پیشہ ور بھکاریوں کی بھر مار
پیشہ ور بھکاریوں کی بھر مار
تقدیم:ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
03163627911
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جس کو اپنی آپ حالت کے بدلنے کا
انسان جب تک زندہ رہتا ہے ضروریاتِ زندگی مثلاً روٹی، کپڑا، مکان، بجلی، گیس اور دیگر چیزوں کا محتاج ہوتا ہے، یہ ضروریات اورسہولیات مفت میں نہیں ملتیں بلکہ مال خرچ کرنا پڑتا ہے اور مال کاروبار، نوکری یا محنت مزدوری وغیرہ سے حاصل ہوتا ہے۔ اللہ تعالٰی نے روزی کمانے کے مواقع سب کو عطا فرمائے ہیں، اب یہ ہم پرہے کہ ان سے کتنا فائدہ اٹھاتے ہیں! بہرحال آپ کو بھاری تعداد ایسے مسلمانوں کی ملے گی جو محنت مشقت کرکے، خون پسینہ بہا کر روزی کماتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کی کفالت کرتے ہیں، یہ لوگ خوش نصیب ہیں کیونکہ رسولِ اکرم نورِ مجسم صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم سے پاکیزہ ترین کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد ہوا: ہر وہ تجارت جس میں دھوکا نہ ہو اور اپنے ہاتھ کی کمائی۔
(مسند امام احمد، ج6،ص112،حدیث:17266)
اسی دنیا میں لاکھوں لوگ ایسے بھی پائے جاتے ہیں جو بِلااجازتِ شرعی مختلف انداز میں بھیک مانگ کر دوزخ کے انگارے جمع کررہے ہوتے ہیں، فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص مال بڑھانے کے لئے بھیک مانگے تو وہ انگارہ مانگتا ہے اب چاہے کم کرے یا زیادہ۔
(مسلم، ص 401، حدیث: 2399)
یعنی بِلا سخت ضرورت بھیک مانگے، بقدرِ حاجت مال رکھتا ہو، زیادتی کے لئے مانگتا پھرے وہ گویا دوزخ کے انگارے جمع کررہا ہے، چونکہ یہ مال دوزخ میں جانے کا سبب ہے اسی لئے اسے انگارہ فرمایا۔
(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص55 )
بھیک مانگنا بھی حرام، دینا بھی حرام:
مجددِ دین وملت اعلیٰ حضرت شاہ امام احمد رضاخان علیہِ رحمۃُ الرَّحمٰن لکھتے ہیں:
قَوی، تندرست، قابلِ کسب (یعنی کمانے کے قابل) جو بھیک مانگتے پھرتے ہیں ان کو دینا گناہ ہے کہ ان کا بھیک مانگنا حرام ہے اور ان کو دینے میں اس حرام پر مدد، اگر لوگ نہ دیں تو جَھک ماریں اور کوئی پیشہ حلال اختیار کریں۔
درِّمختار میں ہے:
یہ حلال نہیں کہ آدمی کسی سے روزی وغیرہ کا سوال کرے جبکہ اس کے پاس ایک دن کی روزی موجود ہو یا اس میں اس کے کمانے کی طاقت موجود ہو، جیسے تندرست کمائی کرنے والا اور اسے دینے والا گنہگار ہوتا ہے اگر اس کے حال کو جانتا ہے کیونکہ اس نے حرام پر اس کی مدد کی۔
(در مختار مع ردالمحتار،ج 3،ص357، فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص464)
ادنیٰ کام کرکے روزی کمانا ،بھیک مانگنے سے بہتر ہے:
ہر مسلمان کو چاہئے کہ دوسروں کے مال پر نظر رکھنے کے بجائے خود رزقِ حلال کمائے، نبیِّ رحمت شفیعِ امّت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھے اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی شخص اپنی رسّی لے کر پہاڑ کی طرف جائے پھر لکڑیاں اکٹھی کرے اور ان کا گٹھا بنا کر اپنی پیٹھ پر لاد کر بازار میں لے جائے اور انہیں فروخت کر کے اس کی قیمت سے اپنے کھانے پینے کا بندوبست کرے تو یہ اس کے لئے بھیک مانگنے سے بدرجہا بہتر ہے اور یہ مٹّی لے کر اپنا منہ بھرلے تو اس کے لئے اس سے بہتر ہے کہ جس چیز کو اللہ تعالٰی نے حرام کیا ہے اسے اپنے منہ میں ڈالے۔
( مسند امام احمد،ج 3ص68، حدیث:7493)
