یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اُن چیزوں سے متعلق 12 احکام جن سے صرف قضا لازِم آتی ہے کفارہ نہیں



*اُن چیزوں سے متعلق 12 احکام جن سے صرف قضا لازِم آتی ہے کفارہ نہیں*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} یہ گمان تھا کہ صبح نہیں ہوئی اور کھایا ، پیا یا جماع کیا بعد کو معلوم ہوا کہ صبح ہو چکی تھی تو روزہ نہ ہوا ، اِس روزے کی قضا کرنا ضروری ہے یعنی اِس روزے کے بدلے میں ایک روزہ رکھنا ہوگا۔
*(بہار شریعت ج۱ص۹۸۹)*
*کسی کے مجبور کرنے پر روزہ توڑنا*
 {۲} کھانے پر سخت مجبور کیا گیا یعنی اِکراہِ شرعی پایا گیا ، اب چونکہ مجبوری ہے ، لہٰذا خواہ اپنے ہاتھ سے ہی کھایا ہو صرف قضا لازِم ہے۔
*(بہار شریعت ج۱ص۹۸۹)*
اس مسئلے کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص قتل یا عضو کاٹ ڈالنے یا شدید مار لگانے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال! اگر روزہ دار یہ سمجھے کہ دھمکی دینے والا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ کر گزرے گا تو اب *اِکراہِ شرعی* پایا گیا اور ایسی صورت میں روزہ توڑ ڈالنے کی رخصت ہے مگر بعد میں اِس روزے کی قضا لازِمی ہے۔
 {۳} بھول کر کھایا ، پیایا جماع کیا تھا یا نظر کرنے سے اِنزال ہوا تھا *(یعنی منی نکل گئی تھی)* یا اِحتلام ہوا یا قے ہوئی اور ان سب صورَتوں میں یہ گمان کیا کہ روزہ جاتا رہا ، اب قصْداً *(یعنی جان بوجھ کر)* کھا لیا تَو صرف قضا فرض ہے۔
*(دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۱)*
 {۴} روزے کی حالت میں ناک میں دَوا چڑھائی تو روزہ ٹوٹ گیا اور اِس کی قضا لازِم ہے۔
*(اَیضاًص۴۳۲)*
 {۵} پتھر ، کنکری ، مٹی ، رُوئی ، گھاس ، کاغذ وغیرہ ایسی چیز کھائی جن سے لوگ گھن کرتے ہوں ، اِن سے روزہ تو ٹوٹ گیا مگر صرف قضا کرنا ہوگا۔
*(دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۳ مُلَخّصاً)*
 {۶} بارِش کا پانی یا اولا حلْق میں چلا گیا تَو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا لازِم ہے۔
*(اَیضاً ص۴۳۴ مُلَخّصاً)*
 {۷} بہت سارا پسینہ یا آنسو نِگل لیا تَو روزہ ٹوٹ گیا ، قضا کرنا ہوگا۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۹۸۹)*
 {۸} گمان کیا کہ ابھی تَو رات باقی ہے ، سحری کھاتے رہے اور بعد میں پتا چلا کہ سحری کا وَقْت ختم ہو چکا تھا۔ اِس صورت میں بھی روزہ گیا اور قضا کرنا ہوگا۔
*(دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۳۶)*
 {۹} اِسی طرح گمان کر کے کہ سورج غروب ہو چکا ہے ، کھا پی لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سورج نہیں ڈوبا تھا جب بھی روزہ ٹوٹ گیا اور قضا کریں ۔ *(دُرِّ مُختار ج۳ص۴۳۶)*
 {۱۰} اگر غروبِ آفتاب سے پہلے ہی سائرن کی آواز گونج اُٹھی یا اذانِ مغرب شروع ہو گئی اور روزہ اِفطار کر لیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سائرن یا اَذان وَقت سے پہلے ہی شروع ہو گئے تھے روزہ ٹوٹ گیا قضا کرنا ہوگا۔
*(رَدِّالْمُحتَار ج۳ ص۴۳۹ ماخوذاً)*  
 {۱۱} آج کل بے پروائی کا دَور دَورا ہے ، ہر ایک کو چاہئے کہ اپنے روزے کی خود حفاظت کرے۔ سائرن ، ریڈیو ، ٹی وی کے  اِعلان بلکہ مسجِد کی اذان پر بھی اکتِفا کرنے کے بجائے خود سحری و افطار کے وَقت کی صحیح صحیح معلومات رکھے ۔
 {۱۲} وضو کر رہا تھا پانی ناک میں ڈالا اور دِماغ تک چڑھ گیا یا حلق کے نیچے اُتر گیا ، روزہ دار ہونا یاد تھا تو روزہ ٹوٹ گیا اور قضا لازِم ہے ۔ ہاں اُس وَقت روزہ دار ہونا یاد نہیں تھا تو روزہ نہ گیا۔
*(عالمگیری ج۱ ص۲۰۲)*

اسلامی بہنوں کیلئے اعتکاف کے 13 احکام



*اسلامی بہنوں کیلئے اعتکاف کے 13 احکام*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} اسلامی بہنیں مسجِد بیت میں اعتکاف کریں ۔ مسجِد بیت اُس جگہ کو کہتے ہیں جو عورت گھر میں اپنی نماز کیلئے مخصوص کر لیتی ہے۔ اسلامی بہنوں کیلئے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز کیلئے جگہ مقرر کریں اور اُس جگہ کو پاک و صاف رکھیں اور بہتر یہ ہے کہ اُس جگہ کو چبوترے وغیرہ کی طرح بلند کر لیں ۔ بلکہ اسلامی بھائیوں کو بھی چاہیے کہ نوافل کیلئے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لیں کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔
*(دُرِّمُخْتَار، رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴*)

 {۲} اگر اسلامی بہن نے نَماز کے لئے کوئی جگہ مقرر نہیں کر رکھی تو گھر میں اِعتکاف نہیں کر سکتی البتہ اگر اُس وَقت یعنی جبکہ اِعتکاف کا ارادہ کیا کسی جگہ کو نماز کیلئے خاص کر لیا تو اُس جگہ اِعتکاف کر سکتی ہے ۔
*(دُرِّمُختَار ، رَدّالْمُحْتَارج۳ص۴۹۴)*

{۳} کسی اور کے گھر جا کر اسلامی بہن اعتکاف نہیں کر سکتی ۔                                                 

 {۴} شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کیلئے اِعتکاف کرنا جائز نہیں ۔
*( رَدّ الْمُحْتَار ج۳ ص۴۹۴ )*

 {۵} اگر بیوی نے شوہر کی اجازت سے اِعتکاف شروع کر دیا ، بعد میں شوہر منع کرنا چاہتا ہے تو اب منع نہیں کر سکتا اور اگر منع کرے گا تو بیوی کے ذِمے اس کی تعمیل واجب نہیں ۔
*(عالمگیری ج۱ ص۲۱۱)* 

 {۶} اسلامی بہنوں کے اِعتکاف کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حیض و نفاس سے پاک ہوں کہ ان دنوں میں نماز ، روزہ اور تلاوتِ قراٰن حرام ہے۔
*(عامۂ کُتُب)* 
https://chat.whatsapp.com/CdmmN9RRdio7wO5KS1ZzHC
عورت کو بچے کی پیدائش کے بعد جو خون آتا رہتا ہے اس کو نفاس کہتے ہیں ، اس کی زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن اور چالیس رات ہے ، چالیس دن رات کے بعد اگر خون بند نہ ہو تو بیماری ہے ، غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دیں ۔ اسلامی بہنوں میں یہ عام غلط فہمی ہے کہ نفاس کی مدت مکمل چالیس دن ہے حالانکہ ایسا نہیں ۔حکمِ شریعت یہ ہے کہ اگر خون ایک دن میں بند ہو گیا ، بلکہ بچہ ہونے کے بعد فوراً ہی بند ہو گیا تو نِفاس ختم ہوا ، غسل کر کے  نَماز روزہ شروع کر دیں ۔ حیض کی مدّت کم از کم تین دن رات اور زیادہ سے زیادہ دس دن رات ہے۔ تین دن اور تین رات کے بعد جب بھی خون بند ہوا فوراً غسل کر لیں اور نماز وغیرہ شروع کر دیں ۔
*(یہاں شوہر والیوں کیلئے کچھ تفصیل ہے اسے بہارِ شریعت جلد اوّل کے حصہ 2 میں لازِمی ملا حظہ فرمائیں)* اور اگر دس دن رات کے بعد خون جاری رہا تو اِستِحاضہ یعنی بیماری ہے ،  دس دن رات پورے ہوتے ہی غسل کر کے نَماز روزہ شروع کر دیں

 {۷} اگر ماہواری کی تاریخیں رمضان شریف کے آخِری عشرے میں آنے والی ہوں تو اعتکاف شُروع ہی نہ کریں ۔

 {۸} اگر عورت کو حیض آجائے تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ *(بدائع الصنائع ج۲ص۲۸۷)*

 اِس صُورت میں جس دن اس کا اِعْتِکاف ٹوٹا ہے صِرْف اُس ایک دن کی قَضا اُس کے ذِمّے واجب ہوگی۔
*(رَدُّ الْمُحْتَار ج۳ ص۵۰۰)*

 ماہواری سے پاک ہونے کے بعد کسی دن بہ نیّت قضا اعتکاف کر لے ۔ اگر رَمَضان شریف کے دن باقی ہوں تو ان میں بھی قَضا کر سکتی ہے ، اس صورت میں  رَمَضانُ الْمُبارَک کا روزہ ہی کافی ہو جائے گا۔ اگر اُن دنوں قضا کرنا نہیں چاہتی یا پاک ہونے تک رَمَضانُ الْمُبارَک ختم ہو جائے تو کسی اور دن قَضا کر لے۔ مگر عیدُالْفِطْر اور ذُوالحِجَّۃِ الْحَرام کی دسویں تا تیرھویں کے علاوہ ، کہ ان پانچ دنوں کے روزے مکروہِ تحریمی ہیں ۔
*(دُرِّمُخْتَارج۳ص۳۹۱)*

*اسلامی بہن کے لئے اعتکاف قضا کرنے کا طریقہ*

 {۹} اس کا طریقہ یہ ہے کہ غروبِ آفتاب کے وقت *(بلکہ اِحتیاط اس میں ہے کہ چند منٹ قبل)* بہ نیّتِ قضا اعتکاف مسجدِ بَیت میں آجائے اور اب جو دن آئے گا اُس کے غروبِ آفتاب تک معتکف رہے۔ اِس میں روزہ شَرْط ہے۔

 {۱۰} شَرعی ضروریات کے بغیر جائے اعتکاف سے نکلنا جائز نہیں ، وہاں سے اٹھ کر گھر کے کسی اور حصّے میں بھی نہیں جا سکتی ، اگر جائے گی تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا ۔

