*روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی 33 احکام*
*روزہ نہ رکھنے کی اجازات پر مبنی 33 احکام*
*✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*
*روزہ نہ رکھنے کی مجبوریاں*
اے عاشقانِ رسول! بعض مجبوریاں ایسی ہیں جن کے سَبَب رَمَضانُ الْمُبارَک میں روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے۔ مگر یہ یاد رہے کہ مجبوری میں روزہ مُعاف نہیں وہ مجبوری ختم ہو جانے کے بعد اس کی قضا رکھنا فرض ہے ، البتّہ قضا کا گناہ نہیں ہوگا جیسا کہ
*بہارِ شریعت جلداوّل صفحہ1002 پر دُرِّمختار کے حوالے سے لکھا ہے:*
کہ سفر و حمل اور بچے کو دُودھ پلانا اور مرض اور بڑھاپا اور خوفِ ہلاکت و اِکراہ *(یعنی اگر کوئی جان سے مار ڈالنے یا کسی عضو کے کاٹ ڈالنے یا سخت مار مارنے کی صحیح دھمکی دے کر کہے کہ روزہ توڑ ڈال اگر روزہ دار جانتا ہو کہ یہ کہنے والا جو کچھ کہتا ہے کر گزرے گا تو ایسی صورت میں روزہ فاسِد کر دینا یا ترک کرنا گناہ نہیں۔ اِکراہ سے مراد یہی ہے)* و نقصانِ عقل اور جہاد یہ سب روزہ نہ رکھنے کے عذر ہیں اِن وجوہ سے اگر کوئی روزہ نہ رکھے تو گُناہ گار نہیں۔
*(دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۲)*
*(وہ مجبوری ختم ہو جانے کی صورت میں ہر روزے کے بدلے ایک روزہ قضا رکھنا ہوگا)*
{۱} مسافر کو روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اِختیار ہے۔ *(رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۶۲)*
{۲} اگر خود اُس مسافر کو اور اُس کے ساتھ والے کو روزہ رکھنے میں ضرر نہ پہنچے تو روزہ رکھنا سفر میں بہتر ہے اور اگر دونوں یا اُن میں سے کسی ایک کو نقصان ہو رہا ہو تو روزہ نہ رکھنا بہتر ہے۔
*(دُرِّمُخْتار ج۳ ص۴۶۵)*
{۳} مسافر نے ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پیشتر اِقامت کی اور ابھی کچھ کھایا نہیں تو روزے کی نیت کر لینا واجب ہے ۔
*(جَوْہَرہ ج۱ ص۱۸۶)*
{۴} دِن میں اگر سفر کیا تو اُس دِن کا روزہ چھوڑ دینے کیلئے آج کا سفر عذر نہیں ۔ البتہ اگر دَورانِ سفر توڑ دیں گے تو کفارہ لازِم نہ آئے گا مگر گناہ ضرور ہوگا۔
*(عالمگیری ج۱ ص۲۰۶)*
اور روزہ قضا کرنا فرض رہے گا۔
{۵} اگر سفر شروع کرنے سے پہلے توڑ دیا پھر سفر کیا تو *(اگر کفارے کے شرائط پائے گئے تو قضا کے ساتھ ساتھ)* کفارہ بھی لازِم آئے گا۔ *(اَیْضاً)*
{۶} اگر دن میں سفر شروع کیا *(اور دَورانِ سفر روزہ توڑا نہ تھا)* اور مکان پر کوئی چیز بھول گئے تھے اسے لینے واپس آئے اور اب اگر آ کر روزہ توڑ ڈالا تو *(شرائط پائے جانے کی صورت میں)* کفارہ بھی واجب ہے ۔ اگر دَورانِ سفر ہی توڑ دیا ہوتا تو صرف قضا رکھنا فرض ہوتا جیسا کہ نمبر4 میں گزرا۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)*
{۷} کسی کو روزہ توڑ ڈالنے پر مجبور کیا گیا تو روزہ تو توڑ سکتا ہے مگر صبر کیا تو اَجر ملے گا۔
*(رَدُّالْمُحتَار ج۳ ص۴۶۲)*
*(مجبوری کی تعریف اوپر بیان کر دی گئی ہے)*
{۸} سانپ نے ڈَس لیا اور جان خطرے میں پڑ گئی تو روزہ توڑ دے ۔ *(اَیضاً)*
{۹} جن لوگوں نے اِن مجبوریوں کے سبب روزہ توڑا اُن پر فرض ہے کہ اُن روزوں کی قضا رکھیں اور اِن قضا روزوں میں ترتیب فرض نہیں ، لہٰذا اگر اُن روزوں کی قضا کرنے سے قبل نفل روزے رکھے تو یہ نفل روزے ہوگئے ، مگر حکم یہ ہے کہ عذر جانے کے بعد آیندہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آنے سے پہلے پہلے قضا رکھ لیں ۔
*حدیثِ پاک میں فرمایا:*
جس پر گزشتہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی قضا باقی ہے اور وہ نہ رکھے ، اُس کے اِس رَمَضانُ الْمبارَک کے روزے قبول نہ ہوں گے۔
*(مسند امام احمد ج۳ ص۲۶۶ حدیث۸۶۲۹)*
اگر وَقت گزرتا گیا اور قضا روزے نہ رکھے یہاں تک کہ دُوسرا رَمضان شریف آگیا تو اب قضا روزے رکھنے کے بجائے پہلے اِسی رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے رکھ لیجئے ، قضا بعد میں رکھ لیجئے۔ بلکہ اگر غیر مریض و مسافر نے قضا کی نیت کی جب بھی قضا نہیں بلکہ اِسی رَمضان شریف کے روزے ہیں۔
*(دُرِّ مُختار ج۳ ص۴۶۵)*
{۱۰} بھوک اور پیاس ایسی ہو کہ ہلاک *(یعنی جان چلی جانے)* کا خوفِ صحیح ہو یا نقصان عقل کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے ۔
*(دُرِّمُختار ، ردُّ الْمُحتار ج۳ ص۴۶۲)*
*فاسق یا غیر مسلم ڈاکٹر روزہ نہ رکھنے کا مشورہ دے تو؟*
{۱۱} فقہائے کرام نے روزہ نہ رکھنے کیلئے جو رُخصتیں بیان کی ہیں ان میں یہ بھی داخل ہے کہ مریض کو مرض بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے یا تندرست کو بیمار ہو جانے کا گمانِ غالب ہو تو اِجازت ہے کہ اُس دِن روزہ نہ رکھے۔ اس گمانِ غالِب کے حصول *(یعنی حاصل کرنے)* کی تیسری صورت کسی مسلمان ، حاذِق طبیب مستور یعنی غیر فاسِق ماہر ڈاکٹر کی خبر بھی ہے لیکن فی زمانہ ایسے طبیب *(ڈاکٹر)* کا ملنا بہت ہی مشکل ہے تو اب ضرورتِ زمانہ کا لحاظ کرتے ہوئے اس بات کی اجازت ہے کہ اگر کوئی قابلِ اعتماد فاسق یا غیر مسلم طبیب *(ڈاکٹر)* بھی روزہ رکھنے کو صحت کیلئے نقصان دِہ قرار دے اور روزہ ترک کرنے کا کہے اور مریض بھی اپنی طرف سے ظن و تحری *(یعنی اچھی طرح غور)* کرے جس سے اُسے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا ہی سمجھ آئے تو اب اگر اس نے اپنے ظنِّ غالِب *(یعنی مضبوط سوچ)* پر عمل کرتے ہوئے روزہ توڑا یا روزہ نہ رکھا تو اسے گناہ نہیں ہوگا اور روزہ توڑنے کی صورت میں کفارہ بھی اس پر لازِم نہ ہوگا مگر قضا بہر صورت ضرور فرض ہوگی اور تحری *(یعنی غور کرنے)* میں یہ بھی ضروری ہے کہ مریض کا دل اِس بات پر جمے کہ یہ طبیب خواہ مخواہ روزہ توڑنے کا نہیں کہہ رہا اور اس میں بھی
بہتریہ ہوگا کہ ایک سے زائد ڈاکٹرز سے رائے لے۔
{۱۲} روزے کی حالت میں حیض یا نفاس شروع ہو گیا تو وہ روزہ جاتا رہا اس کی قضا رکھے ، فرض تھا تو قضا فرض ہے اور نفل تھا تو قضا واجب۔
حیض و نفاس کی حالت میں سجدۂ شکر و سجدۂ تلاوت حرام ہے اور آیت سجدہ سننے سے اس پر سجدہ واجب نہیں۔
*(بہارشریعت ج۱ص۳۸۲)*
{۱۳} حیض یا نفاس کی حالت میں نماز ، روزہ حرام ہے اور ایسی حالت میں نَماز و روزہ صحیح ہوتے ہی نہیں ۔ نیز تلاوت قراٰنِ پاک یا قراٰنِ پاک کی آیاتِ مقدَّسہ یا اُن کا ترجمہ چھونا یہ سب بھی حرام ہے۔ *(ایضاًص۳۷۹ ، ۳۸۰)*
