یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

گانے باجے کی ہولناکیاں



*گانے باجے کی ہولناکیاں*


از 🖊️۔ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ

*اُونٹوں نے مست ہو کر دم توڑ دیا !*

*حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں:*
میں نے ایک بار قبیلۂ عرب کے سردار کے مہمان خانہ میں پڑاؤ کیا، وہاں ایک حبشی غلام زنجیروں میں جکڑا ہوا دھوپ میں پڑا تھا، ترس کھاتے ہوئے میں نے سردار سے کہا :
*یہ غلام مجھے بخش دیجئے ۔*
سردار بولا :
عالی جاہ ! اِس غلام نے اپنی مَسحور کُن سُریلی آواز سے میرے کئی اُونٹ مار ڈالے ہیں ! قصّہ یوں ہے کہ میں نے اِس کو کھیت سے اناج وغیرہ لانے کیلئے چند اُونٹ دیئے اِس نے ہر اُونٹ پر اُس کی طاقت سے دُگنا بوجھ لادا اور راستے بھر گاتا رہا جس سے اُونٹ مَست ہوکر دوڑتے ہوئے بےحال ہو کر واپس آئے ، اور رفتہ رفتہ سبھی اُونٹوں نے دم توڑ دیا !
*حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم خواص رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :*
یہ سُن کر میں بے حد مُتَعَجِّب ہوا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے ! دَرِیں اَثنا ( یعنی اتنے میں ) تین چار دن کے پیاسے چند اُونٹ گھاٹ پر پانی پینے آئے ، سردار نے حبشی غلام کو حکم دیا :
*گانا شروع کر ۔*
اُس نے نہایت ہی خوش الحانی کے ساتھ اشعار پڑھنے شروع کر دیئے ۔
*دیکھتے ہی دیکھتے اونٹوں پر کیفیت طاری ہوئی وہ پانی پینا بھول گئے، مستی میں جھومنے لگے اور پھر بے تابانہ جنگل کی طرف بھاگنے لگے ۔*
اس کے بعد سردار نے غلام کو آزاد کر کے مجھے بخش دیا ۔  

*( ماخوذاز کشف المحجوب ص۴۵۴نوائے وقت پرنٹرر، مرکز الاولیاء لاہور )*

*اچّھے اشعار سُننا ثواب ہے*

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو !
دیکھا آپ نے !
خوش الحان انسان کی آواز میں کتنا جادو ہوتا ہے کہ اس کی سُریلی آواز سے انسان تو انسان حیوان بھی مَست ہو جاتے ہیں۔ 
*جائز اشعار مثلاً حمد ، نعت اور مَنْقَبت وغیرہ جائز طریقے پر اچّھی اچّھی نیَّتوں کے ساتھ سننا باعثِ ثواب اور بُرے اشعار جیسا کہ فلموں کے فُحش گانے وغیرہ سننا سببِ عذاب ہے ۔*
حضرت سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو خوش الحانی کی نعمت عطا ہوئی تھی 
اور آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی آواز کے ساتھ 
*چرندے پرندے بھی تسبیح کرتے تھے چُنانچِہ*
پارہ17 سورۃُالانبیاء آیت 79 میں ارشاد ہوتا ہے :

*وَ سَخَّرنَا مَعَ دَاوٗدَ الْجِبَالَ یُسَبِّحْنَ وَ الطَّیْرَؕ-*

*ترجَمۂ کنزا لایمان :*
اور داوٗد کے ساتھ پہاڑ مسخر فرما دیئے کہ تسبیح کرتے اور پرندے ۔

*مُفَسّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس آیت کے تحت تفسیر نورُ العِرفان میں فرماتے ہیں:*
’’اس طرح کہ پہاڑ اور پرندے آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے ساتھ ایسی تسبیح کرتے تھے کہ سننے والے ان کی تسبیح سنتے تھے۔ ورنہ شجر و حجر (تو) اللہ کی تسبیح کرتے ہی رہتے ہیں۔

( نورالعرفان ص ۵۲۳ )

