یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

اللہ پاک کی شان، اللہ پاک پےاعتراض،گستاخی......؟؟



اللہ پاک کی شان، اللہ پاک پےاعتراض،گستاخی......؟؟

.
اللہ تعالیٰ کا ہر حکم و معاملہ ہر صفت
حکمت و کمال سے خالی نہیں…اسکا انکار کرنا ، گستاخی کرنا، توہین کرنا ، عیب و نقص لگانا ، اعتراض کرنا
ارتداد و کفر  ہے، الحاد و زندیقیت ہے،بغاوت و فسادِ معاشرہ ہے،اس پر تالیاں بجانا ، داد دینا ، اچھا سمجھنا بھی کفر و ارتدار ہے…سب پر توبہ اور تجدید ایمان و تجدیدِ نکاح فرض ہے، …توبہ رجوع تجدید کر لیں تو قتل نہ کیا جائے گا…اگر ڈٹ جائے یا بار بار کرے یا حکومت وقت کو مناسب لگے تو توبہ کرے یا نہ کرے ہر حال میں فورا فسادی گستاخ کو حکومت قتل کرے…حتی کہ عام آدمی خود سے ایسے کو قتل کردے تو بھی جائز ہے…جب تک قتل نہ ہوں یا توبہ رجوع تجدید نہ کریں تب تک تمام کو اسلامی و سرکاری عہدوں سے ہٹانا لازم، ان سے ہر طرح کا بائیکاٹ لازم.........!!
.
القرآن:
قُلۡ اَ بِاللّٰہِ وَ اٰیٰتِہٖ وَ رَسُوۡلِہٖ  کُنۡتُمۡ  تَسۡتَہۡزِءُوۡنَ....لَا تَعۡتَذِرُوۡا قَدۡ کَفَرۡتُمۡ
اے محبوب فرما دیجئے کہ کیا اللہ اور اس کی آیتوں کے ساتھ اور اس کے رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرتے ہو گستاخیاں کرتے ہو بہانے نہ بناؤ تم کافر ہو چکے
(سورہ توبہ آیت55,56)
.

يعني الاستهزاء بالله كفر
یعنی 
اللہ عزوجل کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرنا گستاخی کرنا کفر ہے 
(تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل2/380)
.
ان الاستهزاء بالله وبرسوله وبالآيات القرآنية كفر والاستهزاء استحقار الغير بذكر عيوبه على وجه يضحك قولا او فعلا وقد يكون الاستهزاء بالاشارة والايمان وبالضحك على كلامه إذا تخبط فيه او غلط او على صنعته ونحو ذلك
یعنی
بے شک اللہ کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرنا گستاخی کرنا توہین کرنا اور اس کے رسولوں علیھم السلام کے ساتھ اور قرآنی آیات کے ساتھ مذاق کرنا توہین کرنا کفر ہے۔۔۔۔توہین ٹھٹھہ مذاق گستاخی سے مراد یہ ہے کہ عیب لگانا اس طرح پر کہ اس پر ہنسے یا ہنسائے گستاخانہ اشارے کرے
(تفسیر روح البيان3/460)
.
فإن الاستهزاء بالله وآياته ورسوله كفر مخرج عن الدين
اللہ عزوجل اور اس کی آیتوں اور اس کے رسولوں کے ساتھ ٹھٹھا مذاق کرنا توہین و گستاخی کرنا کفر ہے جو انسان کو دین اسلام سے نکال دیتا ہے 
(تفسير السعدي,page 342]
.

الحدیث:
مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ
ترجمہ:
(اس ضدی فسادی گستاخ)کعب بن اشرف کو کوئی قتل کرے کہ بے شک اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے توہین و گستاخی کی ہے 
(صحيح البخاري ,5/90حدیث4037)
.========================
اللہ کریم کے احکام و صفات ہر معاملہ حکمت سے خالی نہیں چاہے وہ حکمت و راز ہم پر عیاں ہو نہ ہو…اللہ کی ذات پر یا اس کی صفات پر یا اس کے احکام پر اعتراض کرنا عیب و نقص لگانا کفر و زندیقیت جہالت و فسادِ معاشرہ ہے
.
القرآن:
لَا  یُسۡئَلُ  عَمَّا  یَفۡعَلُ  وَ  ہُمۡ  یُسۡـَٔلُوۡنَ
اللہ عزوجل جو چاہے کرے اس سے سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ مخلوق سے سوال کیا جائے گا 
(سورہ الانبیاء آیت23)
.
القرآن:
سُبۡحٰنَ  اللّٰہِ عَمَّا یَصِفُوۡنَ
اللہ کے متعلق جو وہ(نامناسب)کہتے ہیں اللہ ان سب(عیوب و نقائص، نامناسبات)سے پاک ہے
(سورہ مومنون ایت91)
.
وأجمعوا على أنه ليس لأحد من الخلق الاعتراض على الله تعالى في شيء من تدبيره، ولا إنكار لشيء من فعله إذْ كان مالكاً1 لما يشاء منها غير مملوك وأنه تعالى حكيم قبل أن (يفعل) 22 سائر الأفعال، وأن جميع ما يفعله لا يخرجه عن الحكمة، وأن من يعترض عليه في أفعاله متبع لرأي الشيطان
یعنی
تمام اہل اسلام کا ،فقہاء و علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کسی مخلوق کو یہ حق نہیں کہ اللہ عزوجل کی تدابیر اور اس کے کاموں پر اعتراض کرے، اللہ تعالی مالک ہے جو چاہے کرے، حکمت والاہے جو چاہے کرے ، اس کے تمام افعال حکمت سے خالی نہیں ہیں اور جو اللہ کی کاموں پر اعتراض کرے تو وہ شیطان کا پیروکار ہے 
(رسالة إلى أهل الثغر بباب الأبواب امام اشعری ص154)
.
.
الاعتراض على الله لم قدر كذا؟ ولم فعل كذا؟ ولم أمر بكذا؟ ولم ينهى عن كذا؟ وهذا مناف للعبودية القائمة على التسليم والاستسلام لله وحده
اللہ عزوجل پر اعتراض کرنا اسکی تقدیر پر اعتراض کرنا اور توہین و اعتراض کے طور پر کہنا کہ اللہ نے ایسا کیوں کیا یا ایسا کیوں حکم دیا یا فلاں کام سے کیوں منع کیا تو یہ چیزیں ایمان کے منافی ہیں 
(أصول الدين عند الإمام أبي حنيفة1/519)
.
وَيَكْفُرُ بِقَوْلِهِ يَجُوزُ أَنْ يَفْعَلَ فِعْلًا لَا حِكْمَةَ فِيهِ
جس نے یہ کہا کہ جائز ہے کہ اللہ ایسا کام کرے جس میں کوئی حکمت نہ ہو تو اس کا یہ قول کفریہ ہے 
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/690)
.
وقد اتفقت كلمة اهل الحق على ان الاعتراض على الله الملك الحق فى فعله وما يحدثه فى خلقه كفر فلا يجترئ عليه الا كافر وجاهل
تمام اہل حق کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ مالک پر اعتراض کرنا ،اس کے کاموں پر اعتراض کرنا کفر ہے اور یہ جرات جاھل اور کافر کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا 
(تفسیر روح البيان5/465)
.

وبهذا الاعتراض كفر
اور اللہ عزوجل پر اعتراض کرنا کفر ہے 
(معترك الأقران في إعجاز القرآن للسیوطی2/546)
.
أنه من تمام كلامهم على وجه الاعتراض على الله
سبحانه، وذلك كفر
اور کلام کو اس طریقہ پر لانا کے اللہ تعالی پر اعتراض ہو تو یہ کفر ہے 
(غرائب التفسير وعجائب التأويل1/234)
.
الِاعْتِرَاضَ عَلَى اللَّهِ فَمُرْتَدٌّ بِدُونِ خِلَافٍ
اللہ سبحان و تعالی پر اعتراض کرنے والا کافر و مرتد ہے اس میں کسی کا اختلاف نہیں 
(حاشية الصاوي على الشرح الصغير4/445)
.
اللہ نے عورت کو نبی کیوں نہ بنایا یہ سوال کرنا اعتراض کرنا ناحق ہے،اللہ کے ہر کام میں بےشمار حکمتیں ہیں ، اللہ سے سوال نہیں کیا جاسکتا البتہ اللہ کی حکمتیں تلاش کی جاسکتی ہیں اگر کوئی بھی حکمت ہمیں سمجھ نہ آئے تو ہماری سمجھ کا قصور ہے کیونکہ اللہ کریم حکیم رب روف رحیم کا ہر کام حکمت سے سرشار ہے، علماء نے عورت کے نبی نہ ہونے کی اپنی سمجھ مطابق کچھ حکمتیں بتائی ہیں
مثلا
الحكمة من كون الرسل رجالاً :
كان الرسل من الرجال دون النساء لحكَم يقتضيها المقام ، فمن ذلك :
1. أنّ الرسالة تقتضي الاشتهار بالدعوة ، ومخاطبة الرجال والنساء ، ومقابلة الناس في السرّ والعلانية ، والتنقل في فجاج الأرض ، ومواجهة المكذبين ومحاججتهم ومخاصمتهم ، وإعداد الجيوش وقيادتها ، والاصطلاء بنارها ، وكل هذا يناسب الرجال دون النساء .
2. الرسالة تقتضي قوامة الرسول على من يتابعه ، فهو في أتباعه الآمر الناهي ، وهو فيهم الحاكم والقاضي ، ولو كانت الموكلة بذلك امرأة : لَمْ يتم ذلك لها على الوجه الأكمل ، ولاستنكف أقوام من الاتباع والطاعة .
3. الذكورة أكمل ، ولذلك جعل الله القوامة للرجال على النساء ( الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاءِ ) النساء/ 34 ، وأخبر الرسول صلى الله عليه وسلم أنّ النساء ( ناقصات عقل ودين ) .
4. المرأة يطرأ عليها ما يعطلها عن كثير من الوظائف والمهمات ، كالحيض والحمل والولادة والنفاس ، وتصاحب ذلك اضطرابات نفسية وآلام وأوجاع ، عدا ما يتطلبه الوليد من عناية ، وكل ذلك مانع من القيام بأعباء الرسالة وتكاليفها"
خلاصہ
اللہ عزوجل نے مردوں کو نبی بنایا ہے عورتوں کو نبوت عطا نہیں کی اس کی کی حکمتیں ہیں مثلا
نبی پاک کو دعوت و تبلیغ کے لیے مردوں کے ساتھ اختلاط کرنا پڑتا ہے جانا پڑتا ہے باہر نکلنا پڑتا ہے ان کے اعتراضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کو جواب دینا پڑتا ہے سمجھانا پڑتا ہے بڑی عقل کی بات کرنی پڑتی ہے، تبلیغ و جہاد کی تدابیر کرنی پڑتی ہیں لشکر تیار کرنا پڑتا ہے حکمت و اچھی سیاست شرعیہ سے کام لینا پڑتا ہے اور یہ تمام چیزیں مرد میں زیادہ ہیں اور عورت میں بہت ہی کم 
کیونکہ
عورت فطرتا قدرتا خلقتا ناقص العقل ہے، ناقص دین ہے،تابع ہے،زیادہ ہوشیار و بہادر نہیں وہ منصب رسالت کے لائق نہیں
( الرسل والرسالات  ص 84 ، 85 )
.====================
کہنا کہ اللہ کی ماں نہیں اسے ماں کی ممتا کا پتہ نہیں کفر و گستاخی ہے…ستر نہیں بلکہ لاکھوں اربوں ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اللہ جل جلالہ
الحدیث:
جعل الله الرحمة مائة جزء، فامسك عنده تسعة وتسعين جزءا وانزل في الارض جزءا واحدا، فمن ذلك الجزء يتراحم الخلق
ترجمہ:
اللہ سبحانہ و تعالی نے رحمت کے100حصے کیے ننانوے حصے اپنے پاس رکھے اور ایک حصہ زمین میں تمام مخلوق میں بانٹ دیا اور اس ایک حصے کی بدولت مخلوق آپس میں رحم کرتے ہیں
(بخاری حدیث6000)
.
لله ارحم بعباده من هذه بولدها
اللہ اپنے بندوں پر اس (انتہائی رحم دل )ماں سے بھی زیادہ محبت کرنے والا ہے 
(بخاری حدیث5999)
.

.====================
اس قسم کی بکواس سننے کو ملی کہ اچھا ہے میں خدا نہیں ہوں..اللہ سے خود کو اچھا سمجھنا کفر ہے،اللہ پر اپنی بڑائی سمجھنا ظاہر کرنا کفر ہے
القرآن:
ہُوَ اللّٰہُ  الَّذِیۡ  لَاۤ  اِلٰہَ  اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ  الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ  الۡجَبَّارُ  الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا  یُشۡرِکُوۡنَ
ترجمہ:
وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہی بادشاہ ہے، وہی نہایت پاک ہے، وہی سلامتی دینے والا  امان بخشنے والا حفاظت فرمانے والا،  عزت والا ، عظمت والا ، تکبر(بڑائی) والا ہے.. اللہ پاک و بے عیب ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں
(سورہ حشر آیت23)
.

وكذلك البغض لله والاستكبار عليه كفر وكذلك التكذيب بالله وبرسله بالقلب واللسان وكذلك الجحود لهم والإنكار لهم ونفيهم وكذلك الاستخفاف بالله وبرسله كفر
ترجمہ:
اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالی سے بغض و عداوت رکھنا کفر ہے اور اللہ پر تکبر، اللہ سے خود کو اچھا سمجھنا کفر ہے،اسی طرح اللہ کو جھٹلانا، اس کے رسولوں کو جھٹلانا زبان سے یا دل سے یہ بھی کفر ہے اسی طرح اللہ عزوجل  کی توہین و گستاخی کرنا اس کے رسولوں کی توہین و گستاخی کرنا کفر ہے 
(مقالات الإسلاميين امام اشعری ص142)

.
فالتكبُّر على الله كفرٌ، وهو أن لا يطيعه ولا يقبلَ أمره، فمَن ترك أمرًا من أوامره أو أتى منهيًا من مناهيه على اعتقادِ الاستخفاف بالله تعالى وجحودِ أمره فهو كافرٌ،
اللہ پر تکبر کرنا ، اللہ سے خود کو اچھا سمجھنا کہنا کفر ہے اللہ تعالی کے کسی حکم کی نافرمانی کرنا یا اس کی ممنوع کردہ چیزوں سے نہ بچنا اگر اللہ کی توہین و گستاخی کرتے ہوئے ایسا کیا جائے تو یہ کفر ہے 
(المفاتيح في شرح المصابيح1/111)
.
====================
اللہ کی توہین وگستاخی کرنا کمتر کہنا بدنصیب کہنا، نقص و عیب لگانا کفر وزندیقت ہے
.
القرآن:
وَ لِلّٰہِ الۡمَثَلُ الۡاَعۡلٰی
اللہ تبارک و تعالیٰ کی عظیم شان ہے کہ اسکی ہر صفت کمال و اعلی ہے، بےعیب ہے، نقص سے پاک ہے
(سورہ نحل ایت60)
.
القرآن:
سُبۡحٰنَہٗ وَ تَعٰلٰی عَمَّا یَصِفُوۡنَ
اللہ سبحانہ تعالیٰ بے عیب ہے نقص سے پاک ہے…ان سب سے پاک ہے جو وہ اللہ کے لیے(اپنی طرف سے نامناسب)کہتے ہیں
(سورہ انعام آیت100)
.
.عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ {وَلَهُ الْمَثَلُ الْأَعْلَى} أَيِ: الصِّفَةُ العليا
سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ اس ایت کا معنی ہے کہ اللہ کی ہر صفت اعلی ہے(بے عیب ہے،نقص سے پاک ہے)
(تفسير البغوي - طيبة ,6/268)
.
