یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

1- متعہ کیا ہے ؟ 2- کیا یہ فی زمانہ جائز ہے ؟




1- متعہ کیا ہے ؟
2- کیا یہ فی زمانہ جائز ہے ؟

سائل : ادریس ونجاری
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
1- متعہ اس عقد کو کہتے ہیں جس میں مقررہ معاوضہ کے بدلے معینہ مدت کے لئے کسی عورت کو قضاءِ شہوت کے لیے حاصل کیا جاتا ہے، اس عقد کے لئے نہ گواہوں کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ممتوعہ عورتوں کی تعداد کی قید ہے، جہاں فریقین راضی ہوں مدت اور اجرت طے ہوئی، وہیں جنسی تسکین کا عمل شروع ہوگیا۔
چنانچہ کتاب التعریفات میں ہے :
*"ونکاح المتعۃ : ھو ان یقول الرجل لامراۃ : خذی ھذہ العشرۃ و اتمتع بک مدۃ معلومۃ، فقبلتہ۔"*
یعنی اور نکاح متعہ یہ ہے کہ مرد عورت سے یوں کہے :
تو یہ دس (درہم) لے لے اور میں تیرے ساتھ معلوم مدت کے لئے متعہ کرتا ہوں، پھر وہ عورت اسے قبول کرلے۔
*(کتاب التعریفات، صفحہ 170، مکتبہ رحمانیہ لاہور)*
مشہور شیعہ مفسر ابوعلی فضل بن الحسن الطبرسی من القرن السادس لکھتا ہے :
"(نکاحِ متعہ) وہ نکاح ہے جع مہر معین سے مدت معین کے لئے کیا جاتا ہے۔"
*(مجمع البیان جلد 3 صفحہ 52 انتشارات خسرو ایران)*
شیعہ مذہب کی مشہور کتاب *"الاستبصار"* میں ہے :
زرارہ کا بیان ہے کہ ابوعبداللہ سے پوچھا گیا کہ :
کیا متعہ صرف چار عورتوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے؟ 
انہوں نے کہا :
"متعہ اجرت کے عوض ہوتا ہے خواہ ہزار عورتوں سے کرلو۔"
*(الاستبصار جلد 3 صفحہ 147 دارالکتب الاسلامیہ تہران)*
شیعوں کی معتبر کتاب *"الفروع من الکافی"* میں ہے :
"ابوعمیر کہتے ہیں کہ میں نے ہشام بن سالم سے متعہ کا طریقہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ تم یوں کہو اے اللہ کی بندی میں اتنے پیسے کے عوض اتنے دنوں کے لئے تم سے متعہ کرتا ہوں، جب ایام گزر جائیں گے تو اس کو طلاق ہو جائے گی اور اس کی کوئی عدت نہیں۔"

*(الفروع من الکافی جلد 5 صفحہ 455، 456 مطبوعہ دارالکتب الاسلامیہ تہران)*
مشہور شیعہ خمینی لکھتا ہے :
"متعہ والی عورت اگرچہ حاملہ ہوجائے، خرچ کا حق نہیں رکھتی۔ متعہ والی عورت ایک بستر پر سونے اور شوہر سے ارث پانے اور شوہر بھی اس کا، وارث بننے کا حق نہیں رکھتا۔"
*(توضیح المسائل صفحہ 368، 369 مطبوعہ سازمان تبلیغات)*
2- شریعت میں متعہ ناجائز و حرام اور خالص زنا ہے، اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور آئمہ اربعہ رحمۃ اللہ علیھم کا اجماع ہے، علمائے حق میں سے کوئی بھی اس کے جائز ہونے کا قائل نہیں، صرف دو موقعوں پر اسے حلال کیا گیا، ایک مرتبہ فتح خیبر سے پہلے اور دوسری مرتبہ فتح مکہ کے دن تین دنوں کے لئے حلال کیا گیا پھر اس کے بعد قیامت تک حرام فرما دیا گیا، اس کا حرام و گناہ ہونا قرآنی آیات، احادیثِ مبارکہ اور تفسیر و فقہ کی معتبر کتابوں سے ثابت ہے۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
*"وَالَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ (5) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْن (6) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(7)"*
ترجمہ : اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں۔
*(پارہ 18، سورۃ المؤمنون : 5، 6، 7)*
اس سے معلوم ہوا کہ شریعت میں صرف بیویوں اور شرعی باندیوں سے جائز طریقے کے ساتھ شہوت پوری کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کسی عورت سے متعہ کرنا اسی تیسری راہ کو اختیار کرنا ہے جو اللہ پاک کی مقرر شدہ حد سے جدا اور ناجائز و حرام ہے۔
اس کے تحت تفسیر مدارک التنزیل میں ہے :
*"فیہ دلیل تحریم المتعۃ و الاستمتاع بالکف لارادۃ الشھوۃ"*
یعنی اس آیت کے اندر متعہ اور شہوت کے ارادے سے ہتھیلی سے منی نکالنے کو حرام قرار دینے پر دلیل ہے۔
اسی طرح ایک اور مقام پر اللہ پاک مسلمان مردوں سے فرماتا ہے :
*"اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْۤ اَخْدَانٍؕ-"*
ترجمہ : جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالنے کو (پانی گرانے کو) اور نہ آشنا بنانے کو۔
*(پارہ سورۃ : )*
ظاہر ہے کہ متعہ عورت کو قید میں رکھنے، بیوی بنانے کے لئے نہیں کیا جاتا بلکہ مستی نکالنے اور پانی گرانے کے لئے کیا جاتا ہے لہذا متعہ حکمِ خداوندی کے خلاف ہے۔
صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :
*"ان رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نھی عن متعۃ النساء یوم خیبر و عن اکل الحمر الانسیۃ"*
یعنی بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن عورتوں سے متعہ اور گھریلو گدھے کو کھانے سے منع فرما دیا (گدھے کے گوشت کو کھانا حرام فرما دیا)۔
*(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ خیبر، صفحہ 763، رقم الحدیث : 4216 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
مزید ایک اور مقام پر صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے فرمایا :
*"ان النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم نھی عن المتعۃ، و عن لحوم الحمر الاھلیۃ، زمن خیبر"*
بیشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غزوہ خیبر کے زمانہ میں (عورتوں سے) متعہ اور گھریلو گدھے کے گوشت (کو کھانے) سے منع فرما دیا۔
*(صحیح البخاری، کتاب النکاح، باب نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عن نکاح المتعۃ آخراً، صفحہ 964، رقم الحدیث : 5115 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*