 {۱۱} اسلامی بہنوں کیلئے بھی اعتکاف کی جگہ سے ہٹنے کے وُہی اَحْکام ہیں جو اسلامی بھائیوں کے ہیں ۔ یعنی جن ضروریات کی وجہ سے اِسلامی بھائیوں کو مسجِد سے نکلنا جائز ہے ، اُنہیں کے لئے اِسلامی بہنوں کو بھی اِعتکاف کی جگہ سے ہٹنا جائز اور جن کاموں کیلئے مَردوں کو مسجِد سے نکلنا جا ئز نہیں ، اُن کیلئے اِسلامی بہنوں کو بھی اپنی جگہ سے ہٹنا جائز نہیں ۔

 {۱۲} اِسلامی بہنیں اعتکاف کے دَوران اپنی جگہ بیٹھے بیٹھے سِینے پِرونے کا کام کر سکتی ہیں ، گھر کے کاموں کے لئے دُوسروں کو ہدایات بھی دے سکتی ہیں مگر خود اُٹھ کر نہ جائیں ۔

 {۱۳} بہتر یہ ہے کہ اعتکاف کے دَوران ساری تَوَجُّہ تِلاوت ، ذِکر و دُرُود ، تسبیحات ، دینی مطالَعَہ ، مدنی چینل پہ علم دین سیکھنے و مدنی مذاکرہ وغیرہ عِبادات کی طرف رہے۔

اعتکاف کے ضروری احکام




*اعتکاف کے ضروری احکام*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

اس تحریر میں آپ پڑھ سکیں گے:👇

*اعتکاف کی تعریف*
*اعتکاف کا حکم شرعی*
*اعتکاف کی نیت کس طرح کریں؟*
*اعتکاف کس مسجد میں کرے؟*
*معتکف اور احترامِ مسجد*
*فنائے مسجد اور معتکف*
*معتکف فنائے مسجد میں جا سکتا ہے*
*مسجد کی چھت پر چڑھنا*
*معتکف کے مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں*
*حاجتِ شرعی کے 3 احکام*
*حاجتِ طبعی کے 3 احکام*
*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کے متعلق 12 احکام*

*اعتکاف کی تعریف:*

مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اور حیض و نفاس سے پاک ہونا شرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تو اُس کا اعتکاف صحیح ہے۔
*(عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱)*


*اعتکافِ کا حکمِ شرعی:*

رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخِری عشرے کا اعتکاف سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ ہے۔
*(دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵)*

اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔
*(بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)* 

اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِد کے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس کے چاند کے بعد یا تیس کے غُروبِ آفتاب کے بعد مسجِد سے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کو غروبِ آفتاب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادا نہ ہوئی۔


*اعتکاف کی نیت کس طرح کریں؟*

میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رِضا کیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔ *(دل میں نیت ہونا شرط ہے ، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)*

https://chat.whatsapp.com/GlG3WFBIqWm0G27JaaMOzX
*اعتکاف کس مسجد میں  کرے؟:*

مسجد جامِع ہونا اعتکاف کے لیے شرط نہیں بلکہ مسجد جماعت میں بھی ہو سکتا ہے۔ مسجد جماعت وہ ہے جس میں امام و مُؤَذِّن مقرر ہوں ، اگرچِہ اس میں  پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مُطْلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے

 اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو ، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مُؤَذِّن۔
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۹۳)*

*سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے پھر مسجِدُ النَّبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پھر مسجِد اقصیٰ (یعنی بیتُ الْمَقْدِس) میں پھر اُس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔*  *(بہارِشریعت ج۱ ص۱۰۲۰۔۱۰۲۱)*


*معتکف اور احترامِ مسجد:*

پیارے معتکف عاشقانِ رسول! آپ کو دس روز مسجِد ہی میں گزارنے ہیں اِس لئے چند باتیں اِحترامِ مسجِد سے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتکاف مسجِد کے  اندر ضَرورۃً دُنیوی بات کرنے کی اجازت ہے لیکن اس طرح کہ کسی نمازی یا عبادت کرنے والے یا سونے والے کو تشویش نہ ہو۔ یاد رکھئے! مسجِد میں بلا ضرورت دُنیوی بات چیت کی معتکف کو بھی اجازت نہیں۔


*فنائے مسجد اور معتکف:*

 معتکف بلا ضرورت بھی فنائے مسجِد میں جائے تو اعتکاف نہیں ٹوٹتا۔ فنائے مسجد سے مراد وہ جگہیں ہیں جو مسجِد کی مصالح یعنی ضروریاتِ مسجد کے لئے احاطۂ مسجد کے اندر ہوں ، جیسے منارہ ، وُضو خانہ ، اِستنجا خانہ ، غسل خانہ ، مسجِد سے متصل مَدْرَسہ ، مسجِد سے ملحق اِمام و مُؤَذِّن وغیرہ کے حجرے ، جوتے اُتارنے کی جگہ وغیرہ یہ مقامات بعض معاملات میں حکمِ مسجِد میں ہیں اور بعض معاملات میں خارِج مسجد ۔ مثلاً یہاں پر جنبی *(یعنی جس پر غسل فرض ہو)* جا سکتا ہے۔ اِسی طرح اقتدا اور اعتکاف کے معاملے میں  یہ مقامات حکمِ مسجِد میں ہیں ۔ معتکف بلا ضرورت بھی یہاں جا سکتا ہے گویا وہ مسجد ہی کے کسی ایک حصے میں گیا۔

*معتکف فنائے مسجد میں جا سکتا ہے:*       

حضرتِ صدرُ الشَّریعہ ، صاحب بہارِ شریعت حضرت مولانا امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : فنائے مسجِد جو جگہ مسجد سے باہر اس سے ملحق ضروریاتِ مسجد کیلئے ہے ، مَثَلًا جوتا اُتارنے کی جگہ اور غسل خانہ وغیرہ اِن میں جانے سے اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔

مزید آگے فرماتے ہیں : فنائے مسجِد اس معاملے میں حکمِ مسجد میں ہے۔
*(فتاویٰ امجدیہ ج۱ص۳۹۹)*

اِسی طرح منارہ بھی فنائے مسجد ہے ، اگر اس کا راستہ مسجد کی چار دیواری کے اندر ہو تو معتکف بلا تکلُّف اِس پر جا سکتا ہے اور اگر مسجد کے  باہر سے راستہ ہو تو صرف اذان دینے کے لئے جا سکتا ہے کہ اذان دینا حاجت شرعی ہے۔

*اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا فتویٰ:*

میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : بلکہ جب وہ مدارِس متعلق مسجِد حدودِ مسجِد کے اندر ہیں ، ان میں راستہ فاصل نہیں صرف ایک فصیل *(یعنی دیوار)* سے صحنوں کا امتیاز کر دیا ہے تو ان میں جانا مسجد سے باہر جانا ہی نہیں ، یہاں تک کہ ایسی جگہ معتکف کا جانا جائز کہ وہ گویا مسجد ہی کا ایک قطعہ *(یعنی حصہ)* ہے۔ 

*{وضاحت:*  اس عبارت کا صاف مفہوم یہ ہے کہ مدارس متعلق مسجد تھے یعنی جس طرح مساجد میں ضمنی مدارس لگائے جاتے ہیں جبکہ وہ جگہ جہاں مدرسہ لگتا ہے ضروریات و مصالحِ مسجد کے لئے وقف ہوتی ہے تو درحقیقت ان مدارس میں جانا فنائے مسجد ہی میں جانا ہوا ، اس لئے امامِ ا ہل سنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے فرمایا کہ وہاں معتکف جا سکتا ہے ۔یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہئے کہ مساجد کے ساتھ متصل جدا گانہ مدارِس میں جانا بھی معتکف کا جائز ہے اس لئے کہ جداگانہ مستقل مدارس پر فنائے مسجد کا ہر گز اطلاق نہیں ہوتا ان کی مستقل وقف کی حیثیت ہوتی ہے اس لئے ایسے مدارس اگرچہ مسجد کے ساتھ متصل احاطہ میں بنے ہوئے ہوں وہاں جانے سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا}

*رَدُّالْمُحتار(جلد3صفحہ436)* میں بَدائِعُ الصَّنائع کے حوالے سے ہے: اگر معتکف منارہ پر چڑھا تو بالاتفاق اس کا اعتکاف فاسد نہ ہوگا کیوں کہ منارے مسجد ہی *(کے حکم )* میں ہیں ۔
*(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۷ ص۴۵۳)*

*مسجد کی چھت پر چڑھنا:*                   

صحن ، مسجد کا حصہ ہے لہٰذا معتکف کو صحنِ مسجد میں آنا جانا بیٹھے رہنا مطلقاً جائز ہے۔ مسجد کی چھت پر بھی آجا سکتا ہے لیکن یہ اُس وَقت ہے کہ چھت پر جانے کا راستہ مسجِد کے اندر سے ہو۔ اگر اوپر جانے کیلئے سیڑھیاں اِحاطۂ مسجد سے باہر ہوں تو معتکف نہیں جا سکتا ، اگر جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔یہ بھی یاد رہے کہ معتکف و غیر معتکف دونوں کو مسجد کی چھت پر بلا ضرورت چڑھنا مکروہ ہے کہ یہ بے ادَبی ہے ۔

*معتکف کے مسجد سے باہر نکلنے کی صورتیں :*

اعتکاف کے دَوران دو وجوہات کی بنا پر *(احاطۂ)* مسجِد سے باہر نکلنے کی اجازت ہے:

*{۱} حاجت شرعی {۲} حاجت طبعی*

(۱) حاجت شرعی:

حاجتِ شرعی مَثَلًا نمازِ جمعہ ادا کرنے کیلئے جانا یا اذان کہنے کیلئے جانا وغیرہ۔

*حاجت شرعی کے متعلق 3 احکام*

 {۱} اگر منارے کا راستہ خارِجِ مسجِد *(یعنی اِحاطۂ مسجِد سے باہر)* ہو تو بھی اذان کیلئے معتکف جا سکتا ہے کیونکہ اب یہ مسجد سے نکلنا حاجتِ شرعی کی وجہ سے ہے۔
 *(رَدُّالْمُحْتار ج۳ ص۵۰۲ مُلَخَّصاً)*

 {۲} اگر وہاں جمعہ نہ ہوتا ہو تو معتکف جمعہ کی نماز کیلئے دوسری مسجد میں جا سکتا ہے۔ اور اپنی اعتکاف گاہ سے اندازاً ایسے وَقْت میں نکلے کہ خطبہ شروع ہونے سے پہلے وہاں پہنچ کر چار رَکعت سنت پڑھ سکے اور نمازِ جمعہ کے بعد اتنی دیر مزید ٹھہر سکتا ہے کہ چار یا چھ رکعت پڑھ لے۔ اور اگر اس سے زیادہ ٹھہرا رہا بلکہ باقی اِعتکاف اگر وَہیں پورا کر لیا تب بھی اِعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔ لیکن نَمازِ جمعہ کے بعد چھ رکعت سے زیادہ ٹھہرنا مکروہ ہے۔
*(دُرِّمُخْتَار ، رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۵۰۲)*  

