ اس بات سے لگا یا جاسکتا ہے کہ جب مقر ر کو کسی موضوع   پر عمدہ تحریری کام کرنے کے  کہا جائے تو  اچھا خاصہ علم ہونے کے باوجودتحریری جامہ نہیں پہنا پاتے ہیں اس وقت ان کو اس  کمی کا بہت احساس ہوتا ہے۔۔!!
آپ تحریری کام کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟
افسوس ہے کہ ہمارے اس دور میں علما ءوطلبا ءنے تحریر اور کتابت  کی اس اہم ضرورت کو ایسا نظر انداز کیاہے کہ سینکڑوں میں دو چار آدمی بمشکل تحریر وکتابت کے جاننے والے نکلتے ہیں اس کی ایک  وجہ تو یہ ہے کہ ان علماء و طلباء  اسلام کے دماغوں میں یہ بات  ڈیرے جمائے ہوئے  ہے کہ میرے پاس علم تو ہےمگر میں شروع کہاں سے کروں ؟ اور ختم کن الفاظ کیساتھ ،یا میرے پاس علم نہیں ہے، یا میرے پاس علم  تو  ہے مگر تحریری  کام کا شوق نہیں ہے یا میں یہ کام نہیں کر سکتا یا تحریری صلاحیت تو ہے مگر اشاعت و طباعت کے لیے مال و دولت  نہ ہونے کے سبب  نہیں لکھتے، یا   کچھ لکھنے والے یہ سوچ کر بھی پیچھے ہٹ جاتے ہیں  اتنے بڑے بڑے علماء کے ہوتے ہوئے میری لکھی ہوئی تحریر کون پڑھے گا۔وغیرہ وغیرہ۔



میرے خیا ل میں اس طرح کی سوچ تو کم ظرف لوگوں کی ہوا کرتی ہیں، علماء و طلباءِ  علمِ دین کو اس طرح نہیں سوچنا چاہیے۔ بلکہ علماء اور طلباء کو وسیع الظرف ہونا چاہیے   اور تحریر میں کمال حاصل کرنے کے لیے۔ اپنی بساط کے مطابق کوشش کرنی چاہیے اسی طرح کسی ماہر کالم نگار کے مضامین کو  پڑھنا چاہیے یا  ایسے مصنِّف کی تحریر یا کتابوں   کا مطالعہ کرنا چا ہیے  جن کی  تحریر و اندا ز آپ کو پسند ہو۔ اسی طرح جن کو لکھنے کا شوق نہیں انہیں چاہیے کہ   اپنے اندر شوق پیدا کریں ،علماء و طلباءاسلام کو اس بات کو اپنے ذہن میں رکھنا چاہیے کہ کوئی بھی اچھا لکھنے  یابولنے والا اپنی   ماں کے  پیٹ سے سیکھ کر نہیں آتا بلکہ دنیا میں کوشش کرتا  رہتا  ہے حتٰی کہ  بڑے بڑے اکابر میں ان کا شمار  ہونے لگتا ہے۔
  اسی  طرح اشاعت و طباعت کے لیے  مال و دولت  نہ ہو نے کی وجہ سے بھی پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کیوں کہ اوّلاً اپنے ذہن  میں یہ بات رکھنی  چاہیے کہ  میں اللہ کی رضا کے  لیے یہ تحریری کام کر رہا ہوں ، اس طرح اللہ تعالیٰ خود ہی آپ کے لیے اسباب فراہم کر دے گا۔  اس کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی اپنی تحریر کو عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ،کیوں اللہ تعا لی کسی محبت کر نے والے کی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔ 
آپ بھی تحریری کام کر سکتے ہیں:
دنیا میں بے شمار صحافی و مضمون نگار  ایسے بھی ہیں جو اپنے مضامین میں فضولیات، نماش اور بے فائدہ باتیں کرتے ہیں اور اس طرح کی باتیں  ذکر  کرنے اور لکھتے ہوئے نہیں تھکتے اور حد یہ ہے  کہ انٹرٹیمنٹ اور فحاشی اور عریانی   پر  بے پناہ قلم کو گھساتے ہیں۔
لہذا علماء اور طلباء اسلام اور چاہیے کہ    تحریری میدان میں بھی کام کریں اور بلکل بھی   شرم محسوس نہ کریں  کیوں کہ آپ تو  اللہ کا ذکر  اور اس   کے رسولﷺ کی سیرت وصحابہ کے کردار اولیاء اللہ کے تذکرے کو اجاگر کریں گے۔مالک ذوالجلال  ان چند نقوش کی بدولت دنیا وآخرت سے سرفراز فرمائے گا ۔
ایک گزارش:
اگر آپ بھی لکھاری بننا چاہتے ہیں یا آپ  کی  خواہش ہے کہ میں ایک بڑا صحافی بن جاؤں ۔۔۔۔تو آیئے اس مقدس عمل کو سیکھنے اور اسلام کی نشرو اشاعت کیلئے اکابر علمائے کی صحبت اختیار کریں اور ملت کی تقدیر بدلیے اپنے قلم کے ساتھ، کیا پتہ آپکے قلم کی زیر تحریر آنے والے چند الفاظ کسی بگڑے ہوئے کی ہدایت کا ذریعہ بن جائیں۔اللہ تعالی ہم کو اس عظیم مشن کو سمجھنے اور عمل پیرا ہونے کی صحیح معنوں میں ہمت اور جذبہ نصیب فرمائے ۔(آمین)
 


