شرائط صلحِ امام حسن اور حکومتِ سیدنا معاویہ عادلانہ اور نعرہ فیضان معاویہ جاری رہے گا اور کونڈوں کی تحقیق.........!!
شرائط صلحِ امام حسن اور حکومتِ سیدنا معاویہ عادلانہ اور نعرہ فیضان معاویہ جاری رہے گا اور کونڈوں کی تحقیق.........!!
.
*سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر کی حکومت جیسی عادلانہ برحق تھی،رضی اللہ تعالیٰ عنھما*
عَمِلَ مُعَاوِيَةُ بِسِيرَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ سِنِينَ لَا يَخْرِمُ مِنْهَا شَيْئًا»
سیدنا معاویہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت پر سالوں تک عمل کیا۔۔۔ان سالوں میں سوئی برابر بھی راہ حق سے نہ ہٹے
(السنة لأبي بكر بن الخلال روایت683)
وقال المحقق إسناده صحيح
(حاشیۃ معاوية بن أبي سفيان أمير المؤمنين وكاتب وحي النبي الأمين صلى الله عليه وسلم - كشف شبهات ورد مفتريات1/151)
سالوں کی قید شاید اس لیے لگاءی کہ تاکہ وہ سال نکل جائیں جن میں سیدنا معاویہ نے ولی عہد کیا...کیونکہ ولی عہد سیدنا عمر کی سیرت نہیں بلکہ سیدنا معاویہ کا اجتہاد تھا...جب سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی حکومت سیدنا عمر کے نقش قدم پر تھی اور سیدنا عمر کی حکومت رسول کریم کے ارشادات کے مطابق تھی تو ایسی برحق عادلانہ حکومتوں کے بارے میں کیوں نہ کہا جائے کہ فیضان عمر جاری رہے گا ، فیضان معاویہ جاری رہے گا
.
*#شرائط_صلح:*
فأرسل إليه الحسن يبذل له تسليم الأمر إليه، على أن تكون له الخلافة من بعده، وعلى ألا يطالب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وعلى أن يقضي ديونه، فأجاب معاوية إلى ما طلب، فاصطلحا على ذلك فظهرت المعجزة النبوية في قوله صلى الله عليه وسلم: "يصلح الله به بين فئتين من المسلمين"
(پہلی شرط:)
سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ سیدنا معاویہ کو خلافت اور حکومت دینے کے لیے تیار ہیں ان شرائط پر کہ سیدنا معاویہ کے بعد حکومت سیدنا حسن کو ملے گی
اور
(دوسری شرط)
اہل مدینہ، اہل حجاز اور اہل عراق سے(محض اختلاف و گروپ کی وجہ سے)کوئی مطالبہ مواخذہ نہیں کیا جائے گا(شرعا جو مواخذہ ہوگا وہ کیا جائے گا)
اور
(تیسری شرط)
ایک شرط یہ تھی کہ سیدنا معاویہ حضرت امام حسن کا قرض چکائیں گے تو حضرت معاویہ نے ان شرائط پر صلح کرلی تو معجزہ نبوی ظاہر.و.پورا ہوا کہ جو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ اللہ تعالی میرے اس بیٹے کے ذریعے سے دو مسلمان گروہوں کے درمیان صلح کرائے گا
(تاريخ الخلفاء ص147)
(سمط النجوم العوالي3/89)
(أسد الغابة ط الفكر1/491)
(تهذيب الأسماء واللغات1/159)
.
(چوتھی شرط)
وإني قد أخذت لكم على معاوية أن يعدل فيكم
امام حسن نے فرمایا کہ میں نے سیدنا معاویہ سے یہ عہد لیا ہے کہ وہ تم میں عدل کا معاملہ کریں گے
(الطبقات الكبرى-متمم الصحابة1/326)
.
.
(پانچویں_شرط)
*#متنازعہ،غیر متفقہ شرط کہ ولی عہد نہ کریں گے:*
صالحه عَلَى أن يسلم إِلَيْهِ ولاية أمر المسلمين عَلَى أن يعمل فِيهَا بكِتَاب اللَّهِ وسنة نبيه وسيرة الخلفاء الصالحين؟! وعلى أنه ليس لمعاوية أن يعهد لأحد من بعده، وأن يكون الأمر شورى....ردھما الی معاویہ
سیدنا امام حسن نے اس بات پر صلح کی کہ سیدنا معاویہ کو وہ حکومت دیں گےاس شرط پر کہ سیدنا معاویہ عمل کریں گے کتاب اللہ پر نبی پاک کی سنتوں پر اور خلفائے راشدین کی سیرت پر۔۔۔۔۔۔اور سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو مقرر نہ کریں گے بلکہ معاملہ شوری پر چھوڑیں گے۔۔۔یہ شرائط لکھ کر سیدنا معاویہ کی طرف خط بھیجا
(أنساب الأشراف للبلاذري3/42)
.