{۳} اگر اپنے محلے کی ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جس میں جماعت نہ ہوتی ہو تو اب جماعت کیلئے نکلنے کی اجازت نہیں کیونکہ اب افضل یہی ہے کہ بغیر جماعت ہی اِس مسجِد میں نماز ادا کی جائے۔
*(جَدُّالمُمتار ج۴ ص۲۸۸)*

(۲) حاجت طبعی

*حاجت طبعی کے متعلق 4 احکام:*

 {۱} حاجتِ طبعی کہ مسجد میں پوری نہ ہو سکے جیسے پاخانہ ،  پیشاب ، وضو اور غسل کی ضرورت ہو تو غسل ، مگر غسل و وضو میں یہ شرط ہے کہ مسجد میں نہ ہو سکیں یعنی کوئی ایسی چیز نہ ہو جس میں  وضو و غسل کا پانی لے سکے  اس طرح کہ مسجد میں پانی کی کوئی بوند نہ گرے کہ وضو و غسل کا پانی مسجد میں  گرانا ناجائز ہے اور لگن وغیرہ موجود ہو کہ اس میں وضو اس طرح کر سکتا ہے کہ کوئی چھینٹ مسجد میں نہ گرے تو وضو کے لیے مسجد سے نکلنا جائز نہیں ، نکلے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا۔ یوہیں اگر مسجد میں وضو و غسل کے لیے جگہ بنی ہو یا حوض ہو تو باہر جانے کی اب اجازت نہیں ۔
*(دُرِّمُختار ، رَدُّالْمُحتارج۳ص۵۰۱*) 

 {۲} قضائے حاجت کو گیا تو طہارت کر کے فوراً چلا آئے ٹھہرنے کی اجازت نہیں اور اگر معتکف کا مکان مسجد سے دُور ہے اور اس کے دوست کا مکان قریب تو یہ ضرور نہیں کہ دوست کے یہاں قضائے حاجت کو جائے بلکہ اپنے مکان پر بھی جا سکتا ہے اور اگر اس کے خود دو مکان ہیں ایک نزدیک دوسرا دُور تو نزدیک والے مکان میں  جائے کہ بعض مشایخ فرماتے ہیں دُور والے میں جائے گا تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا۔  *(رَدُّالْمُحتار ج۳ص۵۰۱ ، عالمگیری ج۱ص۲۱۲)*

 {۳} عام طور پر نمازیوں کی سہولت کیلئے مسجد کے اِحاطے میں بیت الخلا ، غسل خانہ ،  اِستنجا خانہ اور وُضو خانہ ہوتا ہے۔ لہٰذا معتکف ان ہی کو استعمال کرے ۔

 {۴} بعض مساجد میں استنجا  خانوں ، غسل خانوں وغیرہ کیلئے راستہ اِحاطۂ مسجد *(یعنی فنائے مسجد)* کے بھی باہر سے ہوتا ہے لہٰذا اِن استنجا  خانوں اور غسل خانوں وغیرہ میں حاجت طبعی کے علاوہ نہیں جا سکتے۔

*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کا بیان:*

اب ان چیزوں کا بیان کیا جاتا ہے جن سے اِعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ جہاں جہاں مسجِد سے نکلنے پر اعتکاف ٹوٹنے کا حکم ہے وہاں اِحاطۂ مسجِد *(یعنی عمارتِ مسجد کی باؤنڈری وال)* سے نکلنا مراد ہے۔


*اعتکاف توڑنے والی چیزوں کے متعلق 12 احکام*

 {۱} اعتکاف واجب میں معتکف کو مسجد سے بغیر عذر نکلنا حرام ہے ، اگر نکلا تو اعتکاف جاتا رہا اگرچہ بھول کر نکلا ہو۔ یوہیں *(رَمضانُ المبارَک کے آخری عشرے کا)* اعتکافِ سنت بھی بغیر عذر نکلنے سے جاتا رہتا ہے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۲۳)*

 {۲} مسجد سے نکلنا اُس وقت کہا جائے گا جب کہ پاؤں مسجد سے اس طرح باہر ہو جائیں کہ اسے عرفاً مسجد سے نکلنا کہا جا سکے ۔ اگر صرف سر مسجد سے نکالا تو اس سے اِعتکاف فاسد نہیں ہوگا۔
*(اَلْبَحرُالرَّائِق ج۲ ص۵۳۰)*

 {۳} شرعی اجازت سے باہر نکلے ، لیکن فراغت کے بعد ایک لمحے کیلئے بھی باہر ٹھہر گئے تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

 {۴} چونکہ اس میں روزہ شرط ہے ، اِس لئے روزہ توڑ دینے سے بھی اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ خواہ یہ روزہ کسی عذر سے توڑا ہو یا بلا عذر ، جان بوجھ کر توڑا ہو یا غلطی سے ٹوٹا ہو ، ہر صورت میں اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے ۔ اگر بھول کر کچھ کھا پی لیا ، تو نہ روزہ ٹوٹا نہ اِعتکاف۔

 {۵} یہ ضابطہ یاد رکھئے کہ وہ تمام اُمور جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے ، اعتکاف بھی ٹوٹ جاتا ہے ۔

 {۶} پاخانہ پیشاب کیلئے *(احاطۂ مسجِد سے باہر)* گیا تھا۔ قرض خواہ نے روک لیا ،  اعتکاف فاسد ہو گیا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۱۲)*

 {۷} بے ہوشی اور جنون اگر طویل ہوں کہ روزہ نہ ہو سکے تو اعتکاف جاتا رہا اور قضا واجب ہے ، اگرچہ کئی سال کے  بعد صحت ہو۔
*(اَیضاًص۲۱۳)*

 {۸} معتکف مسجِد ہی میں کھائے پئے سوئے ، ان اُمور کیلئے مسجِد سے باہر ہو جائے گا تو اِعتکاف ٹوٹ جائے گا۔ *(اَلْبَحْرُالرَّائِق ج۲ ص۵۳۰)* 

 مگریہ خیال رہے کہ مسجِد آلودہ نہ ہو۔

 {۹} کھانا لانے والا کوئی نہیں تو پھر اپنا کھانا لانے کیلئے آپ باہر جا سکتے ہیں ، لیکن مسجِد میں لاکر کھائیے۔       

 {۱۰} مرض کے علاج کیلئے مسجد سے نکلے تو اِعتکاف فاسد ہو گیا۔ نیند کی حالت میں چلنے کی بیماری ہو اور نیند میں چلتے چلتے مسجِد سے نکل جائے تو اِعتکاف فاسد ہو جائے گا۔

 {۱۱} اگر ڈوبنے یا جلنے والے کے بچانے کے لیے مسجد سے باہر گیا یا گواہی دینے کے لیے گیا یا جہاد میں سب لوگوں کا بلاوا ہوا اور یہ بھی نکلا یا مریض کی عیادت یا نمازِ جنازہ کے لیے گیا ، اگرچہ کوئی دوسرا پڑھنے والا نہ ہو تو ان سب صورتوں میں اعتکاف فاسِد ہوگیا۔
*(بہارِ شریعت ج۱ ص۱۰۲۵)*

 {۱۲} کوئی بدنصیب دَورانِ اعتکاف مرتَد ہوگیا *(نَعُوذُ بِاللہ عَزَّوَجَلَّ)* تو اِعتکاف فاسد ہو گیا اور پھر اگر اللہ عَزَّوَجَلَّ مرتد کو ایمان کی توفیق عنایت فرمائے تو فاسد شدہ اعتکاف کی قضا نہیں ۔
*(ماخوذ از دُرِّمُخْتَار ج۳ ص۵۰۴ )*

صدقۂ فطر کے ضروری احکام



*صدقۂ فطر کے ضروری احکام*


✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

*صدقۂ فطر واجب ہے:*

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جا کر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو ، *صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔* 
*( تِرمذی ج۲ ص۱۵۱ حدیث۶۷۴)*

*فطرے کے 16 احکام*

 {۱} صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور اُن کا نصاب حاجاتِ اَصلیہ *(یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)* سے فارِغ ہو۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۱)*

 {۲} جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہو *( اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں )* یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ۔

 {۳} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ، عاقل و بالغ ہونا شرط نہیں ۔ بلکہ بچہ یا مَجْنُون *(یعنی پاگل)* بھی اگر صاحبِ نصاب ہو تو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی *(یعنی سرپرست)* ادا کرے۔
*(ردّالْمُحتار ۳ ص۳۶۵)*

صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مال کے نامی *(یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت)* ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں *(مَثَلاً عمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا)* اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔
*(وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملَخَّصاً)*

 {۴} مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ، اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون *(یعنی پاگل)* اولاد ہے *(چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)* تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھر اُس کے  مال میں سے فطرہ ادا کر دے۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)* 

 {۵} مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
*(ایضاً ص۱۹۳ ملَخَّصاً)*

 {۶} والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔ یعنی اپنے فقیر و یتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہ صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ 
*(دُرَّمُختار ج۳ ص۳۶۸)*

{۷} ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔
*( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)*

 {۸} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔
*(دُرِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ ص۳۷۰)*

 {۹} کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔  *(رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)*

 {۱۰} بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ *(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ)* جس شخص کے ذِمے ہے ، وہ اگر اِن کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا ۔ ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کر کے  گھر الگ بسا لیا اور اپنا گزارہ خود ہی کر لیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے *(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ)* کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا ہے۔ لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔

 {۱۱} بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کر دیا تو ادا نہ ہوگا۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)*

 {۱۲} عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، اگر صبحِ صادِق کے  بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۲)*

 {۱۳} صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے ، اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کر دیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔  *(اَیضاً)*

 {۱۴} اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا ، بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔
*(اَیضاً)*

 {۱۵} صَدَقَۂِ فِطْر کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔ یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فطرہ بھی نہیں دے سکتے۔
*(اَیضاً ص۱۹۴ مُلَخّصاً)*

 {۱۶} سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ *بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931 پر ہے:*  بنی ہاشم کو زکاۃ *(فطرہ)* نہیں دے سکتے ۔ نہ غیر انھیں دے سکے ، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو ۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔   

*صدقۂ فطر کی مقدار :*

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع *(یعنی دو کلو میں 80 گرام کم)* *(یا ان کی قیمت)* ،  کھجور یا مُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع *(یعنی چار کلو میں 160 گرام کم)* *(یا ان کی قیمت)* یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے۔
*(عالمگیری ج۱ ص۱۹۱، دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲)*