*ہم تقلید کیوں کرتے ہیں*




سلسلہ
📚 *فقہ کی پہچان* 📚
قسط نمبر  4 
موضوع::
🌹 *ہم تقلید کیوں کرتے ہیں* 🌹
از قلم ✒️ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
17/3/2021
03163627911

آج کل کے سادہ لوح مسلمانوں کا ایمان و عقیدہ خراب کرنے اور انھیں گمراہی کے گڑھوں میں دھکیلنے کے لیے بہت سارے خرافات پیدا کیے جارہے ہیں ان میں سے ایک خیال یہ بھی ہے کہ دین کو خود سے سمجھو کسی کہ پیچھے نہ چلو قرآن وحدیث کو خود سمجھو مسائل اخذ کرو آئیے آج کی اس قسط میں ہم جانتے ہیں کہ 

 *🌍ہم تقلید کیوں کرتے ہیں* 🌍
سب سے پہلے *تقلید کی تعریف* 

 تقلید کے شرعی معنی ہیں کہ کسی کے قول اور فعل کو یہ سمجھ کر اپنے اوپر لازمِ شرعی جاننا کہ اس کا کلام اور ا س کا کام ہمارے لئے حجت ہے کیونکہ یہ شرعی محقق ہے۔

🌲 *مکلف مسلمان دو طرح کا ہوتا ہے.* 🌲

1  مجتھد 
 2 غیرمجتھد

آج کی آٹھ 8 بہت ہی خوبصورت عمدہ زبردست سنہری باتیں



*آج کی آٹھ 8 بہت ہی خوبصورت عمدہ زبردست سنہری باتیں* 


*(1)🌹کنارے پر تیرنے والی لاش کو دیکھ کر یہ سمجھ میں آیا ۔۔۔*
*بوجھ جسم کا نہیں سانسوں کا تھا ۔۔۔۔"*

 
*(2)🌹سفر کا مزہ لینا ہو تو، ساتھ سامان کم رکھئے۔*
*اور زندگی کا مزہ لینا ہو تو دل میں ارمان کم رکھئے۔*

 
*(3)🌹زندگی کو اتنا سیریس لینے کی ضرورت نہیں ہے۔*
*یہاں سے زندہ بچ کر کوئی نہیں گیا۔*

*(4)🌹جنکے پاس صرف سکٌے تھے وہ مزے سے بھیگتے رہے بارش میں ۔۔۔*
*جنکے پاس نوٹ تھے وہ چھت کی تلاش میں رہ گئے۔۔۔"*

