عورتوں کا پرده
عورتوں کا پرده
کاوش محمد محسن رضا الحنفی
عورتوں کیلئے پردہ بہت ضروری چیز ہے اور بے پردگی بہت ہی نقصان دہ، اے مسلم قوم !اگر تو اپنی دینی اور دنیوی ترقی چاہتی ہے تو عورتوں کو اسلامی حکم کے مطابق پردے میں رکھ ہم اس کے متعلق ایک مختصر سي گفتگو کرکے پردے کے عقلی اور نقلی دلائل اور بے پردگی کے نقصان بیان کرتے ہیں ۔
قدرت نے اپنی مخلوق کو علیٰحدہ علیٰحدہ کاموں کیلئے بنایا ہے اور جس کو جس کام کیلئے بنایا ہے اسکے مطابق اس کا مزاج بنایا،ہر چیز سے قدرتی کام لینا چاہے جو خلافِ فطرت کام لے گا وہ خرابی میں پڑے گا۔اسکی سینکڑوں مثالیں ہیں ۔ٹوپی سر پر رکھنے اور جوتا پاؤں میں پہننے کیلئے ہے جو جوتا سر پر باندھ لے اور ٹوپی پاؤں میں لگالے وہ دیوانہ ہے ،گلاس پانی پینے اور اگالدان تھوکنے کے لئے ہے جو کوئی اگالدان ميں پانی پئے اور گلاس میں تھوکے وہ پورا پاگل ہے، بیل کی جگہ گھوڑا اور گھوڑے کی جگہ بیل کام نہیں دے سکتا۔اسی طرح انسان کے دو گروہ کئے گئے ہيں ایک عورت دوسرے مرد۔عورت کو گھر میں رہ کر اندرونی زندگی سنبھالنے کیلئے بنایا گیا ہے اور مرد کو باہر پھر کر کھانے اور باہر کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بنایا ۔مثل مشہور ہے کہ کہ پچاس عورتوں کی کمائی میں وہ برکت نہیں جو ایک مرد کی کمائی میں ہے اور پچاس مرد وں سے گھر میں رونق نہیں جو ایک عورت سے ہے، اسی لئے شوہر کے ذمہ بیوی کا سارا خرچ رکھا ہے اور بیوی کے ذمہ شوہر کا خرچہ نہیں۔کیونکہ عورت کمانے کیلئے بنی ہی نہیں اسی لئے عورتوں کو وہ چیزيں دیں جس سے اس کو مجبوراً گھر میں بیٹھنا پڑے۔اور مردوں کو اس سے آزاد رکھا۔جیسے بچے جننا ،حيض و نفاس آنا ۔ بچوں کو دودھ پلانا وغیرہ اسی لئے پچپن سے ہی لڑکوں کو بھاگ دوڑ،اُچھل کود کے کھیل پسند ہیں جیسے ،کبڈی، کسرت،ڈنڈلگانا وغیرہ اور لڑکیوں کو قدرتی طورپر وہ کھیل پسند ہیں جن میں بھاگنا دوڑنا نہ ہو بلکہ ایک جگہ بيٹھارہنا پڑے جیسے گڑیاسے کھیل ۔سینا پرونا چھوٹی چھوٹی روٹیاں پکانا آپ نے کسی چھوٹی بچی کو کبڈی کھیلتے ،ڈنڈ لگاتے نہ دیکھا ہوگااس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے لڑکوں کو باہر کیلئے اور لڑکیوں کوگھرکیاندرکیلئے پیداکیا ہے۔اب جوشخص عورتوں کوباہرنکالےیا مردو ں کو اندر رہنے کا مشورہ دے وہ ایسا ہی دیوانہ ہے جیسا کہ جو ٹوپی پاؤں میں اور جوتا سر پر رکھے ۔
جب آپ نے اتنا سمجھ لیا کہ مرد اور عورت ایک ہی کام کیلئے نہ بنے بلکہ علیٰحدہ علیٰحدہ کاموں کیلئے تو اب جو کوئی ان دونوں فریقوں کو ایک کام سپرد کرنا چاہے وہ قدرت کا مقابلہ کرتا ہے اس کو کبھی بھی کامیابی نہ ہوگی۔گویا یوں سمجھو کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دوپہیئے ہیں اندورنی اور گھریلو دونوں کیلئے عورت گھر اور مرد باہر کیلئے اگر آپ نے عورت اور مرد دونوں کو باہر نکال دیا تو گویا آپ نے زندگی کی گاڑی کا ایک پہیہ نکال دیا تویقینا گاڑی نہ چل سکے گی۔اب ہم عقلی اور نقلی دلائل پر دہ کے متعلق عرض کرتے ہیں ۔
(۱)سب مسلمان جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ایسی مائیں کہ تمام جہان کی مائیں ان کے قدم پاک پر قربان اگر وہ بیویاں مسلمانوں سے پردہ نہ کرتيں تو ظاہراً کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا تھاکیونکہ اولاد سے پردہ کیسا۔مگر قرآن کریم نے ان پاک بیویوں سے خطاب کرکے فرمایا،
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی
یعنی اے نبی کی بیویو!تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہاکرو۔اوربے پردہ نہ رہو۔جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔(پ22،الاحزاب 33)
اس میں تو ان بیویوں سے کلام تھا۔اب مسلمانوں سے حکم ہورہا ہے ۔
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ
یعنی اے مسلمانو!جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی استعمال کی چیز مانگو،توپردے کے باہر سے مانگو۔(پ22،الاحزاب:53)
دیکھو بیویوں کو اُدھر گھروں میں روک دیا اور مسلمانوں کو باہر سے کوئی چیز مانگنے کا یہ طریقہ سکھایا۔
(۲)مشکوٰۃبابُ النظرالی لمخطوبہ میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی دو بیویوں حضرتِ امِ سلمہ اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے پاس تشریف فرما تھے کہ اچانک حضرت عبد اللہ ابن مکتوم جو کہ نابینا تھے آگئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں بیویوں سے فرمایا:کہ اِحْتَجِبَامِنْہُ ان سے پردہ کرو۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ تو نابینا ہیں فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔
( جا مع التر مذی ،کتاب الادب ، باب ماجاء ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث ۲۷۸۷ ، ج۷ ، ص ۳۵۲)
اس سے معلوم ہوا کہ صرف یہ ہی ضروری نہیں کہ مرد عورت کو نہ دیکھے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اجنبی عورت غیر مرد کو نہ دیکھے ۔دیکھو یہاں مرد نابینا ہیں مگر پردہ کا حکم دیا گیا۔
(۳)ایک لڑائی میں حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے ہیں آگے آگے حضرت آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ گیت گاتے ہوئے جارہے ہیں لشکر کے ساتھ کچھ باپردہ عورتیں بھی ہیں حضرت آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش آوازتھے ارشاد فرمایا:اے آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا گیت بند کرو کیونکہ میرے ساتھ کچی شيشیاں ہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الآدب ، باب البیان والشعر ، الفصل الثانی ، الحدیث ۴۸۰۶ ، ج ۳ ، ص ۱۸۸) (وصحیح مسلم ،کتاب الفضائل ، باب رحمۃالنبیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، الحدیث ۲۳۲۳ ، ص ۱۲۶۹)
اس میں عورتوں کے دلوں کو کچی شیشیاں فرمایا ،جس سے معلوم ہوا ہے کہ پردہ میں رہ کر بھی عورت مرد کا اور مرد عورت کا گانا نہ سنیں ۔
(۴)حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ میں عورتوں کو بھی حکم تھا کہ نمازِ عید اور دوسری نمازوں میں حاضر ہوا کریں اسی طرح وعظ کے جلسوں میں شرکت کیا کریں کیونکہ اسلام بالکل نیانیا دنیا میں آیا تھا ۔اگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وعظ عورتیں نہ سنتیں تو شریعت کے حکم اپنے لئے کیسے معلوم کرتیں مگر پھر بھی ان کے نکلنے میں بہت پابندیاں لگادی گئی تھیں کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں ،بیچ راستہ کسی غیر سے بات نہ کریں فجر کی نماز اس قدر اندھیرے میں پڑھی جاتی تھی کہ عورتیں پڑھ کر نکل جائیں اور کوئی پہچان نہ سکے عورتیں مردوں سے بالکل پیچھے کھڑی ہوتی تھیں لیکن حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خلافت کے زمانہ میں ان کو مسجدوں میں آنے اور عید گاہ جانے سے بھی روک دیا عورتوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شکایت کی کہ ہم کو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیک کاموں سے روک دیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ اگر حضورعلیہ الصلاۃوالسلام بھی اس زمانہ کو دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں سے روک دیتے دیکھو شامی وغيرہ۔
(رد المحتار ،کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب فی حمل المیت ، ج ۳ ، ص ۱۶۲ صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب انتظار الناس ۔۔۔۔۔۔ الحدیث ۸۶۹ ، ج۱ ،ص ۳۰۰)
ان احادیث میں غور کرو کہ وہ زمانہ نہایت خیر وبرکت کا۔یہ زمانہ شرو فساد کا، اسوقت عام مرد پرہیز گار، اب نہایت آزاد اور فسّاق اور فجّار،اس وقت عام عورتیں پاک دامن حیا والی اور شرمیلی ۔اب عام عورتیں بے غیر ت ،آزاد اور بے شرم جب اس وقت عورتوں سے پردہ کرایا گیا تو کیا یہ وقت اس وقت سے اچھا ہے ؟ہم نے مختصر طریقہ سے قرآن وحدیث کی روشنی میں پردہ کی ضرورت بیان کی ۔
(۵)اب فقہ کی بھی سیر کرتے چلئے ۔فقہا فرماتے ہیں کہ عورت کے سر سے نکلے ہوئے بال اورپاؤں کے کٹے ہوئے ناخن بھی غير مردنہ دیکھے (دیکھو شامی باب الستر)
عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں عید،بقر عید کی نماز واجب نہیں ،کیوں ؟اسلئے کہ یہ نمازیں جماعت سے مسجدوں میں ہی ہوتی ہیں اور عورتوں کو بلا ضرورتِ شرعی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔عورت پر حج کیلئے سفرکرنا اس وقت تک فرض نہیں جب تک کہ اسکے ساتھ اپنا محرم نہ ہو یعنی ،باپ بیٹایا شوہر وغیرہ عورت کا منہ غیر مرد نہ دیکھے۔(دیکھو شامی باب الستر)
( الدر المختارورد المحتار ،کتاب الحج ، مطلب فی قولھم ۔۔۔۔۔۔ الخ ، ج۳ ،ص ۵۳۱)
حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہانے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے رات میں دفن کیا جائے کیوں؟اسلئے کہ اگر دن میں دفن کیاگیا تو کم ازکم دفن کرنے والوں کو میرے جسم کا اندازہ تو ہوجائے گا۔یہ بھی منظور نہیں غرضیکہ پردہ کی وجہ سے شریعت نے بہت سے حکم عورتوں سے اُٹھالئے ۔
غور تو کرو:کہ جب عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں قبرستان جانے کی اجازت نہیں عیدگاہ میں جاکر عید پڑھنے کی اجازت نہیں تو بغیر شرعی پردے کے بازاروں، کالجوں اور کمپنی باغوں میں سیر کیلئے جانیکی اجازت کیونکر ہوگی۔کیا بازار کالج اور کمپنی باغ مسجدوں اور مکّہ شریف سے بڑھ کر ہیں؟
نوٹ ضروری:جن احادیث میں عورتوں کا باہر نکلنا آتا ہے وہ یا تو پردہ فرض ہونے سے پہلے تھایا کسی ضرورت کی وجہ سے پردہ کے ساتھ تھا۔ان احادیث کو بغیر سوچے سمجھے بوجھے بے پردگی کیلئے آڑ بنانا محض نادانی ہے اسی طرح اس زمانہ میں عورتوں کا جہادوں میں شرکت کرنا اس وجہ سے تھا کہ اسوقت مردوں کی تعداد تھوڑی تھی اب بھی اگر کسی جگہ مسلمان مرد تھوڑے ہوں اور کفّار زیادہ اور جہاد فرض عین ہوجائے تو عورتیں جہاد میں ضرور جائیں ان جہادوں کو اس زمانہ کی بے حیائی کیلئے آڑ نہ بناؤ۔ اب جہادکے بہانہ سے عورتوں کو مردوں کے سامنے ننگا پریڈ کرایا جاتا ہے بعض دفعہ مجاہدین نے ضرورتاً گھوڑوں کے پیشاب پئے ،درختوں کے پتے کھائے ،کیا اب بھی بلا ضرورت یہ کام کرائے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ وہ وقت نہ لائے جب جہاد میں عورتوں کی ضرورت پڑے۔یہاں تک تو نقلی دلائل سے ہم نے پردہ کی ضرورت ثابت کردی اب عقلی دلیلیں بھی سنيئے۔
(۱)عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے ہر ایک کودکھانے سے خطرہ ہے کہ ٖکوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دکھانا ضروری ہے۔