متنازعہ شرط نہ منظور ہوکر صلح ہوئی:
فَلَمَّا أَتَتِ الصَّحِيفَةُ إِلَى الْحَسَنِ اشْتَرَطَ أَضْعَافَ الشُّرُوطِ الَّتِي سَأَلَ مُعَاوِيَةَ قَبْلَ ذَلِكَ وَأَمْسَكَهَا عِنْدَهُ، فَلَمَّا سَلَّمَ الْحَسَنُ الْأَمْرَ إِلَى مُعَاوِيَةَ طَلَبَ أَنْ يُعْطِيَهُ الشُّرُوطَ الَّتِي فِي الصَّحِيفَةِ الَّتِي خَتَمَ عَلَيْهَا مُعَاوِيَةُ، فَأَبَى ذَلِكَ مُعَاوِيَةُ وَقَالَ لَهُ: قَدْ أَعْطَيْتُكَ مَا كُنْتَ تَطْلُبُ فَلَمَّا اصْطَلَحَا
جو صحیفہ امام حسن کی طرف معاویہ نے روانہ کیا تھا جس پر مہر لگائی تھی امام حسن نے مذکورہ شرائط کے علاوہ کئ شرائط لگا دی تو حضرت معاویہ نےان(زائد)شرائط کو پورا کرنے سے انکار کر دیا پھر جب(زائد متنازع شرائط کو نکال کر ) دونوں نے صلح کرلی
(الكامل في التاريخ ج3 ص6)
۔
تفصیل:
یہ پانچویں شرط کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کتاب اللہ پر عمل کریں گے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کریں گے اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کریں گے تو اوپر گزرا کی سیدنا معاویہ کی حکومت سیدنا عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت کی طرح تھی، سیدنا معاویہ سیدنا عمر کے نقش قدم پر چلے۔۔۔باقی رہی بات یہ کہ سیدنا معاویہ اپنے بعد کسی کو خلیفہ بنا کر نہ جائیں گےتو اس شرط کے غیرمتفقہ متنازعہ غیرموجود مردود ہونے کی تین وجوہ ہیں
①ایک وجہ یہ ہے کہ سب سے پہلی شرط یہ تھی کہ حکومت سیدنا معاویہ کے بعد سیدنا حسن کو ملے گی شوری کا تو تذکرہ ہی نہیں تھا جبکہ یہ پانچویں شرط شوری کا بتا رہی ہے لیھذا یہ شرط پہلی شرط کے خلاف و مردود ہے…پہلی شرط میں یہ ہے کہ سیدنا حسن کو بعد از سیدنا معاویہ خلافت ملے گی، پہلی شرط میں یہ نہیں لکھا کہ سیدنا حسین کو حکومت ملے گی لیھذا سیدنا حسن کی وفات ہوگئ تو پہلی شرط خود بخود کالعدم ہوگئ اس لیے سیدنا معاویہ نے اجتہاد کرتے ہوئے یزید کے لیے بیعت لی...زیادہ سے زیادہ اسے اجتہادی خطاء کہا جاسکتا ہے مگر سیدنا معاویہ کو بدعہد خائن دھوکےباز نہیں کہا جاسکتا
②اور کسی کو مقرر نہ کرنے کی یہ شرط کسی معتبر تاریخ کی کتاب میں بھی نہیں آئی۔۔۔
③نیز یہ بھی کتابوں میں آیا ہے کہ کچھ شرطیں ایسی تھی کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا تھا تو عین ممکن ہے کہ یہ بھی انہی شرائط میں سے ہوں کہ جن کو سیدنا معاویہ نے رد کر دیا اور اس کے بعد سیدنا حسن سے صلح ہو گئی ہو
.
*سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کی اور بیعت کا حکم دیا:*
جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو
ترجمہ:
سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو
(الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65)
(المعرفة والتاريخ3/317)
(كوثر المعاني الدراري5/176)
(تاريخ بغداد ت بشار1/467)
.
فلما وقع الاتفاق على معاوية ونزل له السيد الحسن عن الأمر سُمي عام الجماعة
جب سیدنا معاویہ پر سب کا اتفاق ہو گیا اور سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے خلافت سے دستبردار ہو گئے تو اس سال کو عام الجماعۃ کہتے ہیں یعنی اجتماع والا سال
(المقدمة الزهرا في إيضاح الإمامة الكبرى ص22)
.
بايع الحسن معاوية
امام حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی
(أسد الغابة,2/13)
(البداية والنهاية ط هجر11/359)
(تاريخ الإسلام ت تدمري4/131)
(نهاية الأرب في فنون الأدب20/230)
۔
.
