یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

مکروہاتِ روزہ پر مشتمل 12 پیرے



*مکروہاتِ روزہ پر مشتمل 12 پیرے*


*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

 {۱} جھوٹ ، چغلی ، غیبت ، گالی دینا ، بیہودہ بات ، کسی کو تکلیف دینا کہ یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں روزے میں اور زِیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزے میں کراہت آتی ہے۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۹۹۶)*

 {۲} روزہ دار کو بلا عذر کسی چیز کا چکھنا یا چبانا مکروہ ہے۔چکھنے کے لئے عذر یہ ہے کہ مَثَلاً عورت کا شوہر بد مزاج ہے کہ نمک کم یا زیادہ ہوگا تو اُس کی ناراضی کا باعث ہوگا ، اِس وجہ سے چکھنے میں حرج نہیں ۔چبانے کیلئے عذر یہ ہے کہ اِتنا چھوٹا بچہ ہے کہ روٹی نہیں چبا سکتا اور کوئی نرم غذا نہیں جو اُسے کھلائی جا سکے ، نہ حیض و نفا س والی یا کوئی اور ایسا ہے کہ اُسے چبا کر دے تو بچے کے  کھلانے کیلئے روٹی وغیرہ چبانا مکروہ نہیں ۔
*(دُرِّ مُخْتار ج۳ ص۴۵۳)*

مگر پوری احتیاط رکھئے کہ غذا کا کوئی ذرّہ حلق سے نیچے نہ اترنے پائے۔

*چکھنا کسے کہتے ہیں ؟:*

چکھنے کے معنٰی وہ نہیں جو آج کل عام محاوَرہ ہے یعنی کسی چیز کا مزا دَریافت کرنے کیلئے اُس میں سے تھوڑا کھا لیا جاتا ہے! کہ یوں ہو تو کراہت کیسی روزہ ہی جاتا رہے گا بلکہ کفارے کے شرائط پائے جائیں تو کفارہ بھی لازِم ہوگا۔ 

*چکھنے سے مراد یہ ہے کہ صرف زبان پر رکھ کر مزا دَریافت کر لیں اور اُسے تھوک دیں ، اُس میں سے حلق میں کچھ بھی نہ جانے پائے۔*
*(بہار شریعت ج ۱ ص ۹۹۶)*

 {۳} کوئی چیز خریدی اور اُس کا چکھنا ضروری ہے کہ اگر نہ چکھا تَو نقصان ہوگا تو ایسی صورت میں چکھنے میں حرج نہیں ورنہ مکروہ ہے۔
*(دُرِّمُخْتارج۳ص۴۵۳)*

 {۴} بیوی کا بوسہ لینا اور گلے لگانا اور بدن کو چھونا مکروہ نہیں ۔ ہاں یہ اَندیشہ ہو کہ اِنْزال ہو جائے گا *(یعنی منی نکل جائے گی)* یا جماع میں مبتلا ہوگا اور ہونٹ اور زبان چوسنا روزے میں مُطلقاً مکروہ ہیں ۔یوں ہی مباشرتِ فاحشہ *(یعنی شرمگاہ سے شرمگاہ ٹکرانا)*
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۴)*

  {۵} گلاب یا مشک وغیرہ سُونگھنا ، داڑھی مونچھ میں تیل لگانا اور سُرمہ لگانا مکروہ نہیں ۔
*(اَیضاً ص۴۵۵)* 

 {۶} روزے کی حالت میں ہر قِسْم کا عِطْر سونگھ بھی سکتے ہیں اور لگا بھی سکتے ہیں ۔(اَیضاً)

اِسی طرح روزے میں بدن پر تیل کی مالش *(Massage)* کرنے میں بھی حرج نہیں۔

 {۷} روزے میں مسواک کرنا مکروہ نہیں بلکہ جیسے اور دِنوں میں سُنَّت ہے وَیسے ہی روزے میں بھی سُنَّت ہے ،  مسواک خشک ہو یا تر ، اگرچہ پانی سے تر کی ہو ، زَوال سے پہلے کریں یا بعد ، کسی وَقت بھی مکروہ نہیں۔
*(اَیضاً ص۴۵۸)*

 {۸} اکثر لوگوں میں مشہور ہے کہ دوپہر کے بعد روزہ دار کیلئے مسواک کرنا مکروہ ہے یہ ہمارے مذہب حنفیہ کے خلاف ہے۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۹۹۷)*

  *حضرتِ سَیِّدُنا عامر بن رَبیعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے رِوایت ہے: میں نے رسولِ پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو بے شمار بار روزے میں مسواک کرتے دیکھا۔*
*(تِرمذی ج ۲ ص۱۷۶حدیث ۷۲۵)*

 {۹} اگر مسواک چبانے سے ریشے چھوٹیں یا مزا محسوس ہو تو ایسی مسواک روزے میں نہیں کرنا چاہئں۔
*(فتاویٰ رضویہ مُخَرَّجہ ج۱۰ص۵۱۱)*

اگر روزہ یاد ہوتے ہوئے مسواک چباتے یا دانت مانجھتے ہوئے اس کا ریشہ یا کوئی جز حلق سے نیچے اتر گیا اور اس کا مزا حلق میں محسوس ہوا تو روزہ فاسد ہو جائے گا۔ اور اگر اتنے سارے ریشے حلق سے نیچے اتر گئے جو ایک چنے کی مقدار کے برابر ہوں تو اگرچہ حلق میں  ذائقہ محسوس نہ ہو تب بھی روزہ ٹوٹ جا ئے گا۔

 {۱۰} وضو و غسل کے علاوہ ٹھنڈک پہنچانے کی غرض سے کلی کرنا یا ناک میں پانی چڑھانا یا ٹھنڈک کیلئے نہانا بلکہ بَدَن پر بھیگا کپڑا لپیٹنا بھی مکروہ نہیں۔ ہاں پریشانی ظاہِر کرنے کیلئے بھیگا کپڑا لپیٹنا مکروہ ہے کہ عبادَت میں دِل تنگ ہونا اچھی بات نہیں ۔
*(بہار شریعت ج۱ص۹۹۷، رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۵۹)*

 {۱۱} بعض اِسلامی بھائی روزے میں بار بار تھوکتے رہتے ہیں ، شاید وہ سمجھتے ہیں کہ روزے میں تھوک نہیں نگلنا چاہئے ، ایسا نہیں۔
البتہ منہ میں تھوک اِکٹھا کر کے نگل جانا ، یہ تو بغیر روزہ کے بھی نا پسندیدہ ہے اور روزے میں مکروہ۔
*(بہار شریعت ج۱ ص ۹۹۸)*

 {۱۲} رَمَضانُ الْمُبارَک کے دِنوں میں ایسا کام کرنا جائز نہیں جس سے ایسا ضعف *(یعنی کمزوری)* آجائے کہ روزہ توڑنے کا ظن غالب ہو۔ لہٰذا نانبائی کو چاہئے کہ دوپہر تک روٹی پکائے پھر باقی دِن میں آرام کرے۔ *(دُرِّمُخْتار ج۳ص۴۶۰)*

معمار و مزدور اور دیگر مشقت کے کام کرنے والے اس مسئلے پر غور فرما لیں ۔