(۲)عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چمن میں پھول اور پھول چمن میں ہی ہر ابھرا رہتا ہے اگر توڑ کر باہر لایا گیا تو مرجھا جائیگا۔اسی طرح عورت کا چمن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں اسکو بلاوجہ باہر نہ لاؤ ورنہ مرجھا جائے گی۔
(۳)عورت کا دل نہایت نازک ہے بہت جلد ہر طرح کا اثر قبول کرلیتا ہے اسلئے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔ہمارے یہاں بھی عورت کو صنِف نازک کہتے ہیں اور نازک چیز وں کو پتھروں سے دور رکھتے ہیں ۔کہ ٹوٹ نہ جائیں،غیروں کی نگاہیں اس کیلئے مضبوط پتھر ہے اسلئے اس کو غیروں سے بچاؤ۔
(۴) عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزت اور آبرو ہے اور اس کی مثال سفید کپڑے کی سی ہے ،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لئے ایک بد نما داغ ہیں،اس لئے اس کو ان دھبوں سے دور رکھو۔
(۵) عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نگاہ اپنے شوہر کے سوا کسی پر نہ ہو، اسلئے قرآن کریم نے حوروں کی تعریف میں فرمایا قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ( الرحمن :56)
اگر اس کی نگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہر کھوچکی ،پھر اسکا دل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائیگا۔
اعتراض:بعض لوگ پردہ کے مسئلہ پر دو اعتراض کرتے ہیں اوّل یہ کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو انکو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جائے دوسرے یہ کہ عورت کو پردے میں رکھنے کی وجہ سے اس کو تپِ دق ہوجاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کو باہر نکالا جائے۔
جواب:اوّل سوال کا جواب تو یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چمن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے چمن میں بُلبل، گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں ،بلکہ عزت وعصمت کی حفاظت ہے اس کو قدرت نے اسی لئے بنایا ہے بکری اسی لئے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر چیتا اور محافظ کتا اسلئے ہے کہ انکو آزاد پھرایا جائے اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اسکو شکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔
دوسرے سوال کا جواب میں کیا دوں ،خود تجربہ دے رہا ہے وہ یہ کہ عورت کیلئے پردہ تپ دق کا سبب نہیں ہماری پرانی بزرگ عورتیں گھر کے دروازے سے بھی بے خبر تھيں مگر وہ جانتی بھی نہ تھیں کہ تپ دق کسے کہتے ہیں ۔
دوستو!دِق کی وجہ کچھ اور ہے یاد رکھو!تندرستی کے دوبڑ ے اصول ہیں ان کی پابندی کرو۔ان شاء اللہ عزوجل! تندرست رہو گے۔اوّل یہ کہ بھوکے ہوکر کھاؤاورپیٹ بھرکر نہ کھاؤ بلکہ روٹی سے بھوکے اُٹھو اور دوسرے یہ کہ تھک کر سوؤ پہلے عورتیں چائے کو جانتی بھی نہ تھیں گھر میں محنت مشقّت کے کام کرتی تھیں ۔چکی پیسنا،غلّہ صاف کرنا،خوب پسینہ آتا تھا۔بھوک کھل کر لگتی تھی اور رات کو چارپائی پر خوب بے ہوشی کی نیند آتی تھی اسلئے تندرست رہتی تھیں ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ پردہ والی عورتیں ہشاش بشاش معلوم ہوتی ہیں ،ان کے چہرے ترو تازہ ہوتے ہیں مگر آوارہ اور بے ہودہ عورتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جیسے کہ اس پھول کو لُو لگ گئی ہے۔ دوستو!یہ سب بہانہ ہیں، ضروری ہے کہ مکان کُھلے ہوا دار صاف ہوں ،اپنے مکانوں کے صحن بڑے بڑے اور کھلے ہوئے ہوا دار رکھو او رعورتوں بچوں کو چائے اور دوسری خشک چیزوں سے بچاؤ اور دودھ گھی وغيرہ کا استعمال رکھو عورتوں کو آرام طلب نہ بناؤ۔
اسلامی پردہ اور طریقہ زندگی:
عورت کا جسم سر سے پاؤں تک ستر ہے جس کا چھپانا ضروری ہے سِوا چہرے اور کلائیوں تک ہاتھوں اور ٹخنے سے نیچے تک پاؤں کے ، کہ ان کا چھپانا نماز میں فرض نہیں باقی حصّہ اگر کُھلا ہوگا تو نماز نہ ہوگی۔لہٰذا اُسکا لباس ایسا ہونا چاہئے جو سرسے پاؤں تک اس کو ڈھکا رکھے۔اور اسقدر باریک کپڑا نہ پہنے جس سے سرکے بال یا پاؤں کی پنڈلیاں یا پیٹ اوپر سے ننگا ہو۔ گھر میں اگر اکیلی یا شوہر یا ماں باپ کے سامنے ہو تو دوپٹہ اتار سکتی ہے لیکن اگر داماد یا دوسرا قرابت دار ہو تو سر باقاعدہ ڈھکا ہوا ہونا ضروری ہے اور شوہر کے سوا جو بھی گھر میں آئے وہ آواز سے خبر کرکے آئے ۔
اجنبی عورت کو سوائے چند صورتوں کے دیکھنا منع ہے (۱)طبیب مریضہ کے مرض کی جگہ کو(۲)جس عورت کے ساتھ نکاح کرنا ہے اس کو چھپ کر دیکھ سکتا ہے ۔(۳)گواہ جو عورت کے متعلق گواہی دینا چاہے۔(۴)قاضی جو عور ت کے متعلق کوئی حکم دینا چاہے۔وہ بھی بقدرِ ضرور ت دیکھ سکتا ہے ۔آوارہ عورتوں سے بھی شریف عورتیں پردہ کریں۔
(درمختار وردالمحتار، کتاب الصلوٰۃ ، با ب شروط الصلوٰۃ ،مطلب فی ستر العورۃ،ج۲،ص۹۵تا۱۰۰ملخصاًورد المحتار،کتاب الحظر والاباحۃ ،فصل فی النظر والمس،ج۹،ص۶۱۳)