*(5)🌹پیسہ انسان کو اوپر لے جا سکتا ہے ۔۔۔۔*
*لیکن انسان پیسہ اوپر نہیں لے جاسکتا ۔۔۔*

*(6)🌹کمائی چھوٹی یا بڑی ہوسکتی ہے ۔۔۔۔*
*پر روٹی کا سائز لگ بھگ سبھی گھروں میں ایک جیسا ہی ہوتا ہے*

*(7)🌹انسان چاہتا ہے، اڑنے کو پر ملے ۔۔۔*
*اور پرندے سوچتے ہیں کہ رہنے کو گھر ملے ۔۔۔*

 
*(8)🌹کام سے ہی پہچان ہوتی ہے انسان کی ۔۔۔۔*
*مہنگے کپڑےتو “پُتلے” بھی پہنتےہیں دوکانوں میں ۔۔۔۔*

معراج البنی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام


 

معراج البنی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام


✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-

👈 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت اور آپ کی حیاتِ مبارک میں پیش آنے والے حیرت انگیز واقعات میں اللہ تعالی نے انسانوں کے لئے عبرت اور نصیحت کے بے شمار پہلو رکھے ہیں۔ سیرتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی چھوٹا بڑا واقعہ ایسا نہیں ہے جس میں رہتی دنیا تک کے لئے انسانوں کو پیغام نہ ملتا ہو۔ اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا کر مبعوث فرمایا اور آپ کی ذات کو انسانوں کے لئے نمونہ قرار دیا۔

👈 جس کو دیکھ کر قیامت تک آنے والے لوگ اپنی زندگی کو سنوار سکتے ہیں۔ اور اپنے شب و روز کو سدھار سکتے ہیں۔ الجنھوں اور پریشانیوں کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ غرض یہ کہ سیرت کا کوئی واقعہ اور کوئی پہلو ایسا نہیں کہ جس میں مسلمانوں کے لئے بے شمار نصیحتیں نہ ہوں۔

👈 چنانچہ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حیرت انگیز واقعات میں سے ایک واقعہ *واقعۂ معراج* بھی ہے۔ جو تاریخ انسانی کا نہایت محیر العقول اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال معجزہ ہے۔ معجزات سیرتِ انبیاء کا بہت ہی نمایاں اور روشن باب ہیں۔ ان کی حقّانیت سے انکار کسی طرح بھی ممکن نہیں ، قانونِ الہی ہے کہ اس نے جب بھی خَلْق کی ہدایت کیلئے کسی نبی علیہ السلام کو بھیجا تو ساتھ ہی انہیں کوئ نہ کوئ معجزہ بھی عطا فرمایا۔

👈 جسے دیکھ کر لوگوں کی عقلیں دنگ رہ جاتیں اور منکرین جان توڑ کوشش کے باوجود اس کی مثال لانے سے عاجز رہتے ، جیسے سیدنا موسی علیہ السلام کے مبارک عصا کا سانپ بننا اور حضرت سیدنا عیسی علیہ السلام کا مردے زندہ کرنا وغیرہ۔ پھر جب ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ معجزات دئیے۔

👈 بلکہ جو معجزے دیگر انبیاء علیھم الصلوة و السلام کو فردا فردا عطا ہوئے وہ سب اور ان سے بھی بھی کہیں زائد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی میں جمع کردئیے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے ان لا تعداد معجزات میں سے ایک بہت ہی منفرد ، ممتاز اور نمایاں معجزہ معراج ہے۔

👈 آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے تھوڑے سے حصے میں ساتوں آسمان ، عرش و کرسی سے بھی اُوپر تشریف لے گئے۔ اور کائنات کی سرحدیں پار کرکے لامکاں کی سیر فرما کر واپس زمین پر جلوہ گر ہوئے۔ (فیضان معراج ، ص 8)