*داوٗد عَلَیْہِ السَّلام کی دلکش آواز کے کرشمے*

حضرتِ سیِّدُنا داتا گنج بخش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں: 
*اللّٰہُ وَدود عَزَّوَجَلَّ نے حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو اِس قَدَر نوازا تھا کہ آپ کی خوش الحانی کے باعث چلتا ہوا پانی ٹھہر جاتا، چرندے اور جانور آوازِ مبارَکہ سن کر پناہ گاہوں سے باہَر نکل آتے ، اُڑتے پرندے گر پڑتے اور بسا اوقات ایک ایک ماہ تک مدہوش پڑے رہتے اور دانہ نہ چُگتے ، شیرخوار بچے نہ روتے نہ دودھ طلب کرتے ،کئی افراد فوت ہو جاتے حتّٰی کہ ایک بار آپ عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی پرسُوز آواز کے سبب بَہُت سارے افراد دم توڑ گئے ۔*
شیطان یہ سب کچھ دیکھ کر جل بُھن کر کباب ہوا جارہا تھا۔ با لآخر اُس نے بانسری اور طنبورہ بنایا اور
حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے رحمتوں بھرے اجتماع کے مقابلے میں *اپنا نُحُوستوں بھرا اجتماع یعنی محفلِ موسیقی کا سلسلہ شروع کیا*
اب سامِعینِ داوٗدی دو گروہوں میں مُنقَسِم ہو گئے، *سعادت مند حضرات حضرتِ سیِّدُنا داوٗد عَلٰی نَبِیِّنا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام ہی کو سنتے* جبکہ 
*بدبخت افراد گانے باجوں اور راگ رنگ کی محافل میں شرکت کر کے اپنی آخرت خراب کرنے لگے ۔*

( ماخوذ از کشف المحجوب  ص۴۵۷ )

 *کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈالا جائیگا*

*میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے!*
گانے باجے سننا سنانا شیطانی اَفعال ہیں، سعادت مند مسلمان ان چیزوں کے قریب بھی نہیں پھٹکتے  ۔

*گانوں باجوں سے بچنا بےحد ضروری ہے کہ اِس کا عذاب کسی سے بھی نہ سہا جا سکے گا ۔*
حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے:
*جو شخص کسی گانے والی کے پاس بیٹھ کر گانا سنتا ہے قِیامت کے دن اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس کے کانوں میں پِگھلا ہوا سیسہ اُنڈیلے گا‘‘۔*  

*(کنزُ العُمّال ج۱۵ ص۹۶حدیث۴۰۶۶۲دارالکتب العلمیۃ بیروت 📚)*
*گانے باجے کی ہولناکیاں*🔥

https://chat.whatsapp.com/KbMFxmPp1OkHAq1YQk8zxz

https://www.facebook.com/AnjumRazaAttari12/

*قسط نمبر 2*

*از* 🖊️ امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ

*بندر و خِنزیر*

*عُمدَۃُالقاری* میں ھے
مدینے کے تاجدار ، رسولوں کے سالار‘ نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار، بِاذنِ پروردگار غیبوں پر خبردار، شَہَنشاہ اَبرار، ہم غریبوں کے غمگسار، ہم بےکسوں کے مددگار، صاحبِ پسینۂ خوشبودار‘ شفیعِ روزِ شُمار، جناب احمدِ مختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا ارشادِ عبرت بنیاد ہے :
*" آخِر زمانہ میں میری امّت کی ایک قوم کو مَسْخْ کر کے بندر اور خِنزیر بنا دیا جائے گا ۔* 
صحابۂ کرام عَلَيهِمُ الّرِضْوَان نے عرض کی :
*یارسولَ اﷲ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خواہ وہ اِس بات کی گواہی دیتے ہوں کہ آپ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہیں اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔*
فرمایا :
ہاں خواہ نَمازیں پڑھتے ہوں
روزے رکھتے ہوں
حج کرتے ہوں
*عرض کی گئی :*
ان کا جُرم کیا ہوگا ؟
فرمایا :
*وہ عورَتوں کا گانا سنیں گے اور باجے بجائیں گے اور شراب پئیں گے اسی لَھْو و لَعِب ( یعنی کھیل کود ) میں رات گزاریں گے اور صبح کو بندر اور خِنزیر بنا دیئے جائیں گے ۔* 

(عُمدَ ۃُالقاری ج ۱۴ ، ص۵۹۳  دارالفکر بیروت 📚)