عورت کو اپنے گھر سے نکلنا بھی منع ہے ۔سوائے چند موقعہ کے (۱)قابلہ یعنی دائی پیشہ کرنے والی عورت گھر سے نکل سکتی ہے۔(۲)شاہدہ گواہی دینے کے لئے عورت قاضی کے گھر جاسکتی ہے(۳)غاسلہ جو عورت مردہ عورتوں کو غسل دیتی ہے وہ بھی اس ضرورت سے نکل سکتی ہے (۴)کاسبہ جس عورت کاکوئی کمائی کرنے والا نہ ہو وہ روزی حاصل کرنے کیلئے گھر سے نکل سکتی ہے لیکن شریعت کے دائرے میں (۵)زائرہ ۔والدین اور خاص اہلِ قرابت سے ملنے کیلئے بھی گھر سے نکل سکتی ہے وغیرہ اگر اس کی پوری تحقیق کرنا ہو تو اعلیٰ حضرت قدس سرہ کی کتاب" مروج النجا لخروج النساء " کا مطالعہ کرو۔ہم نے جو کہا ان موقعوں میں عورت گھر سے نکل سکتی ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ پردہ سے نکلے اس طرح نہ نکلے جیسے آ ج کل رواج ہے کہ یا تو بے برقع باہر پھرتی ہیں یا اگر برقع ہے تو منہ کھلا ہوا اور برقع بھی نہایت خوش نما اور چمکدار کہ دوسرے مردوں کی اس پر خواہ مخواہ نظر پڑے یہ جائز نہیں یہ احکام تھے گھر سے باہر نکلنے کے۔ اب رہا سفر کرنا اس کے متعلق یہ ضرور یاد رکھو کہ عورت کو اکیلے یا کسی اجنبی کے ساتھ سفر کرنا حرام ہے ضروری ہے کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو۔آجکل جو رواج ہوگیا ہے کہ گھر کو خط لکھ دیا کہ ہم نے اپنی بیوی کو فلاں گاڑی پر سوار کردیا ہے تم اسے اسٹیشن پر آکر اتارلینا۔یہ ناجائز بھی ہے اور خطر ناک بھی دیور اور بہنوئی وغیرہ سے بڑے بڑے گھروں میں بھی پردہ نہیں بلکہ بعض عورتیں تو کہتی ہیں کہ ان سے پردہ کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ یہ محض غلط ہے حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا کہ
اَلْحَمْوُالْمَوْتُ دیور تو اور بھی زیادہ موت ہے ۔
( صحیح البخاری ، کتاب النکاح ، باب لا یخلون رجل ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث ۵۲۳۲ ، ج ۳ ،ص ۴۷۲)
بعض جگہ ان سے ہنسی اور مذاق تک کیا جاتا ہے خیال رکھو یہ شرعی اصول ہے کہ جس عورت سے کبھی بھی نکاح ہوسکے اس سے پردہ ضروری ہے کہ وہ اجنبی ہے اور جس سے کبھی بھی نکاح جائز نہ ہو جیسے داماد،رضاعت (یعنی ،دودھ کا رشتہ ) ،بیٹا،باپ،بھائی،خسر،وغیرہ۔ان سے پردہ ضروری نہیں اگر ان لوگوں سے باقاعدہ پردہ نہ ہوسکے تو کم ازکم گھونگھٹ سے رہنا اور اُن کے سامنے حیا اور شرم سے رہنا ضروری ہے ایسا باریک لباس نہ پہنو جس سے ننگی معلوم ہو اور ایسا لباس نہ پہنو جو پنڈلیوں سے بالکل چمٹ جاتا ہو اور جس سے بدن کا اندازہ ہوتا ہو ہاں اگر اس گھر میں سوائے شوہر وغیرہ کے کوئی اجنبی نہ آتا ہو تو کوئی مضائقہ نہیں مگر ایسے گھر آج کل مشکل سے ملیں گے۔ڈاکٹر اقبال نے خوب کہاہے۔
چو زہرا باش از مخلوق روپوش
کہ درآغوش شبّیر ے بہ بینی
یعنی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی طرح اللہ والی پردہ داربنو تاکہ اپنی گود میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔
لڑکیوں کی تعلیم :
اپنی لڑکی کو وہ علم و ہنر ضرور سکھادو جس کی اس کو جوان ہوکر ضرور ت پڑے گی لہٰذا سب سے پہلے لڑکی کو پاکی پلیدی، حيض و نفاس کے شرعی مسئلے روزہ ،نماز،زکوٰۃوغيرہ کے مسئلے پڑھا دویعنی قرآن شریف اور دینیات کے رسالے پڑھادو۔پھر کچھ ایسی اخلاقی کتابیں جس میں شوہر کے حقوق بجالانے بچوں کے پالنے ساس نندوں سے میل ومحبت رکھنے کے طریقے سکھائے گئے ہوں وہ بھی ضرور پڑھادو ۔بہتر یہ ہے کہ ان کو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تاریخ بھی مطالعہ کراؤ جس سے دنیا میں رہنے سہنے کا ڈھنگ آجائے۔اس کے بعد ہر طرح کا کھانا پکانا ،بقدرِ ضرورت سینا پرونا اور دوسری زنانہ دستکاری اور سوئی کا ہنر ضرور سکھاؤ کیونکہ سوئی ہی وہ چیز ہے جس کی ضرورت مرنے کے بعد بھی پڑتی ہے ۔یعنی مردہ سلاہوا کفن پہن کر قبر میں جاتا ہے سوئی عورتوں کا خاص ہنر ہے کہ اگر (خدانہ کرے)کبھی عورت پر کوئی مصیبت پڑ جائے یابیوہ ہوجائے اور کسی مجبوری کی وجہ سے دوسرا نکاح نہ کرسکے تو گھر میں آبرو سے بیٹھ کر اپنی دستکاریوں سے پیٹ پال سکے۔آجکل کھانا پکانے اور سینے پرونے کی بہت سی کتابیں چھپ چکی ہیں ۔ اور دعوت اسلامی کا مدنی ماحول ہمارے پاس اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے جس میں جامعۃ المدینہ للبنات (لڑکیوں ) کے تحت فی سبیل اللہ درس نظامی کروائی جاتی ہے دین و دنیا کے اصول سکھائے جاتے ہیں ۔
اوردوستو! میں دنیاوی تعلیم کے خلاف نہیں ہوں بلکہ میں ہر اس تعلیم سے بچنے کا ذہن دے سکتا ہوں جس نے تعلیم کا لبادہ اوڑھ کر معاشرے کو تباہ و برباد کر رکھ دیا ہے حتی کہ مسلم ممالک میں ننھی بچیوں سے زیادتی کی تباہ کاریاں تیزی سے پھیل رہی ہے شادیوں کو مشکل اور نا جائز تعلقات آسان کردئے گئے سوشل میڈیا ، الیکٹرانک میڈیا میں آئے دن بے پردگی کو عام کیا جارہا ہے ، دنیاوی اداروں میں مرد عورتوں کے مخلوط نظام کو معیوب نہیں سمجھا جارہا ہے،بلکہ آزادی اظھار رائے کے نام پر عورت مارچ کے طریقے سے عورتوں کے حقوق کی بات کرتےہوئے اسلام سے آزادی کا نظریہ فروغ دیا جارہا ہے کیا یہ ہمارے مسلم اسلاف خواتین کا منشور تھا ہر وہ تعلیم اپنی لڑکیوں کو دلوانی چاہیئے جس میں دین و دنیا دونوں کی بھلائیاں ہو مگر شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے ، تین چیزوں سے اپنی لڑکیوں اوربیویوں کو بہت بچاؤ ایک موبائل اور ٹی وی کا غلط استعمال، دوسرے کالج اوراسکولوں کی ایسی تعلیم جس میں لبرل اور سیکولردین سے باغی بنایا جارہا ہو، تیسرا شرعی پردہ نہ کرنا ۔ یہ تین چیزیں لڑکیوں کے لیے زہر قاتل ہیں ۔ اس وقت لڑکیوں میں جس قدر شوخی ، آزادی اوربے غیرتی ہے وہ سب ان تین ہی کی وجہ سے ہے ۔ ہم نے دیکھاکہ لڑکیوں کے لیے پہلے تو زنانہ اسکول کھلے اور ان میں پردہ دار گاڑیاں بچیوں کو لانے اورلے جانے کے لیے رکھی گئیں اگرچہ ان میں کانا پردہ تھا مگرخیر کچھ عار اورشرم تھی ۔ پھر وہ گاڑیاں بند ہوئیں اورصرف ایک عورت جس کو ماماں کہتے تھے لانے اورپہنچانے کے لیے رہ گئی۔ پھر وہ بھی ختم۔ صرف یہ رہا کہ جوان لڑکیاں برقعہ پہن کر آتیں ۔ پھر یہ بھی ختم ہوا۔ آزادانہ طور سے آنے جانے لگیں ۔ پھر عقل کے اندھوں نے لڑکیوں اورلڑکوں کی ایک ہی جگہ تعلیم شروع کرادی اورشارد اایکٹ جاری کرایاجس کے معنی یہ تھے کہ اٹھارہ سال سے پہلے کوئی نکاح نہ کرسکے پھر لڑکیوں اورلڑکوں کو سینما کے عشقیہ ڈرامے دکھائے بیہودہ ناولوں کی روک تھام نہ کی جس کا مطلب صاف یہ ہوا کہ ان کے جذبات کو بھڑکایا گیااور نکاح روک کر بھڑکے ہوئے جذبات کو پورا ہونے سے روک دیا گیا جس کا منشا صرف یہ ہے کہ حرام کاری بڑھے ۔ کیونکہ بھڑکی ہوئی شہوت جب حلا ل راستہ نہ پائے گی تو حرام کی طرف خرچ ہوگی ۔ اورایسا ہورہا ہے ۔ اب اس وقت یہ حالت ہے کہ جب اسکولوں ، کالجوں کی لڑکیاں صبح شام زرق برق لباس میں راستوں سے آپس میں مذاق دل لگی کرتی ہوئی زور سے باتیں کرتی ہوئی خوشبو لگائے ، دوپٹہ سر سے اتارے ہوئے نکلتی ہیں تو معلوم ہوتاہے کہ شایدہم پیرس میں آگئے ۔اوردردمنددل رکھنے والے خون کے آنسوروتے ہیں۔ اکبرالہ آبادی نے خوب فرمایا ہے :
بے پردہ مجھ کو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبرؔزمیں میں غیرتِ قومی سے گڑگیا
پوچھا جوان سے آپ کا پردہ کدھر گیا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
کوشش کروکہ تمہاری لڑکیاں حیادار اورادب والی بنیں تاکہ ان کی اولاد میں یہ اوصاف پائے جائیں ۔ ڈاکٹر اقبال نے کیا خوب فرمایا ہے :
بے ادب ماں باادب اولاد جن سکتی نہیں
معدنِ زر معدنِ فولاد بن سکتی نہیں
یادرکھوکہ اس زمانہ میں ان سکولوں اورکالجوں نے قوم میں انقلاب پیداکردیا ہے ۔آج طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی قوم کا نقشہ بدلنا ہوتو اس قوم کے بچوں کو تعلیمی اداروں کے ذریعے سیکولر اور لبرلز کی تعلیم دلاؤ ۔ بہت جلد اس قسم کی حالت بدل جائے گی ۔ اکبرؔ نے خوب کہا ہے :
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اوردوستو! بعض لبرلز تعلیمی اداروں کے نام میں اسلام کا نام بھی لگا ہوتاہے یعنی ان کا نام ہوتاہے اسلامیہ ، لگا ہوتا ہے اس نام سے دھوکہ نہ کھاؤاسلامیہ نام رکھنا، فقط مسلم قوم سے اسلام کے نام پر چندہ وصول کرنے کے لیے ہے ۔ ورنہ کام سب کا قریب قریب یکساں ہے ۔ غضب تو دیکھوکہ نام لیکن نصاب میں نام کا اسلام ہوتا ہے اور شاید یہی درس دیا جاتا ہے کہ اسلام تو صرف امن کا درس دیتا ہے اسلام میں تو پابندی نہیں ہے اسلام میں انسانیت کے حقوق کی بات کی جاتی ہے، میں پوچھنا چاہتا ہوں پورے اسلام کے قرآن و حدیث کے اصولوں کو چھوڑ کر ان کو صرف یہ گنتی کی باتیں رٹی رٹائی آتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے،ہم نام کے مسلمان رہ گئے ہیں عمل اس کے بلکل برخلاف ہے،
۔ غرضیکہ ان لبرلز اور سیکولرز اسکولوں سے اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے بچاؤ، N G O S جو آپ کو مفت تعلیم دینے کی دعوت دیتی ہے بدلے میں آپ کے بچوں کے ذہنوں میں کس طرح نوعیت کی تعلیمات ڈال رہی ہے اس کا آپ نے کبھی اندازہ لگایا ہے اگر نہیں تو لگائیے اپنے بچوں کے مستقبل کو ضائع ہونے سے محفوظ فرمائے کہیں بعد میں صرف پچھتانے کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے ، اپنے پچوں کی تعلیمی نشونما صرف اسلامی ماحول میں فراہم کریں اس ہی احتیاط اور کامیابی ہے اور بے حیائی والے مخلوط تعلمی نظام سے معاشرے میں بیت بھانک اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا آپ کو اور ہمیں بخوبی اندازہ ہے، جگہ دیکھا گیا کہ لڑکیاں ماسٹروں کے ساتھ بھاگ گئیں اوران آوارہ استانیوں کے ذریعہ سے ہزار ہا فتنے پھیلے ۔ غرضیکہ اپنی اولاد کو دین دار اورہنر مند بناؤ کہ اسی میں دین دنیا کی بھلائی ہے ۔ اپنی لڑکیوں کو صرف خاتونِ جنت فاطمۃ الزہرارضی اللہ تعالیٰ عنہاکے نقش قدم پر چلاؤ۔ ان کی پاک زندگی کا نقشہ وہ ہے جو ڈاکٹر اقبال نے اس طرح بیان فرمایا:
آں ادب پروردہ شرم وحیا
آسیا گردان ولب قرآن سرا
آتشین ونور یاں فرماں برش
گم رضا ئش دررضا شوہرش
نیا فیشن اور پردہ
نئے تعلیم یافتہ لوگوں نے مسلمانوں کی موجودہ پستی اور ان کی بیماریوں کا علاج یہ سوچا ہے کہ مسلمان مغربی تہذیب میں اپنے آپ کو فنا کرڈالیں اس طرح کے مرد تو ڈاڑھیاں منڈوادیں مونچھیں لمبی کریں، نیکر(جانگھیا)کوٹ پتلون،ہیٹ استعمال کریں، نماز کو خیر باد کہہ دیں اور اپنے کو ایسا ظاہر کریں کہ یہ کسی انگریز کے فرزندہیں اور عورتوں کو گھروں سے باہر نکالیں، پردہ توڑدیں،اپنی بیویوں کو ساتھ لے کر بازاروں،کمپنی باغوں اور تفریح گاہوں میں گھومتے پھریں جس میں شرعی پردے کا کوئی لحاظ نہ ہو،رات کو بیگم کولے کر سینما جائیں۔ بلکہ کالج اور اسکولوں میں لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھ کر تعلیم حاصِل کریں بلکہ مردو عورتیں مل کر ٹینس، ہاکی وغيرہ کھیلیں یہ بھوت ان عقلمندوں پر ایساسوار ہوا ہے کہ جوان کو سمجھاتا ہے اس کے یہ دشمن ہیں اس کو ملاں یا مسجد کا لوٹا یا پرانی ٹائپ کا بڈھاکہہ کر اس کا مذاق اڑا کر رکھ دیتے ہیں اخباروں اور رسالوں میں برابر پردہ کے خلاف مضامین چھپ رہے ہیں قرآنی آیتوں اور احادیث شریفہ کو کھینچ تان کر پردہ کے خلاف چسپاں کیا جارہا ہے میں تو اب تک نہ سمجھ سکا کہ ان حرکتوں سے مسلم قوم ترقی کیوں کرسکے گی۔اور جن صاحبوں نے اپنے گھروں میں پیرس اور لندن کا نمونہ پیدا کیا ہے انہوں نے اب تک کتنے ملک جیتے اور انہوں نے مسلمانوں کو اپنی ذات سے کیا فائدے پہنچائے ہم اس باب کی دوفصلیں کرتے ہیں پہلی فصل میں نئے فیشن کی خرابیاں اور دوسری فصل میں پردے کے فائدے اور بے پردگی کے نقلی اور عقلی نقصانات بیان کریں گے۔ حق تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے قبول فرمائے اور مسلمانوں کو عمل کی توفیق دے۔
پہلی فصل
نئے فیشن کی خرابیاں
قرآن کریم فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوۡا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً (پ2،البقرہ:208)
اے ایمان والو!اسلام میں پورے پورے داخل ہوجاؤ۔
انسان کو قدرت نے دوقسم کے اعضاء دیئے ہیں ایک ظاہری دوسرے چھپے ہوئے ظاہری عُضو تو صورت چہرا آنکھ، ناک، کان وغیرہ ہیں اور چھپے ہوئے عضو دل، دماغ، جگروغیرہ .مسلمان کا مل ایمان والا جب ہوسکتا ہے کہ صورت میں بھی مسلمان ہوا اور دل سے بھی یعنی اسلام کا اس پر ایسا رنگ چڑھے کہ صورت اور سیرت دونوں کو رنگ دے دل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ موجیں ماررہا ہو اس میں ایمان کی شمع جل رہی ہو اور صورت ایسی ہو جو اللہ عزوجل! کے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کو پسند تھی یعنی مسلمان کی سی اگر دل میں ایمان ہے مگر صورت بھگوان داس کی سی تو سمجھ لو کہ اسلام میں پورے داخل نہ ہوئے سیرت بھی اچھی بناؤ اور صورت بھی۔ غور سے سنو!حضرت مغیرہ ابنِ شیبہ جو کہ اصحابی رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہیں،ایک باران کی مونچھيں کچھ بڑھ گئی تھیں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ اے مغیرہ !تمہاری مونچھیں بڑھ گئیں۔ کاٹ لو انہوں نے خيال کیا کہ گھر جاکر قینچی سے کاٹ دوں گا۔مگر سرکا ری فرمان ہوا کہ ہماری مسواک لو۔اس پر بڑھے ہوئے بال رکھ کر چھری سے کاٹ دو۔ یعنی اتنی بھی مہلت نہ دی کہ گھر جاکر قینچی سے کاٹیں، نہیں یہاں ہی کاٹ دو جس سے معلوم ہوا کہ بڑی مونچھیں حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کو ناپسند تھیں دنیا میں ہزاروں پیغمبر تشریف لائے مگر کسی نبی نے نہ داڑھی منڈائی اور نہ مونچھیں رکھائیں،لہٰذا داڑھی فطرت یعنی سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے حدیث پاک میں ہے داڑھیاں بڑھاؤاور مونچھیں پست کرو اور مشرکین کی مخالفت کرو۔
(صحیح مسلم، کتاب الطہارۃ، باب خصال الفطرۃ، الحدیث ۲۵۹، ص ۱۵۴)
اس کے علاوہ بہت سے نقلی دلیلیں دی جاسکتی ہیں۔مگر ہمارے نئے تعلیم یافتہ لوگ نقلی دلائل کے مقابلے عقلی باتوں کو زیادہ مانتے ہیں گویا گلاب کے پھول کے مقابلے میں گینڈے کے پھول ان کو زيادہ پیارے ہیں اس لئے عقلی باتیں بھی عرض کرتا ہوں سنو!اسلامی شکل اور اسلامی لباس میں اتنے فائدے ہیں (۱)گورنمنٹ نے ہزاروں محکمے بنادیئے ہیں، ریلوے،ڈاکخانہ،پولیس،فوج اور کچہری وغيرہ اور ہر محکمے کیلئے وردی علیٰحدہ علیٰحدہ مقرر کردی کہ اگر لاکھوں آدمیوں میں کسی محکمہ کا آدمی کھڑا ہو تو صاف پہچان میں آجاتا ہے، اگر کوئی سرکاری نوکر اپنی ڈیوٹی کے وقت اپنی وردی میں نہ ہو تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے اگر بار بار کہنے پر نہ مانے تو برخاست کردیا جاتا ہے اسی طرح ہم بھی محکمہ اسلام اور سلطنت مصطفوی اور حکومت الٰہیہ کے نوکر ہیں ہمارے لئے علیٰحدہ شکل مقرر کردی کہ اگر لاکھوں کافروں کے بیچ میں کھڑے ہوں تو پہچان لئے جائیں کہ مصطفےٰ علیہ السلام کا غلام وہ کھڑا ہے اگر ہم نے اپنی وردی چھوڑ دی تو ہم بھی سزا کے مستحق ہوں گے۔ (۲)قدرت نے انسان کی ظاہری صورت اور دل میں ایسا رشتہ رکھا ہے کہ ہر ایک کا دوسرے پر اثر پڑتا ہے اگر آپ کا دل غمگین ہے تو چہرہ پر اداسی چھا جاتی ہے اور دیکھنے والا کہہ دیتا ہے کہ خیر تو ہے چہرہ کیوں اداس ہے دل میں خوشی ہے تو چہرہ بھی سرخ و سپید ہوجاتا ہے معلوم ہوا کہ دل کا اثر چہرہ پر ہوتا ہے اسی طرح اگر کسی کو دق(یعنی ٹی.بی) کی بیماری ہے تو حکیم کہتے ہیں کہ اس کو اچھی ہوا میں رکھو اچھے اور صاف کپڑے پہناؤ اس کو فلاں دوا کے پانی سے غسل دو کہے بیماری تو دل میں ہے یہ ظاہری جسم کا علاج کیوں ہورہا ہے اسی لئے کہ اگر ظاہر اچھا ہوگا تو اندر بھی اچھا ہوجائے گا۔
تندرست آدمی کو چاہے کہ روزانہ غسل کرے صاف کپڑے پہنے صاف گھر میں رہے تو تندرست رہے گا۔اسی طرح غذا کا اثر بھی دل پر پڑتا ہے۔ سؤر کھانا شریعت نے اسی لے حرام فرمادیا کہ اس سے بے غیرتی پیدا ہوتی ہے کیونکہ سؤر بے غیرت جانور ہے اور سؤر کھانے والی قومیں بھی بے غیرت ہوتی ہیں جس کا تجربہ ہورہا ہے اگر چیتے یا شیر کی چربی کھائی جائے تو دل میں سختی اور بربریت پیدا ہوتی ہے چیتے اور شیر کی کھال پر بیٹھنا اسی لئے منع ہے کہ اس سے غرورپیدا ہوتا ہے، غرضیکہ ماننا پڑے گا کہ غذا اور لباس کا اثر دل پر ہوتا ہے تو اگر کافروں کی طرح لباس پہناگیا یا کفار کی سی صورت بنائی گئی تو یقینا دل میں کافروں سے محبت اور مسلمانوں سے نفرت پیدا ہوجاوے گی غرضیکہ یہ بیماری آخر میں مہلک ثابت ہوگی اس لئے حدیث پاک میں آیا ہے ''مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ'' جو کسی دوسری قول سے مشابہت پیدا کرے وہ ان میں سے ہے۔
(المعجم الاوسط، الحدیث ۸۳۲۷، ج ۲، ص ۱۵۱)
جب کبھی آپ کو ایسے بازار وغيرہ جانا ہوں جس مسلم اور غیر مسلم کا فرق دشوار ہو تو سوچنا پڑھیگا کہ سلام کسے کروں معلوم نہیں کہ غیر مسلم کون ہے اور مسلمان کون؟ بہت دفعہ کسی کو کہا اسلام علیکم انہوں نے فرمایا بندگی صاحب ہم شرمندہ ہوگئے۔ غرضیکہ مسلمانوں کو چاہے کہ شکل اور لباس میں کفار سے علیٰحدہ رہیں کسی کو نہیں معلوم کہ اس کی موت کہاں ہوگی۔اگر ہم پردیس میں مرگئے جہاں ہمارا جان پہچان والا کوئی نہ ہو تو سخت مشکل درپیش ہوگی۔لوگ پریشان ہوں گے کہ ان کو دفن کريں یا آگ میں جلادیں کیونکہ صورت سے پہچان نہ پڑے گی چنانچہ پیشتر سال پہلے علی گڑھ ہند کے ایک صاحب کا ریل میں انتقال ہوگیاخبر ہونے پر رات میں میں نعش اتارلی گئی مگر اب یہ فکر ہوئی کہ یہ ہے کون ؟ہندو یا مسلمان اس کو سپردِ خا ک کریں یاآگ میں ڈالیں آخر ان کا ختنہ دیکھا گیا تب پتہ لگا کہ یہ مسلمان ہیں خلاصہ یہ ہے کہ کفار کی سی شکل اور ان کا سا لباس زندگی میں بھی خطرناک ہے اور مرنے کے بعد بھی۔ زمین میں جب بیج بویا جاتا ہے تو اولاً ایک سیدھی سی شاخ ہی نکلتی ہے پھر آکر ہر طرف پھیلتی ہے پھر اس میں پھل نکلتے ہیں اگر کوئی شخص اس کی چوطرف کی شاخوں اور پتوں کو کاٹ ڈالے تو پھل نہیں کھاسکتا۔اسی طرح کلمہ طیبہ ایک بیج ہے جو مسلمان کے دل میں بویا گیا،پھر صورت اور ہاتھ پاؤں، آنکھ،ناک کی طرف اس درخت کی شاخيں چلیں کہ اس کلمہ نے مسلمان کی آنکھ کو غیر صورتوں سے علیٰحدہ کردیا۔ہاتھ کو حرام چیز کے چھونے سے روک دیا۔صورت پر ایمانی آثار پیدا کردیئے کان کو غیبت سننے اور زبان کو جھوٹ بولنے غیبت کرنے سے روکا جو شخص دل سے مسلمان تو ہو مگرکافروں کی سی صورت بنائے اپنے ہاتھ،پاؤں، زبان، آنکھ، ناک، کان کو حرام کاموں سے نہ روکے وہ اسی شخص کی طرح ہوگا جو آم کابیج بودے اور اس کی تمام شاخيں وغيرہ کاٹ ڈالے جس طرح وہ بیوقوف پھل سے محروم رہے گا اسی طرح یہ مسلمان اسلا م کے پھلوں سے محروم رہے گا پکا رنگ وہ ہوتا ہے جو کسی پانی یا دھوبی سے نہ چھوٹے اور کچا رنگ وہ جو چھوٹ جائے۔تو اے مسلمانو!تم اللہ عزوجل! کے رنگ میں رنگ ہوئے ہو۔
صِبْغَۃَ اللہِ ۚ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللہِ صِبْغَۃً ۫
ترجمہ کنزالایمان:ہم نے اللہ کی رینی (رنگائی)لی اوراللہ سے بہترکس کی رینی(رنگائی)؟(پ1،البقرہ138)
گر تم کفار کو دیکھ کر اپنے رنگ کو کھو بیٹھے تو جان لو کہ تمہارا رنگ کچّا تھا۔اگر پکا رنگ ہوتا تو اوروں کو رنگ آتے۔
مسلمانوں کے عذر:
ہم مسلمانوں کے وہ عذر بھی پیش کردیں جو کہ وہ بیان کرتے ہیں اور جس سے اپنی مجبور یوں کا اظہار کرتے ہیں۔
سوال ،خدا دِل کو دیکھتا ہے۔شکل کو نہیں دیکھتا، دل صاف چاہے حدیثِ میں ہے ''اِنَّ اللہَ لَاَیَنْظُرُاِلٰی صُوَرِکُمْ بَلْ یَنْظُرُاِلیٰ قُلُوْبِکُمْ'' (یعنی اللہ تعالیٰ تمہارے چہرے نہیں بلکہ تمہارے دل دیکھتا ہے۔)؟
(صحیح مسلم،کتاب البروالصلۃ۔۔۔۔۔۔الخ،باب تحریم ظلم المسلم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۵۶۴،ص۱۳۸۷)
یہ عذر پڑھے لکھے مسلمان کرتے ہیں۔
جواب:اچھاصاحب اگر ظاہر کا کوئی اعتبار نہیں دل کااعتبار ہے تو آپ میرے گھرکھانا کھاؤ یا شربت پیؤ اور میں نہایت عمدہ بادام کا شربت یا عمدہ بریانی کھلاؤں پلاؤں مگر گلاس یا رکابی میں اوپر کی طرف خوب اچھی گندگی پلیدی لگادوں۔آپ اس برتن میں کھالو گے؟ہر گز نہیں کیوں جناب !برتن کا کیا اعتبار ؟ اس کے اندر کی چیز تو اچھی ہے جب تم بُرے برتن میں اچھی غذا نہیں کھاتے پیتے رب تعالیٰ تمہاری بُری صورتوں کیساتھ اچھے اعمال کیونکر قبول فرماویگا۔اگر قرآن شریف پڑھو تو لطف جب ہے کہ منہ میں قرآن شریف ہو۔اور صورت پر اس کا عمل ہو اگرتمہارے منہ قرآن ہے اور صورت قرآن شریف کے خلاف تو گویا اپنے عمل سے تم خود جھوٹے ہو۔بادشاہ کے آنے کیلئے گھر اور گھر کا دروازہ دونوں صاف کرو کیونکہ بادشاہ دروازے سے آئےگا اور گھر میں بیٹھے گا اسی طرح قرآن شریف کیلئے دل اور صورت دونوں سنبھالو حدیث کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ صرف تمہاری صورتوں کونہیں دیکھتا بلکہ صورتوں کے ساتھ دل کو بھی دیکھتا ہے اگر اس کا وہ مطلب ہوتا جو تم سمجھتے ہو تو پھر سر پر چوٹی کان میں جنیوااور پاؤں میں دھوتی باندھ کر نماز پڑھنا جائز ہونا چاہے تھا،حالانکہ فقہافرماتے ہیں کہ چوٹی رکھنا، زنا رباندھنا کفر ہے۔
سوال ،اسلامی شکل سے ہماری عزت نہیں ہوتی جب ہم انگریزی لباس میں ہوتے ہیں تو ہماری عزت ہوتی ہے کیونکہ وہ ترقی یافتہ قوم کا لباس ہے؟