*موجود مقدار گیہوں کے اعتبار سے 150* پاکستانی روپے ہیں
*(دار الافتاء اہلسنت دعوت اسلامی)*

*روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی 33 احکام*




*روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی 33 احکام*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*


*روزہ نہ رکھنے کی مجبوریاں*

اے عاشقانِ رسول! بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں روزہ مُعاف نہیں وہ مجبوری ختم ہو جانے کے بعد اس کی قضا رکھنا فرض ہے ، البتّہ قضا کا گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ 
*بہارِ شریعت جلداوّل صفحہ1002 پر دُرِّمختار کے حوالے سے لکھا ہے:*
 کہ سفر و حمل اور بچے کو دُودھ پلانا اور مرض اور بڑھاپا اور خوفِ ہلاکت و اِکراہ *(یعنی اگر کوئی جان سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال اگر روزہ دار جانتا ہو کہ یہ کہنے والا جو کچھ کہتا ہے کر گزرے گا تو ایسی صورت میں روزہ فاسِد کر دینا یا ترک کرنا گناہ نہیں۔ اِکراہ سے مراد یہی ہے)* و نقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عذر ہیں اِن وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گُناہ گار نہیں۔

*(دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۲)*

*(وہ مجبوری ختم ہو جانے کی صورت میں ہر روزے کے بدلے ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا)*

 {۱} مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔ *(رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)*

 {۲} اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر نہ پہنچے تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کو نقصان ہو رہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔
*(دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۵)*

 {۳} مسافر نے ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پیشتر اِقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں تو روزے کی نیت کر لینا واجب ہے ۔
*(جَوْہَرہ ج۱ ص۱۸۶)*  

 {۴} دِن میں اگر سفر کیا تو اُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے تو کفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔
*(عالمگیری ج۱ ص۲۰۶)*

اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔

 {۵} اگر سفر شروع کرنے سے پہلے توڑ دیا پھر سفر کیا تو *(اگر کفارے کے شرائط پائے گئے تو قضا کے ساتھ ساتھ)* کفارہ بھی لازِم آئے گا۔ *(اَیْضاً)*

 {۶} اگر دن میں سفر شروع کیا *(اور دَورانِ سفر روزہ توڑا نہ تھا)* اور مکان پر کوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپس آئے اور اب اگر آ کر روزہ توڑ ڈالا تو *(شرائط پائے جانے کی صورت میں)* کفارہ بھی واجب ہے ۔ اگر دَورانِ سفر ہی توڑ دیا ہوتا تو صرف قضا رکھنا فرض ہوتا جیسا کہ نمبر4 میں گزرا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)*

 {۷} کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا تو روزہ تو توڑ سکتا ہے مگر صبر کیا تو اَجر ملے گا۔
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۶۲)*

*(مجبوری کی تعریف اوپر بیان کر دی گئی ہے)*

 {۸} سانپ نے ڈَس لیا اور جان خطرے میں پڑ گئی تو روزہ توڑ دے ۔ *(اَیضاً)*

 {۹} جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سبب روزہ توڑا اُن پر فرض ہے کہ اُن روزوں کی قضا رکھیں اور اِن قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں ، لہٰذا اگر اُن روزوں کی قضا کرنے سے قبل نفل روزے رکھے تو یہ نفل روزے ہوگئے ، مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد آیندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آنے سے پہلے پہلے قضا رکھ لیں ۔
 *حدیثِ پاک میں فرمایا:* 
جس پر گزشتہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمَضانُ الْمبارَک کے روزے قبول نہ ہوں گے۔ 
*(مسند امام احمد ج۳ ص۲۶۶ حدیث۸۶۲۹)*

اگر وَقت گزرتا گیا اور قضا روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمضان شریف آگیا تو اب قضا روزے رکھنے کے بجائے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھ لیجئے ، قضا بعد میں رکھ لیجئے۔ بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضا کی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اِسی رَمضان شریف کے روزے ہیں۔

*(دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۶۵)*

 {۱۰} بھوک اور پیاس ایسی ہو کہ ہلاک *(یعنی جان چلی جانے)* کا خوفِ صحیح ہو یا نقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ۔
*(دُرِّمُختار ، ردُّ الْمُحتار ج۳ ص۴۶۲)*

*فاسق یا غیر مسلم ڈاکٹر روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو؟*

 {۱۱} فقہائے کرام نے روزہ نہ رکھنے کیلئے جو رُخصتیں بیان کی ہیں ان میں یہ بھی داخل ہے کہ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمانِ غالب ہو تو اِجازت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔ اس گمانِ غالِب کے حصول *(یعنی حاصل کرنے)* کی تیسری صورت کسی مسلمان ، حاذِق طبیب مستور یعنی غیر فاسِق ماہر ڈاکٹر کی خبر بھی ہے لیکن فی زمانہ ایسے طبیب *(ڈاکٹر)* کا ملنا بہت ہی مشکل ہے تو اب ضرورتِ زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کی اجازت ہے کہ اگر کوئی قابلِ اعتماد فاسق یا غیر مسلم طبیب *(ڈاکٹر)* بھی روزہ رکھنے کو صحت کیلئے نقصان دِہ قرار دے اور روزہ ترک کرنے کا کہے اور مریض بھی اپنی طرف سے ظن و تحری *(یعنی اچھی طرح غور)* کرے جس سے اُسے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا ہی سمجھ آئے تو اب اگر اس نے اپنے ظنِّ غالِب *(یعنی مضبوط سوچ)* پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑا یا روزہ نہ رکھا تو اسے گناہ نہیں ہوگا اور روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی اس پر لازِم نہ ہوگا مگر قضا بہر صورت ضرور فرض ہوگی اور تحری *(یعنی غور کرنے)* میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض کا دل اِس بات پر جمے کہ یہ طبیب خواہ مخواہ روزہ توڑنے کا نہیں کہہ رہا اور اس میں بھی 
 بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زائد ڈاکٹرز سے رائے لے۔

 {۱۲} روزے کی حالت میں حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے ، فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔

حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ شکر و سجدۂ تلاوت حرام ہے اور آیت سجدہ سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں۔
 *(بہارشریعت ج۱ص۳۸۲)*

{۱۳} حیض یا نفاس کی حالت میں نماز ، روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں نَماز و روزہ صحیح ہوتے ہی نہیں ۔ نیز تلاوت قراٰنِ پاک یا قراٰنِ پاک کی آیاتِ مقدَّسہ یا اُن کا ترجمہ چھونا یہ سب بھی حرام ہے۔ *(ایضاًص۳۷۹ ، ۳۸۰)*

{۱۴} حیض یا نفاس والی کے لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً ، روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔
*(جوہرہ ج۱ ص۱۸۶)*

{۱۵} مگر چھپ کر کھانا بہتر ہے خصوصاً حیض والی کے لئے ۔
*(بہارشریعت ج۱ص۱۰۰۴)*

{۱۶} حمل والی یا دُودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچے کی جان جانے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اِس وقت روزہ نہ رکھے ، خواہ دُودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی ،  اگرچہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں  دُودھ پلانے کی نوکری اِختیار کی ہو۔
*(دُرِّمُختار ، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۳)*

*عمر رسیدہ بُزُرگ کے روزے*

 {۱۷} *شیخِ فانی* یعنی وہ معمر بزرگ جن کی عمر ایسی ہو گئی کہ اب وہ روز بروز کمزور ہی ہوتے جائیں گے ، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز *(یعنی مجبور و بے بس)* ہو جائیں یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آیِندہ روزے کی طاقت آنے کی اُمید ہے اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے ، لہٰذا ہر روزے کے  بدلے میں *فدیہ* یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اُس پر واجب ہے یا ہر روزے کے بدلے ایک صَدَقۂ فِطْر کی مقدار مسکین کو دے دیں۔
*(دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۷۱)* 

 *(صدقۂ فطر کی ایک مقدار 2 کلو میں 80 گرام کم گیہوں یا اُس کا آٹا یا اُن گیہوں کی رقم ہے)*

 {۱۸} اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں  روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس کے بدلے سردیوں میں رکھنا فرض ہے۔
*(ردُّالْمُحتار ج۳ ص۴۷۲)*

 {۱۹}  اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صَدَقۂ نفل ہو گیا۔ اُن روزوں کی قضا رکھیں ۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)*

 {۲۰} یہ اِختیار ہے کہ شروعِ رَمضان ہی میں پورے رَمضان *(کے تمام روزوں ) کا ایک دَم فدیہ دے دیں یا آخِر میں (سب اِکٹّھے دے)* دیں ۔
*(دُرِّمُختار ج۳ ص۴۷۲)*

 {۲۱} فدیہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اُتنے ہی مَساکین کو الگ الگ دیں ، بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دِن کے *(ایک ساتھ)* بھی دیئے جاسکتے ہیں۔    
*(اَیضاً)*
*
 {۲۲} نفل روزہ قصداً شروع کرنے والے پر اب پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے کہ توڑ دیا تو قضا واجب ہوگی۔
*(ردُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۴۷۳)*

 {۲۳} اگر آپ نے یہ گمان کر کے روزہ رکھا کہ میرے ذِمے کوئی روزہ ہے مگر روزہ شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی روزہ نہیں ہے ، اب اگر فوراً توڑ دیا تو کچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد اگر فوراً نہ توڑا ،  تو اب نہیں توڑ سکتے ، اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی۔
*(دُرِّمُختار ج۳ ص۴۷۳)*

 {۲۴} نفل روزہ قصداً *(یعنی جان بوجھ کر)* نہیں توڑا بلکہ بلا اِختیار ٹوٹ گیا ، مَثَلاً دَورانِ روزہ عورت کو حیض آ گیا ، جب بھی قضا واجب ہے۔
*(اَیضاًص۴۷۴)*

*سال میں پانچ روزے حرام ہیں*

 {۲۵} عید الفطر یا بقر عید کے چار دِن *یعنی 10، 11، 12، 13 ذُوالحِجّۃِ الْحرام* میں سے کسی بھی دِن کا روزہ نفل رکھا تو *(چونکہ اِن پانچ دِنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا)* اِس روزے کا پورا کرنا واجب نہیں ، نہ اِس کے توڑنے پر قضا واجب ، بلکہ اِس کا توڑ دینا ہی واجب ہے اور اگر اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنی واجب ہے مگر اِن دِنوں میں نہیں بلکہ اور دِنوں میں۔
*(ردُّ الْمُحتار ج۳ ص۴۷۴)*

 {۲۶} نفل روزہ بلا عذر توڑ دینا نا جائز ہے ، مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کیلئے یہ عذر ہے ، بشرطیکہ یہ بھروسا ہو کہ اِس کی قضا رکھ لے گا اور ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں ۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۱۰۰۷ ، عالمگیری ج۱ ص۲۰۸)*  

