مخدومۂ کائنات کا تعارف اور سیرت کے حسین پہلو
مخدومۂ کائنات کا تعارف اور سیرت کے حسین پہلو
خاتونِ جنّت، اُمُّ الحَسَنیَن حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی عادات اپنے بابا جان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادات جیسی تھیں ۔ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرت، آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت جیسی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا کردار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتو ں کا آئینہ دار تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی گفتار رسو ل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی گفتار جیسی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نِشَسْت و بَرخاست یعنی اٹھنا بیٹھنا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جیسا تھا
حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمۃُ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا شَہَنْشاہِ کونَین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زِیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں ،(1) آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا نام ’’فاطِمہ‘‘ اور لقَب ’’زَہراء‘‘ اور ’’بَتُول‘‘ ہے۔ ا مام عبدُ الرَّحمن بن علی جَوزی عَلَــیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : اِعلانِ نُبُوَّت سے 5 سال قبْل حضرتِ سیِّدَتُنافاطِمۃُ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی پیدائش ہوئی۔ وَاللہُ تَعَالٰی اَعْلَم وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمعَزَّوَجَلَّ وَصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم (اَلْمَوَاہِبُ اللَّدُنِّیَّۃ مع شَرْحُ الزُّرْقَانِی، الفصل الثانی فی ذکر اولاد الکرام ج۴، ص۳۳۱)
اَلقابات
حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمۃُ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بے شمار القابات ہیں جیسے اُمُّ السّادات، مخدومۂ کائنات، دُخترِ مصطفٰے، بانوئے مرتضیٰ، سردارِ خواتینِ جہاں وجِناں ، حضرتِ سیِّدَہ، طیِّبہ، طاہِرہ، فاطمہ زہراء اور بتول، زاکِیہ، راضِیہ، مرضیہ، عابِدہ، زاہِدہ، محدِّثہ، مُبارَکہ، ذکِیَّہ، عذراء، سیِّدَۃُ النِّسَاء، خیرُالنِّسَاء، خاتونِ جنّت، مُعظَّمہ، اُمُّ الہاد، اُمُّ الحَسَنَین –
خاص کُنْیَت
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی ایک خاص کُنْیَت ’’اُمِّ اَبِیْہَا‘‘ بھی ہے۔(اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر،ذکر سن فاطمۃرضی اللہ تعالٰی عنہا، ج۹، ص۳۶۱، الحدیث:۱۸۴۱۸)
فضائل
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیُوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِرشاد ہے: ’’فاطِمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) تمام جہانوں کی عورتوں اورسب جنّتی عورتوں کی سردار ہیں ۔‘‘ مزید فرمایا: ’’فَاطِمَۃُ بِضْعَۃٌ مِّنِّیْ فَمَنْ اَغْضَبَھَا اَغْضَبَنِیْیعنی فاطِمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) میرا ٹکڑا ہے جس نے اِسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘ اور ایک رِوایت میں ہے، ’’یُرِیْبُنِیْ مَا اَرَابَھَا وَیُؤْذِیْنِیْ مَا اٰذَاھَا یعنی ان کی پریشانی میری پریشانی اور ان کی تکلیف میری تکلیف ہے۔‘‘
(مِشْکٰوۃُ الْمَصَابِیْح،کتاب المناقب،باب مناقب اھل بیت النبی ۔۔۔الخ، ج۲، ص۴۳۶، الحدیث :۶۱۳۹)
سیِّدَہ، زاہِرہ ، طیِّبہ ، طاہِرہ
جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ، صِدِّیقہ،طیِّبہ، طاہِرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں نے چال ڈھال، شکل و شباہَت(رنگ رُوپ) اور بات چیت میں فاطِمہ عفیفہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) سے بڑھ کر کسی کو حُضور نبیِّ اَکرَم (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) سے مُشابِہ نہیں دیکھا اور جب حضرتِ فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں حاضِرہوتیں تو حُضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے اِستِقْبال کے لئے کھڑے ہو جاتے، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے ہاتھ تھام کر اُن کو بوسہ دیتے اور اپنی جگہ پر بٹھاتے۔
رسولُ اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا!
کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نُبُوَّت(1) کا
خاتونِ جنّت، اُمُّ الحَسَنیَن حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃُ الزَّہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی عادات اپنے بابا جان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عادات جیسی تھیں ۔ خاتونِ جنّت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی سیرت، آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سیرت جیسی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا کردار، مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنّتو ں کا آئینہ دار تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی گفتار رسو ل اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی گفتار جیسی تھی۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نِشَسْت و بَرخاست یعنی اٹھنا بیٹھنا رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جیسا تھا۔
مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْمَنَّان ’’مِرْاٰت‘‘ میں فرماتے ہیں :
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے جسم سے جنّت کی خوشبو آتی تھی جسے حضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سونگھا کرتے تھے۔ اس لئے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا لقب زہرا ہوا۔ (مِرْاٰۃُ الْمَنَاجِیْح، ج۸، ص۴۵۳)
بتول و فاطِمہ زَہرا لقَب اس واسطے پایا
کہ دنیا میں رہیں اور دیں پتہ جنّت کی نِگْہَت کا
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا اِرشاد ہے: ’’فاطِمہ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا) تمام اہلِ جنّت یا مؤمنین کی عورتوں کی سردار ہے۔‘‘ مزید فرمایا: ’’فاطِمہ میرے بدن کا ایک ٹکڑا ہے جس نے فاطِمہ کو ناراض کیا اُس نے مجھے ناراض کیا۔‘‘
(مِشْکٰوۃُ الْمَصَابِیْح، کتاب المناقب، باب مناقب اہل بیت النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم، ج۲، ص۴۳۵۔۴۳۶، الحدیث:۶۱۳۸۔۶۱۳۹)
سیدہ زہرآء کی وفات و جنازہ
خاتونِ جنّت حضرتِ سیِّدَہ فاطِمۃُ الزّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا وصال 3 رمضان المبارک کو ہوا
حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی لاڈلی شہزادی، خاتونِ جنّت حضرتِ سیِّدَہ فاطِمۃُ الزّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے فرمایا: ’’اَنْتِ اَوَّلُ اَہْلِیْ لُحُوْقًا بِیْ یعنی میرے گھر والوں میں سب سے پہلے تم (وفات پا کر) مجھ سے ملو گی۔‘‘
(حِلْیَۃُ الْاولیاءِ وَطَبَقَاتُ الْاَصْفِیَائ، ذکر النساء الصحابیات، فاطمۃ بنت رسول اللہ، ج۲، ص۵۰، الحدیث:۱۴۴۳)
حضرتِ سیِّدُنا ابن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے منقول ہے کہ حضرتِ فاطِمۃ الزَّہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نمازِ جنازہ حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْـــہ نے پڑھائی۔ (کَنْزُ الْعُمَّال، کتاب الموت، باب فی اشیاء قبل الدفن، ج۸، الجزء الخامس عشر، ص۳۰۳، الحدیث:۴۲۸۵۶)
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الرّحِیمسے منقول ہے حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ بِنتِ رسولُ اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں کہیں ۔
(کَنْزُ الْعُمَّال، کتاب الموت، باب فی اشیاء قبل الدفن، ج۸، الجزء الخامس عشر، ص۲۹۹، الحدیث :۴۲۸۱۶)
مرتب: ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
16/4/2021
3رمضان المبارک 1442