یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

روزے کے اسرار اور اس کی باطنی شرائط


*روزے کے اسرار اور اس کی باطنی شرائط* 


_از قلم ، حجۃ الاسلام امام محمد بن محمد غزالی شافعی علیہ الرحمۃ_

جان لیجئے کہ روزے کے تین درجے ہیں: 

(۱)…عوام کا روزہ (۲)…خواص کاروزہ اور (۳)…اخص الخواص کا روزہ۔

تفصیل:
عام لوگوں : کا روزہ یہ ہے کہ بدن اور شرمگاہ کو خواہش پوری کرنے سے روکنا ہے۔
خاص لوگوں : کا روزہ(کھانے پینے اور جماع سے رکنے کے ساتھ ساتھ) کان، آنکھ، زبان، ہاتھ، پاؤں اور تمام اعضاء کو گناہوں سے روکنا ہے ۔
خاص الخاص لوگوں : کا روزہ دل کو برے خیالات اور دنیوی فکروں بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سوا ہر چیز سے مکمل طور پر خالی کر نا ہے ۔اس صورت میں جب اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور قیامت کے سوا کوئی دوسری فکر یا دنیوی فکر آئے گی تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ البتہ اگر دنیوی فکر دین کے لئے ہو تو اس کا حکم مختلف ہے کیونکہ یہ زادِ آخرت سے ہے نہ کہ دنیا سے ۔بعض اہلِ دل حضرات کا قول ہے کہ ’’ جو شخص دن کے وقت یہ بات سوچے کہ کس چیز سے افطار کروں گا تو اس پر خطا لکھ دی جاتی ہے کیونکہ یہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے فضل اور اس کے رزقِ موعود (یعنی اس نے رزق دینے کا جو وعدہ فرمایا ہے اس ) پر کامل یقین نہ ہونے کی دلیل ہے۔‘‘
یہ (تیسرااور آخری درجہ) انبیا ، صدیقین اور مقربین عَلَـیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامکا رتبہ ہے اس کی تفصیل میں زیادہ کلام نہیں کیا جائے گالیکن اس کی عملی تحقیق بیان کی جائے گی کیونکہ یہ روزہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف لو لگانے اور مکمل طور پرغیراللّٰہ سے کنارہ کش ہونے سے حاصل ہوتا ہے جبکہ بندہ اس ارشادِ باری تعالیٰ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے:

قُلِ اللہُ ۙ ثُمَّ ذَرْہُمْ فِیۡ خَوْضِہِمْ یَلْعَبُوۡنَ ﴿۹۱﴾ (پ۷،الانعام:۹۱)
ترجمۂ کنز الایمان:اللّٰہ کہوپھر انہیں چھوڑ دو ان کی بیہودگی میں کھیلتا۔

خاص لوگوں کا روزہ اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہُ السَّلَام کا روزہ ہے اور وہ یہ کہ اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچانا۔ یہ روزہ چھ باتوں سے مکمل ہوتا ہے:

{1}…آنکھ کا روزہ:ان چیزوں کو دیکھنے سے بچنا جو بری اور مکروہ ہیں اورنظر کوہر اس چیز سے بچاناجو دل کو (دنیاوی کاموں میں ) مشغول کر کے ذکر ِالٰہی سے غافل کر دے۔ چنانچہ، سرکارِ مدینہ، راحت ِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ نظر ابلیس ملعون کے بجھے ہوئے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔ جس نے خوف کے سبب  بدنگاہی کو ترک کر دیا اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اسے ایسا ایمان عطا فرمائے گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔‘‘

حضرت سیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب، مُنَــزَّ ہٌ عَنِ الْعُیُوْب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ چیزیں روزہ دار کا روزہ توڑ دیتی ہیں : (۱)…جھوٹ (۲)…غیبت (۳)…چغلی (۴)…جھوٹی قسم اور (۵)…شہوت سے دیکھنا۔