*سُرخ آندھیاں* 

*حضرتِ مولائے کائنات، علیُّ المُرتَضٰی شیرِ خدا کَرَّمَ ﷲ تعالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے روایت ہے :*
تاجدارِ رسالت، محبوبِ رَبُّ الْعِزَّت عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے :
*جب میری امّت پندرہ 15 خصلتیں اختیار کر لے گی تو اس پر آفتیں اور بلائیں نازل ہوں گی عرض کی گئی :*
یا رسولَ اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی علیہ واٰلہٖ وَسلَّم وہ کون سی خصلتیں ہیں؟
فرمایا :
*{۱}* جب مالِ غنیمت کو ذاتی دولت بنا لیا جائے اور
*{۲}* امانت کو مالِ غنیمت بنا لیا جائے اور
*{۳}* زکوٰۃ کو جُرمانہ سمجھا جائے اور
*{۴}* آدمی اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور 
*{۵}* ماں کی نافرمانی کرے *اور*
*{۶}* دوست کے ساتھ بھلائی کرے *اور*
*{۷}* باپ کے ساتھ بےوفائی کرے *اور*
*{۸}* مساجِد میں آوازیں بُلند کی جائیں ( یعنی مسجدوں میں دنیاوی باتوں کا شور، لڑائیاں جھگڑے ہونے لگیں۔ نعت خوانی ، ذکر اللہ کی مجلسیں، میلاد شریف ، ذکر کے حلقے تو حضور (عَلَیْہِ السَّلَام) کے زمانہ ہی میں بھی مسجدوں میں ہوتے تھے ۔ 
*(مراۃ المناجیح ج۷ص ۲۶۳، ضیاء القرآن  )*
اور
*{۹}* سب سے رَذیل *( یعنی کمینہ ترین )* شخص کو قوم کا سردار بنالیا جائے *اور*
*{۱۰}* کسی شخص کے شَر سے بچنے کیلئے اُس کی عزت کی جائے *اور* 
*{۱۱}* شرابیں پی جائیں *اور*
*{۱۲}* ریشم پہنا جائے *اور* 
*{۱۳}* گانے والیوں *اور*
*{۱۴}* آلاتِ مُوسیقی کو رکھا جائے *اور*
*{۱۵}* اِس امّت کے بعد والے پہلوں کو بُرا کہیں، اُس وقت لوگوں کو سُرخ آندھیوں یا زلزلوں یا زمین میں دھنسنے یا چہروں کے مسخ یا پتھر برسنے کا انتظار کرنا چاہیے ۔
*(سنن الترمذی ج۴ ص۸۹ ۔ ۹۰، حدیث۲۲۱۷، ۲۲۱۸ دارالفکر بیروت 📚)*

*یاد رکھئے !*
موسیقی والے گانے سننا گناہ ھے بلکہ کہیں سے اس کی آواز آ رہی ہو تو وہاں سے ہٹ جانا اور نہ سننے کی بھر پور کوشش کرنا ضَروری ہے چُنانچِہ
*حضرتِ علّامہ شامی قُدِّسَ سرُّہُ السّامی فرماتے ہیں:*
’’ بانسری اور دیگر سازوں کا سننا بھی حرام ھے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ھے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے ۔ 
*( رَدُّ المُحتار ج۹ ص۶۵۱ دارالمعرفۃ بیروت 📚)*

*مُوسیقی کی آواز سے بچنا واجِب ھے*

حضرتِ سیِّدُنا علّامہ شامی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں، :
*(لچکے توڑے کے ساتھ) ناچنا ، مذاق اُڑانا، تالی بجانا، سِتار کے تار بجانا، بَربَط، سارنگی ، رباب، بانسری ، قانون ، جھانجھن، بِگل بجانا ، مکروہِ تحریمی ( یعنی قریب بہ حرام ) ھے کیونکہ یہ سب کفّار کے شعار ہیں نیز بانسری اور دیگر سازوں کا سننا بھی حرام ہے اگر اچانک سُن لیا تو معذور ہے اور اس پر واجِب ہے کہ نہ سننے کی پوری کوشِش کرے ‘‘ ۔*
( اَیضاً ص۶۵۱ )

*مُوسیقی کی آواز آتی ہو تو ہٹ جائیے*

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! 
*جوں ہی موسیقی کی آواز آئے تو ممکنہ صورت میں فوراً کانوں میں اُنگلیاں داخِل کر کے وہاں  سے دُور ہٹ جانا چاہئے اگر اُنگلیاں تو کانوں میں ڈال دِیں مگر وَہیں کھڑے یا بیٹھے رہے یا معمولی سا پرے ہٹ گئے تو مُوسیقی کی آواز سے بچ نہیں سکیں گے اُنگلیاں کانوں میں ڈال کر نہ سَہی مگر کسی طرح بھی مُوسیقی کی آواز سے بچنے کی بھرپور کوشش کرنا واجِب ہے اگر کوشش نہیں کریں گے تو ترکِ واجِب کا گناہ ہوگا ۔*

آہ !آہ !آہ ! اب تو *سیاروں، طیّاروں ، مکانوں ، دُکانوں ، ہوٹلوں ، چوراہوں اور گلیوں بازاروں شادیوں میں جس طرف بھی جائیے موسیقی کی دُھنِیں سنائی دیتی ہیں ۔*
*گانے جاری ہونے کی صورت میں ہوٹل میں کھانے پینے کی ہرگز ترکیب نہیں کرنی چاہئے ۔*

*📱 فون کی میوزیکل ٹیونز سے توبہ کیجئے*

افسوس صد کروڑ افسوس !
*آج کل مذہبی نظر آنے والے افراد کے موبائل فون میں بھی* مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ *اکثر میوزیکل ٹیون ہوتی ہے اور یہ ناجائز ہے ۔* 
جس کے فون میں میوزیکل ٹیون ہو اُس کیلئے ضروری ہے کہ ابھی اور اِسی وقت توبہ بھی کرے اور ہاتھوں ہاتھ اپنی اِس منحوس ٹیون کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دے *ورنہ جب جب یہ میوزیکل ٹیون بجے گی خود بھی سننے کی آفت میں پڑے گا اور دوسرا مسلمان بھی اگر سننے سے بچنے کی کوشش نہیں کریگا تو پھنسے گا ۔*

واقِعی حالات ناگُفتہ بہ ہیں جو لوگ حُسّاس ہوتے ہیں ان کیلئے موسیقی کے معاملہ میں سخت امتحان کا دَور ہے
*میں ایک اسلامی بھائی کو جانتا ہوں جس کا مکان بازار کے ساتھ ہونے کے سبب وقتاً فوقتاً موسیقی کے ساتھ گانوں کی آوازیں آتی رہتی ہیں ، بےچارہ کبھی اِس کمرہ میں پناہ لیتا ہے تو کبھی اُس کمرہ میں ، پھر بھی آواز آتی ہے تو دروازے کِھڑکیاں بند کر کے بچنے کی سعی کرتا ہے ۔*
ایسوں کا مذاق اڑانے کے بجائے ہر ایک مسلمان کو مُوسیقی کی آواز سے بچنے کی بھر پور کوشش کرکے اپنی آخِرت کیلئے بھلائی کا سامان کرنا چاہئے ۔ 
موسیقی کی آواز سے بچنے کیلئے ہیڈ فون بھی کار آمد ہے ، ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ ضَرورتاً کانوں میں روئی یا فوم کے ٹکڑے رکھ دیئے جائیں ۔
*فوم کے ٹکڑے مختلف انداز ( یا مختلف ناموں مَثَلاً  Foam Ear Plug) وغیرہ میں مخصوص میڈیکل اسٹور سے بھی مل سکتے ہیں۔*
بیان کردہ احتیاطوں پر عمل کرنے کو میں واجب نہیں کہتا ۔ 
نیز موسیقی کی آواز آنے کی وجہ سے اپنا گھر چھوڑ کر بھاگنے یا بسوں وغیرہ کا سفر ناجائز ہو نے کا حکم بھی نہیں لگاتا کہ فی زمانہ اِس میں شدید حرج ہے ۔
*بس موسیقی کی آواز کو دل میں بُرا جانتے ہوئے جس سے جس طرح بن پڑے بچنے کی کوشش


*گانوں کے 35 کُفریہ اشعار*

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو ! 

یاد رکھئے !
*فِلمیں ڈِرامے دیکھنا اور گانے باجے سننا حرام اور جہنَّم میں لے جانے والا کام ہے۔*
افسوس !
اب تو *فلمی گیت لکھنے اور گانے والے اتنے بےلگام* ہو گئے ہیں کہ انہوں نے ربِّ کائنات، خالقِ ارض و سمٰوٰت عَزَّوَجَلَّ پر بھی *اعتِراضات شُروع کر دیئے* ہیں۔
اپنی *دکانوں اور ہوٹلوں* میں گانے بجانے والوں، اپنی *بسوں اور کاروں* میں فلمی گیت چلانے والوں *شادیوں میں ریکارڈنگ* کر کے بستروں پر سسکتے پڑوسی مریضوں اور *نیک ہمسایوں کی آہیں* لینے والوں اور بےسوچے سمجھے گانے گُنگُنانے والوں کے لئے لمحۂ فکریہ ہے۔
ذرا سوچئے تو سہی *فلمی گانوں میں شیطٰن نے کیا کیا زہر گھول ڈالا* ہے ! اور لوگوں کو *ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جہنَّمی* اور ناری بنانے کیلئے کس قَدَر عیاّری و مکاّری کے ساتھ سازو آواز کے جادو کا جال بچھا ڈالا ہے ۔
میرا دل گھبراتا ہے ، زبان حیا سے لڑکھڑاتی ہے مگر ہمّت کر کے اُمّت مسلمہ کی بہتری کیلئے گانوں میں بو لے جانے والے *35 کُفریہ اَشعار* نُمُونتًا پیش کرتا ہوں:  ۔

*1۔* سِیپ کا موتی ہے تُو یا آسماں کی دھول ہے
تُو ہے قدرت کا کرِشمہ یا *خُدا کی بھول* ہے

اس شِعر میں *مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو بھولنے والا مانا گیا ہے جو کہ صریح کفر ہے۔*
اللّٰہ عَزَّوَجَل بھولنے سے پاک ہے۔  

چُنانچِہ پارہ 16 سورۂ طٰہٰ کی آیت نمبر 52  میں ارشاد ہوتا ہے:

لَا یَضِلُّ رَبِّیْ وَ لَا یَنْسَى٘
(۵۲) (پ ۱۶ طٰہٰ ۵۲ )
*تَرْجَمَۂ کَنْزُالایمان :*
میرا رب (عَزَّوَجَلَّ ) نہ بہکے نہ بُھولے۔

*2۔* دل میں تجھے بٹھا کر کر لوں گی بند آنکھیں
*پوجا کروں گی تیری* دل میں رہوں گی تیرے

