آل پہلے یا اصحاب پہلے........؟؟
آل پہلے یا اصحاب پہلے........؟؟
فاطمہ جزو نبی ہےابوبکر و عمر وغیرہ ان سے کیسے افضل ہوسکتے ہیں.......؟؟
.
سکھر کی عظیم الشان ریلی کا عنوان تحفظ ناموس رسالت و تحفظ ناموسِ صحابہ و اہلبیت تھا...اس پر ایک پیر صاحب نے فرمایا کہ پہلے آل کی بات ہوگی پھر اصحاب کی کیونکہ درود میں آلہ پہلے اور اصحابہ بعد میں ہے... اس سے پہلے اور اب اس کے بعد زور و شور سے پنجاب کے جلسوں سے دوٹوک آواز آتی رہی ہے کہ پہلا نمبر آل دا....سندھ اور پنجاب کے کچھ گدی نشین پیر صاحبان مدعی اہلسنت کہلا کر اسی طرف مائل نظر آرہے ہیں بلکہ اب تو کھل کر بیان کر رہے ہیں کہ پہلے آل پھر اصحاب...ایسے میں اہلسنت کا نظریہ دلائل کے ساتھ واضح کرنا لازم تھا تو لیجیے دلائل حاضر ہیں...اللہ کریم اندھی عقیدت و محبت سے بچائے،نبی کریم صحابہ کرام اہلبیت عظام اسلاف و برحق علماء کا پیروکار بنائے
.
جواب.و.تحقیق:
①مفتی حنیف قریشی کہہ چکے ہیں کہ علامہ جلالی صاحب نے بےاحتیاطی تو کی مگر گستاخی زہرا نہ کی..وڈیو میری فیس بک تائم لائن پے موجود ہے...اور مفتی چمن زمان صاحب نے جو مفتی اشرف جلالی صاحب کو گستاخ و گمراہ لزوم کفر وغیرہ کے فتوے دے اسکا مختصر مگر مدلل رد الرسالہ التبصرۃ المختصرۂ علی المحفوظہ کے نام سے میں لکھ چکا ہوں گگل ڈرائیو سے ڈاؤنلوڈ کریں
ڈانلوڈ لنک
https://drive.google.com/file/d/1-UKtL8Sg4U5dofL7S0oMCO4P58mvDBS7/view?usp=drivesdk
یا مجھے وتس اپ کرکے وہ رسالہ pdf میں حاصل کرسکتے ہیں
.
②بعض پیر صاحبان، بعض گدی نشین حضرات اور ان کے حمایتیوں کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ پہلے آل محمد یعنی اہلبیت بی بی فاطمہ وغیرہ علیھم الرضوان کا ذکر ہو پھر صحابہ یعنی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھم وغیرہ کا ذکر ہو
جبکہ
علماء نے لکھا ہے کہ آل محمد کے کئ معنی ہیں قرینہ کلام سے مناسب معنی اخذ کییے جائیں...درود میں جو آلہ ہے اس سے مراد اہلبیت نہیں بلکہ اس سے مراد کلمہ گو سچے امتی محمد ہیں اور اصحابہ میں صحابہ و اہلبیت شامل
لیکناکثر نعرہ و تذکرہ و ذکر میں پہلے صحابہ کا ذکر ہو پھر اہلبیت کا کہ صحابی سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنھما تمام امت سے افضل ہیں تو اہلبیت سے بھی افضل ہیںلیھذا
حدیث و اقوال ِ اہلبیت کے مطابق پہلے صحابہ پھر اہلبیت
آل کے کئ معنی لیھذا مقام کےمناسب معنی مراد ہونگے:*
وقيل: اَل محمد أتباعه. وقيل: الأتباع والرهط والعشيرة.
وقيل: اَل الرجل ولده. وقيل: قومه. وقيل: أهله الذين حرمتعليهم الصدقة. وقيل: كل تقي إلى يوم القيامة، فهو آله- عليه السلامآل محمد کا معنی یہ کیا گیا ہے کہ حضور کے پیروکار امتی ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ اس سے مراد پیروکار امتی اور گروہ اور خاندان بھی ہے۔۔اور کہا گیا ہے کہ آل کا معنیٰ ہے اولاد اور کہا گیا ہے کہ معنی ہےقوم۔۔۔اور کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ہر وہ نیک و متقی امتی جو قیامت تک آئے گا تو وہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی آل میں شامل ہے
(شرح ابوداود للعینی6/285)
.
والآل: يقع على ذات الشيء، وعلى ما يضاف إليه، وقيل: الوجهان في (آل محمد) أنهم أمته. وقيل: آله: قرابته. وقيل: آله: هو المراد في تحريم الصدقة عليه وعليهم
آل سے مراد ذات ہے اور آل جسکی طرف مضاف ہو اس مناسبت سے معنی مراد ہوگا اور کہا گیا ہے کہ آل محمد سے دو معنی مراد ہوسکتے ہیں ایک یہ کہ آل محمد سے مراد امتِ محمدیہ ہے اور دوسرا یہ کہ آل سے مراد اہلبیت اور کہا گیا ہے کہ ال محمد سے مراد وہ جن پر حرام ہے کہ زکاۃ لیں
(كتاب مطالع الأنوار على صحاح الآثار1/260بحذف یسیر)
.
وَعَلَى آل مُحَمَّد، قِيل أتْبَاعُه وَقِيل أمَّتُه وَقِيل آل
بَيْتِه وَقِيل الْأَتْبَاع ولرهط وَالْعَشِيرَة وَقِيل آل الرَّجُل وَلَدُه وَقِيل قَوْمُه وَقِيل أَهْلُه الَّذين حُرِّمَت عَلَيْهِم الصَّدَقَة
آل محمد سے مراد متبع ہیں یا آل محمد سے مراد امت محمدیہ ہے اور کہا گیا کہ آل سے مراد اہلبیت ہین اور کہا گیا ہے کہ آل محمد سے مراد وہ سادات ہیں جو زکاۃ نہین لےسکتے
(شفاء شریف2/81,82)
.
*#آلہ مطلقا بولا جاءے یا درود میں بولا جائے تو اس سے مراد امت ِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اصحابہ سے مراد صحابہ و اہلبیت تطبیقا بین الادلۃ:*
أخبرَنا أبو سَعدٍ المالينىُّ، أخبرَنا أبو أحمدَ ابنُ عَدِىٍّ، حدَّثَنا محمدُ بنُ إِبراهيمَ العُقَيلِىُّ، حدَّثَنا أحمدُ بنُ الفُراتِ، حدَّثَنا أبو داودَ، حدَّثَنا عبدُ الرحمنِ بنُ مَهدِىٍّ، عن الحسنِ بنِ صالِحٍ، عن عبدِ اللَّه بنِ محمدِ بنِ عَقيلٍ، عن جابرِ بنِ عبدِ اللَّه قال: آلُ محمدٍ -صلى اللَّه عليه وسلم- أُمَّتُه
ترجمہ:
سیدنا جابرِ بنِ عبدِ اللَّه رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ(مطلقا اور درود میں) آل محمد سے مراد امت محمد ہے
(السنن الكبرى للبيهقي ,3/684روایت2911)
معني الآل كل الامة
آل محمد سے مراد تمام امت محمدیہ ہے
[فتح الباري لابن حجر ,11/157]
.
.
وقد اختلف في الآل هل هم أهل بيته أو أمته والصحيح أنهم أمته
آل محمد سے کیا مراد ہے اہلبیت یا امت محمد مگر صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے مراد امت محمد ہے
(كتاب القبس في شرح موطأ مالك بن أنس ص356)
.
وكذلك آلُ مُحَمَّدٍ إِنَّمَا هُمْ أُمَّتُهُ
اور اسی طرح آل محمد سے مراد امتِ محمد ہے
(غریب الحدیث للخطابی1/319)
.
