یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع


دیوبندی منہاجی سیاستدان عوام وحیدالدین کےمرگ پے تعزیت و دکھ سے پہلے انکے نظریات کی ایک جھلک پڑھ لیں:
.
وحید الدین خان کے بہت سے عقائد ونظریات جمہور اہل سنت والجماعت کے خلاف ہیں، مثلاً: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس پر اگر کوئی شتم کرے تو مولانا کے نزدیک وہ قتل نہیں کیا جائے گا جب کہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک ایسا شخص واجب القتل ہے، تقلید سے راہِ فرار اختیار کرنا، فقہائے کرام پر بے جا تنقید وتعریض کرنا، قرآن کریم کی من پسند تشریحات کرنا اور جہاد والی آیات واحادیث کی غلط تاویلیں کرنا ان کا مشغلہ ہے، پوری امت مسلمہ کا یہ حتمی عقیدہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ اقدس ہراعتبار سے بلا کسی استثناء کے انسانیت کے لیے آخری نمونہ ہے جس سے صرف نظر قطعا روا نہیں ہے، نیز سیدنا حضرت عیسی علی نبینا علیہ الصلاة والسلام کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور قیامت کے قریب دنیا میں دوبارہ تشریف لانے کے متعلق قرآن کریم اور احادیث شریف میں واضح نصوص موجود ہیں، اسی طرح دجال اور یاجوج ماجوج کے متعلق بھی ایسی بے غبار تفصیلات موجود ہیں جن میں شبہ کرنے یا جن کو محض تمثیل قرار دینے کی گنجائش نہیں ہے۔ وحید الدین خان کا سیدنا حضرت عیسی علیہ السلام کے رفع ونزول کا انکار، علامات قیامت کے بارے میں بے بنیاد شکوک وشبہات کا اظہار کرنا بلاشبہ زیغ وضلال اور کھلی ہوئی گمراہی ہے، اس لیے وحید الدین خان کی کتابوں کو پڑھنے اور ان کے لٹریچوں کو پھیلانے سے احتراز ضروری ہے۔
.
وہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اسوة حسنہ ہے ، نہ کہ اسوة کاملہ ، ان کی ایک کتاب قیامت کا الآرام جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ عیسی (علیہ السلام) اور امام مہدی ایک شخص ہیں، ایسی بہت سی باتیں ہیں جو کہ خلاف عقیدہ اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہیں۔
.
قادیانیوں کو کافر نہ کہا:
یک سوال کے جواب میں آپ نے لکھا تھا کہ کسی ایسے شخص کو کافر نہیں کہیں گے جو قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی تاریخ میں جن لوگوں کو قادیانی یا احمدی کہا جاتا ہے اِن لوگوں کو کافر کس بنا پر کہا جاتا ہے، جبکہ وہ لوگ بھی قبلے کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے ہیں
.
وحید الدین اور گستاخ رشدی، گستاخ کی سزا موت کا انکار:
خود خان صاحب کے بقول سلمان رشدی کی کتاب کا اُنہوں نے مطالعہ کیا ہے اور اُس نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ازواجِ مطہرات اور قرآن مجید کے بارے میں اپنی کتاب میں انتہائی لغو، گھٹیا اور غلیظ باتیں لکھی ہیں اور اب اگر اِس پر مسلمان اپنے غم وغصے کا اظہار کریں تو خان صاحب لکھتے ہیں:
’’ اینٹی رشدی ایجی ٹیشن بلاشبہ لغویت کی حد تک غیراسلامی تھا۔‘‘(ایضاً: ص۶)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’ اب اگر مسلمان یہ کہتے ہیں کہ سلمان رشدی کی کتاب سے ہمارے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اور ہم تو اُس کو قتل کر کے رہیں گے ، تو میں کہوں گا کہ مسلمانوں کے جذبات کا مجروح ہونا اسلام کے قانونِ جرائم کی کوئی دفعہ نہیں ہے۔ مسلمان اگر اِس قسم کی کاروائی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اِس کو اپنی قومی سرکشی کے نام پر کر سکتے ہیں، مگر اسلام کے نام پر اُنہیں ایسا کرنے کا کوئی حق نہیں۔‘‘(ایضاً: ص۵۳)
خان صاحب توہین رسالت کے مسئلے پر مسلمانوں کے احتجاج یا غم وغصے کے اظہار کو الٹا ’توہینِ رسالت، گردانتے ہیں۔ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ ڈنمارک کے ایک مقامی اخبار میں چھپنے والے کارٹون کو مسلمانوں نے جس طرح توہین رسالت کا مسئلہ بنایا اور اس پر شدید ہنگامے کیے، اِس کا کوئی بھی تعلق، اسلام سے نہ تھا۔ مذکورہ کارٹون کی حیثیت تو صرف ایک صحافتی جوک(joke)کی تھی۔ اِس قسم کا جوک موجودہ صحافت میں عام ہے۔ لیکن مسلمانوں نے اس کے ردعمل میں جس طرح نفرت اور تشدد کا مظاہرہ کیا، وہ بلاشبہ توہین رسول کا ایک فعل تھا…
.
دجال کا انکار:
مہدی ومسیح کی طرح دجال کے بارے بھی خان صاحب کا نقطہ نظر بہت ہی عجیب ہے۔ اُن کے نزدیک دجال سے مرادایک ایسا دھوکے باز ہے جو ذہنی وفکری گمراہی پیدا کرے گا نہ کہ انوکھی صفات کا حامل شخص جو فتنہ وفساد برپا کرے گا۔ یہ واضح رہے کہ خان صاحب نے دجال کی شخصیت کا انکار نہیں کیا ہے بلکہ اُس کا ایسا معنی ومفہوم مراد لیا ہے کہ جس کے مطابق دجال کا مصداق وہ لوگ ٹھہرے جو خان صاحب کے نظریاتی مخالفین ہیں۔ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب خان صاحب خود مسیح موعود اور مہدی زمان ٹھہرے تو اِس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ اُن کے نظریاتی مخالفین دجال قرار پائیں۔ اور خان صاحب کے نظریاتی مخالفین اُن کے بقول دو قسم کے ہیں ایک سیکولر طبقہ اور دوسرا مذہبی ۔ سیکولر طبقے سے مراد مخالفینِ مذہب(Atheists)اور منکرینِ آخرت ہیں جبکہ مذہبی طبقہ سے مراد اسلام کے غلبے اور نفاذ شریعت کی بات کرنے والے لوگ ہیں۔ خان صاحب کے بقول اُنہوں نے دونوں قسم کے دجالوں کے نظریاتی فریب کا رد کیا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’دجال کا اصل کام یہی ہو گا کہ وہ اپنے زمانے کے مواقع(oppurtunities)کا منفی استعمال کر کے لوگوں کو مغالطے میں ڈالے اور اِس طرح لوگوں کی سوچ کو خدا کی طرف سے ہٹا کر غیر خدا کی طرف پھیر دے۔ دجالی کا یہ کام سیکولر میدان میں بھی ہو گا اور مذہبی میدان میں بھی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص ۲۶)
.
جدید وسائل کا منفی استعمال کرنے والے کا علامتی نام دجال ہے، اور جدید وسائل کا مثبت استعمال کرنے والے کا علامتی نام مہدی۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء، ص۱۲
.
قرب قیامت سیدنا عیسی علیہ السلام کی تشریف آوری کا انکار:
مسیح، امت مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے، نہ کہ جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہونے والی کسی پُراَسرار شخصیت کا نام۔ اُمتِ مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسیٰ بن مریم کے رول کے مشابہ ہو گا۔ اس لیے اس کو اُمتِ مسلمہ کا مسیح کہا گیا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ : مئی ۲۰۱۰ء، ص۵۰)
.
