اقامت میں کب کھڑا ہونا سنت ہے ؟؟
اقامت میں کب کھڑا ہونا سنت ہے ؟؟
1۔احناف کا مؤقف
2۔دلائل
از قلم: ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
24/4/2021
#923163627911
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
احناف کا مؤقف
احناف کے نزدیک اس بارے میں حکم یہ ہے کہ امام و مقتدی جب مسجد میں موجود ہوں تو اس صورت میں امام و مقتدی سب حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑے ہوں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا سنّت مستحبہ اور اسے صرف سنّت ہی کہہ لیا جائے توبھی کچھ حرج نہیں اور یوں بھی ٹھیک ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ پر کھڑا ہونا شروع کریں اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر مکمل کھڑے ہوجائیں۔
احناف کے مؤقف پر دلائل
-1بخاری شریف کی حدیث پاک ”اذا اقیمت الصلٰوۃ فلاتقوموا حتی ترونی“ کے تحت عمدۃ القاری شرح بخاری میں صحابۂ کرام کے عمل کے بارے میں ہے: ”وکان انس رضی اللہ تعالٰی عنہ یقوم اذا قال المؤذن قد قامت الصلٰوۃ“ یعنی حضرت انس رضی اللہ تعالٰی عنہ اس وقت کھڑے ہو تے تھے جب مؤذن قد قامت الصلٰوۃ کہتا مزید اسی صفحہ پر ہے ”و فی المصنف کرہ ھشام یعنی ابن عروہ ان یقوم حتی یقول المؤذن قد قامت الصلٰوۃ“ یعنی مصنف میں ہے کہ ہشام بن عروہ اقامت میں قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ سے پہلے کھڑے ہو نے کو مکروہ جانتے تھے۔
( عمدۃ القاری،ج 4 ،ص215)
2۔فتح الباری شرح بخاری میں ہے۔
عن ابی حنیفہ قال یقومون اذا قال حی علی الفلاح(امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں جب مکبر حی علی الفلاح کہے اس وقت سب لوگ کھڑے ہوں
3۔چنانچہ حاشیۂ شلبی علی التبیین میں ہے
”قال فی الوجیز: والسنۃ ان یقوم الامام و القوم اذا قال المؤذن حی علی الفلاح اھ۔و مثلہ فی المبتغی“
یعنی وجیز میں ہے:سنّت یہ ہے کہ امام اور قوم اس وقت کھڑے ہوں جب موذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔ اسی بات کے مثل ”المبتغی“ میں ہے۔
(حاشیہ شلبی علی تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق،ج1 ،ص283)
4۔علامہ ابو بکر بن مسعود کاسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی بدائع الصنائع میں فرماتے ہیں:
”والجملۃ فیہ ان المؤذن اذا قال حی علی الفلاح فان کا ن الامام معھم فی المسجد یستحب للقوم ان یقوم فی الصف“
یعنی خلاصہ کلام یہ کہ امام قوم کے ساتھ مسجد میں ہو تو سب کو اس وقت کھڑا ہو نا مستحب ہے جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے۔
( بدائع الصنائع،ج1 ،ص467)
5۔یونہی تَبْیِیْنُ الْحَقَائِق میں ہے۔
”والقیام حین قیل حی الفلاح لانہ امر بہ و یستحب المسارعۃ الیہ۔“
(تبیین الحقائق،ج 1،ص283)
6۔تنویر الابصار میں ہے۔
والقیام لامام وموتم حین قیل حی علیٰ الفلاح ان کان الامام بقرب المحراب
یعنی اگرامام محراب کے قریب موجود ہو تو امام اور مقتدیوں کے لئے اس وقت کھڑا ہونا مستحب ہے جب حیّ علیٰ الفلاح کہا جائے۔
7۔ایضاح میں ہے۔
یقوم الامام والقوم عند حی علیٰ الفلاح
یعنی امام اور مقتدی حی علیٰ الفلاح کہنے کہ وقت کھڑے ہوں
8۔مراقی الفلاح میں ہے ۔
و من الادب (القیام) ای قیام القوم والامام ان کان حاضراً بقرب المحراب (حین قیل) ای وقت قول المقیم( حی علی الفلاح ) لانہ امر بہ فیجاب
یعنی آداب و مستحبات ِنماز سےیہ ہے کہ جب امام محراب کے قریب ہو تو امام و قوم (مقتدی) کا اقامت کہنے والے کہ حی علی الفلاح کہنے پر کھڑا ہونا ۔اسلئے کہ اقامت والے نے حکم کیا تو اسکی تعمیل کی جائے۔
9۔بحر الرائق میں ہے۔
لانہ امر بہ فیستحب المسارعۃ الیہ فشمل الامام ان کان الامام بقرب المحراب
10۔خاتم المحققین علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرَّحمہ نے حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونے کے بارے میں 14کتابوں کا حوالہ دیا ہے۔
