یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

خصائص و مناقب مولی علی رضی اللہ عنہ


خصائص و مناقب مولی علی رضی اللہ عنہ 

مولائے کائنات سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالی نے بے پناہ خصائص وامتیازات سے ممتاز فرمایا،آپ کو فضائل وکمالات کا جامع،علوم ومعارف کا منبع،رشد وہدایت کا مصدر،زہد و ورع ،شجاعت وسخاوت کا پیکر اور مرکز ولایت بنایا،آپ کی شان و عظمت کے بیان میں متعدد آیات قرآنیہ ناطق اور بے شمار احادیث کریمہ وارد ہیں ۔

   آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ولادت باکرامت کے بعد سب سے پہلے آپ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے رخ زیبا کا دیدار کیا ہے،چونکہ آپ نے ولادت کے بعد سب سے پہلے حضور کا چہرۂ مبارک دیکھا اس کی برکت یہ ہوئی کہ آپ کا چہرہ دیکھنا بھی عبادت قرار پایا،جیسا کہ مستدرک علی الصحیحین میں حدیث مبارک ہے : 
عَنْ عَبْدِاﷲِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :النَّظْرُ إِلٰی وَجْهِ عَلِیٍّ عِبَادَةٌ-
ترجمہ :
 سیدنا عبد ﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نےفرمایا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
علی (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے چہرہ کو دیکھنا عبادت ہے ۔
 (المستدرک علی الصحیحین، کتاب معرفۃ الصحابۃ رضی اللہ عنہم، حدیث نمبر:4665)

حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ:
 بچوں میں سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام قبول کیا ،جیساکہ جامع حدیث مبارک ہے :
 انصاری صحابی حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا : میں نے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ (بچوں میں) سب سے پہلے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا ۔ 
(جامع الترمذی ،ابواب المناقب، باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر:4100)

جامع ترمذی شریف میں روایت ہے :
 سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایاکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پیرکو اعلان نبوت فرمایا اور منگل  کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔
 (جامع الترمذی ،باب مناقب علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ. حدیث نمبر: 4094،)

حضراتِ اہل بیت کرام وصحابۂ عظام رضی اللہ عنہم سے عقیدت ومحبت ، سعادت دنیوی کا ذریعہ اور نجات اخروی کا باعث ہے،چونکہ حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ اہل بیت ہونے کے شرف سے بھی مشرف ہیں اور صحابیت کے اعزاز سے بھی معزز ہیں اسی لئے آپ سے دو جہتوں سے محبت کی جائے ۔

آپ کی شان وعظمت اور حضور سے کمال قربت کا اندازہ صحیح بخاری شریف میں وارد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے آپ نے فرمای ا : اَنْتَ مِنِّی وَاَنَا مِنْکَ ۔
 ترجمہ:ائے  علی !تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں ۔
(صحیح البخاری،کتاب فضائل الصحابۃ، باب مناقب علی بن أبی طالب القرشی الہاشمی أبی الحسن رضی اللہ عنہ،حدیث نمبر:2699 )

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا عقد نکاح:

آپ رضی اللہ عنہ کا نکاح خاتون جنت سیدہ فاطمۃ الزھراء رضی اللہ عنہا سے ہوا ۔ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے : 
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اﷲعنہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا :بیشک  اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا کہ میں فاطمہ (رضی اللہ تعالی عنہا)کا نکاح علی(رضی اللہ تعالی عنہ) سے کراؤں ۔ 
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج،8،ص،497،حدیث نمبر:،10152)

کرم اللہ وجھہ الکریم کہنے کی وجہ:

حضرات اہل بیت کرام وصحابۂ عظام اور بزرگان دین کا نام ذکر کرتے وقت بطور اکرام رضی اللہ تعالی عنہ اور رحمۃ اللہ تعالی علیہ کہا جاتا ہے،حضرت مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کے نام مبارک کے ساتھ ان عمومی کلمات کے علاوہ بطور خاص"کرم اللہ وجہہ"کہا جاتا ہے،اس کی وجہ نور الابصار میں اس طرح بیان کی گئی ہے : 
 سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی والدۂ محترمہ کا نام مبارک حضرت"فاطمہ بنت اسد بن ہاشم بن عبد مناف"رضی اللہ عنہم ہے۔  جب کبھی وہ کسی بت کے آگے سجدہ کرنے کا ارادہ کرتیں ؛جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کے شکم میں تھے وہ سجدہ نہیں کرپاتی تھیں،کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے قدم ان کے شکم مبارک سے چمٹادیتے اور اپنی پیٹھ ان کی پیٹھ سے لگادیتے اور انہیں سجدہ کرنے سے روک دیتے،یہی وجہ ہے کہ جب بھی آپ کا مبارک تذکرہ کیا جاتا ہے تو "کرم اللہ وجہہ"(اللہ تعالی آپ کے چہرۂ انور کو باکرامت رکھے)کہا جاتاہے ۔   
(نورالابصار فی مناقب آل بیت النبی المختار صلی اللہ علیہ والہ وسلم ،ص 85)


حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت:


حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی ہستی اللہ تعالی اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ایسی مقبول ہے کہ آپ سے محبت کرنے والے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا محبوب قرار دیا اور آپ سے بغض رکھنے کواپنی ناراضگی قرار دیا ‘ جیساکہ معجم کبیر طبرانی میں حدیث مبارک ہے :
 سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا :(ائے علی) تم سے محبت کرنے والا مجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تم سے بغض رکھنے والا مجھ سے بغض رکھنے والا ہے ۔ 
(المعجم الکبیر للطبرانی،ج،6،ص،47، حدیث نمبر:5973)

حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی ذات گرامی چونکہ اللہ تعالی کو بھی محبوب ہے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو بھی محبوب ہے ،اسی لئے کائنات کا ذرہ ذرہ آپ سے محبت کرتا ہے،اور اللہ تعالی اس محبت کرنے والے کو دنیا میں بھی نوازتا ہے اور آخرت میں بھی سرفراز فرماتا ہے،علامہ امام طبری رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے اپنی کتاب الریاض النضرۃ میں روایت نقل کی ہے :
 سیدناانس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ سیدناعلی مرتضی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو خربوز ہ خریدنے کے لئے  ایک درہم عطا فرمایا،حضرت بلال نے فرمایا کہ میں ایک خربوزہ آپ کی خدمت میں پیش کیا،جب آپ نے اسے کاٹا تو اسے کڑوا پایا،آپ نے ارشاد فرمایا :ائے بلال!جس شخص کے پاس سے یہ لائے ہو ؛ اسی کو واپس کردو!اوردرہم میرے پاس واپس لاؤ! کیونکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:بیشک اللہ تعالی نے تمہاری محبت کا عہد ہر انسان،درخت،پھل اور ہر بیج سے لیا ہے ،تو جس نے تمہاری محبت کو اپنے دل میں سمالیا وہ شیریں و پاکیزہ ہوگیا اورجس نے تمہاری محبت کو قبول نہ کیا وہ پلید اور کڑوا ہوگیا ،اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ خربوزہ بھی اس درخت کا ہے؛ جس نے میری محبت کے عہد کو قبول نہیں کیا ہے۔
( الریاض النضرۃ فی مناقب العشرۃ)

بارگاہ رسالت کی پسندیدہ شخصیت:

غزوۂ خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خصوصی فضیلت کو آشکار فرمایا اور آپ کے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومحبوب ہونے کی بشارت عطا فرمائی ، جیساکہ صحیح بخاری شریف میں حدیث مبارک ہے : 

 حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ سے ورایت ہے،انہوں نے فرمایا،مجھے حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ غزوۂ خیبر کے موقع پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کل میں ایسے شخص کو جھنڈاعطا کروںگا؛ جن کے ہاتھ پراللہ تعالیٰ (قلعۂ خیبر) فتح کرے گا،وہ اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان سے محبت کرتے ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم ساری رات اس انتظار میں تھے کہ یہ سعادت کس کو ملے گی ؟ جب صحابۂ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے صبح کی توان میں سے ہر ایک بارگاہ نبوی میں اس امید کے ساتھ حاضر ہوئے کہ جھنڈا انہیں عطا ہو، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:علی (رضی اللہ عنہ )کہاں ہیں، تو عرض کیا کہ آپ کو آشوب چشم لاحق ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو بلانے کا حکم فرمایا : جب آپ کو لایا گیاتوحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی چشمان مبارک میں اپنا مبارک لعاب دہن ڈالا اور دعا فرمائی توآپ ایسے صحت یاب ہوگئے جیسا کہ آپ کو درد ہی نہ تھا ، اورآقانے آپ کو پرچم اسلا م عطا فرمایا ۔ 
(صحیح البخاری ،کتاب المناقب،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث نمبر:3701)

 آپ کی بہادری:

فاتح خیبر،حیدر کرار،
صاحب ذوالفقار،شیریزداں،شان مرداں ابو الحسن  سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو اللہ تعالی نے شجاعت وبہادری کے عظیم جوہر سے مزین فرمایا،میدان کارزار میں آپ کی سبقت وپیش قدمی بہادر مرد وجوان افراد کے لئے ایک نمونہ تھی،غزوۂ خیبر کے موقع پرآپ کی شجاعت وبہادری سے متعلق امام ابن عساکر کے حوالہ سے روایت مذکور ہے :
سیدناجابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا : حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے خیبر کے دن (قلعہ کے)دروازہ کو اپنی پشت پر اٹھالیا،یہاں تک کہ اہل اسلام نے اس پر چڑھائی کی اور اسے فتح کرلیا،اور اس کے بعدلوگوں نے اس دروازہ کو کھینچا تو وہ(اپنی جگہ سے)نہ ہٹا، یہاں تک کہ  چالیس( 40)افراد نے اسے اٹھایا ۔ 
(تاریخ الخلفاء ،علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ)

آپ کے خصائص و مناقب:

حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ کی بلند و بالا ہستی اور آپ کے فضائل و مناقب کے کیا کہنے!جبکہ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کمالات کو بڑی جامعیت کے سا تھ ارشاد فرمایا،چنانچہ اس سلسلہ میں امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام سیدنا ابو حمراء رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ، آپ نے فرمایا کہ ہم حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر تھے  کہ حضرت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ رونق افروز ہوئے،تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس شخص کو یہ بات خوش کرے کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام کو ان کی علمی شان کے ساتھ دیکھے، حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی فہم ودانشمندی کی شان کے ساتھ دیکھے ، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے پاکیزہ اخلاق کی شان کے ساتھ دیکھے تو وہ علی بن ابو طالب (رضی اللہ تعالی عنہ )کو دیکھ لے ۔
 (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبہانی،ج1ص 75)

 سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کو جن خصائص وکمالات سے اللہ تعالی نے ممتاز فرمایا ہے ان میں یہ بھی ہے کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چوتھے خلیفہ ہیں،آپ کوعشرۂ مبشرہ میں ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے،حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے یہ ضمانت عطا فرمائی : وَعَلِیٌّ فِی الْجَنَّۃِ ۔ ترجمہ:اور علی(رضی اللہ تعالی عنہ)جنت میں ہیں ۔ 
(سنن ابن ماجہ، المقدمۃ،باب فضائل العشرۃ رضی اللہ عنہم. حدیث نمبر:138)

صحابۂ کرام میں سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی یہ ایک امتیازی شان ہے کہ آپ کی شان میں سینکڑوں آیات مبارکہ نازل ہوئیں ‘ جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے امام ابن عساکر نے سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ، آپ نے فرمایا کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کی شان میں بے شمار آیات مبارکہ نازل ہوئی ہیں ۔
 (تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 70)

سیدنا مولائے کائنات رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نہ صرف قرآنی آیات نازل ہوئی ہیں بلکہ آپ کے حق میں صاحب قرآن سید الانس والجان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ مژدۂ جاں فزا سنایا کہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے ،جیساکہ حدیث میں ہے 
ام المؤمنین سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوئے سناکہ علی(رضی اللہ عنہ)قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن علی (رضی اللہ تعالی عنہ)کے ساتھ ہے،وہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوسکتے یہاں تک کہ حوض کوثر پر وہ دونوں میرے پاس ساتھ ساتھ آئیں گے ۔ (المعجم الأوسط للطبرانی، باب العین، من اسمہ:عباد، حدیث نمبر :5037)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اسی فرمان عالی شان کی برکت تھی کہ سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ان صحابۂ کرام میں ہوتا ہے ؛جنہوں نے قرآن کریم کو جمع کیا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو سنایا،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے : 
وعلی رضی اللہ عنہ۔۔۔۔ أحد من جمع القرآن وعرضہ علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔
(تاریخ الخلفاء ، علی بن أبی طالب رضی اللہ عنہ،ج 1،ص 68)

مولی علی رضی اللہ عنہ کی سخاوت:

 حضرت مولائے کائنات رضی اللہ عنہ کی سخاوت بارگاہ الہی میں مقبول اللہ تعالی کا ارشاد ہے : الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا وَعَلَانِیَۃً فَلَہُمْ أَجْرُہُمْ عِنْدَ رَبِّہِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ۔
ترجمہ : جو لوگ اپنا مال (اللہ کی راہ میں)رات اور دن،پوشیدہ اور ظاہری طور پر خرچ کرتے ہیں تو ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور ان کو (قیامت کے دن)نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔(سورۃ البقرۃ ۔274)
اس آیت کریمہ میں عمومی طور پر اللہ کے ان پاکباز بندوں کا تذکرہ ہے جو رضاء الہی کی خاطر دن ورات اپنا مال خرچ کرتے ہیں،لیکن مفسرین کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ یہ آیت کریمہ بطور خاص سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں وارد ہوئی ہے،جیساکہ امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے تفسیر در منثور میں روایت نقل کی ہے:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے آیت کریمہ" الَّذِینَ یُنْفِقُونَ أَمْوَالَہُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّہَارِ سِرًّا ۔ سے متعلق روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ یہ آیت کریمہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ کی شان میں نازل ہوئی،آپ کے پاس چار درہم تھے،آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا اور ایک دن میں،ایک پوشیدہ طور پر خرچ کیا اور ایک علانیہ طور پر ۔ 
(الدر المنثور فی التفسیرالمأثور، سورۃ البقرۃ۔ ،274)

آپ کے اس طرح خرچ کرنے کی ادا اللہ تعالی کو اتنی پسند آئی کہ اللہ تعالی نے آپ کی عظمت کے اظہار اور اپنے دربار میں آپ کی مقبولیت کو آشکار کرنے کے لئے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی ۔

حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ نے رضاء الہی کی خاطر نہ صرف اپنا مال قربان کیا بلکہ اپنے گھر اور وطن کو قربان کیا،شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنے آپ کو قربان کیا اور دین کی سربلندی کے لئے اپنے شہزادوں کو قربان کیا ۔

اللہ تعالیٰ نے جن و انس کو اپنی اطاعت و بندگی او ر معرفت و عبادت کے لئے پیدا کیا ہے اورجو بندگان خدا دنیا میں اخلاص وللہیت کے ساتھ اس کی عبادت کرتے ہیں ان کے لئے یہ بشارت عنایت فرمائی :
 وَتِلْکَ الْجَنَّۃُ الَّتِیْ اُورِثْتُمُوْہَا بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ۔
ترجمہ :
 یہ وہ جنت ہے جس کے تم وارث بنائے گئے ہو اُس عمل کے صلہ میں جو تم کیا کرتے تھے۔ (سورۃ الزخرف۔72)

