*🔸اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور حُقوقُ الْعِباد🔸*
*🔸اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اور حُقوقُ الْعِباد🔸*
اے عاشقانِ امام احمد رضا!اعلیٰ حضرت،امام اَہلسنَّت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کے اعلیٰ کردار کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ اللہ پاک کے حُقوق کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ بندوں کے حقوق کے بارے میں بھی بہت حسّاس تھے کیونکہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو معلوم تھا کہ بندوں کے حُقوقُ کا مُعاملہ اللہ کریم کے حقوق سے بھی زیادہ نازک ہے۔ آئیے! بندوں کے حقوق کا احساس کرنے کے بارے میں اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا دلچسپ واقعہ سنئے اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی سیرت پر عمل کرنے کی نِیَّت کیجئے ،چنانچہ
*♦️بچے سے معافی مانگی♦️*
ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ بریلی شریف کی مسجد میں اعتکاف میں بیٹھے تھے۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ افطار کے بعد کھانا نہ کھاتے بلکہ صرف پان کھاتے تھے۔ جبکہ سَحَری کے وَقْت گھر سے صرف ایک چھوٹے سے پیالے میں فیرینی یعنی ایک قسم کی کھیر جو دودھ، چینی اور چاولوں کے آٹے سے بنتی ہے وہ اور ایک پیالی میں چٹنی آیا کرتی تھی،وہ نوش فرمایا کرتے تھے۔ایک دن شام کو پان نہیں آئے اور آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کی یہ پختہ عادت تھی کہ کھانے کی کوئی چیز طلب نہیں فرماتے تھے،چنانچہ خاموش رہے لیکن طبیعت میں ناگواری ضرور پیدا ہوئی۔مغرب سے تقریباً 2 گھنٹے بعد ایک بچہ پان لایا،اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اسے ایک تھپڑ مارکر فرمایا:اتنی دیر میں لایا؟ لیکن بعد میں آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کو خیال آیا کہ اس بے چارے کا تو کوئی قصور نہ تھا،قصور تو دیر سے بھیجنے والے کا تھا ۔
چنانچہ سَحَری کے بعد اُس بچے کو بلوایا جو شام کو پان دیر میں لایا تھا اور فرمایا: شام کو میں نے غلطی کی جو تمہارے چپت ماری،دیر سے بھیجنے والے کا قصور تھا،لہٰذا تم میرے سر پر تھپڑ مارو اور ٹوپی اُتار کر اِصرار فرماتے رہے۔اعتکاف میں بیٹھے لوگ یہ سُن کر پریشان ہوگئے، وہ بچہ بھی بہت پریشان ہوکر کانپنے لگا۔اس نے ہاتھ جوڑ کر عرض کی:حضور!میں نے معاف کیا۔فرمایا: تم نابالغ ہو، تمہیں معاف کرنے کا حق نہیں،تم تھپڑ مارو۔ مگر وہ مارنے کی ہمت نہ کرسکا۔آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ نے اپنا بکس منگوا کر مٹھی بھر پیسے نکالے اور وہ پیسے دکھا کر فرمایا: میں تم کو یہ دوں گا، تم تھپڑ مارو۔ مگر بے چارہ یہی کہتا رہا،حضور! میں نے معاف کیا۔آخرِ کار اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بہت سے تھپڑ اپنے سَرِ مبارک پر لگائے اور پھر اس کو پیسے دے کر رُخصت کر دیا۔
(📗حیات اعلیٰ حضرت، ۱/۱۰۷ملخصاً)
اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت! آپ نے سُنا کہ اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے اپنے چاہنے والوں کو عَمَلی طور پر یہ بتا دیا کہ چاہے کوئی کتنے ہی بڑے منصب پر فائز کیوں نہ ہو، اگر اس سے کسی کا دل دکھ جائے تو اسے معافی مانگنے میں ہرگز شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، کیونکہ حُقوقُ العباد کا معامَلہ انتہائی نازک ہے۔اس کی وجہ سے بندہ بہت سے گناہوں میں مُبْتَلا ہوسکتا ہے جو اس کیلئے دنیاوی اور اُخروی نقصانات کا باعث بن سکتے ہیں، مَثَلاً بندوں کے حُقوق اَدا نہ کرنے سے بندہ دوسروں کا دل دکھانے جیسے کبیرہ گُناہ میں مُبْتَلا ہوسکتا ہے اور یہی دل دکھانے، حسد کرنے، دل میں دشمنی رکھنے اور دُشمنیاں کرنے جیسے کئی گُناہوں پر اُبھار سکتی ہے۔ان گُناہوں میں پڑنے کے سبب غیبتوں، چغلیوں، تہمتوں، بدگمانیوں اور کئی کبیرہ گُناہوں کا دروازہ بھی کُھل جاتاہے۔ جن کےحُقُوق ضائع کیے انہیں راضی کرنے کیلئے قیامت کے دن اپنی نیکیاں بھی دینی پڑ سکتی ہیں اور نیکیاں نہ ہونے کی صورت میں ان لوگوں کے گناہوں کا بوجھ اُٹھا کر جنَّت سے محروم ہو کر عبرت ناک اَنجام سے واسطہ پڑسکتا ہے۔
از۔۔ ✍️ *غلام نبی انجــــــــم رضا عطاری*