اہلسنت نے ہر صحابیِ نبی جنتی جنتی نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے....حق چار یار کا نعرہ لگایا اور لگاتے ہیں اور لگاتے رہیں گے...خلفاء راشدین کی سیاست حکومت زندہ آباد نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے، خلفاء راشدین کا فیضان جاری رہے گا نعرہ لگایا ، لگاتے رہیں گے
مگر
اس کے ساتھ ساتھ صحابی سیدنا معاویہ جنتی کا نعرہ لگایا…سیاست معاویہ زندہ آباد کا نعرہ لگایا، فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگایا
تو
غیراہلسنت کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی سیدنا معاویہ کے نعروں کے خلاف ہوگئے اور مذمت کرنے لگے جو اہلسنت ہونے کا دعوی کرتے ہیں
.
کچھ تو آپ اوپر ملاحظہ کر چکے کہ سیدنا معاویہ کی حکومت سیاست عادلانہ زندہ باد تھی....آئیے مزید چند حوالے دیکھتے ہیں کہ سیدنا معاویہ کی سیاست کیسی تھی…انکی سیرت، انکا کردار کیسا تھا کہ زندہ باد اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کے نعرے درست و حق کہلائیں........؟؟
.
*امام حسن نے جب خلافت سیدنا معاویہ کے سپرد کی ، صلح کی اور سیدنا معاویہ کی حکومت منھج رسول ، منھج خلفاء راشدین پے رہی الا چند مجتہدات کے تو سیدنا معاویہ کی حکومت عادلہ راشدہ کہلائی، خلافت راشدہ تب کہلاتی جب حدیث کے مطابق تیس سال کے دوران ہوتی...امارت حکومت عادلہ ہے تو ایسی حکومت زندہ باد کیوں نہ ہو.....؟؟ ایسی سیاست و کردار کا فیضان کیوں نا جاری رہے.....؟؟*
.
وقد كان ينبغي أن تلحق دولة معاوية وأخباره بدول الخلفاء وأخبارهم فهو تاليهم في الفضل والعدالة والصحبة
تفسیری ترجمہ:
(سیدنا امام حسن نے جب حکومت سیدنا معاویہ کو دی انکی بیعت کی، ان سے صلح کی تو اس کے بعد)سیدنا معاویہ کی حکومت خلفاء راشدین کی حکومت کی طرح حکومت عادلہ کہلانی چاہیے اور سیدنا معاویہ کے اقوال و اخبار بھی خلفاء راشدین کے اقوال و اخبار کی طرح کہلانے چاہیے کیونکہ فضیلت عدالت اور صحابیت میں سیدنا معاویہ خلفاء راشدین کے بعد ہیں
(تاریخ ابن خلدون2/650)
.
فأرسل إِلَى معاوية يبذل له تسليم الأمر إليه، عَلَى أن تكون له الخلافة بعده، وعلى أن لا يطلب أحدًا من أهل المدينة والحجاز والعراق بشيء مما كان أيام أبيه، وغير ذلك من القواعد، فأجابه معاوية إِلَى ما طلب، فظهرت المعجزة النبوية في قوله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إن ابني هذا سيد يصلح اللَّه به بين فئتين من المسلمين ".ولما بايع الحسن معاوية خطب الناس
ترجمہ:
حضرت سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی طرف پیغام بھیجا کہ وہ خلافت و حکومت معاویہ کو دینے کے لیے تیار ہیں بشرطیکہ سیدنا معاویہ کے بعد خلافت انہیں ملے گی اور یہ بھی شرط کی کہ اہل مدینہ اہل حجاز اور اہل عراق میں سے کسی سے بھی کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا اور اس کے علاوہ بھی کچھ شرائط رکھیں سیدنا معاویہ نے ان شرائط کو قبول کرلیا تو نبی کریم کا وہ معجزہ ظاہر ہوگیا کہ جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ میرا بیٹا یہ سید ہے اللہ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کرائے گا اور سیدنا حسن نے سیدنا معاویہ کی بیعت کر لی تو خطبہ بھی دیا
[أسد الغابة ملتقطا,2/13]
.
*امام حسن نےفرمایا معاویہ کی بیعت کرو، اطاعت کرو*
جمع الحسن رءوس أهل العراق في هذا القصر قصر المدائن- فقال: إنكم قد بايعتموني على أن تسالموا من سالمت وتحاربوا من حاربت، وإني قد بايعت معاوية، فاسمعوا له وأطيعو
ترجمہ:
سیدنا حسن نے مدائن کے ایک محل میں عراق وغیرہ کے بڑے بڑے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا کہ تم لوگوں نے میری بیعت کی تھی اس بات پر کہ تم صلح کر لو گے اس سے جس سے میں صلح کروں اور تم جنگ کرو گے اس سے جس سے میں جنگ کروں تو بے شک میں نے معاویہ کی بیعت کر لی ہے تو تم بھی سیدنا معاویہ کی بات سنو مانو اور اطاعت کرو
[الإصابة في تمييز الصحابة ,2/65]
.
قَالَ كَعْب الْأَحْبَار لم يملك أحد هَذِه الْأمة مَا ملك مُعَاوِيَة
ترجمہ:
سیدنا کعب الاحبار نے فرمایا کہ جیسی(عظیم عادلہ راشدہ) بادشاہت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی تھی ایسی کسی کی بادشاہت نہیں تھی
(صواعق محرقہ2/629)
.
وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَسْوَدَ مِنْ مُعَاوِيَةَ.
ترجمہ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا
[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد ,9/357 روایت15921]
[السنة لأبي بكر بن الخلال ,2/441]
.
ابْنَ عَبَّاسٍ يَقُوْلُ:مَا رَأَيْتُ رَجُلاً كَانَ أَخْلَقَ لِلمُلْكِ مِنْ مُعَاوِيَةَ
ترجمہ:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کے میں نے(رسول کریم اور خلفاء راشدین وغیرہ مستحقین کے بعد) معاویہ سے بڑھ کر حکومت کے لیے بادشاہت کے لیے کسی کو عظیم مستحق ترین , لائق ترین اور عظیم اخلاق والا نہیں پایا
[سير أعلام النبلاء3/153]
.
عَنِ ابْن عُمَر، قَالَ: مَا رأيت أحدا بعد رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أسود من مُعَاوِيَة. فقيل لَهُ: فأبو بَكْر، وَعُمَر، وعثمان، وعلي! فَقَالَ: كانوا والله خيرا من مُعَاوِيَة، وَكَانَ مُعَاوِيَة أسود منهم
ترجمہ:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا معاویہ سے بڑھ کر کسی کو کثرت سے کرم نوازی کرنے والا ، حلم و بردباری والا، سخاوت کرنے والا نہیں پایا...کسی نے پوچھا کہ ابوبکر عمر عثمان اور علی سے بھی زیادہ۔۔۔؟فرمایہ کہ یہ سب حضرات سیدنا معاویہ سے افضل تھے مگر کثرت کرم نوازی بردباری سخاوت میں سیدنا معاویہ زیادہ تھے
[الاستيعاب في معرفة الأصحاب ,3/1418]
.
*معاویہ اور عشق نبی صلی اللہ علیہ وسلم*
أوصى أن يكفن فِي قميص كَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قد كساه إياه، وأن يجعل مما يلي جسده، وَكَانَ عنده قلامة أظفار رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فأوصى أن تسحق وتجعل فِي عينيه وفمه
ترجمہ:
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے وصیت کی تھی کہ انہیں کفن میں وہ قمیض پہنائی جائے کہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہنائی تھی اور سیدنا معاویہ کے پاس حضور علیہ الصلاۃ والسلام کے ناخن مبارک کے ٹکڑے تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ وہ ان کی آنکھوں اور منہ پر رکھے جائیں
[أسد الغابة ,5/201]
.
سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتے تھے،ایک دفعہ حضرت قابس بن ربیعہ آپ کے پاس آئے تو آپ انکی تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انکی پیشانی پر بوسہ دیا اور مرغاب نامی علاقہ ان پر نچھاور کر دیا، ان کے لیے وقف کردیا
وجہ فقط اتنی تھی کہ حضرت قابس کے چہرے کی کچھ مشابہت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے تھی
(دیکھیے شفا جلد دو ص40)
.
جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔(مرآۃ شرح مشکاۃ8/460)
.
*جہاد و فتوحاتِ معاویہ*
وفي سنة ثلاث وأربعين فتحت الرخج وغيرها من بلاد سجستان، وودان من برقة، وكور من بلاد السودان
وفي سنة خمس وأربعين فتحت القيقان قوهستان
خلاصہ:
رخج وغیرہا کئ ممالک سجستان ودان کور سوڈان قعقان قوہستان وغیرہ کئ ممالک سلطنتیں سیدنا معاویہ کے دور میں فتح ہوئے...عرب تا افریقہ تک تقریبا آدھی دنیا پر سیدنا معاویہ کی حکومت تھی
[تاريخ الخلفاء ,page 149ملخصا]
.
*سیدنا معاویہ کی اہلبیت و امام حسن کی تعظیم و خدمت*
اس صلح کے وقت واقعہ یہ ہوا کہ امیر معاویہ نے امام حسن کے پاس سادہ کاغذ بھیجا اور فرمایا کہ آپ جو شرائط صلح چاہیں لکھ دیں مجھے منظور ہے،امام حسن نے لکھا کہ اتنا روپیہ سالانہ بطور وظیفہ ہم کو دیا جایا کرے اور آپ کے بعد پھر خلیفہ ہم ہوں گے، آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔چنانچہ آپ سالانہ وظیفہ دیتے رہے اس کے علاوہ اکثر عطیہ نذرانے پیش کرتے رہتے تھے،ایک بار فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ نذرانہ دیتا ہوں جو کبھی کسی نے کسی کو نہ دیا ہو۔چنانچہ آپ نے اربعۃ مائۃ الف الف نذرانہ کیے یعنی چالیس کروڑ روپیہ۔(مرقات)جب امام حسن امیر معاویہ کے پاس آتے تو امیر معاویہ انہیں اپنی جگہ بٹھاتے خود سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوتے،کسی نے پوچھا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں فرمایا کہ امام حسن ہم شکل مصطفی ہیں صلی الله علیہ وسلم اس مشابہت کا احترام کرتا ہوں۔
(مراۃ شرح مشکاۃ8/460)
.
