*دینی خدمات، تدریس، امامت، قرآن حدیث پڑھانے، دم جھاڑ پھونک وغیرہ پر معاوضہ لینا، تنخواہ لینا......؟؟*
*دینی خدمات، تدریس، امامت، قرآن حدیث پڑھانے، دم جھاڑ پھونک وغیرہ پر معاوضہ لینا، تنخواہ لینا......؟؟*
اعتراض:
ایک صاحب نے فیس بک پے بڑا تیکھا اعتراض لکھ مارا کہ علماء مفتی مولوی سب ٹھیک نہیں یہ لوگ دینی کام خدمات تدریس امامت وغیرہ قرآن و حدیث کو بیچ کر کھا رہے ہیں جو کہ بہت ہی سخت قابل مذمت ہے
اسی طرح جھاڑ پھونک تعویذ والے حضرات عملیات کے بابے جو فیس لیتے ہیں یہ بھی دین کو کاروبار بنانے کے مترادف ہے....ان سب سے دور بھاگو ، یہ سب مفتی عامل بیچ کھانے والے سب مردود و ناحق ہیں، دین کے بدلے کھانے والے ہیں، ان کے پاس کتابوں کی دلیل ہے مگر ان کے پاس قران و حدیث کی کوئی دلیل نہین بلکہ قرآن و حدیث انکی مخالفت کرتا ہے
.
جواب:
پیارے بھائی اس طرح بےدردی بےادبی سے علماء مفتیان کرام امام صاحبان وغیرہ دینی کام کرنے والوں کی مزمت و اعتراض سے پہلے علماء سے سوال تو کریں....بےدردی بےادبی سے اسلاف علماء اور اسلامی کتب کو مردود تو نہ کہیں...پہلے مقدور بھر تحقیق کریں....مشاورت کریں...علماء سے اعتراض و سوال کریں وہ اپ کو مکمل سمجھائیں گے...یہ معتبر اسلامی کتب اکثر قرآن حدیث صحابہ اہلبیت تابعین کے اقوال سے ہی ماخوذ و خلاصہ ہیں……بحرحال آپ کے اعتراض کا جواب میں کتب کے بجاءے قرآن و حدیث صحابہ کرام کے قول و فعل پیش کر رہا ہوں تاکہ آپ کی تسلی ہو
.
*#برحق باعمل علماء کی قدر کرو،اطاعت کرو، اہل استنباط علماء صوفیاء امراء سے سوال و مشاورت کرو،اطاعت کرو:*
القران..ترجمہ:
اللہ کی اطاعت کرو،اور رسول کی اور اولی الامر (برحق علماء، امراء)کی اطاعت کرو.(سورہ نساء آیت59)
.
القرآن..ترجمہ:
اگر معاملات کو لوٹا دیتے رسول کی طرف اور اولی الامر کی طرف تو اہل استنباط(اہلِ تحقیق،باشعور،باریک دان،سمجھدار علماء صوفیاء امراء)ضرور جان لیتے
(سورہ نساء آیت83)
.
جو بڑوں کی عزت نہ کرے،چھوٹوں پر شفقت نہ کرے
(برحق)علماء کی قدر نہ کرے،انکا حق نہ جانےوہ میری امت میں سے نہیں.(مجمع زوائد حدیث532)
*#دینی کام خدمات تدریس قرآن کی کمائی:*
الحدیث:
إن أحق ما أخذتم عليه أجرا كتاب الله
ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
کتاب اللہ(قرآن سے دم اور قرآن کی تعلیم، قرآن و اسلامی علوم کی تعلیم تدریس وعظ تقریر)زیادہ حق دار ہے کہ تم اس پر اجرت لو
(بخاری حدیث5737)
.
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ : جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ وَهَبْتُ لَكَ مِنْ نَفْسِي. فَقَالَ رَجُلٌ : زَوِّجْنِيهَا. قَالَ : " قَدْ زَوَّجْنَاكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ
ترجمہ:
ایک صحابیہ آئیں اور انہوں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیک وسلم میں نے اپنے آپ کو آپ کے حوالے کر دیا ہے میری شادی کرا دیجئے۔۔ایک صحابی نے فرمایا یارسول اللہ میری ان سے شادی کرا دیجئے حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے ارشاد فرمایا میں نے تمہاری اس کے ساتھ شادی کرادی حق مہر وہ جو تمہارے پاس قرآن ہے
(بخاری حدیث2310)
یعنی قرآن پڑھاؤ اس کا معاوضہ جو بنتا ہے وہ گویا حق مہر ہوگیا....گویا قرآن پڑھا کر اسکی کمائی لینا جائز ہے
.
*#دم جھاڑ پھونک قرآن و حدیث دعا سے ہو تو جائز اور اس پر اجرت لینا جائز…جائز تعویذات سچےعملیات کی اجرت جائز ہے:*
.
الحدیث:
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا هشيم ، عن ابي بشر ، عن ابي المتوكل ، عن ابي سعيد الخدري ، ان ناسا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم كانوا في سفر، فمروا بحي من احياء العرب، فاستضافوهم فلم يضيفوهم، فقالوا لهم: هل فيكم راق فإن سيد الحي لديغ او مصاب، فقال رجل منهم: نعم، فاتاه فرقاه بفاتحة الكتاب فبرا الرجل فاعطي قطيعا من غنم فابى ان يقبلها، وقال: حتى اذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فذكر ذلك له، فقال: يا رسول الله، والله ما رقيت إلا بفاتحة الكتاب فتبسم، وقال: " وما ادراك انها رقية؟ "، ثم قال: " خذوا منهم واضربوا لي بسهم معكم ".
ترجمہ:
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے سفر میں تھے اور عرب کے کسی قبیلہ پر گزرے اور ان سے دعوت چاہی۔ انہوں نے دعوت نہ کی۔ وہ کہنے لگے: تم میں سے کسی کو دم کرنا آتا ہے۔ ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا تھا۔ صحابہ میں سے ایک شخص بولا: ہاں مجھ کو دم جھاڑ پھونک آتا ہے۔ پھر اس نے سورہ فاتحہ پڑھی وہ اچھا ہو گیا اور ایک گلہ بکریوں کا دیا، اس نے نہ لیا اور یہ کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا اور کہا: یا رسول اللہ! اللہ کی قسم میں نے کچھ دم جھاڑ پھونک نہیں کیا ہے سوائے سورہ فاتحہ کے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: ”تجھے کیسے معلوم ہوا کہ وہ دم جھاڑ پھونک ہے۔“ پھر فرمایا: ”وہ گلہ بکریوں کا لے لے اور ایک حصہ میرے لیے بھی اپنے ساتھ لگانا۔“
(مسلم حديث5733.
باب جَوَازِ أَخْذِ الأُجْرَةِ عَلَى الرُّقْيَةِ بِالْقُرْآنِ وَالأَذْكَارِ:
باب: قرآن یا دعا سے دم جھاڑ پھونک کرکے اس پر اجرت لینا درست ہے۔)
.
اس حدیث پاک سے واضح ثابت ہوتا ہے کہ جائز دم جھاڑ پھونک جائز ہے اس پر اجرت لینا بھی پاکیزہ حلال کمائی ہے...کوئی کہہ سکتا ہے کہ مذکورہ حدیث میں دم سے پہلے اجرت طے کرنے کی بات نہیں....اسکا جواب یہ ہے کہ یہی حدیث بخاری شریف میں ہے اس میں واضح لکھا ہے کہ انہوں نے دم اس شرط پر کیا تھا کہ بکریاں دیں گے
بخاری میں ہے
فَقَرَأَ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ عَلَى شَاءٍ
ترجمہ:
تو صحابی نے دم کیا سورہ فاتحہ پڑھ کر اس شرط پر کہ اجرت میں بکریاں دی جاءیں گی
(صحيح البخاري ,7/131حدیث5737. بَابُ الشَّرْطِ فِي الرُّقْيَةِ بِقَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ: باب: سورۃ الفاتحہ سے دم جھاڑ کرنے میں
بکریاں لینے کی شرط لگانا)
.
*#وقت کا اجارہ:*
بعض احادیث میں جو معانعت و مذمت ہے وہ عین لازم عبادات پر اجرت لینے کی ممانعت و مذمت ہے
مگر
وقت دینے پر معاوضہ لینا اور دینی کام و خدمات کرنا خود صحابہ کرام سے ثابت ہے گویا وقت دے کر وقت کا اجارہ و معاوضہ مقرر کرنا اجماع صحابہ سے ثابت ہے اور قرآن و حدیث میں صحابہ بالخصوص خلفاء راشدین کی اطاعت کا ھکم ہے اور خلفاء راشدین وقت کا معاوضہ و اجارہ تنخواہ لیتے تھے لیھذا امامت تدریس وعظ تقریر تحریر فتوی وغیرہ دینی خدمات کے لیے وقت دینا اور اس وقت کے بدلے تنخواہ معاوضہ لینا جائز و حلال و پاکیزہ کمائی ہے
.
جب سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو اگلے دن صبح صبح کندھے پے چادریں کپڑے اٹھائے بازار کی طرف چل دیے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کہنے لگے یا امیرالمومنین آپ یہ کیا کر رہے ہیں...؟ آپ کو تو لوگوں کی دیکھ بھال کی زمہ داری سونپی گئ ہے،فرمایا تجارت نہ کروں گا تو میں اپنے اہل و عیال کو کہاں سے کھلاؤں گا...؟ حضرت عمر نے فرمایا چلیے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس چلتے ہیں(انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامۃ کا لقب عطا فرمایا ہے)ان سے رائے لیتے ہیں،سیدنا ابو عبیدہ نے فرمایا:
أفرض لك قوت رجل من المهاجرين، ليس بأفضلهم ولا أوكسهم
ترجمہ:
میں آپ کی تنخواہ ایک اوسط درجے کے مہاجر مزدور جتنی مقرر کرتا ہوں، پھر صحابہ کرام نے مل کر آپ کی تنخواہ پچیس سو درھم سالانہ(تقریبا سات درھم روزانہ)مقرر فرمائی
(دیکھیے تاریخ الخلفاء ص64,65)
خلفاء راشدین وقت دیتے اسلامی خدمات کے لیے اور اس کے عوض تنخواہ و معاوضہ لیتے یہ کام صحابہ کرام کی مشاورت سے ہوا لیھذا اجماع صحابہ ہوگیا...اسی طرح امامِ مسجد وقت دیتا ہے ، مدرس وقت دیتا ہے، واعظ وقت دیتا ہے اور اس کی تنخواہ پاتا ہے جوکہ حلال و جائز ہے
.
وہ جو قرآن مجید میں ہے کہ میری ایتوں کو مت بیچ کھاؤ تو اسکا مطلب یہ بنے گا کہ قرآن و سنت اسلامی نظریات چھوڑ کر اسکے بدلے مال لینا یا قرآن و حدیث اسلام کی غلط تشریح کرکے مال کمانا یہ چیز حلال نہیں اسی کی مذمت ہے....قرآن و سنت کو پھیلانے علم پڑھانے وقت دینے کی اجرت لینا حلال و پاکیزہ ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
+923468392475