جلاو گھیراو تخریب کاری راستے بازار بند کرانے کے جواز کی مختصر تحقیق..............!!
جلاو گھیراو تخریب کاری راستے بازار بند کرانے کے جواز کی مختصر تحقیق..............!!
.
عام حکم یہی ہے کہ جہاد میں لڑنے والے ظالم فسادیوں سے ہی لڑا جائے عورتوں بچوں مریضوں کو تکلیف نہ پہنچائی جاءے،راستے بند نہ کییےجاءیں،عوام کو تکلیف نہ پہنچائی جائے اس پر کئ احادیث و آثار ہیں
مگر
اگر دیگر طریقوں سےناکامی ہو یا قوی اندیشہ ہو اور یہی راستہ بچا ہو تو حکومت حکمران کو شرعی معاہدے کرنے، معاہدے پورے کرنے،شرعی مطالبات منوانے کے لیے تخریب کاری، سرکاری املاک کا جلاو گھیراو ، کاروبار بازار راستے چوک بند کروانے کا جواز بھی علماء نے حدیث پاک سے ثابت کیا ہے
.
الحدیث:
عن النبي صلى الله عليه وسلم،" انه حرق نخل بني النضير، وقطع وهي البويرة"، ولها يقول حسان: وهان على سراة بني لؤي حريق بالبويرة مستطير.
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی نضیر کے کھجوروں کے باغ جلا دیئے اور کاٹ دیئے۔ ان ہی کے باغات کا نام بویرہ تھا۔ اور حسان رضی اللہ عنہ کا یہ شعر اسی کے متعلق ہے۔ بنی لوی (قریش) کے سرداروں پر (غلبہ کو) بویرہ کی آگ نے آسان بنا دیا جو ہر طرف پھیلتی ہی جا رہی تھی۔
(بخاری حدیث2326)
.
واستدل الجمهور بذلك على جواز التحريق والتخريب في بلاد العدو إذا تعين طريقًا في نكاية العدو
ترجمہ:
جمھمور و اکثر علماء کے مطابق اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب راستہ ہی یہی بچا ہوتو دشمن کے شہر میں(راستےبند)،تخریب کاری ، جلاؤ گھیراؤ جائز ہے
(إرشاد الساري شرح بخاري ,5/152)
(الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم ,19/124)
.
حَدِيث ابْن عمر دَال على أَن للْمُسلمين أَن يكيدوا عدوهم من الْمُشْركين بِكُل مَا فِيهِ تَضْعِيف شوكتهم وتوهين كيدهم وتسهيل الْوُصُول إِلَى الظفر بهم من قطع ثمارها وتغوير مِيَاههمْ والتضييق عَلَيْهِم بالحصار. وَمِمَّنْ أجَاز ذَلِك الْكُوفِيُّونَ، وَمَالك وَالشَّافِعِيّ وَأحمد
اس حدیث پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانون کے لیے مجبورا جائز ہے کہ دشمنوں کو کسی نہ کسی طریقے سے کمزور کرکے منواءیں یا انکی شان و شوکت گھٹائیں مثلا مجبورا جائز ہے کہ ان کے پھل کھیت اجاڑ دیں جلا دیں انکا کھانا پانی بند کریں باءیکاٹ کریں اور جلاو گھیراو کریں راستے بند کریں یہ سب مجبورا جائز ہے فقہ حنفی کے مطابق، فقہ مالکی ، فقہ شافعی اور فقہ حنبلی کے مطابق بھی
(عمدة القاري شرح صحيح البخاري ,14/270)
.
.
اب آپ کے ذہن میں سوال ابھرے گا کہ یہ تو مشرکین کے ساتھ جائز ہے.....مسلمان مسلمان کے ساتھ ایسا کرے یہ کیسے جائز ہو سکتا ہے
جواب:
عام مسلمانوں کے ساتھ ایسا واقعی جائز نہیں مگر نااہل ظالم خائن حکمران سےٹکرانا بھی جہاد ہے،یہی درس کربلا ہے.....
نا اہلوں سے جھاد اور وہ بھی تین طریقوں سے:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،ترجمہ:
پہلے کی امتوں میں جو بھی نبی علیہ الصلاۃ والسلام گذرا اسکے حواری تھے،اصحاب تھے جو اسکی سنتوں کو مضبوطی سے تھامتے تھے اور انکی پیروی کرتے تھے،
پھر
ان کے بعد ایسے نااہل آے کہ جو وہ کہتے تھے اس پر عمل نہیں کرتے تھے،اور کرتے وہ کچھ تھے جنکا انھیں حکم نہیں تھا، جو ایسوں سے جہاد کرے ہاتھ سے وہ مومن ہے
اور جو ایسوں سے جھاد کرے زبان سے وہ مومن ہے
اور جو ایسوں سے جھاد کرے دل سے وہ مومن ہے
اور اس کے علاوہ میں رائ برابر بھی ایمان نہیں
(مسلم حدیث 50)
.
جب منافق یا نا اہل یا باغی ظالم حکمران و گروپ کے ساتھ جہاد کا حکم ہے تو مجبورا تخریب کاری راستے کاروبار بازار چوک بند کرنے، سرکاری یا امیروں حکمرانوں لیڈروں کے املاک و اداروں کا جلاو گھیراو کا جواز بھی خود بخود ثابت ہوجائے گا
.
دیگر طریقوں سے بہت کوشش کی مگر ناکامی ہوئی اور فی زمانہ ایسےحالات میں ہم غریبوں مظلوموں کےپاس راستہ ہی یہی بچا ہے کہ ملک کے راستے چوک کاروبار بازار بند کراکے،سرکاری املاک.و.ادارے کا جلاؤ گھیراو کرکے شرعی مطالبات منظور کرواءیں عمل کروائیں…غرباء اور ایمبولینس کا خیال و بچاو بھی کیجیے
.
.
الحدیث،ترجمہ:
واللہ اسلام ضرور غالب آئےگا،چھائےگا مگر تم جلدی کرتے ہو(بخاری حدیث3612ملخصا)
مانا کہ عمران خان سےآتےہی چند سالوں میں ریاست مدینہ کی مثل قائم کرنےکا مطالبہ جلدبازی ہے…سمجھداری،اچھی سیاست سےکام لینا چاہیےلیکن اس وقت دو اہم معاملات یہ لگتےہیں کہ بلانقصان فرانسیسی سفیر کیسے نکالا جائے اور حکومتی سطح پر فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیسے کیا جائے اور imf,fatf کی غلامی،من مانی سےکیسےبچا جائے…؟؟
.
ان مطالبات پے ملک گیر زبردست احتجاج کیا جائےاس سے حکومت کو بہانا مل جائے گا کہ وہ عالمی طاقتوں کو کہہ سکے گی کہ دیکھو ہم تو نہیں چاہتے مگر عوام کا دباو ہے…لیھذا لبیک کے احتجاج میں بھرپور حصہ لیجیے،فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کیجیے
.
احتجاج مجبوری ہے لیھذا احتجاج کی وجہ ٹریفک جام، کاروبار جام وغیرہ چھوٹے موٹے نقصانات و اذیت برداشت کیجیے
.
القرآن:
إذا نودي للصلاة من يوم الجمعة، فاسعوا إلى ذكر الله وذروا البيع
ترجمہ:
جب جمعہ کے دن جمعہ نماز کے لیے ندا دی جائے(نماز جمعہ کے لیے بلایا جائے، اذان دی جائے) تو اللہ کے ذکر کی طرف جلدی کرو اور کاروبار چھوڑ دو
(سورہ جمعہ آیت9)
.
جمعہ نماز فرض ہے مگر تحفظِ اسلام اور تحفظِ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت تو نمازِ جمعہ سے بڑھ کر عظیم فریضہَِ اسلام ہیں
جب جمعہ نماز کے لیے اسلام نے سختی کی، کاروبار بند کرایا تو یقینا حالتِ مجبوری میں تحفظِ اسلام اور تحفظ ناموس رسالت اور تحفظِ ختمِ نبوت کے لیے کاروبار اور اکثر راستے بند کرائے جاسکتے ہیں...احتجاج دھرنے دییے جاسکتے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ بھرہور کوشش کی جائے کہ کسی کی موت احتجاج دھرنے کی وجہ سے نا ہو...اس لیے کچھ راستے ایمبولینس ایمرجنسی کے لیے بھی کھلے رکھنا چاہیے...کوشش کے باوجود کسی کی موت ہوجائے تو عظیم مقصد کے لیے شہادت کہلائے گی، اس شہادت و قتل کا ذمہ دار مجبور احتجاجی ذمہ دار نہین کہلاءیں گے... احتجاج دھرنے مجبوری ہیں، موجودہ حالات میں ہم کمزوروں مجبوروں کے پاس احتجاج اور دھرنے کے علاوہ مفید راستہ ہی کیا بچا ہے.....؟؟
.