ﻭﻋﻦ ﺟﻌﻔﺮِ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ ﺃﻥَّ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦَ ﻛﺎﻧﺎ ﻳَﻘْﺒَﻼﻥِ ﺟﻮﺍﺋﺰَ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ.
سیدنا حسن حسین سیدنا معاویہ کے تحائف قبول کرتے تھے
.
ﻭﻋﻦ ﺛﻮﺭ، ﻋﻦ ﺃﺑﻴﻪ، ﻗﺎﻝ: ﺍﻧﻄﻠﻘﺖُ ﻣﻊ ﺍﻟﺤﺴﻦ ﻭﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻬﻤﺎ ﻭﺍﻓِﺪَﻳﻦ ﺇﻟﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﺄﺟﺎﺯﻫﻤﺎ؛ ﻓﻘﺒﻼ
ﻭﻋﻦ ﻋﺒﺪِﺍﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑُﺮﻳﺪﺓَ، ﺃﻥ ﺍﻟﺤﺴﻦَ ﺑﻦ ﻋﻠﻲ رضي الله عنهما ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﺭﺿﻲ ﺍﻟﻠﻪ ﻋﻨﻪ ﻓﻘﺎﻝ: ﻷُﺟﻴﺰَﻧَّﻚ ﺑﺠﺎﺋﺰﺓٍ ﻟﻢ ﺃﺟﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﻗﺒﻠﻚ، ﻭﻻ ﺃﺟﻴﺰ ﺑﻬﺎ ﺃﺣﺪﺍً ﺑﻌﺪﻙ ﻣﻦ ﺍﻟﻌﺮﺏ، ﻓﺄﺟﺎﺯﻩ ﺑﺄﺭﺑﻌﻤﺎﺋﺔ ﺃﻟﻒ، ﻓﻘَﺒِﻠﻬﺎ.
ایک دفعہ سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گئے تو سیدنا معاویہ نے فرمایا کہ آج میں آپ کو وہ تحفہ دوں گا کہ ایسا طوفاں آپ سے پہلے کسی کو نہ دیا اور نہ دوں گا پھر سیدنا معاویہ نے آپ کو چار لاکھ درھم تحفے میں دیے امام حسن نے قبول فرمائے
.
*سیدنا معاویہ کی ازواج مطہرات کی خدمت:*
سیدنا معاویہ بی بی عائشہ کو تحفے تحائف تک بھیجا کرتے تھے جو اس طرف واضح اشارہ ہے کہ سیدنا معاویہ رسول کریم کی ازواج مطہرات کا خیال رکھا کرتے تھے
أَهْدَى مُعَاوِيَةُ لِعَائِشَةَ ثِيَابًا وَوَرِقًا وَأَشْيَاءَ
ترجمہ:
حضرت سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بی بی عائشہ رضی اللہ عنہا کو کپڑے اور چاندی کے سکے(نقدی) اور دیگر چیزیں تحفے میں بھیجیں
(حلية الأولياء 2/48)
.
*معاویت بھی زندہ آباد مگر یزیدت مردہ باد*
الحدیث:
أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ، وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ
ترجمہ:
(رسول کریم نے حسن حسین وغیرہ اہلبیت سے فرمایا) تم جس سے جنگ کرو میری اس سے جنگ ہے،تم جس سے صلح کرو میری اس سے صلح ہے
(اہلسنت کتاب صحیح ابن حبان حدیث6977)
(شیعہ کتاب بحار الانوار32/321)
شیعہ ، رافضی، نیم رافضی سچے مسلمان نہیں، سچے محب اہلبیت نہیں.....حسنی حسینی سچا مسلمان اور سچا محبِ اہلبیت وہ ہےجو یزیدیت سے جنگ اور معاویت سے صلح رکھے،زبان قابو میں رکھے
کیونکہ
سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنھما نے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کی اور سیدنا حسین نے یزید سے جنگ کی......اور حسنین کریمین کی صلح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح اور انکی جنگ رسول کریم کی جنگ ہے
.
*سیدنا معاویہ کی اتباع سنت کی ایک جھلک اور عوام کی خدمت*
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی اور عوام کی فلاح و خدمت کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی حدیث و سنت کی اتباع و پیروی کی ایک جھلک ملاحظہ کیجیے
أَنَّ أَبَا مَرْيَمَ الْأَزْدِيَّ، أَخْبَرَهُ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى مُعَاوِيَةَ ،فَقَالَ: مَا أَنْعَمَنَا بِكَ....فَقُلْتُ: حَدِيثًا سَمِعْتُهُ أُخْبِرُكَ بِهِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَنْ وَلَّاهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ شَيْئًا مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ فَاحْتَجَبَ دُونَ حَاجَتِهِمْ، وَخَلَّتِهِمْ وَفَقْرِهِمْ، احْتَجَبَ اللَّهُ عَنْهُ دُونَ حَاجَتِهِ وَخَلَّتِهِ، وَفَقْرِهِ» قَالَ: فَجَعَلَ رَجُلًا عَلَى حَوَائِجِ النَّاسِ
(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)
.
ترجمہ:
صحابی سیدنا ابو مریم الازدی حضرت سیدنا معاویہ کے پاس تشریف لائے تو حضرت معاویہ نے فرمایا:
آپ کی تشریف آوری سے ہمارا دل باغ بہار ہوگیا، فرمائیے کیسے آنا ہوا.......؟؟
صحابی ابو مریم الازدی(جو سیدنا معاویہ سے عمر میں چھوٹے تھے)نے فرمایا کہ میں آپ کو ایک حدیث پاک سنانے آیا ہوں
"رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ
جسے اللہ نے مسلمانوں کی حکومت(لیڈری، ذمہ داری، عھدے داری)سے نوازا ہو اور وہ لوگوں پر اپنے دروازے بند کر دے حالانکہ لوگ تنگ دستی میں ہوں حاجات والے ہوں اور فقر و فاقہ مفلسی والے ہوں تو اللہ قیامت کے دن ایسے(نا اہل) حکمران و ذمہ دار پر(رحمت کے، جنت کے) دروازے بند کر دے گا حالانکہ وہ تنگ دست ہوگا حاجت مند ہوگا مفلس و ضرورت مند ہوگا..."
صحابی کہتے ہیں کہ حدیث پاک سنتے ہی فورا سیدنا معاویہ نے لوگوں کی حاجات و مسائل کے سننے، حل کرنے ، مدد کرنے کے لیے ایک شخص کو مقرر کر دیا
(ابوداود حدیث2948بالحذف الیسیر)
.
.
①سیدنا معاویہ بڑے صحابی تھے اور سیدنا ابومریم کم عمر صحابی تھے.......لیکن اس کے باوجود سیدنا معاویہ نے صحابی کی کیسی تعظیم کی اور انکی امد کو سعادت سمجھا.....جب کم عمر صحابی سے اتنی محبت تو بڑے بڑے صحابہ کرام مثل سیدنا علی و عمر وغیرھما سے کتنی عقیدت واحترام رکھتے ہونگے....اندازہ لگنا مشکل نہیں
.
②سیدنا معاویہ بڑے تھے سیدنا الازدی چھوٹے تھے مگر چھوٹے کو ایسی علم و روایت کی بات معلوم تھی جو بظاہر بڑے کو معلوم نہ تھی.....اسکا مطلب چھوٹا بڑے سے کچھ معاملات میں بڑھ سکتا ہے اور بڑا کچھ باتوں سے لاعلم ہوسکتا ہے....لیھذا اپنے آپ کو علمِ کل اور بڑی توپ نہیں سمجھنا چاہیے
.
③سیدنا معاویہ بڑے تھے، علم والے بھی تھے، حاکم وقت بھی تھے مگر اس کے باوجود چھوٹے صحابی نے انہیں باادب ہوکر علم کی بات سکھانے بتانے میں ججک و شرم محسوس نہ کی اور بڑے یعنی سیدنا معاویہ نےبھی کوئی بےعزتی و شرم محسوس نہ کی، وسعتِ قلبی کا مظاہرہ کیا اور چھوٹے کی بات مان لی.........لیھذا بڑے علماء مشائخ وغیرہ چھوٹوں کی بات مان لینے میں شرم و ججک محسوس نہ کریں اور چھوٹے کچھ کہیں تو باادب ہوکر عرض کریں اپنے آپ کو توپ نہ سمجھیں
.
④صحابی ابومریم الازدی نے "ولاہ اللہ" کو سیدنا معاویہ پر فٹ کرکے یہ عقیدہ بتایا ہے کہ صحابہ کرام، اہلبیت سیدنا معاویہ کی خطاء اجتہادی مانتے تھے مگر انہیں ظالم فاسق غاصب گناہ گار نہیں سمجھتے تھے... انکا نظریہ تھا غیرمنصوص معاملے میں اختلاف پردلیل ہوتو اسے نفرت و گناہ نہیں کہہ سکتے... انکا نظریہ تھا کہ سیدنا معاویہ کو حکومت اللہ نے عطاء کی ہے....انکی حکومت کوئی ظالمانہ غاصبانہ نہیں
.
⑤سیدنا معاویہ نے جیسے ہی معتبر سے حدیث پاک سنی تو چوں چراں تاویل شاویل سے کام نہیں لیا....یہ نہیں کہا کہ دلیل لاؤ... بلکہ اسلام لانے کے بعد حدیث و سنت سے اتنے محبت کرنے والے بن گئے تھے کہ حدیث و سنت کے متعلق سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوتے.....مذکورہ واقعہ اسکی بھرپور عکاسی کرتا ہے
.
⑥اسلاف کی علم دوستی کا حال دیکھیے کہ اتنی دور سے بادشاہ وقت کے پاس محض ایک حدیث پاک سنانے پہنچ گئے اور بادشاہ کی علم دوستی دیکھیے کہ حدیث پاک ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنتے ہی اس پر عمل پیرا ہوگئے
.
اللہ کریم ہم سب کو حسنِ عقیدت ، علم دوستی، احترامِ سنت، وسعتِ قلبی، اور فرائض واجبات کے ساتھ ساتھ سنتوں پر بھی عمل کی توفیق عطاء فرمائے....
.
الحاصل:
سیدنا حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے جب حکومت سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو سپرد کردی اور بیعت کی اور ان کی بیعت کرنے اور ان کی اطاعت کرنے کا حکم دے دیا
اور
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالئ عنہ متبع سنت تھے عادل تھے عاشق رسول تھے صحابہ اہلبیت وغیرہ کا احترام و خدمت کرتے تھے اور اپنی حکومت منھج سنت و منھج ِ خلفاء راشدین پر چلائی الا بعض اجتہادی مسائل کے اور بخاری میں ہے کہ سیدنا معاویہ فقیہ یعنی مجتہد تھے اور حدیث کے مطابق مجتہد خطاء بھی کرے تو ایک اجر
تو
ثابت ہوا کہ انکی حکومت اچھی عادلہ تھی اس لیے انکی سیاست زندہ باد کہنا اور فیضان معاویہ جاری رہے گا کا نعرہ لگانا بےجا نہیں برحق و سچ ہے...ہاں یزید کی سیاست و حکومت یزیدت مردہ باد لیکن والد کی وفات کے بعد بیٹے کے کرتوت ہوں تو اس کی وجہ سے باپ پر کوئی الزام و حرف نہیں آتا
.
.
کونڈے..................؟؟
سوال:
بائیس رجب کو امام جعفر صادق کی نا تو وفات ہوئی تھی نا ولادت پھر بائیس رجب کو انکے نام کے کونڈے کیوں کیے جاتے ہیں....بائیس رجب کو تو سیدنا امیر معاویہ کی وفات ہے جسکی خوشی میں شیعہ کونڈے کرتے ہیں، اس لیے کونڈے نہیں کرنے چاہیے......!!
.
جواب:
امام جعفر صادق امام ابو حنیفہ کے استاد ہیں.. گویا فقہ حنفی قرآن حدیث سنت صحابہ اہلِ بیت سبکا نچوڑ ہے،خلاصہ ہے.. پاکستان میں اکثریت فقہ حنفی کی ہے حتی کہ دیوبندی بھی فقہ حنفی کے پیروکار ہونے کا دعوی کرتے ہیں
(دیکھیے المھند المعروف عقائد علماء دیوبند ص39)
امام جعفر صادق بڑی متفقہ مشھور ہستی گذرے ہیں ایسوں کی وفات پر ایصالِ ثواب بھی بہت ہوتا تھا.. ایسے مواقع پر اکثر سات دن ایصال ثواب خیرات ہوتی تھی اور آخری دن بھرپور اہتمام ہوتا ہوگا..
.
الحاوی للفتاوی میں ہے کہ:
وإنما أوردهما طاوس كذلك؛ لأن قصده توجيه الحكم الشرعي، وهو استحباب الإطعام عن الموتى مدة سبعة أيام
ترجمہ:
دونون کو حضرت طاؤس نے اس طرح بیان کیا کیونکہ ایک شرعی حکم کی توجیہ بیان کرنا انکا مقصد تھا،وہ شرعی حکم.یہ ہے کہ میت کی طرف سے سات دن تک کھانا کھلانا(خیرات کرنا، ایصالِ ثواب کرنا) مستحب و ثواب ہے..
(الحاوی للفتاوی جلد2 صفحہ223)
.
امام جعفر صادق کی وفات ایک قول کے مطابق پندرہ رجب ہے..(دیکھیے شواہد النبوۃ،الجواب الاظہر ص55)
اور پندرہ رجب میں سات دن مکس کریں تو بائیس رجب بنتی ہے..
.
اور ایک قول کے مطابق بائیس رجب سیدنا معاویہ کی وفات کا دن بھی ہے...(دیکھیے تاریخ خلیفہ 1/315.. البدایہ والنھایہ8/152)
.
اس طرح دونوں مناسبتوں کو جمع کرکے بائیس رجب کو امام جعفر صادق اور سیدنا معاویہ دونوں کو ایصال ثواب،نیاز و خیرات کیا جاتا ہے جوکہ قرآن و حدیث صحابہ اہل بیت فقہ حنفی سبکا بہترین امتزاج ہے...
