کعبہ معظمہ کے فضائل
کعبہ معظمہ کے فضائل
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا :
اس شہر کو اللہ نے حرم قرار دیا ہے ‘ اس کے کانٹوں کو (بھی) نہیں کاٹا جائے گا ‘ نہ اس کے جانوروں کو بھگایا جائے گا اور نہ اعلان کرنے والے کے علاوہ کوئی شخص اس کی گری ہوئی چیز اٹھائے گا۔
(صحیح بخاری ج ١ ص ٢١٦)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک اور روایت میں ہے
نہ اس کی گھاس کاٹی جائے گی نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے۔
(صحیح بخاری ج ١ ص ١٨٠)
ہر چند کہ اس حدیث میں مکہ مکرمہ کی فضیلت ہے لیکن مکہ مکرمہ کی یہ فضیلت کعبہ کی وجہ سے ہے اور کعبہ ہی کی وجہ سے مکہ کو حرم بنایا گیا ہے۔
امام عبدالرزاق بن ہمام متوفی ٢١١ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے بیت اللہ کا طواف کیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور سوائے نیکی کے اور کوئی بات نہ کی تو اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اگر لوگ ایک سال تک اس بیت کی زیارت نہ کریں تو وہ بارش سے محروم ہوجائیں گے۔
سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے بیت المقدس کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے اس کی فضیلت کے متعلق احادیث بیان کیں
شام کے ایک آدمی نے ان سے کہا : اے ابو عباس ! آپ بیت المقدس کا بہت ذکر کرتے ہیں اور بیت اللہ کا اتنا ذکر نہیں کرتے ؟ کعب نے ان سے کہا کہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں کعب کی جان ہے ! اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین پر اس بیت سے افضل کوئی بیت پیدا نہیں کیا ‘ اس بیت کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں ‘ اور وہ ان سے کلام کرتا ہے ‘ اور اس کا ایک دل ہے جس سے وہ تعقل (سمجھتا)کرتا ہے یہ سن کر ابو حفص نام کے ایک شخص نے کہا کیا پتھر کلام کرتا ہے ‘ کعب نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے !
کعبہ نے اپنے رب سے یہ شکایت کی کہ میری زیارت کرنے والے اور میری طرف آنے والے کم ہوگئے
اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف یہ وحی کی کہ میں تمہاری طرف ایک نئی تورات نازل کروں گا ‘ اور ایسے بندے بھیجوں گا جو رات کو جاگ کر سجدے کریں گے ‘ اور تمہارے فراق میں روئیں گے اور تمہاری طرف دوڑتے ہوئے آئیں گے ‘ اور جس نے تمہارے گرد سات طواف کیے اس کو ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملے گا اور جو اس بیت کے گرد سر منڈائے گا قیامت کے دن اس کو ہر بال کے بدلہ میں ایک نور حاصل ہوگا۔
(المصنف ج ٥ ص ١٤۔ ١٣)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ ہر روز کعبہ کے گرد ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔ ساٹھ رحمتیں کعبہ کا طواف کرنے والوں کے لیے ‘ چالیس اعتکاف کرنے والوں کے لیے اور بیس رحمتیں کعبہ کو دیکھنے والوں کے لیے۔
(المعجم الکبیر ج ١١ ص ‘ ١٠٣)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا میری مسجد میں نماز پڑھنا ایک ہزار نمازوں سے افضل ہے ماسوا مسجد حرام (کعبہ) کے۔
(صحیح بخاری ج ١ ص ١٥٩)
امام ابن ماجہ روایت کرتے ہیں :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی شخص کا اپنے گھر میں نماز پڑھنا ایک نماز ہے اور محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنا پچیس نمازوں کے برابر ہے ‘ اور جامع مسجد میں نماز پڑھنا پانچ سو نمازوں کے برابر ہے اور میری مسجد میں نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے اور مسجد حرام میں نماز پڑھنا ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔
(سنن ابن ماجہ ص ١٠٢)
حافظ ابو عمرو ابن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں :
عام محدثین یہ کہتے ہیں کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد سے سو گنا افضل ہے اور باقی مساجد سے ایک لاکھ گنا افضل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد میں نماز پڑھنا باقی مساجد سے ایک ہزار گنا افضل ہے۔
(الاستذکار ج ٧ ص ٢٢٦)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا صرف تین مساجد کی طرف سفر کیا جائے گا ‘ مسجد حرام ‘ مسجد رسول اور مسجد اقصی۔
(صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ١٥٨)
امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں :
شہربن حوشب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے سامنے طُور پر جا کر نماز پڑھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کسی سفر کرنے والے کے لیے کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرنا جائز نہیں ہے ماسوا مسجد حرام ‘ مسجد اقصی اور میری مسجد کے ‘ الحدیث (مسند احمد ج ٣ ص ٦٤‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)
حافظ ابن حجر عسقلانی اور حافظ بدرالدین عینی نے لکھا کہ اس حدیث کی سند حسن ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی اور حافظ بدرالدین عینی نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین مسجدوں کے علاوہ مطلقا سفر کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ کسی اور مسجد کی خصوصیت کی وجہ سے اس میں نماز پڑھنے کے قصد سے سفر کرنے سے منع فرمایا ہے ‘ اس لیے روز گار ‘ علم دین کے حصول اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے سفر کرنا جائز ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی لکھتے ہیں :
لہذا ان لوگوں کا قول باطل ہے جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر شریف اور دیگر صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنے سے منع کیا ہے
