یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

"کیا سنّت پر عمل کرنا ضروری ہے"




"کیا سنّت پر عمل کرنا ضروری ہے"



یقیناً کامیاب و کامران وہی ہے کہ جوفرائض وواجبات کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ نبیٔ کریم ﷺ ٖ کی سنّتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لے کیونکہ فلاحِ دارین کا جو وظیفہ سرکار ﷺ  نے اپنی امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنّت کو مضبوطی سے تھام لیں چنانچہ 
سنت کو مضبوطی سے تھام لو:
حضرت سیّدنا عِرباض بن سارِیہ   سے مروی ہے کہ رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : میرے بعد تم میں سے جو زندہ رہے گا وہ امت میں کثیر اختلافات دیکھے گا ایسے حالات میں تم پر لازم ہے کہ میری سنّت اور خلفاء راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے تھام لو ۔ (ابوداؤد، کتاب السنۃ ، باب فی لزوم السنۃ، ۴/۲۶۷، حدیث:۴۶۰۷، ملتقطًا دار احیاء التراث العربی بیروت 1426ھ) 
نبی کریم  ﷺ کی  اطاعت کی ضرورت و  اہمیت:
اللہ ﷯ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے
قُلْ اِنۡ کُنۡتُمْ تُحِبُّوۡنَ اللہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحْبِبْکُمُ اللہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوۡبَکُمْؕ وَاللہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿ اٰل عمران۳۱﴾
ترجمہ کنزالایمان:
 اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمانبردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
ایک  اور مقام  پر ارشادِ خدا وندی ہے۔
قُلْ اَطِیۡعُوا اللہَ وَالرَّسُوۡلَۚ فَاِنۡ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیۡنَ﴿۳۲ اٰل عمران﴾ 
ترجمۂ کنزالایمان: تم فرمادو کہ حکم مانو اللہ اور رسول کاپھر اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کو خوش نہیں آتے کافر۔

اور فرمایا گیا کہ اے حبیب! ﷺ، آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ  تعالیٰ نے میری اطاعت اس لئے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ اس کے رسول ہی ہیں اس لئے ان کی اطاعت و فرمانبرداری لازمی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہ ہو گی اور اللہ  تعالیٰ انہیں سزادے گا۔(تفسیر کبیر، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ۳/۱۹۸، جلالین،  اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۲، ص۴۹، ملتقطاً)
تاجدارِ رسالت  ﷺ کی اطاعت ہی محبت ِ الٰہی  عَزَّوَجَلَّ کی دلیل ہے اور اسی پر نجات کا دارو مدار ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت کاحصول، اپنی خوشنودی اور قرب کو حضور پرنور  ﷺ کی غیر مشروط اطاعت کے ساتھ جوڑ دیا۔ اب کسی کو رضا و قربِ الٰہی ملے گا تو محبوبِ رب  ﷺ کی غلامی کے صدقے ملے گا ورنہ دنیا جہاں کے سارے اعمال جمع کرکے لے آئے، اگر اس میں حقیقی اطاعتِ مصطفی  ﷺ موجود نہ ہوگی وہ بارگاہ ِ الٰہی عَزَّوَجَلَّ میں یقینا قطعا ًمردود ہوگا۔ 

حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس ﷺَنے ارشاد فرمایا ’’میری ساری امت جنت میں داخل ہو گی مگر جس نے انکار کیا۔ صحابۂ کرام  نے عرض کی: یارسولَ اللہ! ﷺ، انکار کون کرے گا؟ ارشاد فرمایا ’’جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہو ا اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے انکار کیا۔ (بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنّۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، ۴/۴۹۹، الحدیث: ۷۲۸۰)
 محبت ِالٰہی کا دعویٰ حضورسید ِکائناتﷺکی اتباع اور فرماں برداری کے بغیر قابلِ قبول نہیں۔ جو اس دعوے کا ثبوت دینا چاہتا ہے وہ حضور پرنور ﷺ غلامی اختیار کرے اور چونکہ حضور ﷺ نے بت پرستی سے منع فرمایا ہے تو بت پرستی کرنے والا سرکارِ رسالت ﷺکا نافرمان اور محبتِ الٰہی کے دعوے میں جھوٹا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ  مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہم کو حضور  ﷺکی اتبا ع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم تو اللہ ﷯کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔ تب یہ آیت اتری۔(خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۳۱، ۱/۲۴۳)
 مذکورہ آیت ِ مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالٰی نے اپنی محبت  کے حصول کے لئے اپنے پیارے نبی ﷺ کی اتباع کو   لازمی قرار دیا ہے۔اتباع  اطاعت سے آگے کا درجہ ہے کیوں کہ اطاعت کے معنٰی ہیں حکم ماننا ،حکم کی تعمیل کرنا،  اور اتباع کے معنٰی ہیں پیروی کرنا یعنی پیچھے چلنا۔
 اطاعت میں  فرائض و واجبات شامل ہوتے ہیں جبکہ اتباع میں فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ نوافل و مستحبات بھی شامل ہوتے ہیں بعض حالات میں  اطاعت ظاہری و رسمی بھی ہو سکتی ہے لیکن اتباع میں ظاہر  و باطن دونوں برابر ہو جاتے ہیں ۔اطاعت میں حکم دینے والے کی عظمت پیشِ نظر ہوتی ہے جبکہ اتباع میں جس کی پیروی کی جائے اس کی عقیدت اور محبت کا جذبہ غالب ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام   رسول اللہ ﷺ کی کی اطاعت  کے ساتھ ساتھ  اتباع بھی کرتے تھے اسی وجہ سے صحا بہ کرام    آپﷺ کی کسی سنت  کو ترک نہیں کیا کرتے تھے
سنت سے محبت کرنے والا جنّت میں نبی کریمﷺ کےساتھ ہوگا:
  بنی کریم  ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا دنیا وآخرت کی ڈھیروں بھلائیوں کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ حضرت سیدناانس بن مالک  سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا : ''مَنْ اَحَبَ سُنَّتِیْ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَمَنْ اَحَبَّنِیْ کَانَ مَعِیَ فِی الْجَنَّۃِ یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔''(جامع الترمذی،کتاب العلم،الحدیث۲۶۸۷،ج ۴، ص ۳۰۹ ،مطبوعہ دارالفکربیروت)
سو شہیدوں کا ثواب:
  حضرت سیدنا ابن عباس  سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا : ''مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِیْ عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِیْ فَلَہٗ اَجْرُ مِأَۃِ شَہِیْدٍ "یعنی فسادِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کریگا اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا ۔''(کتاب الزھد الکبیرللامام البیھقی،الحدیث۲۰۷،ج۱ ، ص۱۱۸ ،مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ بیروت)
                                                                               از قلم : عبداللہ ہاشم عطاری مدنی/ 03313654057