.
سورہ آلِ عمران ایت92سے واضح ہوتا ہے کہ پسندیدہ اچھی بہتر چیزیں خیرات میں ہوں... اور کھیر کونڈے بھی پسندیدہ اشیاء مین سے تھے..اس طرح دیگر طعام کے ساتھ ساتھ کھیر کوندے کچھ زیادہ مشھور ہوگئے..
.
ایسی تاریخ میں ایصالِ ثواب کی آڑ میں شیعوں کو مکاری منافقت چالبازی کا موقعہ تھا جو انھوں نے جانے نا دیا اور لکڑہارے وغیرہ کہانیاں جھوٹ پھیلا کر ایصالِ ثواب کو سیدنا معاویہ کی وفات پر خوشی مین تبدیل کرنے لگے ہونگے..
مگر
اہل سنت نے ڈٹ کر ہمیشہ مقابلہ کیا کتابیں لکھیں اور آج تک وضاحت.و.علم.پھیلا رہے ہیں کہ بائیس رجب کو دونوں ہستیوں کو ایصال ثواب کرنا ہے.. خوشی یا غم ماتم سوگ نہیں کرنا..
.
یہ بھی بتایا اور بتاتے رہے ہیں کہ کونڈے کھیر بھی کرسکتے ہین مگر ضروری نہیں..بریانی وغیرہ سے بھی باءیس رجب کو ایصال ثواب ہوسکتا ہے اور یہ بھی علماء اہلسنت نے سمجھایا اور سمجھا رہے ہیں لکڑ ہارے اور دس بی بیوں وغیرہ کہانی یا شیعوں کی کونڈوں کے بارے میں جو شرائط.و.ہدایات ہیں ان پر عمل نہین کرنا..
.
لکڑ ہارے کی کہانی اور امام جعفر صادق کا اسے کونڈے بھرنے کا حکم دینا اور فضیلت بتانا وغیرہ ہرگز ہرگز ثابت نہیں.......یہ شیعوں نے حضرت معاویہ کے وفات کے دن یعنی بائیس رجب کو بطور خوشی رسم بنا لی اور اسے امام جعفر صادق کی طرف منسوب کردیا جبکہ کسی بھی معتبر معتمد کتاب سے یہ ثابت نہیں
لیھذا
شیعوں والی سوچ.و.نظریہ کے تحت کونڈے بھرنا ہرگز جائز نہیں
.
البتہ
شیعوں کی سوچ و نظریے کے بغیر اور سیدنا معاویہ کی وفات پر خوشی کے بغیر محض ایصال ثواب کے لیے بائیس رجب یا کسی بھی مناسبت والے دن کونڈے یا کھیر یا اچھی میٹھی ڈش یا بریانی یا کچھ بھی اچھا خیرات کیا جائے تو بالکل جائز ہے
.
لیھذا کونڈوں کو امام جعفر صادق سے ثابت شدہ مت مانیے
لیھذا کونڈے خوشی کے طور پر مت بھریے
لیھذا کونڈوں کو ہی لازم مت سمجھیے بلکہ کچھ بھی بہترین کھانا ایصال ثواب کے طور کرنا جائز سمجھیے بلکہ کبھی کونڈے کبھی بریانی کبھی کھیر کبھی نوافل کبھی کسی اور طریقے مختلف طریقوں سے ایصال ثواب کرنا چاہیے کہ نہ جانے کونسی نیکی قبول ہوجائے
.
لیھذا یہ مت سمجھیے کہ کونڈا لیا تو پھر مزید سات یا دس کونڈے بھرنا ہونگے یہ بالکل غلط ہے
لیھذا شیعوں سے کونڈے،خیرات مت لیجیے کیونکہ وہ نعوذ باللہ صحابی سدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی کے ہونےکےقوی امکان ہیں نیز بدمذہب مرتد کافر گمراہ سےدوستی نہ کرنےکا حکم ہے...ان سے دور رہنے کا حکم ہے الا جو سمجھانے کےلیے تعلق رکھے
.
لیھذا اہلسنت جو کونڈے بریانی وغیرہ خیرات کرتے ہیں وہ سیدنا امام جعفر صادق اور سیدنا صحابی امیر معاویہ کے ایصال ثواب کے لیے ہوتے ہیں، شیعوں والے غلط سوچ و نظریے کے تحت نہیں ہوتے، اس لیے بالکل جائز ہیں.....لیھذا شرک بدعت شرک بدعت کہنے والوں کی باتوں میں مت آئیے
مگر
یہ بھی یاد رہے کہ خیرات ایصال ثواب فرض واجب لازم نہیں....لیھذا جو بغیر گستاخی کیے ایصال ثواب نہ کرے، کونڈے نہ بھرے اسے گناہ گار یا گستاخ نہیں سمجھ سکتے، نہیں کہہ سکتے..........!!
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475