النَّقْصُ إِنَّمَا يُنْسَبُ إِلَيْهِمْ، {وَلِلَّهِ الْمَثَلُ الأعْلَى} أَيِ: الْكَمَالُ الْمُطْلَقُ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ، وَهُوَ مَنْسُوبٌ إِلَيْهِ،
نقص و عیب تو ان لوگوں کے لیے ہے، اللہ کے لیے تو ہر طرح سےکمال مطلق صفت ہے،ایسی صفت ہی اللہ کی طرف منسوب ہوگی
(تفسير ابن كثير ت سلامة ,4/578)
.
أن الاستخفاف بنحو أمره تعالى أو تصغير اسمه كفر
اللہ تعالی کے کسی نام کی تصغیر کرنا اور اسی طرح اللہ تعالی کے معاملات پر اعتراض توہین گستاخی کرنا کفر ہے 
(الإعلام بقواطع الإسلام ص122)
.
كافر يعتقد بطلان دين الإِسلام
دین اسلام کو باطل سمجھنا کفر ہے 
(الكوكب الوهاج شرح صحيح مسلم ,2/500)
.
الْأَوَّلُ فِيمَا يَتَعَلَّقُ بِاَللَّهِ تَعَالَى) إذَا وَصَفَ اللَّهَ تَعَالَى بِمَا لَا يَلِيقُ بِهِ أَوْ سَخِرَ بِاسْمٍ مِنْ أَسْمَائِهِ أَوْ بِأَمْرٍ مِنْ أَوَامِرِهِ أَوْ أَنْكَرَ صِفَةً مِنْ صِفَاتِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ أَنْكَرَ وَعْدَهُ أَوْ وَعِيدَهُ أَوْ جَعَلَ لَهُ شَرِيكًا أَوْ وَلَدًا أَوْ زَوْجَةً أَوْ نَسَبَهُ إلَى الْجَهْلِ أَوْ الْعَجْزِ أَوْ النَّقْصِ أَوْ أَطْلَقَ عَلَى الْمَخْلُوقِ مِنْ الْأَسْمَاءِ الْمُخْتَصَّةِ بِالْخَالِقِ نَحْوَ الْقُدُّوسِ وَالْقَيُّومِ وَالرَّحْمَنِ وَغَيْرِهَا يَكْفُرُ وَيَكْفُرُ بِقَوْلِهِ لَوْ أَمَرَنِي اللَّهُ تَعَالَى بِكَذَا لَمْ أَفْعَلْ
کفریہ قول اور فعل بہت ساری قسم کے ہیں پہلی قسم وہ ہے جو اللہ تعالی کے متعلق ہے مثلا اللہ تعالی کو ایسی چیز کے ساتھ صفت بیان کی کہ جو اس کے لائق نہیں یا اللہ تعالی کی کسی نام کی توہین و گستاخی کی یا اللہ تعالی کے کسی حکم کی توہین و گستاخی کی یا اللہ تعالی کی وعدوں کا انکار کیا یا اللہ تعالی کی وعیدوں کا انکار کیا یا اللہ تعالی کا کوئی شریک جانا یا اللہ تعالی کے لیے کوئی بیٹا یا بیوی کا کہا یا اللہ تعالی کیطرف نسبت کی کہ اسے معلوم نہیں یا کہا کہ اللہ عاجز ہے یا اللہ کی طرف نقص منسوب کیا یا اللہ کے مخصوص نام کسی مخلوق پر ثابت کئے یا یہ کہا کہ اللہ مجھے فلاں کام کا حکم دیتا تو میں نہ کرتا تو مذکورہ ساری باتیں کفر ہیں 
(مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحر ,1/690)

.===================
اللہ کی توہین و گستاخی کفر و زندیقیت ہے دلائل اوپر گذر چکے....اب کچھ دلائل و حوالہ جات پیش ہیں کہ اللہ پر اعتراض توہین و گستاخی کرنے والے کو بہتر ہے کہ سمجھایا جاءے سمجھ جائے توبہ رجوع تجدید کرلے تو قتل نہ کیا جائے گا اگر ڈٹا رہے تو قتل کیا جائے اور اگر سمجھائے بغیر قتل کر دیا گیا تو بھی جائز ہے کیونکہ سمجھانا مستحب ہے
.
الحدیث:
كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ أَسْلَمَ، ثُمَّ ارْتَدَّ وَلَحِقَ بِالشِّرْكِ، ثُمَّ تَنَدَّمَ فَأَرْسَلَ إِلَى قَوْمِهِ : سَلُوا لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؛ هَلْ لِي مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَجَاءَ قَوْمُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا : إِنَّ فُلَانًا قَدْ نَدِمَ، وَإِنَّهُ أَمَرَنَا أَنْ نَسْأَلَكَ هَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَةٍ ؟ فَنَزَلَتْ : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ }، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ فَأَسْلَمَ
ترجمہ:
ایک انصاری مسلمان ہوا پھر مرتد ہوگیا اور مشرکوں کے ساتھ جا ملا پھر وہ نادم ہوا تو اس نے اپنی قوم کی طرف پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرو کہ کیا میری توبہ قبول ہے تو اسکی قوم رسول کریم کی طرف آئی اور عرض کیا کہ فلاں مرتد ہو چکا ہے اور اس نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم آپ سے پوچھیں کہ کیا میری کوئی توبہ قبول  ہے تو یہ آیت نازل ہوئی { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ }إِلَى قَوْلِهِ : { غَفُورٌ رَحِيمٌ } تو قوم نے یہ پیغام اس کی طرف بھیجا اور وہ مرتد مسلمان ہو گیا(اور اس کی توبہ قبول ہوگئ)
(نسائی حدیث4068)
.