{۱۴} حیض یا نفاس والی کے لئے اِختیار ہے کہ چھپ کر کھائے یا ظاہراً ، روزہ دار کی طرح رہنا اُس پر ضَروری نہیں ۔
*(جوہرہ ج۱ ص۱۸۶)*
{۱۵} مگر چھپ کر کھانا بہتر ہے خصوصاً حیض والی کے لئے ۔
*(بہارشریعت ج۱ص۱۰۰۴)*
{۱۶} حمل والی یا دُودھ پلانے والی عورت کو اگر اپنی یا بچے کی جان جانے کا صحیح اَندیشہ ہے تو اجازت ہے کہ اِس وقت روزہ نہ رکھے ، خواہ دُودھ پلانے والی بچے کی ماں ہو یا دائی ، اگرچہ رَمَضانُ الْمُبارَک میں دُودھ پلانے کی نوکری اِختیار کی ہو۔
*(دُرِّمُختار ، ردُّ الْمُحتار ج۳ص۴۶۳)*
*عمر رسیدہ بُزُرگ کے روزے*
{۱۷} *شیخِ فانی* یعنی وہ معمر بزرگ جن کی عمر ایسی ہو گئی کہ اب وہ روز بروز کمزور ہی ہوتے جائیں گے ، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز *(یعنی مجبور و بے بس)* ہو جائیں یعنی نہ اب رکھ سکتے ہیں نہ آیِندہ روزے کی طاقت آنے کی اُمید ہے اُنہیں اب روزہ نہ رکھنے کی اِجازت ہے ، لہٰذا ہر روزے کے بدلے میں *فدیہ* یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اُس پر واجب ہے یا ہر روزے کے بدلے ایک صَدَقۂ فِطْر کی مقدار مسکین کو دے دیں۔
*(دُرِّمُختار ج ۳ ص ۴۷۱)*
*(صدقۂ فطر کی ایک مقدار 2 کلو میں 80 گرام کم گیہوں یا اُس کا آٹا یا اُن گیہوں کی رقم ہے)*
{۱۸} اگر ایسا بوڑھا گرمیوں میں روزے نہیں رکھ سکتا تو نہ رکھے مگر اِس کے بدلے سردیوں میں رکھنا فرض ہے۔
*(ردُّالْمُحتار ج۳ ص۴۷۲)*
{۱۹} اگر فدیہ دینے کے بعد روزہ رکھنے کی طاقت آگئی تو دیا ہوا فدیہ صَدَقۂ نفل ہو گیا۔ اُن روزوں کی قضا رکھیں ۔
*(عالمگیری ج۱ص۲۰۷)*
{۲۰} یہ اِختیار ہے کہ شروعِ رَمضان ہی میں پورے رَمضان *(کے تمام روزوں ) کا ایک دَم فدیہ دے دیں یا آخِر میں (سب اِکٹّھے دے)* دیں ۔
*(دُرِّمُختار ج۳ ص۴۷۲)*
{۲۱} فدیہ دینے میں یہ ضروری نہیں کہ جتنے فدیے ہوں اُتنے ہی مَساکین کو الگ الگ دیں ، بلکہ ایک ہی مسکین کو کئی دِن کے *(ایک ساتھ)* بھی دیئے جاسکتے ہیں۔
*(اَیضاً)*
*
{۲۲} نفل روزہ قصداً شروع کرنے والے پر اب پورا کرنا واجب ہو جاتا ہے کہ توڑ دیا تو قضا واجب ہوگی۔
*(ردُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۴۷۳)*
{۲۳} اگر آپ نے یہ گمان کر کے روزہ رکھا کہ میرے ذِمے کوئی روزہ ہے مگر روزہ شروع کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ مجھ پر کسی قسم کا کوئی روزہ نہیں ہے ، اب اگر فوراً توڑ دیا تو کچھ نہیں اور یہ معلوم کرنے کے بعد اگر فوراً نہ توڑا ، تو اب نہیں توڑ سکتے ، اگر توڑیں گے تو قضا واجب ہوگی۔
*(دُرِّمُختار ج۳ ص۴۷۳)*
{۲۴} نفل روزہ قصداً *(یعنی جان بوجھ کر)* نہیں توڑا بلکہ بلا اِختیار ٹوٹ گیا ، مَثَلاً دَورانِ روزہ عورت کو حیض آ گیا ، جب بھی قضا واجب ہے۔
*(اَیضاًص۴۷۴)*
*سال میں پانچ روزے حرام ہیں*
{۲۵} عید الفطر یا بقر عید کے چار دِن *یعنی 10، 11، 12، 13 ذُوالحِجّۃِ الْحرام* میں سے کسی بھی دِن کا روزہ نفل رکھا تو *(چونکہ اِن پانچ دِنوں میں روزہ رکھنا حرام ہے لہٰذا)* اِس روزے کا پورا کرنا واجب نہیں ، نہ اِس کے توڑنے پر قضا واجب ، بلکہ اِس کا توڑ دینا ہی واجب ہے اور اگر اِن دِنوں میں روزہ رکھنے کی منت مانی تو منت پوری کرنی واجب ہے مگر اِن دِنوں میں نہیں بلکہ اور دِنوں میں۔