جواب:آدمی کی عزت لباس سے نہیں بلکہ لباس کی عزت آدمی سے ہے اگر تمہارے اندر کوئی جوہر ہے یا اگر تم عزت اور ترقی والی قوم کے فرد ہو۔تو تمہاری ہر طرح عزت ہوگی کوئی بھی لباس پہنو اگر ان چیزوں سے خالی ہو تو کوئی لباس پہنو عزت نہیں ہوگی۔ آج مسلمانو ں کے سوا تمام قومیں سکھ ہندو خوجہ ہمیشہ اپنے قومی لباس میں رہتے ہیں سکھ کے منہ پر داڑھی سرپر بال ہاتھ میں لوہے کا کڑا ہر جگہ رہتا ہے کیوں صاحب !کیاوہ دنیا میں ذلیل ہیں سچ ہے کہ جوانکی اس لباس میں عزت ہے وہ تمہاری بوٹ سوٹ میں نہیں،دوستو!اگر عزت چاہتے ہو تو سچے مسلمان بنو اور اپنی مسلم قوم کو ترقی دو۔
سوال،آخر داڑھی میں فائدہ کیا ہے؟کہ مولوی اس کے اتنے پیچھے پڑے ہیں؟
جواب:داڑھی اورتمام اسلامی لباس کی خوبیاں ہم بیان کرچکے ہیں اب بھی عرض کرتے ہیں کہ اسلام کے ہر کام میں صدہا حکمتیں ہیں سنو!مسواک سنّت ہے اس میں بہت فائدے ہیں دانتوں کو مضبوط کرتی ہے مسوڑھوں کو فائدہ مند ہے منہ کو صاف کرتی ہے گندہ د ہنی کی بیماری کو فائدہ مند ہے معدہ درست کرتی ہے یعنی ہضم کرتی ہے آنکھوں کی روشنی بڑھاتی ہے زبان میں قوت پیدا کرتی ہے دانتوں کو صاف رکھتی ہے جانکنی کو آسان کرتی ہے، بلغم کو کاٹتی ہے، پِت دور کرتی ہے سَر کی رگوں کو مضبوط کرتی ہے موت کے وقت کلمہ یاد دلاتی ہے غرضیکہ اسکے فائدے۳۶ ہیں دیکھو شامی اور طب کی کتابیں۔اسی طرح ختنہ ڈیڑھ سو بیماريوں کے لئے فائدہ مند ہے باہ کو قوی کرتا ہے انسان کی قوت مردی کوبڑھاتا ہے، اس جگہ میل وغيرہ جمع نہیں ہونے دیتا ،اولاد قوی پیدا کرتا ہے ،ختنہ والے کی عورت کسی طرف رغبت نہیں کرتی بعض بیماریوں میں ڈاکٹر ہندوؤں کے بچوں کا بھی ختنہ کرادیتے ہیں۔ ناخن میں ایک زہریلا مادہ ہوتا ہے اگر ناخن کھانے یا پانی میں ڈبوئے جائیں تو وہ کھانا بیماری پیدا کرتا ہے اسی لئے انگریز وغیرہ چھری کانٹے سے کھانا کھاتے ہیں کیونکہ عیسائیوں کے یہاں ناخن بہت کم کٹواتے ہیں اور پرانے زمانے کے لوگ وہ پانی نہیں پیتے تھے جس میں ناخن ڈوب جائیں مگر اسلام نے اسکا یہ انتظام فرمایا کہ ناخن کٹوانیکا حکم دیا اور چھری کانٹے کی مصیبت سے بچایا اسی طرح مونچھوں کے بالوں میں زہریلا مادہ موجود ہے اگر مونچھیں بڑی بڑی ہوں اور پانی پیتے وقت پانی میں ڈوب جائیں تو پانی صحت کے لئے نقصان دہ ہوگا اسی لئے اب موجودہ فیشن کے لوگ مونچھ منڈوانے لگے۔اس کا اسلام نے یہ انتظام فرمایا کہ مونچھیں کاٹنے کا حکم د ے دیا۔کیونکہ مونچھیں منڈانے سے نامردی پیداہوتی ہے۔
داڑھی کے بھی بہت فائدے ہیں سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ داڑھی مردکے چہرے کی زینت ہے اور منہ کا نور جیسے عورت کیلئے سر کے بال یا انسان کیلئے آنکھوں کے پلک اور بھویں(بروٹے)زینت ہیں۔ اسی طرح مرد کیلئے داڑھی۔اگر عورت اپنے سر کے بال منڈادے تو بری معلوم ہوگی یا کوئی آدمی اپنی بھویں (بروٹے)اور پلکیں صاف کرادے وہ بُرا معلوم ہوگا۔اسیطرح مرد داڑھی منڈانے سے بُرا معلوم ہوتا ہے۔
دوسرا فائدہ :یہ ہے کہ داڑھی مرد کو بہت سے گناہوں سے روکتی ہے کیونکہ داڑھی سے مرد پر بزرگی آجاتی ہے اسکو بُرے کام کرتے ہوئے یہ غیر ت ہوتی ہے کہ اگر کوئی دیکھ لے گا تو کہے گا کہ ایسی داڑھی اور تیرے ایسے کام۔داڑھی کی بھی تجھ کو لاج نہ آئی اس خیال سے وہ بہت سی چھچھوری باتیں اور کھلم کھلا برے کام سے بچ جاتا ہے یہ آزمائش ہے کہ نماز اور داڑھی بفضلہ تعالیٰ برائیوں سے روکتی ہے تیسرا یہ کہ داڑھی کے بالوں سے قوت مردی بڑھتی ہے۔ ایک حکیم صاحب کے پاس ایک نامرد آیا جس نے شکایت کی کہ میں نے اپنی کمزوری کا بہت علاج کیا کچھ فائدہ نہ ہوا انہوں نے
فرمایا کہ داڑھی رکھ لے یہ اس کا آخری اور تیر بہدف نسخہ ہے ۔پھر فرمانے لگے کہ قدرت نے انسان کے بعض عضوؤں کا بعض سے رشتہ رکھا ہے اوپر کے دانت اور داڑھوں کا آنکھوں سے تعلّق ہے اگر کوئی شخص اوپر کی داڑھیں نکلوادے تو اسکی آنکھیں خراب ہوجاتی ہیں پاؤں کے تلوؤں کا بھی آنکھو ں سے تعلق ہے کہ اگر آنکھوں میں گرمی ہو تو تلوؤں کی مالش کی جاتی ہے اگر نیندنہ آوے تو پاؤں کے تلوؤں میں گھی اور نمک کی مالش نیند لاتی ہے اسی طرح داڑھی کا تعلق خاص مرد کی قوتوں اور منی سے ہے اسی وجہ سے عورت کے داڑھی نہیں ہوتی اور نابالغ بچہ جسمیں منی کا مادہ نہيں ہوتا اور ہجڑا (نامردیعنی زنانہ)کے داڑھی نہیں ہوتی بلکہ اگر کسی مرد کے داڑھی ہو اور اسکے فوطے نکال دیئے جائیں تو داڑھی خوبخود جھڑ جائیگی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عام لوگوں میں مشہور ہے کہ مولویوں کے اولاد بہت ہوتی ہے اور مولوی کی بیوی آوارہ نہیں ہوتی اسکی وجہ داڑھی ہی ہے اور ناف کے نیچےکے بال قوتِ مرد ی کیلئے نقصان دہ ہیں اسی لئے شریعت نے انکے صاف کرنیکا حکم دیا ہے اگر ہوسکے تو آٹھویں روز استرے سے ورنہ پندرہویں یا بیسویں دن ضرور لے۔ غرضیکہ سنت کے ہر کام میں حکمتیں ہیں ہم نے ایک کتاب لکھی ہے ''انوار القرآن''جس میں نمازکی رکعتیں، وضو،غسل اور تمام اسلامی کاموں کی حکمتیں بیان کی ہیں۔ حتٰی کہ یہ بھی اس میں بتایا ہے کہ جو سزا ئیں اسلام نے مقرر فرمائی ہیں مثلاً چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا، زنا کی سزا رجم کرنا اس ميں کیا حکمتیں ہیں نیز ہم نے اپنی تفسیرِ نعیمی میں اسلامی احکام کے فوائد اچھی طرح بیان کردیئے اس کا مطالعہ کرو۔مونچھ کے بال بھی قوتِ مردی کیلئے فائدہ مند ہیں مگر ان کی نوکوں میں زہریلا اثر ہے اس لئے ان کو کاٹ تو دومگر بالکل نہ مونڈو۔