{2}…زبان کا روزہ:زبان کو بیہودہ گفتگو کرنے، جھوٹ، غیبت، چغلی، فحش گوئی، ظلم، لڑائی، ریاکاری اور خاموشی اختیار کرنے سے بچاکر ذکر ِ الٰہی اور تلاوتِ قراٰن میں مشغول رکھنا۔
حضرت سیِّدُنا بشر بن حارث حافی عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْکَافِی نے حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِیسے نقل فرمایا کہ ’’غیبت روزے کو فاسد کر دیتی ہے۔‘‘
حضرت سیِّدُنا لیث  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ حضرت سیِّدُنا مجاہد عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْوَاحِدسے نقل فرماتے ہیں کہ ’’دو خصلتیں غیبت اور جھوٹ روزے کو فاسد کر دیتی ہیں ۔‘‘
حضور نبی ٔ پاک، صاحب لولاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک روزہ ڈھال ہے۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی روزہ دار ہو تو نہ بے حیائی کی بات کرے، نہ جہالت کی اور اگر کوئی شخص اس سے لڑائی جھگڑا یا گالی گلوچ کرے تو کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔‘‘

حکایت:انسانی گوشت خور روزہ دار:
حدیث ِ پاک میں ہے کہ زمانۂ رسالت میں دو عورتوں نے روزہ رکھا دن کے اختتام پر انہیں بھوک اور پیاس نے تنگ کیا قریب تھا کہ وہ ہلاک ہوجاتیں ، چنانچہ، انہوں نے کسی کوبارگاہِ رسالت میں بھیج کر روزہ افطار کی اجازت طلب کی تو حضور پر نور، شافع یوم النشور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلم  نے ان کی طرف ایک پیالہ بھیجا اور فرمایا: ’’ان دونوں سے کہو کہ تم نے جو کھایا ہے اس کی پیالے میں قے کرو۔‘‘ چنانچہ ،ایک نے تازہ خون اورگوشت کی قے کی اور دوسری نے بھی اس جیسی قے کی حتی کہ دونوں نے پیالہ بھر دیا۔ لوگوں کو اس پر تعجب ہواتو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ان دونوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی حلال کردہ چیز سے روزہ رکھا اور اس کی حرام کردہ چیز سے افطار کیا، یوں کہ دونوں میں سے ایک دوسری کے پاس بیٹھی اور دونوں لوگوں کی غیبت کرنے لگیں تو یہ لوگوں کا گوشت ہے جو انہوں نے (غیبت کی صورت میں )  کھایا۔

{3}…کانوں کا روزہ: یہ ہے کہ انہیں ہر بری بات سننے سے روکنا کیونکہ جس بات کا کرنا حرام ہے اس کی طرف توجہ دینا بھی حرام ہے۔ اسی لئے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے غور سے سننے والے اور مالِ حرام کھانے والے کو برابر قرار دیا۔ چنانچہ،  ارشاد باری تعالیٰ ہے:
سَمّٰعُوۡنَ لِلْکَذِبِ اَکّٰلُوْنَ لِلسُّحْتِ ؕ (پ۶،المائدۃ:۴۲)
ترجمۂ کنز الایمان: بڑے جھوٹ سننے والے بڑے حرام خور۔

اور ارشاد فرمایا:
لَوْلَا یَنْہٰىہُمُ الرَّبّٰنِیُّوۡنَ وَ الۡاَحْبَارُ عَنۡ قَوْلِہِمُ الۡاِثْمَ وَ اَکْلِہِمُ السُّحْتَ ؕ (پ۶،المائدۃ:۶۳)
ترجمۂ کنز الایمان:انہیں کیوں نہیں منع کرتے اُن کے پادری اور درویش گناہ کی بات کہنے اور حرام کھانے سے۔

لہٰذاغیبت پر خاموشی اختیار کرنا حرام ہے

۔ایک جگہ ارشادفرمایا:
اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ (پ۵،النسآء:۱۴۰) ترجمۂ کنز الایمان: ورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو۔

اسی لئے آقائے دوجہاں ، محبوب رحمن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں (برابر کے) شریک ہیں ۔

حرام زہر جبکہ حلال دوا ہے:
{4}…بقیہ اعضاء کو گناہوں سے بچانا: ہاتھ پاؤں کا روزہ: گناہوں اور ناپسندیدہ امور سے بچنا ۔ پیٹ کا روزہ: افطار کے وقت اسے شبہات سے بچانا۔ کیونکہ اس روزے کا کوئی فائدہ نہیں جس میں حلال کھانے سے رکا جائے پھر حرام پر افطار کر لیا جائے۔ ایسے روزہ دار کی مثال اس شخص کی سی ہے جو محل بناتا ہے اور شہر کو گرا دیتا ہے، کیونکہ حلال کھانا زیادہ ہونے کی وجہ سے نقصان دیتا ہے نہ کہ کسی اور وجہ سے۔ نیزروزے کا مقصد کھانے میں کمی کرنا ہے۔ زیادہ دوا کو اس کے نقصان دہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ کر زہر کھانے والا بے وقوف ہے۔حرام دین کو ہلاک کرنے والا زہر جبکہ حلال دوا ہے جس کا قلیل نفع کا باعث اور کثیر نقصان دہ ہے اور روزے کا مقصد اس حلال غذا کو کم کرنا ہے۔ چنانچہ،
حضور نبی ٔ اکرم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں کہ جنہیں ان کے روزے سے سوائے بھوک پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔

شرح حدیث:
اس کی شرح میں مختلف اقوال ہیں :(۱)… اس سے مراد وہ ہے جو حرام پر افطار کرتا ہے (۲)…اس سے مراد وہ ہے جو حلال کھانے سے تورکتا ہے لیکن غیبت کے ذریعے لوگوں کے گوشت سے افطار کرلیتا ہے کیونکہ غیبت حرام ہے(۳)… اس سے مراد وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے نہیں بچاتا۔

{5}…افطار کے وقت پیٹ بھر کر حلال کھانے سے بچنا:اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے نزدیک اس پیٹ سے بُرا                              برتن کوئی نہیں جو حلال سے بھر جائے۔ روزے سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے دشمن(شیطان) پر غلبہ پانے اور شہوت کو توڑنے کا فائدہ کیسے حاصل ہو گا جبکہ روزہ دار دن کے وقت ہونے والی کمی کو افطار کے وقت پوراکر لے۔ بعض اوقات بندے کے پاس انواع واقسام کے کھانے جمع ہو جاتے ہیں حتی کہ اب تو یہ عادت بن چکی ہے کہ رمضان کے لئے کھانے جمع کئے جاتے ہیں اور اس مہینے میں وہ کھانے کھائے جاتے ہیں جو دیگر مہینوں میں نہیں کھائے جاتے حالانکہ یہ بات معلوم ہے کہ روزے کا مقصد پیٹ کو خالی رکھنا اور خواہشات کو توڑنا ہے تاکہ نفس تقویٰ پر قوّت حاصل کر لے۔لیکن جب صبح سے شام تک معدے کو کنٹرول کئے رکھا یہاں تک کہ خواہش نے جوش مارا اور رغبت مضبوط ہو گئی پھر اسے لذیذ کھانے دے کر سیر کیا گیا تو اس کی لذَّت میں بھی اضافہ ہو گیا اور اس کی قوت دُگنی ہو گئی اور وہ خواہشات اُبھریں جو عادتاً پیدا نہیں ہوتیں ۔

روزے کی روح اور راز:
روزے کی روح اور راز ان قوتوں کو کمزور کرنا ہے جو برائیوں کی طرف لوٹانے میں شیطان کا ذریعہ ہیں اور یہ چیز کم کھانے سے حاصل ہوتی ہے یوں کہ وہ اتنا کھاناکھائے جتنا روزہ دار نہ ہونے کی صورت میں ہر رات کھاتا ہے۔ اگر اس نے صبح سے شام تک کا کھانا کھایا تو اس کے روزے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ روزے کے آداب میں سے ہے کہ وہ دن کو زیادہ نہ سوئے تاکہ اسے بھوک اور پیاس کا احساس ہو اور اعضاء کی کمزوری محسوس ہو ، دل اسی صورت میں صاف ہوگا پھر ہر رات اسی قدر کمزوری پیدا ہوگی تو اس پر تہجد اوردیگراورادد ووظائف پڑھنا آسان ہو جائے گا۔ پس ممکن ہے کہ شیطان اس کے دل پر چکر نہ لگائے اور وہ ملکوت کی بادشاہی دیکھ لے اور لیلۃ القدر اسی رات کو کہتے ہیں جس میں ملکوت کی کوئی چیز منکشف (ظاہر) کی جاتی ہے ۔اس فرمانِ باری تعالیٰ :

اِنَّاۤ اَنۡزَلْنٰہُ فِیۡ لَیۡلَۃِ الْقَدْرِ﴿۱﴾ۚۖ (پ۳۰،القدر:۱)      ترجمۂ کنز الایمان:بے شک ہم نے اسے شبِ قدر میں اُتارا۔

سے یہی مراد ہے۔لہٰذاجو شخص اپنے سینے اور دل کے درمیان کھانے کا پردہ حائل کر دے وہ اس (یعنی عالم ملکوت کے مشاہدہ )سے پردے میں رہتا ہے اور جس نے اپنے معدے کو خالی رکھا تو محض یہ بات بھی پردہ اٹھنے کے لئے کافی نہیں جب تک کہ وہ اپنی سوچ غیرِ خدا سے ہٹا نہ لے۔ مقصد حقیقی یہی کہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف ہی لو لگی رہے اور ان تمام معاملات کی ابتدا کم کھاناہے۔اس کی مزید وضاحت اِنْ شَآءَاللہُ عَزَّ وَجَلَّ’’کھانے کے بیان‘‘ میں آئے گی۔(احیاء العلوم کی طرف رجوع فرمائیں)

… {6}افطار کے بعد روزے دار کا دل امید و خوف کے درمیان معلق و متردد رہے: کیونکہ وہ نہیں جانتا کہ اس کا روزہ قبول کر لیا گیا اور وہ مقربین میں سے ہے یا رد کر دیا گیا اور دُھتکارے ہوؤں میں سے ہے؟ نیزہر عبادت کے بعداس کی دلی کیفیت یہی ہو۔

مقابلے کا میدان:
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُناحسن بصری عَلَـیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی عید کے دن کچھ لوگوں کے پاس سے گزرے ، انہیں ہنستے دیکھ کر فرمایا: بے شک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے ماہِ رمضان کو اپنی مخلوق کے لئے مقابلے کا میدان بنایا اور وہ اس میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ  کی اطاعت میں مقابلہ کرتے ہیں ، کچھ لوگ سبقت لے گئے اور کامیاب ہوگئے جبکہ کچھ لوگ پیچھے رہ گئے اور ناکام ہو گئے۔ پس اس دن کھیلنے اور ہنسنے والے پر انتہائی تعجب ہے جس میں سبقت لے جانے والے کامیاب اور ناکام ہونے والے خائب وخاسر ہوتے ہیں ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو بھلائی کرنے والا اپنی بھلائی میں اور برائی کرنے والا اپنی برائی میں مشغول ہو گا یعنی مقبول کی خوشی اسے کھیل کود سے بے پرواہ کر دے گی اور مردود کا افسوس اس پر ہنسی کا دروازہ بند کر دے گا۔
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنااحنف بن قیس  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہسے عرض کی گئی : ’’آپ عمر رسیدہ بزرگ ہیں اور روزے آپ کو کمزور کر دیں گے۔‘‘ توآپ  رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے فرمایا: ’’میں اسے ایک لمبے سفر کا سامان بناتا ہوں اور اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت پر صبر کرنا اس کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ آسان ہے۔‘‘ یہ روزے کے باطنی امور ہیں ۔

ایک سوال اور اس کا جواب:
اگر آپ کہیں کہ فقہا فرماتے ہیں کہ جو پیٹ اور شرمگاہ کی شہوت سے رکنے پر اکتفا کرے اور ذکر کردہ باطنی امورکو چھوڑ دے اس کا روزہ صحیح ہے تو اس کا کیا معنی ہے؟جان لیجئے کہ ظاہری فقہا ظاہری شرائط کو ایسے دلائل کے ساتھ ثابت کرتے ہیں جو ان دلائل سے کمزور ہوتے ہیں جو ہم نے ان باطنی شرائط میں بیان کئے ہیں خصوصاً غیبت اور اس کی مثل دوسری چیزیں ۔

روزے کامقصد:
فقہائے ظاہر وہی پابندیاں بیان کرتے ہیں جو عام غافل اور دنیا کی طرف متوجہ ہونے والے لوگوں کے لئے آسان ہوں لیکن علمائے آخرت روزے کی صحت سے قبولیت مراد لیتے ہیں اور قبولیت سے مراد مقصود تک رسائی ہے اور وہ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ روزے کا مقصد اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے اخلاق سے متصف ہونا ہے اور وہ بے نیازی ہے۔ نیز اس کا ایک مقصد شہوات سے بچ کر فرشتوں کی پیروی کرنا ہے کیونکہ وہ شہوات سے پاک ہیں ۔ نیز انسان کا مرتبہ جانوروں کے رتبہ سے بلند ہے کیونکہ انسان نورِ عقل کے ذریعے شہوات کو ختم کر سکتا ہے اور فرشتوں کے مرتبہ سے (عام) انسانوں کا رتبہ کم ہے کیونکہ ان پر شہوات غالب ہیں اور انہیں مجاہدے میں مبتلا کیا گیاہے۔ لہٰذا جب وہ شہوات میں منہمک ہوتا ہے تو سب سے نچلے درجے میں گِرتا ہے اور جانوروں کے درجے میں چلا جاتا ہے اور جب شہوات کا خاتمہ ہوتا ہے تو اعلیٰ علیین میں چلا جاتااور عالم ملکوت سے جا ملتا ہے اور فرشتے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے مقرب ہیں اور جو شخص فرشتوں کی اقتدا کرتا اور ان کے اخلاق سے مشابہت اختیار کرتا ہے وہ بھی انہی کی طرح اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا مقرب بن جاتا ہے کیونکہ قریب کی مشابہت اختیار کرنے والا بھی قریب ہوتا ہے اور وہاں مکان کا قرب نہیں بلکہ صفات کا قرب ہوتا ہے۔
جب اہلِ عقل اور اہلِ دل حضرات کے نزدیک روزے کامقصد اور راز یہ ہے تَو ایک کھانے کو مؤخر کرکے دونوں کو شام کے وقت اکٹھا کرنے نیز دن بھر شہوات میں منہمک رہنے کا کیا فائدہ؟ اگر اس کا کوئی فائدہ ہے تو پھر حضورنبی ٔ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس فرمانِ عالیشان کا کیا مطلب ہو گا کہ ’’کتنے ہی روزہ دار ایسے ہیں کہ جنہیں اپنے روزے سے بھوک اور پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
پہاڑوں کے برابر عبادت سے افضل و راجح:
حضرت سیِّدُناابودرداء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  نے فرمایا: ’’عقل مند شخص کا سونا اور افطار کرنا کتنا اچھا ہے وہ بے وقوف کے روزے اور بیداری کو کیسے برا نہ جانے؟ البتہ یقین اور تقویٰ والوں کا ذرّہ (بھر بھلائی) دھوکے میں مبتلا لوگوں کی پہاڑوں کے برابر عبادت سے افضل اور راجح ہے۔‘‘
اسی لئے بعض علما نے فرمایا: کتنے ہی روزہ دار، بے روزہ اور کتنے ہی بے روزہ، روزہ دار ہوتے ہیں ۔ روزہ نہ رکھنے کے باوجود روزہ دار وہ شخص ہے جو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے اگرچہ وہ کھاتا پیتا بھی ہے اور روزہ رکھنے کے باوجود بے روزہ وہ شخص ہے جو بھوکاپیاسا رہتا او ر اپنے اعضاء کو (گناہوں کی) کھلی چھوٹ دے دیتا ہے۔