ثابت ہوا کہ آلہ سے مراد امت محمد ہے جبکہ کچھ پیر صاحبان کچھ علماء کچھ گدی نشین کہہ رہے کہ آلہ سے مراد اہلبیت ہے جوکہ ٹھیک نہیں....
اور
بالفرض آلہ سے مراد اہلبیت لیا جاءے تو بھی اس سے ترتیب ثابت نہیں ہوتی کیونکہ عربی کا قاعدہ ہے کہ و جمع کے لیے آتی ہے ترتیب کے لیے نہیں
جیسے ہم کہتے ہیں کہ "زید اور بکر" آئے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ زید پہلے ایا یا زید افضل ہے...یہ معنی ہرگز ثابت نہین ہوتا ترتیب کے لیے ثم لفظ آتا ہے
لیھذا ناموسِ صحابہ و اہلبیت پر اعتراض کرنا غلط ترتیب کہنا غلط نظریہ عام کرنا ٹھیک نہیں...
.
عربی میں و ترتیب کے لیے نہیں آتا اسی طرح عام طور پر اردو میں بھی ترتیب کے لیے نہیں آتا
مگر
عرف کو دیکھا جائے تو صحابہ کرام و اہلبیت عظام کا اکھٹے تذکرہ کرنا ہو تو ترتیب کی طرف اشارہ ہوتا ہے لیھذا نعرہ و اکھتے تذکرہ میں پہلے صحابہ کا ذکر پھر اہلبیت کا...
کیونکہ
اہلبیت پہلے اور صحابہ بعد میں....یہ ترتیب بلادلیل ہے اہلسنت نظریات کے خلاف ہے...اہلسنت کے مطابق صحابی سیدنا ابوبکر و عمر تمام امتِ محمدیہ میں سے افضل ہیں لیھذا پہلے صحابہ پھر اہلبیت
.
*#پہلے صحابہ یعنی ابوبکر و عمر پھر اہلبیت*
حَدَّثَنَا عَبْدُ العَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «كُنَّا نُخَيِّرُ بَيْنَ النَّاسِ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنُخَيِّرُ أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ، ثُمَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ»
ترجمہ
ہم صحابہ کرام لوگوں کے درمیان فضیلت دیتے تھے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ مبارک میں تو ہم فضیلت دیتے تھے سب سے پہلے ابو بکر صدیق کو پھر سیدنا عمر کو پھر عثمان بن عفان کو ُ(پھر سیدنا علی کو)
[صحيح البخاري ,5/4روایت3655]
.
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا عَنْبَسَةُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: قَالَ سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: إِنَّ ابْنَ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: «أَفْضَلُ أُمَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ، ثُمَّ عُثْمَانُ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ ہیں میں ہم صحابہ کرام کہا کرتے تھے کہ کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے پہلے افضل ابوبکر صدیق ہے پھر سیدنا عمر سیدنا عثمان(پھر سیدنا علی)
[سنن أبي داود ,4/206روایت4628]
علی...افْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَبَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند احمد2/201)
.
سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ:
خير الناس بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم أبو بكر، وخير الناس بعد أبي بكر عمر
ترجمہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے بہتر.و.افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب لوگوں سے بہتر.و.افضل عمر ہیں...(ابن ماجہ روایت نمبر106)
.
حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِئُ , ثنا عُمَرُ بْنُ عُبَيْدٍ الْخَزَّازُ , عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: كُنَّا مَعْشَرَ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ مُتَوَافِرُونَ نَقُولُ:أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ ثُمَّ عُمَرُ
ترجمہ:
ہم صحابہ کہا کرتے تھے کہ
نبی پاک کے بعد تمام امت میں سے سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
(مسند الحارث=بغية الباحث عن زوائد مسند الحارث2/888 روایت959)
.