*دعوت کے سبب روزہ توڑنا*

 {۲۷} دعوت کے سبب ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے *(نفل)* روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت کرنے والا محض *(یعنی صرف)* اس کی موجودَگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسا ہو کہ بعد میں رکھ لے گا ، لہٰذا اب روزہ توڑ لے اور اُس کی قضا رکھے۔ لیکن اگر دعوت کرنے والا محض *(یعنی صرف)* اس کی موجودَگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ۔ *(عالمگیری ج۱ ص۲۰۸)*

{۲۸} نفل روزہ زَوَال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے ، اور اِس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔
*(دُرِّمُخْتار ، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۷)*

*بیوی بِلا اجازتِ شوہر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی*

 {۲۹} عورت بغیر شوہر کی اِجازت کے نفل اور منت و قسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لئے تو شوہر تڑوا سکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی مگر اِس کی قضا میں بھی شوہر کی اِجازت دَرکار ہے۔ یا شوہر اور اُس کے دَرمیان جدائی ہو جائے یعنی طلاقِ بائن
 *(طلاقِ بائن: اُس طلاق کو کہتے ہیں جس سے بیوی نکاح سے باہر ہو جاتی ہے ، اب شوہر رُجوع نہیں کر سکتا)* دے دے یا مر جائے ۔ ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو ، مَثَلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا اِحرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اِجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے بلکہ وہ منع کرے جب بھی رکھ سکتی ہے۔ البتہ اِن دنوں میں بھی شوہر کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔
*(رَدُّالْمحتار ج۳ ص۴۷۷ ، ۴۷۸)*

 {۳۰} رَمَضانُ الْمُبارَک اور قضائے رَمَضانُ الْمُبارَک کیلئے شوہر کی اِجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اُس کی ممانعت پر بھی رکھے۔
*(دُرِّمُخْتار ، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۸)*

{۳۱} اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدوری پر کام کرتے ہیں تو اُس کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزے کی وجہ سے کام میں سستی آئے گی۔ ہاں روزہ رکھنے کے باوُجود آپ باقاعدہ کام کر سکتے ہیں ، اُس کے کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی ، کام پورا ہو جاتا ہے تو اب نفل روزے کی اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں ۔
*(ردُّالْمحتار ج۳ ص۴۷۸)*

 {۳۲} نفل روزے کیلئے بیٹی کو باپ ، ماں کو بیٹے ، بہن کو بھائی سے اِجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ *(اَیضاً)*

 {۳۳} ماں باپ اگر بیٹے کو روزئہ نفل سے منْع کر دیں اِس وجہ سے کہ مَرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اِطاعت کرے۔ *(اَیضاً)*

مکروہاتِ روزہ پر مشتمل 12 پیرے



*مکروہاتِ روزہ پر مشتمل 12 پیرے*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، گالی دینا ، بیہودہ بات ، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں روزے میں اور زِیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزے میں کراہت آتی ہے۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۹۹۶)*

 {۲} روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔چکھنے کے لئے عذر یہ ہے کہ مَثَلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ نمک کم یا زیادہ ہوگا تو اُس کی ناراضی کا باعث ہوگا ، اِس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں ۔چبانے کیلئے عذر یہ ہے کہ اِتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں چبا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جا سکے ، نہ حیض و نفا س والی یا کوئی اور ایسا ہے کہ اُسے چبا کر دے تو بچے کے  کھلانے کیلئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں ۔
*(دُرِّ مُخْتار ج۳ ص۴۵۳)*

مگر پوری احتیاط رکھئے کہ غذا کا کوئی ذرّہ حلق سے نیچے نہ اترنے پائے۔

*چکھنا کسے کہتے ہیں ؟:*

چکھنے کے معنٰی وہ نہیں جو آج کل عام محاوَرہ ہے یعنی کسی چیز کا مزا دَریافت کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑا کھا لیا جاتا ہے! کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا بلکہ کفارے کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازِم ہوگا۔ 

*چکھنے سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان پر رکھ کر مزا دَریافت کر لیں اور اُسے تھوک دیں ، اُس میں سے حلق میں کچھ بھی نہ جانے پائے۔*
*(بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۶)*

 {۳} کوئی چیز خریدی اور اُس کا چکھنا ضروری ہے کہ اگر نہ چکھا تَو نقصان ہوگا تو ایسی صورت میں چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔
*(دُرِّمُخْتارج۳ص۴۵۳)*

 {۴} بیوی کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن کو چھونا مکروہ نہیں ۔ ہاں یہ اَندیشہ ہو کہ اِنْزال ہو جائے گا *(یعنی منی نکل جائے گی)* یا جماع میں مبتلا ہوگا اور ہونٹ اور زبان چوسنا روزے میں مُطلقاً مکروہ ہیں ۔یوں ہی مباشرتِ فاحشہ *(یعنی شرمگاہ سے شرمگاہ ٹکرانا)*
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۴)*

  {۵} گلاب یا مشک وغیرہ سُونگھنا ، داڑھی مونچھ میں تیل لگانا اور سُرمہ لگانا مکروہ نہیں ۔
*(اَیضاً ص۴۵۵)* 

 {۶} روزے کی حالت میں ہر قِسْم کا عِطْر سونگھ بھی سکتے ہیں اور لگا بھی سکتے ہیں ۔(اَیضاً)

اِسی طرح روزے میں بدن پر تیل کی مالش *(Massage)* کرنے میں بھی حرج نہیں۔

 {۷} روزے میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دِنوں میں سُنَّت ہے وَیسے ہی روزے میں بھی سُنَّت ہے ،  مسواک خشک ہو یا تر ، اگرچہ پانی سے تر کی ہو ، زَوال سے پہلے کریں یا بعد ، کسی وَقت بھی مکروہ نہیں۔
*(اَیضاً ص۴۵۸)*

 {۸} اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کیلئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب حنفیہ کے خلاف ہے۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۹۹۷)*

  *حضرتِ سَیِّدُنا عامر بن رَبیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے: میں نے رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار بار روزے میں مسواک کرتے دیکھا۔*
*(تِرمذی ج ۲ ص۱۷۶حدیث ۷۲۵)*

 {۹} اگر مسواک چبانے سے ریشے چھوٹیں یا مزا محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے میں نہیں کرنا چاہئں۔
*(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ص۵۱۱)*

اگر روزہ یاد ہوتے ہوئے مسواک چباتے یا دانت مانجھتے ہوئے اس کا ریشہ یا کوئی جز حلق سے نیچے اتر گیا اور اس کا مزا حلق میں محسوس ہوا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ اور اگر اتنے سارے ریشے حلق سے نیچے اتر گئے جو ایک چنے کی مقدار کے برابر ہوں تو اگرچہ حلق میں  ذائقہ محسوس نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جا ئے گا۔

 {۱۰} وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈک پہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈک کیلئے نہانا بلکہ بَدَن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا بھی مکروہ نہیں۔ ہاں پریشانی ظاہِر کرنے کیلئے بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے کہ عبادَت میں دِل تنگ ہونا اچھی بات نہیں ۔
*(بہار شریعت ج۱ص۹۹۷، رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۹)*

 {۱۱} بعض اِسلامی بھائی روزے میں بار بار تھوکتے رہتے ہیں ، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ روزے میں تھوک نہیں نگلنا چاہئے ، ایسا نہیں۔
البتہ منہ میں تھوک اِکٹھا کر کے نگل جانا ، یہ تو بغیر روزہ کے بھی نا پسندیدہ ہے اور روزے میں مکروہ۔
*(بہار شریعت ج۱ ص ۹۹۸)*

 {۱۲} رَمَضانُ الْمُبارَک کے دِنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضعف *(یعنی کمزوری)* آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نانبائی کو چاہئے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دِن میں آرام کرے۔ *(دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۰)*

معمار و مزدور اور دیگر مشقت کے کام کرنے والے اس مسئلے پر غور فرما لیں ۔

روزہ نہ ٹوٹنے کے 21 احکام



*روزہ نہ ٹوٹنے کے 21 احکام*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} بھول کر کھایا ، پیا یا جماع کیا روزہ فاسد نہ ہوا ، خواہ وہ روزہ فرض ہو یا نفل۔
*(دُرِّمُخْتار ، رَدُّ المحتارج۳ص۴۱۹)*

*روزہ دار کو بھول کر کھاتا پیتا دیکھے تو کیا کرے؟*

 {۲} کسی روزہ دار کو اِن اَفعال میں دیکھیں تو یاد دِلانا واجب ہے ، ہاں روزہ دار بہت ہی کمزور ہو کہ یاد دِلانے پر وہ کھانا چھوڑ دے گا جس کی وجہ سے کمزوری اِتنی بڑھ جائے گی کہ اِس کیلئے روزہ رکھنا ہی دُشوار ہو جائے گا اور اگر کھالے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پُورا کر لے گا اور دیگر عبادَتیں بھی بخوبی ادا کر سکے گا *(اور چونکہ بھول کر کھا پی رہا ہے اِس لئے اِس کا روزہ تو ہو ہی جائے گا)* لہٰذا اِس صورت میں یاد نہ دِلانا ہی بِہتر ہے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۱)*

 بعض مشائخِ کرام فرماتے ہیں : جو ان کو دیکھے تو یاد دِلا دے اور بوڑھے کو دیکھے تو یاد نہ دِلانے میں حَرج نہیں ۔ مگر یہ حُکم اکثر کے لحاظ سے ہے کیونکہ جوان اکثر قوی *(یعنی طاقتور )* ہوتے ہیں اور بوڑھے اکثر کمزور۔ چنانچہ اَصل حُکم یہی ہے کہ جوانی اور بڑھاپے کو کوئی دَخل نہیں ،  بلکہ قوت و ضعف *(یعنی طاقت اور کمزوری)* کا لحاظ ہے لہٰذا اگر جوان اِس قَدَر کمزور ہو تو یاد نہ دِلانے میں حرج نہیں اور بوڑھا قوی *(یعنی طاقتور)* ہو تو یاد دِلانا واجب ہے۔
*( رَدُّ الْمُحتَار ج۳ص۴۲۰ )*

 {۳} روزہ یاد ہونے کے باوجود بھی مکھی یا غبار یا دُھواں حلق میں چلے جانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ خواہ غبار آٹے کا ہو جو چکی پیسنے یا آٹا چھاننے میں اُڑتا ہے یا غلے *(یعنی اناج)* کا غبار ہو یا ہوا سے خاک اُڑی یا جانوروں کے کھر یا ٹاپ سے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۲)*

{۴} اسی طرح بس یا کار کا دُھواں یا اُن سے غبار اُڑ کر حلق میں پہنچا اگرچِہ روزہ دار ہونا یاد تھا، روزہ نہیں جائے گا۔