حضرت سبرہ بن معبدہ جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
*"یا ایھا الناس، انی قد کنت اذنت لکم فی الاستمتاع من النساء، و ان ﷲ قد حرم ذٰلک الٰی یوم القیامۃ، فمن کان عندہ منھن شئ فلیخل سبیلہ و لاتاخذوا مما آتیتموھن شیئاً"*
یعنی اے لوگو! میں نے پہلے تمہیں عورتوں کے ساتھ متعہ کرنے کی اجازت دی تھی اور اب بیشک اللہ پاک نے اسے قیامت کے دن تک حرام فرما دیا ہے، تو جس کے پاس کوئی ایسی عورت ہو وہ اسے چھوڑ دے اور جو انہیں دے چکے ہو اس میں سے کچھ نہ لو۔
*(صحیح مسلم، باب نکاح المتعۃ، وبیان انہ ابیح ثم نسخ ثم ابیح ثم نسخ واستقر تحریمہ الی یوم القیامۃ، صفحہ 522، رقم الحدیث : 21 (1406) دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :
*"انما کانت المتعۃ فی اول الاسلام کان الرجل یقدم البلدۃ لیس لہ بھا معرفۃ فیتزوج المرأۃ بقدر مایری انہ یقیم فتحفظ لہ متاعہ و تصلح لہ شیاہ حتی اذا نزلت الآیۃ "اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ" قال ابن عباس : فکل فرج سوی ھذین فھو حرام"*
یعنی متعہ تو ابتدائے اسلام میں تھا، مرد کسی شہر میں جاتا جہاں کسی سے جان پہچان نہ ہوتی تو کسی عورت سے اتنے دنوں کے لیے عقد کر لیتا جتنے روز اس کے خیال میں وہاں ٹھہرنا ہوتا، وہ عورت اس کے اسباب کی حفاظت کرتی اور اس کے کاموں کی درستی کرتی، یہاں تک کہ جب یہ آیت شریفہ نازل ہوئی : "مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں۔"
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنھما نے فرمایا :
"تو (اس دن سے) ان دو کے سوا ہر فرج حرام ہوگئی۔"
*(سنن الترمذی و ھو الجامع الصحیح، کتاب النکاح، باب ماجاء فی نکاح المتعہ، صفحہ 292، رقم الحدیث : 1122 دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
تنویر الابصار مع درِمختار میں ہے :
*"(و بطل نکاح متعۃ و مؤقت) و ان جھلت المدۃ لو طالت فی الاصح، و لیس منہ ما لو نکحھا علی ان یطلقھا بعد شھر او نوی مکثہ معھا مدۃ معیّنۃ"*
یعنی متعہ کے طور پر نکاح یا مقررہ مدت کے لیے نکاح خواہ مدت مجہول ہو یا مدت لمبی ہو یا  تو اصح مذہب میں یہ نکاح باطل ہے، اور اگر اس شرط پر نکاح کیا کہ ایک ماہ بعد طلاق دے دوں گا یا اس وقت دل میں اس کے ساتھ مقررہ مدت کی نیت کی تھی تو یہ اس سے نہیں ہوگا (یعنی نکاح باطل نہ ہوگا)۔
عمدۃ المحققین علامہ محمد امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ علاء الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ کے قول *"ولیس منہ"* کے تحت تحریر فرماتے ہیں :
*"لان اشتراط القاطع یدل علی انعقادہ مؤبدا و بطل الشرط۔ بحر"*
اس لیے کہ نکاح میں قاطع (طلاق) کی شرط نکاح کے دائمی طور پر منعقد ہونے پر دلالت کرتی ہے اور شرط باطل ہوگی، بحر۔
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، کتاب النکاح، فصل فی المحرمات، مطلب : فیما لو زوج المولی امتہ، جلد 4، صفحہ 143، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اگر یوں عقد کرے کہ میں نے تجھ سے ایک مہینہ یا ایک برس یا سو برس کے لیے نکاح کیا تو نکاح نہ ہوگا کہ ایک وقت تک  نکاح کو محدود کر دینا صورتِ متعہ ہے اور متعہ محض حرام اور زنا۔" 
*(فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 192 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"متعہ بنصِ قرآنِ عظیم و اجماعِ ائمہ اہلسنت بلاشبہ باطل و حرامِ قطعی ہے، قال تعالٰی :
*فمن ابتغٰی وراء ذٰلک فاولئٰک ھم العادون.*
اللہ تعالٰی نے فرمایا : جو شخص (بیویوں اور لونڈی مملوکہ) کے علاوہ غیر کی خواہش کرتا ہے وہ حد سے متجاوز ہے۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 239 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
ایک اور مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :
حضور پرنور کا دربارہ متعہ کے کیا ارشاد ہے، اوائلِ اسلام میں جائز تھا پھر حرام کر دیا گیا، آیا اس کی حرمت حدیث سے ثابت ہے یا اقوالِ صحابہ سے ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"متعہ کی حرمت صحیح حدیثوں سے ثابت ہے، امیر المومنین مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے ارشادوں سے ثابت ہے، صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کے اقوال شریفہ سے ثابت ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآنِ عظیم سے ثابت ہے۔
اللہ عزوجل فرماتا ہے :
*و الذین ھم لفروجھم حفظون، الا علی ازواجھم او ما ملکت ایمانھم فانھم غیر ملومین، فمن ابتغی وراء ذلک فاولئک ھم العادون.*
جو لوگ اپنی بیویوں اور لونڈیوں کے ماسوا سے اپنی شرمگاہوں کو محفوظ رکھتے ہیں وہ ملامت سے محفوظ ہیں اور جو لوگ غیر کے متلاشی ہیں وہ حد سے متجاوز ہیں۔
*(فتاویٰ رضویہ جلد 11 صفحہ 236 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
شیعوں کی معتبر کتاب *"الاستبصار"* میں ہے :
*"عن زید بن علی عن اباہ علیھم السلام قال : حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لحوم الحمر الاھلیۃ و نکاح المتعۃ"*
زید بن علی اپنے اباء سے روایت کرتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گھریلو گدھوں کے گوشت اور نکاحِ متعہ کو حرام فرما دیا۔
*(الاستبصار، جلد 2، صفحہ 77، دارالکتب الاسلامیہ، تہران)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
07/11/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*