*(ردُّ الْمُحتار ج۳ ص۴۷۴)*
{۲۶} نفل روزہ بلا عذر توڑ دینا نا جائز ہے ، مہمان کے ساتھ اگر میزبان نہ کھائے گا تو اُسے ناگوار ہوگا یا مہمان اگر کھانا نہ کھائے گا تو میزبان کو اَذِیت ہوگی تو نفل روزہ توڑ دینے کیلئے یہ عذر ہے ، بشرطیکہ یہ بھروسا ہو کہ اِس کی قضا رکھ لے گا اور ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے توڑ دے بعد کو نہیں ۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۱۰۰۷ ، عالمگیری ج۱ ص۲۰۸)*
*دعوت کے سبب روزہ توڑنا*
{۲۷} دعوت کے سبب ضَحْوَۂ کُبریٰ سے پہلے *(نفل)* روزہ توڑ سکتا ہے جبکہ دعوت کرنے والا محض *(یعنی صرف)* اس کی موجودَگی پر راضی نہ ہو اور اس کے نہ کھانے کے سبب ناراض ہو بشرطیکہ یہ بھروسا ہو کہ بعد میں رکھ لے گا ، لہٰذا اب روزہ توڑ لے اور اُس کی قضا رکھے۔ لیکن اگر دعوت کرنے والا محض *(یعنی صرف)* اس کی موجودَگی پر راضی ہو جائے اور نہ کھانے پر ناراض نہ ہو تو روزہ توڑنے کی اجازت نہیں ۔ *(عالمگیری ج۱ ص۲۰۸)*
{۲۸} نفل روزہ زَوَال کے بعد ماں باپ کی ناراضی کے سبب توڑ سکتا ہے ، اور اِس میں عصر سے پہلے تک توڑ سکتا ہے بعد عصر نہیں ۔
*(دُرِّمُخْتار ، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۷)*
*بیوی بِلا اجازتِ شوہر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی*
{۲۹} عورت بغیر شوہر کی اِجازت کے نفل اور منت و قسم کے روزے نہ رکھے اور رکھ لئے تو شوہر تڑوا سکتا ہے مگر توڑے گی تو قضا واجب ہوگی مگر اِس کی قضا میں بھی شوہر کی اِجازت دَرکار ہے۔ یا شوہر اور اُس کے دَرمیان جدائی ہو جائے یعنی طلاقِ بائن
*(طلاقِ بائن: اُس طلاق کو کہتے ہیں جس سے بیوی نکاح سے باہر ہو جاتی ہے ، اب شوہر رُجوع نہیں کر سکتا)* دے دے یا مر جائے ۔ ہاں اگر روزہ رکھنے میں شوہر کا کچھ حرج نہ ہو ، مَثَلاً وہ سفر میں ہے یا بیمار ہے یا اِحرام میں ہے تو ان حالتوں میں بغیر اِجازت کے بھی قضا رکھ سکتی ہے بلکہ وہ منع کرے جب بھی رکھ سکتی ہے۔ البتہ اِن دنوں میں بھی شوہر کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔
*(رَدُّالْمحتار ج۳ ص۴۷۷ ، ۴۷۸)*
{۳۰} رَمَضانُ الْمُبارَک اور قضائے رَمَضانُ الْمُبارَک کیلئے شوہر کی اِجازت کی کچھ ضرورت نہیں بلکہ اُس کی ممانعت پر بھی رکھے۔
*(دُرِّمُخْتار ، رَدُّالْمُحتَار ج۳ص۴۷۸)*
{۳۱} اگر آپ کسی کے ملازِم ہیں یا اُس کے یہاں مزدوری پر کام کرتے ہیں تو اُس کی اِجازت کے بغیر نفل روزہ نہیں رکھ سکتے کیوں کہ روزے کی وجہ سے کام میں سستی آئے گی۔ ہاں روزہ رکھنے کے باوُجود آپ باقاعدہ کام کر سکتے ہیں ، اُس کے کام میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہوتی ، کام پورا ہو جاتا ہے تو اب نفل روزے کی اِجازت لینے کی ضَرورت نہیں ۔
*(ردُّالْمحتار ج۳ ص۴۷۸)*
{۳۲} نفل روزے کیلئے بیٹی کو باپ ، ماں کو بیٹے ، بہن کو بھائی سے اِجازت لینے کی ضرورت نہیں ۔ *(اَیضاً)*
{۳۳} ماں باپ اگر بیٹے کو روزئہ نفل سے منْع کر دیں اِس وجہ سے کہ مَرض کا اندیشہ ہے تو ماں باپ کی اِطاعت کرے۔ *(اَیضاً)*