الحدیث:
أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ ارْتَدَّ عَنِ الْإِسْلَامِ، وَلَحِقَ بِالْمُشْرِكِينَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى : { كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَبَعَثَ بِهَا قَوْمُهُ، فَرَجَعَ تَائِبًا، فَقَبِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَلِكَ مِنْهُ
ترجمہ:
بے شک ایک انصاری مرتد ہوگیا اور مشرکوں سے جا ملا تو یہ آیت نازل ہوئی{ كَيْفَ يَهْدِي اللَّهُ قَوْمًا كَفَرُوا بَعْدَ إِيمَانِهِمْ } إِلَى آخِرِ الْآيَةِ،تو قوم نے یہ آیت اس کی طرف بھیجی اور وہ واپس توبہ کرتے ہوئے مسلمان ہو گیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی توبہ قبول فرما لی 
(مسند احمد حدیث2218)
.
وَإِنِّي مَرَرْتُ بِمَسْجِدٍ لِبَنِي حَنِيفَةَ، فَإِذَا هُمْ يُؤْمِنُونَ بِمُسَيْلِمَةَ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ عَبْدُ اللَّهِ ، فَجِيءَ بِهِمْ، فَاسْتَتَابَهُمْ
ترجمہ:
راوی کہتا ہے کہ میں مسجد بنی حنیفہ کے پاس سے گزرا تو وہ لوگ مسیلمہ کذاب پر ایمان لاتے تھے تو سیدنا عبداللہ نے ان مرتدین کی طرف بھیجا اور مرتدین کو لایا گیا تو سیدنا عبداللہ نے ان سے توبہ کرائی
(ابوداود روایت2762)
.
مذکورہ حدیث و روایات میں توبہ کرانے اور توبہ قبول کرنے کی بات اگرچہ مرتد کے متعلق ہے مگر علماء نے استدلال کرتے ہوءے عام گستاخ رسول کو مرتد کے زمرے میں رکھا ہے
وأما من قال بقبول توبته فظاهر كلامهم أنهم يقولون باستتابته كما يستتاب المرتد،..فذهب الجمهور من أهل العلم إلى أن المرتد يستتاب، وحكى ابن القصار أنه إجماع من الصحابة على تصويب قول عمر في الاستتابة، ولم ينكره أحد منهم، وهو قول عثمان وعلي وابن مسعود، وبه قال عطاء بن أبي رباح والنخعي والثوري ومالك وأصحابه، والأوزاعي والشافعي وأحمد وإسحاق وأصحاب الرأي
ترجمہ:
جو(صحابہ تابعین فقہاء)اس چیز کے قائل ہیں کہ گستاخ کی توبہ قبول ہے تو ان کے کلام کا ظاہر یہ ہے کہ گستاخ سے توبہ کرائی جائے گی جیسے کہ مرتد سے توبہ کرائی جاتی ہے.....تو جمہور اور اکثریت اہل علم کی اس طرف گئی ہے کہ مرتد سے توبہ کرائی جائے گی۔۔ابن القصار نے فرمایا کہ اس بات پر اجماع صحابہ ہو چکا ہے کہ سیدنا عمر نے مرتد سے توبہ کرائی اور صحابہ نے آپ کو صحیح قرار دیا اور کسی نے بھی اختلاف نہ کیا تو یہ اجماع صحابہ ہو گیا اور یہی قول ہےسیدنا عثمان  کا, یہی قول ہےسیدنا علی کا , یہی قول ہے سیدنا ابن مسعود کا اور ایسا ہی کہا ہے سیدنا عطاء بن أبي رباح نے اور سیدنا النخعي و الثوري نے اور امام مالك وأصحابه نے، اور امام الأوزاعي و الشافعي نے،  اور امام أحمد و إسحاق اور أصحاب الرأي(یعنی یہی کہا ہے احناف نے)
رضی اللہ تعالیٰ عنھم و رحمۃ اللہ تعالیٰ علیھم اجمعین
[السيف المسلول ,page 215بحذف یسیر]
.
لَا خِلَافَ أَنَّ سَابَّ اللَّهِ تَعَالَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَافِرٌ حَلَّالُ الدَّمِ
ترجمہ
اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کہ جو اللہ تعالی کی گستاخی کرے توہین کرے وہ کافر ہے مرتد ہے اس کا خون کرنا حلال ہے 
(الشفا بتعريف حقوق المصطفى2/582)
.
أَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ عَلَى أَنَّ الاِسْتِخْفَافَ بِاَللَّهِ تَعَالَى بِالْقَوْل، أَوِ الْفِعْل، أَوْ الاِعْتِقَادِ حَرَامٌ، فَاعِلُهُ مُرْتَدٌّ عَنِ الإِْسْلاَمِ تَجْرِي عَلَيْهِ أَحْكَامُ الْمُرْتَدِّينَ، سَوَاءٌ أَكَانَ مَازِحًا أَمْ جَادًّا
تمام فقہاء کا اس بات پر اجماع ہے کہ اللہ تعالی کی توہین و گستاخی کرنا قول کے ذریعے یا کسی فعل کے ذریعے یا کسی اعتقاد و نظریے کے ذریعہ کفر و ارتداد ہے اس پر مرتدین کے احکام جاری ہونگے اگرچہ توہین و گستاخی مذاقا ہی کیوں نہ کی ہو
(الموسوعة الفقهية الكويتية3/249)
.