گناہوں میں ملوث رہنے والے روزہ دارکی مثال:
روزے کا مفہوم اور اس کی حکمت سمجھنے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ جو شخص کھانے(پینے) اور جماع سے تورُکارہے  لیکن گناہوں میں ملوَّث ہونے کے باعث روزہ توڑ دے تووہ اس شخص کی طرح ہے جو وضو میں اپنے کسی عضو پر تین بار مسح کرے اس نے ظاہر میں تعداد کو پورا کیا لیکن مقصود یعنی اعضاء کو دھونا ترک کر دیا توجہالت کے سبب اس کی نماز اس پر لوٹا دی جائے گی ۔جو کھانے کے ذریعے روزہ دار نہیں لیکن اعضاء کو ناپسندیدہ افعال سے روکنے کے سبب روزہ دار ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اپنے اعضاء کو ایک ایک بار دھوتا ہے اس کی نماز اِنْ شَآءَاللہُ عَزَّ وَجَلَّ قبول ہوگی کیونکہ اس نے اصل کو پختہ کیا اگرچہ زائد کو چھوڑ دیا اور جس نے دونوں کو جمع کیا وہ اس کی طرح ہے جو ہر عضو کو تین تین باردھوتا ہے اس نے اصل اور زائد دونوں کو جمع کیا اور یہی کمال ہے۔
مروی ہے کہ مصطفیٰ جانِ رحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک روزہ امانت ہے تو تم اپنی امانت کی حفاظت کرو۔‘‘
اعضاء بھی امانت ہیں :
آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب یہ آیت ِ مبارکہ تلاوت فرمائی:

اِنَّ اللہَ یَاۡمُرُکُمْ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا ۙ (پ۵،النسآء:۵۸)
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک اللّٰہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں جن کی ہیں انہیں سپرد کرو ۔

اور اپنا ہاتھ کان اور آنکھ پر رکھ کر ارشاد فرمایا: ’’سماعت وبصارت بھی امانت ہے۔
اور اگر یہ روزے کی امانتوں میں سے نہ ہوتی توحضور نبی ٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَـیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہ بات نہ فرماتے کہ ’’وہ یوں کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں ۔‘‘  یعنی زبان میرے پاس امانت ہے تاکہ میں اس کی حفاظت کروں ۔ لہٰذا تمہیں جواب دینے کے لئے اسے کیسے کھلا چھوڑ دوں ۔
اب یہ بات واضح ہو گئی کہ ہر عبادت کا ظاہر بھی ہے اورباطن بھی، چھلکا بھی ہے اور مغز بھی۔ اس کے چھلکوں کے کئی درجات اور ہر درجے کے کئی طبقات ہیں ۔ اب تمہیں اختیار ہے کہ تم مغز چھوڑ کر چھلکے پر قناعت کرو یا عقل مندوں کے گروہ میں شامل ہو جاؤ۔

*(احیاء العلوم ج 1 ص 712 تا 720 ط مکتبۃالمدینہ کراچی)*