خلیفہ مفتی اعظم فیض ملت مفسر قرآن مصنف اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی قدس سرہ العزیز
خلیفہ مفتی اعظم فیض ملت مفسر قرآن مصنف اعظم پاکستان علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی قدس سرہ العزیز
🌹#ولادت_باسعادت:
مفسرقرآن علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی بن نور احمد کی ولادت 1351ھ/1932ء کو قصبہ حامدآباد ضلع رحیم یار خان میں ہوئی
🌹#نام_و_نسب:
آپ کا نام فیض احمد ہے سلسلہ نسب حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تک منتہی ہوتاہے
🌹#تعلیم_وتربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی حاصل کی اس کے بعد جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان میں سے بعض کے اسماء درج ذیل ہیں
🌷#محدث_اعظم_پاکستان #مولانا_سردار_احمد_چشتی_نور_اللہ_مرقدہ
🌷#غزالی_زماں_امام #اہلسنت_حضرت_مولانا
#سید_احمد_سعید_کاظمی_قدس_سرہ
🌷#حضرت_مولانا_سراج
#احمد_مکھن_بیلوی_علیہ
#الرحمہ
🌷#حضرت_مولانا_حکیم_اللہ_بخش
🌷#حضرت_مولانا_عبد_الکری_فیضی
پاک و ہند کے جید اہل علم کے علاوہ عرب کے بھی کئی شیوخ سے سند حدیث کی اجازات حاصل کیں۔
دوران تعلیم آپ کا حافظہ بڑا قوی تھا، فارسی میں ترکیب پر بڑی مہارت رکھتے تھے فارسی اشعار اس طرح یاد تھے جیسے حافظ قرآن کو سورہ فاتحہ یاد ہوتی ہے۔
🌹#جامعہ_اویسیہ_رضویہ
#قیام:
فراغت کے بعد اپنے آبائی گاوں حامد آباد میں جامعہ اویسیہ رضویہ ۱۹۵۶ میں قیام فرمایا
🌹#درس_و_تدریس:
1959ء میں بہاولپور تشریف لے آئے جہاں جامعہ اویسیہ رضویہ قائم کیا اور آخر تک یہیں تدریس کرتے رہے ۔ آپ کا انداز تدریس بڑا دلنشین، سادہ عام فہم اور علمی ہوتا، طلباء کے فطری رجحانات کو مدنظر رکھتے اور ان سے ہمیشہ شفقت اور نرمی کا مظاہرہ کرتے اور نصف صدی سے زائد عرصہ مسند تدریس کو زینت بخش مسلسل کئی سال تک دورہ حدیث شریف میں مکمل صحاح ستہ اکلیے پڑھا آپ اپنے طلباء کو با عمل دیکھنا چاہتے تھے اس لیے ان کی تربیت پر بھرپور توجہ دیتے، انہیں رات کو جلد سونے کا مشورہ دیتے، صبح تہجد کے لیے خود بیدار کرتے، نوافل پڑھواتے اور اسباق کا مطالعہ کرنے کا حکم دیتے۔
🌹#ارشد_تلامذہ:
آپ کے شاگردوں میں نامور فضلاء شامل ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں
🌷شرف ملت علامہ عبد الحکیم شرف قادری
🌷حضرت مولانا مفتی غلام سرور قادری
🌷حضرت مولانا مفتی رضاء المصطفی نقشبندی
🌷حضرت مولانا مفتی عبد الستار چشتی
🌷حضرت مولانا قاری طیب نقشبندی
🌹#مدارس_اور_اہل_مدارس_سے_محبت:
آپ کو مدارس سے بڑی محبت تھی بغرض تبلیغ پاکستان کے جس علاقہ میں جاتے وہاں اہلسنت کے مدرسہ کا معلوم فرماتے اور مدرسہ میں جا کرمنتظمین مدرسین کو زبردست خراج عقیدت پیش فرماتے اور ان کی خوب حوصلہ افزائی فرماتے آپ کی کاوشوں سے بہاولپور اور ملک کے دیگر علاقوں میں بہت سے مدارس قائم ہوئے
🌹#فضائل_و_محاسن:
آپ مفسر ، محدث ، مفتی ، مناظر ، مصنف کتب کثیرہ ، عابد و زاہد ، صاحب تقوی اور بڑی شان والے بزرگ تھے پاکستان کے چاروں صوبوں میں مسلسل پچاس سال تک فی سبیل اللہ دورہ تفسیر قرآن کرواتے رہے، اپنے اوقات کے بڑے پابند تھے ، زیادہ عوامی جلسوں میں جانا پسند نہیں کرتے تھے، تن تنہا پانچ ہزار سے زائد کتب و رسائل لکھ کر عالمی ریکارڈ قائم کیا، جن موضوعات پر آپ نے لٹریچر فراہم کیا ہے اگر ان کو جدید طریقہ تحقیق و تخریج، تحشیہ و تسہیل کے ساتھ شائع کیا جائے تو اہلسنت کو آئندہ پچاس سالوں تک کفایت کر جائے گا، رواں صدی میں پاکستان کے اندر آپ ہی کی ذات ہے جس پر مصنف اعظم کا لقب صادق آتا ہے۔آپ بڑے اچھے مناظر بھی تھے اور متعدد مناظروں میں مد مقابل کو شکست فاش دی ہے، 15 سال کی عمر میں تحریک پاکستان میں حصہ لیا ، 1953ء اور 1974ء کی تحاریک ختم نبوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور سیاسی لحاظ سے امام شاہ احمد نورانی کو سپورٹ کرتے تھے۔
🌹#بیعت_و_خلافت
آپ نے دوران تعلیم #الحاج_خواجہ_محمدالدین_سیرانی کے دست اقدس پر بعیت کی اور ان کی وفات کے بعد #مفتی_اعظم_ہند_مولانا
#مصطفی_رضا_خان سے بیعت ہو کر اجازات و خلافت حاصل کی ۔
🌹#خلفاء_فیض_ملت:
آپ کے خلفاء میں
🌷حضرت مولانا پیر سید مسرت حسین شاہ
🌷حضرت مولانا سید شوکت حسین شاہ
🌷بانی دعوت اسلامی حضرت مولانا محمد الیاس عطار قادری
🌷جانشین عطار حضرت مولانا احمد رضا بن مولانا محمد الیاس قادری
🌷حضرت مولانا صاحبزادہ محمد فیاض احمد اویسی
🌷حضرت مولانا عبدالجلیل العطامی، شام وغیرہ شامل ہیں
🌹#ذوق_عبادت:
علامہ اویسی نے تدریس و تصنیف کے ساتھ عبادت کا بھی وافر ذوق پایا تھا اوارد و وظائف کے ساتھ تلاوت قرآن اور نماز تہجد پابندی سے ادا کرتے چار مرتبہ حج بیت اللہ اور کثیر تعداد میں عمرہ کی سعادت حاصل کی آپ کی شب گزاری کے حوالہ سے علامہ زاہد حسین نعیمی نے اپنا مشاھدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ میں نے جب بھی دیکھا رات کو علامہ اویسی علیہ الرحمہ کے حجرہ کا بلب جلتا رہتا، میں جب تک جاگتا رہتا یہ منظر دیکھتا رہتا پھر سو جاتا، رات پچھلے پہر مجھے بھی اٹھنے کی عادت تھی لیکن میں جب بھی وضو کرکے سیرانی مسجد کے صحن میں پہنچتا تو میں نے علامہ اویسی علیہ الرحمہ کو تہجد پڑھتے دیکھا میں نے بہت کوشش کی کہ کبھی ان سے پہلے اٹھ جاوں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ وہ مسجد میں موجود نہ پائے جائیں یہی ایک بات آج تک میں سمجھنے سے قاصر رہا کہ آخر حضرت کب سوتے تھے اور پھر تہجد کے لیے اٹھ جاتے تھے اور دن کے تمام معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا تھا یہ تو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں ۔
آپ نماز با جماعت کا بہت زیادہ اہتمام فرماتے تھے حتی کہ آخری عمر میں جب بہت زیادہ ضعیف ہوگے تو اس حالت میں بھی خدام ویل چیر پرمسجد میں لاتے تاکہ آپ باجماعت نماز ادا کر سکیں۔
سفر ہو یا حضر کسی بھی صورت نماز قضاء کرنا گوارہ نہیں تھا آپ نے اپنی تالیف نماز کے نقد فوائد میں ایسے کئی واقعات لکھے ہیں جب بظاہر نماز پڑھنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آرہی تھی مگر آپ نے ہمت کرکے نماز پڑھنے کا اہتمام کر ہی لیا ان میں سے ایک واقعہ ہم یہاں نقل کرتے ہیں
ایک دفعہ کوٹ مٹھن شریف میں تقریر کے لیے آپ کو جانا تھا راستہ میں جانجنی کے مقام پر نماز عصر کا آخری وقت ہونے لگا آپ نے ڈرائیور کو گاڑی روکنے کے لیے کہا کہ میرا وضو ہے صرف دو رکعت پڑھوں گا، زیادہ وقت ضائع نہیں ہوگا مگر ڈرائیور نے ایک نہ سنی، تو آپ نے کہا بس روک دو ورنہ میں چلتی بس سے چھلانگ لگا دوں گا اس کے بعد جو کچھ ہو گا خدا کو سپرد۔ ڈرائیور نے آپ کی دھمکی کی وجہ سے بس روک کر آپ کو نیچے اتار دیا اور خود چلتا بنا ، آپ نے اطمینان سے نماز پڑھی اور باقی سفر کچھ پیدل تو کچھ دوسری بس کے ذریعہ پورا کرکے مقررہ وقت پر کوٹ مٹھن شریف تقریر کے لیے پہنچ گے۔
🌹#تصنیف_و_تالیف:
علامہ اویسی کی زندگی کا سب سے بڑا کارنامہ تصانیف و تالیفات ہیں تدریس کے بعد یہی آپ کا محبوب مشغلہ تھا عالم دنیا میں ہم کسی دوسرے مصنف کو نہیں جانتے جس نے گوناں گو موضوعات پر پانچ ہزار سے زائد کتب کا ذخیرہ یاد گار چھوڑا ہو، آپ نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کی تعداد چالیس سے زائد ہے
آپ سے جب سوال ہوا کہ اس قدر تیز رفتار علمی کام کا راز کیا ہے؟
تو ارشاد فرمایا ، فقیر نے بچپن سے اپنے اساتذہ کی نگرانی میں قلم کی تیز رفتاری سیکھی، سوائے حوائج ضروریہ اور مقاصد اصلیہ کے قلم چلتا ہی رہتا، سفر وحضر اور تنہائی و جلوت کی کوئی قید نہیں، بسوں، گاڑیوں، جہازوں کی سواری فقیر کے قلم کو نہیں روکتی صحت و عافیت کے ساتھ اولاد صالحہ سے نوازہ گیا ہوں، انہوں نے مجھے ہر کام سے فارغ البال رکھا ہوا ہے اسی لیے شب روز مشغلہ اپنے جوش و جوبن میں رہتا ہے۔
آپ کی کتب صرف چھوٹے رسائل ہی نہیں بلکہ بعض ضخیم اور کئی کئی مجلدات پر مشتمل ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں
1۔ فیض القرآن فی ترجمۃ القرآن
2۔ فیوض الرحمن۔
علامہ اسماعیل حقی کی روح البیان کا ترجمہ،مطبوعہ ہے اور صفحات کی تعداد تقریبا دس ہزار ہے یہ ترجمہ آپ نے تقریبا 31 سال میں کیا جبکہ اس دوران بہت سی کتب و رسائل بھی تحریر کیئے
3۔ تفسیر اویسی، 15 مجلدات
4۔ فضل المنان فی تفسیر القرآن، 10 مجلدات
قرآن مجید کی یہ مکمل تفسیر عربی زبان میں ہے اس کے مختلف اجزاء مختلف جگہوں سے شائع ہوئے ہیں اور یہ بھی سننے میں آیا کہ اب یہ مکمل تفسیر بیروتی طرز پر دبئی سے طبع ہونے جا رہی ہے اللہ کرے یہ خبر درست ہو
5۔ فیض الرسول فی اسباب النزول، 10 مجلدات
6۔ الھلالین ترجمہ و شرح جلالین، 5 مجلدات
7۔ تفیسر بالرائے 3 مجلدات
8۔ احسن البیان فی اصول تفسیر القرآن ، 3 مجلدات
9۔ فیض القدیر فی اصول تفسیر
10۔ فیض القرآن فی تفسیر آیات القرآن
11۔ تاریخ تفسیر القرآن
12۔ الفیض الجاری شرح بخاری، مبطوعہ 10 مجلدات
13۔ انوار المغنی شرح سنن دار قطنی 10 مجلدات
14۔ شرح سنن دارمی، 8 مجلدات
15۔ شرح صحیح مسلم، 10 مجلدات
16۔ شرح جامع ترمذی، 5 مجلدات
17۔ الاحادیث السنیہ فی الفتاوی الرضویہ، 10 مجلدات
18۔ الاحادیث الموضوعۃ، 5 مجلدات
19۔ اللمعات شرح مشکوۃ، 4 مجلدات
20۔ تعلیقات علی المشکوۃ
21۔ شرح اربعین نووی
22۔ اصطلاحات علم الحدیث
23۔ اقسام الحدیث
24۔ فتاوی اویسیہ، 12 مجلدات
25۔ حاشیہ قدوری
26۔ شرح ہدایہ
27۔ شرح وقایہ
28۔ شرح اصول الشاشی
29۔ اصول فقہ
30۔ زینۃ القرطاس بالاجماع و القیاس
31۔ حقیقۃ الیاقوت شرح مسلم الثبوت
32۔ المیقاس فی ابحاث القیاس
33۔ سر المکتوم ترجمہ و شرح سلم العلوم
34۔ قواعد منطق
35۔ تعلیم المنطق
36۔ علم المناظرہ
37۔ شرح مناظرہ رشیدیہ
38۔ النجاح شرح مراح الارواح
39۔ نعم الحامی شرح شرح جامی
40۔ شرح کافیہ
41۔ فضائل میلاد النبی
42۔ تصانیف المیلاد
43۔ القول السداد فی بیان المیلاد
44۔ بارہ ربیع الاول کے جلوس کا ثبوت
45۔ انطاق المفہوم فی ترجمہ احیاء العلوم، 4 مجلدات
46۔ ترجمہ کیمائے سعادت
47۔ شرح حدائق بخشش، 25 مجلدات
48۔ ترجمہ و حاشیہ حلیۃ الاولیاء
49۔ احادیث تصوف
50۔ انوار مصطفی فی کرامات الاولیاء
51۔ تصوف اور اسلام
52۔ تصوف کی شرعی حثیت
53۔ بیعت کا جواز
54۔ تعارف سلاسل طریقت
55۔ صوفیاء کرام اور اشاعت اسلام
56۔ اصطلاحات تصوف
57۔ سلوک العارفین
58۔ القواعد الاویسیہ شرح عقائد نسفیہ
59۔ عقائد اسلامی
60۔ کشف الغمہ فی عقائد اہلسنہ
61۔ عنایۃ اللہ فی عقائد شاہ ولی اللہ
62۔ فیض اللغات
63۔ لغات القرآن
64۔ سائنس اور اسلام
65۔ قرآن اور سائنس
66۔ خاندانی منصوبہ بندی
67۔ گستاخ صحابہ کا انجام
68۔ کرامات صحابہ
69۔ صحابہ کرام اور علم غیب رسول ﷺ
70۔ فضائل نکاح
71۔ مناقب امام اعظم
72۔ امام اعظم اور علم الحدیث
73۔ امام احمد رضا اور علم الحدیث
74۔ مرزا قادیانی کے عقائد و اخلاق
75۔ آئینہ مرزا نما
76۔ امی، رد مودودی
77۔ اسلام اور عیسائیت کا موازنہ
78۔ ہمارے نبی ﷺ غیر مسلموں کی نظر میں
79۔ تقابل ادیان
80۔ رد کیمونسٹ
علم کے موتی نامی کتاب میں آپ کی کتب کی فہرست حروف تہجی کے اعتبار سے دے دی گئی ہے جہاں تفصیل دیکھی جا سکتی ہے آپ کی کتب کی اشاعت کے لیے کئی ادارے کام کر رہے ہیں جن کے تحت تقریبا پچیس سو سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں اس کے باوجود بھی ایک ایسے ادارے کی ضرورت ہے جہاں پر آپ کی تمام چھوٹی بڑی کتب موجود ہوں اور اس کے تحت قلمی کتب کی بہرین انداز میں اشاعت ہو اور مطبوعہ کتب کو جدید طریقہ تحقیق کے مطابق دوبارہ شائع کیا جائے نیز ایک ایسی ویب سائٹ کو بھی لانچ کیا جائے جہاں نہ صرف آپ کی تمام مطبوعہ کتب موجود ہوں بلکہ آپ کی شخصیت پر لکھی گئی کتب، رسائل و مقالات بھی دستیاب ہوں۔
🌹#وفات:
علامہ فیض احمد اویسی نے خدمات اسلام سے پر زندگی گزارنے کے بعد 15 رمضان المبارک 1431ھ/ 26 اگست 2010ء کو انتقال فرمایا، مزار مبارک دارلعلوم جامعہ اویسیہ رضویہ بہاولپور میں مرجع خلائق ہے
بحوالہ (فیض ملت ایک مثالی معلم،
علم کے موتی،
مظلوم مصنف،
یادگار فیض ملت ،
فیض ملت بحثیت طبیب،
علامہ فیض احمد اویسی کی مذہبی اور تصنیفی خدمات )