قلت: أرأيت الرجل المسلم إذا ارتد عن الإسلام كيف الحكم فيه؟ قال: يعرض عليه الإسلام، فإن أسلم وإلا قتل
ترجمہ:
امام محمد نےامام ابو حنیفہ علیھما الرحمۃ سے پوچھا کہ ایک شخص مرتد ہوگیا تو اس کا کیا حکم ہے تو امام ابو حنیفہ نے فرمایا کہ اس پر اسلام پیش کیا جائے گا(اسکے اعتراضات و خدشات کا رد کیا جاءے گا سمجھایا جائے گا)اگر اسلام کو قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کر دیا جائے گا 
[الأصل للشيباني ط قطر ,7/492]
.
امام اہلسنت مجدد دین و ملت سیدی احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
 مرتد اگر توبہ کرے تقبل ولا یقتل(قبول کریں گے اور قتل نہ کریں گے)
(فتاوی رضویہ15/152)
.
وَلَوْ سَبَّ اللَّهَ تَعَالَى قُبِلَتْ
اگر اللہ کی توہین کرے مگر توبہ کرے تو توبہ قبول کی جائے گی
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) ,4/232)
.
قَوْلُهُ بِعَرْضِ الْإِسْلَامِ عَلَى الْمُرْتَدِّ) أَيْ يَعْرِضُهُ الْإِمَامُ وَالْقَاضِي وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - لِأَنَّ رَجَاءَ الْعَوْدِ إلَى الْإِسْلَامِ ثَابِتٌ لِاحْتِمَالِ أَنَّ الرِّدَّةَ كَانَتْ بِاعْتِرَاضِ شُبْهَةٍ لَمْ يُبَيِّنْ صِفَتَهُ وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ اسْتِحْبَابُهُ فَقَطْ وَلَا يَجِبُ لِأَنَّ الدَّعْوَةَ قَدْ بَلَغَتْهُ وَعَرْضُ الْإِسْلَامِ هُوَ الدَّعْوَةُ إلَيْهِ وَدَعْوَةُ مَنْ بَلَغَتْهُ الدَّعْوَى غَيْرُ وَاجِبَةٍ وَلَمْ يَذْكُرْ تَكْرَارَ الْعَرْضِ عَلَيْهِ وَفِي الْخَانِيَّةِ يُعْرَضُ عَلَيْهِ الْإِسْلَامُ فِي كُلِّ يَوْمٍ مِنْ أَيَّامِ التَّأْجِيلِ (قَوْلُهُ وَتُكْشَفُ شُبْهَتُهُ) بَيَانٌ لِفَائِدَةِ الْعَرْضِ أَيْ فَإِنْ كَانَ لَهُ شُبْهَةٌ أَبْدَاهَا كُشِفَتْ عَنْهُ لِأَنَّهُ عَسَاهُ اعْتَرَضَتْ لَهُ شُبْهَةٌ فَتُزَاحُ عَنْهُ (قَوْلُهُ وَيُحْبَسُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَإِنْ أَسْلَمَ وَإِلَّا قُتِلَ) لِأَنَّهَا مُدَّةٌ ضُرِبَتْ لِإِبْدَاءِ الْأَعْذَارِ وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - أَطْلَقَهُ فَأَفَادَ أَنَّهُ يُمْهَلُ وَإِنْ لَمْ يَطْلُبْهُ وَهُوَ رِوَايَةٌ وَظَاهِرُ الرِّوَايَةِ أَنَّهُ لَا يُمْهَلُ بِدُونِ اسْتِمْهَالٍ بَلْ يُقْتَلُ مِنْ سَاعَتِهِ كَمَا فِي الْجَامِعِ الصَّغِيرِ إلَّا إذَا كَانَ الْإِمَامُ يَرْجُو إسْلَامَهُ كَمَا فِي الْبَدَائِعِ
خلاصہ
بادشاہ وقت اور قاضی مرتد پر اسلام کو پیش کرے گا اس کے شبہات کا ازالہ کرے گا ہو سکتا ہے وہ شبھے کے زائل ہونے سے مسلمان ہوجائے ، یہ مستحب ہے تین دن تک ایسا معاملہ کیا جائے گا اور اسے قید میں رکھا جائے گا اور اس کے شبہات کا ازالہ کیا جائے گا اگر ایمان لے آئے توبہ رجوع تجدید ایمان و نکاح کرلے تو ٹھیک ورنہ اسے قتل کیا جائے گا۔۔۔ظاہر الروایہ یہ ہے کہ اگر اس نے مہلت مانگی تو مہلت دی جائے گی اگر اس نے مہلت نہیں مانگی تو فورا قتل کیا جائے گا ہاں اگر امام اور قاضی کو یہ لگے کے شاید وہ شبہات کے ازالے کے بعد مسلمان ہو جائے گا تو اس صورت میں اسے سمجھایا جائے گا  تین دن تک ، سمجھ جائے تو ٹھیک ورنہ قتل کیا جائے گا 
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق ,5/135)
.
زندیق کے متعلق کتب اسلاف بھری پڑی ہیں...چند حوالوں پے اکتفاء کرتا ہوں تاکہ تحریر زیادہ لمبی نہ ہو
.
أن محمد بن أبي بكر كتب إلى علي رضي الله عنه يسأله عن زنادقة مسلمين، قال علي رضي الله عنه: " أما الزنادقة فيعرضون على الإسلام، فإن أسلموا وإلا قتلوا
ترجمہ:
سیدنا محمد بن ابوبکر نے حضرت علی رضی اللہ عنھما کو خط لکھا اور زندیق کا حکم پوچھا تو سیدنا علی نے فرمایا
زندیقوں پر اسلام پیش کرو(ان کے اعتراضات خدشات کا جواب دو سمجھاو)اگر سچے مسلمان ہوجائں تو تھیک ورنہ قتل کر دیے جائیں
(السنن الکبری للبیھقی روایت16853)
.
فهو زنديق، ويستتاب فإن تاب وإلا قتل
ترجمہ:
وہ(بظاہر کلمہ گو مسلمان مگر حقیقتا شرعا)زندیق ہے اسے(سمجھا کر ، خدشات اعتراضات دور کرکے) توبہ کرنے کا کہا جائے گا، توبہ کرلے تو ٹھیک ورنہ قتل کیا جائے گا
(خلق افعال العباد بخاری1/30)
.
فهو زنديق كافر يستتاب، فإن تاب وإلا ضربت عنقه، ولا يصلى عليه، ولا يدفن في مقابر المسلمين
ترجمہ:
پس وہ زندیق کافر ہے اگر توبہ کرکے واپس مسلمان ہوجائے تو ٹھیک ورنہ قتل کیا جائے گا اسکا جنازہ نہ پڑھا جاءے گا اور مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دفنایا جائے گا
(مسند السراج جلد1 ص6)
.
الزنديق، وهو من يظهر الإسلام ويخفي الكفر، ويعلم ذلك بأن يقر أو يطلع منه على كفر
ترجمہ:
زندیق وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتا ہے مگر دل میں کفریہ عقیدہ رکھتا ہے...دل میں کفریہ عقیدہ ہے اسکا پتہ ایسے چلے گا کہ وہ کفریہ عقیدے کا اقرار کر لے یا اس پر کوئی اطلاع پاکر بتائے
(مرقاۃ شرح مشکاۃ1/81)
.=====================
کب عام آدمی بھی قتل کر سکتا ہے..........؟؟
جس طرح چور کو سزا قاضی دیگا مگر جسکا چور ہونا معروف ہو اور چوری کر رہا ہو تو اسے بلاحکم قاضی عام آدمی بھی قتل کرسکتا ہے اسی طرح بدرجہ اولی گستاخ جسکی گستاخی مشھور ہو فسادی ہو گستاخی الحاد فساد پھیلا رہا ہو تو اسے بلااجازت قاضی و عدلیہ کوئی بھی عام ادمی قتل کرسکتا ہے....مسلۂ
رأى رجلا يسرق ماله فصاح به أو ينقب حائطه أو حائط غيره وهو معروف بالسرقة فصاح به ولم يهرب حل قتله ولا قصاص عليه
ترجمہ:
(خلیفہ اعلی حضرت مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ اسکا تفسیری ترجمہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
مکان میں چور گھسا اور ابھی مال لے کر نکلا نہیں اس نے شور و غل کیا مگر وہ بھاگا نہیں یا اس کے مکان میں یا دوسرے کے مکان میں نقب لگا رہا ہے اور شور کرنے سے بھاگتا نہیں، اس کو قتل کرنا جائز ہے۔ بشرطیکہ چور ہونا اس کا مشہور ومعروف ہو۔
[النهر الفائق شرح كنز الدقائق ,3/165]
[(رد المحتار) ,6/546]
[بہارِ شریعت حصہ 17 صفحہ761]
.
بار بار گستاخی کرے یا فساد و الحاد پھیلائے یا مشھور و معروف گستاخ ہو تو اسے قتل کیا جاءے چاہے توبہ کرے یا نہ کرے...الحدیث:
مَنْ لِكَعْبِ بْنِ الأَشْرَفِ، فَإِنَّهُ قَدْ آذَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ
ترجمہ:
(اس ضدی فسادی گستاخ)کعب بن اشرف کو کوئی قتل کرے کہ بے شک اس نے اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دی ہے توہین و گستاخی کی ہے 
(صحيح البخاري ,5/90حدیث4037)
.