اِس میں اپنے *مجازی محبوب کی پوجا کرنے کے عزم کا اظہار ہے جو کہ کفر ہے ۔*  

*3 ۔* ہائے ! تجھے چاہیں گے
*اپنا خدا بنائیں گے*

اس میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا *کسی اور کو خدا بنانے کا عزم ظاہر کیا گیا ہے جو کہ صَریح کفر ہے ۔*

*4 ۔* دل میں ہو تم آنکھوں میں تم بولو تمہیں کیسے چاہوں؟
*پوجا کروں یا سجدہ کروں جیسے کہو ویسے چاہوں؟*

اس میں اپنے *مجازی محبوب کی پُوجا کی اجازت مانگی گئی ہے جو کہ کفر ہے* اور سجدہ کا بھی اِذن طلب کیا ہے ، *غیرِ خدا کو سجدۂ تعظیمی حرام اور سجدۂ عبادت کفر ہے ۔*

*5 ۔* تمہارے سوا کچھ نہ چاہت کریں گے کہ جب تک جئیں گے مَحَبَّت کریں گے
*سزا رب جو دے گا وہ منظور ہو گی بس اب تو تمہاری عبادت کریں گے*

اِس شعر کے مِصرعِ ثانی میں دو صریح کفریات ہیں 
*(۱)* اللّٰہُ تَوّاب عَزَّوَجَلَّ کے *عذاب کو ہلکا جانا* گیا ہے
*(۲)* غیرِ خدا کی *عبادت کے عزم کا اِظہار* ہے ۔

*6 ۔* یا رب تُو نے یہ دل توڑا کس موسم میں؟

*اِس مِصرَع میں اللہ تعالیٰ پر اعتِراض کا پہلو نُمایاں ہے* اس لئے کفر ہے اگر اِعتِراض ہی مقصود تھا تو قائل *کافِر و مُرتد* ہوگیا ۔  

*7 ۔* کیسے کیسے کو دیا ہے ایسے ویسے کو دیا ہے
*اب تو چَھپَّڑ پھاڑ مولا اپنی جیبیں جھاڑ مولا*

اس شعر کے پہلے مِصرَع میں اِعتِراض کا پہلو نُمایاں ہے جو کہ کفر ہے اور اگر اِعتِراض ہی مقصود تھا تو قائل کافر ہے ۔  
*یونہی مِصرَعِ ثانی میں چھپڑ پھاڑنا اور جیبیں جھاڑنا* اگرچِہ مُحاوَرتاً بھی بولا جاتا ہے لیکن خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کی مبارک شان میں سخت ممنوع ہے اور *اگر اللہ تعالیٰ کو اَجسام کی طرح جسم والا ماننا اور اسے جیب والا لباس پہننے والا اِعتِقاد کیا تو صریح کفر ہے* ربِّ کائنات عَزَّوَجَلَّ جسم و جسمانیات سے پاک ہے ۔

*8 ۔* بےچَینیاں سَمیٹ کر سارے جہان کی
*جب کچھ نہ بن سکا تو مِرا دل بنا دیا*

اِس شعر کے مصرعِ ثانی کے ان الفاظ *’’جب کچھ نہ بن سکا‘‘* 
میں اللّٰہ عَزَّوَجَل کو *’’عاجِزو بےبس‘‘* قرار دیا گیا ہے جو کہ *صریح کفر* ہے ۔

*9 ۔* دنیا بنانے والے دنیا میں آکے دیکھ
صدمے سہے جو میں نے تُو بھی اُٹھا کے دیکھ

*یہ شعر کئی کفریات کا مجموعہ ہے ۔*
اس میں اللہ تعالیٰ پر واضح اعتراض اور اس کی توہین ہے ۔

*10 ۔* دنیا بنانے والے کیا تیرے من میں سمائی؟

تو نے کاہے کو دنیا بنائی؟

*اِس شعر میں اللّٰہ عَزَّوَجَل پر اعتِراض کا پہلو نُمایاں ہے اس لئے کفر ہے ۔*  

*11۔* اے خدا ان حسینوں کی پتلی کمر کیوں بنائی؟
*تیرے پاس مِٹّی کم تھی یا تُو نے رشوت کھائی*
(معاذﷲ عَزَّوَجَلَّ )

مذکورہ شعْر میں *تین صریح کُفْریات* ہیں : 

*(۱)* اِس میں ربِّ کائنات عَزَّوَجَلّ کی ذاتِ سِتُودہ صِفات پر *پَتْلی کَمَر بنانے پر اعتِراض*
*(۲)* اِس پر عاجِزو بےبس ہونے کا اِلزام اور
*(۳)* رِشوت کھانے کا اِتِّہام (یعنی تُہمت) ہے ۔  

*12 ۔* اس حور کا کیا کریں جو ہزاروں سال پُرانی ہے

*مَعاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس میں جنَّتی حور کی کُھلی توھین ہے*
جنّت یا جنّت کی کسی بھی نعمت کی *توہین صریح کفر* ہے ۔    