 {۵} اگر بتی سلگ رہی ہے اور اُس کا دُھواں ناک میں گیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔ ہاں لوبان یا اگر بتی سلگ رہی ہو اور روزہ یاد ہونے کے باوجود منہ قریب لے جا کر اُس کا دُھواں ناک سے کھینچا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔
*(اَیضاً،  اَیضاً ص۴۲۱)*

 {۶} بھری سِینگی لگوائی یا تیل یا سرمہ لگایا تو روزہ نہ گیا ، تیل یا سرمے کا مزا حلق میں محسوس ہوتا ہو بلکہ تھوک میں سُرمے کا رنگ بھی دکھائی دیتا ہو جب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا۔
 *(رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۲۰)*

 {۷} غسل کیا اور پانی کی خنکی *(یعنی ٹھنڈک)* اندر محسوس ہوئی جب بھی روزہ نہیں ٹوٹا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۳)*

 {۸} کلی کی اور پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری منہ میں باقی رہ گئی تھی تھوک کے  ساتھ اِسے نگل لیا، روزہ نہیں ٹوٹا۔
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۲۰)*

 {۹} دوا کوٹی اور حلق میں اِس کا مزا محسوس ہوا روزہ نہیں ٹوٹا۔ *(اَیضاً ص۴۲۲)*

 {۱۰} کان میں پانی چلا گیا جب بھی روزہ نہیں ٹوٹا بلکہ خود پانی ڈالا جب بھی نہ ٹوٹا۔
*(دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۲۲)*

البتّہ کان کا پردہ پھٹا ہوا ہو تو کان میں  پانی ڈالنے سے حلق کے  نیچے چلا جائے گا اور روزہ ٹوٹ جائے گا۔

 {۱۱} تنکے سے کان کھجا یا اور اُس پر کان کا میل لگ گیا پھر وُہی میل لگا ہوا تنکا کان میں ڈالا اگرچہ چند بار ایسا کیا ہو جب بھی روزہ نہ ٹوٹا۔
*(اَیضاً)*

 {۱۲} دانت یا منہ میں خفیف *(یعنی معمولی)* چیز بے معلوم سی رہ گئی کہ لعاب کیساتھ خود ہی اُتر جائے گی اور وہ اُتر گئی ، روزہ نہیں ٹوٹا۔ *(اَیضاً)*

 {۱۳} تل یا تل کے برابر کوئی چیز چبائی اور تھوک کے ساتھ حلق سے اُتر گئی تَو روزہ نہ گیا مگر جب کہ اُس کا مزا حلق میں محسوس ہوتا ہو تو روزہ جاتا رہا۔
*(فَتحُ القدیر ج۲ص۲۵۹)*

 {۱۴} تھوک یا بلغم منہ میں آیا پھر اُسے نِگل گیا تو روزہ نہ گیا۔
*(دُرِّ مُخْتار ، رَدُّ المحتار ج۳ ص۴۲۸)*

 {۱۵} اِسی طرح ناک میں رِینٹھ جمع ہو گئی ، سانس کے ذَرِیعے کھینچ کر نِگل جانے سے بھی روزہ نہیں جاتا۔
*(دُرِّ مُخْتار ج۳ ص۴۲۲)*

 {۱۶} دانتوں سے خون نکل کر حلق تک پہنچا مگر حلق سے نیچے نہ اُترا تو روزہ نہ گیا۔
*(اَیضاً)*

{۱۷} مکھی حَلْق میں چلی گئی روزہ نہ گیا اور قَصْداً *(یعنی جان بوجھ کر)* نگلی تَو چلا گیا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۳)*

 {۱۸} بھولے سے کھانا کھا رہے تھے ، یاد آتے ہی لقمہ پھینک دیا یا پانی پی رہے تھے یاد آتے ہی مُنہ کا پانی پھینک دیا تو روزہ نہ گیا ۔اگر مُنہ میں کا لقمہ یا پانی یاد آنے کے باوُجود نگل گئے تو روزہ گیا۔ *(اَیضاً)*

 {۱۹} صبح صادِق سے پہلے کھا یا پی رہے تھے اور صبح ہوتے ہی *(یعنی سَحَری کا وَقت خَتْم ہوتے ہی)* مُنہ میں کا سب کچھ اُگل دیا تَو روزہ نہ گیا ، اور اگر نگل لیا تو جاتا رہا۔ *(اَیضاً)*

 {۲۰} غیبت کی تو روزہ نہ گیا۔اگرچہ غیبت سخت کبیرہ گناہ ہے ، قراٰنِ مجید میں غیبت کرنے کی نسبت فرمایا: *جیسے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا۔* اور حدیث پاک میں فرمایا: *غیبت زِنا سے سخت تر ہے۔*
*(مُعجَم اَوسَط ج۵ص۶۳حدیث۶۵۹۰)*

 غیبت کی وجہ سے روزے کی نورانیت جاتی رہتی ہے ۔
*(بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)*

 {۲۱} جنابت *(یعنی غسل فرْض ہونے)* کی حالت میں صبح کی بلکہ اگرچہ سارے دِن جُنُب *(یعنی بے غسل)* رہا روزہ نہ گیا۔ 
*(دُرِّ مُخْتار ج۳ص۴۲۸)*

مگر اتنی دیر تک قصداً *(یعنی جان بُوجھ کر)* غسل نہ کرنا کہ نَماز قَضا ہو جائے گناہ و حرام ہے ۔
حدیثِ شریف میں فرمایا: *جس گھر میں جُنُب ہو اُس میں رَحمت کے فرشتے نہیں آتے۔*

*(ابوداوٗد ج۱ص۱۰۹حدیث۲۲۷ ، بہارِشریعت ج۱ص۹۸۴)*

روزے میں قے کے سات احکام



*روزے میں قے کے سات احکام*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} روزے میں خود بخود کتنی ہی قَے *(یعنی اُلٹی۔ Vomiting) ہو جائے (خواہ بالٹی ہی کیوں نہ بھر جائے)* اِس سے روزہ نہیں ٹوٹتا*(دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۰)*

{۲} اگر روزہ یاد ہونے کے باوُجُود قَصْداً *(یعنی جان بُوجھ کر)* قَے کی اور اگر وہ مُنہ بھر ہے *(مُنہ بھر کی تعریف آگے آتی ہے)* تَو اب روزہ ٹوٹ جائے گا*(ایضاً ص۴۵۱)*

{۳} قَصْداً *(یعنی جان بوجھ کر)* مُنہ بھر ہونے والی قَے سے بھی اِس صورت میں روزہ ٹوٹے گا جبکہ قَے میں کھانا یا *(پانی)* یا صَفْرا *(یعنی کڑوا پانی)* یا خُون آئے 
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۴)*

{۴} اگر *(منہ بھر)* قَے میں صرف بلغم نکلا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا*(دُرِّمُختَار ج۳ص۴۵۲)*

{۵} قصداً قَے کی مگر تھوڑی سی آئی ، مُنہ بھر نہ آئی تو اب بھی روزہ نہ ٹوٹا*(ایضاً ص۴۵۱)*

{۶} مُنہ بھر سے کم قے ہوئی اور منہ ہی سے دوبارہ لوٹ گئی یا خود ہی لَوٹا دی ، ان دونوں صورَتوں میں روزہ نہیں ٹوٹے گا *(اَیْضاً ص۴۵۰)*

{۷} مُنہ بھرقے بلا اِختیار ہو گئی تو روزہ تو نہ ٹوٹا البتہ اگر اِس میں سے ایک چنے کے برابر بھی واپس لوٹا دی تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور ایک چنے سے کم ہو تَو روزہ نہ ٹوٹا۔
*(دُرِّ مُختَارج۳ص۴۵۰)*

 *منہ بھر قے کی تعریف:*

مُنہ بھر قے کے مَعنٰی یہ ہیں : *اُسے بلا تکلف نہ روکا جا سکے*۔*(عالمگیری ج۱ص۱۱)*

روزہ توڑنے والی 14 چیزیں



*روزہ توڑنے والی 14 چیزیں*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} کھانے ، پینے یا ہمبستری کرنے سے روزہ جا تا رہتا ہے جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو۔
*(بہارِ شریعت ج ۱ ص ۹۸۵)*

 {۲} حقہ ، سگار ، سگریٹ ، چرٹ وغیرہ پینے سے بھی روزہ جاتا رہتا ہے ، اگرچہ اپنے خیال میں حلق تک دُھواں نہ پہنچتا ہو۔ *(ایضاً ص۹۸۶)*

 {۳} پان یا صرف تمباکو کھانے سے بھی روزہ جاتا رہے گا اگرچِہ بار بار اس کی پیک تھوکتے رہیں ، کیوں کہ حلق میں اُس کے باریک اَجزا ضرور پہنچتے ہیں ۔ *(اَیضاً)*

 {۴} شکر وغیرہ ایسی چیزیں جو منہ میں رکھنے سے گھل جاتی ہیں مُنہ میں رکھی اور تھوک نگل گئے ، روزہ جاتا رہا۔
*(اَیضاً)*

 {۵} دانتوں کے دَرمیان کوئی چیز چنے کے برابر یا زیادہ تھی اُسے کھا گئے یا کم ہی تھی مگر منہ سے نکال کر پھر کھا لی تو روزہ ٹوٹ گیا۔
*(دُرِّ مُخْتَار ج۳ص۴۵۲)*

 {۶} دانتوں سے خون نکل کر حلق سے نیچے اُترا اور خون تھوک سے زیادہ یا برابر یا کم تھا مگر اُس کا مزا حلق میں  محسوس ہوا تو روزہ جاتا رہا اور اگر کم تھا اور مزا بھی حلق میں محسوس نہ ہوا تو روزہ نہ گیا۔
*(ایضاًص۴۲۲)*

 {۷} روزہ یاد رہنے کے باوجود حُقنَہ لیا۔ یا ناک کے نتھنوں سے دوا چڑھائی روزہ جاتا رہا ۔
*(عالمگیری ج۱ ص۲۰۴)*

 {۸} کلی کر رہے تھے بلا قصد *(یعنی بغیر ارادے کے)* پانی حلق سے اُتر گیا یا ناک میں پانی چڑھایا اور دِماغ کو چڑھ گیا روزہ جاتا رہا مگر جبکہ روزہ دار ہونا بھول گیا ہو تو نہ ٹوٹے گا اگرچہ قصداً *(یعنی جان بوجھ کر)* ہو۔ یوں ہی روزے دار کی طرف کسی نے کوئی چیز پھینکی وہ اُس کے حلق میں چلی گئی تو روزہ جاتا رہا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۲)*

 {۹} سوتے میں *(یعنی نیند کی حالت میں)* پانی پی لیا یا کچھ کھا لیا ، یا مُنہ کھلا تھا ، پانی کا قطرہ یا بارِش کا اوْلا حلق میں چلا گیا تو روزہ جاتا رہا۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۶)*

{۱۰} دُوسرے کا تھوک نگل لیا یا اپنا ہی تھوک ہاتھ میں لے کر نگل لیا تو روزہ جاتا رہا۔
 *(عالمگیری  ج۱ص ۲۰۳)*

 {۱۱} جب تک تھوک یا بلغم منہ کے اندر موجود ہو اُسے نگل جانے سے روزہ نہیں جاتا ، بار بار تھوکتے رہنا ضروری نہیں۔

 {۱۲} منہ میں رنگین ڈَورا وغیرہ رکھا جس سے تھوک رنگین ہو گیا پھر تھوک نگل لیا روزہ جاتا رہا۔ *(اَیضاً)*

 {۱۳} آنسو منہ میں چلا گیا اور نگل لیا ، اگر قَطْرہ دو قَطْرہ ہے تو روزہ نہ گیا اور زیادہ تھا کہ اُس کی نمکینی پورے مُنہ میں  محسوس ہوئی تو جاتا رہا ۔پسینے کا بھی یہی حُکم ہے۔*(اَیضاً)*

 {۱۴} پاخانے کا مَقام باہَر نکل پڑا تَو حکم ہے کہ کپڑے سے خوب پونچھ کر اُٹھے کہ تری بالکل باقی نہ رہے۔ اور اگر کچھ پانی اُس پر باقی تھا اور کھڑا ہوگیا کہ پانی اندر کو چلا گیا تَو روزہ فاسد ہو *(یعنی ٹوٹ)* گیا۔ اِسی وجہ سے فُقَہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں کہ روزہ دار اِستنجاء *(یعنی پانی سے پاکی حاصل)* کرنے میں سانس نہ لے۔*(بہارِ شریعت ج۱ص۹۸۸)*


*تراویح کے احکام*





*تراویح کے احکام* 


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*


 {۱} تراویح ہر عاقِل و بالغ اسلامی بھائی اور اسلامی بہن کیلئے سنَّت مُؤَکَّدہ ہے۔ 
*(دُرِّ مُخْتارج ۲ص۵۹۶)*

  اس کا تَرْک جائز نہیں ۔
*(بہار شریعت ج۱ص۶۸۸)*

 {۲} تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ہیں ۔ *سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ* کے عہد میں بیس رَکْعَتَیں ہی پڑھی جاتی تھیں ۔
*(السُّنَن الکبرٰی للبیہقی ج۲ص۶۹۹حدیث۴۶۱۷)*

 {۳} تراویح کی جماعت سنّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے ، اگر مسجد کے سارے لوگوں نے چھوڑ دی تو سب اِساءَت کے مرتکب ہوئے *(یعنی بُرا کیا)* اور اگر چند افراد نے با جماعت پڑھ لی تو تنہا پڑھنے والا جماعت کی فضیلت سے محروم رہا۔
*(ہِدایہ ج۱ص۷۰)*

 {۴} تراویح کا وقت عشاء کےفرض پڑھنے کے بعد سے صبحِ صادِق تک ہے ۔ عشاء کے فرض ادا کرنے سے پہلے اگر پڑھ لی تو نہ ہوگی۔
*(عالمگیری ج۱ص ۱۱۵)*  

 {۵} وتر کے بعد بھی تراویح پڑھی جا سکتی ہے ۔
*(دُرِّمُختار ج۲ص۵۹۷)*

جیسا کہ بعض اوقات 29 کو رویت ہلال کی شہادت *(یعنی چاند نظر آنے کی گواہی)* ملنے میں تاخیر کے سبب ایسا ہو جاتا ہے۔

 {۶} مُستَحَب یہ ہے کہ تراویح میں تہائی رات تک تاخیر کریں ، اگر آدھی رات کے بعد پڑھیں تب بھی کراہت نہیں ۔ *(لیکن عشاء کے فرض اتنے مؤخّر (Late) نہ کئے جائیں)* *(اَیضاً ص۵۹۸)*

 {۷} تراویح اگر فوت ہوئی تو اس کی قضا نہیں ۔ *(اَیضاً)*

 {۸} بِہتر یہ ہے کہ تراویح کی بیس رَکْعَتَیں دو دو کر کے دس سلام کے ساتھ ادا کر یں ۔
*(اَیضا ص۵۹۹)*

 {۹} تراویح کی بیس رَکْعَتَیں ایک سلام کے ساتھ بھی ادا کی جا سکتی ہیں ، مگر ایسا کرنا مکروہِ (تنزیہی) ہے۔ *(اَیضاً)* ہر دو رَکعت پر قعدہ کرنا فرض ہے ، ہر قعدے میں اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُود شریف بھی پڑھے اور طاق رَکعت *(یعنی پہلی ، تیسری ، پانچویں وغیرہ)*  میں ثَنا پڑھے اور امام تعوذ و تَسْمِیہ بھی پڑھے ۔

{۱۰} جب دو دو رَکعت کر کے پڑھ رہا ہے تو ہر دو رَکعت پر الگ الگ نیت کرے اور اگر بیس رَکْعَتوں کی ایک ساتھ نیت کر لی تب بھی جائز ہے۔
*(رَدُّ الْمُحتار ج۲ص۵۹۷)*

 {۱۱} بلا عذر تراویح بیٹھ کر پڑھنا مکروہ ہے بلکہ بعض فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کے نزدیک تو ہوتی ہی نہیں۔
*(دُرِّمُختار ج۲ص۶۰۳)*

 {۱۲} تراویح مسجِد میں باجماعت ادا کرنا افضل ہے ، اگر گھر میں باجماعت ادا کی تو ترکِ جماعت کا گناہ نہ ہوا مگر وہ ثواب نہ ملے گا جو مسجد میں پڑھنے کا تھا۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۱۶)*

  عشاء کے فرض مسجد میں باجماعت ادا کر کے پھر گھر یا ہال وغیرہ میں تراویح ادا کیجئے اگر بلا عذرِ شرعی مسجد کے بجائے گھر یا ہال وغیرہ میں عشاء کے فرض کی جماعت قائم کر لی تو ترک واجب کے گناہ گار ہوں گے ۔ اس کا تفصیلی مسئلہ فیضان سنت *(جلد اوّل)* کے باب *پیٹ کا قفل مدینہ* صفحہ 135 پر ملاحَظہ فرما لیجئے۔

 {۱۳} نابالِغ امام کے پیچھے صرف نابالغان ہی تراویح پڑھ سکتے ہیں ۔

 {۱۴} بالِغ کی تراویح *( بلکہ کوئی بھی نماز حتی کہ نفل بھی)* نابالغ کے پیچھے نہیں ہوتی۔

{۱۵} تراویح میں پورا کلامُ اللہ شریف پڑھنا اور سننا سنَّتِ مُؤَکَّدہ عَلَی الْکِفَایہ ہے لہٰذا اگر چند لوگوں نے مل کر تراویح میں ختم قراٰن کا اہتمام کر لیا تو بقیہ علاقے والوں کیلئے کفایت کرے گا۔ *فتاوٰی رضویہ* جلد 10 صفحہ 334 پر ہے :  قرآن دَرْ تراویح خَتم کَرْدَنْ نَہ فَرْضَ سْت وَ نَہ سُنَّتِ عین۔ یعنی تراویح میں قراٰنِ کریم ختم کرنا نہ فرض نہ سنَّتِ عین ہے۔ اور صفحہ 335 پر ہے: خَتْمِ قُرآن دَرْ تراویح سنّتِ کِفایہ اَسْت۔ یعنی تراویح میں ختمِ قراٰن سنَّتِ کِفایہ ہے۔

 {۱۶} اگر با شرائط حافِظ نہ مل سکے یا کسی وجہ سے ختم نہ ہو سکے تو تراویح میں کوئی سی بھی سورَتیں پڑھ لیجئے اگر چاہیں تو *اَلَمْ تَرَ سے وَالنَّاس* دو بار پڑھ لیجئے ، اِس طرح بیس رَکْعَتَیں یاد رکھنا آسان رہے گا۔
*(ماخوذ از عالمگیری ج۱ص۱۱۸)*

 {۱۷} ایک بار *بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ* جَہر کے ساتھ *( یعنی اُونچی آواز سے )* پڑھنا سنت ہے اور ہر سورت کی ابتدا میں آہستہ پڑھنا مُستَحَب ہے۔ مُتَأَخِّرین *(یعنی بعد میں آنے والے فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام )* نے ختم تراویح میں  تین بار قُل ھُوَ اللہ شریف پڑھنا مُسْتَحَب کہا نیز بہتر یہ ہے کہ ختم کے دن پچھلی رَکعت میں *الٓمّٓۚ سے مُفْلِحُوْن* تک پڑھے ۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۴، ۶۹۵)*

 {۱۸} اگر کسی وجہ سے تراویح کی نماز فاسد ہو جائے تو جتنا قراٰنِ پاک اُن رَکعتوں میں پڑھا تھا اُن کا اِعادہ کریں تاکہ ختم میں نقصان نہ رہے۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۱۸)*

 {۱۹} امام غلطی سے کوئی آیت یا سورت چھوڑ کر آگے بڑھ گیا تو مُسْتَحَب یہ ہے کہ اُسے پڑھ کر پھر آگے بڑھے۔ *(اَیضاً)*

 {۲۰} الگ الگ مسجِد میں تراویح پڑھ سکتا ہے جبکہ ختم قراٰن میں نقصان نہ ہو ، مَثَلاً تین مساجد ایسی ہیں کہ ان میں ہر روز سوا پارہ پڑھا جاتا ہے تو تینوں میں روزانہ باری باری جاسکتا ہے۔

 {۲۱} دو رَکعت پر بیٹھنا بھول گیا تو جب تک تیسری کا سجدہ نہ کیا ہو بیٹھ جائے ، آخر میں سجدۂ سہو کر لے۔اور اگر تیسری کا سجدہ کر لیا تو چار پوری کر لے مگر یہ دو شمار ہوں گی۔ ہاں دو پر قعدہ کیا تھا تو چار ہوئیں ۔ *(اَیضاً)*

 {۲۲} تین رَکْعَتَیں پڑھ کر سلام پھیرا اگر دوسری پر بیٹھا نہیں تھا تو نہ ہوئیں ان کے بدلے کی دو رَکْعَتَیں دوبارہ پڑھے۔  *(اَیضاً)*

 {۲۳} سلام پھیرنے کے بعد کوئی کہتا ہے دو ہوئیں کوئی کہتا ہے تین ، تو امام کو جو یاد ہو اُس کا اعتبار ہے ، اگر امام خود بھی تذبذب *(یعنی شک و شبہ)* کا شکار ہو تو جس پر اعتماد ہو اُس کی بات مان لے *(اَیضاًص۱۱۷)*

 {۲۴} اگر لوگوں کو شک ہو کہ بیس ہوئیں یا اٹھارہ؟ تو دو رَکْعَت تنہا تنہا پڑھیں ۔
*(اَیضاً)*
 {۲۵} افضل یہ ہے کہ تمام شفعوں میں قراءت برابر ہو اگر ایسا نہ کیا جب بھی حرج نہیں ، اِسی طرح ہر شفع *( کہ دو رکعت پر مشتمل ہوتا ہے اس )*  کی پہلی اور دوسری رَکعت کی قراءت مساوی *(یعنی یکساں)* ہو ، دوسری کی قراءت پہلی سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ *(اَیضاً)*

 {۲۶} امام و مقتدی ہر دو رَکعت کی پہلی میں ثنا پڑھیں *(امام اَعُوْذ اور بِسْمِ اللّٰہ بھی پڑھے)* اور اَلتَّحِیَّاتُ کے بعد دُرُودِ ابراہیم اور دعا بھی۔
*(دُرِّمُختار و رَدُّالْمُحتار ج۲ص۶۰۲)*

 {۲۷} اگر مقتدیوں پر گِرانی *(دشواری)* ہوتی ہو تو تشہد کے بعد اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہٖ پر اکتفا کرے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰)*

 {۲۸} اگر ستائیسویں کو یا اس سے قبل قراٰنِ پاک ختم ہوگیا تب بھی آخرِ رَمضان تک تراویح پڑھتے رہیں کہ سنّتِ مُؤَکَّدہ ہے۔ *(عالمگیری ج۱ص۱۱۸)*

 {۲۹} ہر چار رَکْعَتَوں کے بعد اُتنی دیر بیٹھنا مُستَحَبْ ہے جتنی دیر میں چار رَکعات پڑھی ہیں ۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۰)*

 {۳۰} اس بیٹھنے میں اسے اختیار ہے کہ چپ بیٹھا رہے یا ذِکر و دُرُود اور تلاوت کرے یا چار رَکعتیں تنہا نفل پڑھے *(دُرِمُخْتار ج۲ص۶۰۰)*

یہ تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں :

*سُبْحٰنَ ذِی الْمُلْكِ وَالْمَلَكُوْتِ ، سُبْحٰنَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظَمَۃِ وَالْہَيْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْكِبْرِيَآءِ وَالْجَبَرُوْتِ ، سُبْحٰنَ الْمَلِكِ الْحَیِّ الَّذِی لَا يَنَامُ وَلَا يَمُوْتُ ، سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّ الْمَلٰٓئِكَۃِ وَالرُّوْحِ اَللّٰہُمَّ اَجِرْنِیْ مِنَ النَّارِ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ يَا مُجِيْرُ ۔ بِرَحْمَتِكَ يَا اَرْحَمَ الرَّاحِمِيْنَ*

{۳۱} بیس رَکْعَتَیں ہو چکنے کے بعد پانچواں ترویحہ بھی مُسْتَحَب ہے ، اگر لوگوں پر گراں ہو تو پانچویں بار نہ بیٹھے۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۱۵)*

 {۳۲} مقتدی کو جائز نہیں کہ بیٹھا رہے ، جب امام رکوع کرنے والا ہو تو کھڑا ہو جائے ، یہ مُنافقین سے مشابہت ہے۔ سُوْرَۃُ النِّسَآء کی آیت نمبر 142 میں ہے: *وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ*

*(ترجَمۂ کنزالایمان : اور (منافِق) جب نَماز کو کھڑے ہوں تو ہارے جی سے)*
*(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۳، غُنیہ ص۴۱۰)*

فرض کی جماعت میں بھی اگر امام رُکوع سے اُٹھ گیا تو سجدوں وغیرہ میں فورًا شریک ہو جائیں نیز امام قعدۂ اُولیٰ میں ہو تب بھی اُس کے کھڑے ہونے کا انتظار نہ کریں بلکہ شامل ہو جائیں ۔ اگر قعدے میں  شامل ہو گئے اور امام کھڑا ہو گیا تو اَلتَّحِیَّاتُُ پوری کئے بغیر نہ کھڑے ہوں ۔

 {۳۳} رَمضان شریف میں وِتر جماعت سے پڑھنا افضل ہے ، مگر جس نے عشاء کے فرض بغیر جماعت کے پڑھے وہ وِتر بھی تنہا پڑھے۔
*(بہارِ شریعت ج۱ص۶۹۲، ۶۹۳ مُلَخَّصاً )*

 {۳۴} یہ جائز ہے کہ ایک شخص عشاء و وِتر پڑھائے اور دوسرا تراویح ۔

 {۳۵} حضرت سیّدُنا عمرِ فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرض و وِتر کی جماعت کرواتے تھے اور حضرتِ سیِّدُنا اُبَیِّ بِنْ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تراویح پڑھاتے۔

*(عالمگیری ج۱ص۱۱۶)*

سحری و افطار کے احکام سحری روزے کیلئے شرط نہیں سحری کا وقت کب ہوتا ہے؟ اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے! دعائے بعدِ افطار افطار کے لیے اذان شرط نہیں



            سحری و افطار کے احکام

سحری روزے کیلئے شرط نہیں
سحری کا وقت کب ہوتا ہے؟
اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے!
دعائے بعدِ افطار
افطار کے لیے اذان شرط نہیں


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*


*سحری و افطار کے احکام*
*سحری روزے کیلئے شرط نہیں* 

سحری کرنا سنت ہے : سحری کے بِغیر بھی روزہ ہو سکتا ہے مگر جان بوجھ کر سحری نہ کرنا مناسب نہیں کہ ایک عظیم سنت سے محرومی ہے اور سحری میں  خوب ڈٹ کر کھانا ہی ضَروری نہیں ، چند کَھجوریں اور پانی ہی اگر بہ نیت سحری استعمال کر لیں جب بھی کافی ہے۔

*سحری کا وقت کب ہوتا ہے؟*

حنفیوں کے بہت بڑے عالم حضرتِ علامہ مولانا *علی قاری* عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی فرماتے ہیں : بعضوں کے  نزدیک سحری کا وَقت آدھی رات سے شروع ہو جاتا ہے۔ 
*(مِرقاۃُ المفاتیح  ج۴ ص۴۷۷)*

*سحری میں تاخیر اَفضل ہے*

 جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا *یعلی بن مرہ* رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہ سے رِوایت ہے کہ :

*مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ* نے فرمایا:

تین چیزوں کو اللہ عَزَّوَجَلَّ محبوب رکھتا ہے
(ا) اِفطار میں جلدی اور 
(۲) سحری میں تاخیر اور 
(۳) نماز *(کے قیام)* میں ہاتھ پر ہاتھ رکھنا۔    
*(مُعجَم اَوسَط ج۵ ص۳۲۰ حدیث۷۴۷۰)*

سحری میں تاخِیر کرنا مُسْتَحَب ہے مگر اتنی تاخیر بھی نہ کی جائے کہ صبحِ صادق کا شبہ ہونے لگے

*اَذانِ فجر نماز کے لیے ہے نہ کہ روزہ بند کرنے کے لیے!*

بعض لوگ صبح صادِق کے بعد فجر کی اذان کے دوران کھاتے پیتے رہتے ہیں ، اور بعض کان لگا کر سنتے ہیں کہ ابھی فلاں مسجِد کی اذان ختم نہیں ہوئی یا کہتے ہیں : وہ سنو! دُور سے اذان کی آواز آرہی ہے! اور یوں کچھ نہ کچھ کھا لیتے ہیں ۔ اگر کھاتے نہیں تو پانی پی کر اپنی اِصطلاح میں *روزہ بند* کرتے ہیں ۔ آہ ! اِس طرح *روزہ بند* تو کیا کریں گے روزے کو بالکل ہی *کھلا* چھوڑ دیتے ہیں اور یوں صبح صادق کے بعد کھا یا پی لینے کے سبب ان کا روزہ ہوتا ہی نہیں ، اور سارا دن بھوک پیاس کے سوا کچھ ان کے ہاتھ آتا ہی نہیں ۔ *روزہ بند* کرنے کا تعلق اَذانِ فجر سے نہیں صبح صادِق سے پہلے پہلے کھانا پینا بند کرنا ضروری ہے۔

*اِفطار کا بیان*

جب غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے ، اِفطَار کرنے میں  دیر نہیں کرنی چاہئے ، نہ سائرن کا اِنتظار کیجئے نہ اَذان کا ، فَوراً کوئی چیز کھا یا پی لیجئے مگر کَھجور یا چھوہارا یا پانی سے اِفطَار کرنا سُنَّت ہے۔
*فتاوٰی رضویہ* میں ہے:

سوال : روزہ اِفطار کرنا کس چیز سے مسنون *(سنّت)* ہے۔ جواب: خرمائے تر *(یعنی کھجور)* اور نہ ہو تو خشک *(یعنی چھوہارا)* اور نہ ہو تو پانی ۔
*(فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ  ج۱۰ ص ۶۲۸۔۶۲۹)*


*دعائے بعدِ افطار*

*فرمانِ مصطَفٰےصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے:*

*اے علی!* جب تم رمضان کے مہینے میں روزہ رکھو تو افطار کے بعد یہ دعا پڑھو:
*اَللّٰھُمَّ لَکَ صُمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ وَعَلٰی رِزْقِکَ اَفْطَرْتُ* ۔

ترجمہ: *اے اللہ عَزَّوَجَلَّ!* میں نے تیرے لئے روزہ رکھا اور تجھی پر بھروسا کیا اور تیرے ہی عطا کردہ رِزق سے اِفطار کیا۔

تو تمہارے لیے تمام روزے داروں کی مثل اجر لکھا جائے گا اور ان کے ثواب میں بھی کمی نہیں کی جائے گی۔
*(بُغْیَۃُ الْباحِث عن زوائِدِ مسندِ الْحارث ج۱ ص۵۲۷ حدیث۴۶۹)*

 اس کے بعد ہو سکے تو مزید دعائیں بھی کیجئے کہ وقت قبول ہے۔

*افطار کے لیے اذان شرط نہیں*

اِفطار کی دُعا عموماً قبل از اِفطار پڑھنے کا رواج ہے مگر *امامِ اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے فتاویٰ رضویہ(مُخَرَّجہ)* جلد 10 صفحہ631 میں اپنی تحقیق یہی پیش کی ہے کہ دُعا اِفطار کے بعد پڑھی جائے۔ افطار کیلئے اذان شرط نہیں ، ورنہ اُن عَلاقوں یا شہروں میں روزہ کیسے کھلے گا جہاں مساجد ہی نہیں یا اذان کی آواز نہیں آتی ۔ بہرحال اَذان نَمازِ مغرب کیلئے ہوتی ہے ۔ 

توجہ :
*غذا سے افطار کے بعد نماز کیلئے منہ صاف کرنا ضروری ہے*