یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا کیسا ہے ؟




*اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا کیسا ہے ؟*

سائل : محمد عرفان مدنی شہر پپلاں
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنا ناجائز و حرام ہے کیونکہ عشق کا حقیقی معنی محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے اور یہ معنی اللہ تعالیٰ کے حق میں یقینی طور پر محال (ناممکن) ہے اور اس طرح کا لفظ جب تک قرآن و حدیث میں نہ آیا ہو تو اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کی شان میں بولنا یقینی طور پر ممنوع ہوتا ہے کیونکہ محال معنی کا صرف وہم بھی ممانعت کے لیے کافی ہوتا ہے.
چنانچہ سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا کہ :
اللہ تعالی کو عاشق اور حضور پرنور سرور عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا معشوق کہنا جائز ہے یا نہیں ؟
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے جواباً تحریر فرمایا :
"ناجائز ہے کہ معنی عشق، اللہ عزوجل کے حق میں محالِ قطعی ہے۔ اور ایسا لفظ بے ورودِ ثبوتِ شرعی، حضرت عزت (یعنی اللہ پاک) کی شان میں بولنا ممنوع قطعی۔"
ردالمحتار میں ہے :
*"مجرد ایھام المعنی المحال کاف فی المنع"*
صرف معنی محال کا وہم ممانعت کے لئے کافی ہے۔
*(ردالمحتار، کتاب الحظر و الاباحۃ، فصل فی البیع، جلد 5، صفحہ 253، داراحیاء التراث العربی بیروت)*

امام علامہ یوسف اردبیلی شافعی رحمہ اللہ تعالی *"کتاب الانوار لاعمال الابرار"* میں اپنے اور شیخین مذہب امام رافعی وہ ہمارے علماءِ حنفیہ رضی اللہ تعالی عنہم سے نقل فرماتے ہیں :
*"لو قال انا اعشق ﷲ او یعشقنی فبتدع و العبارۃ الصحیحۃ ان یقول احبہ و یحبنی کقولہ تعالی یحبہم و یحبونہ"*
اگر کوئی شخص کہے میں اللہ تعالیٰ سے عشق رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے عشق رکھتا ہے تو وہ بدعتی ہے، لہٰذا عبارت صحیح یہ ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتا ہے، اللہ تعالی کے اس ارشاد کی طرح ''اللہ تعالی ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ لوگ اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہیں۔
*(الانوار لاعمال الابرار، کتاب الردۃ، جلد 2، صفحہ 321، المطبعۃ الجمالیہ مصر)*
اسی طرح امام ابن حجر مکی قدسی سرہ الملکی نے *"اعلام"* میں نقل فرما کر مقر رکھا۔
*"اقول : و ظاھر ان منشاء الحکم لفظ یعشقنی دون ادعائہ لنفسہ الا تری الی قولہ ان العبارۃ الصحیحۃ یحبنی ثم الظاھر ان تکون العبارۃ بواؤ العطف کقولہ احبہ و یحبنی فیکون الحکم لاجل قولہ یعشقنی و الا فلا یظہر لہ وجہ بمجرد قولہ اعشقہ فقد قال العلامۃ احمد بن محمد بن المنیر الاسکندری فی الانتصاف ردا علی الزمخشری تحت قولہ تعالی فی سورۃ المائدۃ یحبھم و یحبونہ بعد اثبات ان محبۃ العبد ﷲ تعالی غیر الطاعۃ و انھا ثابتۃ واقعۃ بالمعنی الحقیقی اللغوی مانصہ ثم اذا ثبت اجراء محبۃ العبد ﷲ تعالی علی حقیقتھا لغۃ فالمحبۃ فی اللغۃ اذا تاکدت سمیت عشقا فمن تاکدت محبتہ للہ تعالی وظھرت آثار تأکدھا علیہ من استیعاب الاوقات فی ذکرہ و طاعتہ فلا یمنع ان تسمی محبتہ عشقا اذ العشق لیس الا المحبۃ البالغۃ اھ لکن الذی فی نسختی الانوار و نسختین عندی من الاعلام انما ھو بأو فلیستأمل و لیحرر ثم اقول لست بغافل عما اخرج وﷲ تعالی اعلم و علمہ جل مجدہ اتم و احکم"*
اقول : (میں کہتا ہوں) ظاہر یہ ہے کہ منشائے حکم لفظ *''یعشقی''* ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لئے دعوی عشق کیا گیا ہے کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت *''یحبنی''* ہے پھر ظاہرہے کہ عبارت واؤ عاطفہ کے ساتھ ہے جیسے اس کا قول ہے احبہ، و یحبنی یعنی میں اس سے محبت رکھتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت رکھتا ہے پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف اعشقہ کہنے سے کوئی امتناعی وجہ ظاہر نہیں ہوتی۔ چنانچہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری نے ''الانتصاف'' میں علامہ زمحشری کی تردید کرتے ہوئے فرمایا جو اللہ تعالی کے اس ارشاد کے ذیل میں جو سورۃ مائدہ میں مذکور ہے :
*"یحبھم و یحبونہ"* (اللہ تعالی ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اس سے محبت رکھتے ہیں) اس بات کو ثابت کرنے کے بعد کہ بندے کا اللہ تعالی سے محبت کرنا اس کی اطاعت (فرمانبرداری) سے جدا ہے (الگ ہے) اور محبت معنی حقیقی لغوی کے طور پر ثابت اور واقع ہے (جیسا کہ) موصوف نے تصریح فرمائی پھر جب بندے کا اللہ تعالی سے محبت کرنے کا اجراء حقیقت لغوی کے طریقہ سے ثابت ہوگیا اور محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور مؤکد ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ تعالی سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہو جائیں (نظر آنے لگیں) کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالی کے ذکر و فکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے۔ کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے اھ لیکن میرے پاس جو نسخہ *''الانوار''* ہے وہ دو نسخے میرے پاس *''الاعلام''* کے ہیں ان میں عبارت مذکورہ صرف *''آو''* کے ساتھ مذکور ہے لہٰذا غور و فکر کرنا چاہئے اور لکھنا چاہئے میں کہتا ہوں کہ میں نے اس سے بے خبر نہیں جس کی موصوف نے تخریج فرمائی اور اللہ تعالی خوب جانتاہے اور اس عظمت والے کاعلم بڑا کامل اوربہت پختہ ہے."
*(فتاوی رضویہ جلد 21 صفحہ 144 تا 116 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
شارح بخاری فقیہ اعظم ہند حضرت مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ تعالی علیہ تحریر فرماتے ہیں : 
"مگر اللہ تعالی کی طرف نسبت کرتے ہوئے ان تینوں (دل بر، دل ربا اور معشوق) میں سے کسی کا اطلاق صحیح نہیں یعنی یہ کہنا جائز نہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے دل بر، دل ربا، معشوق ہیں، اس لئے کہ دل بر، دل ربا کہنے میں باری تعالی کے لئے ایہامِ تجسم ہے اور معشوق کہنے میں اثباتِ نقص. کیونکہ عشق کا حقیقی معنیٰ محبت کی وہ منزل ہے جس میں جنون پیدا ہو جائے."
*(فتاوی شارح بخاری جلد اول صفحہ 281 مکتبہ برکات المدینہ کراچی)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
06/09/2019
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
اللہ تعالیٰ کو عاشق کہنے کے عدمِ جواز کے حوالے سے آپ کا جو فتویٰ ہے، درست ہے اور بندہ ناچیز اس کی تائید و توثیق کرتا ہے۔
*ابوالحسنین حکیم و مفتی محمد عارف محمود خان معطر القادری*