خَطَبَنَا عَلِيٌّ، فَقَالَ: " مَنْ خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا؟ " فَقُلْتُ: أَنْتَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَالَ: " لَا خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، ثُمَّ عُمَرُ
سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ نے خطبہ دیا اور ہم سے پوچھا کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہے راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا آپ امیر المومنین....تب حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ نہیں میں(علی سب سے افضل)نہیں، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں سب سے بہترین اور افضل ترین شخص ابوبکر صدیق ہیں پھر عمر ہیں
[مسند أحمد ط الرسالة ,2/201 روایت834]
.
الحدیث التقریری:
كُنَّا نَقُولُ وَرَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ: أَفْضَلُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ، وَيَسْمَعُ ذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَا يُنْكِرُهُ
ہم صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی کہا کرتے تھے کے اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابوبکر ہیں پھر عمر پھر عثمان ہیں ( پھر سیدنا علی) حضور علیہ السلام یہ سنتے تھے اور اس کا انکار نہ فرماتے تھے
[المعجم الكبير للطبراني ,12/285حدیث13132]
.
اہلسنت کا عقیدہ وہی ہے جو صحابہ کرام اور اہل بیت کا تھا کہ پہلا نمبر ابو بکر صدیق کا...سیدنا علی کے مطابق بھی پہلا نمبر سیدنا ابوبکر صدیق کا ہے...جو لوگ حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر پر فضیلت دیتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ "آل دا پہلا نمبر، فاطمہ دا پہلا نمبر، علی دا پہلا نمبر "وہ ٹھیک نہیں، ایسوں کو سیدنا علی نے جھوٹا اور مجرم قرار دیا ہے
.
حضرت سیدنا علی فرماتے ہیں:
بلغني أن أناسا يفضلوني على أبي بكر وعمر، لا يفضلني أحد على أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري
ترجمہ:
حضرت علی فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی ہے کہ کچھ لوگ ابوبکر اور عمر پر مجھے فضیلت دیتے ہیں، مجھے ابوبکر و عمر پر کوئی فضیلت نہ دے ورنہ اسے وہ سزا دونگا جو ایک مفتری(جھوٹ.و.بہتان والے)کی سزا ہوتی ہے(یعنی 80کوڑے مارونگا)
(فضائل الصحابہ روایت نمبر387)
.
إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَى غَيْرِهِ فَهُوَ مُبْتَدِعٌ،
اگر سیدنا علی کو(سیدنا ابوبکر و عمر پر)فضیلت دے تو وہ بدعتی (مخالف و خارج از اہلسنت) ہے
[البحر الرائق ,1/370]
.
مُبْتَدِعٌ إنْ فَضَّلَ عَلِيًّا عَلَيْهِمَا مِنْ غَيْرِ سَبٍّ
وہ بدعتی(مخالف و خارج از اہلسنت)ہے جو سیدنا ابوبکر و عمر پر سیدنا علی کو فضیلت دے بغیر مذمت و گالی کے
[فتاوی شامی ردالمحتار,4/70]
.
لقد تواتر عن أمير المؤنين علي رضي الله عنه أنه كان يقول على منبر الكوفة: خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر روى المحدثون والمؤرخون هذا عنه من أكثر من ثمانين وجها. ورواه البخاري وغيره. وكان علي رضي الله عنه يقول: لا أوتي بأحد يفضلني على أبي بكر وعمر إلا ضربته حد المفتري.
ولهذا كان الشيعة المتقدمون متفقين على تفضيل أبي بكر وعمر. نقل عبد الجبار الهمداني من كتاب: تثبيت النبوة أن أبا القاسم نصر بن الصباح البلخي قال في كتاب النقض على ابن الرواندي: سأل شريك بن عبد الله فقال له: أيهما أفضل: أبو بكر أو علي؟ فقال له: أبو بكر. فقال السائل: تقول هذا وأنت شيعي؟! فقال له: نعم: من لم يقل هذا فليس شيعيا!! والله لقد رقى هذه الأعواد على لقال: إلا أن خير هذه الأمة بعد نبيها أبو بكر ثم عمر، فكيف نرد قوله، وكيف نكذبه؟ والله ما كان كذابا.
