میں تحریر کیوں لکھو۔۔۔؟
"میں تحریر کیوں لکھو۔۔۔؟"
نوٹ:
یہ تحریر میری ما قبل تحریر "آپ تحریر کیوں نہیں لکھتے" کا جواب ہے میری قبل تحریر پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں:
https://abdullahmadni1991.blogspot.com/2021/03/blog-post_88.html
نامعلوم سے معلوم اور ناشناخت سے شناخت تک کا سفر اور اسکی جستجو کرنا فطرتِ انسانی کا لازمہ ہے۔ اسی لیے خداوند قدوس نے ہمارے نبی اکرم ﷺ پر سب سے پہلی وحی جو کی ہے۔ وہ کچھ اس طرح ہے:
" اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ (1)خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ (2) اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُۙ (3) الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ (4)عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ (5)
ترجمہ: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیاآدمی کو خون کی پھٹک سے بنایا پڑھو اور تمہارا رب ہی سب سے بڑا کریم جس نے قلم سے لکھنا سکھایاآدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔
قلم کاری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے کہ جب رب کائنات نے قلم کی تخلیق فرمائی اوراسےلکھنے کا حکم دیا اور پھر قلم نے جس لوح پر لکھا اس لوح کو محفوظ فرمادیا اللہ تعالی سورۃ القلم آیت نمبر 1 میں ارشاد فرماتا ہے: نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ ترجمہ: قلم اور ان کے لکھے کی قسم
اس آیت میں قلم کی قسم کھاکر اسے عزت و بلندی کا شرف بخشا،جسے ہم تحریر کا پہلا ركن کہہ سکتے ، اور سورۃ البروج آیت22 میں فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۠ ترجمہ: "لوحِ محفوظ میں"
کے ذریعے تحریر کے دوسرےرکن کی عظمت کومستحکم فرمادیا۔ اس بات سے جہاں تحریر کی تاریخ سامنے آتی ہے وہیں اسکی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔
نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ کے بارے میں تین اقوال :
ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں اور ’’ان کے لکھے ‘‘ سے مراد لوگوں کی دینی تحریریں ہیں ۔
دوسرا قول یہ ہے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے فرشتے لکھتے ہیں
تیسرا قول یہ ہے کہ اس قلم سے وہ قلم مراد ہے جس سے لوحِ محفوظ پر لکھاگیا ( مدارک،القلم،تحت الآیۃ:۱، ص۱۲۶۶، خازن، ن، تحت الآیۃ: ۱، ۴ / ۲۹۳، جمل، القلم، تحت الآیۃ: ۱،۸ / ۷۱-۷۲، ملتقطاً)
اس قلم نے اللّٰہ تعالیٰ کے حکم سے لوحِ محفوظ پر قیامت تک ہونے والے تمام اُمور لکھ دیئے ہیں ،جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے،رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اللّٰہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم کو پیدا فرمایا اورا س سے فرمایا لکھ۔وہ عرض گزار ہوا:اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، میں کیا لکھوں ؟ ارشاد فرمایا: ’’جو کچھ ہو چکا اور جو اَبد تک ہو گا سب کی تقدیر لکھ دے۔( ترمذی، کتاب القدر، ۱۷-باب، ۴ / ۶۲، الحدیث: ۲۱۶۲)
تحریر کی ضرورت و اہمیت:
تحریر کی ضرورت واہمیت کا اندازہ ا س حدیث سے بھی لگایا جاسکتا ہے جس میں علم کو لکھ کر محفوظ رکھنے کا فرمایاگیا چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:" قَيِّدُوا الْعِلْمَ بِالْكِتَابَةِ " یعنی "علم کو لکھ کر قید کرلو" (دارمی و مصنف ابن ابی شیبہ)
نبی پاک ﷺ نے قرآن کو تحریر کروایا اوروہ ہستیاں جنہوں نے وحی الٰہی کو تحریر کیا،کاتبان وحی کےلقب سےسرفرازہوئے ،اس سے لکھاریوں کامرتبہ واضح ہوتا ہے، کہ جو جتنی بلندمرتبہ، مفید اور احسن چیز تحریر کرے گا،اسکارتبہ بلند ہوتاجائیگا۔
” علم کو لکھ لیا کرو کیونکہ جب تم لکھو گے نہیں یاد نہیں کر سکو گے۔کہا جاتا ہے کہ" لکھو اور اپنے علم کو بھائیوں میں پھیلاؤ اگر اس دنیا سے چلے جاؤ تو کتابت کو اپنے بیٹوں کیلئے وراثت میں چھوڑو کیونکہ لوگوں پر ایک ایسا پرآشوب دور آئیگا کہ جس میں لوگ اپنے مکتوبات کے علاوہ کسی اور چیز سے مانوس نہیں ہونگے۔"
اشاعتِ اسلام کے سلسلہ میں رسول اکرم ﷺنے بڑے بڑے بادشاہوں کو قلم کے ذریعے سے ہی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔
حضرت عثمان غنی کے دورِ خلافت میں قرآن مجید کے مزید نسخے تیارکروائے گئے اور مختلف ریاستوں میں بھیجاگیا ۔ یہ فن ِ تحریر ہی تھا جس کی وجہ سے ہم تک قرآن اپنی اصلی حالت میں موجود ہےایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے قر آن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمرو نے پہلا مجموعہِ حدیث بنام صحیفہ صادقہ تیار کیا ۔
پھر صحابہ کرام نے نبی کریمﷺ کے اسوہ حسنہ اور آپ ﷺ کی زندگی کے احوال کو جمع ومحفوظ فرمایا جو مسلمانوں کا خاصہ ہے کیوں کہ اس کے قبل کسی نبی کے اصحاب نے اس طرح نبی کے احوال کو جمع نہیں کیا جس طرح نبی کریم ﷺ کے اصحاب نے آپ کی زندگی کے احوال کو جمع فرمایا۔
تحریر ی کام اور اسلاف:
ہمارے اسلاف نے اپنے علم کو تحریر کرنے کا التزام کیا اگر وہ نہ لکھتے تو اسلام کی اصل معلومات ہم تک نہ پہنچتی اگر امام بخاری ومسلم اور دیگر محدثین احادیث کو جمع نہ فرماتے تو رسول اللہ ﷺ کے اقوال ہم تک نہ پہنچتےاسی طرح اگر امام اہلسنّت احمد رضا خان فاضل بریلوی تحریری کام نہ کرتے تو آج ہم جانتے بھی نہ ہوتے کہ عشقِ مصطفیٰ ﷺ کی اصل روح کیا ہے ؟، دین کے اصول و فروع کیا ہیں؟ امام اہلسنّت احمد رضا خان فاضل بریلوی ہی نے اپنی تحریر کے ذریعے اس بات کو واضح کیا کہ اصل اہلسنّت کیا ہے؟ بیشک یہ انہی اسلاف کی محنت تھی اور وہ تحریر کی ضرورت و اہمیت سے بھی واقف تھے اسلاف جانتے تھے کہ انسان مر جاتے ہیں تحریریں ہمیشہ زندہ و باقی رہتی ہیں ۔ کیوں کہ اس دین و اسلام کے تمام اصول و فروع تحریر ہی ذریعے آج تک باقی ہیں یہی وجہ ہے کہ تحریر اسلام میں ہمیشہ بلند مقام پر فائز رہی ہے اور مسلمانوں کے لیے فخر کا باعث رہی ہیں۔
محرر بھی ایک مجاہد ہے:
اسلام کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جو شخص بھی مجاہد، جنگجو اور صاحب شمشیر بنا وہ کسی محرر کی تحریر بڑھ یا سُن کر ہی بنا اگر علامہ اقبال تحریکِ آزادی کے وقت قلم نہ اٹھاتے تو مسلمانوںمیں وہ جوش و ولولہ پیدا نہ ہوتا جو اقبال کے کلام کے بعد پیدا ہوا آج بھی پاک فوج میں حبِّ وطنی اور شہادت کے فضائل پر مصنفین کی تحریریں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں۔جس طرح مجاہد ،جنگجو، صاحب شمشیر اسلام کی سر بلندی کے لیے جہاد کرتے ہے حتی کہ راہِ خدا میں خون کے قطرہِ آخر کو بہانے سے بھی نہیں کتراتے۔ اسی طرح محرر و مصنفیں قلم کی شمشیر اٹھا کر دین اور اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کی خاطر ظلم و ظالم کے مقابلے میں ڈٹ کر مقابلہ کرتا ہے.اور اپنی زندگی کے آخری سانس تک تحریر و تصنیف میں مصروف رہتا ہےتاریخ ایسے مصنفین کے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے زندگی میں کسی کتاب کو لکھنا شروع کیا مگر ان کی زندگی نے ان کا ساتھ نہ دیا اور وہ دنیا ئے فانی سے کوچ کر گئے۔ لکھاری بھی ایک مجاہد ہے چونکہ مسلمان کے لیے امر بالمعروف ونہی عن المنکر ضروری ہے اس لیے جس شخص کو اللہ پاک نے لکھنے کی صلاحیت ودیعت کی ہے ،ضروری ہے کہ وہ اس سے کام لے پھر اگر وہ حق کی سربلندی اور باطل کو جھٹلانے کا کام کرتا رہے تو بلاشبہ وہ جہاد بالقلم کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔
میں تحریر کیوں لکھوں۔۔۔؟
ہمیں تحریر کی اہمیت و افادیت اور ضرورت کو سمجھنا ہوگا۔ عصر حاضر میں جہاں یکے بعد دیگرے فتنے سر اٹھا رہے اور اسلام کے خلاف بھرپور پروپیگنڈہ کیا جارہا ہےاس لیے اشد ضرورت ہے کہ جس شخص کو اللہ پاک نے لکھنے کی صلاحیت دی ہے وہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرے۔ اس دور میں سوشل میڈیا ایک ایسا اہم ہتھیار ہے جس کے ذریعے چھوٹی سی بات لمحوں میں دنیا تک پہنچ جاتی ہے چنانچہ ہمیں تقریر و تحریر ہر دو ذریعے سے اسلام کی سربلندی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ تصاویر و پوسٹرز پر مثبت جملے درج کرنا ہوں یا علمی تحریریں لکھ کر عام کرنی ہوگی آپ لکھنا شروع کریں اپنا حصہ ملانے کی کوشش کریں آپ کا جذبہ و اخلاص اور مشق جلد آپ کو ماہر اور پر اثر لکھاری بنادے گی، اور آپکی کارآمد تحریر ناصرف موجودہ بلکہ آئندہ آنے والی نسلوں کو فائدہ دے گی۔کیونکہ"تحریر زندہ رہتی ہے" اور تحریر ایسی چیز ہے جومحرر کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی تحریری کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین