یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

صدقۂ فطر کے ضروری احکام



*صدقۂ فطر کے ضروری احکام*


✍🏻غــــلام نبی انجـم رضـــا عطاری*
*_📲03461934584_*

*صدقۂ فطر واجب ہے:*

سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو حکم دیا کہ جا کر مکّۂ مُعَظّمہ کے گلی کوچوں میں اِعلان کر دو ، *صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔* 
*( تِرمذی ج۲ ص۱۵۱ حدیث۶۷۴)*

*فطرے کے 16 احکام*

 {۱} صَدَقَۂِ فِطْر ان تمام مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے جو صاحب نصاب ہوں اور اُن کا نصاب حاجاتِ اَصلیہ *(یعنی ضروریاتِ زندگی مَثَلاً رہنے کا مکان ، خانہ داری کا سامان وغیرہ)* سے فارِغ ہو۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۱)*

 {۲} جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باوَن تولہ چاندی یا ساڑھے بَاوَن تولہ چاندی کی رقم یا اتنی مالیت کا مالِ تجارت ہو *( اور یہ سب حاجاتِ اَصْلِیَّہ سے فارِغ ہوں )* یا اتنی مالیَّت کا حاجتِ اَصلِیَّہ کے علاوہ سامان ہو اُس کو صاحِبِ نِصاب کہا جاتا ہے ۔

 {۳} صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہونے کیلئے ، عاقل و بالغ ہونا شرط نہیں ۔ بلکہ بچہ یا مَجْنُون *(یعنی پاگل)* بھی اگر صاحبِ نصاب ہو تو اُس کے مال میں سے اُن کا وَلی *(یعنی سرپرست)* ادا کرے۔
*(ردّالْمُحتار ۳ ص۳۶۵)*

صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مقدارِ نصاب تو وُہی ہے جو زکوٰۃ کا ہے جیسا کہ مذکور ہوا لیکن فرق یہ ہے کہ صَدَقَۂِ فِطْر کے لئے مال کے نامی *(یعنی اس میں بڑھنے کی صلاحیت)* ہونے اور سال گزرنے کی شرط نہیں ۔ اسی طرح جو چیزیں ضرورت سے زیادہ ہیں *(مَثَلاً عمومی ضرورت سے زیادہ کپڑے ، بے سلے جوڑے ، گھریلو زینت کی اشیا وغیرہا)* اور ان کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہو تو ان اشیا کی وجہ سے صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے۔
*(وقار الفتاویٰ ج۲ ص ۳۸۶ملَخَّصاً)*

 {۴} مالک نصاب مرد پر اپنی طرف سے ، اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون *(یعنی پاگل)* اولاد ہے *(چاہے وہ پاگل اولاد بالغ ہی کیوں نہ ہو)* تو اُس کی طرف سے بھی صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، ہاں اگر وہ بچہ یا مَجْنُون خود صاحِب نصاب ہے تو پھر اُس کے  مال میں سے فطرہ ادا کر دے۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۲ مُلَخَّصاً)* 

 {۵} مرد صاحب نصاب پر اپنی بیوی یا ماں باپ یا چھوٹے بھائی بہن اور دیگر رِشتے داروں کا فطرہ واجب نہیں ۔
*(ایضاً ص۱۹۳ ملَخَّصاً)*

 {۶} والد نہ ہو تو دادا جان والد صاحِب کی جگہ ہیں ۔ یعنی اپنے فقیر و یتیم پوتے پوتیوں کی طرف سے اُن پہ صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجِب ہے۔ 
*(دُرَّمُختار ج۳ ص۳۶۸)*

{۷} ماں پر اپنے چھوٹے بچوں کی طرف سے صَدَقَۂِ فِطْر دینا واجب نہیں ۔
*( رَدُّ الْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۸)*

 {۸} باپ پر اپنی عاقِل بالِغ اولاد کا فِطْرہ واجِب نہیں ۔
*(دُرِّمُختار مع رَدِّالْمُحتار ج۳ ص۳۷۰)*

 {۹} کسی صحیح شرعی مجبوری کے تحت روزے نہ رکھ سکا یا مَعَاذَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بغیر مجبوری کے رَمَضانُ الْمُبارَک کے روزے نہ رکھے اُس پر بھی صاحب نصاب ہونے کی صورت میں صَدَقَۂِ فِطْر واجِب ہے۔  *(رَدّالْمُحتار ج ۳ ص ۳۶۷)*

 {۱۰} بیوی یا بالغ اولاد جن کا نفقہ وغیرہ *(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ کا خرچ)* جس شخص کے ذِمے ہے ، وہ اگر اِن کی اجازت کے بغیر ہی اِن کا فطرہ ادا کر دے تو ادا ہو جائے گا ۔ ہاں اگر نفقہ اُس کے ذِمے نہیں ہے مَثَلاً بالِغ بیٹے نے شادی کر کے  گھر الگ بسا لیا اور اپنا گزارہ خود ہی کر لیتا ہے تو اب اپنے نان نفقے *(یعنی روٹی کپڑے وغیرہ)* کا خود ہی ذِمے دار ہوگیا ہے۔ لہٰذا ایسی اولاد کی طرف سے بغیر اجازت فطرہ دے دیا تو ادا نہ ہوگا۔

 {۱۱} بیوی نے بغیر حکمِ شوہر اگر شوہر کا فطرہ ادا کر دیا تو ادا نہ ہوگا۔
*(بہار شریعت ج۱ ص۳۹۸ مُلَخَّصاً)*

 {۱۲} عِیدُ الْفِطْر کی صبح صادِق طلوع ہوتے وَقت جو صاحبِ نصاب تھا اُسی پر صَدَقَۂِ فِطْر واجب ہے ، اگر صبحِ صادِق کے  بعد صاحبِ نصاب ہوا تو اب واجب نہیں ۔
*(عالمگیری ج۱ص۱۹۲)*

 {۱۳} صَدَقَۂِ فِطْر ادا کرنے کا اَفضل وَقت تو یِہی ہے کہ عید کو صبح صادِق کے بعد عید کی نماز ادا کرنے سے پہلے پہلے ادا کر دیا جائے ، اگر چاند رات یا رَمَضانُ الْمُبارَک کے کسی بھی دِن بلکہ رَمضان شریف سے پہلے بھی اگر کسی نے ادا کر دیا تب بھی فطرہ ادا ہوگیا اور ایسا کرنا بالکل جائز ہے۔  *(اَیضاً)*

 {۱۴} اگر عید کا دِن گزر گیا اور فطرہ ادا نہ کیا تھا تب بھی فطرہ ساقط نہ ہوا ، بلکہ عمر بھر میں جب بھی ادا کریں ادا ہی ہے ۔
*(اَیضاً)*

 {۱۵} صَدَقَۂِ فِطْر کے مصارِف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں ۔ یعنی جن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فطرہ بھی نہیں دے سکتے۔
*(اَیضاً ص۱۹۴ مُلَخّصاً)*

 {۱۶} سادات کرام کو صَدَقَۂِ فِطْر نہیں دے سکتے۔ کیوں کہ یہ بنی ہاشم سے ہیں ۔ *بہارِ شریعت جلد اوّل صفحہ931 پر ہے:*  بنی ہاشم کو زکاۃ *(فطرہ)* نہیں دے سکتے ۔ نہ غیر انھیں دے سکے ، نہ ایک ہاشمی دوسرے ہاشمی کو ۔ بنی ہاشم سے مراد حضرت علی و جعفر و عقیل اور حضرت عباس و حارث بن عبدالمطلب کی اولادیں ہیں ۔   

*صدقۂ فطر کی مقدار :*

گیہوں یا اس کا آٹا یا ستو آدھا صاع *(یعنی دو کلو میں 80 گرام کم)* *(یا ان کی قیمت)* ،  کھجور یا مُنَـقّٰی یا جو یا اس کا آٹا یا ستو ایک صاع *(یعنی چار کلو میں 160 گرام کم)* *(یا ان کی قیمت)* یہ ایک صَدَقَۂِ فِطْر کی مقدار ہے۔
*(عالمگیری ج۱ ص۱۹۱، دُرِّمُختارج۳ص۳۷۲)*

*موجود مقدار گیہوں کے اعتبار سے 150* پاکستانی روپے ہیں
*(دار الافتاء اہلسنت دعوت اسلامی)*