جنت آپ کی مشتاق :

چونکہ جنت کو مومنین کے لئے عبادت کا صلہ قرار دیا گیا؛ جہاں ابدی چین و قرار ہے ،اسی لئے ہر کوئی جنت کا مشتاق اور اس کا طالب ہوتاہے، لیکن کچھ مقربان بارگاہ ‘خدا ترس بندے ایسے ہوتے ہیں؛ جن کے لئے جنت مشتاق رہتی ہے، انہی نفوس قدسیہ میں مولائے کائنات، فاتح خیبر، ابو تراب، باب العلم، ابوالحسن سیدنا علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سر فہرست ہیں؛ جن کی بابت حضور اکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا :
 حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا:حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : یقینا جنت تین افراد کی مشتاق ہے
 (1) حضرت علی(رضی اللہ عنہ
(2) حضرت عمار رضی اللہ عنہ
(3) حضرت سلمان رضی اللہ عنہ ۔ 
(جامع الترمذی،ابواب المناقب، باب مناقب سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ.حدیث نمبر4166)

دور خلافت : 

جب بلوائیوں نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو اسی وقت آپ نے اسلامی خلافت کی باگ ڈورسنبھال لی،جیسا کہ روایت ہے
 حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ  سنہ پینتیس (35) ہجری ،18 ذوالحجہ، بروز جمعہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے دن مسندخلافت پر جلوہ افروز ہوئے ۔ 
(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

آپ کے عہد زریں کی مدت سے متعلق ’’الاکمال‘‘میں ہے آپ کی خلافت جملہ چار (4)سال ،نو(9) مہینے اورچند دن رہی ۔

(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

مدینہ منورہ کی عظمت وتقدس کو ملحوظ رکھتے ہوئے کوفہ کو حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ  نے دار الخلافہ بنالیا،اور آپ نے دینی لبادہ اوڑھے ہوئے دشمنان اسلام بے ادب وگستاخ فرقہ خوارج کا مقابلہ کیا اور مقام نہروان  میں انہیں تہ تیغ کیا ،اور آپ نے اس موقع پر مخبر صادق صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر صادق بیان فرمائی کہ آپ نے ارشاد فرمایا تھا :دس(10) اہل اسلام شہید ہوں گے اور دشمن سارے مارے جائیں گے، صرف دس(10) لوگ بچیں گے ۔

شہادت کی بشارت : 

حضور اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے آپ کو پہلے ہی سے خلافت وشہادت کی بشارت عطا فرمائی تھی،چنانچہ امام ابو نعیم اصبہانی رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے روایت نقل کی ہے ۔
  سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے ،انہوںنے فرمایا ، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے ارشاد فرمایا:بیشک تم والی اور خلیفہ مقرر کئے جانے والے ہو اور بیشک تم شہید کئے جانے والے ہو ۔
 (فضائل الخلفاء الراشدین لأبی نعیم الأصبھانی ،ج 1 ص 347)

شہادت عظمی : 

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت سے متعلق تفصیلات بیان کر تے ہوئے صاحب اِکمال رقم طراز ہیں :
عبدالرحمن  ابن ملجم شقی نے سنہ چالیس(40)ہجری ،سترہ (17)رمضان المبارک،جمعہ کی صبح آپ پرحملہ کیا اورحملہ کے تین(3)دن بعد(بیس(20)رمضان المبارک کو) آپ کی شہادت عظمی ہوئی۔(الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

غسل مبارک :

 حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے غسل مبارک اور نمازجنازہ سے متعلق تاریخ میں اس طرح تفصیلات ملتی ہیں :
 حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ ،حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے غسل مبارک دیا اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی ۔
 (الاکمال فی اسماء الرجال،حرف العین ،فصل فی الصحابۃ)

 تحریر: ڈاکٹر فیض احمد چشتی)