وَلِهَذَا أَفْتَى أَكْثَرُهُمْ بِقَتْلِ مَنْ أَكْثَرَ مِنْ سَبِّ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ وَإِنْ أَسْلَمَ بَعْدَ أَخْذِهِ...فَقَدْ أَفَادَ أَنَّهُ يَجُوزُ عِنْدَنَا قَتْلُهُ إذَا تَكَرَّرَ مِنْهُ ذَلِكَ وَأَظْهَرَه..قَوْلُهُ وَبِهِ أَفْتَى شَيْخُنَا) أَيْ بِالْقَتْلِ لَكِنْ تَعْزِيرًا كَمَا قَدَّمْنَاهُ عَنْهُ وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا ظَهَرَ أَنَّهُ مُعْتَادُهُ كَمَا قَيَّدَهُ بِهِ فِي الْمَعْرُوضَاتِ أَوْ بِمَا إذَا أَعْلَنَ بِهِ...بَلْ أَفْتَى بِهِ أَكْثَرُ الْحَنَفِيَّةِ إذَا أَكْثَرَ السَّبَّ...جَوَازِ قَتْلِ الْمَرْأَةِ إذَا أَعْلَنَتْ بِالشَّتْمِ فَهُوَ مَخْصُوصٌ مِنْ عُمُومِ النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ...فَيَدُلُّ عَلَى جَوَازِ قَتْلِ الذِّمِّيِّ الْمَنْهِيّ عَنْ قَتْلِهِ بِعَقْدِ الذِّمَّةِ، إذَا أَعْلَنَ بِالشَّتْمِ أَيْضًا
ترجمہ ملخصا:
اسی وجہ سے اکثر فقہاء احناف نے فتوی دیا ہے کہ جو بار بار نبی پاک کی گستاخی کرے اسے قتل کیا جائے گا چاہے وہ بظاہر مسلمان ہو یا ذمی کافر اگرچہ مسلمان ہوجائے (حربی گستاخ کافر تو بدرجہ اولیٰ قتل کیا جائے گا)
اس عبارت سے یہ فائدہ نکلتا ہے کہ ہم احناف کے نزدیک جب گستاخی بار بار ہو تو اس کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔اور مصنف نے جو کہا ہے کہ اسی پر ہمارے استاد نے فتوی دیا ہے تو یہ فتوی تعزیرا قتل کرنا جائز ہے اور یہ قتل کرنا اس وقت جائز ہے جب وہ عادی گستاخ ہو یا بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائےتو ایسے گستاخ کو قتل کرنا جائز ہے۔۔۔یہ تو ایک امام کا نہیں بلکہ اکثر احناف کا فتویٰ ہے۔۔۔اسی طرح عورت اگر بار بار گستاخی کرے یا سرعام گستاخی کرکے فساد پھیلائے تو اسے قتل کرنا جائز ہے اسی طرح ذمی کافر کا بھی حکم یہی ہے  
[(رد المحتار)216 ,4/215ملتقطا]
.
فإن ساب  الله أيضا يقتل ولا تسقط التوبة القتل عنه وإنما هو من باب الاستخفاف بالله والاستهانة ومثل هذا لا يسقط القتل عنه
یعنی
جو اللہ کریم کی توہین و گستاخی کرے اسے قتل کیا جائے گا اگر وہ توبہ کرلے تو توبہ کرنے سے قتل کی سزا معاف نہیں ہوگی کیونکہ اس نے اللہ کی گستاخی کی ہے 
(الصارم المسلول على شاتم الرسول ص494)
.======================
ایک شاعر ادیب تھا مگر جری گستاخ تھا،فقہاء نے فتوی دیا،اسے قتل کیا گیا پھر اسکی لاش چوراہے پے الٹی لٹکائی گئ پھر اسے جلا دیا گیا، اسی میں مفید حکمت تھی،تاکہ دوسروں کے لیے عبرت کا نشان ہو لیکن اگر حکمت و مفید یہ ہو کہ اسے سمجھا کر مسلمان کیا جائے تو اس پر عمل کیا جائے گا، ہر حال میں قتل ضروری نہیں لیکن کوئی قتل کردے تو بھی جائز ہے
.
(بقتل إبراهيم الفزاريّ) بفتح الفاء والزاء (وكان شاعرا متفنّنا) أي ماهرا (في كثير من العلوم) أدبية وعقلية....فرفعت) أي أثبتت (عليه أمور منكرة من هذا الباب) أي باب الاستخفاف بعلي الجناب (في الاستهزاء بالله) أي بكتابه وانبائه (وأنبيائه) في مقام إيحائه (ونبيّنا صلى الله تعالى عليه وسلم) من عظمائه (فأحضر له) أي لأجل إبراهيم الفزاري (القاضي) وهو أبو العباس المذكور (يحيى ابن عمر وغيره) بالنصب على المفعولية (من الفقهاء وأمر) أي أبو العباس (بقتله وصلبه فطعن)  بصيغة المجهول أي فضرب في بطنه (بالسّكّين) حتى هلك (وصلب منكّسا) رأسه لأسفل مدة (ثمّ أنزل) من صلبه (وأحرق بالنّار) في الدنيا قبل عذاب العقبى لزيادة السياسة،
خلاصہ:
ابراہیم فرازی شاعر تھا ماہر تھا ادیب تھا عقلی علوم میں ماہر تھا اس کے کئی معاملات قاضی کی طرف اٹھائے گئے کہ جو اللہ تعالی کی توہین و گستاخی پر مبنی تھے انبیائے کرام کی توہین و گستاخی پر مبنی تھے قاضی نے فقہائے کرام سے فتوی لیا علمائے کرام نے فتوی دیا تو اسے قتل کیا گیا اور پھر اس کی لاش کو الٹا لٹکایا گیا اور پھر اس کی لاش کو جلا دیا گیا 
(شرح الشفا للقاری 2/397)
.
ارےملاں تمھارا کیا وہ جانے اسکا خدا جانے
جواب:تنہائی میں بیٹھ کر بکواس کرتا تو وہ جانے اسکا خدا جانے مگر سرعام توہین کرنا اعتراض کرنا مسلمانوں کے دل دکھانا، زہر الحاد مغربیت فحاشی پھیلانا اور کہنا کہ میرا جانوں میرا خدا جانے عین مکاری کفر منافقت فساد ہے…سمجھانا ، ضدی فسادی کو ٹھکانے لگانا اسکا علاج ہے
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp nmbr
00923468392475
03468392475