یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

پیغام تراویح


📚 *پیغام تراویح* 📚

1 رمضان المبارک
از: ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
14/4/2021
03163627911
https://www.facebook.com/abuamjad1163/
اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کیلئے دنیا میں انبیاء ورُسل علیہم السلام مَبعوث فرمائے اور سب سے آخر میں نبی کریم رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو ہادی بنا کر بھیجا ۔جسطرح ہمارے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ و اٰلہ وسلم تمام انبیاء میں افضل ہیں یونہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم پر نازل ہونی والی کتاب ''قرآنِ مجید ''بھی تمام کُتُبِ سَماوِیہ میں افضل ہے ۔یہ کتاب بندوں کی ہدایت کا سرچشمہ ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے

  *ھٰذا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَھُدًی وَّمَوْعِظَۃٌلِّلْمُتَّقِیْن*
 
 ترجمہ کنزالایمان: یہ لوگوں کوبتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔ 
پ۴،اٰل عمران:۱۳۸

 *سورہ ٔبقرہ* 

 *مقام نزول* 
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے فرمان کے مطابق مدینہ منورہ میں سب سے پہلے یہی ’’سورۂ بقرہ‘‘ نازل ہوئی ۔(اس سے مراد ہے کہ جس سورت کی آیات سب سے پہلے نازل ہوئیں۔)

(خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱/۱۹)

 *آیات،کلمات اور حروف کی تعداد:* 

  اس سورت میں 40 رکوع،286آیتیں ،6121 کلمات اور25500 حروف ہیں۔ 
(خازن، تفسیرسورۃ البقرۃ، ۱/۱۹-۲۰)
’’بقرہ‘‘ نام رکھے جانے کی وجہ:
عربی میں گائے کو ’’ بَقَرَۃٌ‘‘کہتے ہیں اور اس سورت کے آٹھویں اور نویں رکوع کی آیت نمبر67تا73 میں بنی اسرائیل کی ایک گائے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے، اُس کی مناسبت سے اِسے ’’سورۂ بقرہ ‘‘کہتے ہیں۔ 
سورہ ٔبقرہ کے فضائل:
احادیث میں اس سورت کے بے شمار فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے فضائل درج ذیل ہیں :
(1) …حضرت ابو اُمامہ باہلی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قرآن پاک کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنی تلاوت کرنے والوں کی شفاعت کرے گا اور دو روشن سورتیں (یعنی) ’’سورہ ٔبقرہ ‘‘اور’’ سورۂ اٰل عمران‘‘ پڑھا کرو کیونکہ یہ دونوں قیامت کے دن اس طرح آئیں گی جس طرح دو بادل ہوں یا دو سائبان ہوں یا دو اڑتے ہوئے پرندوں کی قطاریں ہوں اور یہ دونوں سورتیں اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کریں گی،’’سورۂ بقرہ‘‘ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔

مسلم، ، ص۴۰۳، الحدیث: ۲۵۲

 *’سورۂ بقرہ‘‘ کے مضامین:* 

یہ قرآن پاک کی سب سے بڑی سورت ہے اور اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں بنی اسرائیل پر کئے گئے انعامات،ان انعامات کے مقابلے میں بنی اسرائیل کی ناشکری، بنی سرائیل کے جرائم جیسے بچھڑے کی پوجا کرنا، سرکشی اور عناد کی وجہ سے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے طرح طرح کے مطالبات کرنا،اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرنا،انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ناحق شہید کرنا اور عہد توڑناوغیرہ،گائے ذبح کرنے کا واقعہ اورنبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے زمانے میں موجود یہودیوں کے باطل عقائد و نظریات اور ان کی خباثتوں کو بیان کیا گیا ہے اور مسلمانوں کو یہودیوں کی دھوکہ دہی سے آگاہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ ’’سورہ ٔبقرہ‘‘ میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں

(1) قرآن پاک کی صداقت ،حقانیت اور اس کتاب کے ہر طرح کے شک و شبہ سے پاک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔

(2) … قرآن پاک سے حقیقی ہدایت حاصل کرنے والوں اور ان کے اوصاف کا بیان،ازلی کافروں کے ایمان سے محروم رہنے اور منافقوں کی بری خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

 (3) …قرآن پاک میں شک کرنے والے کفار سے قرآن مجید کی سورت جیسی کوئی ایک سورت بنا کر لا نے کا مطالبہ کیا گیا اور ان کے اس چیز سے عاجز ہونے کو بھی بیان کر دیاگیا۔

(4) …حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تخلیق کا واقعہ بیان کیا گیا اور فرشتوں کے سامنے ان کی شان کو ظاہر کیا گیا ہے۔

(5) …خانۂ کعبہ کی تعمیر اورحضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا کا ذکر کیا گیاہے۔

(6) …اس سورت میں نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پسند کی وجہ سے قبلہ کی تبدیلی اور اس تبدیلی پر ہونے والے اعتراضات و جوابات کا بیان ہے۔

(7) … عبادات اور معاملات جیسے نماز قائم کرنے،زکوٰۃ ادا کرنے، رمضان کے روزے رکھنے،خانۂ کعبہ کا حج کرنے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے،دینی معاملات میں قمری مہینوں پر اعتماد کرنے،
اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرنے،والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کرنے،
یتیموں کے ساتھ معاملات کرنے،نکاح،طلاق،رضاعت، عدت ،بیویوں کے ساتھ اِیلاء کرنے،جادو،قتل،لوگوں کے مال ناحق کھانے، شراب، سود،جوا اورحیض کی حالت میں بیویوں کے ساتھ صحبت کرنے وغیرہ کے بارے میں مسلمانوں کو ایک شرعی دستور فراہم کیا گیا ہے۔

(8) …تابوت سکینہ ، طالوت اور جالوت میں ہونے والی جنگ کا بیان ہے۔

(9) …مردوں کو زندہ کرنے کے ثبوت پرحضرت عزیر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکی وفات کا واقعہ ذکر کیا گیا ہے۔

(10) …حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو چار پرندوں کے ذریعے مردوں کو زندہ کرنے پر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ کرو انے کا واقعہ بیان کیا گیا ہے۔

(11) …اس سورت کے آخر میں اللہ  تعالیٰ کی بارگاہ میں رجوع کرنے،گناہوں سے توبہ کرنے اور کفار کے خلاف مدد طلب کرنے کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے اور مسلمانوں کو قیامت کے دن سے ڈرایا گیا ہے۔


 *ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیۡبَ ۚۖۛ فِیۡہِ ۚۛ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیۡنَۙ﴿۲﴾* 

 *تقویٰ کا معنی* 
 
تقویٰ کا معنی ہے:’’ نفس کو خوف کی چیز سے بچانا۔‘‘ اور شریعت کی اصطلاح میں تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ نفس کو ہر اس کام سے بچانا جسے کرنے یا نہ کرنے سے کوئی شخص عذاب کا مستحق ہو جیسے کفر وشرک،کبیرہ گناہوں ، بے حیائی کے کاموں سے اپنے آپ کو بچانا،حرام چیزوں کو چھوڑ دینا اورفرائض کو ادا کرنا وغیرہ اوربزرگانِ دین نے یوں بھی فرمایا ہے کہ تقویٰ یہ ہے کہ تیراخدا تجھے وہاں نہ پائے جہاں اس نے منع فرمایا ہے۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۱۹، خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۲۲، ملتقطاً)

 *تقویٰ کے مراتب* 

علماء نے ’’تقویٰ ‘‘کے مختلف مراتب بیان فرمائے ہیں جیسے عام لوگوں کا تقویٰ ’’ایمان لا کر کفر سے بچنا‘‘ہے، متوسط لوگوں کا تقویٰ ’’احکامات کی پیروی کرنا‘‘ اور’’ ممنوعات سے رکنا ‘‘ہے اور خاص لوگوں کا تقویٰ ’’ہر ایسی چیز کو چھوڑ دینا ہے جو اللہ تعالیٰ سے غافل کرے۔‘‘
( جمل ، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ۱/۱۷)

*اوراعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰنْ کے فرمان کے مطابق تقویٰ کی سات قسمیں ہیں :* 

(۱) کفر سے بچنا۔
 (۲) بدمذہبی سے بچنا۔
 (۳) کبیرہ گناہ سے بچنا۔ 
(۴) صغیرہ گناہ سے بچنا۔
(۵) شبہات سے پرہیز کرنا۔  
(۶) نفسانی خواہشات سے بچنا۔ (۷) اللہ تعالیٰ سے دورلے جانے والی ہر چیز کی طرف توجہ کرنے سے بچنا، اور قرآن عظیم ان ساتوں مرتبوں کی طرف ہدایت دینے والا ہے۔
(خزائن العرفان، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۲، ص۴، ملخصاً)
 اللہ تعالیٰ ہمیں متقی اور پرہیز گار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

وَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوۡا مَعَ الرَّاکِعِیۡنَ ﴿۴۳﴾

ترجمہ کنزالایمان:     اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
(پ۱،البقرۃ:۴۳)

تفسير:

    (۱) اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے ايک يہ کہ نماز زکوۃ سے افضل اور مقدم ہے ۔ دوسرا يہ کہ نماز پڑھناکمال نہيں نماز قائم کرنا کمال ہے۔ تيسرا يہ کہ انسان کو جانی،مالی ہر قسم کی نيکی کرنی چاہے۔
    (۲) اس سے معلوم ہوا کہ جماعت سے نماز پڑھنا بہت بہترہے۔ اشارۃً يہ بھی معلوم ہوا کہ رکوع ميں شامل ہو جانے سے رکعت مل جاتی ہے۔جماعت کی نماز ميں اگر ايک کی قبول ہو جائے تو سب کی قبول ہو جاتی ہے۔    (تفسير نورالعرفان)

سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىہُمْ عَنۡ قِبْلَتِہِمُ الَّتِیۡ کَانُوۡا عَلَیۡہَاؕ قُلۡ لِّلہِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُؕ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرٰطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ﴿۱۴۲﴾

ترجمۂ کنزالایمان: اب کہیں گے بیوقوف لوگ کس نے پھیردیامسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے جس پر تھے؟ 
تم فرمادو کہ پورب پچھم سب اللہ ہی کا ہے، جسے چاہے سیدھی راہ چلاتا ہے۔
ترجمۂ  کنزُالعِرفان: اب بیوقوف لوگ کہیں گے ،اِن مسلمانوں کو اِن کے اُس قبلے سے کس نے پھیر دیا جس پر یہ پہلے تھے ؟تم فرمادو: مشرق و مغرب سب اللہ ہی کا ہے، وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستے کی طرف ہدایت دیتا ہے


{سَیَقُوۡلُ السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ:اب بیوقوف لوگ کہیں گے۔} اس آیت کے شانِ نزول کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب بیت المقدس کی جگہ خانہ کعبہ کو قبلہ بنایا گیا تو اس پر انہوں نے اعتراض کیا کیونکہ یہ تبدیلی انہیں ناگوار تھی۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت مکہ کے مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی کہ جب قبلہ تبدیل ہوا تو انہوں نے آپس میں کہا کہ محمد (مصطفی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) اپنے دین کے بارے میں تَرَدُّد کا شکار ہیں اور ابھی تک ان کے دل میں اپنی ولادت گاہ یعنی مکہ مکرمہ کا اشتیاق موجود ہے ،لہٰذاجب انہوں نے تمہارے شہر کی طرف توجہ کر لی ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ تمہارے دین کی طرف بھی لوٹ آئیں۔تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت منافقوں کے بارے میں نازل ہوئی کیونکہ انہوں نے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوئے قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کیا تھا۔ چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت مشرکین ، منافقین اور یہودی تینوں کے بارے میں ہوسکتی ہے کیونکہ قبلہ کی تبدیلی پر طعن و تشنیع کرنے میں سب شریک تھے۔ (خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۱۴۲، ۱/۹۶)
اس آیت ِ مبارکہ میں غیب کی خبر بھی ہے کہ پہلے سے فرمادیا گیا کہ بیوقوف و جاہل لوگ قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کریں گے ،چنانچہ ویسا ہی واقع ہوا کہ لوگوں نے اس پر اعتراض کیا۔ 
{السُّفَہَآءُ مِنَ النَّاسِ:بیوقوف لوگ ۔}
قبلہ کی تبدیلی پر اعتراض کرنے والوں کو بے وقوف اس لیے کہا گیا کہ وہ ایک واضح بات پراعتراض کررہے تھے کیونکہ سابقہ انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے نبی آخر الزماں  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے خصائص میں آپ کا لقب’’ ذُوالْقِبْلَتَیْنْ‘‘ یعنی دو قبلوں والا ہونا بھی ذکر فرمایا تھا اور قبلہ کی تبدیلی تو اس بات کی دلیل تھی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کی پہلے انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خبر دیتے آئے ہیں تو صداقت کی دلیل کو تسلیم کرنے کی بجائے اسی پر اعتراض کرنا حماقت ہے اس لئے انہیں بے وقوف کہاگیا ،جیسے کوئی دھوپ کے روشن ہونے کو سورج کے طلوع ہونے کی دلیل بنانے کی بجائے ، طلوع نہ ہونے کی دلیل بنائے تو اسے بیوقوف کے سوا اور کیا کہا جائے گا۔
دینی مسائل پر بے جا اعتراضات کرنے والے بیوقوف ہیں :
اس آیت میں بیت المقدس کے بعد خانہ کعبہ کو قبلہ بنائے جانے پر اعتراض کرنے والوں کو بیوقوف کہا گیا،اس سے معلوم ہوا کہ جو شخص دینی مسائل کی حکمتیں نہ سمجھ سکے اور ان پر بے جا اعتراض کرے وہ احمق اور بیوقوف ہے اگرچہ دنیوی کاموں میں وہ کتنا ہی چالاک ہو۔ آج کل بھی ایسے بیوقوفوں کی کمی نہیں ہے چنانچہ موجود دور میں بھی مسلمان کہلا کر شراب، سود، پردے، حیا ، اسلامی نظامِ وراثت اور حدود ِ اسلام پر اعتراضات کرنے والے لوگ موجود ہیں اور ایسے افراد قرآن مجید کے حکم کے مطابق بیوقوف ہیں۔