چنانچہ درمختار کی عبارت ”والقیام لامام ومؤتم حین قیل حی علی الفلاح“ کے تحت فتاویٰ شامی میں ہے ”کذا فی الکنز ونور الایضاح والاصلاح والظھیریۃ والبدائع وغیرھا والذی فی الدرر متنا وشرحا عند الحیعلۃ الاولی:یعنی حیث یقال حی علی الصلاۃ اھ وعزاہ الشیخ اسماعیل فی شرحہ الی عیون المذاھب والفیض والوقایۃ والنقایۃ والحاوی والمختار اھ قلت واعتمدہ فی متن الملتقی،وحکی الاولی بقیل، لکن نقل ابن الکمال تصحیح الاول ونص عبارتہ:قال فی الذخیرۃ: یقوم الامام والقوم اذا قال الموذن حی علی الفلاح عند علمائنا الثلثۃ“
یعنی اسی طرح (1)کنز (2)نورالایضاح (3)اِصلاح (4)ظہیریہ (5)بدائع وغیرہ میں ہے، (6)درر کےمتن اور شرح میں یہ ہے کہ حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ کہنے پر کھڑا ہو، شیخ اسماعیل رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے اس قول کو (7)عیون المذاھب (8)فیض (9)وقایہ (10)نقایہ (11)حاوی (12)مختار کی طرف منسوب فرمایا،میں کہتا ہوں کہ اس پر (13)ملتقی کے متن میں اعتماد کیا ہے،اور پہلے کو قیل کے ساتھ نقل کیا ہے، لیکن علامہ ابنِ کمال رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے پہلے قول ہی کی تصحیح نقل کی ہے ان کی عبارت یہ ہے: (14)ذخیرہ میں فرمایا: ”امام اور مقتدی اس وقت کھڑے ہوں جب مؤذن حَیَّ عَلَی الْفَلَاح کہے یہی ہمارے علماء ثلاثہ کے نزدیک حکم ہے“۔
14 کتابیں تو علامہ شامی قُدِّسَ سِرُّہُ السَّامِی نے ذکر فرمائیں ہیں۔
(رد المحتار،ج 2،ص216)
کھڑے کھڑے اقامت کا سننا احناف کے نزدیک مکروہ ہے
35۔عمدۃ المحققین حضرت علامہ مفتی محمد حبیب اللہ نعیمی بھاگلپوری علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں۔
”جب اقامت شروع کرنے سے پہلے مقتدی مسجد میں حاضر ہوں اور امام بھی اپنے مصلے پر یا اس کے قریب میں موجود ہو اور اقامت کہنے والا شخص خود امام نہ ہو تو اس صورت میں سب کو حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ یا حَیَّ عَلَی الْفَلَاح پر کھڑا ہونا چاہئے، یہی مسنون و مستحب ہے۔ اس صورت میں ابتدائے اقامت سے کھڑے ہونے کو حنفی مسلک میں ہمارے فقہائے کرام نے مکروہ تحریر فرمایا ہے۔“
(حبیب الفتاویٰ، ص134)
اس حالت میں کھڑے کھڑے اقامت سننا مکروہ ہے۔ رد المحتار میں ہے:”یکرہ لہ الانتظار قائماً و لکن یقعد ثم یقوم اذا بلغ المؤذن حی علی الفلاح“یعنی کھڑے ہو کر انتظارِ نماز نہ کرے کہ مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے پھر جب مؤذن ”حَیَّ عَلَی الْفَلَاح“ کہے تو کھڑا ہو۔
(رد المحتار،ج 2،ص88)
36۔صدرالشریعہ مفتی محمدامجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں۔
”اقامت کے وقت کوئی شخص آیا تو اسے کھڑے ہو کر انتظار کرنا مکروہ ہے، بلکہ بیٹھ جائے جب حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے اس وقت کھڑا ہو۔ یوہیں جو لوگ مسجد میں موجود ہیں، وہ بیٹھے رہیں، اس وقت اٹھیں،جب مُکَبِّرحَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ پر پہنچے، یہی حکم امام کیلئے ہے۔آج کل اکثر جگہ رواج پڑگیا ہے کہ وقت اقامت سب لوگ کھڑے رہتے ہیں بلکہ اکثر جگہ تو یہاں تک ہے کہ جب تک امام مصلے پر کھڑا نہ ہو، اس وقت تک تکبیر نہیں کہی جاتی،یہ خلافِ سنّت ہے۔“
(بہار شریعت ، حصہ3،ج1،ص471)
خلاصہ کلام
خلاصہ کلام یہی نکلا کے ہمارے احناف کا مؤقف ہیہ کہ جس وقت امام مسجد میں محراب کے پاس موجود ہو اور تکبیر امام کے علاوہ کوئی شخص کہ رہا ہو تو اس وقت امام و مقتدی سب کو چاہئے کہ بیٹھ کر اقامت سنیں ۔اور جب مکبر حیّ علیٰ الفلاح کہے اس وقت سب کھڑے ہو جائیں۔اور امام و مقتدی کا کھڑے کھڑے تکبیر سننا خلاف سنت و مکروہ ہے ۔
یہی مزکورہ بالا دلائل سے مسئلہ روز روشن کی طرح واضح ہو گیا
ترتیب و تالیف: ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
03163627911