*13۔* حسینوں کو آتے ہیں کیا کیا بہانے
*خدا بھی نہ جانے تو ہم کیسے جانے*
مَعاذَ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اس شعر کے *دوسرے مصرع* میں کہا گیا ہے :
*خدا عَزَّوَجَلَّ بھی نہ جانے یہ بات صریح کفر* ہے ۔

*14 -* خدا بھی آسماں سے جب زمیں پر دیکھتا ہوگا
مرے  محبوب کو کس نے بنایا سوچتا ہوگا

*اس شعر میں  مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کئی کفریات ہیں :*

*{۱}* جب دیکھتا ہوگا اِس کا *مطلب یہ ہوا کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ہر وَقت نہیں دیکھتا*
 
*{۲}* اِس بےحیا کے محبوب کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے نہیں بنایا *مَعاذَاللّٰہ اُس کا کوئی اور خالق* ہے
*{۳}* کس نے بنایا یہ بھی *اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو نہیں معلوم*
*{۴}* سوچتا ہوگا 
*{۵}* خدا عَزَّوجَلَّ آسمان سے *دیکھتا ہوگا* حالانکہ اللہ تعالیٰ مکان اور سَمت سے پاک ہے ۔
*بہرحال یہ شعر کفریات کا مَلغُوبہ ہے اِس میں  ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّ کی طرف جہالت اور محتاجی کی نسبت ہے کسی اور کو خالق ماننا ہے* اللّٰہُ ربُّ العزَّت عَزَّوَجَلَّ کی خالِقِیَّت کا انکار ہے ، وہ ہر وقت ہر لمحہ ہر شے کو ملاحَظہ فرما رہا ہے ۔ شعر میں ان اَوصاف کا انکار ہے 
*یہ سب قطعا اجماعاً کفریات ہیں ۔*
*قائل کافر و مرتد ہوگیا*
یونہی خدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے لئے مکان ثابِت کیا ہے یہ بھی کُفر ہے ۔  

*15 ۔* رب نے *مجھ پر ستم* کیا ہے
زمانے کا غم مجھے دیا ہے

*اِس شِعر میں دو کفریات ہیں:*

*(۱)* مَعاذَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو *ظالِم ٹھہرایا گیا* اور
*(۲)* اُس پر *اعتِراض* کیا گیا ہے ۔

*16۔* مجھ کو دی صورت پری سی دل نہیں  تجھ کو دیا
*ملتا خدا تو پوچھتا یہ ظلم تو نے کیوں کیا ؟*

اِس شِعر میں *دو 2 صریح کفریات* ہیں:

اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو مَعاذَ ﷲ عَزَّوَجَلَّ *ظالم کہا گیا* ہے
*(۲)* اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر *اعتِراض کیا گیا* ہے ۔

*17۔* او میرے رَبّا رَبّارے رَبّا یہ کیا *غضب* کیا
*جس کو بنانا تھا لڑکی اسے لڑکا بنا دیا*

اِس *کفریات* سے بھر پور شِعر میں *اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض* اور اس کی *توہین* ہے  ۔

*18۔* اب آگے جو بھی ہو انجام دیکھا جائے گا
*خدا تراش لیا اور بندگی کر لی !*

اس شِعر کے *مصرعِ ثانی میں دو صریح کفر* ہیں : 

*(۱)* مخلوق کو خدا کہنا 
*(۲)* پھر اس کی بندَگی یعنی عبادت کرنا ۔  

*19۔* میری نگاہ میں کیا بن کے آپ رہتے ہیں
*قسم خدا کی خدا بن کے آپ رہتے ہیں!*

اِس شِعر کے *مصرعِ ثانی* میں *غیرِ خدا کو خدا* کہا گیا ہے ۔یہ *صریح کفر* ہے ۔  

*20 ۔* کسی پتّھر کی مُورت سے مَحَبَّت کا ارادہ ہے
*پرستِش کی تمناّ ہے عبادت کا ارادہ ہے*

اس شِعر میں *پتھر کے بُت کی پوجا کی تمنّا* اور نیّت کا اظہار ہے جو کہ *کُھلا کفر* ہے کیوں کہ *ارادۂ کفر بھی قَطعی کفر* ہے اِس شعر میں *اپنے لئے کفر پر رِضا مندی* بھی ہے یہ بھی  *صریح کفر* ہے ۔

*21 ۔* مجھے بتا او جہاں کے مالک یہ کیا نظارے دکھا رہا ہے
ترے سمندر میں کیا کمی تھی کہ آج مجھ کو رُلا رہا ہے

*اِس شعر میں اللہ تبارَک وَ تعالٰی پر اِعتِراض کا پہلو نُمایاں ہے* اِس لئے کُفر کا حکم ہے اور اگر شاعر یا جو پڑھے اُس کی مُراد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض ہو تو *صریح کُفر ہے اور وہ کافِر و مُرتَد ہو جائیگا ۔*

*22 ۔* ہر دُکھ کو ہے گلے لگایا ہر مشکل میں ساتھ نبھایا

*ان کی کیا تعریف کروں میں فرصت سے ہے رب نے بنایا*

اِس شعر میں *فرصت سے ہے رب نے بنایا* کے الفاظ *کفریہ* ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے لئے *’’فُرصت‘‘ کا لفْظ بولنا کُفْر* ہے ۔

*23 ۔* اے خُدا بہتر ہے یہ کہ تُو چُھپا پردے میں ہے
بیچ ڈالیں گے تجھے یہ لوگ اِسی چکّر میں ہیں

اس شِعْر میں ربُّ العٰلَمِین جَلَّ جلالہٗ کو *مجبور و بےبس اور دھوکہ کھا جانے والا* کہا گیا ہے جوکہ اللّٰہُ ربُّ العٰلَمِین کی *کھلی توہین* ہے اور اللّٰہُ المبین کی *توہین کفر* ہے ۔

*24 ۔* اب یہ جان لے لے یارب، یا ایمان لے لے یا رب

دوجہان لے لے یارب، یا خدا !فَنا فَنا یہ دل ہوا فَنا

*اِس شعر کے اِس حصّے ایمان لے لے یارب میں ایمان چلے جانے یعنی کافر ہوجانے پر راضی ہونا پایا جارہا ہے جوکہ کفر ہے ۔*
’’فتاوٰی تاتارخانیہ‘‘ میں ہے :
’’جو اپنے کفر پر راضی ہوا تحقیق اُس نے کفر کیا ۔
*( فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ ص ۴۶۰ 📚)*

*25 ۔* جب سے ترے نَیناں مِرے نَینوں سے لاگے رے
تب سے دیوانہ ہوا سب سے بیگانہ ہوا
*رب بھی دیوانہ لاگے رے*

اِس شعر کے اِس حصّے *رب بھی دیوانہ لاگے رے* میں شاعِرِ بے بَصائر کے دعوے کے مطابق اس کو خداوندِ قُدّوس عَزَّوَجَلَّ مَعاذَاللّٰہ عَزَّوَجَلَّ دیوانہ لگ رہا ہے
*یقیناً یہ اُس عَزَّوَجَلَّ کی شانِ عالی میں کُھلی گالی اور کُھلا کُھلا کُفر و ارتداد ہے ۔*
فتاوٰی تاتارخانیہ میں ہے : 
’’جو اللہ کو ایسے وَصف (یعنی پہچان یا خاصیَّت) سے موصوف کرے جو اُس کی شان کے لائِق نہیں یا اللہ تعالیٰ کے ناموں   میں سے کسی نام کا یا اس کے احکام میں سے کسی حکم کا مذاق اُڑائے یا اس کے وعدے یا وَعید کا انکار کرے تو ایسے آدمی کی تکفیر کی جائے گی یعنی اُس کو کافر قرار دیا جائے گا ۔
*( فتاوٰی تاتارخانیہ ، ج ۵ص ۴۶۱ 📚)*

*26 ۔* جو بھرتا نہیں وہ زخم دیا ہے مجھ کو، نہیں پیار کو بدنام تو نے کیا ہے
*جسے میں نے پُوجا مَسیحا بنا کر، نہ تھا یہ پتا پتّھروں کا بنا ہے*

اِس شعر میں اپنے مَجازی محبوب کو *پوجنے یعنی اُس کی عبادت کرنے* کا اقرار ہے اور شاعر اس *کفر کا اقرار* کر رہا ہے اور *کفر کا اقرار بھی کفر* ہے
اگر مذاقاً ہو تب بھی یہی حکم ہے ۔
*صدرُ الشَّریعہ ، بدرُ الطَّریقہ ، علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی  عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں:*
جو بطورِ  تَمَسْخُر او ر ٹَھٹّھا (یعنی مذاق مسخری میں) کفر کریگا وہ بھی مُرتَد ہے اگرچِہ کہتا ہے کہ (میں) ایسا اعتِقاد (یعنی عقیدہ) نہیں رکھتا  ۔

*( بہارِ شریعت حصہ ۹ ص ۱۶۳، دُرِّمُختَار ج  ص۳۴۳  📚)*


*27 ۔* رکھوں گا تمہیں دھڑکنوں میں بسا کے
*تمہیں چاہَتوں کا خدا میں بنا کے*

بےشک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ وَحدہٗ لا شریک ہے۔ بیان کردہ شعر میں   بندے کو *’’چاہتوں کا خدا‘‘* مانا گیا ہے جو کہ کُھلا، *کفر و شرک* ہے ۔

*28 ۔* تم سا کوئی *دوسرا اس زمیں پہ ہوا تو رب سے شکایت* ہوگی
تمہاری طرف رُخ غیر کا ہوا تو قِیامت سے پہلے قِیامت ہوگی

اِس شعر میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کرنے کے ارادہ کا اظہار ہے اور *اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کرنا کفر* ہے ۔