خلاصہ:
یہ بات متواتر سے ثابت ہے کیا حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ اس امت میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ افضل ابو بکر ہیں پھر عمر۔۔۔حضرت علی کی یہ روایت قریبا 80 طرق سے مروی ہے
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے تھے کہ جو مجھے ابوبکر اور عمر پر فضیلت دے گا میں اسے بہتان باندھنے والے کی سزا دوں گا۔۔۔حتی کہ متقدمین شیعہ بھی یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ سب سے افضل ابوبکر ہیں پھر عمر
ہمدانی نے کتاب النقض کے حوالے سے لکھا ہے کہ شریک نے سوال کیا کہ کون افضل ہے ابوبکر یا علی تو جواب دیا ابو بکر....سائل نے کہا کہ تم شیعہ ہو کر یہ بات کرتے ہو۔۔۔؟
آپ نے فرمایا جو حضرت ابوبکر صدیق کی فضیلت نہ دےوہ(اصلی) شیعہ ہی نہیں کیونکہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کئی بار اس ممبر پر چڑھے اور فرمایا کہ امت میں سب سے افضل ابوبکر صدیق پھر عمر ہیں ہم حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی بات کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں.....؟؟
[العواصم من القواصم ط دار الجيل ,page 274]
.
خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ بَعْدَ نَبِيِّهَا أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ
[السنة لعبد الله بن أحمد ,2/584]
.
احادیث و روایات میں مطلق فضیلیت ہے اسے سیاسی اور روحانی میں تقسیم کرکے کہنا کہ صدیق و عمر سیاسی ظاہری خلیفہ تھے اور علی بلافصل دور صدیقی ہی سے روحانی خلیفہ تھے(جیسا کہ ڈاکٹر طاہر الکادری کے کلام سے ظاہر ہے دیکھیےانکی کتاب القول الوثیق ص41اور اسی طرح کے بات آج کل کے کچھ گدی نشین پیر صاحبان بھی کرتے نظر آتے ہیں )....ایسا کہنا اپنی طرف سے روایات میں زیادتی کے مترادف و مردود ہے....اہلسنت کے نظریہ ، اہل علم کے نظریہ کے خلاف ہے
.
علامہ خفاجی سنی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:
وبعد عصرہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفتہ القطب...متفق علیہ بین اہل الشرع و الحکماء قد یجمع بین خلافتین کالخلفاء الراشدین کابی بکر
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت(وفات)کے بعد جو آپ کا خلیفہ ہوا وہی قطب بھی ہے۔۔۔اہل حکمۃ اہل فلسفہ اہل شرع سب کا اس مسلے میں اتفاق ہے کہ سیدنا ابوبکر وغیرہ خلفاء راشدین رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے ہر ایک بیک وقت سیاسی و روحانی خلیفہ تھے...(دیکھیے نسیم الریاض3/30)
.
آلِ نبی اولاد علی ولی کامل حضرت شیخ سید عبدالعزیز دباغ مغربی علیہ الرحمہ کا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بابت عقیدہ افضلیت ؛
مشہور زمانہ ملفوظات بنام "الابریز"میں فرماتے ہیں
"مگر ہمارا عقیدہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ تمام امت کے سید العارفین اور امام الاولیاء ہیں ، اور ہم کئی بار آپ(یعنی اپنے شیخ) کی زبان مبارک سے یہ بھی سن چکے ہیں ، کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی شخص معرفت الٰہیہ میں سیدنا ابوبکر کی برابری نہیں کرسکتا ، اور اولیاء اور صالحین میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی طرح باطنِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتا ہوں اور وہی سید العارفین امام المحبین ہیں۔
(الابریز شریف مترجم ،ص 205)
سیدنا ابوبکر کو فقط سیاسی اور سیدنا علی کو خلافت صدیقی سے ہی روحانی خلیفہ بلافصل کہنے والے نظریہ اہل شرع کے مخالف ہیں،عقل و حکمت کے اعتبار سے بھی ٹھیک نہیں......پلپلے حضرات بالخصوص نیم رافضی و منہاجی و چمنی حضرات تفکر کریں اور دیگر لوگ انکی مکاریوں سے بچتے رہیں
.
سوال:
سیدہ فاطمہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کا جزو ہے سیدنا ابوبکر اس سے کیسے افضل ہوسکتے ہیں.....؟؟
.
جواب:
سیدہ فاطمہ تو جزو ہیں بڑی فضیلت کی بات ہے مگر ابوبکر عمر عثمان علی رضی اللہ عنھم اجمعین اس خمیر سے پیدا ہوئے جس سے نبی پاک پیدا ہوئے یہ حضرات خمیرِ نبوی کے شریک ہیں اور شریک جزو سے افضل ہوتا ہے
.
أنهم ورسول الله -صلى الله عليه وسلم- خلقوا من عصارة تفاحة من الجنة:
عن أنس بن مالك قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: "أخبرني جبريل أن الله تعالى لما خلق آدم وأدخل الروح في جسده, أمرني أن آخذ تفاحة من الجنة فأعصرها في حلقه فعصرتها في فمه فخلقك الله من النقطة الأولى أنت يا محمد, ومن الثانية أبا بكر, ومن الثالثة عمر, ومن الرابعة عثمان, ومن الخامسة عليا
وہ(ابوبکر عمر عثمان علی رضی اللہ عنھم اجمعین) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی جنتی سیب کےخمیر سے پیدا ہوئے
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا،آپ نےفرمایا:
مجھے(یعنی رسول کریم کو) جبریل نے خبر دی کہ جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا اور اس کے جسم میں روح ڈال دی مجھے(یعنی جبراءیل کو) حکم دیا کہ جنتی پھل میں سے سیب کا پانی نچوڑ کر خمیر بناؤں پس میں نے خمیر بنایا پس اللہ تعالی نے اس خمیر کے پہلے قطرے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تخلیق فرمایا پھر دوسرے سے ابوبکر کو ، تیسرے سے عمر کو ، چوتھے سے عثمان کو اور پانچویں سے علی کو
(الریاض النضرۃ1/51
الحاوی للفتوی2/46
سمط النجوم2/453
الصواعق المحرقہ1/236)
.
تم کون ہوتے ہو اکابرین، بعض علماء، بعض پیر حضرات و گدی نشینوں کو توجہ دلانے والے.......؟؟
امام نووی علیہ الرحمۃ ایک حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں.
ترجمہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب امام اور سربراہ(لیڈر مفتی اکابر) کوئی حکم مطلق دے اور اس کے متبعین میں سے کسی شخص کی رائے اس کے خلاف ہوتو اس کو چاہیے کہ وہ امیر و سربراہ کے سامنے اپنی رائے پیش کرے تاکہ امیر اس پر غور کرے، پس اگر امیر پر یہ منکشف ہو کہ اس متبع کی رائے(مشورہ،بات)صحیح ہے تو اسکی طرف رجوع کر لے ورنہ اس متبع کے شبہ کو زائل کرے اور اسکی تسلی کرے..
(شرح مسلم للنووی1/581بحوالہ تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ الشوری آیت10)
.
الحدیث: ایاکم و الغلو
خبردار(انبیاء کرام صحابہ اہلبیت اسلاف ولی مرشد استاد وغیرہ سے محبت تعریف تنقید وغیرہ ہر معاملےمیں)خود کو غلو(مبالغہ آرائی،حد سےتجاوز کرنے) سےدور رکھو(ابن ماجہ حدیث3029شیعہ کتاب منتہی المطلب2/729)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
03468392475