لیھذا جب بھی انتہاہی اہم اسلامی مقصد کے لیے مجبورا احتجاج یا دھرنے کی کال دی جائے تو دل و جان سے حصہ لیجیے...کاروبار بند کیجیے... تکلیف برداشت کیجیے... اور جنہین تکلیف ہو اسے سمجھائیے حوصلہ بڑھاءیے کہ بھائی آپ کو عظیم مقصد کی خاطر مشقت اٹھانا پڑ رہی ہے تو آپ کو اجر و ثواب دوگنا سے بھی زیادہ بڑھا کر دیا جائے گا
اسلام ہماری اذیت و مشقت نہین چاہتا، جان بوجھ کر تکلیف میں پڑنے اور دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے سے روکتا ہے مگر اسلام یہ بھی تعلیم دیتا ہے کہ اچھے کام میں مشقت اٹھانی پڑے تو اجر و ثواب زیادہ ملتا ہے
.
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ولكنها على قدر نفقتك أو نصبك
ترجمہ:
اور تمھیں اسکا ثواب تمھارے خرچ یا تھکاوٹ و مشقت کے حساب سے ملے گا
(بخاری حدیث1787)
.
عظیم مقصد کے لیے تکالیف برداشت کرنا پڑتی ہیں...بلکہ عظیم مقصد میں ہمیں تکلیف پر تکلیف ہی نہیں ہونی چاہیے
.
.
مریض کا علاج کے وقت اسے کتنی تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہے...؟؟کبھی تو جسم کا کوئی عضو بھی کاٹنا پڑتا ہے...مریض کے ناچاہتے ہوئے بھی اسے کڑوی دوائی دی جاتی ہے...کڑوی دوا کی اذیت برداشت کرنا پڑتی ہے...مریض پر مختلف پابندیاں اس کی بھلائی کے لیے لگائی جاتی ہیں... مرض موذی وبائی ہو تو معاشرتی بھلائی کے لیے دوسروں پر پابندی لگائی جاتی ہے...دوسروں کو بھی اپنی بھلائی اور مریض کی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کرنا پڑتی ہیں
اسی طرح
گستاخیِ رسول موذی وبائی مرض ہے
سیکیولر ازم من پرستی،فحاشی بھی وبائی مرض ہے
جو
پاکستان میں پھیلا گیا اور پھیلایا جا رہا تھا اس کے علاج کے لیے دیگر طریقوں کے علاوہ لبیک کے دھرنے اور احتجاج جاری ہیں...اپنی بھلائی اور معاشرتی بھلائی کے لیے تکلیف برداشت کیجیے اور احتجاج دھرنوں میں شرکت کیجیے
.
لبیک وغیرہ اہلسنت قائدین ورکرز کی ذات کی گرفتاری نہیں بلکہ نظریہ کی گرفتاری ہے…معاہدہ پورا نہ کرنے،سفیر نہ نکالنے،باءیکاٹ نہ کرنے imf,fatf کی غلامی سے نہ بچنے پےقائدین نےملک گیر احتجاج کی دھمکی دی تو قائدیں کو گرفتار کر لیا گیا لیھذا ذاتی مفاد و ذاتیات کےلیےاحتجاج و دھرنہ نہین بلکہ نظریات پے دھرنا احتجاج ہے
.
پاکستان میں ایسے احتجاج دھرنے راستے کاروبار بند وغیرہ بہت سیاسی تنظیمیں کرتی ہیں تو اسے جمہوریت کا رنگ و حق کہا جاتا ہے لیکن افسوس کوءی دینی جماعت شرعی حقوق و مقاصد کے لیے مجبورا ایسے کرتی ہے تو اس پر تنقید و مذمت کی جاتی ہے جبکہ لبیک بھی رجسٹرڈ سیاسی پارتی ہے تو یہ اسکا حق و جمہوریت کا رنگ ہے اگرچہ ہم عوام سے یہی اپیل کرتے ہین کہ اولین ترجیح پرامن احتجاج ہے مگر ہم پر ظلم ہوا تو راستے کاروبار بند کرنا سرکاری املاک کا جلاو گھیراو کرنا مجبوری ہے
.
.القرآن،ترجمہ:
سچوں کے ساتھ ہو جاؤ(سورہ توبہ119)
القرآن:
وَإِنِ اسْتَنصَرُوكُمْ فِي الدِّينِ فَعَلَيْكُمُ النَّصْرُ
اور اگر وہ تم سے دین کی خاطر مدد طلب کریں تو تم پر انکی مدد کرنا لازم ہے..(انفال ایت72)
لبیک اور دیگر اہلسنت تنظیموں کا ساتھ دیجیے، ملک گیر پرامن احتجاج میں شرکت کیجیے,احتجاج کامیاب بنائیے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp nmbr
00923468392475
03468392475