علامہ بدرالدین محمودبن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :
طلب علم ‘ تجارت ‘ نیک لوگوں اور متبرک مقامات کی زیارت کے لیے سفر کرنا ممنوع نہیں ہے ‘ نیز لکھا ہے کہ قاضی ابن کج نے کہا ہے کہ اگر کسی شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کی زیارت کے لیے نذر مانی تو اس نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٧ ص ٢٥٤)
امام ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص نیکی کرتا ہوا بیت اللہ میں داخل ہو وہ اپنے گناہوں سے بخشا ہوا بیت اللہ سے نکلے گا۔
(المعجم الکبیر ج ١١ ص ١٤٢ )
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص بیت اللہ میں داخل ہوا وہ بخشا ہوا نکلے گا۔
علامہ عز الدین بن جماعہ الکنانی متوفی ٧٦٧ ھ لکھتے ہیں :
امام ابو سعید جندی فضائل مکہ میں اور امام واحدی اپنی تفسیر میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے بیت اللہ کے گرد سات طواف کئے اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی ‘ اور زمزم کا پانی پیا اس کے گناہ جتنے بھی ہوں معاف کردیئے جائیں گے۔
امام ازرقی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص بیت اللہ میں طواف کے ارادہ سے نکلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کا استقبال کرتی ہے ‘ اور جب وہ بیت اللہ میں داخل ہوتا ہے تو اللہ کی رحمت اس کو ڈھانپ لیتی ہے ‘ اور اس کے ہر قدم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ پانچ سو نیکیاں لکھ دیتا ہے اور اس کے پانچ سو گناہ مٹا دیتا ہے ‘ اور اس کے لیے پانچ سودرجات بلند کردیتا ہے اور جب وہ طواف سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھتا ہے ‘ تو وہ گناہوں سے اسی طرح پاک ہوجاتا جیسے اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا اور اس کے لیے اولاد اسماعیل سے دس غلاموں کے آزاد کرنے کا اجر لکھ دیا جاتا ہے اور حجر اسود کے قریب ایک فرشتہ اس کا استقبال کرکے کہتا ہے تم اپنے پچھلے عملوں سے فارغ ہوگئے ‘ اب از سر نو عمل شروع کرو ‘ اور اس کو اس کے خاندان کے ستر نفوس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے گی
امام ابن ماجہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے بیت اللہ کے سات طواف کئے ‘ اور اس نے ان کلمات کے سوا اور کوئی کلام نہیں کیا :
سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر ولا حول ولا قوۃ الا باللہ
اس کے دس گناہ مٹا دیئے جائیں گے اور اس کے لیے دس نیکیاں لکھ دی جائیں گی اور جس نے یہ کلمات پڑھتے ہوئے طواف کیا وہ اللہ کی رحمت میں ڈوبا ہوا طواف کرے گا۔
امام فاکہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ستر ہزار فرشتوں نے کعبہ کا احاطہ کیا ہوا ہے وہ طواف کرنے والوں کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں۔
قاضی عیاض نے شفاء میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نماز پڑھی اس کے اگلے اور پچھلے گناہ معاف کردیئے جائیں گے اور قیامت کے دن اس کا امن والوں میں حشر کیا جائے گا۔
امام ترمذی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جس شخص نے بیت اللہ کے گرد پچاس طواف کیے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جیسے وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔
اس حدیث سے مراد پچاس مرتبہ سات طواف کرنا ہے ‘
کیونکہ صرف ایک طواف کے ساتھ عبادت نہیں کی جاتی ‘ امام عبدالرزاق اور امام فاکہی نے یہ روایت کیا ہے کہ جس نے پچاس مرتبہ سات طواف کیے تو وہ اس دن کی طرح ہوجائے گا جس دن وہ اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو ‘
اور یہ مراد نہیں ہے کہ وہ پچاس مرتبہ سات طواف ایک ہی وقت میں کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے صحیفہ اعمال میں پچاس بار سات طواف کرنے کا عمل ہونا چاہیے۔
امام سعید بن منصور نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے کہ جس شخص نے بیت اللہ کا حج کیا اور پچاس مرتبہ سات طواف کیے وہ اس طرح پاک ہو کر لوٹے گا جس طرح اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔
امام سعید بن منصور نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جو شخص بیت اللہ میں آیا اور وہ اسی بیت کا ارادہ کر کے آیا تھا پھر اس نے طواف کیا تو وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے گا جس طرح اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نزدیک آسمان پر اس کے سب سے معزز فرشتے وہ ہیں جو اس کے عرش کے گرد طواف کرتے ہیں اور زمین پر اس کے نزدیک سب سے معزز وہ انسان ہیں جو اس کے بیت کے گرد طواف کرتے ہیں۔
(ہدایہ السالک الی المذاہب الاربعہ ج ١ ص ٥٥)
علامہ عزالدین بن جماعہ الکنانی لکھتے ہیں :
بیت اللہ کی آیات میں سے یہ ہیں کہ دلوں میں اس کی ہیبت واقع ہوتی ہے اس کے پاس دل جھک جاتے ہیں ‘ اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں ‘ پرندے اس کے اوپر نہیں اڑتے اور اس پر بیٹھتے نہیں ہیں ‘ البتہ اگر کوئی پرندہ بیمار ہو تو طلب شفاء کے لیے اس کے اوپر بیٹھ جاتا ہے۔
حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں منی پر تعجب ہوتا ہے یہ بہت تنگ جگہ ہے لیکن جب لوگ یہاں آتے ہیں تو یہ وسیع ہوجاتی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا منی رحم ( عورت کی بچہ دانی )کی طرح ہے ‘ جب عورت کو حمل ہوتا ہے تو اللہ سبحانہ اس کو وسیع کردیتا ہے۔
(ہدایہ السالک الی المذاہب الاربعہ ج ١ ص ٣٩۔ ٣٧ )
(تبیان القرآن تحت تفسیر سورہ آل عمران ایت نمبر 97)
پیشکش:
محمد ساجد مدنی