*29 ۔* محَبَّت کی قسمت بنانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا
مَحَبَّت پہ یہ ظلم ڈھانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا

*30 ۔* تجھے بھی کسی سے اگر پیار ہوتا ہماری طرح تُو بھی قسمت کو روتا

یہ اشکوں کے مَیلے لگانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا

*31۔* مرے حال پر یہ جو ہنستے ہیں تارے یہ تارے ہیں تیری ہنسی کے نظارے

ہنسی میرے غم کی اُڑانے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا

*32۔* زمانے کے مالک یہ تجھ سے گِلہ ہے خوشی ہم نے مانگی تھی رونا ملا ہے

گِلہ میرے لب پہ بھی آنے سے پہلے زمانے کے مالک تُو رویا تو ہوگا

*مذکورہ اشعار اللّٰہُ ربُّ العٰلمین جَلَّ جَلالُہٗ کی توہین سے بھرپور ہیں،* ان اشعار میں کم از کم *5 پانچ کُھلے کفریات* ہیں

*{۱}* اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کیلئے رونا ممکن مانا گیا ہے 
*{۲}* اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کو ظالم کہا گیا ہے 
*{۳}* اسے محکوم مانا گیا ہے 
*{۴}* اس کو کسی کے رنج و غم اور بےبسی پر ہنسی اُڑانے والا قرار دیا گیا ہے اور
*{۵}* اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پر اعتِراض کیا گیا ہے ۔

*33 ۔* میں پیار کا *پجاری* مجھے پیار چاہئے
*رب جیسا ہی مجھے سُندَر یار چاہئے*

اس شعر میں *دو کفریات* ہیں   

*{۱}* غیرِ خدا کی پوجا یعنی عبادت کا اقرار ہے
*{۲}* اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرح کسی اور کا ہونا ممکن مانا گیا ہے ۔
*قراٰنِ مجید فرقانِ حمید پارہ 25سورۂ شوریٰ، آیت نمبر 11 میں اللّٰہُ ربُّ العباد عَزَّوَجَلَّ  ارشاد فرماتا ہے  ۔*
لَیْسَ كَمِثْلِهٖ شَیْءٌۚ-وَهُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ (۱۱)

*ترجَمۂ کنزالایمان :*
اس جیسا کوئی نہیں اور وُہی سنتا دیکھتا ہے ۔
*صدرُ الشَّریعہ، بدرُ الطَّریقہ حضرتِ علّامہ مولیٰنا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بہارِ شریعت میں لکھتے ہیں:* 

’’اللّٰہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں نہ ذات میں نہ صِفات میں   نہ افعال میں نہ احکام میں نہ اسماء (یعنی ناموں) میں۔ 

*( بہارِ شریعت حصہ اوّل ص۱۷ مکتبۃ المدینہ 📚)*

*34۔* حُسن خدا ہے حُسن نبی ہے حُسن ہے ہر گلزار میں

حُسن نہ ہو تو کچھ بھی نہیں   ہے اس سارے سنسار میں

*شاعِرِ بےباک نے’’حُسن‘‘ کو خدا کہا ہے اور یہ کفر ہے ۔"*

*35 ۔* قسمت بنانے والے ذرا سامنے تو آ
میں تجھ کو یہ بتاؤں کہ دنیا تری ہے کیا؟

*مذکورہ شعر میں کئی کفریاّت ہیں:*

*{۱}* عذابِ نار کے حق دار شاعرِ ناہنجار کا اللّٰہُ غفّار عَزَّوَجَلَّ کو مخاطب کر کے اس طرح کہنا: *’’ ذرا سامنے تو آ ‘‘* اللہ تعالیٰ کو *مقابلہ کیلئے چیلنج* کرنا ہے اور یہ اللّٰہُ ربُّ العٰلمین جَلَّ جَلالُہٗ  کی *سخت توہین* ہے اور ربِّ مُبین عَزَّوَجَلَّ کی *توہین کفر* ہے
*{۲}* ’’میں تجھ کو بتاؤں کہ دنیا تری ہے کیا؟ *‘‘کہہ کر اللہ تعالیٰ پر اعتراض کیا گیا ہے اور یہ بھی کفر ہے* اور
*{۳}* اور *تیسرا کفر یہ* ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کیلئے *لاعلمی کا پہلو بھی شاعِر مان رہا ہے* یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ کو نہیں معلوم شاعِر اسے بتائے گا ۔  
نعوذباللّٰہ تعالی


*حدیث شریف :*
حضرت سیدنا بلال بن حارث رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ 
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم نے فرمایا ڈش کی نیت سے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں *صدقہ جاریہ* ھے


*نوٹ*
یہ مضمون امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے رسالہ *گانوں کے 35 کفریہ اشعار* سے کاپی کیا گیا ہے۔

اصلاح معاشرہ کی نیت سے زیادہ سے زیادہ شئیر کریں صدقہ جاریہ ھے