یاجوج ماجوج کا انکار:
مولانا وحید الدین خان صاحب نے ’یاجوج وماجوج‘(gog and magog) سے مراد سدِذی القرنین کے پیچھے مقید وحشی قبائل کی بجائے یورپی اور مغربی اقوام لی ہیں۔
.
دابۃ الارض کا انکار:
قیامت کی نشانیوں میں ہمیں ایک عجیب الخلقت جانور کا تذکرہ بھی ملتا ہے جو زمین سے نکلے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا۔مولانا وحید الدین خان صاحب اِس جانور کے بارے بھی یہ تاویل پیش کرتے ہیں کہ اِس سے مراد بھی اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک داعی اور مصلح فرد ہے
.
.
قیامت کی ایک اور نشانی کا انکار:
قیامت کی نشانیوں میں اِس کا تذکرہ بھی ملتا ہے کہ دریائے فرات سے سونے کا خزانہ برآمد ہو گا۔ خان صاحب اِس روایت کی تاویل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((یُوْشِکُ الْفُرَاتُ اَنْ یَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَھَبٍ))(صحیح مسلم، کتاب الفتن)یعنی وہ زمانہ آنے والا ہے، جب کہ دریائے فرات میں سونے کا ایک خزانہ نکلے۔ اِس حدیث میں جو پیشین گوئی کی گئی ہے، اِس سے واضح طور پر پٹرول مراد ہے، جس کو موجودہ زمانے میں سیال سونا(liquid gold)کہا جاتا ہے اورجو بہت بڑی مقدار میں شرق ِاوسط کے عرب علاقے میں ظاہر ہوا ہے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: مئی ۲۰۱۰ء،ص ۵۸)
خان صاحب نے یہاں بھی حسب عادت مکمل روایت نقل نہیں کی ہے اور صرف اتنا حصہ ہی نقل کرنے پر اکتفا کیا ہے کہ جس سے اُن کی تاویل پر کوئی اعتراض قاری کے
ذہن میں پیدانہ ہو۔ مکمل روایت کے الفاظ کچھ یوں ہیں:
((یُوْشِکُ الْفُرَاتُ اَنْ یَحْسِرَ عَنْ کَنْزٍ مِنْ ذَھَبٍ، فَمَنْ حَضَرَہٗ فَلَا یَاْخُذْ مِنْہُ شَیْئًا))(صحیح البخاری، کتاب الفتن، باب خروج النار)
’’ قریب ہے کہ فرات سے سونے کا ایک خزانہ بر آمد ہو اور جو شخص بھی اُس کے پاس موجود ہو وہ اُس میں سے کچھ نہ لے۔‘‘
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس ’سونے‘(gold)کے خزانے سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے۔ اگر تو اِس کی تاویل تیل یا پٹرول سے کی جائے تو یہ تو ضروریاتِ زندگی میں سے ہیں اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اِسے حاصل کرنے سے کیسے منع فرما سکتے ہیں؟ اگرتو’’ذَھَبٍ‘‘سے مراد تیل ہی ہے تو خان صاحب کوعرب مسلمان ممالک کی حکومتوں کو مشورہ دینا چاہیے کہ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق وہ اِس گولڈ کو ہاتھ بھی نہ لگائیں اور بہتر ہے کہ اہل مغرب کے لیے چھوڑ دیں۔ 
اِس روایت کے اُسلوب بیان ہی سے واضح ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس خزانے کے ظہور کو ایک فتنہ اور آزمائش قرار دیا ہے ،اور یہی وجہ ہے کہ آپ نے اِس میں سے کچھ لینے سے منع فرمایا ہے ۔اور اس کا فتنہ ہونا ’سونا‘(gold)مراد لینے کی صورت میں ہی بہتر طور پورا ہو سکتا ہے
(ماخوذ از ویب سائٹس+کتاب وحید الدین افکار و نظریات)