یعنی معمولی سے معمولی کام کرنا اور تھوڑے پیسوں کے لئے بہت سی مشقت کرنا بہتر ہے، اس سے عزت نہیں جاتی، مگر بھیک مانگنا بُرا، جس سے عزت جاتی رہتی ہے، برکت ہوتی نہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بھکاری بھیک مانگنے میں بڑی محنتیں کرتے ہیں اگر مزدوری کریں یا چھابڑی فروخت کریں تو ان پر محنت بھی کم پڑے اور آبرو (عزت ) سے بھی کھائیں۔(مراٰۃ المناجیح،ج3ص56، ملخصاً)
چہرے پر گوشت نہ ہوگا:
بھیک مانگنے والا دنیا میں تو ذلیل و رسوا ہوتا ہی ہے، بروزِ قیامت بھی اسے رسوائی کا سامنا ہوگا، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسلَّم ہے:”آدمی لوگوں سے مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت نہ ہوگا۔“
(بخاری،ج 1ص497، حدیث: 1474)
مراٰۃُ المناجیح میں ہے: یعنی پیشہ وربھکاری اور بِلا ضرورت لوگوں سے مانگنے کا عادی قیامت میں اس طرح آئے گا کہ اس کے چہرے میں صرف ہڈی اور کھال ہوگی گوشت کا نام نہ ہوگا۔ جس سے محشر والے پہچان لیں گے کہ یہ بھکاری تھا، یا یہ مطلب ہے کہ اس کے چہرے پر ذِلَّت و خواری کے آثار ہوں گے، جیسے دنیا میں بھی بھکاری کا منہ چھپا نہیں رہتا، لوگ دیکھتے ہی پہچان لیتے ہیں کہ یہ سائل ہے۔
(مراٰۃ المناجیح،ج3،ص56)
سوال کرنے والے کی ہمارے آقاﷺ نے یوں تربیت فرمائی:
ابنِ ماجہ شریف میں ہے کہ ایک انصاری نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوکرسوال کیا۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کیا تمہارے گھر میں کچھ نہیں ہے؟ عرض کی: موجود ہے، ایک ٹاٹ ہے جس کا کچھ حصہ ہم بِچھالیتے ہیں کچھ اوڑھ لیتے ہیں، اور ایک پیالہ جس میں پانی پیتے ہیں۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دونوں چیزیں یہاں لے آؤ! انصاری نےحکم پر عمل کرتے ہوئے دونوں چیزیں حاضر کردیں، رسولُاﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اُنہیں اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا: یہ کون خریدتا ہے؟ایک شخص نے عرض کی: میں ایک درہم میں لیتا ہوں۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے دو یا تین بار فرمایا: ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے؟ ایک صاحب بولے: میں دو درہم میں لیتا ہوں۔ دونوں چیزیں اُن کو دے دیں اور دودرہم لے کر انصاری کودئیے اور فرمایا:ایک درہم کا غَلَّہ(راشن) خرید کر گھر میں دے دو اور دوسرے درہم سے کلہاڑی خرید کر یہاں لے آؤ! وہ حُضُورِ اَنْوَر صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس کلہاڑی لائے، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے دستِ اقدس سے اُس میں دَستہ ڈالا پھر فرمایا:جاؤ! لکڑیاں کاٹو اور بیچو! اور اب میں تمہیں پندرہ دن تک نہ دیکھوں۔پھر وہ انصاری لکڑیاں کاٹتے اور بیچتے رہے۔ دوبارہ حاضر ہوئے تو دس درہم کما چکےتھے۔ مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سےارشاد فرمایا:چند درہم سے غَلَّہ(راشن) خریدو اورکچھ کا کپڑا، پھر فرمایا: یہ اِس سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال تمہارے منہ پر چھالاہوکرآتا۔
(ابن ماجہ،ج3،ص35،حدیث:2198)
مراٰۃ المناجیح میں ہے:
حلال پیشہ خواہ کتنا ہی معمولی ہو بھیک مانگنے سے اَفْضل ہے کہ اِس میں دنیا و آخرت میں عزت ہے۔ افسوس! آج بہت سے لوگ اِس تعلیم کو بھول گئے، مسلمانوں میں صدہا خاندان پیشہ وَرْبِھکاری ہیں۔
(مراٰۃ المناجیح، ج3،ص65)
بھیک مانگنا تو پیشہ بن گیا
فی زمانہ بھیک مانگنا(گداگری) ایک پیشے کی شکل اِختِیار کرچکا ہے، حالانکہ کئی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی بھیک مانگنا غیرقانونی ہے۔اخبارات،سماجی رابطے کی ویب سائٹس اور ذاتی مشاہدات سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق
٭پیشہ وَرْ بھکاریوں کے منظم گروہ ہوتے ہیں جن میں بچے، مرد، عورتیں اور بوڑھے شامل ہوتے ہیں
٭اِن کے اپنے اپنے عَلاقے اور اڈّے ہوتے ہیں جہاں کوئی اور بھیک نہیں مانگ سکتا
٭بھکاریوں کو بھیک مانگنے کے طریقے سکھانا، اِن کو رہنے کی جگہ فراہم کرنا،اڈّے تک لانے لے جانےاور اِن کی نگرانی کا کام وہی لوگ کرتے ہیں جو دَرپردَہ اِس گروہ کو چلا رہے ہوتے ہیں،یہ بھکاریوں کی آمْدَنی میں سے خاص مِقْدار بھکاری کو دے کر باقی خود رکھ لیتے ہیں
٭یہ گروہ بچوں، عورتوں اور مَردوں کو اِغْوَا کرکے اُن کے ہاتھ یا پاؤں وغیرہ کی توڑ پھوڑ کر کے اُن سے بھیک منگوانے جیسے ظالمانہ کام میں بھی ملوّث ہوتے ہیں
٭کچھ بھکاری مُنَشِّیَات(نشہ آور چیزیں Drugs) بھی بیچتے ہیں
٭کچھ کھاتے پیتے مالدار گھرانوں کی نشاندہی کرکے ڈاکوؤں، اِغْوابرائے تاوان کرنے والوں اور بھتہ خوروں سے اپنا حصّہ بھی وُصول کرتے ہیں
٭پیشہ وَرْ بھکاری بھیک مانگنے کے لئے نِت نئے طریقے اپناتے ہیں،جَعْلی مَعْذور،نقلی اندھااور جھوٹ موٹ کا بیماربننا، میک اَپ (Makeup) کے ذریعے ہاتھ یا چہرے پر نقلی زَخْم بنا کر زخمی اور بے روزگار وقَرْضْدار ہونے کا ایسا ڈرامہ کریں گے کہ انسان اُنہیں کچھ نہ کچھ بھیک دینے پر مجبور ہوجاتا ہے
٭یہ بھکاری آپ کو بازاروں،چوکوں،ریل گاڑیوں، بَسوں کے اڈّوں، عوامی تفریح گاہوں، مَزاروں، مسجدوں کے باہر اوردیگر بارونق جگہوں پربھی نظر آئیں گے۔ اگر آپ ان کے گھیرے میں آگئے تو یہ کچھ لئے بغیر آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑیں گے
٭یہ پیشہ وَرْ بھکاری عُمرہ سِیْزَن (رجب، شعبان، رمضان) اور ایّامِ حج میں مُقَدّس مقامات پر بھی بھیک مانگنے کے لئے پہنچ جاتے ہیں
٭پیشہ وَرْ بھکاری مختلف اَخلاقی بیماریوں مثلاً جھوٹ، لالچ، بے صبری ، دھوکا دہی، بے پردگی،جسم فروشی اور بےحیائی میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیں، پھر میلا کچیلا رہنا ان کے پیشے کی مجبوری ہوتی ہے٭اِنہیں معقول تنخوا ہ پر گھر یا دفتر میں کام کاج کرنے کی آفر دی جائے تو اکثرٹال جاتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیشہ وربھکاریوں کو بھیک دینا گناہ ہے جیسا کہ فتاویٰ رضویہ جلد23،ص464 کے حوالے سے بیان ہوا ،تو ہم نفلی صَدَقہ وخیرات کس کو دیں؟
تو گُزارش ہے کہ اپنے رشتہ دار اور اِرْدگِرد کے سفید پوش لوگوں میں سے حاجت مَنْدوں کو تلاش کریں پھر حسبِ توفیق مُناسب انداز سے اُن کی مالی مدد کردیں کہ اُن کی عزّتِ نفس بھی برقرار رہے۔ لیکن یاد رکھئے کہ اگر آپ اُنہیں زکوٰۃدیناچاہتےہیں تو اُن کا زکوٰۃ لینے کا حقدار ہونا ضروری ہے۔
افسوس!بھکاری مافیا نے ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ اگر کوئی حقیقتاً پریشانی میں مبتلا ہو اور وہ کسی سے مالی مدد کی درخواست کرے تو انسان کے لئے فیصلہ کرنا دُشوار ہوجاتا ہے کہ مالی مدد کی درخواست کرنے والا حقدار ہے یا پیشہ وَرْ بھکاری؟ چنانچہ اگر کبھی ایسی صورتِ حال کا سامنا ہو تو بہتر یہ ہے کہ ضروری تفصیل معلوم کرنے کے بعداگر آپ کا دل جَمے کہ یہ واقعی حقدار ہے تو اس کی مدد کرکے ثواب حاصل کیا جاسکتا ہے، اور اگر آپ کا دل مطمئن نہ ہوتونرمی سے انکار کردیجئے،لیکن اُسے بلاثُبوتِ شرعی فراڈی یا ڈرامہ باز یا پیشہ وَرْ بھکاری قرار دینے سے بچئے ۔
اللہ تعالٰی ہمارے معاشرے کوبھیک کے ناسور سے بچائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم